مذہب پروہی اعتراض قابل اعتنا سمجھا جا سکتا ہے جو مذہب پر ہو، نہ کہ اہل مذہب کی تعبیر و کردار پر۔ معترض اگر متعصب نہیں تو وہ بتائے گا کہ اس کے اعتراض کا محل مذہب ہے یا اہل مذہب کی تعبیر اور ان کا کردار، ورنہ خلط مبحث ہوگا اور سطحی ذہن کے لیے ایسی کنفیوژن کفایت کرتی ہے۔
اہل مذہب کی مذہب کے بارے میں تعبیرات، اطلاقات اور مذہبی نصوص کے مصداقات کی تعیین خارجی چیزیں ہیں۔ اسی طرح ان کے اخلاقی کردار کی ذمہ داری مذہب پر عائد نہیں ہوتی، جیسے قرون وسطیٰ کی سخت گیر پاپائیت کی ذمہ داری مسیحیت پر نہیں ڈالی جا سکتی، جس کا آغاز ہی مظلومیت سے ہوا تھا۔ البتہ اپنے جس اقدام کی تائید اہل مذہب، مذہب سے لائیں تواس پر بحث ہو سکتی ہے کہ ان کی تعبیر و اطلاق واقعی مذہب کا مطالبہ ہے یا نہیں۔
مذہب کی بنیادی کتاب یا تعلیم، زبان و کلام کی صورت ہی میں ہوگی۔ کلام سے مختلف مفاہیم کا اخذ کرنا زبان کے نقص کی بنا پر نہیں، قاری کے فہم اور معلومات کی بنا پر ہوتا ہے۔ یہ بھی متن سے خارج ہوتے ہیں۔
کسی مذہبی متن کےدرست مفہوم تک رسائی کے لیے وہی طریقے اختیار کیے جائیں گے جو دنیا میں کیے جاتے ہیں۔ جب کسی متن کی تفہیم میں اختلاف ہو جاتا ہے، زبان و بیان کے مسلمہ اصولوں کو برتا جاتا ہے۔ کلام جس صنف سے تعلق رکھتا ہے، اسی صنف کے اصول زبان اس پر لاگو کیے جاتے ہیں۔ کلام کا سیاق و سباق دیکھا جاتا ہے۔ متکلم کے تناظر میں کھڑے ہو کر کلام کو سمجھاجاتا ہے۔ قاری کا تناظر اہم نہیں ہوتا۔
کسی مذہبی حوالے کے مصداق کے تعین میں اہل مذہب کی غلطی مذہب کا قصور ہے یا اہل مذہب کا؟ سوال کا جواب معلوم ہے۔مثلاً آدم کا مصداق کو ن ہے۔ اس کی تعیین نہ قرآن نے کی، نہ بائیبل نے۔ البتہ ان کے مفسرین نے اپنے ذوق جستجو کی تسکین کی خاطر اس کی کوشش کی۔ ماضی کی روایتوں سے کچھ مشہور ہستیوں کے نام انھیں مل سکے۔ ان کو ملا کر ایک شجرۂ نسب بھی ترتیب دینے کی کوشش کی۔ اور یہ بھی طے کرنے کی کوشش کی کہ آدم کو کتنا وقت گزر چکا۔ یہ سب انسانی کاوشیں تھیں، جن کا مطالبہ مذہب نے نہیں کیا تھا۔ یہ اپنا ذوق تھا۔ ان انسانی کاوشوں میں غلطی کا امکان ایسے ہی تھا اور ہے، جیسے کم وسائل اور معلومات کی وجہ سے انسان سائنسز اور سوشل سائنسزمیں مختلف مفروضات قائم کرتا اور مزید معلومات کی روشنی میں انھیں بہتر بناتا اور بدلتا رہتا ہے۔ بعد والے پہلے والوں کا مذاق نہیں اڑاتے کہ انھیں تو معلوم نہ تھا کہ سورج زمین کے گرد نہیں گھومتا یا یہ کہ کیچڑ میں مچھلیاں خود بخود پیدا نہیں ہو جاتیں اور یہ کہ انسان دو تین لاکھ سال پہلے سے دنیا میں آباد ہے۔M
مذہبی متون کے تراجم بعض اوقات ایسی غلط فہمیوں کا باعث بنتے ہیں جن میں کسی محاورے کے الفاظ کو لغوی معنی دے دیے جاتے ہیں ، جیسے بائیبل میں ’باپ‘ اور ’بیٹا‘ کا معنی جب اناجیل کےمترجمین نے کیا تو ان الفاظ کو باقی ہر جگہ مجازی معنی میں لیا، مگر مسیح کے لیے حقیقی اور خصوصی معنی میں لے لیا۔
مذہبی متون خصوصاً قرآن ، جس کے اپنے الفاظ محفوظ ہیں ، اس پر ایک اعتراض یہ ہے کہ قرآن بے ربط معلوم ہوتا ہے اور اگر یہ مربوط ہے توانھی کو محسوس ہوتا ہے جو اس کی زبان اور اسالیب کا بہت اچھا ذوق رکھتے ہیں۔
قرآن کی ایک تعلیم ہے اور ایک اس کا حسن کلام۔ تعلیم عام فہم اور بتکرار بیان ہوئی ہے کہ ہر شخص اس سے واقف ہے۔ حسن کلام، البتہ اسی پر کھلے گا جو اس کے مطابق زبان اور ادب میں اپنا علم و ذوق بلند کر پائے گا۔ یہ اختصاصی علم و فہم ہے۔ ایسے ہی، جیسے زبان ہم سب بولتے ہیں، مگر کلام غالب کے لطائف اسی پر کھلیں گے جو زبان و ادب میں درک رکھتا ہو۔ کلام غالب کسی کم ذوق کے لیے نہیں ہے اورنہ اس کے لیے وہ اپنا معیار پست کرے گا۔ یہی معاملہ قرآن کا ہے۔ اس کا ربط و نظم اس پر کھلتا ہے جو اس کے اسالیب کا ذوق پیدا کر پاتا ہے۔ اب تو خیر اس ربط کو اہل فن نے اپنے تراجم میں بھی نمایاں کر کے دکھا دیا ہے۔ اب تو کسی کم ذوق کےلیے بھی کوئی عذر باقی نہ رہا۔ وہ جس حسن کو باور نہیں کرپایا، اسے پڑھ تو سکتا ہے۔
یہ کہنا کہ قرآن اپنے دور کے لیے نازل ہوا تھا ۔ پہلے دور کی کتاب کو آج کے دورمیں قابل عمل سمجھنا درست نہیں تو پوچھا جائے گا کہ قرآن میں ایسا کیا ہے جو اب قابل عمل نہیں ہو سکتا؟ کیا خدا ایک نہیں رہا یا خدا کو مان لینے کے بعد اس کی اطاعت و عبادت کا جذبہ انسان میں مرچکا ہے یا انسان کی اخلاقی حس میں کوئی تبدیلی ہو گئی ہے، اب یہ وہ انسان نہیں رہا جو صدیوں پہلے ہوا کرتا تھا۔ مرد و عورت، مرد وعورت نہیں رہے، دونوں کو ایک دوسرے میں کشش محسوس ہونا بند ہو گئی ہے یا بچے پیدا کرنے کی خواہش ختم ہو گئی ہے او ر خاندان کا ادارہ ختم کردینے کا اعلان ہوگیا اور اسے ریگولرائز کرنے کی ضرورت نہیں رہی؟
قرآن اس انسان سے مخاطب ہوتا ہے جو کبھی نہیں بدلتا۔ اس کی فطرت کبھی نہیں بدلتی۔اس کی مستقل اقدار کبھی نہیں بدلتیں۔
ایسا نہیں کہ قرآن میں اپنے دور سے مخصوص احکامات نہیں ہیں، یقیناً ہیں اور اپنی نوعیت سے خود بتا دیتے ہیں کہ یہ اس دور کی سرگذشت کا حصہ ہیں، نہ کہ ابدی شریعت کا۔ مگر سوال یہ ہے کہ انسان کی فطرت اور سماج کی وہ اقدار جو کبھی نہیں بدلتیں، ان کے بارے میں مستقل احکام کیوں نہیں دیے جا سکتے، احکام کے اطلاقات میں تو تنوع ہوتا ہے، وہ ناگزیر ہے، مگر احکام ہی بدل جائیں اس کی ضرورت کیوں ہے؟ یا دکھایا جائے کہ اس کے احکام میں کوئی خرابی ہے جو نہ اس وقت چل سکتے تھے اور نہ اب۔
یہ ہماری فقہ میں ہوا کہ ایک دور کے شرعی احکام کی اطلاقی صورتوں کو بھی مستقل سمجھ لیا گیا، جس سے بدلے ہوئے دور میں توحش محسوس ہوتا ہے۔ انسانی رویے کی یہ غلطی شریعت ہی میں نہیں، تقریباً ہر معاملہ میں ہوتی ہے۔ کلچر کی ہر تبدیلی اسی جمود سے ٹکرا کر آتی ہے۔ یہی معاملہ شریعت کے اطلاق میں بھی ہوا۔ ایک دور کے کلچر میں شریعت کی اطلاقی صورتیں، شریعت ہی باور کرا دی گئیں۔ جیسے خواتین کے پردے کا تصور۔ یہ بات کہ عورتیں مردوں سے پردے کی اوٹ میں رہیں، یہ قرآن نے بیان نہیں کیا تھا۔ اس کے برعکس، اس نے مردوں اور عورتوں کے اختلاط کے موقع پر آداب بیان کر کے بتا دیا تھا کہ ایسی کوئی بات اس کے پیش نظر نہیں ہے۔ ان آداب میں بھی اس نے بتایا کہ اگر مرد و عورتوں نے زیب و زینت کا اہتمام نہیں کر رکھا تو بس آنکھوں اور عصمت کی حفاظت کافی ہے۔ اور اگر خواتین نے زیب و زینت کر رکھی ہے، یعنی پارٹی میک اپ ہے تو ان میں بھی جو اعضا عام طور پر کھلے رہتے ہیں، انھیں چھپانے کی زحمت میں نہ پڑیں، اس کے علاوہ جو زیب و زینت ہے، اسے ڈھانک کر رکھیں۔ وقار سے رہیں، ایسی حرکتیں نہ کریں جس سے مردو ں کی توجہ کھینچ کھینچ کر حاصل کی جائے۔چنانچہ کوئی آواز والا زیور ہو، جیسے پازیب یا چوڑیاں تو اسے بجا بجا کر انھیں متوجہ نہ کریں۔ پروقار مرد و خواتین ان آداب کو کسی نہ کسی صورت مانتے آئے ہیں۔ اِنھی کو ضابطہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ رہا معاملہ گھروں میں بیٹھے رہنے اور مردوں سے سخت لہجے میں بات کرنے اور ان سے اوٹ میں رہنے کا، تو یہ آیت مخاطب ہی ازواج مطہرات کو کرتی ہے۔ انھیں یہ مسائل درپیش تھے کہ مدینے کے منافق ان کی زندگی کو اسکینڈلائز کرنے کے درپے تھے، جیسا کہ سورۂ احزاب میں بیان ہوا ہے۔ یہ ان کے پروٹوکول کے احکام تھے۔ اسی طرح گھروں سے باہر نکلنے وقت چادر اوڑھنے کی ہدایت بھی اوباشوں کی وجہ سے دینی پڑی اور یہ منہ چھپانے کی نہیں، بلکہ اس لیے تھی کہ وہ پہچان لی جائیں کہ یہ خاندانی خواتین ہیں اور باہر کھڑے اوباش انھیں چھیڑ کر ریاست کی سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ اوباشوں کی وجہ سے خواتین کو گھروں میں بیٹھے رہنے کی تلقین نہیں کی گئی، الٹا اوباشوں سے کہا گیا کہ اب بھی باز نہ آئے تو مدینے سے نکال دیے جائیں گے۔ مگر مذہبی تعبیرات نے اشرافیہ کے ہاں پائے جانے والے پہلے سے چلے آئے سخت پردے کی رسم کو قرآن کے غیر متعلق مقامات سے نکال کر اس پر چسپاں کر دیا کہ خواتین گھروں میں بیٹھی رہیں، وہی ان کا اصل ٹھکانا ہے۔
وراثت کا معاملہ دیکھیے۔ اس میں انسان ہمیشہ سے افراط و تفریط کاشکار رہا ہے۔ ایک دور وہ تھا جب سب کچھ مردوں کے حوالے کر دیا جاتا تھا اورا یک دور یہ ہے جو مرد و عورت میں کوئی فرق کرنے پر تیار نہیں۔ قرآن نے اس میں جو راہ بتائی، وہ یہ ہے کہ وراثت کی تقسیم میں سب سے پہلے مرنے والے کی وصیت کو دیکھا جائے گا۔ اگر اس نے کسی مصلحت اور متعلقین کی ضروریات یا خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے سارے مال کی وصیت کر دی ہے تو قانون کے تحت تقسیم وراثت کی ضرورت نہیں۔ اور اگر نہیں کی تو اب یہ اس اصول پر طے ہوگی کہ مرنے والے کے لیے جو جتنا زیادہ مالی اور جسمانی فوائد کا سبب ہے، اسے اسی حساب سے وراثت سے فائدہ ملے گا۔ چنانچہ ماں باپ کی منفعت برابر ہوتی ہے، اس لیے وراثت میں ان کے حصے بھی برابر ہیں۔ اولاد میں بیٹوں کی منفعت بیٹیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ ماں باپ بیٹوں کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ ان کے بڑھاپے میں ان کی دیکھ بھال اور علاج معالجہ سب بیٹوں کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ بیٹیاں دوسرے گھر رخصت ہو جاتی ہیں۔ ان کی منفعت ان کے سسرال، شوہر اور ان کے بچوں کو منتقل ہو جاتی ہے۔اس کے باوجود وہ جو خدمت کر پاتی ہیں، وہ ان کی عنایت سمجھی جاتی ہے، نہ کہ ذمہ داری۔ ذمہ داری بیٹوں ہی کی ہوتی ہے۔ اسی بنا پر بیٹوں کا حصہ بیٹیوں سے دوگنا رکھا گیا کہ ان کی منفعت بھی بیٹیوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اولاد نہ ہو تو یہی حصے بہن بھائیوں کو منتقل ہو جاتے ہیں۔ وہاں بھی یہی اصول ہے کہ بھائیوں کی مالی و جسمانی منفعت بہنوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ بہنوں اور بیٹیوں کی منفعت جذباتی لحاظ سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے جذبات ہی میں سے حصہ انھیں دیا جاتا ہے۔
میاں بیوی کے معاملے میں شوہر کی مالی منفعت بیوی کی مالی منفعت سے زیادہ ہوتی ہے۔ شوہر پر ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی پر خرچ کرے، نہ کہ بیوی کی ذمہ داری ہے کہ شوہر پر خرچ کرے۔ بیوی گھر اور شوہر پر اگر کچھ خرچ کرتی ہے تو اس کی عنایت سمجھی جاتی ہے۔ ذمہ داری بہرحال مرد پر ہے۔ کسی سماج میں بھی اب تک اس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسی بنا پر مرد کا حصہ اس کی بیوی کی وراثت میں بیوی کے حصے سے دوگنا ہے جو اسے مرد کی وراثت سے حاصل ہوتا ہے۔
یہ نہایت ہی مبنی بر انصاف قانون ہے جس میں اولیت مرنے والےکی وصیت کو حاصل ہے کہ اگر یہ عمومی قاعدہ اس پر لاگو نہیں ہوتا اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کی جایداد کا زیادہ حق دار کوئی اور ہے، مثلاً اس کی بیوی جس نے غیر معمولی خدمت کی ہو اور بالفرض بیٹوں نے خیال نہ کیا ہو یا بیٹیوں نے زیادہ کردار ادا کیا ہو یا اولاد سے باہر کسی اور شخص نے کوئی خدمت یا احسان کیا ہو یا اس کی اولاد کو اس کی دولت کی ضرورت نہ ہو اور وہ کسی فلاحی ادارے کو دینا چاہے، تو اس کے حق میں وصیت کر لے، لیکن اگر وصیت نہیں کی تو اب یہ قانون نافذ ہوگا جو دنیا کے عمومی قاعدے کے اعتبار سے انصاف کی بہترین صورت پیش کرتا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ