HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

’’قائد اعظم محمد علی جناح‘‘ کی ضرورت

ایک رات ٹیلی ویژن پر ایک کشمیری نوجوان نے ہندوستانی فوج کے مظالم کی دل خراش داستان سناتے ہوئے کہا:  ہندو فوجیوں نے ہمارا پورا گھرانا مجاہدین کو پناہ دینے کے شبے میں گرفتار کر لیا۔  ایک ہندو افسر نے میرے سامنے میری بہن کو بے لباس کر دیا۔  وہ چیخ چیخ کر رحم کی بھیک مانگتی رہی،  مگر شیطان صفت افسر قہقہہ لگا کر بولا: آج اتنا چلا کہ تیری آواز محمد بن قاسم کی قبر تک پہنچ جائے۔  کاش ! میں یہ منظر دیکھنے سے پہلے مر گیا ہوتا۔  میں نے آنکھیں بند کر لیں،  جس پر پاس کھڑے  ایک فوجی نے میری آنکھوں پر برچھا مار کر کہا: ٹیپو کی اولاد ، دیکھ،  آج تجھے یہ سب دیکھنا پڑے گا۔  میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا: میری آنکھیں نکال دو۔  میری بہن کو کچھ نہ کہو۔

یہ ایسا واقعہ ہے جسے سن کر ہر مسلمان کا خون کھولنے لگتا ہے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ سارے حدود کو پھلانگ کر ان ہندوؤں تک پہنچ جائے اور انھیں خود موت کے گھاٹ اتار دے،  مگر وہ ایسا نہیں کر پاتا۔ وہ ایسا کیوں نہیں کر پاتا ؟ اس کے کئی وجوہ ہیں:

ایک وجہ تو وہی ہے جس کی ایک خاص انداز سے نشان دہی شیطان صفت بھارتی فوجی افسر نے کر دی۔  جی ہاں،  آج ہمارے اندر کوئی ’’محمد بن قاسم‘‘ نہیں ہے۔  مزید غور کیجیے : آج ہمارے اندر کوئی حجاج بن یوسف نہیں ہے۔  اور گہرائی میں جائیے،  آج ہمارے اندر کوئی خلیفہ ولید بن عبد الملک نہیں ہے۔  محمد بن قاسم،  حجاج بن یوسف کے سپہ سالار تھے اور حجاج بن یوسف،  خلیفہ ولید کے عراق میں گورنر تھے۔  عراق اس وقت کوئی ملک نہیں،  اسلامی سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔  مگر آج مسلمان قوم ایک نہیں ہے۔  اس کا کوئی ایک حکمران نہیں ہے۔  وہ ملکوں اور تفرقوں میں تقسیم در تقسیم ہو چکی ہے۔ وہ علم و اخلاق کے معاملے میں پستی میں گر چکی ہے۔  سیاست و  معیشت کے میدان میں مغلوب ہو چکی ہے۔  قوت و شوکت کے لحاظ سے ذلیل ہو چکی ہے۔  اب اس کے سامنے اس کی عزت کی چادر تار تار ہو گی،  مگر وہ آنکھیں بند کرنے کے سوا،  رحم کی بھیک مانگنے کے سوا ، ہاتھ جوڑنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتی ۔

آج اگر مسلمان ایک ہوتے۔  ان کا حکمران ایک ہوتا۔  ان کی فوج ایک ہوتی۔  ان کی کرنسی ایک ہوتی۔  یہ سب مسلم ممالک ریاست ہاے متحدہ اسلامیہ کے مختلف صوبے ہوتے تو کسی ملک کے کسی فوجی کی مجال تھی کہ کسی مسلمان کی بہن کو اس کے بھائی کے سامنے یوں رسوا کرتا۔  یا اگرچہ مسلمان ملک الگ الگ ہوتے ، ان کے حکمران الگ الگ ہوتے،  مگر وہ اندر سے ایک ہوتے تب بھی صورتِ حال مختلف ہوتی۔  پاکستانی فوج کشمیر میں مسلح اقدام کرتی۔  تمام مسلم ممالک پاکستان کی پشت پر ہوتے۔  ایک ہی حملہ ہوتا اور مسئلہ حل ہو چکا ہوتا،  مگر افسوس ہے کہ اس وقت مسلمان کسی بھی لحاظ سے ایک نہیں ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس قسم کے حالات میں کشمیر کے معاملے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے ؟ کیا مختلف گروہوں کی شکل میں سرحد پار کر کے گوریلوں کی طرح،  بھارتی فوجیوں پر  کبھی کبھار کوئی حملہ کر دیا جائے تاکہ ایک دن بھارت تھک ہار کر کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی خواہش کے مطابق حل کرنے پر آمادہ ہو جائے ؟ دین و دانش اور اخلاق کی روشنی میں کوئی شخص بھی اس کا مثبت جواب نہیں دے سکتا۔  دین میں جہاد و قتال ہمیشہ حکومت کرتی ہے۔  جہاد و قتال کے لیے سیاسی اقتدار پہلی شرط ہے۔  کسی نبی نے سیاسی اقتدار حاصل کیے بغیر کبھی جہاد و قتال نہیں کیا۔  اور کیا بھارت جیسے بہت بڑے ملک کی بہت بڑی فوج کو چند گروہ شکست دے سکتے ہیں ؟ ہمارا خیال ہے،  اس کا جواب بھی بالکل واضح ہے۔  پھر پاکستان کی حکومت نے بھارت کے ساتھ باہمی اختلافات پرامن ذرائع سے حل کرنے کے معاہدے کر رکھے ہیں۔  دین و اخلاق ہمیں اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتے کہ ان معاہدات کی ادنیٰ درجے میں بھی خلاف ورزی کی جائے۔  اس ضمن میں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہندو ایک مکار اور فریبی قوم ہے۔  ان کے ساتھ کیے گئے معاہدات کی کیا وقعت ؟ ایسے لوگوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر جو معاہدہ کیا تھا وہ کفار کے ساتھ کیا تھا     ۔

عہد کی پاس داری بے حد اہم معاملہ ہے۔  عہد شکنی بڑے سنگین اخروی نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔  قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر خود اپنے بارے میں فرمایا ہے:

’’خدا اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔‘‘ (الروم ۳۰: ۶)
’’اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے۔‘‘ (التوبہ ۹: ۱۱۱)

  جس طرح خدا اپنے وعدے کا سچا اور عہد کا پکا ہے،  اسی طرح وہ ہم سے بھی یہ چاہتا ہے  کہ ہم جو قول و قرار کریں، اس کے پابند رہیں۔

وہ اہلِ جنت کی خوبی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

’’جو اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں۔‘‘ (المعارج ۷۰: ۳۲)

    اسی طرح اخروی احتساب سے خبردار کرتے ہوئے کہتا ہے:

’’اور عہد کو پورا کرو کیونکہ (قیامت میں) عہد کی پرسش ہونی ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل  ۱۷: ۳۵)

پھر اپنے ساتھ سچی وفا داری کرنے والوں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

’’جب معاہدہ کر بیٹھیں تو اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔‘‘ (البقرہ ۲: ۱۷۷)

     صلح حدیبیہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارِ مکہ سے یہ عہد کر لیا تھا کہ ہم مکہ میں پہلے سے موجود مسلمانوں کو اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے ۔ عین اس وقت جب یہ معاہدہ لکھا جا رہا تھا،  مکہ میں قید نومسلم حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہ،  جن پر کفار نے بہت ظلم ڈھائے تھے،  کسی طرح بھاگ کر وہاں پہنچ گئے۔  ان کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں۔  وہ سب کے سامنے گر پڑے۔  ان پر کفار نے اتنا ظلم کیا تھا کہ ان کے سارے جسم پر زخم دکھائی دے رہے تھے،  مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے معاہدے کی پاس داری کرتے ہوئے انھیں اپنے ساتھ لے جانے سے گریز کیا۔  ابوجندل رضی اللہ عنہ نے وہاں موجود مسلمانوں کو اپنے زخم دکھائے اور چلا کر کہا: ’’کیا پھر مجھے اس حالت میں دیکھنا چاہتے ہو؟ پھر مجھے کافروں کے حوالے کرنا چاہتے ہو؟ میں اسلام لا چکا ہوں۔‘‘  تمام مسلمان تڑپ اٹھے۔  حضرت عمر نے اپنے انداز سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے احتجاج کیا،  مگر خدا کے نبی نے فرمایا: ’’میں اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔‘‘  چودہ سو صحابہ آپ کے اشارۂ ابرو پر جان لینے اور جان دینے کے لیے تیار تھے،  مگر ایک عہد ہو چکا تھا۔  رسول اللہ نے ابوجندل سے کہا: ’’ہم بدعہدی نہیں کرسکتے۔  صبر اور ضبط سے کام لو۔  خدا تمھارے لیے اور مظلوموں کے لیے کوئی راہ نکالے گا۔‘‘ لہٰذا ابوجندل کو اسی طرح پابہ زنجیر واپس جانا پڑا ۔

سوال یہ ہے کہ جب معاہدے کا دوسرا فریق عہد کی خلاف ورزی کرے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ اس صورت میں باقاعدہ اور علانیہ معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کرنا چاہیے۔ دوسرے فریق کو صاف صاف بتا دینا چاہیے کہ اب ہمارے اور تمھارے درمیان معاہدہ باقی نہیں رہا۔ دوسرے فریق کو اپنی اصلاح کرنے کی مہلت دینی چاہیے۔  مخالفانہ کارروائی سے گریز کرنا چاہیے اور مہلت کا عرصہ گزرنے کے بعدکوئی کارروائی کرنی چاہیے۔  عہدِ نبوی میں مدینہ کے یہود کی عہد شکنی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 ’’اور اگرتمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو۔‘‘(الانفال ۸:  ۵۸)

     صلحِ حدیبیہ کے بعد عرب میں اسلامی ریاست کی طاقت اتنی بڑھ گئی کہ کفار اس کے مقابلے میں خود کو کمزور محسوس کرنے لگے تھے جس کی وجہ سے ان کے پر  جوش عناصر نے معاہدے کی خلاف ورزی کرنی شروع کردی۔  اس عہد شکنی پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 ’’ان مشرکین سے اللہ اور رسول کی طرف سے اعلانِ براء ت ہے جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔  سو اب ملک میں چار ماہ چل پھر لو اور جان ر  کھو کہ تم اللہ کے قابو سے باہر نہیں جا سکتے اور اللہ کافروں کو رسوا کر کے رہے گا۔  اور اللہ و رسول کی طرف سے بڑے حج کے دن لوگوں میں منادی کر دی جائے گی کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری الذمہ ہیں۔‘‘ (التوبہ ۹: ۱-  ۳)

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر،  جب ملک کے کونے کونے سے لوگ جمع ہوتے ہیں،  حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معاہدے سے الگ ہونے اور مہلت پر مبنی اس حکمِ خداوندی کا اعلان کرنے پر مامور کیا  ۔

مطلب یہ ہے کہ اس بات کی کوئی وقعت نہیں ہے کہ ہندو کیسی قوم ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم ان کے ساتھ ایک معاہدے میں بندھے ہوئے ہیں۔  اور کوئی باشعور مسلمان معاہدے کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

اس صورتِ حال میں پاکستان کے مختلف گروہوں کے مقبوضہ کشمیر میں مسلح اقدام کو ایک اور پہلو سے بھی زیر غور لانے کی ضرورت ہے ۔  اس پہلو کی جانب ہمارے پر   جوش عناصر کی بالعموم توجہ نہیں جاتی  ۔

غور کیجیے،  جب پاکستانی یا مقامی مسلمان گروہ بھارتی فوج پر وقتاً  فوقتاً حملہ کر کے واپس اپنے مورچوں میں آجاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس پر بھارتی فوج آرام سے تو نہیں بیٹھ سکتی۔  وہ نہتے کشمیریوں پر ظلم کر کے اپنے انتقام کی آگ بجھاتی ہے۔  اس تحریر کے آغاز میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے،  وہ اسی انتقام کی ایک مثال ہے۔

اس کے علاوہ اس بات کا ایک اور ردِ عمل بھی ہوتا ہے۔  بھارت میں پاکستان سے زائد یعنی ۲۰ کروڑ مسلمان آباد ہیں ۔  وہ بھارتی ہندو قوم کے انتقام کا نشانہ بنتے ہیں۔  بھارت کے مسلمانوں کے رسالے ’’درالعلوم‘‘ کے اداریے میں حبیب الرحمٰن قاسمی صاحب لکھتے ہیں:

 ’’پاکستان میں بسنے والے مسلمان خود اپنے فعل کے ذمہ دار ہیں ان کے کسی عمل کی ذمہ داری ہندوستان میں آباد کسی بھی مسلمان پر عائد نہیں ہوتی،  ان میں سے ہر ایک اپنے فعل اور اپنے اچھے برے کا ذمہ دار ہے اس لیے کشمیر کے دہشت گردوں کی حالیہ خلافِ انسانیت حرکت کے ردِعمل میں گجرات وغیرہ میں وہاں کے مسلمانوں کے جان و مال کو تباہ کرنا اور اس پر اربابِ اقتدار کی خاموشی بھی اتنی ہی غیر مناسب ہے،  جتنی کہ پاکستان کا ہندوستان کے داخلی امور میں بے جا مداخلت کرنا اور دہشت گردوں کا بلا سبب عوام کو قتل کرنا۔‘‘(جولائی،  اگست ۲۰۰۰،  ص ۴)

کشمیر کے حالات ہی کے حوالے سے بھارت کے مسلمانوں کے اور ایک رسالے ’’معارف‘‘ کے اداریے میں بھی کہا گیا ہے:

 ’’ہمیں افسوس ہے کہ اس طرح کے سنگین معاملات میں خواہ مخواہ تحقیق کے بغیر ہی ہندوستان کے مسلمانوں کو ملوث کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،  حد ہو گئی ہے کہ عیسائیوں کے قتل اور ان کے گرجاؤں کے جلائے جانے کا الزام بھی انھی کے سر منڈھا جا رہا ہے،  اگر عام لوگ غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز بیان دیں تو حکومت کا فرض ہے کہ ان کے خلاف سخت اقدام کرے مگر وہ تو خود اس طرح کے واقعات کا رخ بڑی چابک دستی سے مسلمانوں کی طرف موڑ دیتی ہے،  ہمارے وزیر داخلہ کو اس میں بڑی مہارت ہے،  کشمیر میں ہونے والے واقعات کی صحیح تحقیق و تفتیش  اصل اسباب اور واقعی مجرموں کا پتہ لگانے کے بجائے اٹکل پچو بیانات دیے جا رہے ہیں،  جن سے فائدہ اٹھا کر ہندوؤں کی جارحانہ تنظیموں نے بھارت بند کے دوران فرقہ وارانہ ماحول گرم کیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم چلائی،  چنانچہ کشمیر کے واقعات کے بعد گجرات اور بعض دوسری جگہوں میں فرقہ وارانہ فسادات ہو گئے۔  جن میں چند بے گناہ مسلمان جاں بحق ہوئے۔‘‘(اگست ۲۰۰۰،  ص ۸۲)

    اسی طرح بھارت کے ممتاز صحافی کلدیپ نیر نے پچھلے دنوں اپنے ایک کالم میں ہندوستان کے اقلیتی کمیشن کے حوالے سے لکھا ہے:

 ’’حال ہی میں جب اس کے ارکان صوبہ گجرات کے دورے پر گئے تو وہاں مسلمان دشمنی کے جذبات کی شدت دیکھ کر حیران اور پریشان ہو گئے۔  احمد آباد میں جو نئی بستیاں آباد ہو رہی ہیں وہاں مسلمانوں کو داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔  بعض مسلمان بڑے بڑے رہایشی منصوبوں میں آٹھ آٹھ دس دس لاکھ روپے کی لاگت سے فلیٹس خرید چکے تھے لیکن انھیں بتا دیا گیا ہے کہ آپ ان میں رہایش اختیار نہیں کر سکتے،  کیونکہ ہندو اس کو پسند نہیں کرتے۔‘‘ (جنگ،  ۲۳ ستمبر ۲۰۰۰)

      کشمیر کے حالات کے اس حقیقت پسندانہ جائزے کے بعد یہی بات کہی جا سکتی ہے کہ آج ایک ’’قائد اعظم محمد علی جناح‘‘ کی ضرورت ہے جو سیاسی اور قانونی طریقے سے مسئلۂ  کشمیر حل کرنے کی جدوجہد کرے،  جو اخلاقی تقاضوں کو مدنظر رکھے،  جو زمینی حقائق کے مطابق سوچے، جو عقل و دانش کو بروئے کار لائے اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے حق میں اقوامِ متحدہ کی جو قرار دادیں موجود ہیں،  ان قرار دادوں کو ’’قرار دادِ پاکستان‘‘ کی طرح پورا کرائے۔  بلاشبہ موجودہ حالات میں کوئی ’’قائد اعظم محمد علی جناح‘‘ ہی یہ مسئلہ حل کر سکتا ہے۔

ممکن ہے کہ ہماری اس بات کو لوگ ’’دیوانے کا خواب‘‘ قرار دیں،  مگر ہم ان لوگوں کی خدمت میں عرض کریں گے کہ پاکستان   ــــــ  جو کشمیر سے بہت بڑا تھا    ــــــ  کے قیام کو بھی ’’دیوانے کا خواب‘‘ قرار دیا جاتا تھا،  مگر وہ خواب صورت پذیر ہو گیا تھا ۔

   ـــــــ  محمد بلال

ـــــــــــــــــــــ

B