’’یہودو نصاریٰ بھی علم و عمل ، دونوں میں شرک جیسی نجاست سے پوری طرح آلودہ تھے ، لیکن اِس کے باوجود وہ چونکہ اصلاً توحید ہی کے ماننے والے ہیں، اِس لیے اتنی رعایت اللہ تعالیٰ نے کی ہے کہ اُن کی پاک دامن عورتوں سے مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دے دی ہے ۔ارشاد فرمایا ہے :
وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَا٘ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْ٘ اَخْدَانٍ.(المائدہ ۵ : ۵)
’’اور اُن لوگوں کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، جب تم اُن کے مہر اُنھیں ادا کر دیتے ہو، اِس شرط کے ساتھ کہ تم بھی پاک دامن رہنے والے ہو، نہ بدکاری کرنے والے اور نہ چوری چھپے آشنائی کرنے والے۔‘‘
آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہ اجازت اُس وقت دی گئی ، جب توحید کے معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا اور مشرکانہ تہذیب پر اُس کا غلبہ ہر لحاظ سے قائم ہو گیا ۔ اِس کے لیے آیت کے شروع میں لفظ ’اَلْيَوْم‘کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس اجازت میں وقت کے حالات کو بھی یقیناًدخل تھا۔ لہٰذا اِس بات کی پوری توقع تھی کہ مسلمان اِن عورتوں سے نکاح کریں گے تو یہ اُن سے متاثر ہوں گی اور اِس طرح شرک و توحید کے مابین کوئی تصادم نہ صرف یہ کہ پیدا نہیں ہو گا ، بلکہ ہو سکتا ہے کہ اُن میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہو جائیں۔ ‘‘ (میزان ۴۲۱)
سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۵ میں مسلمان مردوں کو اہل کتاب کی خواتین کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس ضمن میں دو اہم سوالات علمی طور پر تنقیح طلب ہیں:
پہلا یہ کہ اس ہدایت کا اور سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۲۱کا باہمی تعلق کیا ہے جہاں مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے مشرک عورتوں اور مردوں کے ساتھ نکاح کو ممنوع ٹھیرایا گیا ہے؟
دوسرا یہ کہ سورۂ مائدہ کی آیت میں اہل کتاب کی خواتین کے تصریحاً ذکر کیے جانے، جب کہ اہل کتاب مردوں سے سکوت اختیار کرنے کی دلالت کیا ہے؟ آیا یہ سکوت اس پر دلالت کرتا ہے کہ اہل کتاب کی صرف خواتین سے نکاح کی اجازت دینا مقصود ہے اور اہل کتاب کے مردوں سے نکاح جائز نہیں یا اس کے علاوہ کچھ دوسرے پہلو ؤں کا بھی احتمال ہے؟
پہلے سوال کے تعلق سے ابوبکر الجصاص نے دو امکان بیان کیے ہیں: ایک یہ کہ سورۂ بقرہ میں مشرکین سے مراد ہر قسم کے اہل کفر ہیں اور ان سب کے ساتھ نکاح ممنوع ہے، جب کہ مائدہ کی آیت حرمت نکاح کے اس عمومی حکم کے بعد ایک استثنایا تخصیص کو بیان کرنے کے لیے آئی ہے۔
دوسرا امکان یہ ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیت میں بیان کردہ ممانعت خاص طور پر مشرکین کے لیے ہے، یعنی اہل کتاب اس میں شامل نہیں۔ یہ تخصیص قرآن کی مخصوص اصطلاح اور استعمال سے واضح ہوتی ہے، کیونکہ اگرچہ اہل کتاب میں سے نصاریٰ میں اعتقادی شرک پایا جاتا ہے، لیکن بطور ایک گروہ کے ’المشرکین‘ کا لقب قرآن نے خاص طور پر مشرکین عرب کے لیے استعمال کیا ہے(احکام القرآن۱/ ۳۳۳۔ ۲/ ۳۲۵)۔ اس تعبیر کے لحاظ سے قرآن نے سورۂ بقرہ میں مشرکین سے نکاح کی تو ممانعت کر دی تھی، جب کہ کفار کے دیگر گروہوں کا حکم مسکوت عنہ یا محتمل رہا تا آنکہ سورۂ مائدہ کی آیت میں اسے ایک مستقل ہدایت کے طور پر، نہ کہ سورۂ بقرہ کی آیت کی تخصیص کے طور پر، بیان کیا گیا ۔
دونوں صورتوں میں یہاں محصنات اہل کتاب کے ذکر پر اکتفا فقہا کے نزدیک اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اجازت اہل کتاب کی خواتین تک محدود ہے، یعنی مسلمان عورتوں کو محصنین اہل کتاب سے نکاح کی اجازت نہیں دی گئی۔
مصنف نے بنیادی طور پر دوسرے زاویۂ نظر سے اتفاق کیا ہے، یعنی ان کے نزدیک سورۂ بقرہ کی آیت میں تصریحاً تو مشرکین کے ساتھ نکاح کی ممانعت کی گئی ہے، تاہم اپنی علت کے لحاظ سے یہ ممانعت اس بات کا احتمال رکھتی تھی کہ ا س کا اطلاق اہل کتاب پر، اور خاص طور پر نصاری ٰ پر بھی کیا جائے۔ تاہم اللہ تعالی ٰ نے اہل کتاب کے، اصلاً توحید ہی سے وابستہ ہونے کی رعایت کرتے ہوئے ، ان کی پاک دامن عورتوں سےنکاح کی اجازت دے دی۔ ’’البیان‘‘ میں مصنف نے ان دونوں حکموں کے باہمی تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۲۱ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مسلمان نہ مشرک عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں اور نہ اپنی عورتیں مشرکین کے نکاح میں دے سکتے ہیں۔ یہ حکم جس طرح مشرکین عرب سے متعلق تھا، اُسی طرح اشتراک علت کی بنا پر یہود و نصاریٰ سے بھی متعلق ہو سکتا تھا، کیونکہ علم و عمل، دونوں میں وہ بھی شرک جیسی نجاست سے پوری طرح آلودہ تھے، تاہم اصلاً چونکہ توحید ہی کے ماننے والے تھے، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے رعایت فرمائی اور اُن کی پاک دامن عورتوں سے مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دے دی ہے‘‘ (۲۳۳)۔
گویا مصنف کے نزدیک اس اجازت کی نوعیت ایک رخصت اور رعایت کی ہے۔ اس رخصت کی تفہیم میں ایک اہم قید مولانا امین احسن اصلاحی نے ’الیوم ‘ کی روشنی میں شامل کی ہے، جس کا ذکر روایتی فقہی ذخیرے میں نہیں ملتا۔ مصنف نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اہل کتاب کی پاک دامن خواتین کے ساتھ نکاح کی رعایت دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے سیاسی غلبے کی صورت حال کو بطور خاص ملحوظ رکھا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض انفرادی پسند یا ناپسند کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کے دعوتی مقاصد اور مسلمان معاشرے کے اجتماعی مصالح کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
اس زاویۂ نظر سے ، دوسرے سوال کے جواب کے حوالے سے بھی مصنف کا نقطۂ نظر سمجھا جا سکتا ہے، یعنی چونکہ اس اجازت کی نوعیت ایک رعایت کی ہے اور اس میں بھی توقع کو بہت دخل حاصل ہے کہ اہل کتاب کی خواتین مسلمان شوہروں کے نکاح میں آنے کے بعد قبول اسلام کی طرف مائل ہو جائیں گی، اس لیے یہ اجازت اہل کتاب کی خواتین تک ہی محدود ہے، جب کہ مسلمان خواتین اسی کی پابند ہیں کہ نکاح کے لیے مسلمان شوہروں کا ہی انتخاب کریں۔
مصنف کے نقطۂ نظر کی تائید میں چند مزید قرائن کا بھی حوالہ دیا جا سکتا ہے جن سے شارع کا یہ رجحان واضح ہوتا ہے کہ ایسا نکاح اس کی نظر میں ناپسندیدہ ہے۔ مثلاً سورۂ مائدہ کی آیت میں قرآن نے اہل کتاب کے ساتھ معاملات کے حوالے سے دو امور کا ذکر کیا ہے: ایک طعام اور دوسرا نکاح۔ طعام کا ذکر کرتے ہوئے ’طَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْﵣ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ‘ کے الفاظ میں صریحاً دو طرفہ حلت بیان کی گئی ہے، جب کہ نکاح کے بیان میں صرف یک طرفہ حلت کا ذکر ہے۔ ایک ہی سیاق میں اسلوب کی یہ تبدیلی ایک بہت مضبوط قرینہ ہے کہ شارع نکاح کی اجازت کو یک طرفہ ہی رکھنا چاہتا ہے۔ T
قرآن کے دیگر بیانات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ مناکحت کے تعلق کو اصلاً اہل ایمان ہی کے مابین پسند کرتا ہے۔ چنانچہ سورۂ مائدہ کی زیر بحث آیت میں اصولی طور پر ’الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ‘ کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس لیے کہ ان کی حلت پہلے سے واضح تھی، تاہم قرآن نے اس کو یہاں دہرایا ہے اور اس کے بعد بالتبع محصنات اہل کتاب کا ذکر کیا ہے تاکہ نکاح کے معاملے میں شارع کی ترجیحات واضح رہیں۔ سورۂ نساء میں لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی اجازت میں ’مِنْ فَتَيٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ‘کی قید بھی اسی ترجیح کو واضح کرتی ہے۔
مزید برآں، شریعت کے عمومی مقاصد اور پیش نظر مصالح بھی اس رجحان کی تائید کرتے ہیں۔ رشتۂ نکاح میں عورت کا مرد کے تابع ہونا ایک بدیہی امر ہے اور فقہا اسی سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ اسلام کے مجموعی مزاج کے لحاظ سے ایک مسلمان عورت کا کسی غیر مسلم مرد کے فراش پر ہونا ناپسندیدہ ہے۔ فی نفسہٖ ایک ناگوار امر ہونے کے ساتھ ساتھ اگر عورت اور اس کی اولاد کے، شوہر کے دین اور کافرانہ ماحول سے متاثر ہونے کا خطرہ بھی ہو تو ظاہر ہے کہ اس رشتے کی قباحتیں شریعت کی نظر میں مزید بڑھ جاتی ہیں(السید سابق، فقہ السنۃ ۵۵۱)۔
’’... نکاح خاندان کے جس ادارے کو وجود میں لانے کے لیے کیا جاتا ہے ، اُس کی حرمت کا تقاضا ہے کہ یہ والدین اور سرپرستوں کو ساتھ لے کر اور اُن کی رضا مندی سے کیا جائے ۔ اِس میں شبہ نہیں کہ نکاح میں فیصلہ اصلاً مردو عورت کرتے ہیں اور اُن کے علانیہ ایجاب و قبول سے یہ منعقد ہو جاتا ہے ، لیکن اولیا کا اذن اگر اُس میں شامل نہیں ہے تو اِس کی کوئی معقول وجہ لازماً سامنے آنی چاہیے ۔ یہ نہ ہو تو معاشرے کا نظم اجتماعی یہ حق رکھتا ہے کہ اِس طرح کا نکاح نہ ہونے دے ۔ ’لا نکاح إلا بولي‘(سرپرست کے بغیر کوئی نکاح نہیں) اور اِس طرح کی دوسری روایتوں میں یہی بات بیان ہوئی ہے ۔ ‘‘ (میزان ۴۲۱)
اس اقتباس میں ان احادیث کی بنیاد پر روشنی ڈالی گئی ہے جن میں بیان ہوا ہے کہ عورت اپنے سرپرست کی رضامندی کے بغیر ازخود اپنا نکاح نہیں کر سکتی اور اگر کوئی عورت ایسا کرے تو اس کا نکاح باطل ہوگا (ترمذی، رقم ۱۱۰۱- ۱۱۰۲)۔
ان احادیث کے حوالے سے ایک اہم سوال تو یہ ہے کہ قرآن مجید میں نکاح سے متعلق جو اصول وضوابط بیان ہوئے ہیں، ان سے ان کا کیا تعلق ہے؟ یہ سوال خاص طور پر ان اصولی مکاتب فکر کے لیے اہم ہے جو اخبار آحاد کی بنیاد قرآن مجید کی ہدایات یا شریعت کے اصولی قواعد میں واضح ہونا یا کم سے کم ان کا قرآن یا اصولی قواعد کے معارض نہ ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک نقطۂ نظر حنفی فقہا نے اختیار کیا ہے جو مذکورہ احادیث کو ظاہر کے اعتبار سے قرآن مجید کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید نے نکاح کے احکام کا ذکر کرتے ہوئے علی العموم اس کی نسبت خود عورت کی طرف کی ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نکاح کرنے کو اصلاً عورت کا حق سمجھتا ہے اور بالغ ہونے کے بعد عورت جیسے اپنے مال میں خود تصرف کرنے کا حق رکھتی ہے، اسی طرح اپنی ذات کے بارے میں بھی فیصلہ کرنے کا پورا اختیار رکھتی ہے۔ اس وجہ سے مذکورہ روایات کو ظاہری مفہوم کے لحاظ سے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ حنفی فقہا زیربحث روایات کی ایک ممکنہ تاویل یہ بیان کرتے ہیں کہ ان میں باندیوں کا حکم بیان کیا گیا ہے، کیونکہ ان کے بارے میں خود قرآن مجید نے تصریح کی ہے کہ وہ اپنا نکاح اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتیں اور اگر کوئی شخص کسی باندی سے نکاح کرنا چاہے تو اس کے مالک کی رضامندی ضروری ہے (النساء ۴: ۲۵)۔ یوں ان روایات کو آزاد خواتین کے بجاے باندیوں سے متعلق قرار دیا جائے تو وہ قرآن کے مطابق ہو جاتی ہیں (احکام القرآن ۱/ ۴۰۰۔ ۲/ ۵۳)۔
احناف کے نزدیک دوسری ممکنہ توجیہ یہ ہے کہ یہ روایات اس صورت سے متعلق ہیں، جب عورت نے غیرکفو میں، یعنی ہم پلہ لوگوں کو چھوڑ کر خاندانی لحاظ سے کم تر لوگوں میں نکاح کر لیا ہو۔ اس صورت میں چونکہ خاندان کی عزت ووقار کا سوال ہوتاہے اور بڑے خاندانوں کے یہاں اپنی خواتین کا نکاح معاشرتی لحاظ سے کم تر خاندانوں میں کرنا معیوب سمجھا جاتاہے، اس لیے ولی کی اجازت اور منظوری کے بغیر یہ نکاح درست نہیں۔ احناف کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور عقل وقیاس کی رو سے نکاح کرنا اصلاً عورت کا حق ہے اور وہ بالغ ہونے کے بعد جیسے اپنے مال میں خود تصرف کرنے کا حق رکھتی ہے، اسی طرح اپنی ذات کے بارے میں بھی فیصلہ کرنے کا پورا اختیار رکھتی ہے، البتہ اسے فیصلے میں اپنے اولیا اور خاندان کے جذبات واحساسات کی بھی پاس داری کرنی چاہیے۔ چنانچہ اگر وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ نکاح کر لے جس کے ساتھ تعلق داری میں اس کے اہل خاندان عار محسوس کریں تو یقیناً یہ نکاح اس کے سرپرست کی رضامندی پر موقوف ہوگا اور اگر وہ اس پر اعتراض کرے تو نکاح فسخ قرار پائے گا، لیکن مطلقاً اور ہر حالت میں عورت کے حق نکاح کو سرپرست کی رضامندی پر منحصر اور موقوف قرار نہیں دیا جا سکتا۔
تاہم جمہور فقہا ومحدثین نے ان احادیث کے، قرآن مجید کے معارض ہونے کے استدلال کو قبول نہیں کیا اور ان کا عمومی نقطۂ نظر ان روایات کی روشنی میں یہ ہے کہ اپنے سرپرست کی اجازت اور اس کی وساطت کے بغیر عورت اپنا نکاح خود کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ شاطبی نے ان احادیث کا تعلق قرآن سے یوں واضح کیا ہے کہ بعض صورتوں میں ایسا ہوتا ہے کہ قرآن مجید کسی معاملے میں حلت اور حرمت کے دائرے میں آنے والی بالکل واضح صورتوں کا ذکر تو کر دیتا ہے، لیکن دونوں دائروں کے درمیان ایسی مشتبہ صورتوں کا حکم واضح نہیں کرتا جنھیں قیاساً حلت کے دائرے میں بھی شمار کیا جا سکتا ہے اور حرمت کے دائرے میں بھی۔ چنانچہ سنت اس نوعیت کے بہت سے مسائل میں یہ واضح کر دیتی ہے کہ مشتبہ فروع کا الحاق کس جانب ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام اور نکاح اور ملک یمین کے ذریعے سے عورت سے استمتاع کو حلال قرار دیا ہے، تاہم ایسے نکاح کا حکم بیان نہیں کیا جسے غیر مشروع طریقے سے عمل میں لایا گیا ہو۔ سنت میں ان میں سے بعض صورتوں کا حکم واضح کیا گیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح کر لینے والی عورت کے نکاح کا کوئی اعتبار نہیں، اسی قبیل سے ہے (الموافقات ۴/ ۲۸- ۳۲)۔
شاہ ولی اللہ اس موقف کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ عورتیں چونکہ معاشرتی معاملات کی سمجھ بوجھ کم رکھتی ہیں اور اس کا خدشہ ہے کہ وہ خاندانی وقار کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے شخص کے ساتھ نکاح کے لیے رضامند ہو جائیں جو سماجی طور پر ان کے ہم سر نہیں ہیں، اس لیے شریعت نے اس کے سدباب کے لیے ان کے سرپرستوں کا بھی اس میں ایک اختیار اور کردار رکھا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ مردوں کے عورتوں پر قوام ہونے اور ان کے نان ونفقہ کا ذمہ دار ہونے کا اصول بھی یہ تقاضا کرتا ہے کہ نکاح کو ان کی رضامندی اور وساطت کے ساتھ مشروط ٹھیرایا جائے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۱۹۶۔ نیز دیکھیے السید سابق، فقہ السنۃ۵۶۳)۔
مصنف کا نقطۂ نظر یہاں احناف سے قریب تر دکھائی دیتا ہے، چنانچہ انھوں نے احادیث کی تفہیم عورت کو اپنے نکاح کے معاملے میں بے اختیار قرار دینے کے اصول پر نہیں کی، جیسا کہ جمہور فقہا کا موقف ہے، بلکہ یہ قرار دیا ہے کہ عورت اپنے نکاح کے معاملے میں اصولاً با اختیار ہوتے ہوئے، اگر کوئی ایسا فیصلہ کر لے جس پر اس کے خاندان کے لوگ بجا طور پر اعتراض کر سکتے ہوں تو ان کے اعتراض کا وزن تسلیم کیا جائے گا اور قانونی اقدام کے ذریعے سے ایسے نکاح کو ختم کر دیا جائے گا۔
’’...آیۂ زیر بحث میں اِس سرکشی کے لیے ’نُشُوْز‘ کا لفظ آیا ہے ۔ اِس کے معنی سر اٹھانے کے ہیں ، مگر اِس کا زیادہ استعمال اُس سرکشی اور شوریدہ سری کے لیے ہوتا ہے جو کسی عورت کی طرف سے اُس کے شوہر کے مقابل میں ظاہر ہو۔ یہ لفظ عورت کی ہر کوتاہی ، غفلت یا بے پروائی یا اپنے ذوق اور راے اور اپنی شخصیت کے اظہار کی فطری خواہش کے لیے نہیں بولا جاتا ، بلکہ اُس رویے کے لیے بولا جاتا ہے ، جب وہ شوہر کی قوامیت کو چیلنج کر کے گھر کے نظام کو بالکل تلپٹ کر دینے پر آمادہ نظر آتی ہے ۔
...کوئی عورت اگر اِس طرح کی سرکشی پر اتر ہی آئے تو مرد کیا اُس کی تادیب کر سکتا ہے ؟ قرآن نے اِس کا جواب اثبات میں دیا ہے ۔... اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ معاملہ یہاں تک پہنچ رہا ہو تو مرد اپنا گھر بچانے کے لیے تین صورتیں اختیار کر سکتاہے ، بلکہ اُسے کرنی چاہییں:
پہلی یہ کہ عورت کو نصیحت کی جائے ۔ آیت میں اِس کے لیے ’وَعْظ‘ کا لفظ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اِس میں کسی حد تک زجرو توبیخ بھی ہو سکتی ہے ۔
دوسری یہ کہ اُس سے بے تکلفانہ قسم کا خلاملا ترک کرد یا جائے تاکہ اُسے اندازہ ہو کہ اُس نے اپنا رویہ نہ بدلا تو اِس کے نتائج غیر معمولی ہو سکتے ہیں ۔
تیسری یہ کہ عورت کو جسمانی سزا دی جائے ۔ یہ سزا، ظاہر ہے کہ اتنی ہی ہو سکتی ہے جتنی کوئی معلم اپنے زیرتربیت شاگردوں کو یا کوئی باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنا پر اِس کی حد ’غير مبرح‘ کے الفاظ سے متعین فرمائی ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی سزا نہ دی جائے جو کوئی اثر چھوڑے ۔‘‘(میزان۴۲۵)
سرکش بیویوں کی جسمانی تادیب کے حوالے سے قرآن مجید کی یہ ہدایت دور جدید میں مرد و زن کی مساوات کے فلسفے کے تناظر میں ، جس میں مرد کی قوامیت کے تصور کو قبول نہیں کیا جاتا، خاص طور پر زیر بحث ہے ۔ شوہر کو بیوی کی جسمانی تادیب کا اختیار دینا چونکہ مرد کی قوامیت کے اصول کی ایک فرع ہے، اس لیے اس طرزفکر میں اسے شوہر کے ایک حق کے طور پر قبول کرنا ممکن نہیں۔
اس رجحان کے زیر اثر زیر بحث ہدایت میں ’فَاضْرِبُوْهُنَّ‘ کی ایسی تشریحات کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن سے لفظ کے ظاہری مفہوم، یعنی مارنے کے مراد ہونے کی نفی کی جا سکے۔ مثلا ً یہ کہ یہاں ضرب کا مطلب بیوی سے ہم بستری کرنا ہے اور آیت کا مدعا شوہر کو بیوی کی تادیب کا اختیار دینا نہیں، بلکہ یہ بتانا ہے کہ اگر بیوی جنسی تعلق سے بے زار ہو تو انھیں سمجھایا بجھایا جائے، لیکن زبردستی ان کے ساتھ ہم بستری نہ کی جائے اور جب ان میں آمادگی پیدا ہو جائے تو تبھی جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ ایک اور تشریح کی رو سے ’فَاضْرِبُوْهُنَّ‘ کا مطلب بیویوں کو خود سے الگ کر دینا، جب کہ ایک تیسری تشریح کے مطابق اس کا مطلب ان کو دھمکی دینا ہے۔
ان تمام تاویلات کے علمی محاکمے کے لیے دیکھیے ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کی تحریر[1]۔
مصنف نے، جیسا کہ اقتباس سے واضح ہے، اس انداز نظر سے اتفاق نہیں کیا، بلکہ آیت کے سیاق وسباق کے مطابق ’فَاضْرِبُوْهُنَّ‘ کو جسمانی تادیب ہی کے معنوں میں لیا ہے اور اسے مرد کی قوامیت کے اصول کی ایک فرع قرار دیا ہے۔
بعض اہل علم کا رجحان یہ ہے کہ اس آیت میں سرکش بیویوں کی تادیب کا اختیار شوہروں کو نہیں، بلکہ خاندان کے بزرگوں یا نظم اجتماعی کو دیا گیا ہے، یعنی شوہر براہ راست بیوی کی تادیب نہیں کر سکتا، بلکہ اس کی شکایت پر گھر کے بزرگ یا پھر عدالت تادیبی کارروائی کر سکتے ہیں۔ علامہ ابن عاشور نے جلیل القدر تابعی عطاء کی اس راے کو کہ شوہر کو بیوی کے ساتھ اظہار ناراضی کرنا چاہیے، لیکن اسے مارنا نہیں چاہیے، اسی پر محمول کیا ہے، یعنی ’عطاء فاضربوهن‘ کے اختیار کو ’ولاة وحکام‘ سے متعلق قرار دیتے ہیں (التحریر والتنویر ۵/ ۴۳)۔ دورجدید کے اہل علم میں سے مولانا عمر احمد عثمانی نے یہ نقطۂ نظر ’’فقہ القرآن‘‘ میں پیش کیا ہے۔
تاہم مصنف کو اس تشریح سے بھی اتفاق نہیں، چنانچہ ’’مقامات‘‘ میں ’’عورت کی تادیب‘‘کے زیر عنوان مصنف نے لکھا ہے:
’’تمام دوسرے معاہدات کی طرح معاہدے کی یہ نوعیت بھی تقاضا کرتی ہے کہ فریقین میں سے اگر کوئی اِس کی خلاف ورزی کرے اور تنبیہ، تلقین اورزجروتوبیخ کے باوجود اپنی اصلاح کے لیے تیار نہ ہو تو اُس کی تادیب کی جائے۔ یہ تادیب عدالت بھی کر سکتی ہے اور خاندان کے بڑے اور بزرگ بھی کر سکتے ہیں۔ قرآن نے یہ حق شوہر کو بھی دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ عورت اگر اُس کی قوامیت کو چیلنج کر کے سرکشی پر اتر آئے تو اپنا گھر بچانے کے لیے وہ تین صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔‘‘(۲۹۸)
اس ہدایت سے متعلق دوسرا اہم مسئلہ شوہروں کی طرف سے اس اختیار کا سوء استعمال ہے۔ اس میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ شریعت نے جن شرعی واخلاقی حدود میں ایک خاص صورت حال میں شوہر کو تادیب کا اختیار دیا ہے، اگر معاشرے میں عموماً ان حدود کی پابندی نہ کی جا رہی ہو تو اس کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی سامنے آیا تھا اور آپ نے خواتین کی شکایت پر شوہروں کی طرف سے اختیار کے سوء استعمال کو دیکھتے ہوئے ایک موقع پر اس پر پابندی لگا دی۔ تاہم اس کا نتیجہ خواتین کے جری ہوجانے کی صورت میں نکلا اور شوہروں کی طرف سے جوابی شکایت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو انھیں دوبارہ اس کی اجازت دینا پڑی۔
دور جدید میں بہت سے اہل علم اس تناظر میں یہ راے رکھتے ہیں کہ سد ذریعہ کے طور پر شوہروں کے اس اختیار پر قانونی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ ممتاز تیونسی عالم ابن عاشور نے اس ضمن میں یہ اہم نکتہ بھی پیش کیا ہے کہ شوہروں کو اپنی بیویوں کو مارنے کی جو اجازت دی گئی، وہ ان لوگوں کے عرف کے لحاظ سے ہے جو اس کو معیوب نہ سمجھتے ہوں اور ان کے ہاں اسے شوہر کا ایک معمول کا اختیار مانا جاتا ہو۔ ابن عاشور مزید یہ کہتے ہیں کہ یہ چونکہ محض ایک اجازت ہے جو کئی شرائط کے ساتھ مشروط ہے، مثلاً ناجائز تعدی نہ کرنا، اور اس میں معاشرتی عرف کا بھی لحاظ ہے، اس لیے حکومت اس اختیار پر پابندی لگا سکتی اور اسے قابل تعزیر عمل قرار دے سکتی ہے (التحریر والتنویر ۵/ ۴۴)۔
مصنف کا موقف بھی اسی کے قریب تر ہے، چنانچہ ’’مقامات‘‘ میں محولہ بالا تحریر میں مصنف نے اس اختیار کے سوء استعمال کو روکنے کے لیے بیوی کی تادیب کا اختیار نظم اجتماعی کو تفویض کر دینے کی تائید کی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں :
’’اِس آخری چیز کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تمدن کی تبدیلی کے ساتھ ریاست کیا شوہروں کو پابند کر سکتی ہے کہ پہلی دونوں تدابیر اگر موثر نہ ہوں اور سزا کی نوبت آ جائے تو وہ خود کوئی اقدام نہیں کریں گے، بلکہ معاملہ عدالت کے سپرد کر دیں گے؟
ہمارا جواب یہ ہے کہ یقیناً کر سکتی ہے، اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کے لیے یہ محض طریق کار کی تبدیلی ہے، اِس سے کوئی حکم معطل نہیں ہوتا۔ عورت کی اصلاح کے لیے سزا شوہر دے، خاندان کے بزرگ دیں یا عدالت، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ گھر کو بچانے کے لیے اگر سزا بھی دینی پڑے تو دی جائے۔ یہ اصلاح کی ایک تدبیر ہے، اِس سے زیادہ اِس سے کچھ مقصود نہیں ہے۔‘‘ (۲۹۸)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ