HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

تصویر (۶)

تصویر کے حوالے سے چند اہم سوالات

۱۔ فطرتِ انسانی میں تصویر کی کیا بنیاد ہے؟

۲۔ فنونِ لطیفہ سے کیا مراد ہے اور یہ کیسے وجود میں آئے؟

۳۔ فنونِ لطیفہ کے بارے میں اسلام کا رویہ کیا ہے؟ کیا وہ اِن کو بس گناہ اور شر ہی قرار دیتا ہے؟

۴۔ انسان کے کن فطری جذبوں نے فنِ مصوری کو وجود بخشا ہے؟

۵۔ تاریخ کے آئینے میں ہم فنِ مصوری کا کیا استعمال دیکھتے ہیں ؟

۶۔ مذہب کے حوالے سے ہم دنیا میں فنِ مصوری کا کیا استعمال دیکھتے ہیں ؟

۷۔ مشرک قوموں میں ہم فنِ مصوری سے دلچسپی کی کیا نوعیت پاتے ہیں ؟

۸۔ اسلام کے سوا دوسرے مذاہب میں فنِ مصوری کے ترقی پانے کی کیا وجہ ہے؟

۹۔ احادیث میں تصویر کے بارے میں یکسر منفی رویے کی کیا وجہ ہے؟

۱۰۔ دورِ جدید میں تصویر کا غالب استعمال کیا ہے؟

۱۱۔ تصویر کے حوالے سے دینِ اسلام کا موقف کیا ہے؟

۱۲۔ کیا کوئی مسلمان فنِ مصوری کو اختیار کر سکتا ہے؟

 اِن سوالات پر ہم ترتیب کے ساتھ بحث کرتے ہیں ۔

فطرتِ انسانی میں تصویر کی کیا بنیاد ہے، اِس سوال کا تفصیلی جواب جاننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے اِس حوالے سے ہم انسان کی فطرت، اُس کے وجود کی ساخت اور اُس کے تقاضوں کو سمجھیں ۔

انسان کی فطرت

انسان اپنی فطرت میں ایک معاشرتی وجود ہے۔ خدا نے اُسے اِس دنیا میں پیدا ہی اِس طرح سے کیا ہے کہ وہ لازماً، ایک معاشرت وجود میں لائے۔ انسانی معاشرت کیا ہے۔ یہ انسان کے وجود کے تقاضوں کی نمود ہے۔

انسان کے وجود کی ساخت

انسان کے وجود پر غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ ایک ظاہری وجود رکھتا ہے اور ایک باطنی ۔ اُس کا وہ جسمانی وجود جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ،اُس کا ظاہری وجود ہے۔ اِس وجود کے اندر ایک شخصیت یا ایک ذات پائی جاتی ہے، جس کا مشاہدہ ہم آنکھوں سے تو نہیں کر سکتے، لیکن ہم وجدان کی یقینی شہادت سے اُسے جانتے اور مانتے ہیں ۔ یہ اُس کا باطنی وجود ہے ۔قرآنِ مجید انسان کے اِس باطنی وجود کے لیے نفس کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کا ایک جسمانی وجود ہے اور ایک اُس کا نفسی وجود۔

انسان کے وجود کے تقاضے

انسان کا جسمانی اور نفسی وجود دونوں اپنے اپنے تقاضے رکھتے ہیں ۔ مثلاً، ہوا، پانی ، غذا اور آرام انسان کے جسمانی وجود کے تقاضے ہیں ، اِسی طرح درجہ ء حرارت اورروشنی کے حوالے سے ایک مناسب ماحول بھی اُس کے جسمانی وجود ہی کا تقاضا ہے۔ یہ تقاضے اگر پورے نہ ہوں ، تو انسان کے جسمانی وجود کی بقا ممکن نہیں رہتی۔ انسان کے باطنی یعنی اُس کے نفسی وجود کو دیکھیے، یہ اُس کے جسمانی وجود کی نسبت نہ صرف یہ کہ زیادہ لطیف ہے، بلکہ یہ اپنے کئی پہلو بھی رکھتا ہے۔ اِس نفسی وجود ہی کا ایک پہلو وہ ہے، جسے انسان کا روحانی وجود کہا جاتا ہے[23]۔اِسی کا ایک اور پہلو وہ ہے، جسے انسان کا اخلاقی وجود کہا جاتا ہے، اِس اخلاقی وجود ہی کو ہم ضمیر کہتے ہیں اور اِس کا ایک پہلو وہ بھی ہے ، جسے ہم انسان کا ذہنی وجود کہتے ہیں ۔ یہ روحانی ،اخلاقی اور ذہنی وجود ، دراصل نفسی وجود ہی کے مختلف پہلو ہیں ،یہ اُس سے الگ کوئی وجود نہیں ہیں ۔ نفسی وجود کے یہ سب پہلو اپنے اپنے تقاضے رکھتے ہیں ۔ مثلاً انسان کے نفسی وجود کا وہ پہلو جسے روحانی وجود سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، اِس کا تقاضا خدا کی عبادت اور اُس کی یاد ہے[24] ۔ اُس کے نفسی وجود کا وہ پہلو جسے اُس کا اخلاقی وجود یا ضمیر کہا جاتا ہے، اِس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اخلاقی زندگی گزارے[25]، یعنی اپنی زندگی میں اخلاقی اصولوں کی پاس داری کرے ،اور اُس کے نفسی وجود کا وہ پہلو جسے ہم نے اُس کا ذہنی وجود قرار دیا ہے اِس کا ایک اہم تقاضا طبعی اور فطری ذوق کی تسکین ہے۔ انسان کی طبیعت اور اُس کی فطرت کوئی بسیط چیز نہیں ۔ یہ اپنی جگہ پر کئی پہلو رکھتی ہے۔ چنانچہ اِن سب پہلوؤں میں انسان اپنے ذوق کی تسکین چاہتا ہے۔ انسان کے جسم کا ایک تقاضا یہ ہے کہ اُسے پانی اور خوراک چاہیے، لیکن اُس کا یہ طبعی ذوق اُس سے یہ کہتا ہے کہ پانی خوش گوار اور خوراک خوش ذائقہ ہونی چاہیے۔ چنانچہ یہ اُس کا طبعی ذوق ہی ہے، جس کی وجہ سے وہ پھول میں رنگ اور خوش بو چاہتا، نظارے میں حسن و جمال کا طلب گار ہوتا اور آواز میں سُر اور لَے کی خواہش رکھتا ہے اور اِسی ذوق کی وجہ سے وہ کلام میں حکمت و دانائی کو پسند کرتا ہے۔ اُس کا یہ ذوق کوئی معمولی چیز نہیں ، یہ خدا کا تخلیق کردہ ہے اور دیکھیے، خدا اپنی تخلیق کا کتنا خیال رکھتا ہے۔ اُس نے انسان کو بسانے کے لیے جو دنیا بنائی، کیسی خوب صورت بنائی ۔ طبیعت کے اِسی ذوق کی خاطر یہاں رنگ اور خوش بو بھی ہے، شفق اور آبِ جُو بھی ،چاند اور تارے بھی ، پھول اور شبنم بھی، نغمہ اور صبا بھی، دھنک اور گھٹا بھی۔ خدا اگر چاہتا تو اِن میں سے کچھ بھی نہ بناتا، لیکن اُس نے یہ سب کچھ بنایا ہے۔ آگے بڑھیے، اُس نے انسان کے جسم کا تقاضا پورا کرنے کے لیے صرف وہ غذا ہی پیدا نہیں کی، جس میں حیات بخش جوہر موجود ہوں ، بلکہ دنیا میں طرح طرح کی خوش ذائقہ غذاؤں کے انبار لگا دیے۔ جسم کی زندگی کے لیے ہوا ضروری تھی، لیکن اُس نے صرف ہوا ہی پیدا نہیں کی، صبا اور بادِ چمن کو بھی وجود بخشا ۔ دوسرے کی بات سننے کے لیے قوتِ سماعت دی اور سننے کے لیے دیکھیے ،کیا کچھ پیدا کر دیا۔ بلبل کا نغمہ، کوئل کی کُوک۔ کس لیے ؟ اِسی طبعی ذوق کی تسکین کے لیے۔ خدا نے آواز کو لَے اور سرُکیوں عطا کیا، پھول کو رنگ اور خوش بو کس لیے دی؟ ابلتے چشموں اور آبِ رواں کو منظر کیوں بنایا، چمن، گھٹا اور برستے پانیوں کو نظارہ کیوں بنایاہے، اِسی ذوق کی تسکین کے لیے۔ علم انسان کی ایک اہم ضرورت ہے، لیکن یہ ایک خشک چیز ہے، اِس کے لیے اسلوبِ بیان کی چاشنی پیدا کی۔ تعمیلِ حکم نفس پر گراں تھی، اِسے حکمت کی روح سے مرغوب بنایا۔ دنیا میں یہ سب کس لیے کیا گیا ، اِسی طبعی ذوق کی تسکین کے لیے ، جو ہمارے نفسی وجود کے ذہنی پہلو کا ایک اہم تقاضا ہے۔ خدا ہم سے جس جنت کا وعدہ کرتا ہے، اُس کی بات جب وہ کرتا ہے، دیکھیے، اِسی ذوق کو انگیخت کرتا ہے اور انسان کے رخشِ نفس کو یہیں سے مہمیز کرتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

’’متقیوں سے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، اُس کے اوصاف یہ ہیں ، اُس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اُس کے باغوں کے پھل کبھی ختم نہ ہوں گے، اُس کے درختوں کے سائے ہمیشہ رہیں گے، ... اُس میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جس میں بو نہ ہو گی، ایسے دودھ کی نہریں ہیں ، جس کا مزہ نہیں بدلے گا، اُس میں ایسی شراب کی نہریں ہیں ،جو پینے والوں کے لیے سراسر لذت ہے، اُس میں ایسے شہد کی نہریں ہیں ، جو حلاوت ہی حلاوت ہے، اور اُن کے لیے وہاں سبھی پھل ہوں گے اور اُن کے رب کی طرف سے مغفرت ہوگی۔‘‘(الرعد۱۳: ۳۵، محمد۴۷: ۱۵)

اِن آیات میں دیکھیے، انسان کے کس ذوق کی تسکین پیشِ نظر ہے۔اُسی طبعی ذوق کی تسکین، جو ہمارے نفسی وجود کے ذہنی پہلو کا تقاضا ہے۔

نبی ﷺ نے جب ہمیں یہ بتایا کہ عورت اور خوش بو،میرے ہاں دنیا کی تین پسندیدہ چیزوں میں سے ہیں ، تو آپ نے اِنہیں انسان کے کس ذوق کی تسکین کا سامان قرار دیا۔ اُسی طبعی ذوق کی تسکین کا، جو ہمارے وجود کے ذہنی پہلو کا تقاضا ہے۔

خدا نے سورج اور چاند بنائے،انسان نے چراغ اور آئینہ بنایا۔ خدا نے سبزہ اور درخت بنائے، انسان نے کھیت اور باغ بنائے ،خدا نے پہاڑ اور وادیاں بنائیں ، انسان نے عمارتیں اور بستیاں بسائیں ، خدا نے کوئل اور عندلیب پیدا کیں ، انسان نے سارنگی اور نَے بنائیں ، خدا نے اشیا اور مناظر بنائے، انسان نے تصویر اور تمثال بنائیں ۔

خدا نے اپنی کائنات میں انسان کے جس ذوق کو انگیخت کیا ، انسان نے اُسی کی تسکین کے لیے، جو فنون ایجاد کیے، دنیا اُنہیں فنونِ لطیفہ کے نام سے جانتی ہے۔ فنِ مصوری اُنھی میں سے ایک ہے۔ گویا یہ فن بھی انسان کے طبعی ذوق ہی سے وجود پذیر ہوا ہے۔

اب ہم اِس سوال پر غور کرتے ہیں کہ فنونِ لطیفہ وجود میں کیسے آئے اور اِن سے کیا مراد ہے؟

فنونِ لطیفہ  ـــــــ  انسان کے طبعی ذوق کا ظہور

انسان کی طبیعت میں شروع ہی سے حسن کی طلب اور تخلیق کی امنگ بھی پائی جاتی تھی۔ چنانچہ اُس نے اپنی ضرورت کے لیے جو کچھ بھی بنایا خوب صورت اور موزوں بنایا اور پھر یہی نہیں ، بلکہ اُسے نقش و نگار سے آراستہ بھی کیا۔ انسان کا یہ طبعی ذوق آہستہ آہستہ آگے بڑھا اور باقاعدہ کچھ فنون کو جنم دینے کا باعث بن گیا۔

ایک دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو یہ فنونِ لطیفہ دراصل، صنعتوں کی وہ اعلیٰ شکلیں ہیں ، جنہیں انسان کے ذوق، محنت اور اولوالعزمی نے صنعتوں سے الگ اور اُن سے برتر مرتبہ دے دیا ہے۔ صنعتوں کے وجود میں آنے کا مقصد تو انسان کی مادی ضروریات پوری کرنا اور اُسے سہولت فراہم کرنا تھا، جب کہ فنونِ لطیفہ کے وجود میں آنے کا مقصد انسان کے طبعی ذوق کی تسکین تھی۔ یہ فنون انسان کے جذبات، احساسات اور اُس کی وارداتِ قلبی کو ایسی زبان اور ایسے رنگ میں بیان کرنے کا ذریعہ تھے، جو اُس کے اِس طبعی ذوق کی تسکین کا باعث تھا۔ شاعر نے موزوں الفاظ کے ذریعے سے اپنی کیفیت بیان کی، موسیقار نے دل کی بات ساز اور آواز کے ذریعے سے کہی، مصور نے رنگ اور برش کی زبان میں بات کی۔ سنگ تراش نے پتھر کو قوسیں ، نوک اور زاویے دے کر اپنا ما فی الضمیر بیان کیا۔ بیان اور اظہار کا یہ اسلوب انسان کے ذوق کو بہت بھایا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ فن انسان کے ہاں بہت مقبولیت حاصل کر گئے۔

فنونِ لطیفہ کا ذوق اور صلاحیت انسان میں کسی تہذیب کی پیدا کی ہوئی نہیں تھی، بلکہ یہ اُسے قدرت کی جانب سے ملی تھی اور اُس کی سرشت میں موجود تھی ۔ چنانچہ وہ جب اِسے بروے کار لایا، تو اُس نے اپنے اِس طبعی ذوق کی تسکین کے لیے حسن کا جو معیار قائم کیا ،وہ بھی اپنی طرف سے نہیں تھا، بلکہ قدرت ہی کا طے کردہ، معیارِ حسن تھا۔ اِسحسن کا مشاہدہ اُس نے قدرت کے نمونوں میں کیا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اُس نے عظمت کے لیے پہاڑوں کو معیار بنایا، وسعت کے لیے میدانوں کو، سجاوٹ کے لیے پھول اور پتیوں کو۔ کیوں ؟ اِس لیے کہ اِن پہاڑوں ، میدانوں ، پھولوں اور پتیوں نے ہی اُس کے طبعی ذوق کے شعلے کو پہلے پہل بھڑکایا تھا۔ چنانچہ یہی اُس کے لیے معیارِ حسن بھی ٹھہرے۔یہ اِن فنون کی ابتدا تھی، اِس کے بعد انسان کی محنت، لگن اور اولوالعزمی نے اُسے اِن فنون میں کمال پر پہنچا دیا[26]۔

اِن فنونِ لطیفہ میں شاعری، موسیقی، مصوری، سنگ تراشی اور فنِ تعمیرات کو شامل کیا جاتا ہے۔ سادہ تر صورت میں دیکھیں تو یہ سب فنون محض انسان کے فطری ذوق کا اظہار اور اُس کی تسکین تھے۔

اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ فنونِ لطیفہ کے بارے میں اسلام کا کیا رویہ ہے؟ کیا وہ اِن کو فی نفسہ گناہ اور شر قرار دیتا ہے؟

فنونِ لطیفہ کے بارے میں اسلام کا رویہ

قرآنِ مجید اور احادیث کے پورے ذخیرے میں ایسی کوئی بات بھی ہمیں نہیں ملتی، جس سے یہ معلوم ہوکہ خدا اور اُس کے رسول نے اِس طبعی ذوق کے اظہار اور اِس کی تسکین سے انسان کو روکا ہے۔ مذہب انسان کو نہ بلبل کا نغمہ سننے سے روکتا ہے، نہ کوئل کی کوُک اُس کے لیے حرام ٹھہراتا ہے، نہ دف بجانے کو ممنوع قرار دیتا ہے، نہ انسانی کلام میں قافیے، ردیف اور اوزان کی پابندی کرنے پر اُسے کوئی اعتراض ہے ، نہ اُسے اِس پر کچھ کہنا ہے کہ انسان اپنے ہاتھ میں رنگ اور برش کیوں پکڑتا ہے ، کسی دیوار پر کوئی خط کیوں کھینچتا ہے اورکسی خیال یا شے کو تصویری وجود کیوں دیتا ہے یا کسی پتھر کو وہ تیشے سے کیوں تراشتا ہے۔ اِن میں سے کوئی مسئلہ بھی مذہب کا مسئلہ نہیں ہے۔اگر یہ مذہب کے مسائل ہوتے اور یہ سب کچھ فی نفسٖہ غلط ہوتا، تو نبی ﷺ نہ دف بجانے کی اجازت دیتے، نہ آپ ﷺکے حضور میں شعر پڑھے جاتے، نہ داؤد علیہ السلام پہاڑوں کے دامن میں اپنے خدا کے لیے نغمہ زن ہوتے، نہ سلیمان علیہ السلام وہ شان دار ہیکل تعمیر کرتے، جسے دیکھ کر ملکہء بلقیس دنگ رہ گئیں اورنہ آپ اُس میں تماثیل ہی کا اہتمام کرتے۔

مذہب خداے حکیم و جمیل کی بات ہے۔ اُسے نہ حسین پھول سے نفرت ہو سکتی ہے، نہ خوب صورت شاعری سے، نہ دل کش تمثال سے،نہ آوازِ دف سے، نہ صداے نیَ سے۔

فنونِ لطیفہ کے حوالے سے جب ہم مذہب کا مطالعہ کرتے ہیں ، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مذہب فنونِ لطیفہ کو فنون قرار دیتے ہوئے ، اُن کے بارے میں ، بس اُن کے استعمال ہی کے حوالے سے حکم لگاتا ہے۔

فنونِ لطیفہ کی اپنے استعمال کے حوالے سے تین صورتیں ہو سکتی ہیں ۔

پہلی یہ کہ انسان اِن فنون کوخدا کے لیے خاص کر دے، اِس صورت میں یہ عبادت بن جاتے ہیں ۔ آپ دیکھیے داؤد علیہ السلام جب دامنِ کوہ میں بیٹھے، خدا کے نغمے الاپتے تھے، تو انسان کا وہی طبعی ذوق، جو اِن فنونِ لطیفہ کی شکل میں اپنا ظہور کرتا ہے، وہ خدا کی عبادت میں محو ہوتا تھا۔ چنانچہ خدا نے پہاڑوں اور پرندوں کو کہہ دیا تھا کہ میرے اِس بندے کی لَے میں لَے ملاؤ۔ نغماتِ داؤدکیا تھے،یہ خدا کی حمد اور اُس سے کی گئی مناجات پر مشتمل گیت تھے۔ اِن گیتوں میں حمد اور مناجات ہونے کے ساتھ اہم خصوصیت جو پائی جاتی تھی،وہ لَے اور لَحن ہی کی خصوصیت تھی اور اِسی کی بنا پراللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو یہ حکم دیا تھا ، ’’یا جبال اوبی معه و الطیر‘‘ (اے پہاڑو اور اے پرندو ،تم بھی داؤد کے ساتھ (لَے میں لَے ملاتے ہوئے ) تسبیح کرو)۔ داؤد علیہ السلام کا کمال اور اُن کی خوبی یہ تھی کہ اُنھوں نے خدا کی اِس خاص عطا کو خدا ہی کے لیے خاص کر رکھا تھا۔

 تصاویر و تماثیل کے حوالے سے آپ ہیکل ِسلیمانی میں موجود تماثیل کو دیکھیے۔ قرآن ِمجید میں اِن تماثیل کا ذکر بہت مثبت انداز میں کیا گیا ہے ۔ وہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ تماثیل اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام کے حکم سے بنائی گئی تھیں ۔ خوب صورت، حیران کن اور پرشکوہ عمارات کے حوالے سے آپ اِسی ہیکل سلیمانی کو دیکھیے ، جس کے ایک حصے میں پانی کے اوپر شیشے کا فرش بچھایا گیا تھا۔ یہ سب خدا کے نبی کا کام تھا۔ قرآنِ مجید میں جہاں اِنہیں بیان کیا گیا ہے، وہاں اِس کے ساتھ یہ حکم بھی موجود ہے کہ ’’اعملوا اٰل داؤد شکراً، وقلیل من عبادی الشکور‘‘ ( اے آلِ داؤد شکر گزاری کے ساتھ عمل کرو ، میرے بندوں میں سے کم ہی شکر گزار ہیں ) ۔ یہ الفاظ اِس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ آلِ داؤد کا یہ سب کچھ بنوانا، خدا کے فضل سے تھا ، چنانچہ اِس پر اللہ نے اُنہیں اپنا شکر بجا لانے کا حکم دیا ۔

عبادت کے حوالے سے فنونِ لطیفہ کے ایک اور استعمال کو دیکھیں ، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ زینوا القرآن باصواتکم‘‘( قرآن کو اپنی آوازوں کے ساتھ مزین کرو)یعنی خدا کے کلام کو خدا ہی کی دی ہوئی آواز سے آراستہ کرو۔

 فنونِ لطیفہ کے استعمال کی دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ انسان اِن کو محض حظ اٹھانے کے لیے استعمال کرے۔دین میں فنونِ لطیفہ کے استعمال کی یہ صورت مباح ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عید وغیرہ کے مواقع پر جب نبیﷺ کے اپنے گھر میں دف بجائی گئی، تو آپ ﷺنے نہ صرف یہ کہ اِس سے منع نہیں کیا، بلکہ آپ ﷺنے اُس شخص (ابو بکر رضی اللہ عنہ)کو منع کر دیا ،جس نے اِن دف بجانے والی بچیوں کو منع کرنا چاہا۔

فنونِ لطیفہ کے استعمال کی تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ انسان اُنہیں کسی جرم اور شر کے لیے استعمال کرے یا اِن سے شیطان کی اطاعت اور اُس کی خدمت پیشِ نظر ہو۔ ظاہر ہے دین فنونِ لطیفہ کے اِس استعمال کو گوارا نہیں کر سکتا۔

چنانچہ جب تصاویر و تماثیل ایمان اور اخلاق کی بربادی کا ذریعہ بن جائیں ، آلاتِ موسیقی شیطان کی خدمت کا وسیلہ قرار پائیں ، عمارات کی شان و شوکت طبیعت کی سرکشی کا باعث بنے،شعر و شاعری حق اور باطل کی تمیز کیے بغیر ہر وادی میں سرگردانی کی راہ بن جائے، تو مذہب اِن پر قدغن لگاتا ہے، پھر کسی کو وہ حرام اور کسی کومکروہ قرار دیتا ہے۔

مذہب فنونِ لطیفہ کو فی نفسہ پسند کرتا ہے، جب تک یہ اُس کی اپنی بربادی پر آمادہ نہ ہوں ۔ جب یہ اُس کی جڑیں کھودنا اور اُسے برباد کرنا چاہیں ، تو پھر یہ اُِن پر گرفت کرتا ہے۔

فنونِ لطیفہ کے بارے میں اِس اصولی بحث کے بعد اب ہم اپنے زیرِ بحث اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ انسان کے کن فطری جذبوں نے فنِ مصوری کو وجود بخشا ہے۔

 فنِ مصوری کے فطری محرک جذبے

مصوری بنیادی طور پر انسان کے تین فطری جذبوں کی تحریک سے وجود میں آئی ہے۔ اِن میں سے پہلا انسان کے اندر پایا جانے والا محاکات کا فطری جذبہ ہے۔ انسان جب کسی چیز کو دیکھتا ہے، تو طبعی طور پر اُس کی نقل کا ایک جذبہ اُس میں پیدا ہوتا ہے۔ اِس کی ایک عام مثال یہ ہے کہ ہم بعض لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ کسی دوسرے آدمی کی آواز یا اُس کے اسلوب کی نقل اتارتے ہیں ۔ اِسی طرح بعض لوگ پرندوں کی بولی کی نقل اتارتے ہیں ۔ اِس سے اُن کے پیشِ نظر کوئی بڑا مقصد نہیں ہوتا، وہ اِس سے محض حظ اٹھاتے ہیں ، لیکن یہی جذبہ انسان کی کئی اہم ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بھی ہے، مثلاً سیکھنے سکھانے کا عمل اِسی کا مرہون منت ہے، ذرا دقتِ نظر سے دیکھیں تو اِسی جذبے کے استعمال میں انسان کے تمدن اور اُس کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔

انسان نے درندوں کو بَھٹ اور پرندوں کو گھونسلے بناتے دیکھا ،تو اُس کے ذہن میں اُن کی نقل کرتے ہوئے اپنے لیے گھر بنانے کا خیال آیا۔ پھر وقت کے ساتھ اُس نے ایسی ایسی عظیم الشان عمارتیں تعمیر کر دیں کہ آج خود انسان انہیں دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔اُس نے پرندوں کو ہوا میں اڑتے ہوئے دیکھا، تو دل میں اڑنے کی خواہش پیدا ہوئی،پھر پرندوں کی نقل کی اِس خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہوائی جہاز، طیارے اور راکٹ وجود میں آگئے اور آگے نہ جانے کیا کچھ ابھی وجود پذیر ہونا باقی ہے۔ آدمی اِسی جذبے کے تحت ایک دوسری تہذیب اور دوسرے تمدن سے کچھ چیزیں اخذ کرتا ہے اور انہیں اپنی تہذیب اور اپنے تمدن میں شامل کرتا ہے۔ نقل کا یہی جذبہ انسان کے شاید بہت قیمتی جذبوں میں سے ہے۔انسان زندگی کی راہ میں جب اپنی منزلوں کی طرف بڑھتا ہے، تو یہ ضرور دیکھتا ہے کہ اُس کے پیش روؤں نے یہ سفر کیسے طے کیا تھا، تاکہ اُن کی نقل کرتے ہوئے ،وہ بھی اپنے سفر کو آسان بنائے۔

انسان میں پائے جانے والے محاکات کے اِسی جذبے نے فنِ مصوری کے لیے ایک فطری محرک کے طور پر کام کیا ہے۔

فنِ مصوری کے لیے دوسرا محرک ، انسان کے اندر اپنے اور اپنے ماحول کے لیے بقا کا جذبہ ہے۔ یہ جذبہ دراصل، جنت کی طلب کے لیے رکھا گیا ہے۔ انسان ابدی جنت کی تمنا اپنے اِسی فطری جذبے کی بنا پر کرتا ہے۔ اگر یہ جذبہ موجود نہ ہو، تو انسان ابدی دنیا کی آرزو کر ہی نہیں سکتا۔

دنیا میں اِسی جذبے کی وجہ سے انسان اپنی تاریخ کو محفوظ رکھنے کی سعی کرتا ہے۔ وہ ایک ایک واقعے اور ایک ایک داستان کو محفوظ کر لینا چاہتا ہے، تا کہ اُس کا ماضی دنیا میں موجود اور باقی رہے۔کسی واقعے کے لیے یادگار کے طور پر عمارت بنانے میں بھی یہی جذبہ کارفرما ہے۔ بعض شخصیات کے مرنے کے بعد اُن کی یادذہنوں میں باقی رکھنے کے لیے بھی انسان نے جو طرح طرح کے جتن کیے ہیں ، اُن کے پیچھے بھی یہی جذبہ سرگرمِ عمل ہے۔

انسان میں پائے جانے والے بقاکے اِس جذبے نے فنِ مصوری کے لیے دوسرے فطری محرک کے طور پر کام کیا ہے۔

 فنِ مصوری کا تیسرا محرک جذبہ انسان کے اندر پایا جانے والا یہ فطری جذبہ ہے کہ وہ ایک جگہ کے اُنس کو دوسری جگہ منتقل کرے۔ خدا نے انسان کی مرغوب اشیا اور اُس کا پسندیدہ ماحول پوری دنیا میں بکھیر رکھا ہے۔ انسان اُن اشیا اور اُس ماحول کے ساتھ طبعی اُنس محسوس کرتا ہے، چنانچہ وہ فطری طور پر یہ چاہتا ہے کہ اِس سب کچھ کو اپنے لیے حاصل کرلے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اپنے گھر سے باہر پائی جانے والی اُن سیکڑوں اشیا کو، جن کے ساتھ وہ اُنس محسوس کرتا ہے، اپنے گھر میں سمیٹ لانا چاہتا ہے۔ جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ خدا نے فطرت کے حسن کو پوری دنیا میں پھیلا رکھا ہے، کہیں میدانوں کی سرسبزی ہے، کہیں دشت کی وسعت ہے، کہیں پہاڑوں کی بلندی ہے، کہیں گھٹاؤں کا سماں ہے اور کہیں سمندروں کا جلال ہے، تو وہ اِس سارے ماحول کو بھی اپنی محدود دنیا میں اکٹھا کر لینا چاہتا ہے۔

ایک جگہ کے انس کو دوسری جگہ منتقل کرنے کا یہ فطری جذبہ وہ تیسرا محرک ہے ، جس نے انسان کو فنِ مصوری کی طرف دھکیلا ہے۔

مصوری بنیادی طور پر انسان کے اِن تین فطری جذبوں کی تحریک سے وجود میں آئی ہے۔ اشیا اور ماحول کے ساتھ اُس کے اُنس نے انہیں سمیٹنے کی خواہش پیدا کی، بقا کے جذبے نے انہیں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لینا چاہا اور محاکات کے جذبے نے اُن مرغوب اشیا یا اُس مانوس ماحول کو برش اور رنگ کی مدد سے کینوس پر ظاہر کر دیا ۔

اب ہم اِس فنِ مصوری کے استعمال کو تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں ، تا کہ ہم یہ جان سکیں کہ انسان نے ماضی میں اِس فن سے کیا خدمت لی ہے؟

فنِ مصوری کا استعمال تاریخ کے آئینے میں

تاریخی حوالے سے جب ہم مصوری کا مطالعہ کرتے ہیں ، تو یہ حیران کن حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ دنیا کا سارا تصویری آرٹ، دراصل، مذہبی آرٹ ہے۔ قدیم تہذیبوں کے کھنڈرات سے جتنا تصویری آرٹ بھی انسان کے سامنے آیا ہے، وہ سارے کا سارا مذہبی آرٹ ہے۔کلدانیہ، بابل، مصر، یونان، چین، میکسیکو، پیرو، غرض ہر جگہ آرٹ مذہب ہی سے وابستہ رہا ہے۔

تصویری آرٹ کے مذہبی ہونے سے ہماری مراد یہ ہے کہ انسان نے عموماً کسی مذہبی مقصد ہی کے پیشِ نظر تصاویر بنائی ہیں ۔ یعنی تصویر سازی کا وہ فن جو کچھ فطری جذبوں کی بنا پر وجود میں آیا تھا، وہ عام طور پر مذہبی مقاصد ہی کے لیے مختص ہو گیا۔

یہ مذہبی مقاصد کیا تھے؟ یہ ایک اہم سوال ہے، جو ازمنہ قدیم میں تصویر اور تمثال کے اصل استعمال کو واضح کرتا ہے۔ چنانچہ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں مذہب کے حوالے سے دنیا میں فنِ مصوری کا کیا استعمال نظر آتا ہے؟

فنِ مصوری کا مذہبی استعمال

جب سے دنیا وجود میں آئی ہے، اِس میں انسان نے بنیادی طور پر ہمیشہ دو مذاہب میں سے ایک کو اپنایا ہے۔ ایک مذہبِ توحید اور دوسرا مذہبِ شرک۔ مذہبِ توحید کا اصل مسئلہ خداے واحد کی ذاتِ والا صفات ہے۔ خدا ے و احد کو ماننے والے[27] ابتدا ہی سے یہ بات سمجھتے تھے کہ ہم خدا کو اپنے تصور میں نہیں لا سکتے۔ انہیں یہ غلط فہمی کبھی لاحق نہیں ہوئی کہ خدا کی شبیہہ بنائی جا سکتی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم حال یا ماضی کے کسی دور میں بھی موحدین کے ہاں خدا کی کوئی تصویریا اُس کا کوئی مجسمہ نہیں پاتے۔ یہ موحدین حواس کی گرفت میں نہ آنے والے یعنی نہ دکھائی دینے والے اور نہ محسوس ہو سکنے والے، خدا کو مانتے تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ جب اِس کے قائل ہی نہیں تھے کہ خدا کو متصور کرنا ممکن بھی ہے اوراُسے حواس کی گرفت میں لایا بھی جا سکتا ہے، تو پھر وہ اُس کی شبیہ کیسے بنا سکتے تھے۔ چنانچہ دنیا کے کسی بھی رسول اور اُس کے صحابہ کے ہاں خداکی کوئی تصویر ہمیں نہیں ملتی، بلکہ وہاں خدا کی تصویر کا کوئی تصور بھی ہمیں نہیں ملتا۔

لیکن جہاں تک مشرکین کا تعلق ہے ، تو اُن کے ہاں صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ وہاں خدا کی تصویر بنانا بھی ایک بڑی عبادت ہے اور اُس کی تصویر رکھنا بھی ۔ اُن کے ہاں تصویر سازی اور مجسمہ سازی کو مذہبی مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ یہاں ضروری ہے کہ اِس اجمال کی کچھ تفصیل سامنے لائی جائے۔

اِس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مذہبِ شرک کی بنیاد وہ دیوی دیوتا ہوتے ہیں ،جنہیں مشرکین خدا کے ساتھ شریک سمجھتے ہیں ۔ یہ دیوی دیوتا ظاہر ہے کہ ذہنِ انسانی ہی کی تخلیق ہیں ، یہ اپنا کوئی حقیقی وجود تو رکھتے نہیں ، چنانچہ انسان نے اپنے ذہن میں جب انہیں تخلیق کر لیا اور انہیں اپنے ذہن میں متصور کر لیا، تو اُس کے سامنے یہ مسئلہ آیا کہ وہ دوسروں تک اپنے ان متصور خداؤوں کا تصور کیسے منتقل کرے، یہ خدا ظاہر ہے کہ اُس کے ذہن میں اپنی پوری تصاویر کے ساتھ موجود تھے، اِن کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں تھا کہ یہ ’’لیس کمثله شیئٌ‘‘(اس کی مثل کوئی چیز نہیں ) ہیں ۔ چنانچہ مشرکین نے اپنے اِن متصور خداؤوں کی تصویریں اور اُن کے مجسمے بنا بنا کر لوگوں کو اُن سے متعارف کرایا۔ یہ تصویریں اور مجسمے صرف تعارف ہی کے لیے نہ تھے، بلکہ یہ اِن آلھہ کی یاد اور اِن کے ذکر کے حوالے سے انتہائی کارآمد تھے۔ کہیں فرشتوں کو خدا مانا گیا تو اُن کی خیالی تصاویر بنا دی گئیں ، ارواح کو الوہیت کا درجہ دیا گیا تو اُن کے لیے کچھ وجود بنائے گئے، جنہیں اُن ارواح کا مہبط (اترنے کی جگہ) قرار دیا گیا۔ بعض انسانوں کو الوہیت میں شامل کیا گیا تو اُن کی تصاویر اور مجسمے بنائے گئے اور اُنھیں اُن خداؤوں کے نازل ہونے کی جگہیں اور اُن کے رہنے کے مقام قرار دیا گیا۔

مشرک قوموں کے احوال کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ اُن کے ہاں پائے جانے والے فنِ مصوری اور مجسمہ سازی سے اُن کی بہت اہم اغراض وابستہ تھیں ۔ سب مشرک قوموں نے اپنے افکار، اپنے احوال اور اپنی ثقافت کے مطابق مختلف اشکال پر اپنے اپنے اِلہ تخلیق کر رکھے تھے۔ مثال کے طور پر آپ یونانی تہذیب کو دیکھیں تو اُنھوں نے اپنے معبودوں کو سبھی انسانی صفات سے متصف ٹھہرایا تھا۔ اُن کے معبودوں میں عشق و محبت اور نفرت و دشمنی ، ہر طرح کے جذبات پائے جاتے تھے۔ وہ شادیاں بھی کرتے تھے اور اُن سے نسل بھی چلتی تھی۔ غرض اُن کی پوری ایک الگ کائنات تھی،جو اصل میں تو کہیں نہیں پائی جاتی تھی ، بس اُس مشرک قوم کے ذہن ہی کی پیداوار تھی ،لیکن اپنے اِن مشرکانہ تصورات کی بنا پر یونانیوں نے مجسموں اور تصاویر کی ایک دنیا بسا رکھی تھی۔یہ مجسمے اور تصاویر ہی اُن سارے مشرکانہ عقائد کی طرف دعوت ، اُن کے بقا اور اُن کی ترویج کا بہترین ذریعہ تھے۔ لہٰذا، یہ کہنا صحیح ہے کہ ایک مشرک قوم کے عقائد اور اُس کے تصورات کی زندگی پوری طرح سے فنِ مصوری اور مجسمہ سازی سے وابستہ ہوتی ہے۔ اُن کے ہاں یہ فن کوئی معمولی فن نہیں تھا۔وہ اِسی فن کے ذریعے سے اپنے خدا ؤوں کو اُن کے محسوس وجود میں لاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرک قوموں کے ہاں تصویر سازی اور مجسمہ سازی ایک بڑی عبادت کا درجہ رکھتی تھی۔

اب ہم اِس بات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ مشرک قوموں میں ہم فنِ مصوری سے دلچسپی کی کیا نوعیت پاتے ہیں ؟

مشرک قوموں کی فنِ مصوری سے دلچسپی

مشرک قوموں کے ہاں فنِ مصوری اور مجسمہ سازی جب مذہب کی خدمت میں سر گرمِ عمل ہوا، تو اِسے ایک مقدس فن قرار دے دیا گیا، کیونکہ اِسی فن کے ذریعے سے وہ بڑے اہتمام اور بڑی محنت کے ساتھ، اپنے خدا کو وجود میں لایا کرتے تھے۔ وہ کسی شے یا کسی انسان کے روپ میں خدا کی تصویر یا مجسمہ بنایا کرتے اور اُس میں اپنے فن سے کمال پیدا کر دیتے تھے۔ اِن تصاویر اور مجسموں کو آج بھی دیکھیں تو آدمی حیران رہ جاتا ہے۔

اب سے ڈھائی ہزار سال پہلے جب بدھا کی مورت بنائی گئی تو یہ مورت ایک تاریخی شخص کی اصل صورت کا عکس نہیں تھی، بلکہ مقررہ جسمانی صفات کا ایک ہم آہنگ مجموعہ تھی ۔ یہ کامل حسن ، کامل علم اور کامل خیر کا ایک پیکر تھی۔ یہ آدمیت کے روپ میں الوہیت کا انسانی تصور تھا، جسے انسان نے اپنے فکر و خیال کی آخری حدوں پر کھڑے ہو کر تخلیق تھا۔

مجسمہ چاہے بدھ کا ہو یا کسی اور کا، فنِ سنگ تراشی میں سنگ تراش کو باقاعدہ کچھ اصولوں پر عمل کرنا ہوتا تھا، یہ اصول عام تھے ۔

مشرکین کے ہاں مجسموں کی کئی قسمیں ہوتی تھیں ۔ بعض مجسمے ایسے تھے، جنہیں بنانا ، بنوانا اور رکھنا ثواب کا کام تھا ۔اِنہیں دیکھنے سے شرک پر ایمان رکھنے والے شخص کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی تھی۔ بعض مجسمے ایسے تھے جو عبادت گاہ کے اندر بطور ِ بت کے رکھے جاتے تھے، عبادت کی تکمیل کے لیے معبد میں اِن کی موجودگی ضروری تھی۔ مجسموں کی یہ دونوں اقسام بناتے ہوئے ،سنگ تراش کا مقصد اپنے ذاتی احساسات کو ظاہر کرنا یا اپنے کسی تصور کی تشکیل نہیں ہوتی تھی۔ وہ بس مقررہ قاعدوں کے مطابق ہی ایک بت بناتا تھا ۔یہ برا سمجھا جاتا تھا کہ وہ خود سے کسی انسان کی شکل پر بت کو بنا دے یا وہ بت بناتے ہوئے دوسری مادی اشیا کی نقل کرے۔ مجسمہ ساز کے لیے لازم تھا کہ جن دیوتاؤں کے بت بنانا اُس کے پیشِ نظر ہوتا ،وہ اُن بتوں کو اُن دیوتاؤں کے دھیانوں (یعنی وہ تصور جو دیوتا کی خصوصیتوں یا علامتوں کی بنا پر قائم کیا گیا تھا) کے مطابق بنائے، کیونکہ یہی دھیان اُن آکاش باسیوں (دیوتاؤں )کے لیے مناسب تھے۔ اُن دیوتاؤں کی علامات و خصوصیات کتابوں میں لکھی ہوتی تھیں ، مصور اُن کتابوں کا مطالعہ کرتا تا کہ وہ اُن کا صحیح اور کامیاب دھیان کرسکے اور پھر اُس کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنے دھیان پر بھروسا کرے، نہ کہ حواس پر یا اُن چیزوں پر جو دیکھی جا سکتی ہیں ۔ چنانچہ مجسمہ ساز اُن کے دھیان میں محو ہو جاتا، حتیٰ کہ وہ اپنا منصوبہ پورا کر لیتا۔

بت ساز کو اپنی پاکیزگی اور تزکیے کے لیے یہ ہدایت دی جاتی تھی کہ وہ کام شروع کرنے سے پہلے روزہ رکھے، ظاہر اور باطن کو پاک کرنے لیے مقررہ عمل کرے اور رات کو یہ دعا مانگے کہ اے دیوتاؤں کے دیوتا، مجھے خواب میں یہ بتا دے کہ میں اِس کام کو ، جس کا میں نے ارادہ کیا ہے کیسے انجام دوں ۔ چنانچہ مجسمہ سازی اپنی جگہ پر ایک پوری عبادت تھی، مگر ظاہر ہے کہ اِس عبادت کے لیے فنِ سنگ تراشی کا جاننا ضروری ہوتا تھا۔

بت ساز کا منصب خوب صورت شکلیں بنانا نہیں تھا، اِسی طرح اُس کا موضوع انسان یا مادی چیزیں بنانا بھی نہیں تھا۔ بت تو پتھر کا کوئی ٹکڑا یا اقلیدسی شکلوں کا کوئی مجموعہ بھی ہو سکتا تھا، لازمی بات صرف یہ تھی کہ وہ اصولوں کے مطابق بالکل صحیح بنایا جائے،ورنہ اُس کی پوجا نہیں کی جا سکے گی۔ اِسی طرح اگر کوئی بت انسانی صورت پر بنایا جاتاتھا، تو بھی بعض باتوں کا انتہائی خیال رکھا جاتا تھا۔مثلاًایسی صورت میں اُس کی آنکھیں مخصوص منتر پڑھتے ہوئے، بنائی جاتی تھیں ۔ کیونکہ اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ اِس کے بغیر دیوتا بت کو اپنا مسکن ہی نہیں بنائے گا اور اِس بت کی پوجا بے معنی ہو جائے گی۔

ہم مجسمہ سازی اور تصویر سازی کے اِس کام کو جو مذہبی مقصد کا حامل تھا، اگر جمالیات کے نقطۂ نظر سے جانچیں ، تو ہمارا مذاق خواہ تربیت یافتہ نہ بھی ہو، تب بھی ہمیں اِن مجسموں اور تصاویر میں خوبیاں نظر آئیں گی۔

 مشرک قوموں کے ہاں روحانی تصورات کو مجسم کرنا فنِ مصوری اور سنگ تراشی کا کمال تھا۔ چنانچہ جب کسی صناع یا مجسمہ ساز کا موضوع دیوتا ہوتے تھے اور اُس کا مقصد اُن دیوتاؤں کی عظمت وقوت اور اُن کے جلال و جمال کو ذہن نشین کرنا ہوتا، تو وہ حسن اور عشق کی جو کیفیت چاہتا دکھا سکتا تھا۔

بعض ادوار کے صناعوں اور مجسمہ سازوں نے جب دیوتاؤں کو انسان کے روپ میں ظاہر کیا، تو انہوں نے انسان کے جسم کو ہاتھ پاؤں سر اور دھڑ کا مجموعہ سمجھ کر نہیں بنایا،بلکہ اُسے دائمی حرکت کی علامت جان کر، جسے ہم زندگی کہتے ہیں ، بنایا ہے۔

انسان کو تو بے شک بڑھاپا لاحق ہو جاتا ہے، لیکن قدرت سدا جوان رہتی ہے، پس سنگ تراشوں نے دیوتاؤں کے جسم کے لیے جوانی کی کیفیت لازمی مانی۔ اُنہوں نے انسانی جسم کو استعارۃً انسانی حسن اور قوت سے برترحسن اور قوت کا مظہر بنا دیا۔ انسانی صورت کے بت کے جسم پر جو جلد ظاہر کی گئی، اُسے اِس قدر نرم اور نازک دکھایا کہ اُس کے اندرزندہ وجود کی طرح گردش کرتا ہوا خون محسوس کیا جا سکے، بدن کے جوڑ اِس طرح سے بنائے کہ وہ حرکت کرتی ہوئی قوتوں کی گزر گاہ معلوم ہوں ۔ اِن صناعوں نے مجسموں کے چہروں کو کامل علم اور کامل سکون کی مثال سمجھا، اور اُن کے لیے ایسی نیم باز آنکھیں بنائیں ،جو دنیا کو نہیں دیکھتیں ، بلکہ شخصیت اور وجود کی گہرائیوں کو دیکھتی ہیں ۔ اُن کی ایسی صورتیں بنائیں ، جن پر جذبات کا اثر پڑ ہی نہیں سکتا۔

یہ مجسمے یاتصاویر جس طرح بنائی جاتی تھیں ، اُس سے مجسمہ اور تصویر کوئی ساکت چیز نہیں رہتی تھی، بلکہ شعاع کی طرح ہر اُس شخص کی آنکھوں میں سما جاتی، جو اُس کے راستے میں آ جاتا اور یہ تصویر زندگی کی ایک موج بن کر خود بہتی اور دوسروں کو بہاتی ۔ مصوروں اور مجسمہ سازوں نے اپنے کمالِ فن سے یہ ظاہر کیا کہ یہ مجسمے یا تصاویر پیچ و تاب کی منزل کے اُس پار سکوت کے وہ حسین نمونے ہیں ، جن کی پرستش انسان پر لازم ہے۔

اِن مجسموں کو دیکھنے والا اگر خداے واحد کے تصور سے ناآشنا ہوتا، تو وہ محسوس کرتا کہ شاید اِن مجسموں کے صناعوں میں سے بعض نے ایسے کامل وجود کی جھلک دیکھ لی ہے، جو ساکن بھی ہے اور متحرک بھی،ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، مشکل بھی ہے اور شکل و صورت سے بالا تر بھی[28]۔

اِس سارے مطالعے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ فنِ مصوری اور مجسمہ سازی کس طرح مذہبِ شرک کی ایک بنیادی ضروریات کوپورا کرتا تھا، اور وہ اِس فن سے کتنی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ اگر یہ فن کسی مشرک قوم سے چھین لیا جائے ، تو گویا ہم نے اُس کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے۔

اب ضروری ہے کہ اِس سے متعلق ہم اِس سوال کی طرف بڑھیں کہ اسلام کے سوا دوسرے مذاہب میں فنِ مصوری کے ترقی پانے کی کیا وجہ ہے؟

دوسرے مذاہب میں فنِ مصوری کے ترقی پانے کی وجہ

میرا خیال ہے کہ درجِ بالا تفصیل سے ہمارے اِس سوال کا پورا جواب بھی سامنے آ جاتا ہے کہ اسلام سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے، تو بعض دوسرے مذاہب کے فنِ تصویر سازی کو ترقی دینے کی کیا وجہ ہے۔آپ دیکھیں وہ سارے مذاہب جو مشرکانہ ہیں اُن میں تصویر سازی اور مجسمہ سازی کو ایک بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے۔ بدھ مت ، جین مت ، ہندو ازم اور آشوریا ئی ، یونانی، مصر ی تہذیبوں کے مذاہب سب میں دیکھیں ، جہاں جہاں شرک پایا جاتا ہے، تصویر سازی اور مجسمہ سازی کا فن اُس تہذیب اور اُس مذہب کا رو ح و رواں ہے۔حتٰی کہ عیسائیت جب اِس میں بھی شرک داخل ہوا تو پھر کلیسا ؤں کو عیسٰی علیہ السلام ، مریم علیہا السلام اور صلحا کی مشرکانہ تصاویر[29] ہی سے آباد کیا گیا۔ خود عرب[30]  کا حال یہ ہے کہ اسلام کے بالکل ابتدائی زمانے میں ، جب کہ نبی ﷺ کو ابھی کعبہ پر غلبہ حاصل نہ ہوا تھا، بیت اللہ ۳۶۰ بتوں سے معمور تھا اِن میں سے کچھ لکڑی کے بنے ہوئے تھے، کچھ پتھر سے تراشے ہوئے تھے اور کچھ رنگ دار تصاویر تھیں ۔ ہر قبیلے نے اپنا ایک بت بیت اللہ میں سجا رکھا تھا۔

چنانچہ یہ فنِ مصوری اور مجسمہ سازی ہی وہ فن ہے، جس سے مشرکین نے نہ صرف یہ کہ شرک کی دنیا آباد کی ہے، بلکہ اِسی فن کو اُنہوں نے مذہبِ شرک کی بقا کا ذریعہ بنایا ہے۔جب مذاہبِ شرک میں اِس فن کی یہ اہمیت تھی ، تو پھر یہ فن اُن کے ہاں کیوں نہ ترقی پاتا اور کیوں نہ اپنے کمال کی بلندیوں کو پہنچتا۔

اب ہم اِس سوال پر غور کرتے ہیں کہ احادیث میں تصویر کے بارے میں یکسر منفی رویے کی کیا وجہ ہے؟

تصویر کے بارے میں احادیث میں منفی رویہ

درجِ بالا بحث سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ احادیث میں تصاویر کو بس مٹا دینے ہی کی بات کیوں پائی جاتی ہے۔ نبی ﷺ نے عرب میں جس دعوت کا علم بلند کیا تھا ، وہ سرتاسر توحید کی دعوت تھی۔ آپ کے ساتھ مشرکینِ عرب کا اصلاً ایک ہی جھگڑا تھا اور وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے بے رحمانہ طریقے سے شرک کی بیخ کنی پر کیوں کمر بستہ ہو گئے ہیں ۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ نبی ﷺ نے توحید کی حمایت اور شرک کی مخالفت میں بہت سختی دکھائی اور انتہائی سختی دکھائی ہے۔ آپ نے اہلِ شرک کے ساتھ اُن کے مذہب کے معاملے میں کوئی رو رعایت نہیں برتی۔ آپ نے شرک کے ہر نشان کو بس مٹا کر ہی چھوڑا ہے۔ کہیں کوئی تسمہ نہیں لگا رہنے دیا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم احادیث میں یہ دیکھتے ہیں کہ آپ اہلِ شرک کے ہاں پائی جانے والی وہ تصاویر جو شرک کا مظہر تھیں ، اُن کے ساتھ شدید دشمنی کا اظہار کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہر طریقے سے اور ہر حوالے سے بس مٹا ہی دینا چاہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ خداے احد کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہونی بھی یہی چاہیے۔

مشرکین کے ہاں تصاویر کے استعمال کا مطالعہ کرنے کے بعد اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دورِ جدید میں تصویر کا غالب استعمال کیا ہے؟ یعنی اپنے استعمالات کے حوالے سے تصویر آج ہمارے سامنے کس روپ میں آتی ہے؟

دورِ جدید میں تصویر کا غالب استعمال

جہاں تک شرک کے حوالے سے تصویر کے استعمال کا تعلق ہے، تو اُس کی نفی آج بھی نہیں کی جا سکتی کہ مشرکانہ عقائد رکھنے والی قوموں کے ہاں آج بھی تصویر شرک کے مظہر کے طور پر اپنا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے اور وہ قومیں آج بھی اِس سے یہ خدمت لیتی ہیں ۔ لیکن آج کے اِس دور میں ایسا نہیں ہے کہ اِس کا بڑا استعمال بس یہی ہے ۔ اب تصویر کا بہت بڑا استعمال اِس سے ہٹ کر یہ ہو گیا ہے کہ اُس سے تقریباً زندگی کے ہر ہر گوشے میں معلومات ، آرا ، افکار ، مسائل ، افراد اور اشیا کو بہترین صورت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے (Communicate) کا کام بہت بڑے پیمانے پر لیا جا رہاہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟اِس کی وجہ یہ ہے کہ اب تصویر صرف ساکت نہیں ،متحرک شکل میں ، بہت مشکل سے نہیں ، بڑی آسانی کے ساتھ، چھوٹے پیمانے پر نہیں ،بہت بڑے پیمانے پر اور کسی کمتر شکل میں نہیں ، بہت بہتر شکل میں وجود میں لائی جا سکتی ہے۔ اور پھر یہی نہیں ، بلکہ تصویر کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے ، ایک لمحے کے اندر کہیں سے کہیں بھیج دینا بھی اب انسان کے اختیار میں ہے، صرف ایک آدھ تصویر کو نہیں ، بلکہ ایک پورے علاقے اور ایک پورے ماحول کو اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر رکھ دیا جا سکتا ہے۔

آج ایک استاذ مشرقِ بعید کے کسی ملک میں ایک کلاس روم میں کھڑا طلبہ کو پڑھاتا ہے اور مغرب کے بعید علاقوں میں بیٹھے ہوئے طلبہ اُس سے براہِ راست استفادہ کرتے ہیں ۔ یہ تصویر ہی ہے جس نے پوری دنیا کو اُس کی بہترین صورت میں ایک گلوبل ویلج بنا دیا ہے۔اگر تصویر کا یہ وجود نہ ہوتا، جو آج ہے، تو بے شک تیز تر ذرائع مواصلات کی مدد سے انسان دور و نزدیک کی بہت سی خبریں تو ضرور لے آتا، لیکن اُس کے باوجود اُس کی واقفیت اور اُس کی معلومات بہت ناقص اور بہت ادھوری ہوتیں ۔ وہ جو کچھ سنتا، اُس کی تصویر بس اپنے تصور ہی میں بناتا۔ یہ تصوراتی تصویر تو وہ ضرور بناتا، کیونکہ اِس کے بنانے پر تو انسان فطری طور پر مجبور ہے، لیکن اُس کی بنائی ہوئی یہ ذہنی تصویر ہر دوسرے شخص کے تصور سے لازماً مختلف ہوتی۔ نتیجۃً وہ بہت کچھ جان کر بھی یہی کہتا ’’لیس الخبر کالمعاینه‘‘(سنی سنائی باتیں ، آنکھوں دیکھی جیسی نہیں ہوتیں )۔ لیکن اِس ایک تصویر کی وجہ سے اب انسان کے لیے خبر نے عینِ معاینہ کا روپ دھار لیا ہے۔

یہ تصویر کا وہ ظہور اور وہ استعمال ہے، جس سے کسی کوبھی انکار نہیں ۔ انسان کی شناخت کا معاملہ ہو تو تصویر چاہیے۔طلبِ علم کا مسئلہ درپیش ہو تو بہترابلاغ اِس کے بغیر ممکن نہیں ۔ طب کی تعلیم میں اِس کا کردار تو ہمیشہ سے مسلم ہی تھا، لیکن اب یہ ایکس ریز اور الٹرا ساؤنڈ جو انسان کے داخلی جسم کی تصویر اتارتے ہیں ، اِن کے وجود نے انسان کی زندگی میں تصویر کے کردار کو ہمہ گیر کر دیا ہے۔ معاشرے کے دشمنوں ، چوروں ، ڈاکوؤں اور قاتلوں کو قابومیں لانے کے لیے اُن کی تصاویر معاشرے کے لیے کی آنکھ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔

 مختلف تہذیبیں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتی ہیں ۔ آج اِس میں تصویر اسلحے کا کردار ادا کرتی ہے۔ اب اِس کا استعمال اسلحے کا استعمال ہے، اِسے حرام کر دیجیے، گویا آپ نے اسلحے کو اپنے اوپر حرام کر لیا۔

تلوار سے مومن بھی کام لیتا ہے اور کافر بھی۔ بے شک شیطان نے بھی تصویر سے بھرپور خدمت لی ہے۔ جنسی بے راہروی پھیلانے میں آج تصویر کا ایک زور دار کردار ہے، گویا وہ اِس کام پر مسلط کر دی گئی ہے۔ لیکن آپ غور کریں اُس کا یہ بھرپور کردار بالکل اُسی طرح سے ہے، جیسے سرکشی پیدا کرنے میں دولت اور صحت کا کردار ہوتا ہے۔ جیسے شیطان وہاں خدا کی اُن نعمتوں سے کام لیتا ہے ویسا ہی اُس نے تصویر سے بھی کام لیا ہے۔

اِس ساری بحث سے ہماری مراد یہ ہرگز نہیں کہ تصویر کا بہت فائدہ ہے، یہ حرام بھی ہے، تو اِسے حلال کر لو۔ بلکہ اِس سے ہمیں یہ کہنا ہے کہ تصویر کے اِس روپ اور اُس کے اِس وافر استعمال نے خود تصویر کی جو تصویر ہمارے ذہنوں میں بنائی ہے، وہ اُس سے بالکل مختلف ہے، جو مثلاً ہر طرف مشرکانہ تصاویر کو دیکھ کر انسان کے ذہن میں بنا کرتی تھی۔ چنانچہ اِس صورتِ حال کے نتیجے میں اُس کے بارے میں انسان کا تصور بالکل بدل گیا ہے،دورِ جدید میں تصویر اصلاً، مظہرِ شرک کے روپ میں ہمارے سامنے نہیں آتی ،بلکہ انسان کی دنیا میں اپنے گونا گوں کردار کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے۔

اِس کے بعد اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تصویر کے حوالے سے دینِ اسلام کا موقف کیا ہے؟

تصویر کے حوالے سے دین کا موقف

تصویر کے بارے میں قرآنِ مجید کی آیات اورا حادیثِ نبوی کی رہنمائی سے یہ بات تو کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ مذہب کا تصویر و تمثال پر اعتراض صرف اور صرف کسی دینی یا اخلاقی خرابی ہی کی بنا پر ہے، ورنہ اُسے اِن چیزوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہنا۔ چنانچہ نقاشی ، مصوری، فوٹوگرافی اور مجسمہ سازی میں سے جو چیز بھی کسی دینی یا اخلاقی خرابی کا باعث بنے گی، وہ اُس خاص حوالے سے ممنوع قرار پائے گی۔ ہاں ایک بات اور بھی ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ کسی چیز کے بارے میں یہ خدشہ ہو کہ وہ کسی خرابی کی طرف لے جانے کا ذریعہ بن سکتی ہے ، جیسے کسی خاص علاقے میں اور کسی خاص دور میں یہ مسئلہ پیدا ہو سکتا کہ مجسمہ سازی شرک کی طرف رغبت کا ذریعہ بننے لگی ہے ،تو اِس صورت میں مجسمہ سازی کو ’سداً للذریعه‘ ممنوع قرار دے دیا جائے گا۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ ممانعت بس اُس خاص علاقے میں ، اُس خاص دور تک اور اُس خاص خرابی کی حد تک ہی ہو گی۔ اِسی طرح اگر کسی موقع پر کسی خاص نوعیت کی تصاویر کسی اخلاقی خرابی کا باعث بننے لگ جاتی ہیں ،تو اُس خاص نوعیت کی تصاویر کو بھی ’سداً للذریعه‘ ممنوع قرار دے دیا جائے گا،لیکن فی نفسہ تصاویر کے بارے میں کسی اعتراض کی کیا گنجایش ہو سکتی ہے، جب کہ خدا اور اُس کے رسول نے انہیں جائز رکھا ہو۔مسلمانوں کو اُسی چیز پر اعتراض ہوتا ہے، جس پر اللہ اور اُس کے رسول کو اعتراض ہو۔ چنانچہ نقاشی ،مصوری، فوٹوگرافی اور مجسمہ سازی میں سے کوئی چیز بھی فی نفسہ ممنوع نہیں ہے۔ البتہ اگر اِن میں خرابی کا کوئی عنصر شامل ہو جائے، تو الگ بات ہے۔

اب ہم اِس سوال پر غور کرتے ہیں کہ کیا کوئی مسلمان فنِ مصوری کو اختیار کر سکتا ہے؟

مسلمان کے لیے فنِ مصوری

جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ کوئی مسلمان مصور ی کا پیشہ اختیار کر سکتا ہے یا نہیں ؟ تو اِس سوال کا جواب بالکل سادہ ہے، یعنی یہ کہ وہ فن جس پر شرعاً کوئی اعتراض نہیں ، جس سے سلیمان علیہ السلام نے فائدہ اٹھایا اور جس کا ذکر کرتے ہوئے، قرآنِ مجید ،خدا کی آخری کتاب، نہ صرف یہ کہ کوئی تنقید نہیں کرتی ، بلکہ سلیمان علیہ السلام کے اِس فن سے فائدہ اٹھانے کو اللہ کا فضل کہتی ہے اور اِس پر انہیں خدا کا شکر بجا لانے کا حکم دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ فن اپنے اندر ایسی شرافت رکھتا ہے کہ اُسے کوئی بھی مسلمان اختیار کرے۔البتہ اِس فن سے وہ کیا کام لیتا ہے، یہ چیز وہ ہے جو اُس کی آخرت پر اثر انداز ہو گی۔ اِس سے وہ شیطان کے مقاصد پورے کرنے کا کام لیتا ہے تو یہ عمل اُسے شیطان کے ساتھیوں میں شامل کرنے کا باعث ہو گااور شیطان کے ساتھ اُس کے حشر کا ذریعہ بنے گا اور اگر وہ اِس سے خیر کے کام لیتا ہے تو یہ چیز اُس کے لیے اخروی اجر کا باعث ہو گی…… ھذا ما عندی والعلم عند اللہ۔

 

نوٹ : تصویر کے اس مقالے کی قسط ۴ میں سالم بن عبد اللہ تاابعی کی روایت غلطی سے فہمِ صحابہ کے تحت بیان ہو گئی ہے ۔ گو یہ روایت وہاں ایک تائیدی روایت ہی کے طور پر لائی گئی ہے، اصل بحث کا مدار اس پر نہیں ہے ، لیکن بہرحال اسے فہمِ تابعین ہی کے تحت آنا چاہیے تھا ۔ ہم اس پر قارئین سے معذرت خواہ ہیں ۔ آیندہ اشاعت میں ان شاء اللہ اس کی اصلاح کر لی جائے گی ۔

 ــــــــــــــــــــــــــــــ

[23]۔ اس کا یہی پہلو اس کا اصلی اور بنیادی پہلو ہے ۔

[24]۔   ’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘‘ (آگاہ رہو ، دل اللہ کی یاد ہی سے اطمینان پاتے ہیں)۔

[25]۔ ’’و نفس و ما سوٰھا، فالھمھا فجورھا و تقوٰھا، قد افلح من زکّھا، و قد خاب من دسّٰھا ‘‘ (اور نفس گواہی دیتا ہے، اور جیسا اُسے سنوارا۔ پھر اُس کی نیکی اور بدی اُسے سمجھا دی کہ مراد کو پہنچ گیا وہ، جس نے اُس کو پاک کیا، اور نامراد ہوا وہ، جس نے اُسے آلودہ کیا)۔

[26]۔   ’’تاریخ تمدن ہند‘‘ سے ماخوذ ۔

[27]۔ یعنی خدا کے سچے رسول اور اُن کے ساتھی ۔

[28]۔ ماخوذ از تاریخ تمدنِ ہند ۔

[29]۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبیﷺ سے ایک کنیسہ کا ذکر کیا ، جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا، اس میں میں تصاویر تھیں۔ نبیﷺ نے فرمایا ان (عیسائیوں) میں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا ، تو اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہ تصاویر بناتے تھے۔  (مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ) 

[30]۔ نبی ﷺ (فتح مکہ کے روز )  بیت اللہ میں داخل ہوئے تو آپ نے اس میں ابراہیم علیہ السلام ، (اسمٰعیل علیہ السلام)  اور مریم علیہا السلام کے مجسمے دیکھے۔ (بخاری ، کتاب الاحادیث الانبیاء)

B