HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: العنکبوت ۲۹: ۱-۱۳ (۱)

العنکبوت - الروم

۲۹  -  ۳۰

 

     یہ دونوں سورتیں اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ دونوں کا موضوع  منکرین رسالت کو تہدید و وعید، اُن کے شبہات کی تردید اور اہل ایمان کے لیے، اگر وہ ثابت قدمی کے ساتھ اپنے ایمان پر قائم رہیں تو انجام خیر کی بشارت ہے۔ پہلی سورہ   ـــــ  العنکبوت   ـــــ  میں اِسی رعایت سے اُنھیں مصائب و شدائد کے ہجوم میں عزیمت و  استقامت کی تلقین کی گئی ہے۔ اِس کے لیے بناے استدلال پہلی سورہ میں زیادہ تر تاریخ کے حقائق اور دوسری میں انفس و آفاق کی نشانیاں ہیں۔

     اِن میں خطاب اگرچہ بعض مقامات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوا ہے اور اہل ایمان سے بھی، لیکن روے سخن ہر جگہ قریش مکہ ہی کی طرف ہے۔

     دونوں سورتوں کے مضمون سے واضح ہے کہ ام القریٰ مکہ میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلۂ انذار عام میں اُس وقت نازل ہوئی ہیں، جب ہجرت و براء ت کا مرحلہ قریب آ چکا ہے۔

__________

 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الٓمّٓ ١ﶔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْ٘ا اَنْ يَّقُوْلُوْ٘ا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ ٢ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ ٣

اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے ، جس کی شفقت ابدی ہے ۔

یہ  سورۂ ’الٓمّٓ ‘ل[1]ہے۔کیا لوگوں نے گمان کر رکھا ہے کہ محض یہ کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور اُنھیں آزمایا نہ جائے گا؟[2]  واقعہ یہ ہے کہ ہم نے اُن سب لوگوں کو آزمایا ہے جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ سو اللہ اُن لوگوں کو ضرور جانے گا جو سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی جان کررہے گا[3]۔   ۱ - ۳

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ اَنْ يَّسْبِقُوْنَاﵧ سَآءَ مَا يَحْكُمُوْنَ ٤ مَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍﵧ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ٥ وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖﵧ اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ ٦ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ٧

اور کیا جو (اُن کے ساتھ) برائیاں کر رہے ہیں[4]  ،اُنھوں نے سمجھ لیا ہے کہ ہمارے قابو سے باہر ہو جائیں گے؟ (اُن پر افسوس)، بہت ہی برا فیصلہ ہے جووہ کر رہے ہیں[5]!(اِس میں شبہ نہیں کہ اِس وقت ہجوم مصائب ہے، لیکن)جو خدا سے ملنے کی امید رکھتا ہو، اُسے مطمئن رہنا چاہیے، اِس لیے کہ (جزا و سزا کے لیے) خدا کا ٹھیرایا ہوا وقت ضرور آنے والا ہے اور خدا سمیع و علیم ہے۔ (اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ) جو ہمارے لیے محنت اٹھاتے ہیں[6] تو وہ اپنے ہی بھلے کے لیے محنت اٹھاتے ہیں، اِس لیے کہ اللہ تو دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔ اور جو لوگ ایمان پر قائم رہے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، (وہ یقین رکھیں کہ) اُن کی برائیاں[7] ہم ضرور اُن سے دور کریں گے اور اُن کے عمل کا اُنھیں بہترین بدلہ عطا فرمائیں گے۔ ۴ - ۷

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًاﵧ وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَاﵧ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٨ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصّٰلِحِيْنَ ٩

(خدا سے بڑھ کر کسی کا حق نہیں ہے)۔ ہم نے انسان کو اُس کے والدین کے ساتھ نیک سلوک کی ہدایت کی ہے، لیکن(ساتھ ہی واضح کر دیا ہے کہ) اگر وہ تمھارے درپے ہوں کہ تم کسی کو میرا شریک ٹھیراؤ جس کا تمھیں کوئی علم نہیں ہے[8] تو اُن کی بات نہ ماننا[9]۔ تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، پھر میں تمھیں بتاؤں گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔ اور جوایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے، اُنھیں ہم (اُس دن) ضرور صالحین میں داخل کریں گے[10]۔   ۸ - ۹

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَا٘ اُوْذِيَ فِي اللّٰهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِﵧ وَلَئِنْ جَآءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْﵧ اَوَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِيْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِيْنَ ١٠ وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ ١١

(یہ خدا پر ایمان کا تقاضا ہے) اور اِدھر لوگوں کا حال یہ ہے کہ اُن میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر ایمان لائے ہیں، لیکن جب اُسی خدا کی راہ میں ستائے جاتے ہیں تو لوگوں کے ستانے کو وہ خدا کے عذاب کی طرح سمجھ لیتے (اور پیچھے ہٹ جاتے) ہیں[11]۔ (یہی لوگ ہیں کہ)اگر تیرے پروردگار کی طرف سے کوئی مددظاہر ہو گی تو ضرور کہیں گے کہ ہم تو آپ لوگوں کے ساتھ تھے۔ کیا لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے، اُس سے اللہ بخوبی واقف نہیں ہے؟ (یہ ایمان کا دعویٰ کر رہے ہیں تو خوب سمجھ لیں کہ) اللہ اُنھیں ضرور جانے گا جو فی الواقع مومن ہیں اور منافقوں کو بھی جان کر رہے گا[12]۔  ۱۰ - ۱۱

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِيْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰيٰكُمْﵧ وَمَا هُمْ بِحٰمِلِيْنَ مِنْ خَطٰيٰهُمْ مِّنْ شَيْءٍﵧ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ١٢ وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَاَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْﵟ وَلَيُسْـَٔلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ١٣

اور منکرین(جو اِن کو ستارہے ہیں) [13]، ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہماری راہ پر چلتے رہو اور تمھارے گناہ ہم اٹھا لیں[14]، حالاں کہ اُن کے گناہوں میں سے وہ کچھ بھی اٹھانے والے نہیں ہیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ وہ جھوٹے ہیں۔ ہاں، اپنے (گناہوں کے) بوجھ وہ ضرور اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ کچھ دوسرے بوجھ بھی اور جو افترا وہ کر رہے ہیں[15]، قیامت کے دن اُس کے بارے میں یقیناً اُن سے پوچھا جائے گا۔ ۱۲ - ۱۳

[1]۔ یہ سورہ کا نام ہے۔ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر چکے ہیں۔:

[2]۔ یہ اُن لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو منکرین کے ہاتھوں زہرہ گداز مصائب سے گھبرا اٹھے اور طرح طرح کے شبہات میں مبتلا ہو گئے تھے، مثلاً یہ کہ اگر یہ خدا کا راستہ ہے تو ایسا دشوار گزار کیوں ہے؟ اگر اِس کی دعوت دینے والے خدا کے رسول ہیں تو اُن کا ساتھ دینا اِس قدر جان جوکھم کا کام کیوں بن گیا ہے؟ ہم خدا کے لیے اٹھے ہیں تو ہمارے راستے میں یہ رکاوٹیں کیوں کھڑی ہو گئی ہیں؟

[3]۔ مطلب یہ ہے کہ سنت الہٰی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جزا و سزا کا معاملہ مجرد اپنے علم کی بنیاد پر نہیں کرتا، بلکہ لوگوں کو آزمایشوں میں ڈالتا ہے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں، اُسی کی بنیاد پر اُن کے لیے جنت اور جہنم کا فیصلہ کرتا ہے۔

[4]۔ یہ اُن لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو کم زور مسلمانوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنائے ہوئے تھے۔

[5]۔ یعنی ہر لحاظ سے برا فیصلہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...خدا کو اگر اُنھوں نے کم زور سمجھا ہے کہ وہ اُن پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا، جب بھی اُن کا  فیصلہ نہایت برا ہے اور اگر اُنھوں نے اپنی اِن تمام ستم رانیوں پر اُس کو راضی اور اِس معاملے سے بالکل بے تعلق و بے پروا سمجھ رکھا ہے، جب بھی اُن کا یہ فیصلہ نہایت غلط اور نہایت برا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/   ۱۷)

[6]۔ یعنی وہ محنت جو انسان اپنے ایمان پر قائم رہنے کے لیے اٹھاتا ہے۔

[7]۔ اِس سے وہ برائیاں مراد ہیں جو اُنھوں نے اپنے ایمان لانے سے پہلے کی ہوں گی یا اب کر بیٹھیں گے اور اُس کے بعد توبہ کرکے اپنے ایمان کی تجدید کرلیں گے۔

[8]۔ یہ نفی شرک کی دلیل ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... ’علم‘ کے معنی دلیل و برہان کے ہیں۔ جہاں تک ایک خدا کا تعلق ہے، وہ تو ایک بدیہی حقیقت ہے جس کو ایک مشرک بھی بہرحال مانتاہے۔ رہے دوسرے اُس کے شریک تو اُن کی دلیل پیش کرنا اُن لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اُن کو شریک خدا ٹھیراتے ہیں اور جب تک اُن کے حق میں کوئی دلیل نہ ہو، کسی عاقل کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اُن کو خدائی میں شریک کر کے اُن کی غلامی کا قلادہ بھی اپنی گردن میں ڈال لے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۹)    

[9]۔ اوپر جن آزمایشوں کا ذکر ہوا ہے، اُن میں سے ایک بڑی آزمایش یہ بھی رہی ہے کہ والدین مذہب کے معاملے میں بسا اوقات اولاد کو اپنی اطاعت پر مجبور کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہنے والے بھی یقیناً اِس سے دوچار ہوئے ہوں گے۔ چنانچہ قرآن نے واضح کر دیا کہ والدین کا حق، بے شک مسلم ہے، لیکن خدا نے یہ حق اُن کو بھی نہیں دیا کہ دین کے معاملے میں اُن کی بات بغیر کسی دلیل کے مان لی جائے یا وہ اِس معاملے میں اپنی اولاد پر کوئی جبر کریں۔

[10]۔ یہ تنبیہ بھی ہے اور تسلی بھی کہ دباؤ کے باوجود حق پر قائم رہو گے تو صلہ پاؤ گے، ورنہ تم اور تمھارے والدین، سب کو ایک دن میری ہی طرف پلٹنا ہے، جہاں جنت بھی ہے اور جہنم بھی۔

[11]۔ لوگوں کے ستانے کے لیے آیت میں لفظ ’فِتْنَة‘ اور جو کچھ خدا کی طرف سے پیش آئے گا، اُسے ’عَذَاب‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ عذاب درحقیقت خدا ہی کا عذاب ہے۔ لوگ جو تکلیف بھی پہنچائیں، وہ بہرحال آزمایش ہی ہے، اِس سے زیادہ اُس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

[12]۔ اِس لیے کہ پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہ تمییز ضروری ہوتی ہے۔ اللہ اپنے علم کی بنیاد پر لوگوں کے عذاب و ثواب کا فیصلہ نہیں کرتا، بلکہ اُن کے عمل کی بنیاد پر کرتا ہے اور یہی عدل کا تقاضا ہے۔

[13]۔ اِس سے مراد وہ کفار ہیں جن کے بچے یا دوسرے زیر دست افراد اسلام میں داخل ہو گئے تھے۔

[14]۔ اپنے چھوٹوں کے مقابل میں یہی منطق ہے جو اُن کے بڑے ہمیشہ استعمال کرتے رہے ہیں۔

[15]۔ یعنی اپنی طرف سے جو دین بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ اِسے افترا اِس لیے کہا ہے کہ شرک ہو یا بدعت، دونوں جھوٹ ہیں جو خدا پر باندھے جاتے ہیں۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B