ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر
عَنْ أَنَسٍ،۱ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْأَمَارَاتُ۲ خَرَزَاتٌ مَنْظُومَاتٌ بِسِلْكٍ، فَإِذَا انْقَطَعَ السِّلْكُ تَبِعَ بَعْضُهُ بَعْضًا».
انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کی علامات گویا ایک دھاگے میں ترتیب سے پروئے ہوئےموتی ہیں، جب دھاگا ٹوٹ جائے گا تو یہ موتی بھی ایک دوسرے کے بعد گرنا شروع ہو جائیں گے۔۱
________
۱۔ یہ اِن علامتوں کے نمودار ہونے کی تمثیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب قیامت قریب ہو گی تو اُس کی یہ علامتیں بھی ٹوٹے ہوئے دھاگے کے موتیوں کی طرح آگے پیچھے آنا شروع ہو جائیں گی۔
۱۔ اِس روایت کا متن مستدرك حاكم، رقم ۸۶۳۹سے لیا گیا ہے۔انس بن مالک سے منقول اِس روایت کا یہ واحد طریق ہے۔ عبد اللہ بن عمرو سے مروی اِس کا ایک تنہا شاہد مستدرك حاكم، رقم ۸۴۶۱ میں دیکھ لیا جاسکتا ہے۔
۲۔ عبد اللہ بن عمرو کی روایت مستدرك حاكم، رقم ۸۴۶۱ میں یہاں ’الْأَمَارَات‘ کے بجاے ’الْآيَات‘ کا لفظ آیا ہے۔معنی کے اعتبار سے دونوں مترادف ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:۱ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَسَأَلَهُ عَنْ أَشْيَاءَ، مِنْهَا: قَالَ: يَا رَسُولَ اللهَ، مَتَى [تَقُومُ۲ ] السَّاعَةُ؟ قَالَ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «مَا الْمَسْؤولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا:۳ إِذَا وَلَدَتِ الْأَمَةُ رَبَّهَا،۴ فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا كَانَتِ۵ الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ [الْعَالَةُ۶ ] [الصُّمَّ الْبُكْمَ۷ ] رُءُوسَ النَّاسِ،۸ فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَاءُ الْبَهْمِ۹ فِي الْبُنْيَانِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا»۱۰ ... قَالَ: ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «رُدُّوا عَلَيَّ الرَّجُلَ»، فَأَخَذُوا لِيَرُدُّوهُ، فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ».۱۱
وَفِي طَرِيقٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: ۱۲... قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: «سُبْحَانَ اللهِ، مَا الْمَسْؤُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ إِنْ شِئْتَ نَبَّأْتُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا»، قَالَ: أَجَلْ، قَالَ: «إِذَا رَأَيْتَ الْعَالَةَ الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبِنَاءِ، وَكَانُوا مُلُوكًا»، قَالَ: مَا الْعَالَةُ الْحُفَاةُ الْعُرَاةُ؟ قَالَ: «الْعُرَيْبُ»،۱۳ قَالَ: «وَإِذَا رَأَيْتَ الْأَمَةَ تَلِدُ رَبَّتَهَا، فَذٰلِكَ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ»، قَالَ: صَدَقْتَ، ثُمَّ نَهَضَ فَوَلَّى، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَيَّ بِالرَّجُلِ»، فَطَلَبْنَاهُ كُلَّ مَطْلَبٍ فَلَمْ نَقْدِرْ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَنْ هٰذَا؟ هَذَا جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ لِيُعَلِّمَكُمْ دِينَكُمْ».
ابو ہریرہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر لوگوں کے سامنے تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کچھ باتوں سے متعلق آپ سے سوالات کیے۔ اُن میں ایک یہ سوال بھی تھا کہ اے اللہ کے رسول، قیامت کب قائم ہوگی؟ آپ نے فرمایا: اِس کے بارے میں جس سے پوچھا گیا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ لیکن میں تمھیں اِس کی نشانیاں بتائے دیتا ہوں:جب لونڈی اپنے مالک کو جن دے گی تو یہ اُس کی ایک نشانی ہوگی۔۱ اور جب (عرب کے) یہ ننگے پاؤں، ننگے بدن پھرنے والے نادار، گونگے اور بہرے، لوگوں کے حکمران ہوں گے تو یہ بھی قیامت کی علامتوں میں سےایک علامت ہوگی۔۲ اور جب بھیڑ بکریاں چرانے والے بڑی بڑی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوں گے تو یہ بھی اُسی کی ایک نشانی ہوگی ۳... ابو ہریرہ کہتے ہیں: آپ کے ساتھ اِس گفتگو کے بعد یہ شخص چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِس کو بلا کر واپس میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ لوگ اُسے لوٹانے کے لیے نکلے، لیکن اُنھوں نے کوئی چیز نہیں دیکھی۔۴A رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس پر فرمایا: یہ جبریل تھے جو لوگوں کو اُن کا دین سکھانے کے لیےآئے تھے۔
سیدنا عمر بن خطاب کے ایک طریق میں یہی واقعہ اِس طرح بیان ہوا ہے کہ اُس شخص نے پوچھا: قیامت کب ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک ہے، اِس کے بارے میں جس سے پوچھا گیا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ لیکن تم چاہو تو میں تمھیں اِس کی نشانیاں بتاسکتا ہوں۔اُس نے کہا: ضرور بتائیے۔آپ نے فرمایا: جب تم دیکھو گے کہ یہ نادار، ننگے بدن اور ننگے پاؤں پھرنے والے لوگوں کے بادشاہ بنے ہوئے ہیں اور دیکھو گے کہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے میں وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ اُس شخص نے پوچھا: نادار،ننگے بدن اور ننگے پاؤں پھرنے والوں سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: یہی بے نوا عرب۔ فرمایا: اورجب لونڈی کو اپنی مالکہ جنتے دیکھوگے تو یہ بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہوگی۔ اُس نے عرض کیا:آپ نے سچ فرمایا۔پھر وہ شخص اٹھا اور واپس چلا گیا ۔آپ نے فرمایا: اِس شخص کو بلا کر واپس میرے پاس لاؤ۔سیدنا عمر کہتے ہیں کہ ہم نے اُس کو ہر جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن کہیں پا نہیں سکے۔ اِس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو، یہ آدمی کون تھا؟ یہ جبریل تھے جوتمھیں تمھارا دین سکھانے کے لیے تم لوگوں کے پاس آئے تھے۔
________
۱۔ یہ نہایت بلیغ تعبیر ہے جس کا مدعا، ہمارے نزدیک یہ ہے کہ غلامی ایک ادارے کی حیثیت سے عالمی سطح پر ختم ہو جائے گی۔ یہ واقعہ اُس وقت ہوا، جب اقوام متحدہ نے ۱۹۴۸ء میں انسانی حقوق کے منشور کا اعلان کر دیا۔
۲۔ اصل میں ’العراة الحفاة العالة‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان پر الف لام عہد کا ہے۔ اِسی روایت کا جو طریق سیدنا عمر کے حوالے سے اِس کے بعد مذکور ہے،اُس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اِن سے مراد عرب ہی کے ننگے پاؤں، ننگے بدن پھرنے والے نادار چرواہے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اِس تبدیلی کی ابتدا بھی قریب قریب اُسی زمانے میں ہوئی جو اوپر غلامی کے خاتمے کا بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ لوگوں نے دیکھ لیا کہ وہی چرواہے اب ’جلالة الملک‘ بنے ہوئے ہیں۔
۳۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہو گئی ہے، اور ایک کے بعد دوسری بلند ترین عمارت بنانے کا جو مقابلہ اِس وقت سرزمین عرب میں جاری ہے، اُسے ہر شخص بہ چشم سر دیکھ سکتا ہے۔
۴ ۔ مطلب یہ ہے کہ نہ وہ شخص دکھائی دیا اور نہ اُس کے کوئی آثار نظر آئے۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً صحيح مسلم، رقم۹ سے لیا گیا ہے۔ اسلوب وتعبیر کے کچھ اختلاف کے ساتھ ابوہریرہ سے اِس واقعے کے باقی طرق اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۵۵۷۔ مسند اسحاق بن راہویہ، رقم ۱۶۵، ۱۶۶، ۱۶۷۔مسند احمد، رقم۹۱۲۸، ۹۵۰۱۔ صحيح بخاری، رقم۵۰، ۴۷۷۷۔ صحيح مسلم، رقم۱۰۔ سنن ابن ماجہ، رقم۶۴، ۴۰۴۴۔ مسند بزار، رقم۴۰۲۵۔ تعظيم قدر الصلاة، محمد بن نصر مروزی، رقم۳۷۸، ۳۷۹، ۳۸۰۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۴۹۹۱۔ صحيح ابن خزيمۃ، رقم۲۲۴۴۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم۲۹۸۵۔ صحيح ابن حبان، رقم۱۵۹۔ الابانۃ الكبرىٰ، ابن بطۃ، رقم۸۳۲۔ الايمان، ابن مندہ، رقم۱۵، ۱۶، ۱۵۸، ۱۵۹۔ حلیۃ الاولياء وطبقات الاصفياء، ابو نعیم، ۶/ ۶۴۔ السنن الواردة فی الفتن، دانی، رقم ۳۹۳۔
ابو ہریرہ کی اِس روایت کے شواہد سیدنا عمر بن خطاب، عبد اللہ بن عباس، ابو مالک اشعری اور حارث اشعری سے بھی نقل ہوئے ہیں۔ سیدنا عمر کی روایت کے طرق اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند احمد، رقم۱۸۴، ۳۶۷، ۳۶۸۔صحيح مسلم، رقم ۸۔سنن ابن ماجہ، رقم۶۳۔سنن ابی داود، رقم۴۶۹۵۔ سنن ترمذی، رقم۲۶۱۰۔ تعظيم قدر الصلاة، محمد بن نصر مروزی، رقم۳۶۳، ۳۶۴، ۳۷۵۔ القدر، فريابی، رقم۲۱۰، ۲۱۲۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۴۹۹۰۔صحيح ابن حبان، رقم۱۶۸، ۱۷۳۔ الشريعۃ، آجری، رقم۲۰۶۔الايمان، ابن مندہ، رقم۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۱، ۱۳، ۱۴، ۱۵۷، ۱۸۵۔ القضاء والقدر، بیہقی، رقم ۱۷۹، ۱۸۰، ۱۸۱، ۱۸۲، ۱۸۳۔ دلائل النبوۃ، بیہقی، ۷/ ۶۹۔ شعب الايمان، بیہقی، رقم ۱۹۔
ابن عباس کے طریق کی روایتیں اِن مراجع میں نقل ہوئی ہیں: مسند احمد، رقم۲۹۲۴، ۱۷۱۶۹۔ مسند بزار، رقم۴۸۳۲۔ مسند حارث، رقم۹۔ابو مالک اشعری کا طریق مسند احمد، رقم۱۷۱۶۷، ۱۷۱۶۹، ۱۷۵۰۲ میں دیکھ لیا جاسکتا ہے، جب کہ حارث اشعری کی روایت کا تنہا ماخذ جزء لؤلؤ بن احمد ، رقم۱۰ہے۔
۲۔ صحیح مسلم، رقم ۱۰۔
۳۔ بعض طرق، مثلاً مسند اسحاق بن راہویہ، رقم۱۶۵میں یہاں اِس کے بجاے ’وَلَكِنْ لَهَا عَلَامَاتٌ تُعْرَفُ بِهَا‘ ، ’’لیکن اِس کی کچھ نشانیاں ہیں، جن سے اِس کا قرب معلوم ہو جائےگا‘‘ کا جملہ روایت ہوا ہے۔
۴۔ بعض روایتوں، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۵۵۷ میں یہاں ’رَبَّهَا‘، ’’اپنے مالک‘‘کے بجاے ’رَبَّتَهَا‘ ، ’’اپنی مالکہ‘‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ حارث اشعری کے طریق جزء لؤلؤ بن احمد ، رقم ۱۰ میں ’سَيِّدَهَا‘، ’’اپنا سردار‘‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ سیدنا عمر سے منقول بعض طرق، مثلاً مسند احمد، رقم۱۸۴ میں ’وَوَلَدَتِ الْإِمَاءُ أَرْبَابَهُنَّ‘، ’’ اور جب باندیاں اپنے آقاؤں کو جنیں گی‘‘ کے الفاظ ہیں۔
a ۵۔ صحيح ابن خزيمہ، رقم ۲۲۴۴ میں یہاں ’كَانَت‘ کے بجاے ’صَارَ‘ کا لفظ آیا ہے۔ معنی کے لحاظ سے یہاں دونوں ایک ہی مدعا پر دلالت کرتے ہیں ۔
۶۔ یہ اضافہ سیدنا عمر کے ایک طریق مسند احمد، رقم۱۸۴سے لیا گیا ہے۔
۷۔ صحیح مسلم، رقم ۱۰۔
۸۔ کئی طرق، مثلاً مسند اسحاق بن راہویہ، رقم۱۶۵میں یہاں ’رُءُوسَ النَّاسِ‘، ’’ لوگوں کے حکمران‘‘ کے بجاے ’ مُلُوكَ الْأَرْضِ‘، ’’زمین کے بادشاہ‘‘ کے الفاظ ہیں۔
۹۔ بعض طرق، مثلاً سنن ابن ماجہ، رقم۶۴ میں یہاں ’رِعَاءُ الْبَهْمِ‘ کے بجاے ’رِعَاءُ الْغَنَمِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ معنی کے لحاظ سے دونوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ الابانۃ الكبرىٰ، ابن بطۃ، رقم ۸۳۲ میں ’أَهْلُ الشَّاءِ‘ ،’’ بکریاں چرانے والے‘‘ کے الفاظ ہیں۔صحيح بخاری، رقم۵۰میں ’وَإِذَا تَطَاوَلَ رُعَاةُ الإِبِلِ البُهْمُ فِي البُنْيَانِ‘ ، ’’ اور جب اونٹ چرانے والے یہ سیاہ رنگ کے لوگ بڑی بڑی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوں گے‘‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جب کہ سیدنا عمر کی روایت کے اکثر طرق، مثلاً مسند احمد، رقم ۱۸۴ میں ’رِعَاءُ الْبَهْمِ‘ کے بجاے ’رِعَاءُ الشَّاءِ‘ کے الفاظ ہیں۔ معنی کے اعتبار سے یہ دونوں مترادف ہیں۔
۱۰۔ سیدنا ابن عباس کے ایک طریق مسند احمد، رقم ۲۹۲۴میں یہاں ’فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا‘ ، ’’ تو یہ بھی اُسی کی ایک نشانی ہوگی‘‘کے بجاے ’فَذَلِكَ مِنْ مَعَالِمِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا‘ ، ’’تو یہ بھی قیامت کے آثار اور اُس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہوگی‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔
۱۱۔ سیدنا عمر سے مروی کئی طرق، مثلاً مسند احمد، رقم ۳۶۷ میں یہاں ’فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ‘ ، ’’یہ جبریل تھے جو تمھارا دین سکھانے کے لیے تمھارے پاس آئے تھے‘‘کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جب کہ اُنھی کی بعض روایتوں، مثلاً سنن ابن ماجہ، رقم۶۳ میں ’ذَاكَ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ‘،’’یہ جبریل تھے جو تمھارے دین کی بنیادی باتیں سکھانے کے لیے تمھارے پاس آئے تھے‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
۱۲۔ صحيح ابن حبان، رقم۱۷۳۔
۱۳۔ ابن عباس کی ایک روایت مسند احمد، رقم ۲۹۲۴ میں یہ بات اِس طرح نقل ہوئی ہے: ’قَالَ: يَارَسُولَ اللهِ، وَمَنْ أَصْحَابُ الشَّاءِ وَالْحُفَاةُ الْجِيَاعُ الْعَالَةُ؟ قَالَ: «الْعَرَبُ»‘، ’’اُس نے پوچھا، یہ بکریاں چرانے والے، ننگے پاؤں پھرنے والے، بھوکے اور نادار کون ہوں گے، یا رسول اللہ؟ فرمایا: یہی عرب‘‘ ۔ ابو مالک اشعری کے ایک طریق مسند احمد، رقم ۱۷۱۶۷میں یہ الفاظ آئے ہیں: ’قَالَ: وَمَنْ أُولَئِكَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: الْعُرَيْبُ‘، ’’اُس شخص نے پوچھا : یا رسول اللہ، یہ کون لوگ ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا: یہی بے نوا عرب‘‘۔
عَنْ أَنَسٍ،۱ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ سَلاَمٍ، بَلَغَهُ مَقْدَمُ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ فَأَتَاهُ يَسْأَلُهُ عَنْ أَشْيَاءَ، فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلاَثِ [خِصَالٍ ۲ ] لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ، [فَإِنْ أَخْبَرْتَنِي بِهَا آمَنْتُ بِكَ، وَإِنْ لَمْ تَعْلَمْهُنَّ عَرَفْتُ أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ،۳ ] [قَالَ: «سَلْ»۴ ] [قَالَ: ۵ ] مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ؟ وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ؟ وَمَا بَالُ الوَلَدِ يَنْزِعُ إِلَى أَبِيهِ أَوْ إِلَى أُمِّهِ؟۶ قَالَ [رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ۷ ] «أَخْبَرَنِي بِهِ۸ جِبْرِيلُ آنِفًا» قَالَ ابْنُ سَلاَمٍ: [جِبْرِيلُ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: ۹ ] ذَاكَ عَدُوُّ اليَهُودِ مِنَ المَلاَئِكَةِ، [فَقَرَأَ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الآيَةَ: ﴿مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ﴾.۱۰ ] [البقرہ: ۹۷ ]] قَالَ: «أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُهُمْ مِنَ المَشْرِقِ إِلَى المَغْرِبِ،۱۱ وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ الحُوتِ،۱۲ وَأَمَّا [شَبَهُ ۱۳ ] الوَلَدِ [أَبَاهُ وَأُمَّهُ، ۱۴ ] فَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ المَرْأَةِ نَزَعَ الوَلَدَ، وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ المَرْأَةِ مَاءَ الرَّجُلِ نَزَعَتِ الوَلَدَ»۱۵ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّكَ رَسُولُ اللهِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ اليَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ فَاسْأَلْهُمْ عَنِّي، قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا بِإِسْلاَمِي، فَجَاءَتِ اليَهُودُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَلاَمٍ فِيكُمْ؟» قَالُوا: خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا، وَأَفْضَلُنَا وَابْنُ أَفْضَلِنَا، [وَعَالِمُنَا وَابْنُ عَالِمِنَا، وَأَفْقَهُنَا وَابْنُ أَفْقَهِنَا،۱۶ ] فَقَالَ النَّبِيُّ: «أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَلاَمٍ» قَالُوا: أَعَاذَهُ اللهُ مِنْ ذٰلِكَ، فَأَعَادَ عَلَيْهِمْ، فَقَالُوا: مِثْلَ ذٰلِكَ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ عَبْدُ اللهِ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، قَالُوا: شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا [وَجَاهِلُنَا وَابْنُ جَاهِلِنَا۱۷ ]، وَتَنَقَّصُوهُ،۱۸ قَالَ [ابْنُ سَلَامٍ:۱۹ ] هٰذَا كُنْتُ أَخَافُ [مِنْهُمْ۲۰ ] يَا رَسُولَ اللهِ.
انس بن مالک کا بیان ہے کہ عبداللہ بن سلام کو یہ خبر ملی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے ہیں تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ آپ سے کچھ چیزوں کے بارے میں پوچھیں۔اُنھوں نے اُس موقع پر کہا : میں آپ سے تین ایسی باتیں پوچھنا چاہتا ہوں جنھیں کوئی نبی ہی جان سکتا ہے۔سو آپ نے اگر اُن کے بارے میں مجھے صحیح بتادیا تو میں آپ کی رسالت پر ایمان لے آؤں گا،لیکن آپ کو اُن باتوں کا علم نہ ہوا تو میں جان لوں گا کہ آپ کوئی نبی نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا: پوچھو۔ اُنھوں نے کہا: قیامت کی پہلی علامت کیا ہوگی؟ اہل جنت پہلا کھانا کیا کھائیں گے؟ اِس کی کیا وجہ ہے کہ بچہ کبھی باپ کے مشابہ ہوتا اور کبھی ماں کی شکل و صورت پر ہوتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل نے مجھے ابھی اِس کی خبر دی ہے۔عبد اللہ بن سلام نے پوچھا: جبریل نے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔عبداللہ بن سلام نے کہا: وہ تو فرشتوں میں یہود کا دشمن ہے۔اِس پر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:’’جو لوگ جبریل کے د شمن ہیں، وہ درحقیقت اللہ کے دشمن ہیں، اِس لیے کہ اُس نے تو (اے پیغمبر)، اِسے اللہ کے اذن ہی سے تمھارے قلب پرنازل کیا ہے۱ ‘‘ (البقرہ ۲: ۹۷)۔ آپ نے فرمایا:قیامت کی پہلی علامت آگ ہوگی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب تک لے جا کر جمع کردےگی۔۲ اور اہل جنت جو پہلا کھانا (جنت میں) کھائیں گے، وہ مچھلی کے جگر کا بڑھا ہوا حصہ ہوگا۔۳ اور جہاں تک بچے کی اپنی ماں اور باپ سے مشابہت کی بات ہے تو جب مرد کا نطفہ عورت کے نطفے پر سبقت لے جاتا ہےتو بچہ باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور اگر عورت کا پانی مرد کے پانی سے آگے بڑھ جائے تو بچہ ماں کے مشابہ ہوتا ہے۔۴ عبداللہ بن سلام نے یہ جوابات سنے تو کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔اِس کے بعد اُنھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول، یہود بہت زیادہ بہتان لگانے والے لوگ ہیں۔ اِس سے پہلے کہ اُن کو میرے اسلام لانے کا علم ہو، آپ اُن سے میرے متعلق سوال پوچھیے گا۔ چنانچہ یہودی آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے پوچھا: تمھارے لوگوں میں عبداللہ بن سلام کیسا آدمی ہے؟ اُنھوں نے جواب میں کہا: وہ ہمارا بہترین آدمی اور ہمارے بہترین شخص کا بیٹا ہے۔وہ ہمارا سب سے صاحب فضیلت آدمی اور ہمارے افضل ترین شخص کا بیٹا ہے۔ وہ ہمارا صاحب علم شخص اور ہمارے عالم کا بیٹا ہے۔ اور وہ ہمارا سب سے بڑھ کر صاحب فہم آدمی اور ہمارے سب سے بڑے صاحب فہم شخص کا بیٹا ہے ۔ اِس پر آپ نے فرمایا: اگر عبداللہ بن سلام اسلام لے آئے تو تمھارے کیا تاثرات ہوں گے؟ اُنھوں نے کہا: اللہ اُنھیں ایسے اقدام سے اپنی پناہ میں رکھے۔پھر آپ نے اپنا یہی سوال اُن کے سامنے دہرایا اور اُنھوں نے یہی جواب دیا۔ پھر عبداللہ بن سلام باہر نکل کر اُن کے سامنے آئے اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ یہ سن کر اُن یہودیوں نے کہا: یہ ہم میں سب سے بُرا اور ہمارے سب سے بُرے آدمی کا بیٹا ہے اور ہمارا جاہل آدمی اورہمارے جاہل آدمی کا بیٹا ہے۔ اِس طرح اُنھوں نے عبد اللہ بن سلام کے بارے میں بہت سی بری باتیں کہیں۔ عبداللہ بن سلام نے کہا: اےاللہ کے رسول، مجھے اِن سے یہی اندیشہ تھا۔
________
ا۔ابن جریر طبری نے جو تفسیری روایتیں سورۂ بقرہ (۲) کی اِس آیت کے تحت نقل کی ہیں، اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کا عام خیال یہ تھا کہ اُن پر جو سختی، مصیبت اور عذاب بھی آیا ہے، وہ جبریل ہی لے کر آتے رہے ہیں۔ میکائیل علیہ السلام کو، اِس کے برخلاف وہ رأفت و رحمت کا فرشتہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ جب قرآن کے بارے میں یہ ذکر ہوا کہ اُسے جبریل نے نازل کیا ہے تو اُنھوں نے یہی خیال کیا کہ جبریل نے یہ کتاب اُنھی کی دشمنی میں اُن کے کسی آدمی کے بجاے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتار دی ہے۔ عبد اللہ بن سلام نے یہ بات غالباً اِسی پس منظر میں کہی ہے، جس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی۔
۲۔ اِس آگ کا ذکر دوسری روایتوں میں بھی ہوا ہے، لیکن وہاں یہ بات بیان نہیں ہوئی کہ جب وقوع قیامت کے آثار نمودار ہونا شروع ہوں گے تو یہی پہلی علامت ہو گی۔چنانچہ اِس روایت کی نسبت اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح ہے تو اِس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ علی الاطلاق پہلی علامت کا نہیں، بلکہ اُس مرحلے کی پہلی علامت کا ذکر ہے جس کے فوراً بعد صور پھونک دیا جائے گا اور قیامت برپا ہو جائے گی۔
۳۔ اِس طرح کی چیزیں امور متشابہات میں سے ہیں، جن کی حقیقت اُسی وقت معلوم ہو گی، جب یہ سامنے آئیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تنبیہ فرمائی ہے کہ کسی صاحب ایمان کو اِن کے درپے بھی نہیں ہونا چاہیے۔
۴۔ سادہ لفظوں میں یہ غالباً اُسی حقیقت کا ذکر ہے جسے سائنس کی زبان میں ماں یا باپ کی طرف سے جین کے انتقال میں سبقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
۱۔ اِس روایت کا متن صحيح بخاری، رقم ۳۹۳۸ سےلیا گیا ہے۔ الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند طيالسی،رقم۲۱۶۳۔مصنف ابن ابی شیبہ،رقم۳۵۹۸۷، ۳۷۳۱۶۔مسند احمد،رقم۱۲۰۵۷، ۱۲۹۷۰، ۱۳۸۶۸۔ مسند عبد بن حميد، رقم۱۳۸۹۔ صحيح بخاری، رقم ۳۳۲۹ ، ۴۴۸۰۔ الاوائل، ابن ابی عاصم، رقم۸۰، ۱۹۳۔ مسند بزار، رقم۶۵۶۶۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم۸۱۹۷ ، ۹۰۲۶، ۱۰۹۲۵۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۳۴۱۴، ۳۷۴۲، ۳۷۸۲، ۳۸۵۶۔ صحيح ابن حبان، رقم ۷۱۶۱، ۷۴۲۳۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۳۶۵۔ الاوائل، طبرانی، رقم۸۳۔ الاحاديث الطوال، طبرانی، رقم۷۔ فوائد تمام، رقم ۲۳۲۔ حلیۃ الاولياء وطبقات الاصفياء، ابو نعیم، ۶/۲۵۲۔ دلائل النبوة، ابو نعیم، رقم۲۴۷۔ دلائل النبوة، بیہقی، ۲/۵۲۸۔ ۶/۲۶۰۔
۲۔ مسند احمد، رقم۱۲۰۵۷۔
۳۔ مسند احمد، رقم ۱۳۸۶۸۔
۴۔ مسند عبد بن حميد، رقم۱۳۸۹۔
۵۔ صحيح بخاری، رقم ۳۳۲۹۔
۶۔ مسند احمد، رقم ۱۲۰۵۷ میں یہاں یہی سوال ’وَمِنْ أَيْنَ يُشْبِهُ الْوَلَدُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ؟‘ کے الفاظ میں نقل ہوا ہے۔ معنی کے اعتبار سے یہ دونوں اسالیب مترادف ہیں۔صحيح بخاری، رقم ۳۳۲۹ میں اِس کی جگہ یہ الفاظ ہیں:’وَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَنْزِعُ الوَلَدُ إِلَى أَبِيهِ؟ وَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَنْزِعُ إِلَى أَخْوَالِهِ؟‘، ’’اور اِس کی کیا وجہ ہے کہ بچہ اپنےباپ کے مشابہ ہوتا ہے،اور کیا وجہ ہے کہ کبھی اپنے ماموؤں کی شکل و صورت پر ہوتا ہے؟‘‘
۷۔ مسند احمد، رقم۱۲۰۵۷۔
۸۔ اکثر طرق، مثلاً مسند احمد، رقم ۱۳۸۶۸میں یہاں ’بِهِ ‘ ، ’’اِس بات کی ‘‘کے بجاے ’بِهِنَّ‘ ، ’’اِن باتوں کی‘‘کا لفظ آیا ہے۔
۹۔ صحیح بخاری، رقم۴۴۸۰۔
۱۰۔ صحیح بخاری، رقم۴۴۸۰۔
۱۱۔ بعض روایتوں، مثلاً مسند احمد، رقم ۱۲۰۵۷میں یہاں ’ أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، فَنَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْمَشْرِقِ فَتَحْشُرُ النَّاسَ إِلَى الْمَغْرِبِ‘، ’’قیامت کی پہلی علامت ایک آگ ہوگی جو مشرق سے اُٹھے گی اور پھر لوگوں کو مغرب تک لے جا کر جمع کردےگی‘‘کے الفاظ آئے ہیں، جب کہ الاوائل، ابن ابی عاصم، رقم۸۰ میں ’أَوَّلُ شَيْءٍ يَحْشُرُ النَّاسَ نَارٌ تَجِيءُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ تَحْشُرُهُمْ إِلَى الْمَغْرِبِ‘، ’’پہلی چیز جو لوگوں کو جمع کرے گی، وہ ایک آگ ہوگی جو مشرق کی طرف سے آئے گی اور لوگوں کو مغرب تک لے جاکر جمع کردے گی‘‘ کے الفاظ ہیں۔
۱۲۔ صحيح ابن حبان، رقم ۷۴۲۳ میں یہاں ’أَوَّلُ شَيْءٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ رَأْسُ ثَوْرٍ وَكَبِدُ حُوتٍ‘ ، ’’ اہل جنت جو پہلی چیز(جنت میں) کھائیں گے، وہ بیل کی سری اور مچھلی کا جگر ہوگا ‘‘کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۱۳۔ مسند احمد، رقم۱۲۰۵۷۔
۱۴۔ مسند احمد، رقم۱۲۰۵۷۔
۱۵۔صحيح بخاری، رقم ۳۳۲۹میں آپ کا یہ جواب اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے: ’وَأَمَّا الشَّبَهُ فِي الوَلَدِ: فَإِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَشِيَ المَرْأَةَ فَسَبَقَهَا مَاؤُهُ كَانَ الشَّبَهُ لَهُ، وَإِذَا سَبَقَ مَاؤُهَا كَانَ الشَّبَهُ لَهَا‘، ’’ اور جہاں تک بچے کی مشابہت کی بات ہے تو مرد جب عورت سے ملاقات کرتا ہے، اُس موقع پر اُس کا نطفہ عورت کے نطفے پر سبقت لے جائےتو بچہ باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور اگر عورت کا پانی (مرد کے پانی سے) آگے بڑھ جائے تو بچہ ماں کے مشابہ ہوتا ہے ‘‘۔
۱۶۔ مسند احمد، رقم ۱۲۰۵۷۔
۱۷۔ مسند احمد، رقم۱۳۸۶۸۔
۱۸۔ صحيح بخاری، رقم ۳۳۲۹میں یہاں یہی بات ’وَوَقَعُوا فِيهِ‘ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔معنی کے اعتبار سے یہ دونوں اسالیب مترادف ہیں۔
۱۹۔ مسند احمد، رقم ۱۲۰۵۷۔
۲۰۔ مسند احمد، رقم ۱۲۰۵۷۔
عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، قَالَ:۱ كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، فَجَاءَ رَجُلَانِ فَقَالَا: أَتَيْنَاكَ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ [بْنِ الْحَكَمِ۲ ]، فَسَمِعْنَاهُ يَقُولُ: إِنَّ أَوَّلَ الْآيَاتِ خُرُوجًا خُرُوجُ الدَّجَّالِ فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرٍو: كَذَبَ مَرْوَانُ، لَقَدْ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا مَا نَسِيتُهُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ أَوَّلَ الْآيَاتِ خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، أَوْ۳ خُرُوجُ الدَّابَّةِ عَلَى النَّاسِ ضُحًى، فَأَيَّتُهَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا فَالْأُخْرَى عَلَى إِثْرِهَا قَرِيبًا»۴ قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرٍو: وَأَنَا أَظُنُّ أَوَّلَهَا طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا.
ابو زرعہ بن عمرو سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم عبد اللہ بن عمرو کے پاس بیٹھے تھے کہ دو آدمی آئے اور اُنھوں نے کہا: ہم آپ کے پاس مروان بن حکم کے ہاں سےآئے ہیں۔ ہم نے اُنھیں یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں نمودار ہونے والی اولین نشانی دجال کا ظہور ہوگا۔ اِس پرعبد اللہ بن عمرو نے کہا: مروان نے صحیح بات نہیں کہی۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس باب میں ایک ایسی بات سن رکھی ہے، جسے میں بھولا نہیں ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: سب سے پہلی نشانی جو رونما ہو گی، وہ یہ ہے کہ سورج اپنے غروب کی جگہ سے طلوع ہو گا۱یا پھر یہ ہو گی کہ زمین کا جانور۲ عین چاشت کے وقت ظاہر ہو جائے گا۔اِن میں سے جو علامت بھی پہلے ظاہر ہو گی،زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ دوسری بھی اُسی کے پیچھے نمودار ہو جائے گی۔عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ اِن میں سے پہلی یہی ہو گی کہ سورج اپنے غروب کی جگہ سے طلوع ہو گا۔۳
________
۱۔ یہ اگر کسی حقیقت کی تمثیل نہیں ہے تو الفاظ سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وقوع قیامت کے وقت زمین کی گردش یک بہ یک الٹ جائے گی اور مشرق مغرب میں تبدیل ہو جائے گا۔
۲۔ اِسے زمین کا جانور، غالباً اِ س لیے کہا گیا ہے کہ زمین کے پیٹ سے یہ براہ راست اُسی طرح پیدا ہو جائے گا، جس طرح تمام مخلوقات ابتدا میں پیدا ہوئی ہیں۔ چنانچہ اِسی کے ساتھ اُن تمام قیاسات کی حقیقت بھی واضح ہو جائے گی جو نظریۂ ارتقااور اِس طرح کے بعض دوسرے نظریات کی صورت میں اِس وقت زیربحث ہیں۔
t ۳۔ پچھلی روایت کے پیش نظر اِنھیں اُس مرحلے کی نشانیاں سمجھنا چاہیے، جب توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا اور لوگ منتظر ہوں گے کہ اب صبح یا شام، کسی بھی وقت قیامت برپا ہوجائے گی۔ اِس کے بعد کسی وقت وہ آگ نمودار ہو گی، جس کا ذکر پیچھے ہوا ہے اور اُس کے ساتھ ہی صور پھونک دیا جائے گا۔ چنانچہ اِس لحاظ سے دیکھیے تو یہی آگ وقوع قیامت کی پہلی علامت بن جائے گی۔
اِن روایتوں کی نسبت اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح ہے تو اِن میں تطبیق کی یہی ایک صورت قرین قیاس ہے، ورنہ ماننا پڑے گا کہ پہلی نشانی کے بارے میں یہ تضادات راویوں کے تصرفات نے پیدا کر دیے ہیں۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً مسند طيالسی، رقم ۲۳۶۲ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۵۹۷۰، ۳۷۲۸۸۔ مسند احمد، رقم۶۵۳۱، ۶۸۸۱۔ مسند عبد بن حميد، رقم۳۲۶۔ صحيح مسلم، رقم۲۹۴۱۔ سنن ابن ماجہ، رقم۴۰۶۹۔ سنن ابی داود، رقم۴۳۱۰۔ الاوائل، ابن ابی عاصم، رقم۶۲۔ تفسير طبری، رقم ۱۴۲۱۴۔ حديث السراج، رقم۲۶۸۷۔ الايمان، ابن منده، رقم۱۰۰۵، ۱۰۰۶۔ مستدرك حاكم، رقم۸۶۴۵۔ امالی ابن بشران، رقم۴۷۱۔
۲۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۲۸۸۔
۳۔ بعض طرق، مثلاً صحيح مسلم، رقم ۲۹۴۱میں یہاں ’أَوْ ‘ کے بجاے ’وَ‘ کا حرف نقل ہوا ہے۔
۴۔ بعض روایتوں، مثلاً مسند احمد، رقم ۶۵۳۱ میں یہاں ’ فَالْأُخْرَى مِنْهَا قَرِيبٌ‘، ’’ زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ دوسری بھی نمودار ہو جائے گی ‘‘ کا اسلوب ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ:۱ «ثَلَاثٌ إِذَا خَرَجْنَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا: طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَالدَّجَّالُ، وَدَابَّةُ الْأَرْضِ».
ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین نشانیاں ایسی ہیں کہ جب وہ نمودار ہو جائیں گی تو اُس وقت کسی ایسے شخص کو اُس کا ایمان کچھ نفع نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا اپنے ایمان میں اُس نے کوئی بھلائی نہ کمائی ہو۔۱ ایک سورج کا اپنے مغرب سےطلوع ہونا، دوسرے دجال۲اور تیسرے زمین کا جانور۔
________
۱۔آگے جن تین نشانیوں کا ذکر ہے، یہ بات اِنھی کے بارے میں غالباً اِس لیے کہی گئی ہے کہ یہ اگر فی الواقع اُسی طرح نمودار ہو جائیں، جس طرح کہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے تو اِن کے ظہور کی کوئی دوسری توجیہ اِس کے علاوہ کسی شخص کے لیے کرنا ممکن نہیں ہو گا کہ یہ اُسی قیامت کی نشانیاں ہیں، جس کی خبر اللہ کے پیغمبر ہمیشہ دیتے رہے ہیں۔دوسری نشانیوں پر، اگر غور کیجیے تو اُن کے بارے میں کچھ نہ کچھ سخن سازی لوگ ہر وقت کر سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ حجاب کسی حد تک باقی رہتا ہے جو آزمایش کے لیے ضروری ہے۔
۲۔ یہ بڑے دغاباز، فریبی اور مکار کے معنی میں اسم صفت ہے۔ اِس باب کی روایتوں میں اِس کا ذکر مختلف ناموں سے ہوا ہے، جن میں سے ایک ’المسیح الدجال‘ بھی ہے۔یہ اُسی طرح کی ترکیب ہے، جیسے کسی شخص کو ’النبي الکاذب‘ کہا جائے۔ لفظ ’النبي‘ جس طرح اصطلاح بن چکا ہے، لفظ ’المسیح‘ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اِسے کسی طرح بھی اِس کے لغوی مفہوم میں نہیں لیا جا سکتا ہے۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ وہی بات کہنا مقصود ہوتی جو علما نے بالعموم اِس سے سمجھی ہے تو اُس کے لیے موزوں ترکیب ’الدجال الممسوح‘ کی تھی۔ ’الدجال‘ کو صفت کے مقام پر رکھ کر اُس سے پہلے لفظ ’المسیح‘ کا استعمال اُس کے لیے کسی طرح موزوں نہیں ہے۔چنانچہ لفظ ’المسیح‘پر الف لام ہمارے نزدیک عہد کا ہے اور اِس سے مراد وہ ’مسیح‘ ہے جس کی بعثت کے یہود صدیوں سے منتظر تھے۔ اِس انتظار کی وجہ اُن کے نبیوں کی یہ پیشین گوئی تھی کہ اُن کے پروردگار کی طرف سے ایک ’مسیح‘ آنے والا ہے جو اُس ذلت سے اُنھیں نجات دلائے گا جس میں وہ صدیوں سے مبتلا ہیں۔عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت اِسی پیشین گوئی کے مطابق اور اِس کے حقیقی مصداق کی حیثیت سے ہوئی، مگر وہ اُنھیں ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے، لہٰذا اب بھی ہمہ وقت چشم براہ ہیں کہ اُن کے اِس ’’مسیح موعود‘‘ کی بعثت کسی وقت لازماً ہو گی۔ صاحب ’’تفہیم القرآن‘‘ مولانا سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے لکھا ہے:
’’... اس معاملے کی حقیقت کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ یہودیوں کی تاریخ اور اُن کے مذہبی تصورات سے واقف نہ ہو۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل پے درپے تنزل کی حالت میں مبتلا ہوتے چلے گئے ، یہاں تک کہ آخر کار بابل اور اسیریا کی سلطنتوں نے اُن کو غلام بنا کر زمین میں تتر بتر کر دیا، تو انبیاے بنی اسرائیل نے اُن کو خوش خبری دینی شروع کی کہ خدا کی طرف سے ایک ’’مسیح ‘‘ آنے والا ہے جو اُن کو اِس ذلت سے نجات دلائے گا۔ ان پیشین گوئیوں کی بنا پر یہودی ایک مسیح کی آمد کے متوقع تھے جو بادشاہ ہو، لڑ کر ملک فتح کرے ، بنی اسرائیل کو ملک ملک سے لاکر فلسطین میں جمع کر دے ، اور اُن کی ایک زبردست سلطنت قائم کر دے۔ لیکن اُن کی اِن توقعات کے خلاف جب حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام خدا کی طرف سے مسیح ہو کر آئے اور کوئی لشکر ساتھ نہ لائے تو یہودیوں نے اُن کی مسیحیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اُنھیں ہلاک کرنے کے درپے ہو گئے۔ اُس وقت سے آج تک دنیا بھر کے یہودی اُس مسیح موعود (Promised Messiah ) کے منتظر ہیں جس کے آنے کی خوش خبریاں اُن کو دی گئی تھیں۔ اُن کا لٹریچر اس آنے والے دور کے سہانے خوابوں سے بھر ا پڑا ہے۔ تلمود اور ربّیوں کے ادبیات میں اُس کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، اُس کی خیالی لذت کے سہارے صدیوں سے یہودی جی رہے ہیں اور یہ امید لیے بیٹھے ہیں کہ یہ مسیح موعود ایک زبردست جنگی و سیاسی لیڈر ہو گا جو دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ، (جسے یہودی اپنی میراث کا ملک سمجھتے ہیں ) اُنھیں واپس دلائے گا، اور دنیا کے گوشے گوشے سے یہودیوں کو لا کر اِس ملک میں پھر سے جمع کر دے گا۔ ‘‘(۴/ ۱۶۵)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اِسی کے بارے میں فرمایا ہے کہ کوئی دجال یہود کے اندر سے اُن کا ’’مسیح موعود‘‘ بن کر اٹھے گااور لوگوں کے لیے ایک عظیم فتنہ برپا کر دے گا۔
۱ ۔اِس روایت کا متن صحيح مسلم، رقم۱۵۸ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۵۹۶۔ مسند اسحاق بن راہویہ، رقم۲۱۸۔ مسند احمد، رقم ۹۷۵۲۔ سنن ترمذی، رقم۳۰۷۲۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۶۱۷۲۔ الايمان، ابن منده، رقم۱۰۲۳۔ المسند المستخرج على صحيح مسلم، ابو نعيم، رقم ۳۹۶۔ السنن الواردة فی الفتن، دانی، رقم۶۹۵۔ الاعتقاد، بیہقی۲۱۳ ۔
عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِيِّ، قَالَ:۱ اطَّلَعَ۲ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا [مِنْ غُرْفَةٍ لَهُ۳ ] وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ، فَقَالَ: «مَا تَذَاكَرُونَ؟» قَالُوا: نَذْكُرُ السَّاعَةَ،۴ قَالَ: «إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ: -فَذَكَرَ- الدُّخَانَ، وَالدَّجَّالَ، وَ[خُرُوجَ۵ ] الدَّابَّةَ،۶ وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَنُزُولَ۷ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَ[فَتْحَ۸ ] يَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ: خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ،۹ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْيَمَنِ، [مِنْ قَعْرِ عَدَنِ أَبْيَنَ،۱۰ ] تَطْرُدُ۱۱ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ،۱۲ [تَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ بَاتُوا، وَتَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا۱۳ ]».
حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم باہم گفتگو کر رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنے ایک کمرے سے ہماری طرف جھانکتے ہوئے پوچھا: تم کس موضوع پر بات کر رہے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم قیامت کا تذکرہ کر رہے تھے۔آپ نے فرمایا: قیامت اُس وقت تک ہرگز قائم نہیں ہوگی جب تک اُس سے پہلے تم دس نشانیان نہیں دیکھ لو گے۔پھر آپ نے اُن علامات کو اِس طرح بیان فرمایا: دھواں،۱ دجال، زمین کے جانور کا ظہور، سورج کا اپنے غروب کی جگہ سے طلوع ہونا ۲، عیسیٰ ابن مریم کا نزول،۳یاجوج وماجوج کو کھول دینا،۴ تین خطوں، یعنی مشرق، مغرب اور جزیرہ نماے عرب میں زمین کا دھنس جانا۔اور آخر میں یمن میں ابین کے شہرعدن کے گڑھے سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو ہانک کر اُن کے محشر کی طرف لے جائے گی،۵ یہ آگ، جہاں لوگ رات گزاریں گے، اُن کے ساتھ وہیں رات گزارے گی اور جہاں وہ قیلولہ کریں گے، اُن کے ساتھ وہیں قیلولہ کرے گی۔۶
________
۱۔ اِس سے مراد کوئی بڑا ایٹمی انفجار بھی ہو سکتا ہے۔
۲۔ یہ اور اِس سے پہلے جو نشانیاں بیان ہوئی ہیں، اُن کی وضاحت ہم روایات ۴ اور ۵ کے تحت کر چکے ہیں۔
۳۔ اِس روایت کے جو اختلافات متن کے حواشی میں بیان ہوئے ہیں، اُن سے واضح ہے کہ اِس کا ایک طریق وہ بھی ہے جس میں نزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی جگہ ’ریح تلقي الناس في البحر‘، ’’ایک ہوا جو لوگوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دے گی‘‘ کی نشانی بیان ہوئی ہے۔اِس کا حوالہ متن کے حواشی میں دیکھا جاسکتا ہے۔یہ طریق اگرچہ موقوف ہے، لیکن ہمارے نزدیک دو وجوہ سے اِس کو مضمون کے لحاظ سے ترجیح حاصل ہے۔چنانچہ دسویں نشانی اِسی ہوا کو سمجھنا چاہیے:
ایک اِس وجہ سے کہ نزول مسیح کا جو وقت آگے ایک روایت میں بیان ہوا ہے، وہ فتح قسطنطنیہ کے فوراً بعد تھا۔ یہ فتح ۱۴۵۳ء میں ہو چکی ہے۔ ہر صاحب علم اِس بات سے واقف ہے کہ اُس کے بعد اِس طرح کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
دوسرے اِس وجہ سے کہ مسیح علیہ السلام کے بارے میں جو تصریحات قرآن میں وارد ہیں، اُن کے اِس نزول کو کسی طرح قبول نہیں کرتیں۔ چنانچہ اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ’’ایمانیات‘‘ میں ’’قیامت کی علامات‘‘ کے زیرعنوان ہم نے لکھا ہے:
’’اولاً، اِس لیے کہ مسیح علیہ السلام کی شخصیت قرآن مجید میں کئی پہلوؤں سے زیر بحث آئی ہے۔ اُن کی دعوت اور شخصیت پر قرآن نے جگہ جگہ تبصرہ کیا ہے۔ روز قیامت کی ہلچل بھی قرآن کا خاص موضوع ہے۔ ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہو جانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ لیکن موقع بیان کے باوجود اِس واقعے کی طرف کوئی ادنیٰ اشارہ بھی قرآن کے بین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ علم و عقل اِس خاموشی پر مطمئن ہو سکتے ہیں؟ اِسے باور کرنا آسان نہیں ہے۔
ثانیاً، اِس لیے کہ سورۂ مائدہ میں قرآن نے مسیح علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایک مکالمہ نقل کیا ہے جو قیامت کے دن ہو گا۔ اُس میں اللہ تعالیٰ اُن سے نصاریٰ کی اصل گم راہی کے بارے میں پوچھیں گے کہ کیا تم نے یہ تعلیم اِنھیں دی تھی کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا کے سوا معبود بناؤ۔ اِس کے جواب میں وہ دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی کہیں گے کہ میں نے تو اِن سے وہی بات کہی جس کا آپ نے حکم دیا تھا اور جب تک میں اِن کے اندر موجود رہا، اُس وقت تک دیکھتا رہا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ لیکن جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو میں نہیں جانتا کہ اِنھوں نے کیا بنایا اور کیا بگاڑا ہے۔ اِس کے بعد تو آپ ہی اِن کے نگران رہے ہیں۔ اِس میں دیکھ لیجیے، مسیح علیہ السلام اگر ایک مرتبہ پھر دنیا میں آ چکے ہیں تو یہ آخر ی جملہ کسی طرح موزوں نہیں ہے۔ اِس کے بعد تو اُنھیں کہنا چاہیے کہ میں اِن کی گم راہی کو اچھی طرح جانتا ہوں اور ابھی کچھ دیر پہلے اِنھیں اُس پر متنبہ کر کے آیا ہوں۔ فرمایا ہے:
مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَا٘ اَمَرْتَنِيْ بِهٖ٘ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْﵐ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْﵐ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْﵧ وَاَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ.(المائدہ۵: ۱۱۷)
’’میں نے تو اُن سے وہی بات کہی تھی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی۔ میں اُن پر نگران رہا، جب تک میں اُن کے درمیان تھا۔ پھر جب آپ نے مجھے وفات دی تو اُس کے بعد آپ ہی اُن کے نگران رہے ہیں اورآپ ہر چیز پر گواہ ہیں۔‘‘
ثالثاً، اِس لیے کہ سورۂ آل عمران کی ایک آیت میں قرآن نے مسیح علیہ السلام کے بارے میں قیامت تک کا لائحۂ عمل بیان فرمایا ہے۔ یہ موقع تھا کہ قیامت تک کے الفاظ کی صراحت کے ساتھ جب اللہ تعالیٰ وہ چیزیں بیان کر رہے تھے جو اُن کے اور اُن کے پیرووں کے ساتھ ہونے والی ہیں تو یہ بھی بیان کر دیتے کہ قیامت سے پہلے میں ایک مرتبہ پھر تجھے دنیا میں بھیجنے والا ہوں، مگر اللہ نے ایسا نہیں کیا۔ سیدنا مسیح کو آنا ہے تو یہ خاموشی کیوں ہے؟ اِس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ آیت یہ ہے:
اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْ٘ا اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِﵐ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ. (۳: ۵۵)
’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تجھے وفات دوں گااور اپنی طرف اٹھا لوں گا اور تیرے اِن منکروں سے تجھے پاک کروں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن تک اِن منکروں پر غالب رکھوں گا۔پھر تم سب کو بالآخر میرے پاس آنا ہے ۔ سو اُس وقت میں تمھارے درمیان اُن چیزوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘ ‘‘(۱۸۲)
۴۔ اِن کا ذکر سورۂ انبیا (۲۱) کی آیات ۶ - ۹۷ میں بھی ہوا ہے۔یہ دونوں نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد میں سے ہیں، جو ایشیا کے شمال مشرقی علاقوں میں آباد ہوئی۔بائیبل کی کتاب پیدایش میں ہے:
’’نوح کے بیٹوں سم، حام اور یافت کی اولاد یہ ہیں۔ طوفان کے بعد اُن کے ہاں بیٹے پیدا ہوئے۔ بنی یافت یہ ہیں۔ جمر اور ماجوج اور مادی اور یاوان اور توبل اور مسک اور تیراس۔اور جمر کے بیٹے اشکناز اور ریفت اور تجرمہ۔ اور یاوان کے بیٹے الیسہ اور ترسیس۔ کِتّی اور دودانی۔ قوموں کے جزیرے اِن ہی کی نسل میں بٹ کر ہر ایک کی زبان اور قبیلہ کے مطابق مختلف ملک اور گروہ ہو گئے۔‘‘ (۱۰: ۱ - ۵)
یہی بیان مسلمان مورخین کا بھی ہے۔ ملاحظہ ہو: الکامل فی التاریخ، ابن الاثیر ۱/ ۶۸۔ البدایۃ والنہایۃ ۱/ ۱۷۵۔ ابن خلدون نے تصریح کی ہے کہ علماے انساب یافث کی باقی اولاد کے بارے میں تو اختلافات بھی بیان کرتے ہیں، مگر اِس پر متفق ہیں کہ یہ دونوں اُسی کی ذریت ہیں، ’وأما يافث فمن ولده الترك والصين والصقالبة ويأجوج ومأجوج باتفاق من النسابين‘ (تاریخ۲/ ۱۰)۔
بائیبل کے صحیفہ حزقی ایل کے باب ۳۸، ۳۹ میں اِن کا تعارف روس، ماسکو اور توبالسک کے فرماں روا کی حیثیت سے کرایا گیا ہے۔ بعد میں یہی ہیں جو تاتاری، ہن، منگول اور سیتھین کے ناموں سے بھی مشہور ہوئے۔چنانچہ اسرائیلی مورخ یوسیفوس اِن سے مراد سیتھین قوم لیتا ہےاور جیروم کا بیان ہے کہ ماجوج کاکیشیا کے شمال میں بحر خَزرکے قریب آباد تھے۔ پھر یہ بھی معلوم ہے کہ اِنھی کے بعض قبائل یورپ پہنچے اور اِس کے بعد اُن لوگوں میں بھی شامل ہوئے، جنھوں نے امریکا اور آسٹریلیا کو آباد کیا ہے۔یوحنا عارف کا جو مکاشفہ بائیبل کے آخر میں نقل ہوتا ہے، اُس کی رو سے اِن کے خروج کی ابتدا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ایک ہزار سال بعد کسی وقت ہو گی۔جس کے آخر میں یہ زمین کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوں گے۔ اِن کا فساد جب انتہا کو پہنچے گا تو ایک آگ آسمان سے اترے گی اور قیامت کا زلزلہ برپا ہو جائے گا:
’’اور جب ہزار برس پُورے ہو چُکیں گے تو شَیطان قَید سے چھوڑ دِیا جائے گا۔اور اُن قَوموں کو جو زمین کی چاروں طرف ہوں گی یعنی جُوج و ماجُوج کو گُمراہ کر کے لڑائی کے لیے جمع کرنے کو نِکلے گا۔ اُن کا شُمار سمُندَرکی ریت کے برابر ہوگا۔ اور وہ تمام زمِین پر پھَیل جائیں گی اور مُقدّسوں کی لشکرگاہ اور عزِیز شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیں گی اور آسمان پر سے آگ نازِل ہوکر اُنھیں کھا جائے گی ‘‘۔ (مکاشفہ ۲۰: ۷ -۹)
یہ پیشین گوئی بھی حرف بہ حرف پوری ہوئی ہے اور گذشتہ کئی صدیوں سےیاجوج و ماجوج کا خروج شروع ہو چکا ہے۔ اِس وقت عالمی سطح پر اِنھی کی حکومت قائم ہے اور اِن کا یہ خروج مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اب اپنے عروج کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اِس کی تفصیلات کے لیے دیکھیے: فیض الباری، انور شاہ کشمیری ۴/ ۱۹۷۔ ترجمان القرآن، ابوالکلام آزاد ۲/ ۴۲۱ - ۴۲۳ اورتفہیم القرآن، سید ابو الاعلیٰ مودودی ۳/ ۴۳ -۴۶۔
۵۔ یہ وقوع قیامت کی پہلی اور تمام نشانیوں میں آخری نشانی ہے، جس کے بعد وہ ہوا چلے گی جو لوگوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دے گی۔اِس ہوا کو آخری نشانی، غالباً اِس لیے نہیں کہا گیا کہ یہ نشانی سے زیادہ اُن لوگوں کے لیے گویا خود قیامت کی ابتدا ہے، جو اِس کے نتیجے میں سمندر کی نذر ہو جائیں گے۔
۶۔ مطلب یہ ہے کہ اُن کا پیچھا نہیں چھوڑے گی، یہاں تک کہ اُنھیں ہانک کر محشر میں لے جائے گی۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاًصحيح مسلم، رقم ۲۹۰۱سے لیا گیا ہے۔ متن کے کچھ اختلافات کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں: الزہد والرقائق، ابن مبارك، رقم۱۶۰۶۔ مسند طيالسی، رقم۱۱۶۳۔ مسند حميدی، رقم ۸۴۹۔ مسند ابن ابی شیبہ، رقم۸۱۷۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۴۶۴، ۳۷۵۴۲۔ مسند احمد، رقم ۱۶۱۴۱، ۱۶۱۴۳،۱۶۱۴۴، ۲۳۸۷۸ ۔ صحيح مسلم، رقم ۲۹۰۱۔ سنن ابن ماجہ، رقم۴۰۵۵۔ اخبارمکۃ، فاکہی، رقم۲۳۴۹۔ سنن ابی داود، رقم۴۳۱۱۔ سنن ترمذی، رقم ۲۱۸۳۔ الآحاد والمثانی، ابن ابی عاصم، رقم۱۰۱۲۔ السنن الكبرىٰ،نسائی، رقم۱۱۳۱۶، ۱۱۴۱۸۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم۹۵۹، ۹۶۰۔ صحيح ابن حبان، رقم ۶۷۹۱، ۶۸۴۳۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم۳۰۲۸، ۳۰۲۹، ۳۰۳۰، ۳۰۳۱، ۳۰۳۳۔ الايمان، ابن منده، رقم۱۰۰۱، ۱۰۰۲، ۱۰۰۴۔ معرفۃ الصحابۃ، ابو نعیم، رقم۱۸۶۵۔ حلیۃ الاولياء وطبقات الاصفياء۱/ ۳۵۵۔
حذیفہ بن اسید کے علاوہ متن کے معمولی اختلاف کے ساتھ یہ روایت واثلہ بن اسقع کی وساطت سے بھی نقل ہوئی ہے، جسےمسند شامیین، طبرانی، رقم ۸۶۴اور المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۹۵ میں دیکھ لیا جاسکتا ہے۔
حذیفہ بن اسید کی روایت کے تمام متون کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن میں قیامت کی مندرجہ بالا دس نشانیوں کو بیان کرنے میں راویوں کے ہاں بہت اضطراب واختلاف پایا جاتا ہے۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ روایت کے تمام طرق میں یہ بات نقل ہونے کے بعد کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی ،جب تک لوگوں کے سامنے اُس کی دس نشانیاں نہ آجائیں، خود اِن دس نشانیوں کو نقل کرنے میں راویوں کے حفظ واتقان میں کچھ نقص اور اُن کے بیانات میں اختلافات ہیں۔
بعض روایتوں، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۶۴ میں راوی اِن دس نشانیوں میں سے صرف دو بیان کر پائے ہیں اور وہ ’سورج کا مغرب سے طلوع ہونا‘ اور ’خروج دجال‘ ہے۔ باقی آٹھ نشانیوں کا اُنھوں نے ذکر ہی نہیں کیا۔
سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۴۱میں ’دھویں‘ کے اضافے کے ساتھ تین نشانیاں بیان ہوئی ہیں۔ باقی نشانیوں کا اُس میں بھی ذکر نہیں ہے۔
الكنىٰ والاسماء، دولابی، رقم ۴۰۶میں راوی پانچ نشانیاں بیان کر پائے ہیں اور وہ یہ ہیں: خروج دجال، دھواں، زمین کے جانور کا خروج، مشرق میں اور جزیرہ نماے عرب میں زمین کا دھنس جانا۔ اِس طریق میں باقی پانچ نشانیاں مذکور نہیں ہیں۔
مسند ابن ابی شیبہ، رقم ۸۱۷میں دس نشانیوں میں سے آٹھ نقل ہوئی ہیں اور وہاں ’دھویں‘ اور ’نزول مسیح‘ کا ذکر نہیں ہے۔ باقی آٹھ نشانیاں وہی ہیں جن کا ذکر اوپر مرکزی متن میں آیا ہے۔
تین طرق ایسے ہیں جن میں راویوں نے دس میں سے نو نشانیاں بیان کی ہیں، جب کہ اُن تینوں میں ’نزول مسیح‘ کا ذکر نہیں ہے ۔ وہ طرق یہ ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۵۴۲۔ الآحاد والمثانی، ابن ابی عاصم، رقم ۱۰۱۲۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم۳۰۳۱۔
علاوہ ازیں المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۳۰۲۸ کا ایک طریق ایسا ہے جس میں نو نشانیاں مذکور ہیں، لیکن اُس میں غیر مذکور دسویں نشانی ’نزول مسیح ‘ کے بجاے ’دھواں‘ ہے۔
حلیۃ الاولياء وطبقات الاصفياء، ابو نعیم میں ایک طریق ایسا ہے جس میں ’نزول مسیح‘ کو دسویں نشانی کے طور پر راوی نے بیان تو کیا ہے،مگر اُس کا اسلوب شک کا ہے ۔ ملاحظہ ہو: ۱/ ۳۵۵ ۔
اِسی طرح الایمان، ابن مندہ کی روایت، رقم ۱۰۰۱ میں دس نشانیاں پوری بیان ہوئی ہیں، لیکن اُس میں ایک نشانی کے بارے میں مرکزی متن میں اوپر بیان ہونے والی نشانیوں سے ایک نیا اختلاف ہے اور وہ یہ کہ اُس میں ’یاجوج وماجوج کے خروج‘ کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اِس کی جگہ ایک ایسی پیلی آندھی کا ذکر ہے جو یمن کی طرف سے آئے گی اور ہر بندۂ مومن کی روح قبض کرلے گی۔
مزید برآں، روایت کے متعدد طرق ایسے ہیں جن میں دسویں نشانی کے بارے میں راویوں کا ایک متعین اختلاف بیان ہوا ہے۔ ایک راوی کا کہنا ہے کہ دسویں نشانی ’نزول مسیح‘ ہے، جب کہ دوسرے راوی کا بیان ہے کہ یہ نشانی ایک ایسی آندھی کی ہے جو لوگوں کواٹھا کر سمندر میں پھینک دے گی۔ متن کے اِس اضطراب کو بیان کرنے والے طرق یہ ہیں: مسند احمد، رقم ۱۶۱۴۳، ۲۳۸۷۸۔ صحيح مسلم، رقم ۲۹۰۱۔ سنن ترمذی، رقم ۲۱۸۳۔ الايمان،ابن منده، رقم ۱۰۰۲۔
اِسی طرح ایک ایسی روایت بھی ہے جس میں راویوں نے کل نشانیاں دس کے بجاے گیارہ بیان کردی ہیں۔ اور وہ اِس طرح کہ اُس میں باقی نو نشانیوں کے علاوہ ’نزول مسیح‘ اور ’ لوگوں کواٹھا کر سمندر میں پھینک دینے والی آندھی‘ کا ذکر بھی کردیا گیا ہے۔ملاحظہ ہو: معرفۃ الصحابۃ، ابو نعیم، رقم۱۸۶۵۔
متن کے اختلاف واضطراب کے مندرجہ بالا وجوہ کے علاوہ اِس روایت کی سند میں بھی راویوں کا ایک اختلاف نقل ہوا ہے، اور وہ یہ ہے کہ بعض راویوں کا کہنا ہے کہ روایت میں یہ دس نشانیاں حذیفہ بن اسید کے اپنے قول کے طور پر نقل ہوئی ہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے طور پر مروی نہیں ہیں، چنانچہ یہ ایک موقوف روایت ہے۔راویوں کے مابین سند کے رفع ووقف کایہ اختلاف جن روایتوں کی اسانید میں دیکھ لیا جاسکتا ہے، اُن کےمراجع یہ ہیں: مسند احمد، رقم ۱۶۱۴۳، ۲۳۸۷۸۔ صحيح مسلم، رقم ۲۹۰۱۔ الايمان،ابن منده، رقم ۱۰۰۲ ۔ صحيح ابن حبان، رقم۶۷۹۱۔
۲۔ کئی طرق، مثلاً مسند احمد، رقم ۱۶۱۴۴ میں یہاں ’اطَّلَعَ‘ کے بجاے ’أَشْرَفَ‘ کا لفظ آیا ہے۔ معنی کے اعتبار سے دونوں مترادف ہیں۔
۳۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۵۴۲۔
۴۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۱۱۳۱۶ میں اِنھی حذیفہ سےواقعے کی یہ ابتدا اِس طرح نقل ہوئی ہے کہ ’كُنَّا نَتَحَدَّثُ فِي ظِلِّ غَرْفَةٍ لِرَسُولِ اللهِ فَذَكَرْنَا السَّاعَةَ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا، فَأَشْرَفَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غُرْفَتِهِ فَقَالَ: «عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ؟» أَوْ «عَمَّ يَتَحَدَّثُونَ؟» قُلْنَا: ذِكْرُ السَّاعَةِ‘، ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کمرے کے سایے میں گفتگو کر رہے تھے، اِس دوران میں ہم نے قیامت کا تذکرہ کیا تو اُس وقت ہماری آوازیں اونچی ہوگئی تھیں، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کمرے سے ہماری طرف جھانکا اور فرمایا: لوگ کس چیز کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں؟ یا فرمایا کہ لوگ کس چیز کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں؟ ہم نے عرض کیا: قیامت کا ذکر ہو رہا ہے‘‘۔
۵۔ سنن ابی داود، رقم۴۳۱۱۔
۶۔ بعض روایتوں، مثلاً مسند ابن ابی شیبہ، رقم ۸۱۷میں یہاں ’دَابَّةُ الْأَرْضِ‘ ، ’’زمین کا جانور‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔
۷۔ بعض طرق، مثلاً سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۵۵میں یہاں ’نُزُول‘، ’’اترنا‘‘ کے بجاے ’خُرُوج‘ ، ’’ظاہر ہونا‘‘ کا لفظ نقل ہوا ہے۔
۸۔ مسند طيالسی، رقم۱۱۶۳۔ بعض روایتوں، مثلاً مسند احمد، رقم ۱۶۱۴۴میں یہاں ’فَتْح‘، ’’کھول دینے‘‘ کے بجاے ’خُرُوج‘، ’’ظاہر ہونے‘‘ کا لفظ آیا ہے۔
۹۔ المعجم الصغیر، طبرانی رقم ۱۰۷ میں انس بن مالک سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:’ذُكِرَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَسْفٌ قِبَلَ الْمَشْرِقِ، فَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: يَا رَسُولَ اللهِ يُخْسَفُ بِأَرْضٍ فِيهَا الْمُسْلِمُونَ؟ فَقَالَ: «نَعَمْ، إِذَا كَانَ أَكْثَرُ أَهْلِهَا الْخُبُثَ»‘۔ انس کی یہی روایت طبرانی نے المعجم الاوسط، رقم۱۸۴۱میں بھی نقل کی ہے۔
۱۰۔ سنن ابن ماجہ، رقم۴۰۵۵۔
۱۱۔ کئی طرق، مثلاً مسند طيالسی، رقم ۱۱۶۳میں یہاں ’تَطْرُدُ‘ کے بجاے ’تَسُوقُ‘ کا لفظ آیا ہے، جب کہ بعض روایتوں، مثلاً مسند احمد، رقم ۱۶۱۴۳میں ’تُرَحِّلُ‘ کا لفظ روایت ہوا ہے۔ معنی کے لحاظ سے اِ ن تینوں الفاظ میں یہاں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے ۔
۱۲۔ اکثر طرق، مثلاً سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۵۵میں یہاں ’مَحْشَرِهِمْ‘ کی ترکیب اضافی کے اسلوب کے بجاے لام تعریف کے ساتھ لفظ ’الْمَحْشَرِ‘ آیا ہے۔ واثلہ بن اسقع سے منقول دو روایتوں میں یہاں یہ الفاظ آئے ہیں :’تَسُوقُ النَّاسَ إِلَى الْمَحْشَرِ تَحْشُرُ الذَّرَّ وَالنَّمْلَ‘،’’لوگوں کو ہانک کر محشر کی طرف لے جائے گی، ذرات اور چیونٹیوں تک کو جمع کردے گی‘‘۔ ملاحظہ ہو: مسند شامیین، طبرانی، رقم۸۶۴۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم۱۹۵۔
۱۳۔ مسند احمد، رقم۱۶۱۴۴۔ کئی طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۵۴۲میں یہاں ’تَنْزِلُ مَعَهُمْ إِذَا نَزَلُوا، وَتَقِيلُ مَعَهُمْ إِذَا قَالُوا‘، ’’ یہ آگ، جب لوگ پڑاؤ ڈالیں گے، اُن کے ساتھ پڑاؤ ڈالے گی اور جب وہ قیلولہ کریں گے، اُن کے ساتھ قیلولہ کرے گی‘‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جب کہ بعض روایتوں، مثلاً شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم ۹۵۹میں ’تَقِيلُ مَعَهُمْ إذَا قَالُوا، وَتَرُوحُ مَعَهُمْ إذَا رَاحُوا‘، ’’جب لوگ قیلولہ کریں گے، اُن کے ساتھ قیلولہ کرے گی اور جب وہ کوچ کریں گے، اُنھی کے ساتھ کوچ کرے گی ‘‘ کے الفاظ ہیں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ