ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر
عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ،۱ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا فَزِعًا يَقُولُ: ۲ «لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ، فُتِحَ اليَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ»، ۳ وَحَلَّقَ بِإِصْبَعِهِ الإِبْهَامِ وَالَّتِي تَلِيهَا،۴ قَالَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ؟ قَالَ: «نَعَمْ إِذَا كَثُرَ ۵ الخَبَثُ».
سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے اُن کے پاس تشریف لائے، ۱ آپ فرمارہے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اہل عرب کی تباہی ایک ایسی آفت سے ہونے والی ہے جو قریب آچکی ہے۔ ۲ یا جوج وماجوج کی دیوار میں آج اتنا سوراخ ہو گیا ہے۔(اِس کی وضاحت کے لیے) آپ نے اپنے انگوٹھے اور اُس کے ساتھ والی انگلی سے دائرہ بنا کر دکھایا۔ ۳ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ، کیا ہم اپنے درمیان نیک لوگوں کی موجودگی کے باوجود ہلاک ہو جائیں گے؟ آپ نے فرمایا :ہاں، جب برائی زیادہ پھیل جائے گی۔ ۴
________
۱۔ اِسی روایت کے ایک دوسرے طریق میں صراحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو سو کر اٹھے تھے۔ اِس کا حوالہ متن کے حواشی میں دیکھ لیا جا سکتا ہے۔ یہ اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ آگے جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ آپ کو رؤیا میں دکھایا گیا۔ یہ اراء ت کے طریقے پر وحی ہے۔ اِس سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ آثار قیامت اور فتن وغیرہ کے جو واقعات روایتوں میں بیان ہوئے ہیں، وہ آپ کو بتائے نہیں گئے، بلکہ دکھائے گئے تھے، عام اِس سے کہ وہ رؤیا میں دکھائے گئے ہوں یا بیداری کی حالت میں۔ چنانچہ واقعہ اور تمثیل کا جو امتزاج اِس طرح کے مشاہدات میں ملحوظ ہوتا ہے، وہ ان کی شرح و وضاحت میں بھی لازماً ملحوظ رہنا چاہیے۔
۲۔ یہ اُس تباہی کی طرف اشارہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے کم و بیش چھ سو سال بعد چنگیز و ہلاکو کے ہاتھوں سے ہوئی۔ اِس کی وضاحت اگلے جملے میں یاجوج و ماجوج کے ذکر سے ہو جاتی ہے۔ چنگیز و ہلاکو اِنھی کی اولاد تھے۔ اُنھوں نے عربوں کی سلطنت اِس طرح تاراج کی کہ بالآخر بغداد کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی، جو اُس زمانے میں اِس سلطنت کا دارالحکومت تھا۔
۳۔ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ صدیوں کے بعد ہونے والا ہے، اُس کی ابتدا ابھی سے ہو گئی ہے۔ چنانچہ اولادیافث کی تاخت کے لیے وہ حالات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں جو وسط ایشیائی ممالک میں اُن کے وطن سے اُنھیں اٹھا کر باہر لے آئیں گے۔ دیوار میں سوراخ سے اِسی حقیقت کو تعبیر کیا گیا ہے۔
۴۔ یہ اُسی قانون کے تحت ہے جو قوموں کی ہلاکت کے لیے سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) کی آیت ۵۸ میں بیان ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمادی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہلاکت کا یہ فیصلہ اُسی وقت صادر ہوتا ہے ، جب کسی قوم کے اندر بھلائی کے مقابلے میں برائی کا غلبہ ہوجاتا ہے۔
۱۔ اِس روایت کا متن صحيح بخاری، رقم ۳۳۴۶سے لیا گیا ہے۔ الفاظ ومعلومات کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں نقل ہوئے ہیں: جامع معمر بن راشد، رقم۲۰۷۴۹۔ تفسير عبد الرزاق، رقم۱۵۴۶۔ مسند حميدی، رقم۳۱۰۔ مصنف ابن ابی شیبہ،رقم۳۷۲۱۴۔مسند اسحاق بن راہويہ، رقم ۲۰۸۱۔ مسنداحمد، رقم۲۷۴۱۳، ۲۷۴۱۴، ۲۷۴۱۶۔صحيح بخاری، رقم۳۵۹۸، ۷۰۵۹، ۷۱۳۵۔ صحيح مسلم، رقم ۲۸۸۰۔ سنن ابن ماجہ، رقم۳۹۵۳۔ سنن ترمذی، رقم۲۱۸۷۔العقوبات، ابن ابی الدنیا، رقم۲۵۸۔ الآحاد والمثانی، ابن ابی عاصم، رقم۳۰۹۲۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم۱۱۲۴۹، ۱۱۲۷۰۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۷۱۵۵، ۷۱۵۹۔ معجم ابن اعرابی، رقم۵۴۔ صحيح ابن حبان، رقم۳۲۷۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم۱۳۵، ۱۳۶، ۱۳۷، ۱۴۲۔ مسند الشاميين، طبرانی، رقم۳۱۱۵۔ معرفۃ الصحابۃ، ابو نعیم، رقم۷۴۲۸۔ السنن الواردة فی الفتن، دانی، رقم ۵۲۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم۲۰۱۹۷، ۲۰۱۹۸۔ الاعتقاد، بیہقی، ص ۲۴۹۔ دلائل النبوة، بیہقی۱/۴۰۶ ۔ شعب الايمان، بیہقی، رقم۷۱۹۲۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے علاوہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہوا ہے۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا طریق حلیۃ الاولياء وطبقات الاصفياء، ابو نعیم، ۱۰/ ۲۱۸ پر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے طرق اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: احاديث عفان بن مسلم، رقم۳۱۷۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۲۷۰۔ مسند اسحاق بن راہويہ، رقم۵۳۱۔ مسند احمد، رقم۸۵۰۱، ۱۰۸۵۳۔ صحيح بخاری، رقم۳۳۴۷، ۷۱۳۶۔ صحيح مسلم، رقم۲۸۸۱۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم۸۴۶۲۔ حلیۃ الاولياء وطبقات الاصفياء، ابو نعیم۴/۲۱۔
۲۔ کئی طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ،رقم ۳۷۲۱۴میں یہاں ’اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَوْمِهِ مُحْمَرًّا وَجْهُهُ وَهُوَ يَقُولُ‘، ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کا چہرہ سرخ تھا اور آپ فرما رہے تھے‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔
۳۔ مسند احمد، رقم ۲۷۴۱۶ میں یہاں ’مِثْلُ مَوْضِعِ الدِّرْهَمِ‘، ’’درہم کے برابر‘‘ کے الفاظ ہیں۔
۴۔ مصنف ابن ابی شیبہ،رقم ۳۷۲۱۴ میں ’وَعَقَدَ بِيَدِهِ يَعْنِي عَشَرَةً‘،’’اور آپ نے اپنے ہاتھ سے دس کا ہندسہ بنایا‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، جب کہ سنن ابن ماجہ، رقم ۳۹۵۳میں یہاں ’وَعَقَدَ بِيَدَيْهِ عَشَرَةً‘، ’’اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے دس کا ہندسہ بنایا‘‘کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے بعض طرق، مثلاً صحیح بخاری، رقم ۳۳۴۷ میں ’وَعَقَدَ بِيَدِهِ تِسْعِينَ‘،’’اور آپ نے اپنے ہاتھ سے نوے کا ہندسہ بنایا‘‘ کے الفاظ ہیں، جب کہ اُنھی کی ایک روایت مسند احمد، رقم ۱۰۸۵۳میں ’وَحَلَّقَ تِسْعِينَ وَضَمَّهَا‘، ’’ اور آپ نے(اپنی انگلیوں سے) نوے کے ہندسے کا دائرہ بناکر انگلیوں کو ملا لیا‘‘ کے الفاظ بھی ہیں۔
۵۔ بعض طرق، مثلاً مسند اسحاق بن راہويہ،رقم ۲۰۸۱ میں یہاں ’كَثُرَ‘ ، ’’بڑھ جائے‘‘ کے بجاے ’ظَهَرَ‘ ، ’’ظاہر ہوجائے‘‘ کا لفظ آیا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ۱ «إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ لَيَحْفِرُونَ السَّدَّ كُلَّ يَوْمٍ، حَتَّى إِذَا كَادُوا يَرَوْنَ شُعَاعَ الشَّمْسِ، قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ: ارْجِعُوا فَسَتَحْفِرُونَهُ غَدًا، فَيَعُودُونَ إِلَيْهِ كَأَشَدِّ مَا كَانَ، حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ مُدَّتُهُمْ، وَأَرَادَ اللهُ أَنْ يَبْعَثَهُمْ عَلَى النَّاسِ، حَفَرُوا، حَتَّى إِذَا كَادُوا يَرَوْنَ شُعَاعَ الشَّمْسِ، قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ: ارْجِعُوا فَسَتَحْفِرُونَهُ غَدًا، إِنْ شَاءَ اللهُ، وَيَسْتَثْنِي، فَيَعُودُونَ إِلَيْهِ وَهُوَ كَهَيْئَتِهِ حِينَ تَرَكُوهُ، فَيَحْفِرُونَهُ۲ وَيَخْرُجُونَ عَلَى النَّاسِ، فَيُنَشِّفُونَ الْمِيَاهَ، وَيَتَحَصَّنَ النَّاسُ مِنْهُمْ فِي حُصُونِهِمْ، فَيَرْمُونَ بِسِهَامِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ، فَتَرْجِعُ وَعَلَيْهَا كَهَيْئَةِ الدَّمِ،۳ فَيَقُولُونَ: قَهَرْنَا أَهْلَ الْأَرْضِ، وَعَلَوْنَا أَهْلَ السَّمَاءِ [قُوَّةً وَعُلُوًّا،۴ ] فَيَبْعَثُ اللهُ عَلَيْهِمْ نَغَفًا فِي أَقْفَائِهِمْ فَيَقْتُلُهُمْ بِهَا»، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ دَوَابَّ الْأَرْضِ لَتَسْمَنُ [وَتَبْطَرُ۵ ] وَتَشْكَرُ شَكَرًا مِنْ لُحُومِهِمْ وَدِمَائِهِمْ».
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاجوج و ماجوج روزانہ دیوار میں سوراخ کرتے ہیں۔جب وہ اتنا سوراخ کرلیتے ہیں کہ جس سے سورج کی شعاعیں دیکھ سکیں تو اُن کا سربراہ کہتا ہے: اب لوٹ جاؤ، کل تم اِسے پوری طرح کھود کر کھول دو گے ۔ لیکن اگلے دن وہ اُسی جگہ واپس آتے ہیں تو دیوار پہلے سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ ۱ (یہ سلسلہ چلتا رہے گا)، یہاں تک کہ وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں گے اور اللہ ارادہ فرمائے گا کہ اُنھیں اٹھائے اور لوگوں پر مسلط کردے تو ایک دن وہ کھودیں گے، یہاں تک کہ اتنا سوراخ کر لیں گے کہ اُس میں سے سورج کی شعائیں دیکھ لیں۔ اُن کا سربراہ یہ دیکھ کر کہے گا کہ اب لوٹ چلو، اللہ نے چاہا تو کل تم اِسے پوری طرح کھول دو گے۔اِس طرح وہ کامیابی کو اللہ کی مشیت پر منحصر کر دے گا۔۲ چنانچہ اگلے دن واپس آئیں گے تو دیوار اُسی حالت پر ہوگی جس پر وہ اُسے چھوڑ کر گئے تھے۔ ۳ اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ اُسے گرا کر لوگوں پر چڑھ دوڑیں گے۔ پھر نہروں اور چشموں کو اُن کا پانی پی کر خشک کردیں گے۴ اور لوگ اپنی پناہ گاہوں میں چھپ کر اُن سے اپنی حفاظت کریں گے۔ یاجوج و ماجوج، اِس کے بعد اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے جو خون آلود ہوکر اُن کے پاس واپس آجائیں گے ۔ اِس کے بعد وہ کہیں گے: قوت اور برتری میں ہم نے زمین والوں پر بھی غلبہ پا لیا ہے اور آسمان والوں پر بھی غالب ہو گئے ہیں۔ ۵ پھراللہ تعالیٰ اُن کی گُدیوں میں ایک کیڑا مسلط کرکے اُس کے ذریعے سے اُنھیں ہلاک کردے گا۔ ۶ اِس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے، زمین کے جانور یاجوج وماجوج کے خون اور گوشت سےخوب سیر ہو کر انتہائی صحت مند اور فربہ ہوجائیں گے اور اینٹھتے پھریں گے۔۷l
________
۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اِسی طرح دکھایا گیا۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ دنیا کے حالات اور قوموں کی حفاظت کے لیے بنائے گئے قلعے اور دیواریں ابھی یاجوج وماجوج کو دنیا پر تاخت سے روک سکتی ہیں ، لہٰذا روکے ہوئے ہیں اور اپنے رہنماؤں کی قیادت میں یہ کوشش بھی کریں تو ایک لمبے عرصے تک اپنے علاقوں ہی میں محصور رہیں گے۔
۲۔ اِس سے مقصود یہ بتانا تھا کہ عالمی سطح پر قوموں کے عروج کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی حکمت کے پیش نظر جب چاہتا ہے، کرتا ہے۔ اِس لیے یافث کی اولاد کے لیے بھی یہ فیصلہ وہی جب چاہے گا، کرے گا۔ یہ کسی جدوجہد کا لازمی نتیجہ نہیں ہے کہ کی جائے تو اِس طرح کا عروج ہر حال میں حاصل ہو جائے۔
۳۔ یعنی جتنی کھودی گئی تھی، وہ اگلے دن بھی اُسی طرح کھودی ہوئی ہو گی، پہلے کی طرح اپنی اصلی حالت پر واپس نہیں آجائے گی۔مدعا یہ ہے کہ اُن کی جد وجہدبالآخر کامیاب ہوگی اور تاخت کے لیے تمام راستے کھل جائیں گے۔
۴۔ یہ وسائل رزق پر اُن کے قبضے اور دوسری قوموں کی اُن سے محرومی کی تعبیر ہے۔
۵۔یاجوج وماجوج کے جس خروج کی ابتدا چنگیز وہلاکو کی تاخت سے ہوئی ہے،یہ اُس کے آخری مرحلے کا بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خروج کے اِس مرحلے میں آسمان کی طرف بھی اُن کی تاخت ایسی غیرمعمولی ہوگی کہ اُن کی فتوحات لوگوں کے لیے آزمایش بن جائیں گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ حقیقت اِس طرح ممثل کی گئی کہ گویا تیر پھینکا گیا اور وہ خون آلود ہو کر واپس آگیا۔ اِس کے بعد جو کچھ اُنھوں نے کہا ہے، وہ اُسی طرح کا متکبرانہ اظہار ہے جس کی ایک جھلک سورۂ قصص (۲۸) کی آیت ۳۸ میں فرعون کے اِس جملے میں دیکھ لی جا سکتی ہے کہ ’﴿فَاَوْقِدْ لِيْ يٰهَامٰنُ عَلَي الطِّيْنِ فَاجْعَلْ لِّيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْ٘ اَطَّلِعُ اِلٰ٘ي اِلٰهِ مُوْسٰي﴾‘، ’’اچھا تو اے ہامان، تم میرے لیے مٹی کی اینٹوں کا پزاوہ لگواؤ اور ایک اونچا محل میرے لیے بنواؤ تاکہ موسیٰ کے خدا کو میں (آسمان میں) جھانک کر دیکھوں ‘‘۔
۶۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اُن کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔اللہ تعالیٰ ہی اپنی طرف سے کوئی آفت اُن پر مسلط کریں گے جس کے نتیجے میں دنیا والوں کو اُن کی غارت گری سے نجات حاصل ہو جائے گی۔
۷۔ یہ اِس بات کی تعبیر ہے کہ یاجوج وماجوج کی یہ ہلاکت ایسی غیر معمولی ہوگی کہ کوئی اُن کی لاشیں دفنانے والا بھی نہیں ہوگا۔ چنانچہ وہی صورت پیدا ہوجائے گی جو بیت اللہ پر حملہ کرنے والے ابرہہ کے لشکر کے ساتھ ہوئی تھی کہ اُن کی غلاظت سے فضا کو پاک کرنے کے لیے آسمان کے پرندے ہی رہ گئے تھے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ یہاں بھی جنگلوں کے درندے ہی رہ جائیں گے جو دنیا کو اِس عفونت سے نجات دلائیں گے۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۱۰۶۳۲سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مصادر میں نقل ہوئے ہیں: تفسير یحییٰ بن سلام۱/۲۰۵، ۳۴۳۔ مسند احمد، رقم۱۰۶۳۳۔ سنن ابن ماجہ، رقم۴۰۸۰۔ سنن ترمذی، رقم۳۱۵۳۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۶۴۳۶۔ تفسير طبری۱۵/۳۹۸۔ صحيح ابن حبان، رقم۶۸۲۹۔ مستدرك حاكم، رقم۸۵۰۱۔
۲۔ بعض طرق، مثلاً سنن ترمذی، رقم ۳۱۵۳میں یہاں ’فَيَحْفِرُونَهُ‘ کے بجاے ’فَيَخْرِقُونَهُ‘ کا لفظ آیا ہے۔ معنی کے لحاظ سے یہاں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
۳۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۸۰میں اِس جگہ ’فَتَرْجِعُ عَلَيْهَا الدَّمُ الَّذِي اجْفَظَّ‘ ، ’’تو وہ تیر خون سے تربتر ہوکر واپس آئیں گے ‘‘ کی تعبیر نقل ہوئی ہے، جب کہ سنن ترمذی، رقم ۳۱۵۳میں ’فَتَرْجِعُ مُخَضَّبَةً بِالدِّمَاءِ‘،’’تو وہ تیر خون آلود ہوکرواپس آئیں گے ‘‘ کے الفاظ ہیں۔
۴۔ مستدرك حاكم، رقم۸۵۰۱۔
۵۔ سنن ترمذی، رقم۳۱۵۳۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ۱ «يُفْتَحُ يَأْجُوجُ وَمأْجُوجُ، يَخْرُجُونَ عَلَى النَّاسِ، كَمَا قَالَ اللهُ عزوجل: ﴿[وَهُمْ ۲ ] مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ﴾ [الأنبياء: 96 ]، فَيَغْشَوْنَ الْأَرْضَ،۳ وَيَنْحَازُ الْمُسْلِمُونَ عَنْهُمْ إِلَى مَدَائِنِهِمْ وَحُصُونِهِمْ، وَيَضُمُّونَ إِلَيْهِمْ مَوَاشِيَهُمْ، وَيَشْرَبُونَ مِيَاهَ الْأَرْضِ، حَتَّى إِنَّ بَعْضَهُمْ لَيَمُرُّ بِالنَّهَرِ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهِ، حَتَّى يَتْرُكُوهُ يَبَسًا، حَتَّى إِنَّ مَنْ بَعْدَهُمْ لَيَمُرُّ بِذَلِكَ النَّهَرِ فَيَقُولُ: قَدْ كَانَ هَاهُنَا مَاءٌ مَرَّةً، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ مِنَ النَّاسِ إِلَّا أَحَدٌ فِي حِصْنٍ أَوْ مَدِينَةٍ، قَالَ قَائِلُهُمْ: هَؤُلَاءِ أَهْلُ الْأَرْضِ، قَدْ فَرَغْنَا مِنْهُمْ، بَقِيَ أَهْلُ السَّمَاءِ»،۴ قَالَ: «ثُمَّ يَهُزُّ أَحَدُهُمْ حَرْبَتَهُ ثُمَّ يَرْمِي بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَتَرْجِعُ إِلَيْهِ مُخْتَضِبَةً دَمًا، لِلْبَلَاءِ وَالْفِتْنَةِ، [فَيَقُولُونَ: قَدْ قَتَلْنَا أَهْلَ السَّمَاءِ،۵ ] فَبَيْنَا هُمْ عَلَى ذَلِكَ، إِذْ بَعَثَ اللهُ دُودًا فِي أَعْنَاقِهِمْ، كَنَغَفِ الْجَرَادِ الَّذِي يَخْرُجُ فِي أَعْنَاقِهِمْ، فَيُصْبِحُونَ مَوْتَى لَا يُسْمَعُ لَهُمْ حِسٌّ، فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ: أَلَا رَجُلٌ يَشْرِي لَنَا نَفْسَهُ فَيَنْظُرَ مَا فَعَلَ هَذَا الْعَدُوُّ». قَالَ: «فَيَتَجَرَّدُ رَجُلٌ مِنْهُمْ لِذَلِكَ مُحْتَسِبًا لِنَفْسِهِ قَدْ أَظَنَّهَا عَلَى أَنَّهُ مَقْتُولٌ، فَيَنْزِلُ، فَيَجِدُهُمْ مَوْتَى بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَيُنَادِي: يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، أَلَا أَبْشِرُوا، فَإِنَّ اللهَ قَدْ كَفَاكُمْ عَدُوَّكُمْ. فَيَخْرُجُونَ مِنْ مَدَائِنِهِمْ، وَحُصُونِهِمْ، وَيُسَرِّحُونَ مَوَاشِيَهُمْ، فَمَا يَكُونُ لَهَا رَعْيٌ إِلَّا لُحُومُهُمْ، فَتَشْكَرُ عَنْهُ كَأَحْسَنِ مَا تَشْكَرُ عَنْ شَيْءٍ مِنَ النَّبَاتِ أَصَابَتْهُ قَطُّ».
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے سنا کہ آپ نے فرمایا: یاجوج وماجوج جب کھول دیے جائیں گے اور وہ لوگوں پر چڑھ دوڑیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’وہ ہر بلندی سے پل پڑیں گے‘‘ تو وہ روے زمین پر چھا جائیں گے اور مسلمان اِس کے نتیجے میں اپنے اپنے شہروں اور قلعوں میں سمٹ جائیں گے۔ یاجوج وماجوج اُن کے مویشیوں کو پکڑ لیں گے اور زمین کا سارا پانی پی جائیں گے،۱یہاں تک کہ اُن میں سے کچھ لوگ ایک نہر کے پاس سے گزریں گے تو اُس کا سارا پانی پی کر اُس کو خشک کر دیں گے۔ اُن کے بعد پھر انھی کے کچھ لوگ وہاں سے گزریں گے تو کہیں گے کہ کبھی یہاں بھی پانی ہوا کرتاتھا، ۲یہاں تک کہ جب روے زمین پر اُن لوگوں کے سوا ،جو کسی قلعے یا شہر میں اپنے آپ کو محفوظ کر لیں گے، کوئی انسان نہ بچے گا تو یاجوج وماجوج میں سے ایک شخص کہے گا : اِن زمین والوں سے تو ہم نے نمٹ لیا ، اب آسمان والے رہ گئے ہیں۔پھر اِن میں سے ایک شخص اپنا نیزہ ہلا کر اُس کو آسمان کی طرف پھینکے گا تو لوگوں کے امتحان اور آزمایش کے لیے وہ نیزہ خون میں لت پت ہوکر اُن کی طرف لوٹ آئے گا۔اِس پر وہ کہیں گے: (دیکھ لو)،ہم نےآسمان والوں کو بھی ہلاک کردیا ہے۔ ۳ اِسی اثنا میں اللہ تعالیٰ اُن کی گردنوں پر ٹڈی کی طرح کا ایک کیڑا مسلط کر دیں گے جو ان کی گردنوں میں نکل آئے گا اور صبح کے وقت وہ سب ایسے مرے ہوں گے کہ اُن کی آہٹ تک سنائی نہ دے گی۔ مسلمان یہ دیکھ کر آپس میں کہیں گے: کیا کوئی شخص ہے جو جان کی بازی لگا کر ہمارے لیے یہ دیکھ کر آئے کہ اِن دشمنوں کے ساتھ کیا ہوا؟ کہتے ہیں کہ پھر ایک آدمی، جسے یہ خیال بھی ہو گا کہ وہ یاجوج وماجوج کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا، اپنے لیے اجر کی خاطر نیچے اترے گا تو دیکھے گا کہ وہ سب مر چکے ہیں اور اُن کی لاشیں ایک دوسرے کے اوپر پڑی ہوئی ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ پکارے گا: اے مسلمانوں کی جماعت، سنو،تمھارے لیے خوش خبری ہے۔ اللہ نے تمھاری طرف سے تمھارے دشمن سے خود نمٹ لیا ہے۔ ۴ یہ سن کر مسلمان اپنے شہروں اور قلعوں سے نکل آئیں گے۔اور اپنے مواشی چرنے کے لیے چھوڑ دیں گے۔ یاجوج و ماجوج کے گوشت کے سوا اُس وقت اُنھیں کوئی چارا میسر نہ ہوگا۔ چنانچہ اُسے کھا کر وہ ایسے فربہ ہوجائیں گے کہ کسی گھاس وغیرہ سے کبھی اتنے صحت مند نہ ہوئے ہوں گے ۔ ۵
________
۱۔ ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں کہ یہ وسائل رزق پر اُن کے قبضے اور دوسری قوموں کی اُن سے محرومی کی تعبیر ہے۔
۲۔مطلب یہ ہے کہ یاجوج وماجوج کی جو قومیں پہلے خروج کریں گی، وہ اپنے مفتوحہ علاقوں کے وسائل اِس برے طریقے سے چٹ کر جائیں گی کہ خود اُن کے بعد والوں کے لیے بھی کچھ باقی نہ رہے گا۔
۳۔ یہ آسمان کی طرف اُن کی مہمات کے غیرمعمولی نتائج کی تمثیل ہے جو لوگوں کے لیے فتنہ بن جائیں گے، بالکل اُسی طرح جیسے سائنس کے فتوحات اِس وقت لوگوں کےلیے بن رہے ہیں۔
۴۔ مطلب یہ ہے کہ تم تو اُنھیں شکست نہیں دے سکے تھے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنی غیبی مدد سے اُنھیں ہلاک کردیا اور اُن کے غلبے سے تمھیں نجات دلادی ہے۔
۵۔ یہاں مواشی کا ذکر ہے، جب کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ’دواب الأرض‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ہمارے نزدیک اُنھی کو ترجیح دینی چاہیے، اِس لیے کہ مواشی کا گوشت کھانا بظاہر مستبعد ہے۔ تاہم رؤیا کے مشاہدات میں اِس طرح کی مستبعد چیزیں بھی بعض اوقات تمثیل کے پیرایے میں دکھادی جاتی ہیں، جیسا کہ قرآن کی سورۂ یوسف میں گایوں کے گایوں کو کھانے کا ذکر ہوا ہے۔مدعا وہی ہوگا کہ یاجوج وماجوج کی لاشیں پھر جانور ہی کھائیں گے۔
۱۔ اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۱۱۷۳۱سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں۔ متن کے کچھ اختلافات کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: سنن ابن ماجہ، رقم۴۰۷۹۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۱۱۴۴، ۱۳۵۱۔صحيح ابن حبان، رقم ۶۸۳۰۔
۲۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۷۹۔
۳۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۷۹ میں یہاں ’فَيَغْشَوْنَ الْأَرْضَ‘ کے بجاے ’فَيَعُمُّونَ الْأَرْضَ‘ کے الفاظ آئے ہیں، جب کہ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۱۱۴۴میں ’فَيَغْمُرونَ الْأَرْضَ‘ کے الفاظ ہیں۔ یہ تینوں تعبیرات ہم معنی ہیں۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۱۳۵۱میں ’فَيَغْشَوْنَ النَّاسَ‘، ’’لوگوں پر چھا جائیں گے‘‘کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۴۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۷۹میں یہاں ’بَقِيَ أَهْلُ السَّمَاءِ ‘ کے بجاے ’وَلَنُنَازِلَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ‘، ’’اب ہم آسمان والوں کا مقابلہ کریں گے ‘‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۵۔ سنن ابن ماجہ، رقم۴۰۷۹۔
عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ۱ «سَيُوقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ قِسِيِّ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ، وَنُشَّابِهِمْ، وَأَتْرِسَتِهِمْ سَبْعَ سِنِينَ».
وَعَنْهُ فِي رِوَايَةٍ۲ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، فَقَالَ: «يَسْتَوْقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ جِعَابِهِمْ وَنِشَابِهِمْ وَتِرَاسِهِمْ وَقِسِيِّهِمْ سَبْعَ سنين».
نواس بن سمعان سے روایت ہے کہ اُنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ نے فرمایا: یاجوج وماجوج کی کمانوں، تیروں اور ڈھالوں کو مسلمان سات سال تک ایندھن کے طور پر استعمال کریں گے۔ ۱
اُنھی سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ اُنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاجوج و ماجوج کا ذکر کرتے ہوئے سنا ۔اُن کا بیان ہے کہ اُس موقع پر آپ نے فرمایا: مسلمان اُن کی ترکشوں، تیروں، ڈھالوں اور کمانوں سے سات سال تک آگ جلاتے رہیں گے۔
________
۱۔ یہ اُس اسلحے کی افراط کا بیان ہے جو یاجوج و ماجوج مسلمانوں کے ساتھ کسی معرکے میں اپنے پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ اسلحے کے طور پر استعمال کے لیے وہ چونکہ بے کار ہو چکا ہو گا، اِس لیے فرمایا ہے کہ اِس کے بعد اُسے ایندھن ہی بنایا جائے گا۔ کسی چیز کے بے کار ہو جانے کو بیان کرنا مقصود ہو تو یہ تعبیر ہماری زبان میں بھی عام اختیار کی جاتی ہے۔اِس کی ایک تصویر اسلحے کے اُن ڈھیروں کی صورت میں دیکھ لی جاسکتی ہے جو ۲۰۲۱ء میں اِس وقت افغانستان میں چھوڑدیا گیا ہے۔
۱۔ اِس روایت کا متن سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۷۶سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ ہیں۔ متن کے کچھ اختلاف کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں: الآحاد والمثانی، ابن ابی عاصم، رقم۱۴۹۵۔ مجموع فیہ مصنفات ابی جعفر ابن البختری، رقم۱۸۰۔ تاريخ بغداد، خطیب بغدادی ۴/ ۲۷۲۔ المنتظم فی تاريخ الملوك والامم، ابن جوزی۱/۲۹۷۔
۲۔ تاريخ بغداد، خطیب بغدادی ۴/ ۲۷۲۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ۱ «لَيُحَجَّنَّ الْبَيْتُ وَلَيُعْتَمَرَنَّ بَعْدَ خُرُوجِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ».
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاجوج وماجوج کے خروج کے بعد بھی بیت الحرام کاحج اور عمرہ ہوتا رہے گا۔ ۱
________
۱۔ مطلب یہ ہے کہ یاجوج وماجوج کا فتنہ اگرچہ بہت بڑا ہوگا، لیکن اِس کے زمانے میں بھی اللہ کے بندے موجود رہیں گے جو اِن مراسم عبودیت کو اپنے پروردگار کے لیے قائم رکھیں گے۔ اِس میں مبتلا ہو کر ہر شخص خدا کے دین سے برگشتہ نہیں ہو جائے گا۔
۱۔ اِس روایت کا متن مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۵۴۳سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند احمد، رقم۱۱۲۱۷، ۱۱۲۱۹، ۱۱۴۵۵، ۱۱۶۱۷۔ صحيح بخاری، رقم۱۵۹۳۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۱۰۳۰۔ صحيح ابن خزیمہ، رقم ۲۵۰۷۔صحيح ابن حبان، رقم۶۸۳۲۔ مستدرك حاكم، رقم۸۳۹۹۔ حلیۃ الاولياء و طبقات الاصفياء، ابو نعیم۹/ ۱۶۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ