سفر نامہ
محمد بلال
رات کے اڑھائی بج چکے تھے ہم کھڑکی سے ہٹے اور حرم کے دوسرے مقامات کی طرف بڑھے۔ ایک مرتبہ پھر برآمدے سے بیت اللہ کو دیکھا۔ پوری مسجدِ حرام میں سب سے زیادہ پرکشش مقام ہے بھی تو یہی۔ بیت اللہ کے گرد طواف جاری تھا ۔ بہت سے ہاتھ ملتزم کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔ حجرِاسود کے گرد لوگ جمع تھے۔ میں نے جب بھی بیت اللہ کو دیکھا، مجھے اس کے گرد یہی مناظر دکھائی دیے۔ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے کچھ لوگوں کی ’’ڈیوٹی‘‘ لگی ہوئی ہے کہ وہ ہر وقت طواف کرتے رہیں، ملتزم کے ساتھ چپکے رہیں، حجرِ اسود کے گرد جمع رہیں۔ مشہور ادیب ممتاز مفتی صاحب نے اپنے حج کے تاثرات بیان کرتے ہوئے یہی بات اس انداز میں کی ہے:
’’پتہ نہیں خانہ خدا میں کیا کشش ہے کہ آپ کا جی چاہتا ہے اسے دیکھتے ہی چلے جائیں۔ پھر مطاف ہے۔ مطاف میں چوبیس گھنٹے طواف جاری رہتا ہے۔ طواف کرنے والوں پر ایک عجیب کیفیت طاری رہتی ہے۔ ایک ایسی کیفیت جسے دور بیٹھ کر دیکھنے سے انسان شرابور ہو جاتا ہے۔ مطاف سے ہر وقت عقیدت، محبت اور عشق کے چھینٹے اڑتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ حرم کے صحن میں بیٹھے ہوئے زائرین میں بے پناہ کشش ہوتی ہے۔ زائرین لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ عورتیں، مرد، بچے، نوجوان، بوڑھے رنگارنگ کے لوگ، مختلف قومیتوں کے لوگ، حبشی، عرب، یورپی، چینی، جاپانی، روسی، ترکی، ایرانی دنیا کے ہر ملک کے زائروں کے گروہ جگہ جگہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر ان کا جذبہ محسوس کر کے دل میں ایک عجیب تقویت محسوس ہوتی ہے ایک بے نام فرحت۔‘‘ ( لبیک ۱۱۴-۱۱۵)
پھر ہم نیچے اترے۔ بیت اللہ کے صحن کے اس گوشے کی جانب گئے جہاں سے زم زم پھوٹا تھا ۔ پتھر کی سیڑھیوں سے اتر کر ایک ’’تہ خانے‘‘ میں گئے۔ مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ سیڑھیاں تھیں۔ اندر قطاروں کی صورت میں لوہے کے واٹر کولر نصب تھے، جن سے آبِ زم زم پیا جا سکتا تھا۔ وہ مقام جہاں سے کنواں پھوٹا تھا وہاں شیشے کی گولائی میں ’’دیوار‘‘ بنی ہوئی تھی۔ اور اندر ایک بڑی موٹر نصب تھی۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ’’کنواں‘‘ اس شکل و صورت کا ہو گا۔
مسجدِ حرام کے اندرونی اور بیرونی صحن میں، اس کے برآمدوں میں، آبِ زم زم کے تہ خانے میں، صفا و مروہ میں غرض ہر جگہ نیلی وردی میں صفائی کرنے والے ہر وقت موجود ہوتے تھے۔ مجھے تو ان میں اکثر و بیشتر پاکستانی ہی محسوس ہو رہے تھے۔ وہ سب بڑی جاں فشانی سے کام کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں بڑے سائز کا وائپر ہوتا تھا جو ہر وقت حرکت میں دکھائی دیتا تھا۔ بارش کے دوران میں تو ان لوگوں نے متاثر کن انداز میں کام کیا۔ بیت اللہ کے صحن کا فرش بہت ہموار ہے۔ یہ صحن ہی دراصل مطاف ہے۔ اس پر لوگ تیز تیز قدموں سے طواف کرتے ہیں۔ بارش کے وقت اس فرش سے پھسلنے کا بہت امکان تھا، مگر ان لوگوں نے بارش کا خوب مقابلہ کیا۔ خود بھیگ گئے، مگر فرش کو بار بار خشک کرتے رہے۔ چند نوجوان تو وائپر کے اوپر اپنا ایک پیر جماتے، پھر اپنے آپ کو دھکا دے کر دوسرا پیر اوپر اٹھا لیتے۔ ایسے محسوس ہوتا جیسے ان کے پیروں کے نیچے پہیے لگے ہوئے ہیں۔ وہ اِدھر اُدھر اسی طرح پھسل رہے تھے اور بڑی تیزی سے فرش خشک کر رہے تھے۔
اسی طرح مسجدِ حرام کے بیرونی صحن میں جلتی بجھتی روشنی کے ساتھ کچھ مخصوص گاڑیاں ہر وقت چلتی رہتی تھیں۔ شاید ان کے اندر ہیٹر لگے ہوئے تھے۔ وہ گاڑیاں فرش کے جس حصے سے گزرتی تھیں، وہ بالکل خشک ہو جاتا تھا۔
سحری کا وقت قریب آ چکا تھا۔ ہم مسجدِ حرام سے باہر نکلے۔ اپنے ہوٹل پہنچے۔ بھابی نے سحری کے لیے کچھ چیزیں لانے کے لیے کہا۔ لہٰذا ہم پھر باہر نکلے اور قریب ہی پاکستانی کھانوں کی دکانوں سے سحری کے لیے کچھ چیزیں خریدیں اور یوں مکہ معظمہ میں بیٹھ کر سحری کھانے کی سعادت حاصل کی ۔
سحری کھانے کے بعد ہم نمازِ فجر ادا کرنے کے لیے پھر مسجدِ حرام کی طرف چلے۔ میں نماز کے لیے عام مساجد کا عادی تھا۔ جب میں یہ سوچتا کہ نماز پڑھنے مسجدِ حرام میں جا رہا ہوں تو یقین نہیں آتا تھا۔ مجھے اپنے آپ کو یقین دلانا پڑتا تھا کہ یہ سب خواب نہیں، حقیقت ہے۔ دیر ہو جانے کی وجہ سے ہمیں مسجد کے برآمدوں ہی میں جگہ ملی۔ بیت اللہ کے قریب کوئی جگہ خالی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ نماز پڑھنے کے بعد ہم پھر طواف کے مقصد سے بیت اللہ کی جانب بڑھے۔ جب ہم بیت اللہ کے قریب پہنچے تو پھر وہی منظر۔ وہی ’’ڈیوٹی‘‘ پر لگے ہوئے لوگ۔ بیت اللہ کا طواف جاری تھا۔ ملتزم کے ساتھ لوگ چپکے ہوئے تھے۔ حجرِ اسود کے گرد لوگ جمع تھے۔ اس لیے ہم بیت اللہ سے کافی دور رہ کر ہی طواف کر پا رہے تھے۔ بہرحال سعی و جہد کر کے اپنے چکر کا دائرہ چھوٹا کرتے ہوئے حطیم میں بھی پہنچ گئے۔ وہاں بھی نوافل ادا کیے۔ نوافل ادا کرنے کے بعد میں نے اوپر دیکھا تو رات کی تاریکی کا غلبہ ابھی تک قائم تھا۔ ہم پھر طواف کرنے میں مصروف ہو گئے۔ طواف کے دوران ہی میں صبح کا دھندلکا نمودار ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ مسجدِ حرام کے مختلف مقامات سے روشنیاں بجھنے لگیں۔ حرم کے صحن کی سفیدی مزید سفید محسوس ہونے لگی۔ بڑا غیر معمولی منظر اور بڑی غیر معمولی کیفیت تھی۔ میرے احساسات کی تاروں نے اس وقت جو جو کچھ محسوس کیا، اسے تمام پہلوؤں کے ساتھ کاغذ کے سینے پر منتقل کرنا ناممکن ہے ۔
اس کے بعد ہم ہوٹل میں واپس آ گئے۔ آرام کیا۔ پھر غسل کیا اور کپڑے تبدیل کرنے کے بعد نمازِ جمعہ ادا کرنے پھر حرم کا رخ کیا۔ یہ بھی میری زندگی کا بہت خوش گوار تجربہ تھا۔ عام مساجد میں تو جمعہ کی نماز پڑھتے ہی رہتے تھے۔ آج مسجدِ حرام میں یہ نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی تھی۔ حسبِ معمول ابوبکر میرے ساتھ تھا۔ وہ بڑی ہوشیاری سے مجھے مختلف مقامات سے گزارتا ہوا بیت اللہ کے بالکل سامنے اور بالکل قریب لے آیا۔ دوپہر کی تیز سفیدی میں سیاہ بیت اللہ زیادہ پر عظمت محسوس ہو رہا تھا۔ بہرحال جگہ پر ’’قبضہ‘‘ کرنے کے لیے میں فوراً بیٹھ گیا۔ جمعہ کی ابھی اذان نہیں ہوئی تھی، مگر حرم ستر فی صد بھر چکا تھا۔ میرے دائیں طرف کسی افریقی ملک کی خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ عورتیں اور مرد سب ساتھ ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بیت اللہ کی جانب دیکھ رہا تھا۔ دوپہر کی تیزسفیدی اور سیاہ بیت اللہ اورمیری آنکھوں کے بالکل سامنے۔ میری یادداشت کی البم میں یہ منظر بھی ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد اذان ہوئی۔ حرم کے موذن کی اذان، وہاں کا انتہائی غیر معمولی ساؤنڈ سسٹم، غیر معمولی طور پر بلند حرم کے مینار اور غیر معمولی طور پر بڑی مسجدِ حرام۔ اذان کی آواز نے جسم کے ریشے ریشے میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ آج تک میں نے ایسی اذانیں سنی تھیں جو صرف سنائی دیتی تھیں، آج ایسی اذان سنی جو محسوس بھی ہو رہی تھی ۔
ممتاز مفتی صاحب نے حرم کی اذان کے اس غیر معمولی پن کو بڑے غیر معمولی انداز سے بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’اذان کیا ہے ایک بلاوا۔ آ جاؤ مسلمانو، بھائیو، ساتھیو، مزدورو، آ جاؤ آؤ کہ ہم اکٹھے مل کر اللہ کے حضور سجدہ کریں ۔
ہمارے موذن اذان کو بلاوا نہیں سمجھتے۔ پتہ نہیں کیوں وہ اسے ایک آہ سمجھتے ہیں۔ ایک کراہ ایک لمبی سسکی۔ ان کی دردناک آواز میں اداسی کے انبار لگے ہوتے ہیں۔ وہ اداسی دھوئیں کی طرح چاروں طرف پھیل جاتی ہے۔ وہ اداسی دلوں پر بوجھ بن کر گرتی ہے۔ وہ اداسی امید کی لو کو بجھا کر مایوسی کے اندھیرے کو مسلط کر دیتی ہے۔’’اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘ جیسے اللہ کا بڑا ہونا ایک افسوس ناک امر ہو، وہ اداسی پکار پکار کر کہتی ہے۔ لوگو! ہم اپنے اللہ سے مایوس ہو چکے ہیں ۔
اذان سن کر مجھے وہ نظم یاد آ جاتی ہے جو پتہ نہیں کس شاعر نے لکھی ہے مگر کیا خوب لکھی ہے۔ کہتے ہیں:
جب کھینچ کے آہ سرد
کہتا ہے کوئی بندہ
جس حال میں بھی رکھے
صد شکر ہے اللہ کا
میں سوچنے لگتا ہوں
یہ شکر کیا اس نے
یا طعنہ دیا اس نے
رزاقِ دو عالم کو
حرم میں بیٹھے ہوئے جب پہلی مرتبہ اذان ہوئی تو میں بھونچکا رہ گیا۔ یہ کیا چیز ہے۔ میں چونکا۔ یوں محسوس ہوا جیسے میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اذان سنی ہو۔ اس اذان نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں اٹھ بیٹھا۔ کس نے بلایا مجھے۔ کس نے بلایا مجھے ۔
حرم شریف کی اس اذان نے سوتوں کو جگا دیا۔ بیٹھوں کو اٹھا کر کھڑا کر دیا۔ کھڑوں کو دوڑا دیا۔ بھاگ جانے کے لیے نہیں بلکہ پہنچنے کے لیے، میں آ رہا ہوں، میں آ رہا ہوں ۔
وہ اذان بلاوا تھی۔ وہ اذان رگوں میں خون بن کر دوڑتی تھی۔ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے نماز کے لیے نہیں، بلکہ جہاد کے لیے بلایا جا رہا ہو۔‘‘ ( لبیک، ص ۱۱۹- ۱۲۰)
اس کے بعد نماز میں امام صاحب کی قراءت نے بھی اسی طرح متاثر کیا جس طرح موذن کی اذان نے متاثر کیا تھا۔ بیت اللہ کے بالکل سامنے، گولائی میں قائم صفوں میں نماز ادا کرنے کا تجربہ بھی بہت غیرمعمولی تھا۔
نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد ابوبکر نے ایک ٹیکسی لی اور غارِ حرا کا رخ کیا۔ جی ہاں، وہی غارِحرا، جہاں سے وحیِ الہٰی کی پہلی روشنی پھوٹی تھی، وہی غارِ حرا، جس کے بارے میں حالی نے کہا:
اتر کر حرا سے سوے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
حرم کے قریب بہت رش تھا۔ ٹیکسی رینگ رہی تھی، مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد ہم رواں ٹریفک تک پہنچ گئے۔ مکہ کی سڑکوں پر ٹیکسی تیزی سے دوڑنے لگی۔ یہ بھی ایک غیر معمولی سفر تھا۔ مجھے رہ رہ کر مکہ سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام اور کفار کے واقعات یاد آ رہے تھے۔ خیال آ رہا تھا، انھی سڑکوں پر جو کبھی میدان اور پہاڑ ہوں گے، نبیِ کریم اور صحابۂ کرام اونٹوں اور گھوڑوں پر سفر کرتے ہوں گے۔ آج میں اس زمین پر سفر کر رہا ہوں ۔
تھوڑی سی چڑھائی کے بعد ٹیکسی رکی۔ سامنے ایک بہت بڑا پہاڑ تھا۔ اس کی چوٹی پر غارِ حرا تھی۔ ہم ٹیکسی سے باہر نکلے اور غار تک پہنچنے کی غرض سے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا۔ پہاڑ کے آغاز پر پہاڑ ہی پر کچھ مکانات بھی بنے ہوئے تھے۔ مکانات کی حالت اتنی اچھی نہیں تھی۔ البتہ ائیر کنڈیشنر لگے ہوئے تھے۔ اس پہاڑ پر چڑھنا مشکل نہیں تھا۔ کچھ ایرانی عورتیں جن میں بعض ادھیڑ عمر کی بھی تھیں، بڑے آرام سے اوپر چڑھ رہی تھیں۔ البتہ راستے میں کسی پتھر پر بیٹھ کر سانس ضرور لے لیتی تھیں۔ ہم بھی آسانی کے ساتھ اوپر چڑھ رہے تھے۔ اور راستے میں کسی پتھر پر بیٹھ کر سانس لے لیتے تھے۔ جب ہم سانس لینے کے لیے بیٹھتے تو ہمیں مکہ کا سارا شہر دکھائی دیتا تھا۔ جیسے جیسے ہم بلند ہوتے جا رہے تھے ویسے ویسے مکہ کی عمارتیں چھوٹی ہوتی جا رہی تھیں، اور جیسے جیسے یہ عمارتیں چھوٹی ہوتی جا رہی تھیں ویسے ویسے ہمارے دلوں کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے مری، بالا کوٹ، کاغان وغیرہ کے پہاڑ دیکھے ہیں۔ ان کے اوپر چڑھا بھی ہوں۔ ان پہاڑوں کو میں نے بہت خطرناک پایا تھا۔ ان پہاڑوں کی مٹی میں پھسلن ہوتی تھی اور بڑے خطرناک ہوتے تھے، جبکہ اس پہاڑ کی مٹی میں کھردرا پن تھا، جس پر پاؤں جم جاتا تھا۔ پھسلنے کا امکان کم ہوتا تھا۔ پھر پہاڑ آہستہ آہستہ بلند ہوتا تھا، میں اس کے اوپر چڑھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کر رہا تھا۔ حالانکہ اس وقت میں روزے سے تھا مگر غیر معمولی تاریخی اہمیت رکھنے والی غارِ حرا کو دیکھنے کی شدید خواہش مجھے توانائی مہیا کر رہی تھی۔ مگر ابوبکر کو شاید ہائیٹ فوبیا تھا۔ وہ اپنے اندر مزید اوپر جانے کی ہمت نہیں پا رہا تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ تم اوپر چلے جاؤ میں یہیں بیٹھ کر تمھارا انتظار کرتا ہوں۔ میں نے یہ مناسب نہ سمجھا۔ میں نے سوچا: پھر کسی اور شخص کے ساتھ آ جاؤں گا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ آج شام ہی کو ہماری جدہ واپسی تھی۔ ہوٹل میں والد صاحب اور بڑے بھائی ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ اگر میں اوپر تک جاتا تو یقیناً لیٹ ہو جاتے۔ لہٰذا ہم نیچے اتر آئے اور ایک مارکیٹ کے قریب کھڑے ہو کر ٹیکسی کا انتظار کرنے لگے۔ مارکیٹ کی ایک دکان کے باہر کچھ تصویریں آویزاں تھیں۔ ایک تصویر غارِ حرا کی بھی تھی۔ غارِ حرا کے پس منظر میں شہر کی بڑی بڑی عمارتیں چھوٹی چھوٹی دکھائی دے رہی تھیں۔ ابوبکر نے اس چیز کی طرف اشارہ کر کے کہا: دیکھا غارِ حرا کتنی بلندی پر ہے۔ میں نے تصویر پر دوبارہ نگاہ ڈالی۔ غارِ حرا کے قریب کچھ لوگ کھڑے دعا مانگ رہے تھے۔ میں نے کہا : مگر اس کے باوجود لوگ وہاں پہنچے ہوئے ہیں ۔
(جاری)
___________