حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت مروی ہے۔ اِس کے آخر میں علامات قیامت کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’ویُلقٰی بینَ النّاسِ التّناکُر، فَلا یَکادُ أحدٌ أن یَّعْرِفَ أحَدًا‘ (احمد، رقم ۲۳۳۰۶)، یعنی لوگوں کے درمیان ’تناکر‘ پیدا ہو جائے گا، یہاں تک کہ ایسا معلوم ہو گا کہ لوگ، گویا ایک دوسرے کو پہچانتے ہی نہیں۔
’تناکُر‘ کا لفظی مطلب اجنبیت یا بے گانگی (indifference) ہے۔ یہ بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والے حالات کی پیشگی خبر ہے۔ موجودہ زمانے میں ’تناکر‘ کا یہ ماحول ہرطرف دیکھا جا سکتا ہے۔ اِس کا سبب مادّی ترقی کا غیر معمولی حد تک بڑھ جانا ہے۔
انسان طبعاً خود غرض واقع ہوا ہے، تاہم قدیم زمانے میں اِس خود غرضی کے اظہار کے لیے بہت کم اسباب موجود تھے، مگر اب یہ اسباب بے پناہ حد تک بڑھ گئے ہیں۔اِس کی بنا پر ایسا ہوا ہے کہ آج کے انسان کا ہدف صرف یہ بن گیاکہ وہ زیادہ سے زیادہ کمائے اور زیادہ سے زیادہ سامان راحت حاصل کرے۔ اِسی ذہن کا یہ نتیجہ ہے کہ انسانی دنیاعملاًاب اِس مشہور یونانی مثل کا مصداق بن کر رہ گئی ہے ـــــ جتنا بڑا شہر، اتنا بڑا ویرانہ:
Megapolis, Megalo Eramia
آدمی اصلاً مادی یا اخلاقی بنیاد ہی پر کسی سے ملتا ہے، تاہم اخلاقی بنیاد تقریباً اب مفقود ہو چکی ہے ، اور مادی آسایش نے دوسری بنیاد کا بھی خاتمہ کردیا ہے۔مزید یہ کہ مادی فراوانی کے ماحول نے اب آدمی کو سخت قسم کے عجب اور خود پرستی میں مبتلا کردیا ہے۔ چنانچہ لوگ اب پوری طرح اپنے خول میں بند ہوکر رہ گئے ہیں۔ حال میں کورونا اور اُس کے نام پربرپا بحران نے انسانی تعلقات کو آخری حد تک نقصان پہنچا یا ہے۔ اب ’سماجی دوری‘ (social distancing) جیسے فارمولے کے ذریعے سےاِس ’تناکر‘ نے آخری شکل اختیار کرلی ہے۔
آج کے انسان کا مزاج یہ ہے کہ نہ کوئی شخص میری زندگی میں مداخلت کرے اور نہ میں کسی کی زندگی میں مداخلت کروں۔ اِسی انتہا پسندانہ مزاج کی بنا پر تفریح (entertainment) کے وہ طریقے ایجاد ہوئے ہیں جس میں لوگ اب پوری طرح’ مشغول‘ دکھائی دیتے ہیں۔ آج کا انسان صرف اپنی ذات میں جیتا ہے۔ اُس کے پاس وقت نہیں کہ وہ زندگی کے وسیع تر پہلوؤں پر غور کرسکے، وہ خدا ا ور انسان کی نسبت سے اپنی کوئی ذمہ داری محسوس کرے۔
قرب قیامت کا یہ ظاہرہ، بلاشبہ انسانیت کی موت کے ہم معنی ہے۔ اِس صورت حال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی خدا داد فطرت کے زور پر دوبارہ حقیقی ’انسان‘ بننے کا عزم کریں ، ہم احتیاط کو احتیاط کے درجے میں رکھیں ، ورنہ سخت اندیشہ ہے کہ یہ صورت حال ہمارے لیے مزید انحطاط کا ذریعہ ثابت ہو۔ اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آدمی دو پیروں پر چلنے والا صرف ایک ایسا حیوان بن کر رہ جائے جس میں ’حیوانیت‘ کے سوا انسان کے ساتھ دوسری اور کوئی مشابہت باقی نہ رہے۔
[لکھنؤ، ۱۵ /مئی ۲۰۲۱ء]
ـــــــــــــــــــــــــ