’’اِس کے ساتھ یہ بات بھی قرآن نے اِنھی آیات میں واضح کر دی ہے کہ نہا دھو کر پاکیزگی حاصل کر لینے کے بعد بھی عورت سے ملاقات لازماً اُسی راستے سے ہونی چاہیے جو اللہ نے اُس کے لیے مقرر کر رکھا ہے ۔ چنانچہ فرمایاہے :’فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ‘ (تو اُن سے ملاقات کرو، جہاں سے اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے)۔یہ چیز بدیہیات فطرت میں سے ہے اور اِس پہلو سے ، لاریب خدا ہی کا حکم ہے ۔ اگر کوئی شخص اِس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ درحقیقت خدا کے ایک واضح، بلکہ واضح تر حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے ، اور اِس پر یقیناً اُس کے ہاں سزا کامستحق ہو گا ۔‘‘ (میزان۴۳۶ )
اس اقتباس میں مصنف نے بیوی کے ساتھ مباشرت کے حدود کے حوالے سے یہ واضح کیا ہے کہ اللہ کی طرف سے مقرر کیا گیا اس کا فطری محل عورت کی فرج ہی ہے، جب کہ بیوی کے ساتھ وطی فی الدبر (anal sex) خلاف فطرت اور حرام ہے۔ مصنف نے بتایا ہے کہ یہ حرمت ان احکام میں سے ہے جو خدا نے انسان کی فطرت میں ودیعت کیے ہیں اور یوں انبیا کے ذریعے سے دی جانے والی شریعت سے بھی پہلے انسان کو واضح طور پر معلوم ہیں۔ اس لحاظ سے اس کی پامالی زیادہ بڑا گناہ ہے۔سورۂ عنکبوت (۲۹) کی آیت ۲۹ میں ’لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ‘ (تم مردوں کے پاس جاتے ہو اور فطرت کی راہ مارتے ہو) کی تفسیر میں مصنف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’یعنی خدا نے جو راستہ انسان کی جنسی جبلت کی تسکین کے لیے مقرر کر رکھا ہے، اُسے بند کرتے ہو۔ یہ اِس برائی میں مبتلا ہونے کا لازمی نتیجہ ہے۔ اِس سے عورتوں کی طرف مردوں کی رغبت بالکل ختم ہو جاتی ہے اور اگر کچھ رہتی بھی ہے تو اِسی طرح کے انحرافات کی صورت میں رہتی ہے جو بجاے خود پاکیزگی اور لطافت کے احساس کو انسان کے اندر ختم کر دینے کا باعث بن جاتے ہیں۔ چنانچہ دبر کے راستے مباشرت کو اللہ تعالیٰ نے بیویوں کے معاملے میں بھی اِسی بنا پر ممنوع ٹھیرایا ہے۔‘‘ (البیان ۴/ ۲۱)
مصنف کی یہ راے جمہور فقہا کے موقف کی موید ہے۔ بعض تابعین کا نقطۂ نظر یہ منقول ہے کہ وہ بیوی سے وطی فی الدبر کو مباح سمجھتے تھے۔ روایات میں اس کی نسبت عبد اللہ بن عمر کی طرف بھی کی گئی ہے، تاہم ابن عمر کے مستند اصحاب، مثلاً سالم بن عبد اللہ اور نافع نے اس نسبت کی تردید کی ہے (طحاوی، شرح معانی الآثار ۳/ ۴۲)۔ ان حضرات کا نقلی استدلال سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۲۳ میں ’نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْﵣ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰي شِئْتُمْ‘ (تمھاری بیویاں تمھارے لیے کھیتی ہیں، سو تم اپنی کھیتی میں جاؤ جیسے چاہو) کے الفاظ سے ہے، جس کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ بیوی سے استمتاع کے لیے محل یا فرج یا دبر کی کوئی پابندی نہیں۔ امام شافعی لکھتے ہیں کہ یہ آیت بظاہر دو معنوں کی محتمل ہے: ایک یہ کہ بیوی سے کسی بھی طریقے سے استمتاع کرنا، یعنی وطی فی الدبر (anal sex) بھی مباح ہے، اور دوسرا یہ کہ ایسی جگہ استمتاع مراد ہے جو کھیتی بن سکتی ہو، یعنی اس سے اولاد پیدا ہو سکتی ہو۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کے مابین اسی وجہ سے اختلاف ہے۔ بعض وطی فی الدبر کو حلال کہتے ہیں اور بعض حرام۔ تاہم جمہور اہل علم نے اس استدلال کو قبول نہیں کیا۔ امام شافعی قرآن مجید سے اس کے خلاف دو شواہد پیش کرتے ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حالت حیض میں خواتین سے الگ رہنے کی ہدایت کی ہے اور فرمایا ہے کہ جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں، ان کے قریب نہ جاؤ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی سے استمتاع صرف قبل میں کیا جا سکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بیوی کے لیے ’کھیتی‘ کی تعبیر اختیار کی ہے اور اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ بیوی سے استمتاع اسی جگہ ہو سکتا ہے جہاں سے بچے کی پیدایش ہو سکتی ہو (الام ۶/ ۲۴۲، ۲۴۴، ۴۴۳) ۔
مذکورہ آیت میں ہی حالت حیض میں بیوی کے پاس جانے کی ممانعت سے امام شافعی استدلال کرتے ہیں کہ شرم گاہ کے علاوہ جسم کے کسی دوسرے حصے سے استمتاع حرام نہیں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ شوہر کے لیے مافوق الازار بیوی سے استمتاع درست ہے (الام ۶/ ۲۴۳- ۲۴۴)۔ مصنف نے اس کی تائید میں اس سے پچھلی آیت ۲۲۲ میں ’فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ‘ کو اصل بنیاد بنایا ہے جس میں بیوی سے استمتاع کا فطری طریقہ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
قرآن مجید کی داخلی دلالتوں کے علاوہ بہت سی احادیث میں بھی وطی فی الدبر کی حرمت کا مضمون بیان ہوا ہے۔ یہ احادیث سیدنا عمر، خزیمہ بن ثابت، ابوہریرہ، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، جابر بن عبد اللہ اور علی بن طلق رضی اللہ عنہم سے بہت سی اسناد کے ساتھ مروی ہیں اور ان کی کثرت کے پیش نظر امام طحاوی نے انھیں (محدثین کی اصطلاح کے لحاظ سے) متواتر قرار دیا ہے (شرح معانی الآثار ۳/ ۴۳ - ۴۵۔ تفسیر ابن کثیر ۲/ ۳۱۲ - ۳۲۲)۔
’’طلاق کا اختیار شریعت نے مرد کو دیا ہے ۔ اِس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے۔ عورت کی حفاظت اور کفالت کی ذمہ داری ہمیشہ سے مرد پر ہے اور اِس کی اہلیت بھی قدرت نے اُسے ہی دی ہے ۔ قرآن نے اِسی بنا پر اُسے قوام قرار دیا اور بقرہ ہی کی آیت ۲۲۸ میں بہ صراحت فرمایا ہے کہ ’لِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ‘ (شوہروں کو اُن پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے)۔ چنانچہ ذمہ داری کی نوعیت اور حفظ مراتب، دونوں کا تقاضا ہے کہ طلاق کا اختیار بھی شوہر ہی کو دیا جائے ۔ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ خاندان کا ادارہ انسان کی ناگزیر ضرورت ہے ۔ ذمہ داریوں کے فرق اور وصل و فصل کے یکساں اختیارات کے ساتھ جس طرح دنیا کا کوئی دوسراادارہ قائم نہیں رہ سکتا ، اِسی طرح خاندان کا ادارہ بھی نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ عورت نے اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت و کفالت کے عوض اگر اپنے آپ کو کسی مرد کے سپرد کر دینے کا معاہدہ کر لیا ہے تو اُسے ختم کر دینے کا اختیار بھی اُس سے معاملہ کیے بغیر عورت کو نہیں دیا جا سکتا ۔ یہی انصاف ہے ۔ اِس کے سوا کوئی دوسری صورت اگر اختیار کی جائے گی تو یہ بے انصافی ہو گی اور اِس کا نتیجہ بھی لامحالہ یہی نکلے گا کہ خاندان کا ادارہ بالآخر ختم ہو کر رہ جائے گا ۔ ‘‘(میزان ۴۴۳)
مصنف کا یہ موقف فقہ اسلامی کے متفقہ اور اجماعی موقف کے مطابق ہے۔ اس کے دو اہم مضمرات ہیں:
پہلا یہ کہ حق طلاق میں مرد وزن کی مساوات کا موقف جو حقوق نسواں کے معاصر فلسفوں میں اختیار کیا گیا ہے، مصنف اس کو نقلی اور عقلی، دونوں اعتبار سے غلط سمجھتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ حنفی فقہا کے ہاں حق طلاق، شوہر کی رضامندی سے بیوی کو تفویض کر دیے جانے کی جو گنجایش مانی گئی ہے، مصنف اس کو بھی شرعی مقاصد اور حکمتوں سے ہم آہنگ تصور نہیں کرتے۔ ایک دوسرے مقام پر مصنف نے اس حوالے سے اپنا نقطۂ نظر یوں واضح کیا ہے:
’’...اِس کا ایک حل یہ سوچا گیا کہ مرد سے منوالیا جائے کہ اُس نے طلاق کا حق عورت کو تفویض کر دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اِس طرح کا تقاضا خاص کر نکاح کے موقع پر آسان نہیں ہوتا۔ پھر یہ چیز اُس حکمت کو بھی باطل کر دیتی ہے جس کے لیے طلاق کا حق عورت کو نہیں دیا گیا۔‘‘ (مقامات ۳۰۰)
البتہ حق طلاق مصنف کے نزدیک سرتاسر شوہر کی مرضی اور صواب دید پر منحصر نہیں ہے، بلکہ وہ اخلاقاً اس کا پابند ہے کہ بیوی اگر نباہ کو ممکن نہ پا کر اس سے طلاق کا مطالبہ کرے تو وہ معروف کے مطابق اسے طلاق دے دے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو بیوی کو عدالت سے رجوع کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے اور اسی طرح نکاح کے موقع پر یہ شرط بھی طے کی جا سکتی ہے کہ بیوی کی طرف سے مطالبۂ طلاق پر شوہر ایک متعین مدت کے اندر طلاق دینے کا پابند ہو گا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں مقررہ مدت گزرنے پر ازخودطلاق واقع ہو جائے گی (مقامات۳۰۱ )۔
’’...اِس باب میں جو ہدایات خود قرآن میں دی گئی ہیں ، وہ یہ ہیں:
اولاً ، بیوی کو کوئی مال ، جایداد ، زیورات اور ملبوسات وغیرہ ، خواہ کتنی ہی مالیت کے ہوں ، اگر تحفے کے طور پر دیے گئے ہیں تو اُن کا واپس لینا جائز نہیں ہے ۔ نان ونفقہ اور مہر تو عورت کا حق ہے ، اُن کے واپس لینے یا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اِن کے علاوہ جو چیزیں دی گئی ہوں ، اُن کے بارے میں بھی قرآن کا حکم ہے کہ وہ ہرگز واپس نہیں لی جا سکتیں ۔
اِس سے دو صورتیں ، البتہ مستثنیٰ ہیں :
ایک یہ کہ میاں بیوی میں حدودالٰہی کے مطابق نباہ ممکن نہ رہے ، معاشرے کے ارباب حل و عقد بھی یہی محسوس کریں ، لیکن میاں صرف اِس لیے طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو کہ اُس کے دیے ہوئے اموال بھی ساتھ ہی جائیں گے تو بیوی یہ اموال یا اِن کا کچھ حصہ واپس کر کے شوہر سے طلاق لے سکتی ہے ۔ اِس طرح کی صورت حال اگر کبھی پیدا ہو جائے تو شوہر کے لیے اُسے لینا ممنوع نہیں ہے ۔‘‘(میزان ۴۴۷)
طلاق لینے کے لیے بیوی کی طرف سے شوہر کو مال دیے جانے کی اس ہدایت سے متعلق مصنف کا زاویۂ نظر جمہور اہل علم سے کسی قدر مختلف ہے۔ جمہور اہل علم اس کو حصول طلاق کا ایک مستقل طریقہ قرار دیتے ہیں جس کی نوعیت معاوضہ دے کر شوہر سے طلاق خریدنے کی ہے۔ فقہی اصطلاح میں اسے ’خلع‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس فقہی موقف کے زیر اثر مفسرین بھی عموماً آیت کے دوسرے حصے کی تفسیر ایک مستقل حکم کے طور پر کرتے ہیں ۔ اس کا اثر اس سوال پر بھی دکھائی دیتا ہے کہ آیا خلع کے لیے جو رقم شوہر کے لیے وصول کرنا جائز ہے، وہ بیوی کو دیے گئے اموال سے زیادہ ہو سکتی ہے یا نہیں۔ جمہور فقہا کے نزدیک فریقین باہمی رضامندی سے جس مقدار پر بھی راضی ہو جائیں، درست ہے۔ فقہا کے ایک گروہ کا کہنا یہ ہے کہ اگر علیحدگی کے فیصلے کا باعث شوہر کا رویہ ہو اور بیوی مجبوری کی کیفیت میں یہ فیصلہ کر رہی ہو تو پھر شوہر کے لیے اپنے دیے ہوئے مال میں سے کچھ بھی لینا جائز نہیں، لیکن اگر علیحدگی کی وجہ بیوی کا nرویہ ہو تو شوہر اپنے دیے ہوئے مال کے برابر عوض لے سکتا ہے، اس سے زیادہ عوض وصول کرنا اس کے لیے جائز نہیں، تاہم یہ فقہا عدم جواز کو صرف اخلاقی پہلو سے بیان کرتے ہیں، اس کو قانوناً غیر نافذ قرار نہیں دیتے۔ البتہ ابن کثیر کے بیان کے مطابق امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کا موقف یہ ہے کہ شوہر کسی بھی حال میں، دیے گئے مال سے زیادہ عوض نہیں لے سکتا (تفسیر ابن کثیر ۲/ ۳۵۱)۔
مصنف نے اس کو حصول طلاق کا کوئی مستقل طریقہ شمار کرنے کے بجاے اس ہدایت کی تشریح متعلقہ آیت کے سیاق کے لحاظ سے یوں کی ہے کہ شریعت کا اصل منشا تو یہ ہے کہ طلاق کی صورت میں بیوی سے کچھ بھی واپس نہ لیا جائے، البتہ شریعت نے ایسی صورت حال میں جب نباہ ممکن نہ ہو ، لیکن مالی معاملات علیحدگی کے فیصلے میں حائل ہو رہے ہوں، فصل نزاع کے لیے اس کی گنجایش بیان کی ہے کہ بیوی، شوہر سے لیے گئے اموال تلافی کے طور پر واپس دے کر اس سے طلاق حاصل کر لے۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بیوی سے لیا گیا عوض دراصل اسی مال کی واپسی ہے جو شوہر نے اس کو دیا ہے اور اس سے قطع نظر کر کے معاوضے کا مطالبہ کرنے کا حق شریعت نے شوہر کو نہیں دیا۔
آیت کے سیاق کی اس دلالت کو بعض اکابر مفسرین نے بھی واضح کیا ہے، چنانچہ امام ابن کثیر آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وَأَمَّا إِذَا تَشَاقَقَ الزَّوْجَانِ، وَلَمْ تَقُمِ الْمَرْأَةُ بِحُقُوقِ الرَّجُلِ وَأَبْغَضَتْهُ وَلَمْ تَقْدِرْ عَلَى مُعَاشَرَتِهِ، فَلَهَا أَنْ تَفْتَدِيَ مِنْهُ بِمَا أَعْطَاهَا، وَلَا حَرَجَ عَلَيْهَا فِي بَذْلِهَا، وَلَا عَلَيْهِ فِي قَبُولِ ذَلِكَ مِنْهَا؛ وَلِهَذَا قَالَ تَعَالَى: ﴿وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّا٘ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ شَيْـًٔا اِلَّا٘ اَنْ يَّخَافَا٘ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِﵧ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِﶈ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ﴾ الْآيَةَ. (تفسیر ابن کثیر ۲/ ۳۴۳)
’’ہاں، جب میاں بیوی میں ناچاقی ہو جائے اور عورت شوہر کے حقوق ادا نہ کر پائے اور اس سے نفرت کی وجہ سے اس کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کو اختیار ہے کہ جو کچھ شوہر نے اس کو دیا ہے، وہ اس کو تلافی کے طور پر دے دے۔ ایسی صورت میں نہ بیوی پر دینے میں کچھ مضایقہ ہے اور نہ شوہر پر اس سے لینے میں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’تمھارے لیے ان کو دیے ہوئے مال میں سے کچھ بھی واپس لینا حلال نہیں، سواے اس صورت کے جب دونوں کو اس کا ڈر ہو کہ وہ اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ پھر اگر تمھیں ڈر ہو کہ وہ دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو بیوی فدیے کے طور پر جو کچھ دے، دونوں پر اس کا کوئی گناہ نہیں‘‘۔‘‘
قال الأوزاعي: القضاة لا یجیزون أن یأخذ منھا أکثر مما ساق إلیھا، قلت: ویستدل لھذا القول بما تقدم ..... أن النبي صلی اللہ علیه وسلم کره أن یأخذ منھا أکثر مما أعطاھا، یعني المختلعة وحملوا معنی الآیة علی معنی ﴿فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ﴾ أي من الذي أعطاھا لتقدم قوله: ﴿وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّا٘ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ شَيْـًٔا اِلَّا٘ اَنْ يَّخَافَا٘ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِﵧ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِﶈ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ﴾ أي: من ذلک.(تفسیر ابن کثیر ۲/ ۳۵۱)
’’اوزاعی کہتے ہیں کہ قاضی حضرات اس کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ شوہر اپنے دیے ہوئے مال سے زیادہ بیوی سے واپس لے۔ میں (ابن کثیر) کہتا ہوں کہ اس کی دلیل یہ روایت بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کے لیے خلع لینے والی بیوی سے اس سے زیادہ مال لینے کو ناپسند فرمایا، جتنا اس نے اس کو دے رکھا ہے۔ ان اہل علم نے ﴿فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ﴾ کا مفہوم یہ مراد لیا ہے کہ یہ فدیہ اس مال میں سے ہوگا جو شوہر نے اس کو دے رکھا ہے، کیونکہ اس سے سابق جملہ یہ ہے کہ ’’تمھارے لیے ان کو دیے ہوئے مال میں سے کچھ بھی واپس لینا حلال نہیں، سواے اس صورت کے جب دونوں کو اس کا ڈر ہو کہ وہ اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ پھر اگر تمھیں ڈر ہو کہ وہ دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو بیوی فدیے کے طور پر جو کچھ دے، دونوں پر اس کا کوئی گناہ نہیں‘‘۔ مراد یہ کہ بیوی، شوہر کے دیے ہوئے مال میں سے اس کو معاوضہ دے دے۔‘‘
’’رہی تیسری دلیل تو یہ درحقیقت ایک روایت کا مدعا نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔ امام بخاری نے اِسے جس طرح نقل کیا ہے ، اُسے دیکھنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ عورت نے نکاح کیا ہی اِس مقصد سے تھا کہ وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے ۔ چنانچہ طلاق لینے کے لیے اُس نے جب غلط بیانی کر کے دوسرے شوہر کو زن و شو کا تعلق قائم کرنے سے قاصر قرار دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس پر سرزنش کے لیے اُسے یہ کہہ کر پہلے شوہر کے پاس جانے سے روک دیا کہ اب تم اِس دوسرے شوہر سے لذت اندوز ہونے کے بعد ہی اُس کے پاس جا سکتی ہو ۔ یہ بیان شرط نہیں ، بلکہ تعلیق بالمحال کا اسلوب ہے ۔ لہٰذا یہ روایت اگر کسی چیز کا ثبوت ہے تو حلالہ کی ممانعت کا ثبوت ہے ، اِس میں فقہا کے موقف کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔‘‘(میزان۴۵۳)
تیسری طلاق کے بعد قرآن نے یہ پابندی عائد کی ہے کہ عورت اپنے پہلے شوہر کے نکاح میں نہیں رہ سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرے (حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ) اور اگر وہ بھی اسے طلاق دے دے تو پھر باہمی رضامندی سے وہ اور اس کا سابقہ شوہر دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں (البقرہ ۲: ۲۳۰)۔ یہاں ’تَنْكِحَ ‘ کا لفظ بظاہر عقد نکاح کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ دوسرے شوہر سے صرف عقد نکاح ہو جانا کافی ہے۔ اگر ایجاب وقبول کے بعد وہ عورت کو طلاق دے دے تو وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی۔ تاہم ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک دوسرا شوہر بیوی سے ہم بستری نہ کر لے، وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی۔
جمہور فقہانے اس شرط کو قبول کیا ہے، اگرچہ اصول فقہ کے لحاظ سے اس کی تکییف میں اختلاف ہے۔ بعض اہل اصول کے نزدیک یہ قرآن سے زائد ایک مستقل حکم ہے اور ان دونوں نصوص کے مجموعے سے حکم شرعی متعین ہوتا ہے (ابن حزم، احکام الاحکام ۷/ ۷۲)۔ جب کہ حنفی فقہا آیت میں ’تَنْكِحَ ‘کے لفظ کو عقد کے بجاے ہم بستری کے معنی میں لیتے ہوئے یہ استدلال کرتے ہیں کہ جب تک عورت دوسرے شوہر کے ساتھ ہم بستری نہ کر لے، وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی۔ گویا حدیث، قرآن پر اضافہ نہیں کر رہی، بلکہ اس کی تفسیر بیان کر رہی ہے (جصاص، الفصول فی الاصول ۱/ ۱۸۹- ۱۹۱) ۔
شاہ ولی اللہ نے اس شرط کی اساس مقاصد شریعت کے حوالے سے واضح کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ شرط ا س پابندی کو موثر اور حقیقی بنانے کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کی گئی ہے، کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو لوگوں کے لیے یہ حیلہ اختیار کرنے کا راستہ کھل سکتا ہے کہ دوسرے شوہر سے نکاح کو ایک رسمی کارروائی بنا لیا اور عقد کے بعد اسی مجلس میں دوسرے شوہر سے طلاق لے لی جائے، جب کہ یہ طریقہ شریعت کی عائد کردہ تحدید کے مقصد کے خلاف ہے، کیونکہ شارع کا منشا یہ ہے کہ وہ عورت اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ حقیقتاً میاں بیوی کے طور پر زندگی بسر کرنا شروع کر دے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۷۰)۔
مصنف کو اس موقف سے اتفاق نہیں ہے، کیونکہ ان کے اصول کے مطابق حدیث قرآن کے حکم میں تبدیلی نہیں کر سکتی، جب کہ ’تَنْكِحَ ‘کے لفظ کو ہم بستری پر محمول کرنا لفظ کے متبادر مفہوم کے بھی خلاف ہے اور اس کی نسبت عورت کی طرف کرنا بھی اس کو وطی کے معنی میں لینے سے مانع ہے۔ مصنف کے نزدیک زیربحث حدیث کا مدعا دراصل ہم بستری کو ایک شرط کے طور پر بیان کرنا نہیں ہے، جیسا کہ فقہانے عموماً سمجھا ہے۔ محولہ اقتباس میں مصنف نے اپنے نقطۂ نظر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیربحث ارشاد کے درست محل کو واضح کیا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ