HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘: توضیحی مطالعہ: قانون معاشرت (۴)

تعدد ازواج

’’...یہ آیت اصلاً تعدد ازواج سے متعلق کوئی حکم بیان کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی، بلکہ یتیموں کی مصلحت کے پیش نظر تعدد ازواج کے اُس رواج سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب کے لیے نازل ہوئی ہے جو عرب میں پہلے سے موجود تھا۔ قرآن نے دوسرے مقامات پر صاف اشارہ کیا ہے کہ انسان کی تخلیق جس فطرت پر ہوئی ہے، اُس کی رو سے خاندان کا ادارہ اپنی اصلی خوبیوں کے ساتھ ایک ہی مردو عورت میں رشتۂ نکاح سے قائم ہوتا ہے۔ چنانچہ جگہ جگہ بیان ہوا ہے کہ انسانیت کی ابتدا سیدنا آدم سے ہوئی ہے اور اُن کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی بیوی پیدا کی تھی۔ یہ تمدن کی ضروریات اور انسان کے نفسی، سیاسی اور سماجی مصالح ہیں جن کی بنا پر تعددازواج کا رواج کم یا زیادہ، ہر معاشرے میں رہا ہے اور اِنھی کی رعایت سے اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کسی شریعت میں اِسے ممنوع قرار نہیں دیا۔ یہاں بھی اِسی نوعیت کی ایک مصلحت میں اِس سے فائدہ اٹھانے کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے۔ ‘‘ (میزان۴۲۸ )

سورۂ نساء کی آیت ۳ میں یتیم بچوں کی پرورش کی ذمہ داری کے سیاق میں  مسلمانوں کو  حسب استطاعت و ضرورت چار تک نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔  اس آیت کی روشنی میں جمہور اہل علم تعدد ازواج کا حکم اباحت اور بوقت ضرورت استحباب بیان کرتے ہیں۔   تاہم دور جدید میں  بعض اہل علم نے  یہ موقف  پیش کیا ہے کہ  تعدد ازواج کی اجازت عمومی اباحت کے طور پر نہیں ہے، بلکہ  یہ اجازت مخصوص حالات، مثلاً جنگ کے نتیجے میں  بیواؤں کی دیکھ بھال وغیرہ کے تناظر  میں دی گئی ہے اور اس کی نوعیت ایک استثنائی  حکم کی ہے جس سے عام حالات میں فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا (عمر احمد عثمانی، فقہ القرآن، خاندانی معاملات ۶۴ - ۹۴)۔

مصنف  کا نقطۂ نظر بنیادی طور پر  جمہور اہل علم سے ہم آہنگ ہے اور انھوں نے اس استدلال سے اتفاق نہیں کیا کہ قرآن نے ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت خاص استثنائی حالات میں  دی تھی، جب کہ عمومی طور پر وہ اس کو ممنوع قرار دینا چاہتا ہے۔ مصنف کے نقطۂ نظر سے، صورت واقعہ یہ ہے کہ تعدد ازواج کا طریقہ نزول قرآن سے پہلے عرب معاشرت میں رائج تھا اور بالکل جائز سمجھا جاتا تھا اور قرآن نے اس کو ممنوع قرار نہیں دیا، بلکہ ایک خاص صورت حال میں اس سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی ہے۔  گویا تعدد ازواج کی پیشگی ممانعت کا ذکر اگر قرآن میں ہوتا یا عرب معاشرت میں اس کا کوئی تصور موجود ہوتا اور قرآن نے اس ممانعت میں استثنا پیدا کرتے ہوئے اس کی اجازت دی ہوتی  تو یہ کہنا ممکن تھا کہ یہ اجازت، استثنائی نوعیت رکھتی ہے، لیکن پہلے سے مانی ہوئی ایک اباحت پر عمل کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہو تو اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔  یہی معاملہ سابق انبیا کی شریعتوں کا بھی ہے، جن میں کہیں بھی  اس کو ممنوع نہیں ٹھیرایا گیا۔   

البتہ مصنف  کا زاویۂ نظر اس پہلو سے   جمہور فقہا کے مقابلے میں  سرسید  کے نقطۂ نظر کے قریب تر ہے کہ تمدنی وسماجی مصالح کی روشنی میں تعدد ازواج  کو مباح ماننے کے باوجود وہ نکاح کے مقاصد کے لحاظ سے اصل اور  فطری طریقہ  اس کو قرار دیتے ہیں کہ ایک مرد کا رشتہ ایک ہی عورت کے  ساتھ قائم ہو۔  سرسید  کے الفاظ میں ’’فطرت اصلی  جب کہ اس میں کوئی اور عوارض داخل نہ ہوں تو اس کا مقتضی یہ ہے کہ مرد کے لیے ایک ہی عورت ہونی چاہیے، مگر مرد کو  جسے امور تمدن سے بہ نسبت عورت کے زیادہ تر تعلق ہے، ایسے امور پیش آتے جن سے بعض اوقات اس کو اس اصلی قانون سے عدول کرنا پڑتا ہے اور حقیقت میں وہ عدول نہیں ہوتا‘‘ (مقالات سرسید ۱۳/ ۲۶۰)۔ مصنف نے اس کے لیے سیدنا آدم کے لیے ایک ہی بیوی کے  انتخاب سے استدلال کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ  اگر تعدد ازواج کا طریقہ رشتۂ نکاح کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھنے والا  ہوتا تو سیدنا آدم کے لیے  بھی ایک سے زیادہ بیویاں پیدا کی جا سکتی تھیں۔ یہ استدلال مولانا عمر احمد عثمانی کے ہاں زیادہ  واضح الفاظ میں ملتا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:  ’’ابتداء ایک نر اور ایک مادہ تھی۔  ایک نر کے لیے، چند مادائیں پیدا نہیں کی گئی تھیں، حالاں کہ  اضافۂ نسل کے لیے  اس وقت اس کی خصوصیت کے ساتھ  زیادہ ضرورت بھی تھی‘‘ (فقہ القرآن، خاندانی معاملات  ۶۷)۔ سیدنا آدم کے علاوہ  مصنف نے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت  سے بھی اسی نوعیت کا استنباط کیا ہے جس کی تفصیل  آیندہ سطور میں کی جائے گی۔ 

اسی بنیاد پر  مصنف  کا نقطۂنظر تعدد ازواج پر اجتہاداً پابندی  لگانے کے ضمن میں بھی اہل علم کی عمومی راے سے مختلف ہو جاتا ہے جس کی مختصر وضاحت حسب ذیل ہے:

فقہا کے  مابین اس حوالے سے اختلاف راے پایا جاتا ہے کہ اگر بیوی نے نکاح کے وقت  یہ شرط عائد کی ہو کہ شوہر اس کے ہوتے ہوئے دوسری شادی نہیں کرے گا تو اس کی پابندی  آیا شوہر پر لازم ہوگی یا نہیں؟  جمہور فقہا اس شرط کو  درست  تسلیم نہیں کرتے اور اگر  نکاح میں  ایسی کوئی شرط طے کی گئی ہو تو اسے  کالعدم قرار دیتے ہیں۔  البتہ حنابلہ کے نزدیک خاوند اس شرط کا پابند ہے اور اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ حنابلہ کا استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے ظاہری عموم سے ہے کہ جو شرطیں پورا کیے جانے کا سب سے زیادہ حق رکھتی ہیں، وہ ایسی شرطیں ہیں جو شوہروں نے نکاح کرتے وقت بیویوں کے لیے تسلیم کی ہوں  (ابن تیمیہ، الفتاویٰ الکبریٰ ۳/ ۷۸۔ السید سابق، فقہ السنۃ ۵۵۵)۔

علامہ ابن القیم  نے مزید یہ موقف اختیار کیا ہے کہ  اگر عقد نکاح میں باقاعدہ  شرط نہ لگائی گئی ہو، لیکن  عورت کے خاندان میں عرفاً  اس کو قبول نہ کیا جاتا ہو کہ اس پرسوتن لائی جائے  تو اس کی حیثیت بھی   ایسے ہی ہے جیسے عقد نکاح میں  طے کی گئی شرط کی ہوتی ہے اور شوہر پر اس کی پابندی بھی لازم ہوگی۔ لکھتے ہیں:

أن الرجل إذا شرط لزوجته أن لا یتزوج علیھا لزمه الوفاء بالشرط ومتی تزوج علیھا فلھا الفسخ ــــــ  وعلی ھذا فلو فرض أن المراة من بیت لا یتزوج الرجل علی نسائهم ضرة ولا یمکنونه من ذلک وعادتھم مستمرة بذلک کان کالمشروط لفظًا، وکذلک لو کانت ممن یعلم أنھا لا تمکن إدخال الضرة علیھا عادة لشرفھا وحسبھا وجلالتھا کان ترک التزوج علیھا کالمشروط لفظًا سواء.(زاد المعاد  ۷۸۲-  ۷۸۳)
’’اگر  آدمی نے بیوی کی یہ شرط قبول کی ہو کہ وہ اس کے ساتھ کسی اور سے نکاح نہیں کرے گا تو اس پر شرط کو پورا کرنا لازم ہے اور اگر وہ دوسرا نکاح کرے تو بیوی کو فسخ نکاح کا اختیار ہوگا۔  اس  اصول کی روشنی میں اگر  یہ فرض کیا جائے کہ عورت کا تعلق ایسے گھرانے سے ہے جن کی خواتین    پر شوہر سوکن  نہیں لا سکتا اور وہ اس کو ایسا نہیں کرنے دیتے اور ان کے ہاں اسی کو ایک معمول  کی حیثیت حاصل ہے  تو  اس کی  پابندی بھی ایسے ہی ضروری ہوگی جیسے زبانی کیے گئے معاہدے کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح اگر خاتون کے متعلق یہ معلوم ہو کہ  اس کے شرف، خاندانی حسب و نسب اور   قدر ومنزلت کی وجہ سے  وہ خود پر کسی سوکن کا لایا جانا  قبول نہیں کرے گی تو   اس  کے شوہر  پر بھی سوکن نہ لانے کی پابندی ایسے ہی لازم  ہوگی جیسے زبانی طے کی گئی شرط کی صورت میں ہوتی ہے۔‘‘

اسی انداز  فکر کے تحت دور جدید میں  اہل علم کے ایک گروہ نے یہ راے پیش کی ہے کہ چونکہ قرآن مجید نے تعدد ازواج کی اجازت دیتے ہوئے اسے عدل و انصاف سے مشروط کیا ہے،   جب کہ  ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والے مرد عموماً عدل و انصاف کی اس شرط کوپورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں، اس لیے بیویوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے دوسری شادی پر قانونی پابندی عائد کرنا یا اس کو عدالت کی اجازت اور توثیق سے مشروط کر دینا درست ہے۔   یہ موقف  علماے مصر میں سے مفتی محمد عبدہ اور سید رشید رضا اور برصغیر کے اہل علم میں سے، مثلاً سیدسلیمان ندوی کے ہاں ملتا ہے۔   چنانچہ  علامہ اقبال کے استفسارات کے جواب میں سید سلیمان ندوی نے لکھا کہ تعدد ازواج پر عدل کی شرط  کی روشنی میں پابندی لگا ئی جا سکتی ہے (بحوالہ ماہنامہ الشریعہ،  مارچ ۲۰۰۷ء، ص ۴)۔ جسٹس مولانا تنزیل الرحمٰن نے بھی اسی راے کی تائید  کی ہے (مجموعہ قوانین اسلام۱/  ۱۳۶- ۱۳۷)۔

زیادہ تر  اہل علم نے اس طرز استدلال سے اختلاف کیا ہے اور وہ ریاست کو یہ اختیار   دینے سے اختلاف رکھتے اور اسے  شرعی احکام میں  ناروا تصرف  کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی  کے الفاظ میں  ’’اگر  خیال یہ ہے کہ  ان اضافوں کے بغیر  اسلام کی عائد کردہ  شرطیں پوری  کرائی نہیں جا سکتیں  تو یہ اسلام کا نقص ہوا  اور اس بات کو  صرف وہی لوگ صحیح مان سکتے ہیں جو اسلام کو ایک دین کامل نہ مانتے ہوں‘‘ (عائلی کمیشن کی رپورٹ پر تبصرہ  ۱۴۰)۔

تاہم مصنف   تعدد ازواج کی اباحت سے متعلق اس پر پابندی عائد کرنے کو اصولاً درست تسلیم کرتے ہیں۔ بعض استفسارات کے جواب میں مصنف نے اپنا موقف یوں بیان کیا  ہے کہ چونکہ نکاح کا اصل اور فطری رشتہ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان   قائم ہوتا ہے، جب کہ تعدد ازواج  کا طریقہ اضافی تمدنی اسباب سے اختیار کیا جاتا ہے، اس لیے حکومتی وقانونی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے تعدد ازواج پر پابندی لگائی جا سکتی ہے (https://www.youtube.com/watch?v=FbU0OGxEwFk

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح

’’... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے آخری پیغمبر کی حیثیت سے اپنی منصبی ذمہ داریوں کے بعض تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تعدد ازواج کے اِن دونوں شرائط سے مستثنیٰ کر دیا تھا۔ چنانچہ معاشرے میں غلاموں کا رتبہ بڑھانے کے لیے جب آپ نے اپنی پھوپھی زاد بہن کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے سیدنا زید سے کیا اور اِن دونوں میں نباہ نہیں ہو سکا تو سیدہ کی دل داری اور متبنیٰ کی بیوی سے نکاح کی حرمت کے جاہلی تصور کو بالکل ختم کر دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ سیدہ سے خود نکاح کر لیں، دراں حالیکہ اُس وقت چار بیویاں پہلے سے آپ کے نکاح میں تھیں۔...
... اِس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نکاح و طلاق کا ایک مفصل ضابطہ بھی اللہ تعالیٰ نے اِسی سورہ میں بیان کردیا جس میں تعدد ازواج کے وہ شرائط تو اٹھا دیے گئے جو اوپر بیان ہوئے ہیں، لیکن اِس کے ساتھ بعض ایسی پابندیاں آپ پر عائد کر دی گئیں جو عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہیں۔...
یہ ضابطہ جن نکات پر مبنی ہے، وہ یہ ہیں :
اولاً، سیدہ زینب سے نکاح کے بعد بھی آپ اگر چاہیں تو درج ذیل تین مقاصد کے لیے مزید نکاح کر سکتے ہیں:
۱۔ اُن خاندانی عورتوں کی عزت افزائی کے لیے جو آپ کے کسی جنگی اقدام کے نتیجے میں قیدی بن کر آپ کے قبضے میں آ جائیں۔
۲۔ اُن خواتین کی دل داری کے لیے جو محض حصول نسبت کی غرض سے آپ کے ساتھ نکاح کی خواہش مند ہوں اور آگے بڑھ کر اپنے آپ کو ہبہ کر دیں۔
۳۔ اپنی اُن چچا زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد اور خالہ زاد بہنوں کی تالیف قلب کے لیے جنھوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور اِس طرح اپنا گھر بار اور اپنے اعزہ و اقربا،سب کوچھوڑ کر آپ کا ساتھ دیا ہے۔ ...
چنانچہ سیدہ جویریہ اور سیدہ صفیہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مقصد کے لیے نکاح کیا۔ سیدہ میمونہ دوسرے مقصد سے آپ کی ازواج میں شامل ہوئیں اور سیدہ ام حبیبہ کے ساتھ آپ کا نکاح تیسرے مقصد کے پیش نظر ہوا۔‘‘(میزان  ۴۳۱- ۴۳۴)

سورۂ احزاب کی زیربحث آیات کی  توضیح میں مصنف نے  جو کچھ لکھا ہے، وہ بنیادی طور پر مولانا امین احسن اصلاحی کے نقطۂ نظر پر مبنی ہے جس سے مصنف نے اتفاق کیا ہے۔ 

کثرت ازواج کے باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی وامتیازی حیثیت    اسلامی شریعت کا ایک متفق علیہ  امر ہے۔   اہل علم نے  اس امتیاز اور خصوصیت  کے اسباب  اور حکمتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کئی پہلوؤں  کا ذکر کیا ہے۔  مثلاً یہ کہ امت کے مقابلے میں آپ کی افضلیت  کا ایک تقاضا یہ تھا کہ آپ کے لیے نکاح کے معاملے میں بھی عام امت سے زیادہ گنجایش ہو۔  اسی طرح یہ کہ گھر سے باہر کی زندگی کی طرح آپ کی خانگی زندگی  سے واقفیت رکھنے  والے افراد بھی  تعداد میں زیادہ ہوں اور   آپ کی نجی زندگی کے احوال واوصاف پر بھی لوگ  مطلع ہو سکیں۔   مختلف عرب قبائل کو صہری رشتے کا شرف بخشنا  اور بعض معاند  خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین، مثلاً سیدہ ام حبیبہ اور سیدہ صفیہ کی تالیف قلب کا  بھی  اسی ضمن میں ذکر کیا جاتا ہے  (دیکھیے، السیوطی، الخصائص الکبریٰ   ۳ /  ۲۹۸، ۲۹۹)۔

شاہ ولی اللہ نے اس کی توجیہ یوں کی ہے کہ چار نکاحوں کی تحدید بنیادی طور پر  سد ذریعہ کی نوعیت کی ہے جس کا مقصد  بیویوں کے مابین ناانصافی  کے امکان کو روکنا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنانا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق چونکہ یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ آپ حدود کی پابندی نہیں کریں گے اور   آپ کی طرف سے امہات المومنین  کو  ناانصافی کا اندیشہ ہوگا، اس لیے آپ  کو  اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا (حجۃ اللہ البالغہ ۲  / ۲۰۵)۔

دور جدید میں  غیر مسلم معترضین کی طرف سے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت ازواج پر اعتراض کے تناظر میں  اہل علم کے ہاں ان شادیوں  کے درست پس منظر کی وضاحت  کے ساتھ خاص اعتنا  دکھائی دیتا ہے اور مصنف نے بھی ’’مقامات‘‘ میں اس اعتراض کو موضوع بنایا ہے۔   

اس ضمن میں سرسید احمد خان نے  یہ  راے پیش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  یہ تمام نکاح  عرب کے عام رواج کےمطابق  تحدید ازواج کا حکم نازل ہونے سے پہلے  کیے تھے۔  جب سورۂ نساء میں  چار تک  بیویوں سے نکاح کی تحدید  نازل کی گئی تو  عام مسلمان پابند تھے کہ اس سے زائد  بیویوں کو  طلاق دے دیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے ساتھ کسی بھی   دوسرے شخص کا نکاح چونکہ ممنوع قرار دیا جا چکا تھا، اس لیے   آپ  پر   اس پابندی  کا اطلاق نہیں کیا گیا اور تمام ازواج بدستور آپ کے نکاح میں رہیں (مقالات سرسید  ۴ / ۲۳۳)۔

تاہم اہل علم نے عمومی طور پر اس توجیہ سے اتفاق نہیں کیا اور   کثرت ازواج کی اجازت کو   تحدید کے عمومی حکم   میں بعد میں شامل کیا جانے والا ایک استثنا  قرار دیا ہے۔   اس کی حکمتوں اور اسباب کی وضاحت  کرتے ہوئے  دور جدید کے اہل علم شخصی  پہلوؤں کے مقابلے میں  آپ کی منصبی ذمہ داریوں اور عہد نبوی کی سماجی  وسیاسی حکمتوں کے پہلو کو زیادہ نمایاں کرتے ہیں۔ مثلاً مولانا مودودی   نے اس کی بنیادی حکمت کے طور پر    حسب ذیل تین  پہلوؤں کا ذکر کیا ہے:

ایک یہ  کہ آپ کی ازواج کو آپ سے براہ راست دین سیکھنے اور تربیت پانے کا موقع ملے اور  پھر ان کے ذریعے سے امت کی عام خواتین کی دینی واخلاقی تعلیم وتربیت کا کام لیا جا سکے۔  

دوسرا یہ کہ آپ ان نکاحوں کے ذریعے سے مختلف مخالف اور معاند  گروہوں کے ساتھ   دوستانہ تعلقات قائم کر کے اسلام کی راہ میں  دعوتی وسیاسی رکاوٹوں کو کم کر سکیں۔    

تیسرا یہ کہ  زمانۂ جاہلیت کے بعض معاشرتی تصورات، مثلاً متبنیٰ کی بیوی کو   حرام سمجھنے کی اصلاح کی جا سکے (تفہیم القرآن  ۴ / ۱۱۵- ۱۱۶)۔

مولانا امین احسن اصلاحی نے ان نکات کے ساتھ سورۂ احزاب کی آیات کی روشنی میں  مختلف قسم کی خواتین کی دل جوئی، تالیف قلب اور  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت وتعلق کی خواہش   کے احترام کو بھی  ایک اہم نکتے کے طور پر شامل کیا ہے (تدبر قرآن  ۶ / ۲۴۹، ۲۵۰)۔

مصنف نے اس اعتراض کے جواب میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاحوں سے متعلق  جو واقعاتی تفصیل پیش کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنی عام بشری حیثیت  میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وقت میں ایک ہی خاتون  سے نکاح  کا فیصلہ فرمایا تھا اور سیدہ خدیجہ کے ہوتے ہوئے آپ نے کسی دوسری خاتون سے نکاح نہیں کیا۔ سیدہ خدیجہ کی وفات کے بعد  آپ نے حضرت سودہ سے نکاح کیا اور   سیدہ عائشہ کے ساتھ نکاح کے باوجود انھیں  رخصت کر کے اپنے گھر نہیں لائے۔ ہجرت کے بعد جب سیدنا ابوبکر  کی فرمایش پر سیدہ عائشہ رخصت ہو کر آپ کے گھر آ گئیں تو   آپ نے اسی تناظر میں سیدہ سودہ کو طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا۔  تاہم انھوں نے سیدہ عائشہ کے حق میں اپنے ازدواجی حقوق سے دست برداری اختیار کرتے ہوئے آپ کے نکاح میں  ہی رہنے کی خواہش ظاہر کی جسے آپ نے قبول کر لیا۔    مصنف کی راے میں  ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت بشری میں یہی آپ کی ازواج ہیں۔ اِن کے علاوہ آپ نے اپنی اِس حیثیت میں کسی عورت کے ساتھ نکاح نہیں کیا‘‘ (مقامات۳۵۰)  ۔ اس کے بعد آپ نے جتنی بھی ازواج سے نکاح کیے، وہ ’’ نہ بشری حیثیت میں کیے گئے، نہ اپنی خواہش سے اور نہ خواہش نفس کی تسکین کے لیے، بلکہ خدا کے آخری پیغمبر کی حیثیت سے اپنی منصبی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اور خدا کے حکم پر یا اُس کے ایما سے کیے گئے تھے‘‘ (مقامات۳۵۱)۔

چنانچہ سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ نے  بیوہ خواتین اور یتیم بچوں کی دیکھ بھال کے لیے مسلمانوں کو ، حسب استطاعت و ضرورت، چار تک خواتین  سے نکاح کی ترغیب دی تو  اس کی پیروی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سیدہ حفصہ،  سیدہ زینب بنت خزیمہ  اور سیدہ ام سلمہ سے نکاح کیا جو سب بیوہ تھیں۔  اس کے بعد سورۂ نساء  میں بیان کردہ تحدید کی رو سے  آپ مزید کوئی نکاح نہیں کر سکتے تھے، تاہم   آپ کی پھوپھی زاد سیدہ زینب بنت جحش   کا نکاح جو آپ کی خواہش اور  اصرار پر آپ کے  آزاد کردہ  غلام زید بن حارثہ کے ساتھ کیا گیا تھا، ناکام ہو گیا  تو سورۂ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے   خصوصی فیصلے کے تحت  آپ کا نکاح سیدہ زینب سے کر دیا اور اسی کے ساتھ  نکاح کے حوالے سے  اس تین نکاتی ضابطے  کی بھی وضاحت فرما دی جو خاص طور پر آپ  کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔  

اس کے بعد آپ نے جن خواتین سے نکاح کیا، وہ انھی تحدیدات کے تحت تھا جو سورۂ احزاب میں بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ سیدہ جویریہ اور سیدہ صفیہ  جنگ میں  قیدی بن کر آئی تھیں  جن کی خاندانی نسبت اور شرف کا لحاظ کرتے ہوئے آپ نے   انھیں آزاد کر کے ان کے ساتھ نکاح کر لیا۔ سیدہ میمونہ نے آپ کے ساتھ شرف نسبت کے حصول کے لیے نکاح کی پیش کش کی تھی جسے آپ نے قبول فرما لیا۔  سیدہ ام حبیبہ آپ کی ددھیالی رشتہ دار  تھیں جو ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائی تھیں،  چنانچہ آپ نے ان کی دل جوئی اور تالیف قلب کے لیے انھیں  بھی اپنے نکاح میں لے لیا۔  سیدہ ماریہ چونکہ ان میں سے کسی صنف کے تحت نہیں آتی تھیں، اس لیے آپ نے ان سے نکاح نہیں کیا، بلکہ وہ ملک یمین کے طور پر ہی آپ کے پاس رہیں (مقامات ۳۵۵)۔

اس ضمن میں مصنف نے سیدہ ریحانہ  بنت شمعون کا ذکر نہیں کیا۔ ان کے متعلق روایات میں اختلاف ہے۔ بعض روایات کے مطابق آپ نے ان سے نکاح کر لیا تھا  اور بعض کے نزدیک وہ سیدہ ماریہ کی طرح باندی کی حیثیت سے آپ کے پاس رہیں (ابن حجر، الاصابہ ۸/ ۸۸، دار الکتب العلمیہ، بیروت)۔ ان میں سے جو بھی صورت ہو،   سورۂ احزاب کی مذکورہ ہدایات کی رو سے دائرۂ جواز میں  شامل ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B