HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم

محمد عاصم مغل


[جناب جاوید احمد غامدی کی تحریر و تقریر سے اخذ و استفادہ پر مبنی]

 

بندۂ مومن کے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے کہ اس کے دل میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ محبت موجود ہو۔ اس محبت کی وسعت اورعظمت  کا عالم  یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے بعدتمام محبتیں اس ایک محبت  کے تابع ہوں ۔ وہ اپنی  اولاد، اپنے والدین ، اپنے احباب ، اپنے اعزہ ، حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی آپ کی ذات کو مقدم اور عزیز سمجھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’اَلنَّبِيُّ اَوْلٰي بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ‘،’’نبی کا حق مومنوں  پر اُن کی ذات سے بھی مقدم ہے‘‘(الاحزاب٣٣: ۶)۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی اسی طرف  متوجہ کرتا ہے۔ فرمایا ہے:’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک وه مجھے اپنی اولاد، اپنے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بنا لے۔‘‘(بخاری، رقم ۱۵۔ مسلم، رقم ۱۷۸)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے  ہماری محبت غیر معمولی ہے، اس لیے اُس کے اظہار کا جذبہ بھی بے پناہ ہے۔  ہمارے ہاں عید میلاد النبی کا تہوار اسی ذوق و شوق کی علامت ہے۔ اس کا محرک یقیناً ایک نیک اور پاکیزہ جذبہ ہے، مگر چونکہ اسے ایک مذہبی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے، اس لیے اس کے بارے میں ایک بنیادی  سوال کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے۔ وہ سوال یہ ہے  کہ  کیا اس تہوار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے اور  آپ کے حکم کی تعمیل میں آپ کے صحابہ نے  اسے ایک سالانہ جشن کے طریقے پر منایا ہے؟

جناب جاوید احمد غامدی اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے سال میں دو تہوار مقرر کیے  ہیں: ایک عید الفطر اور دوسرے عید ا لاضحیٰ ۔انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔  آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ  کی اتباع  میں انھی کو منایا اور بہ طور تہوار امت کو منتقل کیا ہے۔  دین ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم ان میں اپنی جانب سے کوئی ترمیم و اضافہ کر سکیں۔ لہٰذا ان کے علاوہ کسی اور دن کو مذہبی تہوار کے طور پر پیش کرنا یا اختیار کرنا درست نہیں ہے۔

 اس میں شبہ نہیں کہ انسانی تاریخ میں  بڑی شخصیات کے دن منانے کی روایت ہمیشہ موجو د رہی ہے اور ہمارے ہاں  قائداعظم محمد علی جناح  اور شاعر مشرق  علامہ محمد اقبال کا دن منانا اسی کی مثال ہے ۔ قومی  شخصیات سے وابستگی کے اظہار  کے لیےان کے کارناموں اور خدمات  کو یاد کرنا اور اس غرض سے کوئی خاص دن مقرر کرنا بالکل بجا ہے۔ لیکن اس کا تعلق عام انسانوں سے اور عام سماجی  روایت سے ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک  اور آپ کی  جاری کردہ دینی  روایت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ  کا مقام اس سے بہت بلند ہے کہ عام شخصیات کی طرح آپ کی یاد کے لیے بھی کوئی دن مقرر کر دیا جائے۔ آپ  ایک روز کی شخصیت نہیں ، بلکہ ہر روز   کی شخصیت ہیں۔  ہر دن آپ کا  دن ہے، ہر مہینا آپ کا مہینا ہے۔ اللہ نے آپ  کو تمام بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا ہے۔ یہ کیسے موزوں ہے کہ آپ جیسی عالم گیر  شخصیت کے ذکر کو کسی خاص دن تک محدود کر دیا جائے۔ غامدی صاحب نے اس بات کو اپنے ایک مضمون میں   ان  الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’...وہ جس کی یاد کی شمعیں ہر دل میں فروزاں رہنی چاہییں اور جس کا نام جب دن پہلو بدلے ، ہر مسجد کے مناروں سے بلند ہونا چاہیے، یہ اُس کی شان سے فروتر ہے کہ اُسے ایک یوم میلاد اور ایک ماہ ربیع الاول کی شخصیت بنایا جائے۔ وہ عزیز ازجاں اور عزیزجہاں ایک دن اور ایک مہینے کی شخصیت نہیں ہو سکتا۔ وہ تو ہر دن، ہر مہینے اور ہر سال کی شخصیت ہے، اِس لیے نہ ’’عید میلاد النبی‘‘ نہ ’’جشن ربیع الاول‘‘ ، بلکہ صبح دم، دن ڈھلے،’لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰي غَسَقِ اللَّيْلِ‘، ایک ہی صدا اور ایک ہی نغمہ:’أشهد أن لا إلٰه إلّا اللّٰہ، أشهد أن محمدًا رسول اللّٰہ۔‘‘(مقامات ۱۰۵)   

غامدی صاحب کے نزدیک دین کے معاملے میں ہمیں اُسی بات کو اختیار کرنا چاہیے  جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری فرمایا ہو اور جس   پر آپ کے  اصحاب عامل رہے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ  مسلمانوں میں سے اسی گروہ کا ایمان معتبر ہے جو ’مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِيْ[*] کے طریقے پر قائم  ہو، یعنی جس نے دین کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے طریقے کو اختیار کیا ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری محبت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر  ہر گز نہیں ہو سکتی، اِس لیےہمیں اِس معاملے میں انھی کی پیروی کرنی چاہیے۔ وہ  اس سلسلے میں ہمارے لیےنمونہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ  ان کی جانب سے  جو اقدامات  دین کے معاملے میں ہوئے ہیں، ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کی تصویب حاصل ہے۔  خلافت راشدہ میں صحابۂ کرام کو  اقتدار حاصل تھا ، ان کے پاس قوت اور اختیار تھا، وہ اخلاقی طور پر بھی دنیا بھر میں برتر حیثیت کے حامل تھے، مگر  انھوں نے   کبھی اس کا اہتمام نہیں کیا۔  ہماری غلطی یہ ہے  کہ ہم  آپ کی عظمت  کو اُنھی شخصیات کے  تناظر میں دیکھتے ہیں جن سے ہم واقف ہیں، مگر صحابۂ کرام نے آپ کو  اُن سے بالکل الگ کر کے اللہ کے فرستادے ،  اللہ کے پیام بر اور اللہ کے نمایندے کے طور پر تسلیم کیا۔  غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’بات دراصل یہ ہوئی کہ ہم نے اُسے سب سے بڑا تو مانا، مگر اُنھی شخصیتوں کے زمرے سے مانا جن سے ہم مانوس تھے اور وہ اِس زمرے کا شخص ہی نہ تھا۔ چنانچہ یہ اِسی کا نتیجہ تھا کہ زمین پر سارے دن اُس کے تھے، مگر ہمارے لیے وہ ایک خاص دن میں پیدا ہوا؛ وہ ہر مہینے کا ماہ تاباں تھا، مگر ہم نے اُسے جب دیکھا، ربیع الاول ہی کے مطلع پر دیکھا؛ تقویم خداوندی میں ہر سال اُسی کے نام سے معنون تھا، مگر ہماری تقویم میں اُس کا یوم ولادت ۵۷۰ بعد مسیح ہوا:
جرم نگاہ دیدۂ صورت پرست ماست
ہم نے چاہا کہ ہم سمندر کو کنوئیں میں بند کریں، صحرا کو صحن میں اتاریں اور آسمان کو ردا بنائیں، لیکن وہ جو اُس کے ساتھی تھے  ـــــ   صدیق و فاروق، عثمان و حیدر، بلال و بوذر ـــــ  اُنھوں نے سمندر کو سمندر ، صحرا کو صحرا اور آسمان کو آسمان دیکھا۔‘‘(مقامات۱۰۵)

چنانچہ ہمیں ہر روز آپ کو یاد کرنا چاہیے، صبح  و شام  آپ پر درود و سلام بھیجنا چاہیے، دن رات آپ کی تعلیمات سے فیض یاب ہونے کی کوشش کرنی چاہیے ۔اسی طرح  اگر میلاد النبی پر آپ سے محبت کا اظہار ہوتا ہے، آپ کی سیرت و سوانح کو سمجھا جاتا ہے، آپ کے اسوۂ حسنہ کی تعلیم دی جاتی ہے ، نعتیہ کلام پڑھا جاتا ہے اور ان مقاصد  کے لیے مجلسوں، کانفرنسوں اور سیمیناروں کا   اہتمام کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہم اس موقع پر روزہ بھی رکھ سکتے ہیں، کیونکہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے یوم ولادت پر  اس کا اہتمام فرماتے تھے۔ تاہم یہ پوری طرح ملحوظ رہنا  چاہیے کہ  ان چیزوں کو مذہبی رسم کی صورت دینا    صریحاً غلط ہےاور آپ کے ذکر کو کسی ایک دن کے لیے خاص کرنا بھی مناسب  نہیں  ہے۔

اس تفصیل   کا خلاصہ چند نکات میں یہ ہے:

اول،   اللہ تعالیٰ کے احکام ، رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہدایات  اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  کے طریقے ہی پر قائم رہنے   کا نام   دین ہے۔ دین میں اس سے آگےایک قدم بھی نہیں بڑھایا جا سکتا ۔

دوم، میلاد النبی کا تہوار اللہ اور اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر  نہیں فرمایا۔ صحابۂ کرام نے  بھی کسی خاص دن کو آپ کی یاد کے لیے مختص نہیں کیا ۔چنانچہ آپ کے  یوم ولادت کو مذہبی  رسم کی شکل  دینا اور جشن کی صورت میں دینی تہوار کے طور پر منانا  درست نہیں ہے۔

سوم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اس سے  بالا ہے کہ آپ کی عظمت کو  عام شخصیات  کے زمرے  سے  سمجھا اور مانا جائے۔

چہارم، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ آپ سے اظہار محبت کے لیے ہم بھی یہ عمل  اختیار کر سکتے ہیں۔

 پنجم، آپ کے یوم ولادت پر آپ کے لیے اللہ کے حضور میں  دعاؤں کا نذرانہ پیش کرنا اور آپ پر درود و سلام بھیجنا بجا ہے، مگر باقی دنوں میں بھی اس کا بھر پور اہتمام ہونا چاہیے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[*] ترمذی، رقم ۲۶۴۱۔

B