ریمارک اکثر بیانیہ اسلوب پر مبنی آدمی کا اپنا مزعومہ یا محض تفنن ہوا کرتا ہے۔ اِس کے برعکس، تجزیہ ثابت شدہ دلائل کے مطابق گفتگو کا نام ہے۔ کسی فکر یا نقطۂ نظر کے متعلق درست نتیجے تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ مجرد ریمارک کے بجاے تجزیہ و استدلال کا علمی طریقہ اختیار کیا جائے۔ اپنے ایک حالیہ تجربے کی روشنی میں یہاں میں اِس معاملے کو مزید واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔
اکتوبر ۲۰۱۹ء میں ’’رشحات‘‘کے تحت ’’انسان کی تلاش‘‘ کے عنوان سے راقم کا ایک مضمون ماہنامہ ’’اشراق‘‘ ہند میں شائع ہوا تھا۔ بیان مدعا کے لیے اُس کو دوبارہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’ابتدا ہی سے مجھے اُس خوش نصیب’ انسان ‘کی تلاش ہے جس کے ساتھ یک طرفہ محبت،یک طرفہ خیرخواہی اوریک طرفہ اخلاقیات کی تعلیم ہماری تقریر و تحریر کا محبوب ترین موضوع رہا ہے۔مگر واقعات بتاتے ہیں کہ یہ خوش قسمت ’انسان‘ شاید اِس دنیا میں ناپید ہے۔یہاں صرف گروہی انسان اِس محبت کا مستحق قرارپاتا ہے، نہ کہ کوئی حقیقی انسان۔ یہاں اب دولت،مفاد اور اسٹیٹس ہی وہ چیزہے جو اِس قسم کی ’انسانیت‘ کا سزاوار بننے کے لیے اصل معیار کا درجہ رکھتی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے اکثرحلقوں میں اپنی قوم، ملک، مذہب، مسلک اور مشرب کے انسانوں کے لیے محبت و استقبال اور دوسرے گرو ہ سے وابستہ لوگوں کے لیے صرف بے زاری اور دورباشی کا کلچر رائج ہے۔یہاں اِس غیر انسانی سلوک کے مقدس اور غیر مقدس، دونوں مظاہر پائے جاتے ہیں ـــــکبھی ایک شخص پر ظلم کرکے، کبھی اُسے دائرۂ ایمان سے خارج کرکے اور کبھی اپنے لیے جنت کی ابدی سیٹ کے ریزرویشن کے بعد دوسرے انسانوں کو خدا اور جنت سے محروم کرکے۔یہ ظاہرہ بلاشبہ ایک بدترین انسانی اور اخلاقی بحران کی حیثیت رکھتا ہے... ۔‘‘ (صفحہ ۲)
حال میں اپنے اِس مضمون پر ایک مخلص عالم کا درج ذیل تبصرہ نظر سے گزرا :
’’یہ تلاش اپنی مثالیت کے اعتبار سے خواہ کتنی ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو، حقیقت کے لحاظ سے زمین پر جنت کی تلاش ہے۔ ظاہر ہے ، اِس تلاش میں محرومی ہی ہاتھ آئے گی۔لیکن قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اِس محرومی کا اصل نقص، انسانیت کا فقدان نہیں،بلکہ خود میں یا دوسرے انسانوں میں ملکوتیت کی تلاش ہے۔ پوری امت سے اختلاف کا جذبہ اور اپنی رائے کو کل حقیقت اور ناقابل اختلاف وناقابل شکست کلیہ سمجھنا بھی اِس محرومی کا ایک بڑا سبب ہے۔ اِس دنیا میں یہ تو ممکن ہے کہ کچھ انسان ایک دوسرے سے بے لوث محبت کریں، لیکن یہ ممکن نہیں کہ زندہ اَذہان اِس محبت کے زیر اثر دوسرے کی ہر رائے پر صاد کرے۔ اپنی رائے کو تحقیق اور دوسروں کی آرا کو تقلید سمجھنا، اپنی فہم کو عین فہم شریعت اور دوسروں کو محجوب عن الشریعہ سمجھنا بھی ہمیں ہر وقت پریشان رکھتا ہے۔ ہمیں جیو اور جینے دو، اختلاف کرو اور اختلاف سہو کے سخت، مگر صبر آزما اصولوں کو گلے لگانا ہوگا۔ ہمیں دوسروں سے بہت جلد شکوہ ہوجاتا ہے کہ وہ گروہی تعصبات کا اسیر ہے، لیکن اِس کا ادراک ہمیں کم ہی ہوپاتا ہے کہ اِس نفسیات میں جینا کہیں خود بدترین گروہیت تو نہیں...۔‘‘
اِس مخلصانہ تبصرے کے لیے ہم موصوف کے شکر گزار ہیں۔ تاہم یہ ’’مثالیت ‘‘ یا آئیڈیل ازم کی تلاش نہیں، بلکہ’ انسان ‘کی تلاش ہے۔ اِس سے پہلے مولانا روم یہی بات اِن الفاظ میں بیان کرچکے ہیں:
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملومم و انسانم آرزوست
گفتند یافت می نشود، جستہ ایم ما
گفت آنچہ یافت می نشود، آنم آرزو ست
انسانی نفسیات کی بنا پر اصلاحی اور اخلاقی موضوعات کے لیے ضروری ہے کہ اُسے مؤکد اسلوب میں بیان کیا جائے؛ اُس میں ’’شاید‘‘ اور ’’اگر‘‘جیسے انداز کے بجاے موثر اسلوب میں اصل بات پر فوکس کرکے اُسے پوری طاقت کے ساتھ مبرہن کرنے کی کوشش کی جائے۔اِس کے بغیر آدمی کے ذہن کو جھنجھوڑنا اور اُس کو سوچنے پر مجبور کرنا ممکن نہیں۔ غالباً اسلوب کی اِس نزاکت کو ملحوظ نہ رکھنے کی بنا پر اِس قسم کا مؤکد انداز مذکورہ التباس کا سبب بن گیا ہے۔
زیر نظر تبصرے کے دوسرے حصے کے متعلق صرف یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ راقم کے اِس مضمون میں سرے سے وہ بات موجود ہی نہیں جسے یہاں درج ذیل الفاظ کے تحت بیان کیا گیا ہے:
’’پوری امت سے اختلاف کا جذبہ اور اپنی راے کو کل حقیقت اور ناقابل اختلاف و ناقابل شکست کلیہ سمجھنا؛ ایک دوسرے سے بے لوث محبت کرنا، لیکن اِس محبت کے زیر اثر دوسرے کی ہر راے پر صاد نہ کرنا؛ اپنی راے کو تحقیق اور دوسروں کی آرا کو تقلید سمجھنا، اپنی فہم کو عین فہم شریعت اور دوسروں کو محجوب عن الشریعہ سمجھنا ۔‘‘
اِسی طرح ایک دوسرے مخلص اور محترم محقق سے ایک مشہور دینی رہنما کے متعلق اُن کی راے معلوم کی گئی۔ اِس کے جواب میں انھوں نے فرمایا:
’’آپ کو ایسے لوگوں سے کیا دل چسپی ہے، جن کا قبلہ ہی درست نہیں ہے؟‘‘
عرض کیاگیاکہ:
’’میں کبھی اِن اصطلاحوں میں نہیں سوچتا۔ ’لا نُكفّرُ أحدًا مِن أهلِ القِبله‘ ہماری عظیم روایت رہی ہے۔ مسلسل ذہنی ارتقا کے حصول اور فکری موت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم محض کسی ایک گروہ یا شخصیت کے خول میں محدود ہونے کے بجاے وسیع اور آفاقی طرز فکر کا طریقہ اختیار کریں۔ اچھی بات ہمیں کہیں سے بھی مل سکتی ہے، یہ کسی فرد یا گروہ کی کوئی اجارہ داری نہیں۔ اِس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم پہلے سے قائم کردہ ذہن کے بجاے کھلے دل ودماغ کے ساتھ غیرمتعصبانہ طورپر تمام چیزوں کو دیکھیں اور علم و استدلال کی بنیاد پر اُس کے درست و نادرست ہونے کا فیصلہ کریں۔ تمام ’خیر‘ صرف خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہی آخرت میں یہ فیصلہ فرمائے گا کہ کس کا ’قبلہ‘ درست تھا اور کس کا نہیں: ’قُلْ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰي شَاكِلَتِهٖﵧ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰي سَبِيْلًا‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۸۴)۔ فکری اختلاف کو ہمیشہ علمی تجزیے تک محدود رکھنا چاہیے، اُسے نہ قبلہ وایمان تک لے جا نے کی ضرورت ہے اور نہ ہمیں اِس کا مکلف بنا یاگیا ہے۔ ‘‘
آں محترم نے فرمایا:
’’...محض اُن کے ماخذ دین کے غلط ہونے کی وجہ سے عرض کررہا ہوں کہ اُن کا قبلہ درست نہیں ہے، اور اپنے ایک قریبی اور معزز دوست کی خیر خواہی میں ایسا کہہ رہا ہوں۔‘‘
میں نے عرض کیا کہ:
’’اِس خیر خواہی کے لیے میں آپ کا بے حد شکرگزار ہوں۔ ’ماخذ دین‘ کے درست نہ ہونے کی تعبیر ٹھیک ہے، مگر ’قبلہ درست نہ ہونا‘ محض ایک ادبی ریمارک کی حیثیت رکھتا ہے۔ میرا کہنا صرف یہ تھا کہ تبصرہ ہمیشہ متعین اور معروضی اسلوب میں ہونا چاہیے۔خیر خواہی اور رہنمائی کا اصل فائدہ اِسی کے ذریعے سے حاصل ہوسکتا ہے۔ اِس کے برعکس طریقہ اختیار کرنا ایک درست بات کو نادرست الفاظ میں بیان کرنے کے ہم معنی ہوگا، جو کسی بھی طرح مفید مطلب نہیں ہوسکتا۔‘‘
آں محترم نے فرمایا:
’’جی بالکل حق بات کہی ہے آپ نے۔ اللہ آپ کو جزا دے۔ میری کوشش یہی ہوتی ہے، اور میں نے آپ کے سوال کے بعد اُن کے دو تین بیانات سن کر اور کتابوں کا جائزہ لے کر ہی یہ جرأت کی تھی۔ میرے خیال میں یہ ایک معروضی تبصرہ، بلکہ نقد تھا۔ ‘‘
’’بیانات سننے اور کتابوں کا جائزہ لینے‘‘ کے بعد تجزیہ کا طریقہ ہی علمی طریقہ ہو سکتا تھا ۔ ایک سچے عالم کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ متعین علمی اور معروضی اسلوب میں کلام کرے ۔علمی اسلوب سے مراد ثابت شدہ حقائق پر مبنی انداز کلام ہے ۔مثلاً یہ کہا جائے کہ ہمارے نزدیک کتاب وسنت کے ذریعے سے موصوف کے نظریات کی تائید نہیں ہوتی؛ یا یہ کہ مذکورہ نقطۂ نظر کی نسبت سے کوئی واضح دلیل نقل کرنے کے بعد یہ بتایا جائے کہ اِن دلائل کی بنا پرہم موصوف کے تصور دین سے اتفاق نہیں کرسکتے۔
’’قبلہ درست نہیں‘‘ جیسا ریمارک کسی بھی شخص پر چسپاں کیا جاسکتا ہے، حتیٰ کہ خود صاحب تبصرہ اور اُن کے فکر پر بھی، جیسا کہ عملاً بہت سے لوگ کررہے ہیں، مگر یہ طریقہ درست نہیں۔ تبصرہ وہی ہے جو متعین اور تجزیاتی اسلوب پر مبنی ہو، جو اپنے وضوح اور علمی تعینات کی بنا پر زیر بحث فکر پر صادق آئے اور مخاطب کے لیے یہ ممکن ہو کہ وہ اُس کو ممیزطور پر ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھ سکے۔
[لکھنؤ، ۲۰ ؍فروری ۲۰۲۱ء]
ـــــــــــــــــــــــــ