HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

صراطِ مستقیم کا تسلسل

محمد تہامی بشر علوی

 

لوگوں کا خیال ہے کہ صراط مستقیم کا مطلب یہ ہے کہ انسان اسلام قبول کر لے اور یہ کہ اس کا تعلق کسی ایسے مسلک سے جڑ جائے جسے مسلک حقہ کہا جا سکے۔ان دو نشانوں کو سامنے رکھ کر ہمارے علما اس میں مصروف ہیں کہ اسلام کے بعد اس مسلک حقہ کا سراغ لگاکر لوگوں کو اس سے جڑا رہنے کی تلقین کی جائے۔اس سراغ رسانی کا اب تک کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر مسلک کے محقق علما نے عمر بھر کی تحقیقات کا حاصل امت کے سامنے یہ پیش فرمایا کہ ’’ٹھیک ان کا وہی مسلک حق ہے جس پرکسی قدرتی حادثے کے نتیجے میں وہ کاربند ہوگئے تھے‘‘۔

جب لوگ اسلام اورکسی مسلک سے جڑ جاتے ہیں توصراط مستقیم کے لیے دعا مانگتے ہوئے حیران ہو جاتے ہیں کہ بھئی، جب ایک بار صراط مستقیم مل چکا تو کیوں ہر روزہرنماز میں بے وجہ بار بار یہی دعا مانگی جا رہی ہے؟ ان کے خیال میں صراط مستقیم بس زندگی میں کبھی ایک بار حاصل ہو جائے تو بس کافی ہوجاتا ہے۔پھر مزید اس کی طلب کا مطلب زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا ہے کہ اسی ایک بار ملے ہوئے صراط مستقیم پر رب مرتے دم تک قائم رکھے۔ ایک ہندواسکالردیانند سرسوتی نے بھی یہ اشکال دہرایاہے کہ مسلمان مرتے دم تک خود ہدایت مانگتے رہتے ہیں،اس کا مطلب یہی ہے کہ انھیں خود ہدایت نہیں ملی۔جسے ہدایت مل چکی ہوتواسے پھربارباروہی مانگنے کی کیا ضرورت؟

لوگوں کو جاننا ہو گا کہ یہاں نماز میں اسلام یا کسی مسلک سے ایک بار جڑجانے، اور مرتے دم تک اسی پر استقامت کی دعا کی تلقین نہیں کی جا رہی،یہاں دراصل یہ دعا تعلیم کی گئی ہے کہ قرآنی مطالبات کے مطابق اپنی پوری زندگی گزارنے کو تم بھی اپنا بنیادی مسئلہ بنا دو، جس طرح کہ خدا کے انعام یافتہ لوگ اسی دنیا میں تمھارے سامنے ویسی زندگی جینے کو اپنا مسئلہ بناتے اور ویسا جینے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ زندگی مرتے دم تک جینی پڑتی ہے۔

مرتے دم تک ہر انسان کو ہر روز نئے حالات سے سابقہ پڑ جاتا ہے۔اس ہر نئے حال میں انسان نے درست رویہ اپنانا ہوتا ہے۔اسے شدیدضرورت ہوتی ہے کہ وہ ہر نئے حال میں عمل کی درست راہ کو پہچان کرٹھیک ویسا ہی عمل کرسکے۔اسے جاتے جاتے کسی نے گالی دے دی تو اس کے جذبات میں غیرمعمولی ابال آ جائے گا، اس ابال میں یقینی طور پر یہی خدشہ ہے کہ اس کا ردعمل مکمل منفی اور صراط مستقیم کے خلاف ہو جائے گا۔ اسے ضرورت ہے کہ اس موقع پر اسے صراط مستقیم بروقت نظر آجائے۔ وہ فوری پہچان سکے کہ اس نے ردِعمل میں جذباتی ابال میں بہ نہیں جانا۔اس سخت مرحلے پر قرآنی ہدایت یہی ہے کہ میں غصے کو منفی ٹریک کی طرف نہ جانے دوں۔ صراط مستقیم ساری زندگی میں پیش آنے والا ایک مسلسل مسئلہ ہے۔کفر اوراسلام عملی زندگی میں پیش آنے والا ایک بار کا موقع ہے۔جب یہ موقع آئے گا کہ آپ نے خدا کی سرکشی کی راہ کا انتخاب کرنا ہے یا اس کی فرماں برداری کی راہ کا انتخاب کرنا ہے تو اس وقت اسلام کا انتخاب کر لینا صراط مستقیم ہو گا۔اس ایک بار کے انتخاب کے بعد انسانی زندگی رک تو نہیں جاتی۔انسانی زندگی کے ہرمرحلے پر عمل کی دوراہیں سامنے ہوں گی: ہدایت والی اورایک ہدایت سے ہٹی ہوئی۔

ایک سو چودہ سورتوں پر مشتمل اس کتاب ہدایت میں صرف کفر و اسلام کی بات ہی تو نہیں کی گئی؟ اس میں زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق درست راہ کی نشان دہی کر دی ہے۔ہدایت کو کفر و اسلام میں منحصر کر دینا سخت غلط فہمی ہے، اس سے نکلنا چاہیے۔اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں ہدایت مل چکی ہے۔پھر وہ بیٹھ کر سوچتے رہتے ہیں کہ ہدایت مل جانے کے بعد ہدایت کی دعا کی ضرورت کیا ہے؟ حالاں کہ درست بات یہ ہے کہ کفرواسلام کے مرحلۂ انتخاب کے بعد بے شمار مراحل اور بھی ہوتے ہیں جو پوری زندگی میں ہرروز کئی بار پیش آتے رہتے ہیں۔مسلمانوں کے پاس ایک مرحلے کی ہدایت موجود ہے کہ انھوں نے کفر کی راہ کو چھوڑ کر اسلام کی راہ کا انتخاب کر لیا۔اب اس مرحلے کے بعد کے مراحل میں ان کی زندگی میں کس چیز کا انتخاب ہونا ہے؟ وہ ہدایت کی راہ کا انتخاب کرتے ہیں یا گم راہی کا؟ ان تمام مراحل میں وہ ہدایت کے محتاج ہیں۔انھیں خود کو ہدایت یافتہ سمجھ کر ہدایت سے بے نیاز نہیں ہوجانا چاہیے۔اس بڑی ہدایت کے بعد کئی اور ہدایات کو اپنانا ان کے لیے ابھی باقی ہے۔

کتاب ہدایت دیکھیے، اس میں مجموعی انسانی زندگی کو ہدایت پر لانے کی بات کی ہے۔ صرف اسلام کے اقرار کوہدایت یافتہ ہونے کے لیے اس نے کافی نہیں جانا۔یہ مسلمانوں نے اپنی فضیلت ثابت کرنے کے لیے خود ہی یہ مفروضہ گھڑا ہواہے کہ وہ ہدایت یافتہ قوم ہیں۔قرآن کا تصور ہدایت ہمارے تصور ہدایت سے مختلف ہے۔فاتحہ میں ہمیں قرآنی ہدایت مانگنے کی تلقین کی گئی ہے، جس کی رو سے ہم خدا سے یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ خدایا، عمر بھرہر مرحلے میں ہدایت کی راہ کے انتخاب کی توفیق عطا فرمانا۔کتاب ہدایت زندگی کے ان مراحل کو زیربحث لاتی ہے جہاں سے انسان بہک کر صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے، وہ غلط راستے پہ چلا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں قولی تلقین کے ساتھ پچیس انبیا کے طرز عمل کو بھی ہمارے سامنے رکھا ہے تاکہ ہم دیکھیں کہ کس طرح انھوں نے مختلف مراحل میں صراط مستقیم کا انتخاب کیا ہے۔ان پچیس انبیا کے نمونے ہمارے سامنے رکھ کر یہ سمجھایاگیا ہے کہ کس طرح ان کی زندگی میں مختلف حالات آتے رہے اورکس طرح ان میں سے ہر نبی نے ہر موقع پہ درست رویہ ہی اختیار کیا۔

ہمیں ہر روز اس صراط مستقیم کی ضرورت رہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر روز ہرنماز میں ہمیں دعا کرنی پڑتی ہے کہ الہٰی، تو رحم کرنا، ہم شیطان کے اکساوے میں آکرجذبات اور خواہشات کے بہاؤ میں بہ کر صراط مستقیم سے دورہو کر تیرے غضب کا شکار نہ ہو جائیں۔

ہدایت یافتہ ہونے کے لیے عمر بھر تسلسل کے ساتھ صراط مستقیم کا انتخاب کرنا ضروری ہے۔جھوٹ، بددیانتی،گالی، قتل، دھوکا ، ملاوٹ اور جرم مسلمانوں کے معاشروں میں عام ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے ان تمام مراحل میں گم راہی کی راہ کا انتخاب کیا ہوا ہے،اور جس ہدایت کا انھوں نے انتخاب کیا ہوا ہے، وہ بھی اکثریت نے محض رسمی طور پر کیا ہوا ہے۔ مسلمانوں کو ہدایت یافتہ ہونے کے لیے اپنے رسمی اسلام کو حقیقی ایمان میں بدلنے کی ضرورت ہے، اور زندگی کے باقی مراحل میں گم راہی سے توبہ کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ان کا شمار خدا کے ہدایت یافتہ اور انعام یافتہ لوگوں میں نہیں ہو سکے گا۔

____________

B