HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

’’قولِ فیصل‘‘

مصنف : مولانا ابو الکلام آزاد ۔

ناشر : مکتبۂ جمال، اردو بازار لاہور ۔

قیمت : ۹۰ روپے


اس زمانے میں جبکہ حق و صداقت اور حریت و عزیمت کے الفاظ اپنا مفہوم کھو بیٹھے ہیں ، اس زمانے میں جبکہ مردانِ کارکو عظمت کی موت سے کہتری کی زندگی زیادہ عزیز ہو گئی ہے اور اس زمانے میں جبکہ رہنما یانِ دین و سیاست کا مقصدِ حیات بلندیِ کردار نہیں بلکہ منزلِ اقتدار بن گیاہے ، اس نواے سروش کو پھر سے سنانے کی ضرورت ہے جس نے کئی برس پہلے ہندوستان کے باسیوں میں آزادی کی روح پھونک دی تھی۔ اپنی سماعتوں سے اگر ہم بے حسی کے پردے ہٹا دیں تو اس آوازکی بازگشت آج بھی سنی جا سکتی ہے۔ یہ آوازکلکتہ کی انگریزی عدالت کے کٹہرے سے آرہی ہے۔پابندِ سلاسل کا نام ابو الکلام آزاد ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے اپنی پکارسے قوم کو بدیسی شہنشاہوں کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔ وہ لوگ جو آزادی کے معنی ہی بھول چکے تھے ،انھیں متاعِ زندگی سے بے نیاز کر کے آزادی کے لیے برسرِ پیکار کر دیا ہے۔کٹہرے سے آواز بلند ہو رہی ہے:

’’اگر بیورو کریسی کے نزدیک آزادی اور حق طلبی کی جدوجہد جرم ہو اور وہ ان لوگوں کو سخت سزاؤں کا مستحق خیال کرے جو انصاف کے نام سے اس کی غیر منصفانہ ہستی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں ،تو میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نہ صرف اس کا مجرم ہوں بلکہ ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اس جرم کی اپنی قوم کے دلوں میں تخم ریزی کی ہے اور اس کی آبیاری کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی ہے ۔ ۔۔۔۔ یقینا میں نے کہا ہے کہ ’’موجودہ گورنمنٹ ظالم ہے۔‘‘ لیکن اگر میں یہ نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟ میں نہیں جانتا کہ کیوں مجھ سے یہ توقع کی جائے کہ ایک چیز کو اس کے اصل نام سے نہ پکاروں۔میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں۔۔۔۔۔ گورنمنٹ ناانصافی اور حق تلفی سے باز آ جائے۔ اگر باز نہیں آئے گی تو مٹا دی جائے گی۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ یہ تو انسانی عقائد کی اتنی پرانی سچائی ہے کہ صرف پہاڑ اور سمندر ہی اس کے ہم عمر کہے جا سکتے ہیں۔ جو چیز بری ہے اسے یا تو درست ہو جانا چاہیے یا مٹ جانا چاہیے۔‘‘

یہ وہ کلمۂ حق ہے جو جابر سلطان کے سامنے کہا گیا اور عزیمت کی داستان کہلایا۔

یہ وہ بیانِ حقیقت ہے جوظلم کی عدالت میں دیا گیااور عدل کا عنوان قرار پایا۔

یہ وہ قول ِِ فیصل ہے جو حق نا شناسوں کی محفل میں سنایا گیااور حق و باطل کی فرقان بن گیا۔

اس کلمۂ حق، اس بیانِ حقیقت اور اس قولِ فیصل کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی نے لکھا ہے:

’’ انسانی تاریخ میں سقراط کے بعد ابوالکلام کا یہی بیان ہے، جس کے پیغمبرانہ اسلوب میں یوحنا و مسیح کا اذعان بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔حسن و صداقت اور عظمت کو الفاظ کا یہ پیرہن ابوالکلام کے قلم ہی سے مل سکتا تھا۔مسلمانوں میں دعوت و عزیمت کی روایت اپنے جس منتہاے کمال پر اس بیان میں ظاہرہوئی ہے، اس کی نظیر اگر دنیا میں ہے تو بقولِ اقبال:
قلبِ مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں‘‘

 ’’مکتبۂ جمال،لاہور‘‘ نے اس تحریری بیان کو’’قولِ فیصل‘‘ کے نام سے کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔ ان کا یہ اقدام لائقِ تحسین ہے ، مگر اسے کتابوں کے اوراق میںجکڑ کر زندانِ کتب میں پھینکنے کے بجائے، کوچہ و بازار میں بلند آہنگ کے ساتھ دہرانے کی ضرورت ہے۔ہو سکتا ہے کہ اسے سن کر وہ مسیحا جاگ اٹھے جس کی راہ، برسوں سے یہ قوم تک رہی ہے۔

ـــــــــــــــــ

’’قولِ فیصل‘‘ میں مولانا ابوالکلام کی گرفتاری کا کچھ پس منظر بیان کرنے کے بعد مقدمے کی پوری روداد درج کی گئی ہے ۔ آخر میں مقدمے کا فیصلہ نقل کر کے اس کتاب کو ایک جامع تاریخی دستاویز بنا دیاگیا ہے۔ اس کتاب کا ایک خوب صورت حصہ وہ پیغام ہے جو مولانا آزاد نے گرفتاری کا یقین ہو جانے کے بعد ، گرفتاری سے دو روز پہلے تحریر کیا تھا۔ اس پیغام کے مخاطبین ہند کے مسلمان ہیں۔ ان کے علاوہ خلافت کمیٹی، جمیعت العلما، حکومتِ بنگال ، حکیم اجمل خان اورمہاتما گاندھی کو بھی انھوں نے مخاطب بنایا ہے۔اس کتاب کا دیباچہ جناب جاوید احمد غامدی نے’’سقراط کے بعد‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے ۔

مولانا آزاد کے اس تحریری بیان کا تعارف کرانے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے سیاسی حالات ،ان میں مولانا کے موقف اورتحریکی سرگرمیوںکا مختصر سا جائزہ لے لیا جائے۔اس کی ضرورت اس لیے بھی محسوس ہوتی ہے کہ ’’قولِ فیصل‘‘ میں اس نوعیت کی معلومات درج نہیں کی گئیں۔

ہندوستان میں برطانوی استعمار کے خلاف جدو جہد میں تحریکِ خلافت ایک بڑا سنگِ میل ہے۔پہلی جنگِ عظیم میں ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ نے برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں جرمنی کا ساتھ دیا۔ ہند کے مسلمانوں کو تشویش ہوئی کہ اس جنگ کے نتیجے میں ترکی کے زیرِ انتظام مختلف مقاماتِ مقدسہ کو نقصان نہ پہنچے۔ اس موقع پر برطانوی حکومت نے اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ ترکی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ لیکن جنگ کے دوران ہی میں اس نے اس کے برعکس رویہ شروع کر دیا ۔ ایک طرف اس نے اعلانِ بالفور کے ذریعے سے اسرائیلیوں کی تنظیم کو یہ یقین دہانی کرائی کہ برطانوی حکومت ان کے لیے فلسطین میں ایک علیحدہ ریاست قائم کرنے کی پوری کوشش کرے گی ۔ دوسری طرف اس نے عربوں کے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف باغیانہ جذبات کو ابھارا اور انھیں ہر طرح کی فوجی امداد کا یقین دلایا۔

جنگ ۱۱ نومبر ۱۹۱۸ کو ختم ہو گئی ، لیکن جرمنی کی حتمی شکست سے کچھ پہلے ہی ۳ اکتوبر کو سلطنتِ عثمانیہ نے جنگ سے دست برداری کا اعلان کر دیا ۔ ۳ نومبر ۱۹۱۸ کو اتحادیوں اور سلطنتِ عثمانیہ کے مابین صلح کامعاہدہ ہوا۔ اس کے مطابق ترک فوجیں ختم کر دی گئیں، جنگی جہاز ضبط کر لیے گئے، ریلوے کا نظام اتحادیوں نے سنبھال لیا۔ اس کے علاوہ یہ بھی طے پایا کہ ایشیاے کوچک اور عرب علاقے میں سرحدوں کا تعین از سرِ نو ہو گا۔ البتہ ترکی کا داخلی انتظام ترکوں ہی کے ہاتھ میں رہے گا۔ ترکی کی داخلی خود مختاری کے حوالے سے معاہدے کی پاس داری زیادہ عرصیقائم نہ رہ سکی اور اتحادیوں کی فوج نے ۱۲ نومبر کو قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا ، اسی طرح موصل اور بعض دوسرے علاقوں پر بھی اتحادی قابض ہو گئے۔ 

مسلمانانِ ہند اس صورتِ حال پر بہت رنجیدہ تھے ۔ان کی اجتماعیت کا رہا سہا مرکز ترکی ہی تھا ۔وہ اگرچہ سلطنتِ عثمانیہ سے کوئی ریاستی تعلق تو نہیں رکھتے تھے مگر وہ ترکی میں قائم خلافت سے جذباتی طور پر وابستہ تھے۔ وہ اس ادارے کو ٹوٹتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔چنانچہ انھوں نے ترکی میں خلافت کے بقا کے لیے ستمبر ۱۹۱۹ میں مجلسِ خلافت قائم کی۔یہ ایک ایسا معاملہ تھا جس پر مسلمانوں کے سبھی رہنما متفکرتھے۔ مسلمان زعما کی کاوشوں کے نتیجے میں۹ دسمبر ۱۹۱۹  کو مسلم لیگ ، کانگرس ، مجلسِ خلافت اور جمیعت علماے ہند کے امرتسر میں اکھٹے اجلاس منعقد ہوئے۔ ان میںیہ طے پایا کہ جنوری ۱۹۲۰ میں ایک وفد وائسراے ہند سے ملاقات کرے گااور مولانا محمد علی جوہر کی زیرِ قیادت ایک وفد انگلستان بھیجا جائے گا ۔ان دونوں وفود کی ملاقاتیں بے سود رہیں۔ انگریز حکمرانوں نے مسلمانوں کے مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔مولانا جوہر کی رہنمائی میں وفد ابھی انگلستان ہی میں تھا کہ اتحادیوں اور ترکی کے مابین ۱۴ مئی ۱۹۲۰ کو معاہدۂ سیورے کے عنوان سے ایک مستقل معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے مطابق یہ طے پایا کہ سلطانِ ترکی اتحادیوں کی مدد سے حکومت کرے گا۔اتحادی جب چاہیں ترکی کی آبناؤں یا کسی دوسرے حصے پر قبضہ کر سکتے ہیں ۔ ترکی کے تمام یورپی حصے چھین لیے جائیں گے اور آرمینیا کے نام سے نئی ریاست وجود میں آئے گی ۔ تمام عرب ممالک ترکی کی خلافت سے آزاد ہوں گے ۔ شام فرانس کی نگرانی میں ہو گا اور عراق و اردن برطانیہ کے انتظام میں ہوں گے جبکہ مغربی اناطولیہ اور سمرنا یونان کی تحویل میں رہیں گے۔ ۱۰ اگست ۱۹۲۰ کو سلطانِ ترکی نے مجبوراً اس معاہدے کی منظوری دی۔ جون ۱۹۲۰ میںمسلمان رہنماؤں نے وائسراے لارڈ چیمسفورڈ کو نوٹس دے دیا کہ اس معاہدہ کی شرائط کو اگر یکم اگست تک نہ بدلا گیا توہندوستان میںعدمِ تعاون کی تحریک کا آغاز کر دیا جائے گا۔حکومت نے اس نوٹس کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی۔چنانچہ خلافت کمیٹی کی اپیل پر یکم اگست کو ہندوستان بھرمیں ہڑتال ہوئی ۔گاندھی کو تحریکِ عدمِ تعاون کا متفقہ لیڈر قرار دیا گیا۔ اس کے بعد کانگرس نے بھی تحریک میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی۔ ۶ دسمبر ۱۹۲۰ کو جمیعت العلما نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا اس میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مظہر الدین کی تائید سے یہ قرار داد منظور ہوئی کہ اتحادیوں کی ترکی کے خلاف ناانصافی کی وجہ سے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ حکومت سے عدمِ تعاون کریں۔ گاندھی نے بحالیِ خلافت کے ساتھ آزادیِ ہند کو بھی تحریک کے مقاصد میں شامل کر لیا ۔ چنانچہ کانگرس، مسلم لیگ، خلافت کمیٹی اور جمعیت العلما نے مشترکہ طور پر تحریک کا آغاز کیا۔ عدمِ تعاون کا پروگرام یہ تھا کہ طلبہ سرکاری سکولوں اور کالجوں کو چھوڑ دیں، عدالتوں کا مقاطعہ کیا جائے، سرکاری خطابات واپس کیے جائیں ، سرکاری ملازمتوں سے استعفے دیے جائیں،لیکن یہ سارے معاملات عدمِ تشدد کی بنیاد پر ،پر امن طریقے سے انجام دیے جائیں ۔جولائی ۱۹۲۱ میں گاندھی نے سودیشی تحریک کا آغاز کر دیا جس سے مراد یہ تھی کہ غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور صرف ہندوستانی اشیا استعمال کی جائیں۔ 

مولانا ابو الکلام آزاد تحریکِ خلافت کی ابتدا ہی میں تحریک میں فعال ہو گئے تھے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان رہنماؤں میں مولانا آزاد وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے گاندھی کی عدمِ تعاون کے بارے میں تجویز کی تائید کی۔ شورش کاشمیری لکھتے ہیں:

’’ایک مشترکہ اجلاس میں گاندھی جی نے عدمِ تعاون کا پروگرام پیش کیا۔اس اجلاس میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا عبدالباری (فرنگی محل)حکیم محمد اجمل خان اور مولانا آزاد شریک تھے۔ حکیم اجمل خان نے کہاوہ اس پر غور کرنے کی مہلت چاہتے ہیں۔ مولانا عبدالباری نے کہاکہ وہ مراقبہ کیے بغیر تائید نہیں کر سکتے، خدا کی طرف سے اشارہ ملنے پر وہ رائے دے سکتے ہیں۔ مولانا محمد علی اور شوکت علی نے کہاکہ فی الحال وہ مولانا عبدالباری کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔ گاندھی  نے مولانا آزاد سے پوچھا تو انھوں نے بلاتامل جواب دیا:’’مجھے آپ سے کاملاً اتفاق ہے، یہی ایک اسلحہ ہے جس سے ہم برطانوی استعمار کا مقابلہ کر سکتے اور اپنے مقاصد کے مدد گار ہو سکتے ہیں، ترکی کی مدد بھی اسی طرح ہو سکتی ہے۔‘‘چند ہفتے بعد میرٹھ میں خلافت کانفرنس ہوئی تو گاندھی جی نے پہلی دفعہ عدمِ تعاون کا پروگرام پیش کیا۔ مولانا آزاد نے قرار داد کی تائید کی۔‘‘(ابوالکلام آزاد، ص۱۳۲)

مارچ ۱۹۲۱ میں مولانا آزادنے مہاتما گاندھی کے ہمراہ ہندوستان کا تیسرا دورہ کیا اس وقت ضلع لاہور اور امرتسر میں جلسے یا تقریر پر پابندی تھی۔ اس لیے مہاتما گاندھی نے گوجرانوالہ جا کر تقریر کی ، لیکن مولانا نے یہ اعلان کیا کہ کہ وہ جمعہ کے روز بادشاہی مسجد میں خطاب کریں گے۔ حکومتِ پنجاب کے بعض وزرا نے گاندھی سے شکایت کی کہ مولانا کا طرزِ عمل آپ کے خلاف ہے، اس پر گاندھی نے کہا: ’’بلا شبہ میں عام طور پر سول نافرمانی کی اجازت کا مخالف ہوںمگر مولانا آزاد جیسے ذمہ دار فرد کے لیے اس کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔‘‘ جمعہ کے روز مولانا آزادنے پہلے جمعے کا خطبہ دیا اورپھر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں ایک زوردار تقریر کی اور مسلمانوں کو ترکِ موالات پر ابھارا۔ ایک سرکاری اخبار نے اسے ’’صحنِ مسجد میں باغیانہ لیکچر‘‘ سے تعبیر کیا۔ ایک ہفتہ بعد وہ امرتسر آئے ۔ یہاں کی جامع مسجد میں بھی انھوں نے جمعے کا خطبہ دیا اور نماز کے بعد ترکِ موالات پرخطاب کیا۔

۸ جولائی۱۹۲۱ کو کراچی میں خلافت کانفرنس کے اجلاس میں مولانا جوہر نے یہ قرارداد منظور کرائی کہ عدمِ تعاون کے پروگرام کو تدریج کے بجائے بیک وقت روبہ عمل کیا جائے اور مسلمانوں کے لیے برطانوی فوج کی ملازمت ممنوع قرار دی جائے ۔ اس قرارداد کی بنا پر ۱۴ اگست ۱۹۲۱کو علی برادران گرفتار کر لیے گئے۔ یہ خبر سن کر مولانا آزاد نے ہالیڈے پارک کلکتہ میں بیس ہزار کے مجمعے سے خطاب کیا ۔ اپنے خطاب میں انھوں نے یہ واضح کیا کہ :

’’جس ریزولیوشن کی بنا پر علی برادران گرفتار کیے گئے ہیں وہ میرا ہی تیار کیا ہوا ہے اور میری ہی صدارت میں سب سے پہلے اسی کلکتہ کے ٹاؤن ہال میں منظور ہوا ہے ، میں اس سے بھی زیادہ تفصیل اور صفائی کے ساتھ اس کے مضمون کا اعلان کرتا ہوں‘‘ (قولِ فیصل ، ص ۱۷) 

مولانا آزاد ۱۰ دسمبر ۱۹۲۱ کی صبح کو دفعہ ۱۲۴ الف کے تحت گرفتار کر لیے گئے۔ چیف پریزیڈنسی مجسٹریٹ کی عدالت میں ۱۳ دسمبر ۱۹۲۱کو سماعت شروع ہوئی، ۲۴ جنوری کو مولانا نے اپنا بیان داخل کیا اور ۹ فروری ۱۹۲۲کو عدالت نے انھیںایک سال قیدِ بامشقت کا حکم سنایا۔

گاندھی نے ان کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:

’’مولانا آزاد کا عدالتی بیان ایک عظیم بیان ہے۔ اس میں بہت بڑی ادبی خوب صورتی ہے۔ وہ نہایت وسیع اور روانی کے ساتھ پر جوش بھی ہے ، غایت درجہ وجدان ہے ۔ اس کا لہجہ غیر متزلزل اور غیر مفاہمانہ ہے، لیکن سنجیدہ اور متین بھی ہے۔ پورا بیان گراں قدر ہی نہیں بہترین سیاسی تعلیم بھی ہے اور محض عدالتی بیان نہیں قوم و ملک سے خطاب بھی ہے۔‘‘ (ابو الکلام آزاد ، شورش کاشمیری، ص۲۶۶)

مولانا ابوالکلام نے بعد ازاں ایک موقعے پر اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:

’’تب تحریکِ لاتعاون اس نہج پر تھی کہ ہم لوگ جماعتی طور پر عدالت میں بیان نہ دینے کا فیصلہ کر چکے تھے اور یہ فیصلہ قطعی تھا۔ لوگ قافلہ در قافلہ قید ہو رہے تھے۔ان قید ہونے والوں کی تعداد کئی ہزار تک چلی گئی۔ ان میں ہر روز اضافہ ہو رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس قافلے میں ہر قسم کے لوگ تھے ۔ بیان نہ دینے کا فیصلہ فی الجملہ مقاطعہ نہ تھا بلکہ ایک پابندی تھی کہ بھانت بھانت کی بولیا ںجمع نہ ہوں جس سے وحدتِ افکار کا بٹوارہ ہو اور وہ یکسانی نہ رہے جو تحریک میں نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے ضروری تھی ۔ میرا بیان تحریک کے افکار و مطالب پر ایک خطبہ تھا ۔ معاملہ یہ نہ تھا کہ بیان ناگزیر تھا ، مقصود یہ تھا کہ تحریک کو اس طرح تقویت ہو گی ، عوام کا حوصلہ بڑھے گا کہ جو لوگ حق کے سفر کو نکلتے ہیں وہ ملزموں کے کٹہرے سے خوف زدہ نہیں ہوتے ، وہاں ان کا لب و لہجہ باہر سے کہیں زیادہ توانا ہوتا ہے ۔ اس زمانے میں اس بیان نے فی الواقع عوام کو حوصلہ دیا، ان کے ارادوں کو مستحکم کیااور ان کے دل و دماغ کو انگیزنے کے علاوہ ان کے حوصلہ و یقین کو علو کیا۔ یہ بیان ایک لحاظ سے میرا ذاتی بیان نہ تھا، ایک اجتماعی جہد کا رجز تھا۔ میں نے عوام کے محسوسات ان کے دماغوں سے کھرچ کے الفاظ کے سانچے میں ڈھال دیے۔ ایکا ایکی قید کی تنہائی میں لہر اٹھی ۔ طبیعت نے چاہا کہ بیان ہونا چاہیے، اور بیان ہو گیا۔ قلم اٹھایا کاغذ موجود تھے، لکھنا شروع کیا تو خیالات اس سرعت سے چلے آ رہے تھے کہ سوال الفاظ کی تلاش کا تھا، الفاظ کے چناؤ کا نہ تھا۔‘‘ (ابو الکلام آزاد، شورش کاشمیری، ص ۳۰۳)

اس پس منظر کے بعد اب ہم مولانا آزاد کے عدالتی بیان کا چند عنوانات کے تحت جائزہ لیتے ہیں۔

افتتاحیہ

ابتدا میں مولانا نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ انھوں نے عدمِ تعاون کے پروگرام کے باوجود کیوں بیان دیا ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ وہ اس طرح کا بیان دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے کیونکہ یہی تحریکِ عدمِ تعاون کا تقاضا تھا مگر جب انھیں محسوس ہوا کہ حکومت واضح ثبوت فراہم نہ کر سکنے کی وجہ سے عاجز اور پریشان ہے تو انھوں نے یہ بیان دینے کا فیصلہ کیا۔ مولانا لکھتے ہیں:

’’(حکومت کی )یہ (عاجزی) دیکھ کر میری رائے بدل گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ جو سبب بیان نہ دینے کا تھا وہی اب متقاضی ہے کہ خاموش نہ رہوںاور جس بات کو گورنمنٹ باوجود جاننے کے دکھلا نہیں سکتی اسے خود کامل اصرار کے ساتھ اپنے قلم سے لکھ دوں۔ میں جانتا ہوں کہ قانونِ عدالت کی رو سے یہ میرے فرائض میں داخل نہیں ہے ، میری جانب سے پراسیکیوشن کے لیے یہ بھی بہت بڑی مدد ہے کہ میں نے ڈیفنس نہیں کیا، لیکن حقیقت کا قانون عدالتی قواعد کی حیلہ جوئیوں کا پابند نہیںہے۔یقیناًً یہ سچا ئی کے خلاف ہو گا کہ ایک بات صرف اس لیے پوشیدہ رہنے دی جائے کہ مخالف اپنی عاجزی کی وجہ سے ثابت نہ کر سکا۔‘‘ ( ص ۷۲)

عدمِ تعاون کی تحریک کا جواز پیش کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:

’’نان کو اپریشن موجودہ حالت سے کامل مایوسی کا نتیجہ ہے ، اور اسی مایوسی سے کامل تبدیلی کا عزم ہوا ہے۔ ایک شخص جب گورنمنٹ سے نان کو اپریشن کرتا ہے تو گویا اعلان کرتا ہے کہ وہ گورنمنٹ کے انصاف اور حق پسندی سے مایوس ہو چکا ہے۔ وہ اس کی غیر منصف طاقت کے جواز سے منکر ہے اور اس لیے تبدیلی کا خواہش مند ہے۔‘‘(ص۶۹) 

عدالتی نظام پر تبصرہ

مولانا آزاد نے عدمِ تعاون کی تحریک کو حکومت سے کامل مایوسی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ لوگ حکومت کے انصاف اور حق پسندی سے مایوس ہو چکے ہیں۔ عدالتی نظام سے اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے وہ بیان کرتے ہیں:

’’گورنمنٹ کے سوا کوئی ذی حواس اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ بحالتِ موجودہ سرکاری عدالتوں سے انصاف کی کوئی امید نہیں ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایسے اشخاص سے مرکب ہیں جو انصاف کرنا پسند نہیں کرتے بلکہ اس لیے کہ ایسے ظالم نظام پر مبنی ہے جس میں رہ کر کوئی مجسٹریٹ ان ملزموں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتاجن کے ساتھ خود گورنمنٹ انصاف کرنا پسند نہ کرتی ہو۔‘‘ (ص۶۹) 

تاریخ کی عدالتوں کو وہ اسی صف میں کھڑا کرتے ہیں:

’’تاریخِ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں۔ دنیا کے مقدس بانیانِ مذہب سے لے کرسائنس کے محققین اور مکتشفین تک کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو ۔ بلا شبہ زمانے کے انقلاب سے عہدِ قدیم کی بہت برائیاں مٹ گئیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اب دنیا میں دوسری صدی عیسوی کی خوف ناک عدالتیں اور ازمنۂ متوسط کی پر اسرار’’انکویزیشن‘‘ وجود نہیں رکھتیں۔ لیکن میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ جو جذبات ان عدالتوں میں کام کرتے تھے ان سے بھی ہمارے زمانے کو نجات مل گئی ہے ۔ وہ عمارتیں ضرور گرا دی گئیں، جن کے اندر خوف ناک اسرار بند تھے ، لیکن ان دلوں کو کون بدل سکتا ہے جو انسانی خود غرضی اور نانصافی کے رازوں کا دفینہ ہیں ۔۔۔۔۔ عدالت کی نا انصافیوں کی فہرست بڑی ہی طولانی ہے۔ ہم اس میں حضرت مسیح جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جواپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کے ساتھ کھڑے کیے گئے۔ ہم کو اس میں سقراط نظر آتا ہے جس کو صرف اس لیے زہر کا پیالہ پینا پڑاکہ وہ اپنے ملک کا سب سے زیادہ سچا انسان تھا۔ ہم کو اس میں فلورنس کے فدا کارِ حقیقت گلیلیو کا نام بھی ملتا ہے جو اپنی معلومات و مشاہدات کو اس لیے جھٹلا نہ سکا کہ وقت کی عدالت کے نزدیک ان کا اظہار جرم تھا۔‘‘ ( ص۷۰)

اعترافِ جرم

مولانا آزاد پر ان کی دو تقریروں کے شارٹ ہینڈ میں لیے گئے اقتباسات کی بنا پر مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ تقریروں کے نوٹس اس قدر ناقص اور مبہم تھے کہ مولانا اگر چاہتے تو مقدمے کی بنیاد ہی کو بے معنی ثابت کر سکتے تھے ۔ مگر چونکہ وہ حکومت کے خلاف جدوجہد کو عین حق سمجھتے تھے اوراپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے سے حکومت کے خلاف رائے عامہ کو مسلسل ہموار کر رہے تھے اس لیے انھوں نے پوری شان کے ساتھ اپنے ’’جرم‘‘ کااعتراف کیا۔ تاریخِ انسانی میں اعترافِ ’’جرم‘‘ کا یہ منصب کم ہی لوگوں کو نصیب ہوا ہے۔چند جملے ملاحظہ کیجیے:

’’ یقینا میں نے کہا ہے کہ ’’موجودہ گورنمنٹ ظالم ہے۔‘‘ لیکن اگر میں یہ نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟ میں نہیں جانتا کہ کیوں مجھ سے یہ توقع کی جائے کہ ایک چیز کو اس کے اصل نام سے نہ پکاروں۔میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں ۔ ۔۔۔۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے نہ صرف انہی دو موقعوں پر بلکہ گزشتہ دو سال کے اندر اپنی بے شمار تقریروں میں یہ اور اسی مطلب کے لیے اس سے زیادہ واضح اور قطعی جملے کہے ہیں۔ ایسا کہنا میرے اعتقاد میں میرا فرض ہے۔ میں فرض کی تعمیل سے اس لیے باز نہیں رہ سکتاکہ وہ ۱۲۴۔ الف کا جرم قرار دیا جائے گا۔ میں اب بھی ایسا ہی کہنا چاہتا ہوں اور جب تک کہہ سکتا ہوں، ایسا ہی کہتا رہوں گا۔اگر میں ایسا نہ کہوں تو اپنے آپ کو خدا اور اس کے بندوں کے آگے بدترین گناہ کا مرتکب سمجھوں۔‘‘ (ص۸۵) 

بیانات کی تصحیح

مولانا آزادپر جن دو تقریروں کی بنا پر مقدمہ قائم کیا گیا ۔حکومت نے ان کے نوٹس لینے کے لیے اردو مختصر نویسوں کو مقرر کیا تھا۔ مقدمے کے دوران میں جب یہ نوٹس مولانا کے سامنے آئے تو انھوں نے محسوس کیا کہ نوٹس بہت ناقص ہیں اور ان کے اکثر حصے بے ربط جملوں کا مجموعہ ہیں۔اردو زبان کے سب سے بڑے خطیب کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنے ساتھ بے معنی جملوں کی نسبت گوارا کر لے۔چنانچہ مولانا آزادنے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو تسلیم کرتے ہوئے اس امر کی وضاحت بھی ضروری سمجھی:

’’استغاثہ نے جو نقل پیش کی ہے وہ (میری تقریروں کی) نہایت ناقص، غلط اورمسخ شدہ صورت ہے اور محض بے جوڑ اور بعض مقامات پر بے معنی جملوں کا مجموعہ ہے۔ تاہم میں اس کے غلط اور بے ربط جملوں کو چھوڑ کر(کیونکہ اس کے اعتراف سے میرا ادبی ذوق ابا کرتا ہے) باقی وہ تمام حصہ تسلیم کرتا ہوں جس میں گورنمنٹ کی نسبت خیالات کا اظہار ہے یا پبلک سے گورنمنٹ کے خلاف جدوجہد کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔‘‘ (ص۸۲) 

مولانا نے بیان میں مختصر نویس کی مرتب کردہ تقریر کے اہم حصوں کو نقل کیا ہے اور بریکٹ لگا کر ضروری تصحیحات کر دی ہیں۔ مثلاً ایک جملہ ہے کہ:’’تم انہی طاقتوں سے کام لو۔‘‘مولانا نے بریکٹ میں واضح کیا ہے کہ یہاں ’’طاقتوں‘‘ کے بجائے ’’ہتھیاروں‘‘ ہونا چاہیے۔ اسی طرح انھوں نے ایک جملے میں اس طرح تصحیح کی ہے:

’’(لیکن) میں تو ایسی جنگ چاہتا ہوں (جو)ایک ہی دن ختم نہ ہو بلکہ فیصلہ کے آخری دن تک (جاری رہے)۔‘‘ (ص۸۴)

تصحیحات کی وضاحت انھوں نے دیکھیے کس شان سے کی ہے: 

’’میں نے اس لیے تصحیح کر دی کہ پراسیکیوشن کو استدلال میں مددملے،اگر اس مقصد کے لیے پوری تقریر کی تصحیح و تکمیل ضروری ہو تو میں اسی طرح کر دینے کے لیے تیار ہوں۔‘‘( ص۸۴) 

مولانا پر الزام ان کی دو تقریروں ہی کی بنا پر تھا۔ یہ تقریریں اردو مختصر نویسوں نے بہت ناقص طریقے سے مرتب کی تھیں۔اس وجہ سے مولانا نے اردو مختصر نویسی کے فن پر تبصرہ کرنا ضروری سمجھا۔ انھوں نے لکھا ہے:

’’اردومختصر نویسی کا قاعدہ اور مختصر نویس کی ناقابلیت دونوں ان نقائص کے لیے ذمہ دار ہیں۔اردو مختصر نویسی کا قاعدہ ۱۹۰۵ میں کرسچن کالج لکھنؤ کے دو پروفیسروں نے ایجاد کیا۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کے موجدوں نے انگریزی علامات کو بہت تھوڑے تغیر کے ساتھ منتقل کر لیا ہے ، لیکن وہ اردو حروف و املا کو پوری طرح محفوظ کر دینے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ۔۔۔یہ تو اصل قاعدہ کا نقص ہے لیکن جب اس پر مختصر نویس کی ناقابلیت کا بھی اضافہ ہو جائے تو پھر کوئی خرابی ایسی نہیں ہے جس سے انسانی تقریر مسخ نہ کی جاسکے۔۔۔۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کلکتہ کی پولیس اور عدالتوں میں ایک شخص بھی اردو زبان کے لیے قابلِ اعتماد نہیں ہے ۔ اگر یہاں اس حقیقت کا احساس ہوتا تو صرف یہی بات بطور ایک عجیب واقعہ کے خیال کی جاتی کہ میری تقریروں کے لیے پولیس اور سی ۔آئی ۔ڈی کے غریب رپورٹروں کی شہادت لی جا رہی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ کم از کم یہ منظرضرور میرے لیے تکلیف دہ ہے۔‘‘ (ص ۱۱۳) 

حکومتِ ہند کے جرائم

مولانا آزا د نے ہندوستان کی انگریز حکومت کے خلاف نہایت واشگاف الفاظ میں تنقید کی اور اس کے الگ الگ جرم کو نمایاں کیا ۔ لکھتے ہیں :

’’موجودہ گورنمنٹ محض ایک ناجائز بیوروکریسی ہے۔ وہ کروڑوں انسانوں کی مرضی اور خواہش کے لیے محض نفی ہے۔وہ ہمیشہ انصاف اور سچائی پر سٹیج کو ترجیح دیتی ہے۔ وہ جلیاں والا باغ امرتسر کا وحشیانہ قتل جائز رکھتی ہے۔ وہ انسانوں کے لیے اس حکم میں کوئی ناانصافی نہیں مانتی کہ چوپایوں کی طرح پیٹ کے بل چلائے جائیں۔ وہ بے گناہ لڑکوں کو صرف اس لیے تازیانے کی ضرب سے بے ہوش ہو جانے دیتی ہے کہ کیوں ایک بت کی طرح’’یونین جیک‘‘ کو سلام نہیں کرتے؟ وہ تیس کروڑ انسانوں کی پیہم التجاؤں پر بھی اسلامی خلافت کی پامالی سے باز نہیں آتی۔ وہ اپنے تمام وعدوں کے توڑنے میں کوئی عیب نہیں سمجھتی۔ وہ سمرنا اور تھریس کو صریح نامنصفانہ طور پر یونانیوں کے حوالہ کر دیتی ہے اور پھر تمام اسلامی آبادی کے قتل و غارت کا تماشا دیکھتی ہے۔پھر نہ تو ان مظالم و جرائم کے لیے اس کے پاس اعتراف ہے نہ تلافی بلکہ ملک کی جائز اور باامن جدوجہد کو پامال کرنے کے لیے ہر طرح کا جبرو تشدد شروع کر دیا جاتا ہے۔میں ایسی گورنمنٹ کو ’’ظالم‘‘ اور ’’یادرست ہو جاؤ، یا مٹ جاؤ‘‘ نہ کہوں تو کیا ’’عادل‘‘ اور ’’نہ درست ہو، نہ مٹو‘‘ کہوں؟‘‘ (ص۱۰۶)

عدمِ تشدد

مولانا آزاد نے خلافت کی پوری تحریک میں عدمِ تشدد کی راہ اختیار کی اور مسلمانوں کو بھی اسی کی ترغیب دی کیونکہ ان کے نزدیک ہندوستان کے حالات میں نان وائلینس ہی کا طریقہ مفید ہو سکتا تھا۔ لیکن اس بارے میںوہ گاندھی سے مکمل اتفاق نہیں کرتے تھے۔ گاندھی کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ ہرحال میں عدمِ تشدد ہی کا طریقہ اختیار کیا جائے اور تلوار کے مقابلے میں تلوار اٹھانے سے گریز کیا جائے، جبکہ مولانا ناگزیر صورت میں حکومت کے خلاف تلوار اٹھانے کو جائز سمجھتے ہیں۔ لیکن صرف انھی حالات میں جائز سمجھتیہیں جن میں اسلام نے اس کی اجازت دی ہے۔ انھوں نے اپنے بیان میں یہ ضروری سمجھا کہ اس حوالے سے اپنے اور مہاتما گاندھی کے مابین اتفاق واختلاف کو واضح کریں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’ہم نے آزادی اور حق طلبی کی اس جنگ میں ’’نان وائلینس، نان کواپریشن‘‘کی راہ اختیار کی ہے۔ ہمارے مقابلے میں طاقت اپنے تمام جبر و تشدد اور خون ریز وسائل کے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن ہمارا اعتقاد صرف خدا پر ہے اور اپنی غیرمختمم قربانی اور غیر متزلزل استقامت پر مہاتما گاندھی کی طرح میرا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ کسی حال میں بھی ہتھیار کا مقابلہ ہتھیار سے نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام نے جن حالتوں میں اس کی اجازت دی ہے میں اس پر فطرہ الٰہی اور عدل و اخلاق کے مطابق یقین کرتا ہوں، لیکن ساتھ ہی ہندوستان کی آزادی اور موجودہ جدوجہد کے لیے مہاتما گاندھی کے تمام دلائل پر متفق ہوں اور ان دلائل کی سچائی پر پورا اعتقاد رکھتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ ہندوستان نان وائلینس جدوجہد کے ذریعے سے فتح مند ہو گا اور اس کی فتح مندی اخلاقی اور ایمانی فتح کی یادگار مثال ہو گی۔‘‘ ( ص ۱۱۱)

آزادی کی اہمیت

مولانا آزادی کو انسانیت کی بہت بڑی قدر سمجھتے تھے ۔ ہمارے ہاں یہ طرزِ عمل عام ہے کہ جب بھی برِصغیر کی جدوجہدِ آزادی کا ذکر ہوتا ہے تو صرف مسلم لیگی رہنماؤں کی کاوشوں کو بیان کیا جاتا ہے اوردوسرے رہنماؤں کی خدمات سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے، بلکہ بعض لوگ تو ان کی خدمات کومنفی معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل نا انصافی پر مبنی ہے۔مولانا آزاد کے تحریکِ پاکستان کے حوالے سے نقطۂ نظر کے بارے میں اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا کہ اس معاملے میں مولانا آزاد تحریکِ پاکستان کے متعدد قائدین سے بہت آگے کھڑے ہیں۔وہ آزادی کو ایمان کا درجہ دیتے ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے بیان میں لکھتے ہیں:

’’میرا اعتقاد ہے کہ آزاد رہنا ہر فرد اور ہر قوم کا پیدایشی حق ہے ۔ کوئی انسان یا انسانوں کی گھڑی ہوئی بیوروکریسی یہ حق نہیں رکھتی کہ خدا کے بندوں کو اپنا محکوم بنائے۔ محکومی اور غلامی کے لیے کیسے ہی خوش نما نام کیوں نہ رکھ لیے جائیںلیکن وہ غلامی ہی ہے اور خدا کی مرضی اور قانون کے خلاف ہے۔ پس میں موجودہ گورنمنٹ کو جائز حکومت تسلیم نہیں کرتا اور اپنا ملکی ، مذہبی اور انسانی فرض سمجھتا ہوں کہ اس کی محکومی سے ملک و قوم کو نجات دلاؤں۔ ‘‘ (ص ۸۶)

جمہوریت عین اسلام ہے

اس زمانے میں جبکہ برِ صغیر کے اکثر علماے دین جمہوریت کو ایک باطل نظام قرار دے رہے تھے ، مولانا آزاد نے جمہوریت کو عین اسلام قرار دیا۔وہ جمہوریت کو اسلام ہی کا ورثہ سمجھتے تھے۔لکھتے ہیں:

’’پیغمبرِ اسلام اور ان کے جاں نشینوں کی حکومت ایک مکمل جمہوریت تھی اور صرف قوم کی رائے، نیابت اور انتخاب سے اس کی بناوٹ ہوئی تھی۔ اسلام نے بادشاہ کے اقتدار اور شخصیت سے انکار کیا ہے اور صرف ایک رئیسِ جمہوریہ (پریزیڈنٹ آف ری پبلک) کا عہدہ قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے لیے بھی’’ خلیفہ‘‘ کا لقب تجویز کیاہے ، جس کے لغوی معنی نیابت کے ہیں ، گویا اس کا اقتدار محض ایک نیابت ہے ۔اسی طرح قرآن نے نظامِ حکومت کے لیے’’شوریٰ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ شوریٰ کے معنی باہمی مشورہ کے ہیں۔ یعنی جو کام کیا جائے جماعت کی باہم رائے اور مشورے سے کیا جائے ، شخصی رائے اور حکم سے نہ ہو۔ اس سے زیادہ صحیح نام جمہوری نظام کے لیے کیا ہو سکتا ہے؟‘‘ (ص۸۹)

مسلمان کی حق پسندی و حق گوئی

مولاناآزاد کسی مسلمان کے بارے میں اس تصور ہی کو محال سمجھتے ہیں کہ وہ حق کو چھپانے والا ہو۔ وہ اعلانِ حق کو ایمان اور اسلام کا لازمی تقاضا سمجھتے ہیں:

’’ایک مسلمان سے یہ توقع رکھنی کہ وہ حق کا اعلان نہ کرے اور ظلم کو ظلم نہ کہے، بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے یہ کہا جائے کہ وہ اسلامی زندگی سے دست بردار ہو جائے۔اگر تم کسی آدمی سے اس مطالبہ کا حق نہیں رکھتے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دے تو ایک مسلمان سے یہ مطالبہ بھی نہیں کر سکتے کہ وہ ظلم کو ظلم نہ کہے ، کیونکہ دونوں باتوں کا مطلب تو ایک ہی ہے ۔۔۔۔۔ میں سچ کہتا ہوں ، مجھے اس کی رائی برابر شکایت نہیںکہ سزا دلانے کے لیے مجھ پر مقدمہ چلایا گیا ہے۔یہ بات تو بہرحال ہونی تھی، لیکن حالات کا یہ انقلاب میرے لیے بڑا ہی درد انگیز ہے کہ ایک مسلمان سے کتمانِ شہادت کی توقع کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ظلم کو صرف اس لیے ظلم نہ کہے کہ دفعہ ۱۲۴۔ الف کا مقدمہ چلایا جائے گا۔
مسلمانوں کو حق گوئی کا جو نمونہ ان کی قومی تاریخ دکھلاتی ہے وہ تو یہ ہے کہ ایک جابر حکمران کے سامنے ایک بے پروا انسان کھڑا ہے۔ اس پر الزام یہی ہے کہ اس نے حکمران کے ظلم کا اعلان کیا ہے۔ اس کی پاداش میں اس کا ایک ایک عضو کاٹا جارہا ہے۔ لیکن جب تک زبان نہیں کٹ جاتی وہ یہی اعلان کرتا رہتا ہے کہ حکمران ظالم ہے۔ یہ واقعہ خلیفہ عبدالمالک کے زمانے کا ہے جس کی حکومت افریقہ سے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔تم دفعہ ۱۲۴ ۔ الف کو اس سزا کے ساتھ تول سکتے ہو۔ ‘‘ ( ص ۹۰، ۱۰۳)

احقاقِ حق

مولانا آزادکے نزدیک موت کی پروا کیے بغیر اظہارِ حقیقت ہی اصل زندگی ہے ۔ حق کا اعتراف اور احقاق ہی انسانیت کا شرفِ اول ہے۔حقیقت ہر حال میں حقیقت ہوتی ہے اور اپنے ثبوت کے لیے اسے کسی زور وقوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مولانا لکھتے ہیں:

’’ حقیقت کا قانون نہ تو طاقت کی تصدیق کا محتاج ہے اور نہ اس لیے بدلا جا سکتا ہے کہ ہمارے جسم پر کیا گزرتی ہے۔ وہ تو حقیقت ہے اور اس وقت بھی حقیقت ہے جب اس کے اعلان سے ہمیں پھولوں کی سیج ملے اور اس وقت بھی حقیقت ہے جب اس کے اظہار سے ہمارا جسم آگ کے شعلوں کے اندر جھونک دیا جائے۔ صرف اس لیے کہ ہمیں قید کر دیا جائے گا، آگ میں ٹھنڈک اور برف میں گرمی پیدا نہیں ہو سکتی۔‘‘ (ص۹۰)

خاتمۂ بیان

مولانا نے خاتمۂ بیان میں مجسٹریٹ سے مخاطب ہو کرتاریخ ساز جملے کہے ہیں، ان کے اسلوب اوران کے لب ولہجے سے یہ خیال پیداہوتا ہے کہ ان کا منبع زمین نہیں بلکہ آسمان ہے:

’’مسٹر مجسٹریٹ! اب اور زیادہ وقت کورٹ کا نہ لوں گا۔ یہ تاریخ کا ایک دلچسپ اور عبرت انگیز باب ہے جس کی ترتیب میں ہم دونوں یکساں طور پر مشغول ہیں۔ ہمارے حصہ میں یہ مجرموں کا کٹہرا ہے ، تمھارے حصہ میں وہ مجسٹریٹ کی کرسی!
میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کام کے لیے وہ کرسی بھی اتنی ہی ضروری ہے جس قدر یہ کٹہرا۔مورخ ہمارے انتظار میں ہے اور مستقبل کب سے ہماری راہ تک رہا ہے، ہمیں جلد جلد یہاں آنے دو اور تم بھی جلد جلد فیصلہ لکھتے رہو۔ ابھی کچھ دنوں تک یہ کام جاری رہے گا، یہاں تک کہ ایک دوسری عدالت کا دروازہ کھل جائے۔ یہ خدا کے قانون کی عدالت ہے ، وقت اس کا جج ہے، وہ فیصلہ لکھے گا اور اسی کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو گا۔‘‘ (ص۱۲۲)

یہ مولانا آزاد کے عدالتی بیان کا تعارف ہے۔ مکتبۂ جمال نے اسے شائع کر کے یقینا کارِ خیر انجام دیا ہے، مگر اس کی اشاعت میں جس معیار کی ضرورت تھی ،وہ بہرحال قائم نہیں ہو سکا۔

ٹائیٹل کو کتاب کے مشمولات کا عکاس بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس طرح کی کوشش بسا اوقات کامیاب ہو جاتی ہے اور کبھی شاہ کار بھی قرار پاتی ہے ، مگر بالعموم اسے ناکامی ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے خیال میں ’’قولِ فیصل‘‘ کے ٹائیٹل کو کامیاب کوشش قرار نہیں دیا جا سکتا۔زنداں، قلم اور قرطاس کی بے ربط تصاویر اور رنگوں کی بے امتزاجی کے باعثٹائیٹل متاثر کرتا ہوا محسوس نہیں ہوتا۔ اس طرح کی کوشش اگر کامیاب ہوتی نہ دکھائی دے تو بہتر یہ ہوتا ہے کہ ٹائیٹل کو ڈیزائننگ کے بغیر سادہ طریقے سے چھاپ دیا جائے ۔ مثال کے طور پر اگر محض سفید سطح پر سرخ یا سیاہ رنگ میں کتاب اور مصنف کا نام درج ہوتا تو شاید وہ اس سے کچھ بہتر ہی تاثر پیدا کرتا۔

کتاب کے اندرونی صفحات پر نیلے رنگ کی گراؤنڈ پرنٹ کر کے اس کے اوپر الفاظ کی پرنٹنگ کی گئی ہے۔ گویا دوہری پرنٹنگ ہوئی ہے۔ دوہری پرنٹنگ کتاب کے حسن میں اضافے کے لیے کی جاتی ہے ۔ مگر یہاں پر صورتِ حال برعکس ہے۔ گراؤنڈ کی اچھی ڈیزائننگ نہ ہونے کی وجہ سے صفحات خوب صورتی کا تاثر پیدا نہیں کرتے۔

پیسٹنگ پر بھی کم محنت کی گئی ہے ۔ صفحات کے نمبر ہالوں میں درج کیے گئے ہیں۔ مگر بعض نمبر ہالے کے وسط میں ہیں ، بعض دائیں جانب ہیں ، بعض بائیں جانب، بعض اوپر اور بعض نیچے کی طرف پیسٹ ہوئے ہیں۔

کمپوزنگ کے لیے جو خط استعمال کیا گیا ہے وہ غالباً ’’ان پیج‘‘ پروگرام کا ’’نوری نستعلیق‘‘ ہے۔ اس خط میں بعض الفاظ اپنی صحیح شکل نہیں بنا پاتے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ملتے جلتے کسی دوسرے خط سے مطلوبہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔’’قولِ فیصل‘‘ کے کمپوزر نے اس معاملے میں کچھ زیادہ فیاضی سے کا م لیا ہے۔ مثال کے طور پر ’’بیچ، بھیج، بھیجے، سرٹیفیکیٹ،گورنمنٹوں، النظیر،تصور،چلتوں، بیٹھیں ‘‘ اور اس طرح کے بعض دوسرے الفاظ اگرچہ کچھ بھدے سہی مگر ’’نوری نستعلیق‘‘ ہی میں تحریر ہو سکتے تھے ، مگر انھیں’’خطِ بطول‘‘ میں اس طریقے سے کمپوز کیا گیا ہے:’’بیچ، بھیج، بھیجے، سرٹیفیکیٹ، گورنمنٹوں، النظیر،تصور، چلتوں، بیٹھیں ۔‘‘ پیوند اپنی ذات میں خواہ کتنا ہی خوب صور ت کیوں نہ ہو مجموعے کے اندر وہ بدنما داغ ہی قرار پاتا ہے۔ اس طرح کے الفاظ نے بعض صفحات کو ایسی ہی شکل دے دی ہے۔

پروف ریڈنگ ایک ایسا فن ہے جس میں ہزار کوشش کے باوجود غلطی کا امکان باقی رہتا ہے ۔ مگر یہاں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے سرے سے پروف ریڈنگ کی ہی نہیں گئی۔ مولانا آزاد کے بیان کو شائع کرتے وقت تو اس پہلو پر خاص توجہ کی ضرورت تھی ، کیونکہ یہ ایک تاریخی اور ادبی دستاویز ہے۔ اور پھر خود مولانا کی الفاظ کے بارے میں حساسیت کے پیشِ نظر پروف ریڈنگ کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ اغلاط کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے:

قولِ فیصل میں درج ہے : ’’میرا ادبی ذوق فریاد کرتا ہے۔‘‘ مولانا کا جملہ ہے: ’’ میرا ادبی ذوق اِبا کرتا ہے۔‘‘ (ص۸۲) 

’’قولِ فیصل‘‘ میں ہے: ’’جو کام کیا جائے جماعت کے باہم رائے اور مشورہ سے کیا جائے شخصی رائے نہ ہو۔‘‘ مولانا کے الفاظ ہیں:’’جو کام کیا جائے جماعت کی باہم رائے اور مشورہ سے کیا جائے شخصی رائے اور حکم سے نہ ہو۔‘‘ (ص۸۹)

کتاب میں چھپا ہے : ’’اپنا ملکی مذہب اور انسانی فرض سمجھتا ہوں۔‘‘ صحیح تحریر اس طرح ہے:’’اپنا ملکی، مذہبی اور انسانی فرض سمجھتا ہوں۔‘‘ (ص۸۷)

اسی طرح ’’مکتشفین‘‘ کی جگہ ’’مکشفین‘‘،’’نا انصافی ‘‘ کی جگہ ’’نا انصاف‘‘ ، ’’کی نشو ونما‘‘ کی جگہ ’’کے نشوونما‘‘، ’’مبغوض‘‘ کی جگہ ’’مبعوض‘‘، ’’فریقین‘‘ کی جگہ ’’فریق‘‘، ’’توقع‘‘، کی جگہ ’’واقع‘‘، ’’مصطلحات‘‘ کی جگہ ’’مصطلمات‘‘،’’سوانح‘‘ کی جگہ ’’تراجم‘‘، ’’دلائل‘‘ کی جگہ ’’دلائے‘‘، ’’مختصر نویس‘‘ کی جگہ ’’مختصر نویسی‘‘، ’’شارٹ ہینڈ ‘‘ کی جگہ ’’شارٹ ہیڈ‘‘،’’حافظہ ‘‘ کی جگہ ’’حافظ‘‘، ’’سراسیمگی‘‘ کی جگہ ’’سراسمیگی‘‘ اور ’’واقعہ ‘‘ کی جگہ ’’واقع‘‘ کے بے معنی الفاظ درج ہیں۔ایک جگہ ’’۱۹۲۱ ‘‘ کے بجائے ’’۱۹۱۲‘‘لکھا ہوا ہے۔

’’قولِ فیصل‘‘ کے دیباچے میں بھی پروف کی غلطیاں ہیں۔ مثلاًایک جگہ جہاں کولن (:) لگنا ضروری تھا وہاں نہیں لگا ہوا، ’’قلم ہی سے‘‘ کو ’’قلم سے ہی‘‘ لکھا گیا ہے، ’’جس منتہاے کمال‘‘ کی جگہ پر ’’حسن منتائے کمال‘‘ لکھ دیا ہے ،جاوید احمد صاحب غامدی کا جملہ ہے:’’برادرم اصغر نیازی کی خواہش تھی کہ آزاد کے بارے میں میں بھی کچھ لکھ دوں‘‘ ، اس جملے میں سے ’’میں بھی‘‘ کے الفاظ غائب ہو گئے ہیں۔

ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ اور اس نوعیت کی دوسری اغلاط کا آیندہ ایڈیشن میں اعادہ نہیں ہو گا۔

ــــــــــــــــــــ

B