بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِيْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًاﵧ فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ ١٤ فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَصْحٰبَ السَّفِيْنَةِ وَجَعَلْنٰهَا٘ اٰيَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ ١٥
(یہی کچھ اگلو ں نے بھی کیا ہے)۔ ہم نے نوح کو اُس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا[16]تھا تو وہ پچاس کم ایک ہزار سال اُن لوگوں میں رہا،[17] (لیکن اِس کے باوجود وہ لوگ نہیں مانے تو) آخرکار اُنھیں طوفان نے آ گھیرا اور وہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھا رہے تھے۔ [18]پھر نوح کو اور کشتی والوں کو ہم نے بچا لیا اور اِس واقعے کو ہم نے دنیا والوں کے لیے ایک عظیم نشانی بنا دیا۔ ۱۴ -۱۵
وَاِبْرٰهِيْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاتَّقُوْهُﵧ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ١٦ اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْكًاﵧ اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْهُ وَاشْكُرُوْا لَهٗﵧ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ١٧
اِسی طرح ابراہیم کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا،[19] جب اُس نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی بندگی کرو اور اُس سے ڈرو۔یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانو۔ تم اللہ کو چھوڑ کر محض بتوں کو پوج رہے ہو اور اِس کے لیے جھوٹ گھڑتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ جنھیں تم خدا کو چھوڑ کر پوج رہے ہو، وہ تمھارے رزق پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔[20] سو اللہ ہی کے ہاں رزق تلاش کرو اور اُسی کی بندگی کرو اور اُسی کے شکر گزار رہو، تم اُسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ ۱۶ -۱۷
وَاِنْ تُكَذِّبُوْا فَقَدْ كَذَّبَ اُمَمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْﵧ وَمَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ ١٨
اور اگر جھٹلاؤ گے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اِس لیے کہ تم سے پہلے بھی بہت سی قومیں جھٹلا چکی ہیں اور خدا کے رسول پر تو صاف صاف پہنچا دینے ہی کی ذمہ داری ہے۔[21] ۱۸
اَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗﵧ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ ١٩ قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰهُ يُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَﵧ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ٢٠ﶔ يُعَذِّبُ مَنْ يَّشَآءُ وَيَرْحَمُ مَنْ يَّشَآءُﵐ وَاِلَيْهِ تُقْلَبُوْنَ ٢١ وَمَا٘ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَآءِﵟ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ ٢٢ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَلِقَآئِهٖ٘ اُولٰٓئِكَ يَئِسُوْا مِنْ رَّحْمَتِيْ وَاُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ٢٣
Al B کیا[22]اِنھوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ کس طرح خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر اُس کا اعادہ کر دیتا ہے؟[23] حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے لیے یہ نہایت آسان ہے۔ اِن سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اللہ نے کس طرح خلق کی ابتدا کی،پھر وہی اللہ اُسے دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا۔[24] حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (پھر کسی کے اختیار میں نہ ہو گا کہ اُس کے کسی فیصلے میں مداخلت کرے)۔ وہ جس کو چاہے گا، (اپنے قانون کے مطابق) عذاب دے گا اور جس پر چاہے گا، رحم فرمائے گا اور تم اُسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔ (لوگو) ،[25] نہ تم زمین میں خدا کے قابو سے باہر نکل سکتے ہو، نہ آسمان میں، اور اللہ کے سوا نہ تمھارا کوئی کارساز ہے، نہ مدد کرنے والا۔ اور جنھوں نے اللہ کی آیتوں اور اُس سے ملاقات کا انکار کر دیا ہے، وہی ہیں کہ میری رحمت سے محروم ہو کر مایوس ہو چکے[26] اور وہی ہیں کہ جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ۱۹ -۲۳
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖ٘ اِلَّا٘ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ٢٤
سو (ابراہیم نے اپنی دعوت پیش کی تو) اُس کی قوم کا جواب اِس کے سوا کچھ نہ تھا کہ آپس میں کہنے لگے: اِسے قتل کر دو یا جلا دو۔ پھر اللہ نے اُس کو آگ سے بچا لیا۔[27] اِس میں اُن لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان لائیں۔[28]۲۴
وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًاﶈ مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَاﵐ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًاﵟ وَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ ٢٥ﶦ
اُس نے کہا: تم نے اللہ کے سوا جو بت بنائے ہیں تو دنیا کی زندگی تک صرف آپس کی دوستی میں بنا لیے ہیں۔[29] پھر قیامت آئے گی تو اُس دن تم میں سے ہر ایک دوسرے کا انکار کرے گا اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجے گا[30] اور تمھارا ٹھکانا آگ ہو گا اور (اِن میں سے) کوئی وہاں تمھارا مددگار نہ بنے گا۔ ۲۵
فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌﶉ وَقَالَ اِنِّيْ مُهَاجِرٌ اِلٰي رَبِّيْﵧ اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ٢٦
اُس وقت لوط نے اُس کی تصدیق کی اور ابراہیم نے (جب یہ دیکھا کہ اُس کے سوا کوئی شخص بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے تو) کہا: میں اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کرتا ہوں۔[31] بے شک، وہی زبردست ہے ، بڑی حکمت والا ہے۔[32]۲۶
وَوَهَبْنَا لَهٗ٘ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَاﵐ وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ ٢٧
(اِسی استقامت کے صلے میں) ابراہیم کو ہم نے اسحٰق اور یعقوب عطا فرمائے[33] اور اُس کی اولاد میں نبوت جاری کی اور اُنھیں کتاب کا حامل بنایا اور اُس کا اجر اُسے دنیا میں دیا اور آخرت میں بھی وہ یقیناً ہمارے نیک بندوں میں سے ہو گا۔۲۷
وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ٘ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَﵟ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ٢٨ اَئِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَﵿ وَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَﵧ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖ٘ اِلَّا٘ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ٢٩
اِسی طرح لوط[34] کو رسول بنا کر بھیجا، جب اُس نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ کھلی بدکاری کے مرتکب ہوتے ہو۔[35] تم سے پہلے دنیا کی کسی قوم نے (اِس ڈھٹائی کے ساتھ اور اِس طرح قومی حیثیت میں) اِس کا ارتکاب نہیں کیا۔ کیا تم مردوں کے پاس جاتے ہو اور فطرت کی راہ مارتے ہو[36] اور اپنی مجلسوں میں (علانیہ) اِس برائی کا ارتکاب کرتے ہو؟[37] اِس پر اُس کی قوم کا جواب اِس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اُنھوں نے کہا: اگر تم سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔ ۲۸ -۲۹
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِيْ عَلَي الْقَوْمِ الْمُفْسِدِيْنَ ٣٠ وَلَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا٘ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰيﶈ قَالُوْ٘ا اِنَّا مُهْلِكُوْ٘ا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِﵐ اِنَّ اَهْلَهَا كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ ٣١ﶗ قَالَ اِنَّ فِيْهَا لُوْطًاﵧ قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِيْهَاﵟ لَنُنَجِّيَنَّهٗ وَاَهْلَهٗ٘ اِلَّا امْرَاَتَهٗﵟ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ ٣٢
لوط نے دعا کی کہ میرے پروردگار، اِن مفسدلوگوں کے مقابلے میں[38] میری مدد فرما۔ اور (اُس کی یہ دعا اِس طرح قبول ہو ئی کہ) ہمارے فرستادے جب ابراہیم کے پاس خوش خبری[39] لے کر آئے تو اُنھوں نے اُسے بتایا کہ ہم اِس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں،[40] اِس لیے کہ اِس کے لوگ ظالم ہو چکے ہیں۔[41] ابراہیم نے کہا: اُس میں تو لوط بھی ہے۔[42] اُنھوں نے جواب دیا کہ اُس میں جو لوگ بھی ہیں، اُنھیں ہم خوب جانتے ہیں۔ (آپ مطمئن رہیے)، ہم لوط کو اور اُس کے سب گھر والوں کو ضروربچا لیں گے، اُس کی بیوی کے سوا۔ وہ، البتہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہو گی۔[43] ۳۰ -۳۲
وَلَمَّا٘ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْٓءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّقَالُوْا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْﵴ اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَاَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ ٣٣ اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰ٘ي اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ٣٤ وَلَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَا٘ اٰيَةًۣ بَيِّنَةً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ٣٥
اور جب یہ ہوا کہ ہمارے فرستادے لوط کے پاس پہنچے تو اُن کے آنے سے وہ سخت پریشان اور تنگ دل ہوا۔ya[44] (اُس کی پریشانی دیکھ کر)اُنھوں نے تسلی دی کہ نہ اندیشہ کرو، نہ رنجیدہ ہو۔ تمھاری بیوی کے سوا، ہم تمھیں اور تمھارے سب گھر والوں کو بچا لیں گے۔ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ اِس بستی کے لوگوں پر ہم اُن کی نافرمانیوں کی پاداش میں آسمان سے عذاب اتارنے والے ہیں۔[45] (قریش کے لوگو)، اِس کی ایک واضح نشانی ہم نے اُن لوگوں کے لیے باقی رکھی ہے جو عقل سے کام لیں۔ [46]۳۳ -۳۵
وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًاﶈ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ ٣٦ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ ٣٧ﶚ
اور[47] مدین والوں کی طرف[48] ہم نے اُن کے بھائی شعیب کو بھیجا، پھر اُس نے دعوت دی کہمیری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو اور روزآخرت کے منتظر رہو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ پھر اُنھوں نے اُسے جھٹلا دیا تو آخر کار ایک زلزلے نے اُنھیں آ پکڑا۔ پھر وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ ۳۶ -۳۷
وَعَادًا وَّثَمُوْدَا۠ وَقَدْ تَّبَيَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْﶋ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ وَكَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ ٣٨ﶫ
عاد اور ثمود[49] کو بھی ہم نے اِسی طرح ہلاک کر دیا۔ اُن کی بستیوں کے آثار بھی تم پر کھلے ہوئے ہیں۔[50] اُن کے اعمال شیطان نے اُن کے لیے خوش نما بنا دیے اور اُنھیں راہ راست سے روک دیا، حالاں کہ وہ بڑے ہی ہوشیار لوگ تھے۔[51] ۳۸
وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامٰنَﵴ وَلَقَدْ جَآءَهُمْ مُّوْسٰي بِالْبَيِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ وَمَا كَانُوْا سٰبِقِيْنَ ٣٩ﶔ
n اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی ہلاک کر دیا۔[52] موسیٰ اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آگیا تھا۔ تاہم اُنھوں نے بھی زمین میں گھمنڈ کیا اور وہ بھی ہم سے کہیں بھاگ کر نہیں جاسکے۔۳۹
فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۣبِهٖﵐ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًاﵐ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُﵐ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَﵐ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَاﵐ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْ٘ا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ٤٠
سو اِن میں سے ہر ایک کو ہم نے اُس کے گناہ کی پاداش میں پکڑا، پھر اُن میں سے کوئی تھا کہ اُس پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دی[53] اور کوئی تھا کہ اُس کو کڑک نے آ لیا[54] اور اُن میں سے کوئی تھا کہ اُسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا[55] اور کوئی تھا کہ اُس کو ہم نے غرق کر دیا۔[56] حقیقت یہ ہے کہ اللہ اُن پر ظلم کرنے والا نہیں تھا، بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے تھے۔[57]۴۰
[16]۔ یعنی عذاب سے پہلے اتمام حجت کے لیے اُسی طرح رسول بنا کر بھیجا تھا، جس طرح اب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تمھاری طرف بھیجا ہے۔
[17]۔ نوح علیہ السلام کی لمبی عمر کا یہ حوالہ راہ حق کے مسافروں کو یہ بتانے کے لیے دیا گیا ہے کہ تم لوگ چند سال کی جدوجہد اور اُس کے مصائب و شدائد سے گھبرا اٹھے ہو، تم سے پہلے خدا کے پیغمبر اور اُن کے ساتھیوں کو بعض اوقات اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے سیکڑوں برس تک اِسی طریقے سے اور اِنھی حالات میں جدوجہد کرنا پڑی ہے۔
حضرت نوح کی عمر کے بارے میں بائیبل کا بیان بھی یہی ہے۔ تاہم طوفان سے پہلے کی مدت اُس میں چھ سو برس بتائی گئی ہے،جس کی قرآن نے یہاں تردید کر دی ہے۔ پیدایش میں ہے:
’’...اور طوفان کے بعد نوح ساڑھے تین سو برس اور جیتا رہا اور نوح کی کل عمر ساڑھے نو سو برس ہوئی، تب اُس نے وفات پائی۔‘‘ (۹ :۲۸ -۲۹ )
بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس دور میں عمروں کا اوسط بالعموم یہی تھا۔ چنانچہ نوح علیہ السلام کے باپ کی عمر سات سوستتر سال اور دادا کی نو سو انہتر سال مذکور ہے۔ اِسی طرح اُن کے دوسرے اجداد میں سے کسی کی عمر نو سو باسٹھ سال بتائی گئی ہے اور کسی کی آٹھ سو پچانوے سال۔ اِن بیانات کو جھٹلانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ خدا کا فیصلہ اگر ابتدا میں یہی رہا ہو، اِس پر کوئی تعجب نہ ہونا چاہیے۔ ہماری یہ زمین اُس وقت آباد ہو رہی تھی اور اِسے آباد رکھنے کے لیے غالباً یہی طریقہ موزوں بھی تھا۔
[18]۔ یعنی اُسی طرح ظلم ڈھا رہے تھے، جیسے اب تم لوگ اپنی جانوں پر ظلم ڈھا رہے ہو۔ چنانچہ باز نہیں آئے تو اتمام حجت کے بعد عذاب کا فیصلہ ہو گیا۔ استاذ امام کے الفاظ میں، سنت الٰہی یہی ہے کہ جس طرح اہل حق کا کامیابی کی منزل پر پہنچنے سے پہلے امتحان ضروری ہے، اُسی طرح اہل باطل پر عذاب سے پہلے اُن پر اتمام حجت ضروری ہے۔
نوح علیہ السلام کی قوم پر یہ عذاب دجلہ و فرات کے دو آبے میں آیا۔ چنانچہ آرمینیا کی سرحد پر کوہ ارارات کے نواح میں لوگ اب بھی اُس زمانے کے بعض آثار کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ارارات کے اوپر سے اڑنے والے جہازوں کا بیان ہے کہ اُنھوں نے پہاڑ کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹی پر ایک کشتی جیسی کوئی چیز دیکھی ہے۔ اہل علم کا خیال ہے کہ یہ غالباً وہی چیز ہے جسے الہامی کتابوں میں کشتی نوح کہا گیا ہے۔
[19]۔ ابراہیم علیہ السلام کی بعثت کم و بیش ۲۱ سو قبل مسیح میں اور عراق کے شہر ’ار‘ کے لوگوں کی طرف ہوئی تھی۔
[20]۔ یعنی اگر تم سمجھتے ہو کہ جو رزق و فضل تمھیں حاصل ہے، وہ اِن بتوں کی برکت سے ہے تو یہ محض وہم ہے۔ تمھیں جو کچھ مل رہا ہے، خدا کے قانون کے مطابق اور اُس کی عنایت سے مل رہا ہے۔ اِن میں سے کسی کا تمھارے رزق اور تمھاری خوش حالی میں کوئی دخل نہیں ہے۔
[21]۔ یہ نہایت سخت تنبیہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس کے بعد خدا کا رسول تو سبک دوش ہوجائے گا، لیکن جو پرسش ہو گی، وہ تم سے ہو گی اور اُس کا نتیجہ بھی تمھیں ہی بھگتنا پڑے گا۔
[22]۔ یہاں سے آگے آیت ۲۳ تک حضرت ابراہیم کی دعوت کے بیچ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تضمین ہے جس سے وہ بات مکمل بھی ہو گئی ہے اور مطابق حال بھی جو ابراہیم علیہ السلام نے، ’اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ‘ کے مختصر الفاظ میں فرمائی تھی۔
[23]۔ یہ اُسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے جس کا مشاہدہ ہم شب و روز اپنی زمین پر کرتے ہیں کہ زمین سرسبزوشاداب ہوتی ہے، پھر خشک اور بے آب و گیاہ ہو جاتی ہے، پھر آسمان برستا ہے اور یکایک وہ دوبارہ اُسی طرح سرسبزوشاداب ہو جاتی ہے۔
[24]۔ یعنی ابتدا دیکھ رہے ہو تو اِسی سے سمجھ لو کہ وہ اِسے دہرا بھی دے گا۔
[25]۔ اوپر کی باتیں غائب کے اسلوب میں تھیں۔ اب قریش کو براہ راست خطاب کرکے تنبیہ فرمائی ہے۔
[26]۔ اصل میں ’يَئِسُوْا مِنْ رَّحْمَتِيْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔’يَئِسُوْا‘ یہاں ’حَرَمُوْا‘ اور ’بَعُدُوْا‘ کے مفہوم میں ہے، یعنی ایسی محرومی جو کامل مایوسی کے ساتھ ہو گی۔
[27]۔ دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ بالآخر جلانے پر اتفاق ہوا اور ایک اسکیم بنا کر اُنھیں آگ میں پھینک دیا گیا، مگر اللہ نے آگ کو حکم دیا کہ ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا اور وہ ٹھنڈی ہو گئی۔ یہ اُس سنت الٰہی کے مطابق ہوا جو رسولوں کے باب میں مقرر کی گئی ہے کہ اُن کے دشمن اُن پرغلبہ نہیں پا سکتے اور تکذیب پر جمے رہیں تو زمین سے مٹا دیے جاتے ہیں۔
[28]۔ یعنی اِس بات کی نشانیاں کہ ایمان والوں کو بعض اوقات اپنے ایمان کی خاطر آگ کے الاؤ کے اندر سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے اور اِس بات کی کہ اپنے رسولوں کوخدا کبھی تنہا نہیں چھوڑتا، بلکہ لازماً اُن کی مدد کرتا ہے۔
[29]۔ اصل میں ’مَوَدَّةَ بَيْنِكُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن کا نصب ہمارے نزدیک بیان علت کے لیے نہیں، بلکہ بیان حال کے لیے ہے۔ ہم نے ترجمے میں اِسے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
[30]۔ یہاں اجمال ہے، قرآن میں دوسرے مقامات میں تفصیل کر دی ہے کہ کس طرح زعما اور اُن کے پیرو اور عابد اور معبود وہاں ایک دوسرے کو لعنت ملامت کریں گے۔
[31]۔ اِس میں اہل ایمان کے لیے تنبیہ ہے کہ اِس وقت جس ردعمل کا اُنھیں سامنا ہے، وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ابراہیم علیہ السلام جیسی ہستی پر بھی ایساوقت گزر چکا ہے کہ ایک بھتیجے کے سوا کوئی دوسرا شخص اُن کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔
[32]۔ یعنی زبردست ہے، لہٰذا راہ کھولنا چاہے گا تو کوئی اُس میں رکاوٹ نہ ڈال سکے گا، لیکن اُسی وقت کھولے گا، جب اُس کی حکمت کا تقاضا ہو گا، اِس لیے کہ حکیم بھی ہے۔
[33]۔ اُن کے دوسرے بیٹوں کا ذکر اِس لیے نہیں ہوا کہ آگے جس نعمت کا ذکر ہے، وہ ڈھائی ہزار سال تک اُن کی اولاد کی اُسی شاخ کو عطا ہوتی رہی جو حضرت اسحٰق سے چلی تھی۔ بنی مدیان میں حضرت شعیب اور بنی اسمٰعیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نبی نہیں آیا۔
[34]۔ حضرت لوط سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ اُن کی قوم اُس علاقے میں رہتی تھی جو شام کے جنوب میں عراق و فلسطین کے درمیان واقع ہے اور آج کل شرق اردن کہلاتا ہے۔ بائیبل میں اُن کے سب سے بڑے شہر کا نام سدوم بتایا گیا ہے۔
[35]۔ لوط علیہ السلام کی قوم بھی ایک مشرک قوم ہی تھی، لیکن اِس کے ساتھ امرد پرستی کی بے حیائی کو اِس طرح اپنی قومی تہذیب بنا چکی تھی کہ اُنھیں سب سے بڑھ کر اِسی پر توجہ کرنی پڑی۔
[36]۔ یعنی خدا نے جو راستہ انسان کی جنسی جبلت کی تسکین کے لیے مقرر کر رکھا ہے، اُسے بند کرتے ہو۔ یہ اِس برائی میں مبتلا ہونے کا لازمی نتیجہ ہے۔ اِس سے عورتوں کی طرف مردوں کی رغبت بالکل ختم ہو جاتی ہے اور اگر کچھ رہتی بھی ہے تو اِسی طرح کے انحرافات کی صورت میں رہتی ہے جو بجاے خود پاکیزگی اور لطافت کے احساس کو انسان کے اندر ختم کر دینے کا باعث بن جاتے ہیں۔ چنانچہ دبر کے راستے مباشرت کو اللہ تعالیٰ نے بیویوں کے معاملے میں بھی اِسی بنا پر ممنوع ٹھیرایا ہے۔
[37]۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ لوط علیہ السلام کی قوم امرد پرستی میں کس مقام تک پہنچ گئی تھی کہ لوگ علانیہ اِس کا ارتکاب کرتے اور فخر و لذت کے ساتھ ہر بزم و انجمن میں اِس کا چرچا کرتے تھے۔
[38]۔ یعنی اُن لوگوں کے مقابلے میں جو خدا اور خدا کے رسول کے آگے بھی سرکشی اور تمرد پر اتر آئے ہیں۔ اُنھیں مفسد اِسی بنا پر کہا ہے۔
[39]۔ یعنی بیٹے اور پوتے کی خوش خبری۔ اوپر آیت ۲۷ میں اِس کا ذکر ہو چکا ہے۔
[40]۔ فرشتوں نے یہ غالباً حبرون (موجودہ الخلیل) کی پہاڑیوں سے اشارہ کرکے کہا ہے کہ ہم اِسی بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں۔ حضرت ابراہیم اُس وقت فلسطین کے اِسی شہر میں مقیم تھے اور یہ بستی اُس کے جنوب مشرق میں نیچے کی طرف چند میل کے فاصلے پر ٹھیک اُسی جگہ واقع تھی، جہاں اب بحیرۂ مردار کا پانی پھیلا ہوا ہے۔ حبرون کی پہاڑیوں سے یہ علاقہ صاف نظر آتا ہے۔
[41]۔ یعنی وہی فرشتے جو ابراہیم علیہ السلام کے لیے خوش خبری لے کر آئے، اُنھوں نے بتایا کہ اُن کے پاس قوم لوط کے ظالم لوگوں کے لیے عذاب کا تازیانہ بھی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِس سے مشرک قوموں کے اِس واہمے کی بھی تردید ہو رہی ہے جس میں وہ اِس کائنات کے اندر اضداد کے وجود کے سبب سے مبتلا ہوئیں کہ اُنھوں نے خیر وشر کے الگ الگ دیوتا مان کر اُن کی الگ الگ عبادت شروع کر دی۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۳۷)
[42]۔ سورۂ ہود میں تصریح ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے پہلے پوری قوم کے لیے رحم کی درخواست کی، لیکن جب وہ قبول نہیں ہوئی تو قدرتی طور پر اُنھیں لوط علیہ السلام اور اُن کے گھر والوں کی فکر لاحق ہوئی۔ اُن کی زبان سے یہ جملہ غالباً اُسی موقع پر نکلا ہے۔
[43]۔ یہ خدا کے بے لاگ انصاف کا اظہار ہے۔ لوط علیہ السلام کی بیوی غالباً اپنی قوم اور خاندان کی عصبیت کے باعث حق کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئی تو پیغمبر کی بیوی ہونا اُس کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہو سکا۔ حضرت نوح کے بیٹے اور حضرت ابراہیم کے باپ کی طرح وہ بھی اُسی انجام کو پہنچ گئی جواُس کی قوم کے لیے مقدر ہو چکا تھا۔
[44]۔ اصل الفاظ ہیں:’وَلَمَّا٘ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْٓءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا‘۔اِن میں ’لَمَّا‘ کے بعد ’اَنْ‘ دلیل ہے کہ شرط اور جواب شرط میں سبب اور مسبب کا تعلق پیدا ہو گیا ہے۔ اِس کی وجہ قرآن کے دوسرے مقامات سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ فرشتے خوب رو نوجوانوں کی صورت میں آئے تھے اور لوط علیہ السلام اپنی قوم کی بیماری سے واقف تھے، چنانچہ اُنھیں اندیشہ ہوا کہ بستی کے گنڈے اُنھیں دیکھ کر ٹوٹ پڑیں گے اور اُنھیں اور اُن کے مہمانوں کو رسوا کردیں گے۔پھرجب فرشتوں نے بتایا کہ وہ عذاب لے کر آئے ہیں تو اُنھیں یہ فکر لاحق ہو گئی کہ معلوم نہیں، اب اُن کے اور اُن کے خاندان کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا۔ قرآن نے دونوں مرحلوں کی اِس پریشانی کو اپنے اسلوب کے مطابق، بالاجمال ایک ہی جملے میں بیان کر دیا ہے۔
[45]۔ آیت میں عذاب کے لیے ’رِجْز‘ کا لفظ آیا ہے، یعنی وہ عذاب جو سننے اور دیکھنے والوں کے دلوں میں کپکپی پیدا کر دے۔اِس پر مزید یہ کہ یہ آسمان سے نازل ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کی طرف سے نازل ہو گا اور قہر الٰہی بن کر ٹوٹ پڑے گا۔ خدائی عذاب کے لیے یہ تعبیر ہماری زبان میں بھی اِسی طرح اختیار کی جاتی ہے۔
[46]۔ یہ مخاطبین کو توجہ دلائی ہے کہ بصیرت کی آنکھ ہو تو جس سنت الٰہی کے ظہور سے تمھیں متنبہ کیا جا رہا ہے، اُس کی ایک واضح نشانی شام کی طرف اپنے تجارتی سفروں میں جاتے ہوئے تم ہر وقت دیکھ سکتے ہو۔
[47]۔ اوپر کی سرگذشتیں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ یہاں سے آگے اب بالاجمال قوم شعیب، عاد و ثمود اور انسانی تاریخ کے بعض سرکش افراد کا حوالہ دے کر اُسی حقیقت کو مبرہن کر دیا ہے جس کی طرف سورہ کی تمہید میں اشارہ فرمایا ہے کہ خدا کے رسولوں کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرنے والے ہرگز خیال نہ کریں کہ وہ خدا کے قابو سے باہر نکل سکتے ہیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ خدا ڈھیل دیتا ہے، لیکن اِس کے بعد لازماً پکڑتا ہے اور اِس طرح پکڑتاہے کہ دنیا کی کوئی چیز بھی اُن کے کام نہیں آتی۔
[48]۔ اِن کی بستی ابراہیم علیہ السلام کے صاحب زادے مدیان کے نام پر، جو اُن کی تیسری بیوی قطورا کے بطن سے تھے، مدین یا مدیان کہلاتی تھی۔اِس میں زیادہ تر اُنھی کی نسل آباد تھی۔ اِس کا اصل علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا، مگر اِس کا کچھ سلسلہ جزیرہ نماے سینا کے مشرقی ساحل پر بھی پھیلا ہوا تھا۔ اُس زمانے کی دو بڑی تجارتی شاہ راہیں اِسی علاقے سے گزرتی تھیں، اِس وجہ سے مدین کے لوگوں نے بھی تجارت میں بہت ترقی کر لی تھی۔ قریش کا اصل میدان بھی یہی تھا۔ غالباً اِسی مناسبت سے اِن کا ذکر یہاں خاص طور پر کیا گیا ہے۔
[49]۔ عاد عرب کی قدیم ترین قوم ہے۔ یہ سامی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اِن کا مسکن احقاف کا علاقہ تھا جو حجاز، یمن اور یمامہ کے درمیان الربع الخالی کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ عرب کے لٹریچر میں یہ اپنی قدامت کے لیے بھی ضرب المثل ہیں اور اپنی قوت و شوکت کے لیے بھی۔ ثمود اِنھی کے بقایا میں سے ہیں۔ اِسی بنا پر اِنھیں عادثانی کہتے ہیں۔ عرب کی قدیم اقوام میں سے یہ دوسری قوم ہے جس نے عاد کے بعد غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ اِن کا مسکن شمال مغرب کا وہ علاقہ تھا جسے الحجر کہا جاتا ہے۔ حجاز کے شمالی حصے میں رابغ سے عقبہ تک اور مدینہ و خیبر سے تیما اور تبوک تک کا ساراعلاقہ آج بھی اِن کی تعمیرات کے آثار سے بھرا ہوا ہے۔
[50]۔ یعنی تم پر مخفی نہیں ہیں، اپنے تجارتی سفروں میں تم اِن کے کھنڈروں پر سے گزرتے ہو جو آج بھی اِن کی سرگذشت زبان حال سے تمھیں سنا رہے ہیں۔
[51]۔ یعنی دنیوی معاملات میں بڑے ماہر اور علم و فن میں بڑے زیرک و چالاک تھے، لیکن اُن کی یہی زیرکی اور چالاکی اُن کے لیے مزلۂ قدم بن گئی اور شیطان آخرت جیسی بدیہی حقیقت سے اُنھیں غافل کردینے میں کامیاب ہو گیا۔
[52]۔ اِس سلسلۂ بیان میں کسی جگہ ’اَرْسَلْنَا‘ اور کسی جگہ ’اَخَذْنَا‘ یا اِن کے ہم معنی افعال بربناے قرینہ حذف کر دیے گئے ہیں۔ چنانچہ یہ تینوں نام بھی اُسی فعل محذوف کے تحت ہیں جواوپر ’عَادًا وَّ ثَمُوْدًا‘ کا عامل ہے۔ اِن سے پہلے قوموں کا ذکر تھا۔ اب یہ تاریخ کے بعض نمایاں مستکبرین کا ذکر کیا ہے تاکہ قریش کے ابوجہل اور ابولہب بھی اپنی صورتیں اِس آئینے میں دیکھ لیں اور یہ بھی دیکھ لیں کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد ایسے مستکبرین کا انجام کیا ہوا کرتا ہے۔
[53]۔ جیسے قوم لوط۔
[54]۔ جیسے عاد و ثمود اور مدین کے لوگ۔
[55]۔ جیسے قارون۔
[56]۔ جیسے فرعون اور ہامان۔
[57]۔ مطلب یہ ہے کہ یہ تمام سرگذشتیں خدا کے ظلم کی نہیں، بلکہ اُس کے انصاف کی سرگذشتیں ہیں۔ لہٰذا متنبہ ہو جاؤ،اُس کے انصاف کا دن اب تمھارے لیے بھی آنے والا ہے۔ یہ خدا کا حلم اور اُس کی بردباری ہے کہ وہ ابھی تمھیں ڈھیل دے رہا ہے۔ اِس سے فائدہ اٹھاؤ اور سرکشی چھوڑ کر ہمارے پیغمبر کے سامنے سر اطاعت جھکا دو، ورنہ اُسی انجام سے دوچار ہو جاؤ گے جو تم سے پہلے اِن ظالموں کا ہو چکا ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ