[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
مہاجرین حبشہ میں بیش تر كا ذكر ’’السابقون الأولون‘‘ كے عنوان كے تحت ہوچكا ہے۔ یہ سب اسلام كی طرف سبقت كرنے والے تھے اور انھوں نے دین حق پر ایمان لا كر بہت سختیاں جھیلیں۔ ہم نے ’السابقون الأولون‘ كا شمار كرنے میں ابن اسحٰق اور ابن ہشام كی مرتبہ فہرستوں كا تتبع كیا ہے، اس لیے كئی اصحاب كاذكر ره گیا جو ہجرت حبشہ میں تو شامل تھے، لیكن ان كے نام ’السابقون ‘ كی فہرست میں جگہ نہ پا سكے۔ اب ہم ’’مہاجرین حبشہ ‘‘كے سرنامہ سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم كے ان جاں نثاروں كا بیان كریں گے۔ ان میں سے كچھ كے حالات زندگی كی تفصیل مل جاتی ہے اور كچھ كی سوانح تاریخ كے اوراق میں گم ہو گئی ہیں۔
حضرت اسود بن نوفل كے دادا كا نام خویلدبن اسد تھا۔قریش كے نام ور سردار قصی بن کلاب ان كی پانچویں پشت پر تھے۔قصی نبی صلی الله علیہ وسلم كے بھی پانچویں جد تھے۔حضرت اسود كی والده کا نام فریعہ تھا، عدی(ابن اثیر،علی: ابن عبدالبر)بن نوفل ان كے نانا اور عبد مناف پرنانا تھے۔ابن سعد نے ام لیث بنت ابولیث (مسافر بن ابوعمرو) كو حضرت اسود كی والده بتایا ہے۔ ام المومنین حضرت خدیجہ ان کی پھوپھی اور ورقہ بن نوفل چچا تھے۔ حضرت اسود اپنے پردادا اسد بن عبدالعزی ٰكی نسبت سے اسدی كہلاتے ہیں۔
حضرت اسود کاوالد نوفل کینہ پرور مشرک اور مسلمانوں کا كٹر دشمن تھا۔بے دھڑك جنگجو ہونے كی وجہ سے اسے شیر قریش كہا جاتا تھا، جب كہ مسلمان شیطان قریش كے نام سے پكارتے تھے۔اسی نے حضرت ابوبكر اور حضرت طلحہ كو رسیوں سے باندھ كرمكہ كی پہاڑی پر ڈال دیا تھا۔جنگ بدر میں اسے قریش كی فوج میں دیكھ كر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دعا كی:اے الله،میری طرف سے نوفل كا مقابلہ كر لے۔ اس دشمن دین كو حضرت علی نے جہنم واصل كیا۔انھوں نے تلوار كی نوك سے اس كی ڈھال اتار پھینكی،زره كے ٹكڑے كیے، پھر اس كی پنڈلی كاٹ ڈالی اور آخری وار میں اس كا كام تمام كر دیا۔جب وه آپ كے پاس پہنچے تو آپ كو فرماتے سنا: كوئی نوفل كے بارے میں جانتا ہے؟حضرت علی نے بتایا:میں نے اسے جہنم رسید كر دیا ہے۔ آپ نے ’الله اكبر‘ كا نعره بلند كرتے ہوئے فرمایا:سب تعریف اس الله كی ہے جس نے میری دعا قبول كی(كتاب الارشاد، محمد بن اسحٰق)۔
افسوس ہے كہ حضرت اسود بن نوفل كی حبشہ سے واپسی كے بعد كی مدنی زندگی كے بارے میں ہمیں كوئی معلومات نہیں ملتیں۔آیا وه خلفاے راشدین كے ادوار میں جیے اور فتوحات میں ان كی شمولیت رہی؟ہم قطعی طورپر لا علم ہیں۔
حضرت اسود بن نوفل كی وفات كب اور كہاں ہوئی؟ہم بتانے سے قاصر ہیں۔ مزی كا كہنا ہے كہ وه ان مہاجرین حبشہ میں شامل تھے جن كی وفات حبشہ ہی میں ہو گئی۔وه اس دعوے میں یكتا ہیں،اسے اس لیے نہیں مانا جا سكتا كہ ابن ہشام نے واضح طور پر لكھا ہے كہ حضرت اسود حضرت جعفر بن ابوطالب كی قیادت میں حبشہ سے كشتی پر سوار ہوئے اور بولا (الرایس) كے ساحل پر اترے۔ وہاں سے اونٹ پر سوار ہو كر مدینہ پہنچے۔
صحابہ كے سیرت نگاروں نے حضرت اسود بن نوفل كے كنبے كے بارے میں بس اتنی خبر ہی دی ہے كہ ابوالاسود محمد بن عبدالرحمٰن ان كے پوتے تھے جنھیں ان كے والد نے وفات كے وقت مشہور تابعی اور فقیہ عروہ بن زبیر كے سپر د كر دیا تھا، اس لیے یتیم عروه كے لقب سے مشہور ہو گئے۔ تمام علماے حدیث نےان كو ثقہ مانا ہے۔ زہری اور ہشام بن عروہ نے ان سے سماع كیا۔ امام مالك نے بھی دیگر اساتذہ كے علاوہ حدیث ان سے سیكھی۔انھوں نے۱۳۱ھ میں وفات پائی۔
حضرت اسود بن نوفل كی اہلیہ اور باقی اولاد كے بارے میں بتانے كے بجاے ابن سعد اور ابن عبدالبر نے یہی لكھ دیا كہ ان كی نسل آگے نہ چلی۔
مطالعۂ مزید: الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابة فی معرفة الصحابة(ابن اثیر)،تہذیب الكمال فی اسماء الرجال(مزی)، الاصابة فی تمییز الصحابة(ابن حجر)۔
ـــــــــــــــــــــــــ
حضرت محمد بن حاطب كے والدحضرت حاطب بن حارث ’السابقون الأولون‘ میں سے تھے۔ زمانۂ جاہلیت كے ہیرومعمر بن حبیب ان كے پڑدادا تھے۔ اپنےآٹھویں جد جمح بن عمرو كی نسبت سے جمحی كہلاتے ہیں۔بنو عامركی حضرت ام جمیل فاطمہ بنت مجلل ان كی والده تھیں،انھیں بھی اسلام كی طرف سبقت كرنے كا شرف حاصل تھا۔ابو القاسم،ابوابراہیم یا ابو وہب حضرت محمد بن حاطب كی كنیت تھی۔
5/نبوی كے اواخر میں تراسی مردوں اور اٹھاره عورتوں پر مشتمل اہل ایمان كا دوسرا قافلہ حبشہ روانہ ہوا۔ حضرت محمد بن حاطب كے والدین اس قافلے میں شامل تھے، البتہ ان كا اس قافلے میں شامل ہونا محل نظر ہے۔ ابن سعد،ابن اسحٰق اور ابن كثیر كے ترجموں سے متبادر ہوتا ہے كہ حضرت محمد اور ان كے بڑے بھائی حضرت حارث بن حاطب بھی مكہ سے حبشہ روانہ ہوئے،جب كہ خود حضرت محمد بیان كرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قریش کی اذیتیں سہنے والے صحابہ سے) ارشاد فرمایا: ”میں نے کھجوروں بھری ایک سرزمین (حبشہ یا مدینہ) دیکھ رکھی ہے،تم اس کی طرف ہجرت کر جاؤ۔“ چنانچہ (میرے والد) حاطب اور جعفر بن ابوطالب ایک کشتی میں سوار ہو کر نجاشی کی جانب نکل گئے۔ حضرت محمد کہتے ہیں: میں اسی کشتی میں پیدا ہوا (احمد، رقم ۱۸۲۷۸۔ التاریخ الكبیر،بخاری، رقم ۹۔المعجم الكبیر،طبرانی ۱۹ / ۵۴۱)۔ابن عبدالبر اور ابن اثیركہتے ہیں كہ حضرت محمد سرزمین حبشہ میں پیدا ہوئے۔ابن حجر كہتے ہیں: یہ مشہور ہونا كہ حضرت محمد بن حاطب حبشہ میں پیدا ہوئے، ایك طرح كا مجاز ہے، كیونكہ وه وہاں پہنچنے سے پہلے پیدا ہو چكے تھے۔ ابن جوزی نےعازمین حبشہ كی فہرست میں حضرت محمد بن حاطب كا نام شامل كیا اوردوسرے مقام پر ان كی وفات كا ذكر كرتے ہوئے وضاحت كی كہ وه دوران سفر میں كشتی میں پیدا ہوئے،شاید دوسرے مؤرخین كا بھی یہی منشا ہو۔ابن اثیر نے ایک شاذ روایت نقل کی ہے کہ جب حضرت حاطب حبشہ روانہ ہوئے تو کم سن محمد ان کے ساتھ تھے۔
حضرت محمد بن حاطب نے اپنی والدہ کے علاوہ حضرت جعفر بن ابوطالب کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس کا دودھ بھی پی رکھا تھا، وه اپنے بیٹے عبدالله اور محمد كو ایك ساتھ دوددھ پلاتی تھیں۔دونوں كا بھائی چاره آخری دم تك قائم رہا۔
والد كی وفات كے بعد وه اپنی والده حضرت فاطمہ بنت مجلل كے ساتھ 7 ھ تك حبشہ میں قیام پذیر رہے۔
۶۲۶ء میں ہجرت مدینہ کو سات برس بیت گئے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ ضمری کو حبشہ بھیجا تاکہ وہ نجاشی کو اسلام کی دعوت دیں، حضرت ام حبیبہ (رملہ ) بنت ابوسفیان سے آپ کا نکاح کروائیں اور سرزمین حبشہ میں رہ جانے والے مہاجرین کو واپس لے آئیں۔چنانچہ حضرت عمرو بن امیہ مہاجرین کو دو کشتیوں میں سوار کر کے مدینہ لائے۔ حضرت محمد بن حاطب اپنی بیوہ ماں حضرت فاطمہ بنت مجلل اور بھائی حضرت حارث بن حاطب كے ہم راه ان کشتیوں میں بحیرۂ احمر كے ساحل بولا(قدیم الجار،موجودہ الرایس) پر پہنچے۔یہاں سے وہ باقی مہاجرین کے ساتھ اونٹوں پر سوار ہو کر مدینہ پہنچے۔
مدینہ پہنچنے میں ایك یا دو دن كا فاصلہ رہتا تھا كہ حضرت فاطمہ بنت مجلل نے ہانڈی پكائی۔جلانے كی لكڑی ختم ہو گئی تو وه بالن ڈھونڈنے نكلیں۔اس اثنا میں ہانڈی ان كے بیٹے حضرت محمد كے بازو پر گر گئی۔مدینہ پہنچ كر وه نبی صلی الله علیہ وسلم كی خدمت میں حاضر ہوئیں تو اپنے بیٹے حضرت محمد كو ساتھ لے گئیں اور گزارش كی: یہ آپ كے بھائی حاطب كا بیٹا ہے، اسلام میں پہلا شخص جس كانام آپ كے نام پر محمد ركھا گیا ہے۔ آگ سے جل گیا ہے، الله كے حضور اس كے لیے دعا فرمائیں۔آپ نے حضرت محمد كے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا، ان كے منہ اور ہاتھ پر تھوك لگائی اور بركت كی یہ دعا فرمائی: ’اذهب البأس رب الناس، اشف أنت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا یغادر سقمًا‘ (اے انسانوں كے رب،مصیبت زائل كر دے،شفا دے دے، تو ہی شفا بخشنے والا ہے،شفا وہی ہے جو تو دیتا ہے، ایسی شفا دے جو بیماری كا نشان نہ رہنے دے)۔ حضرت فاطمہ آپ كے پاس سےواپس ہوئی ہی تھیں كہ حضرت محمد كے بازو كا زخم مندمل ہو گیا (احمد، رقم ۱۵۴۵۳۔ مستدرك حاكم، رقم ۶۹۰۹۔ التاریخ ا لكبیر،بخاری، رقم ۹۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۴۰۴۱۔ المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۲۰۳۵۴۔صحیح ابن حبان، رقم ۲۹۷۷)۔ حضرت محمد كہتے ہیں:میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھتا، میں نہیں جانتا،آپ نےپھونك ماری یا تھوك لگائی۔میں یہ بھی نہیں جانتا كہ میرا كون سا ہاتھ جلا تھا۔
اپنی صغر سنی كی وجہ سے حضرت محمد عہد رسالت كے كسی معركے میں شریك نہ ہوئے۔
جنگ جمل كے حالات بیان كرتے ہوئے حضرت محمد بن حاطب كہتے ہیں:ہم جنگ سے فارغ ہوئے تو حضرت علی،حضرت حسن،حضرت عمار، صعصعہ، اشتر اور محمد بن ابوبكر مقتولوں كو دیكھنے نكلے۔ حضرت حسن نے اوندھے منہ گرا ہوا ایك لاشہ دیكھا، اسے سیدھا كیا اور ’إنا لله وإنا إلیه راجعون‘ كہہ كر فرمایا: یہ قریش كے سردار ہیں۔حضرت علی نے پوچھا : كون؟ بتایا :محمد بن طلحہ۔ انھوں نےبھی ’إنا لله‘ پڑھی اور فرمایا: توجانتا ہے،یہ ایك نیك نوجوان تھا، پھر غمگین،افسرده ہو گئے۔حضرت حسن بولے :ابا جان،میں نے آپ كو اس مہم جوئی سے روكا تھا، لیكن فلاں فلاں آپ كی راے پر غالب آ گئے۔ حضرت علی نے جواب دیا :بیٹے، یہ ہو گیا، میں تو خواہش كرتا ہوں كہ كاش، آج سے بیس سال پہلے دنیا سے رخصت ہوگیا ہوتا۔
حضرت محمد بن حاطب نے۷۴ ھ میں مكہ میں یا۸۶ھ میں كوفہ میں وفات پائی۔اس وقت بنو امیہ كا پانچواں خلیفہ عبدالملك بن مروان (زمانۂ خلافت:۶۵ھ تا ۸۶ھ)حكمران تھا۔ اس دوران میں اس كا بھائی بشر بن مروان كوفہ كا گورنر(۷۱ ھ - ۷۴ھ) رہا۔
اصحاب رجال حضرت محمد بن حاطب كو كوفیوں میں شمار كرتے ہیں۔حضرت محمد بن حاطب نے حدیث نبی صلی الله علیہ وسلم سے، اپنی والده حضرت فاطمہ بنت مجلل اور حضرت علی سے روایت كی۔ان سے روایت كرنے والوں میں شامل ہیں:ان كے بیٹوں ابراہیم،عمر،حارث،ابوبلج، ابو مالك اشجعی كے علاوه سماك بن حرب، ابوعون ثقفی۔
حضرت محمد بن حاطب نے اپنے لڑكپن میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم كو دیكھ ركھا تھا۔ان كی یہ روایت مشہور ہوئی: آپ نے فرمایا: حرام اور حلال نكاح میں دف بجانے اور بہ آواز بلند اعلان كرنے كا فرق ہے (ترمذی، رقم ۱۰۸۸۔ نسائی، رقم ۳۳۷۱۔ابن ماجہ، رقم ۱۸۹۶۔ احمد، رقم ۱۵۴۵۱)۔یعنی نكاح چوری چھپے نہیں، علی الاعلان كیا جاتاہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ