’’السلام علیکم، پیارے بھائی جان، کیسے ہیں؟‘‘۔ انیس صاحب کا یہ ملاقات کا جملہ تھا، میں ان سے عمر میں چھوٹا تھا، مگر وہ اسی جملے سے گفتگو کا آغاز کرتے تھے۔انیس صاحب دراصل انسان دوست شخصیت تھے۔ ان کی انسان دوستی جمال ہستی کے گرد گھومتی تھی، نہ کہ انسان کے گرد۔ لہٰذا جن کے گلے، آواز، گفتگو، فکر ،شعر یا نثر وغیرہ میں انھیں اپنی پسند کا جمال دکھائی دیتا، وہ انھیں دوست رکھتے تھے۔شاید خدا سے ان کے تعلق کی بنیادیں بھی یہی تھیں کہ جو خدا خود بھی جمیل ہے اور اس کی تخلیق بھی جمیل ہے۔ فلسفہ و تصوف کا جمال اور ہے، اور انیس مفتی کا جمال اور۔ انیس مفتی خیالی نہیں وجودی جمال کےقائل تھے، خواہ اسے کوئی نام نہ دے سکے ہوں۔
دین داری ان کے ہاں وفا شعاری کا دوسرا نام تھا۔جس طرح وہ انسانوں سے رشتہ و پیوند کو قائم رکھتے تھے، ویسے ہی وہ خدا سے اپنے پیوند بندگی پر قائم رہے۔یہ وفاداری معصومانہ رنگ کی تھی، جس میں ملمع کاری نہیں تھی۔ ان کی شخصیت میں فطرت کائنات کی طرح کئی تضادات ہم آہنگ ہو گئے تھے، مثلاً صاف گو، مگر صلح جو؛ ہوشیار، مگر معصوم؛ سادہ، مگر پرکار؛ صاحب ثروت، مگر فقیر؛ حوصلہ افزا، مگر ناقد؛ دوست، مگر ناصح؛ انجینئر، مگر آرٹسٹ؛ جمال پرست، مگرسادگی پسند۔ اس طرح کی بے شمار چیزیں تھیں، جو ان کی تعمیر شخصیت میں کام آئی تھیں۔
’’المورد‘‘ کے ساتھ ان کا بہت پرانا تعلق تھا۔ شاید انھیں بانیوں میں شمار کیا جانا ہی صحیح ہوگا۔وفاداری بہ شرط استواری کے اصول پر وہ ہمیشہ ’’المورد‘‘ سے جڑے رہے۔استاذ گرامی سے ان کے دوستانہ مراسم تھے، اور تاحیات قائم رہے۔ یہ دوستی بھی عقیدت اور برابری کے دو متضاد عناصر کا مرقع تھی کہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔
اب کچھ یادیں پیش خدمت ہیں:
ہر انسان دوسروں کو اپنے حوالے سے دیکھتا ہے۔ میرے ساتھ ان کے مراسم بہت گہرے نہیں تھے۔ اس میں قصور میرا تھا کہ میں طبعاً کسی کو بھی بہت قریب نہیں آنے دیتا کہ وہ میری مدد کرے، ابھارے ، حوصلہ دے، یاترس کھائے وغیرہ۔انیس صاحب کا دوستی کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ اپنی گاڑی میں بٹھا کر یا بیٹھک میں بیٹھ کر تادیر باتیں کرتے، اور محبت بھرے لہجے میں انسان کو جاننے کی کوشش کرتے۔ میرے ساتھ بھی ان کے دو تین سفر رہے ہیں۔ ایک میں انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر تم ’’المورد‘‘ میں نہ آتے تو کیا بنتے؟ میں نے کہا کہ میں شاعر، مصور یا سائنس دان ہوتا۔ کہنے لگے: ہاں، شاعر ہوتے یہ تو میں مانتا ہوں، باقی کا پتا نہیں ہے۔
مجھے ایک زمانے میں کہتے رہے کہ پنجابی کی بقا کے لیے ہمیں جدوجہد کرنی چاہیے۔ شاید وہ مجھے اس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے، لیکن میں نے ان کی سنی ان سنی کردی۔ البتہ یہ معاملہ تا حیات رہا کہ وہ اردو میں بات شروع کرتے اور تھوڑی دیر بعد کہتے اردو بولتے بولتے منہ تھک گیا ہے، چلو اب پنجابی میں بات کرتے ہیں۔ پنجابی کے کئی لہجوں میں وہ بہ سہولت بات کرلیتےتھے۔
شاعری سے انھیں بہت رغبت تھی۔ایک زمانے میں انھیں کسی غزل کے شاعر کا نام معلوم کرنا تھا۔ انھوں نے عزیز حامد مدنی کی غزل کہیں سے سنی تھی کہ ’’ تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی ‘‘۔ ان دنوں مجھے اس کے شاعر کا علم نہیں تھا۔ اس کی تلاش میں نہ جانے انھوں نے کتنے لوگوں سے ملاقات کی، حنیف ندوی مرحوم بھی ان دنوں زندہ تھے، ان سے ملنے بھی گئے ۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ شاعر سے واقف ہوئے کہ نہیں؟
موسیقی کے وہ دل دادہ تھے۔ایک دن نہ جانے میں غالب کا کوئی شعرگنگنا رہا تھا اور ’’المورد‘‘ میں بیٹھا ہوا کوئی کام بھی کررہا تھا۔ ان دنوں میرے پاس ’’المورد‘‘ کے اکاؤنٹس کا کام بھی ہوتا تھا۔ ’’المورد‘‘ اس دور میں K -۵۱ ، ماڈل ٹاؤن میں استاذ گرامی کی بیٹھک میں قائم تھا۔ نہ جانے وہ کب کمرے میں آئے، مجھے نہیں معلوم۔ وہ کہیں سنتے رہے اور بولے تمھارے گلےمیں سر نہیں ہے،اس لیے نہ گنگناؤتو بہتر ہے۔
’’المورد‘‘ کی لائبریری بھی ایک زمانے میں میرے ذمے تھی، کتابوں کی صفائی، الماریوں میں انھیں لگانا، استعمال کے بعد دوبارہ ان کی جگہوں پر رکھنا، وغیرہ۔ کتابوں کو شیلف کرنے کا ایک سلیقہ استاذ گرامی میں ہے کہ وہ کتابوں کو الماری میں نگینوں کی طرح جڑ دیتے ہیں۔ میں نے یہ چیز ان سے سیکھی تھی،اس ہنر کو ’’المورد‘‘ کی لائبریری میں استعمال کرتا تھا۔ایک دن میں ایسا کررہا تھا کہ انیس صاحب آئے تو بولے کتابوں سے شاعری ہورہی ہے!(یہ جملہ پنجابی میں تھا)۔
’’المورد‘‘ میں ، ایک دور میں ہر ہفتہ ایک ادبی نشست ہوتی تھی۔ اس میں شاعر انہ اور ادبی فن پارے پیش کیے جاتے تھے۔ طالب محسن، یاسر مجید صدیقی، میرے مرحوم بھائی زاہد حسین، خورشید احمد ندیم اور دیگر لوگ اس میں شریک ہوتے تھے۔ انیس صاحب ہمیشہ سامعین میں موجود ہوتے تھے، وہ سیر سپاٹے اور سفر کو پسند کرنے والے لوگوں میں سے تھے۔ ایک دن میری ایک غزل کا شعر تھا:
چلتے رہنا پسند ہے مجھ کو
میں یہ چاہوں کہ گھر نہ آئے کبھی
یہ شعران کی طرز زندگی کا غماز تھا،سن کر بہت خوش ہوئے۔ میں نے دراصل علمی سفر کے لیے یہ شعر کہا تھا، لیکن ان کے لیے یہ راہ گذاروں، شاہ راہوں اور پگڈنڈیوں کا سفر تھا، جن کا جمال انھیں اپنی طرف ہمیشہ راغب رکھتا تھا۔اس سفر میں انسان بھی ان کی راہ گذار کے مناظر تھے، جنھیں ٹھیر کر وہ دیکھنے لگ جاتے تھے۔ محمد رفیع مفتی بھی ان کے اس معاملے میں ہم مشرب تھے ، گو پیالے الگ الگ رہے ہوں۔جو شعر پسند نہیں ہوتا تھا، فوراً کہتے: اے کی بونگی ماری اے، کوئی گھٹیا جئی گل ہو گئی اے، اینوں ایس طرح ہونا چاہی دا اے۔ یعنی یہ کیا بے معنی اور گھٹیا سا شعر کہہ دیا ہے۔اس کو یوں ہونا چاہیے۔
میرے ساتھ اصلاح کا جذبہ بھی ان کی طرف سے کرم فرما رہا۔ اٹھنے بیٹھنے ، لباس وغیرہ پر وہ اکثر تبصرہ کردیتے تھے کہ یہ اچھا ہے، یایہ نہ پہنا کرو، وغیرہ۔
آخر پر دعا ہے کہ وہ اپنے نام کے مطابق سب کے انیس تھے، اور کل قیامت کے دن انیس الرحمٰن بھی ثابت ہوں اورجنت کے اعلیٰ درجات پر فائز ہوں۔آمین
ـــــــــــــــــــــــــ