HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

سیاسی، سماجی اور مذہبی قائدین کا رویہ: جناب جاوید احمد غامدی کے افادات کی روشنی میں

مذہبی اور سیاسی قائدین کو اپنے رفقا و معاونین کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ یہ سوال ہر زمانے میں اہم رہا ہے، مگر موجودہ زمانے میں تنظیم سازی کے رجحان نے اِس کی اہمیت میں بہت اضافہ کیا ہے۔  ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں، مذہبی تنظیمیں، فلاحی انجمنیں اب اجتماعی نظم میں کام کرتی ہیں ۔ اِس کے نتیجے میں قائدین اور معاونین و انصار  کے دو اجزا وجود میں آتے ہیں جو باہم مل کر جدوجہد کرتے ہیں۔  قائدین  لوگوں کو بلاتے ہیں اور لوگ اُن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اُن کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ساتھ دینے کے اِس عمل کا محرک کوئی اعلیٰ آدرش، کوئی نیک مقصد ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ پورے اخلاص  کے ساتھ اُن سے متعلق  ہوتے اور دامے، درمے، سخنے، ہر طرح سے ایثار کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ اِس تعلق خاطر اور ایثار و محبت کے نتیجے میں اُن کے اندر فطری طور پر یہ طلب پیدا ہوتی ہے کہ قائدین اُن کی طرف ملتفت ہوں، اُن کی حوصلہ افزائی کریں، اُن کی قدر پہچانیں اور اُن کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آئیں۔ یہ رویہ اگر نہ ملے تو وہ رنجیدہ اور بد دل ہو کر کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں اور بعض صورتوں میں مخالفت اور معاندت کی حد تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ یہ انسانوں کی عام عادت ہے۔ ہر زمانے، ہر علاقے اور ہر قوم کے لوگ اِسی پر عمل پیرا   ہیں ۔ اِس معاملے میں اُن میں کوئی فرق نہیں ہے۔

اِس امر واقعی کا تقاضا ہے کہ قائدین اپنے اندر خوے دل نوازی کو پیدا کریں۔وہ اگر مخاطبین کو متعلق رکھنا چاہتے اور اُنھیں اپنا ہم نوا اور دست و بازو بنانا چاہتے ہیں تو اِس سے مفر نہیں ہے۔ پھر  اُنھیں اپنے اندر مہربانی اور کرم گستری کی خُو پیدا کرنی ہو گی ۔   اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اُن کے ساتھ نرمی اور محبت سے بات کریں ، ہر معاملے میں خوش خُلقی سے پیش آئیں، اُن کے مشورے کو توجہ سے سنیں ،  اُن کا حوصلہ بڑھائیں، اُن کی غلطیوں سے صرف نظر کریں ، اُن کے جذبات کی قدر کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُن کی عزت نفس کا خیال رکھیں۔ یہی رویہ ہے جو ہر قافلہ سالار اور ہر میر کارواں کے لیے زادراہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاعر مشرق نے بالکل درست کہا ہے :

نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

 قرآن مجید نے اِس بات کو آخری درجے میں واضح کر دیا ہے۔ اُس نے رہبر کامل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل اور اسوۂ حسنہ کو ایک قطعی اصول کے طور پر پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ قیادت سے پروردگار کا مطلوب رویہ وہی ہے جس کا بہترین نمونہ اُس کے رسول نے پیش کیا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْﵐ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَﵣ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِ. (آل عمران ۳: ۱۵۹)
’’سو یہ اللہ کی عنایت ہےکہ تم اِن کے لیے بڑے نرم خو واقع ہوئے ہو، ( اے پیغمبر)۔ اگر تم درشت خو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمھارے پاس سے منتشر ہوجاتے۔ اِس لیے اِن سے درگذر کرو، اِن کے لیے مغفرت چاہو اور معاملات میں اِن سے مشورہ لیتےرہو۔‘‘

یہ پروردگار عالم کا خراج تحسین ہے اور اُس ہستی کے لیے ہے جو اللہ کا پیغمبر ہے، جس پر نبوت ختم ہوئی ہے اور جو اِس زمین پر قیامت تک کے لیے دین کا تنہا ماخذ ہے، جو ’اَلنَّبِيُّ اَوۡلٰي بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ[*]کے مقام پر فائز ہے  ـــــ  یعنی اُس کا حق مسلمانوں پر خود ان کی اپنی ذات سے بھی مقدم ہے  ـــــ جس کی اطاعت اللہ کی اطاعت اور جس کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے، جو سلاطین کا سلطان ، امیروں کا امیر اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے، جس کے آگے گردنیں جھکتی، سر نگوں ہوتے اور دل فرش راہ ہوتے ہیں۔ اِس عظیم المرتبت ہستی کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگر آپ نرم خو اور رحم دل نہ ہوتے تو یہ سب لوگ آپ سے منتشر ہوجاتے۔ گویا پوری طرح   واضح کر دیا کہ نرم خوئی اوردل نوازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی واجب الاطاعت ہستی کے لیے بھی ضروری ہے ۔  چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ اللہ نے اِس کا نہایت وافر بہرہ آپ کو عطا فرمایا تھا اور آپ نے اُس کی  توفیق سے اِسے اِس سطح پر پہنچا دیا تھا کہ دنیا پکار اٹھی :

سلام اُس پر کہ اسرار محبت جس نے سکھلائے

سلام اُس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے

سلام اُس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں

سلام اُس پر کہ جس نے گالیاں کھا کر دعائیں دیں

واضح ہوا کہ قیادت کے لیے ناگزیر وصف خوے دل نوازی ہے۔ یہی اللہ کا مطلوب رویہ ہے اور یہی اُس کے رسول کا سلوک ہے۔ یہ وصف اگر کسی رہنما میں نہیں ہے تو وہ ہزار اوصاف رکھنے کے باوجود لوگوں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتا۔ رہنماؤں کو سمجھنا چاہیے کہ جب لوگ اُن کے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں تو اُنھیں داروغہ اور کوتوال سمجھ کر نہیں چل رہے ہوتے۔ یہ اخوت و محبت کا رشتہ ہے جس میں وہ بندھے ہوتے ہیں۔ اُن لوگوں کا خیال بہت غلط ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سخت تنقید کر نے سے، بار بار غلطی کا احساس دلانے سے، عیب چینی سے، طنز و تعریض سے، درشت خوئی سے، سخت مزاجی سے اور محاسبے اور مواخذے سے اچھا نظم وجود میں آتا ہے۔ یہ سراسر خام خیالی ہے۔ اِس طریقے سے اچھا نظم تو کیا وجود میں آئے گا، خود نظم کا وجود ہی خطرے میں پڑ سکتاہے۔ ایسے لوگ اگر قیادت کے منصب پر فائز ہو جائیں تو وہ اداروں، تنظیموں اور جماعتوں کو چلانے کے بجاے اُنھیں برباد کر دیتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ رضا کارانہ آئے ہوتے ہیں یا کسی بڑے مقصد کے لیے شریک عمل ہوتے ہیں، وہ ناقدری، بدلحاظی ، دھونس، ملامت، درشتی کو قبول نہیں کرتے۔ اُنھیں دل گرفتہ اور آب دیدہ کر کے ساتھ کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ اُنھیں ساتھ لے کر چلنے کا واحد طریقہ لطف و کرم ہے۔ قیادت کو اُن کی محبت کی قدر کرنی چاہیے۔ اُس کا جواب زیادہ محبت سے دینا چاہیے۔ وہ اگر دس قدم ساتھ چلتے ہیں تو اُن کی شکر گزار ہو اور اگر دو قدم ساتھ دیتے ہیں تب بھی اُن کا شکریہ ادا کرے۔ جو جتنا تعاون کرے، اُسے خندہ پیشانی سے قبول کرے ، زیادہ کا مطالبہ کر کے اُنھیں مشکل میں گرفتار نہ کرے۔ اُن سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو شفیق استاد اور خیر خواہ دوست کی طرح اُنھیں توجہ دلائے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قیادت کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ خوے دل نوازی سے متصف ہو۔ اگر اتفاقاً کوئی ایسا شخص قیادت کے منصب پر فائز ہو جائے  جو اِس وصف کا حامل نہیں ہے تو اُسے اِس کو پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کامیاب ہو جائے تو منصب سے وابستہ رہے، ورنہ اُسے کسی شیریں سخن، کسی گداز قلب، کسی محبت شعار کے لیے چھوڑ دے۔ وہ اگر ایسا نہیں کرتا تو سمجھ لینا چاہیے کہ پھر معاملہ وہی ہو گا کہ:

کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بدگماں حرم سے

کہ امیر کارواں میں نہیں خوے دل نوازی

ـــــــــــــــــــــــــ

 

[*]  الاحزاب ۳۳: ۶۔

B