HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

قسم اور کفارۂ قسم

دین میں قسم کی اہمیت غیر    معمولی ہے۔  عہد پورا کرنا اسلام کے بنیادی اخلاقیات میں سے ہے۔  قسم اس عہد کو بالکل آخری درجے میں    محکم کر دیتی ہے ۔  مسلمان جب اپنے کسی عزم ، ارادے یا عہد پر اللہ کی قسم کھاتا ہے تو وہ گویا اپنے پروردگار اور عالم کے پادشاہ کو اپنی بات پر گواہ ٹھیراتا ہے۔  انسانی تمدن میں تمام معاشرتی،  سماجی اور سیاسی معاملات اور معاہدوں میں استحکام کا ذریعہ ہمیشہ سے   قسم ہی رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اسی بنا پر بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ ان کا عہد یاد دلاتے ہوئے اُن کی قسم کا حوالہ دیا اور تنبیہ کی ہے کہ وہ جس عہد پر اپنے پروردگار کو گواہ ٹھیرا چکے ہیں،  اسے توڑنے کی جسارت نہ کریں۔  ارشاد فرمایا ہے:

وَاَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَيْكُمْ كَفِيْلًاﵧ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ . (النحل ۱۶: ۹۱)
’’اور اللہ کے ساتھ اپنا عہد پورا کرو جب کہ تم اسے باندھ چکے ہو اور قسموں کو ان کے پختہ کر لینے کے بعد مت توڑو جب کہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو۔  بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘

قسم کی اس اہمیت کے باوجود بارہا ایسی صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ آدمی کے لیے اپنی قسم پوری کرنا ممکن نہیں رہتا یا وہ محسوس کرتا ہے کہ اُس سے اللہ کا یا اُس کے نفس کا یا دوسروں کا کوئی حق تلف ہو جائے گا۔  اس صورت میں قسم توڑی جا سکتی ہے،  بلکہ بعض صورتوں میں قسم توڑ دینا دین و اخلاق کی رو سے ضروری ہو جاتا ہے۔  شریعت میں اس کے لیے کفارے کا طریقہ مقرر کیا گیا ہے۔  ذیل میں ہم قسم اور کفارۂ قسم کے اسی قانون سے متعلق قرآنِ مجید کے حکم کی وضاحت کریں گے۔

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْ٘ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَﵐ فَكَفَّارَتُهٗ٘ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِيْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِيْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍﵧ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍﵧ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَيْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْﵧ وَاحْفَظُوْ٘ا اَيْمَانَكُمْﵧ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ.(المائدہ ۵: ۸۹)
’’اللہ تعالیٰ تمھاری ان قسموں پر کوئی مواخذہ نہ کریں گے جو تم بے ارادہ کھا لیتے ہو،  لیکن وہ قسمیں جو دل کے ارادے سے کھاتے ہو،  ان پر لازماً مواخذہ کریں گے۔  سو اس طرح کی قسم اگر توڑی جائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس   مسکینوں کو اس معیار کا کھانا کھلایا جائے جو تم عام طور پر اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا انھیں پہننے کے کپڑے دیے جائیں یا ایک غلام آزاد کیا جائے۔  پھر جسے یہ میسر نہ ہو،  اس کے لیے تین دن کے روزے ہیں۔  یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا بیٹھو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔  اس طرح اللہ تمھارے لیے اپنی آیتوں کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم اس کے شکر گزار رہو۔‘‘

اس آیت میں جو حکم بیان ہوا ہے  اس کا خلاصہ یہ ہے:

۱۔ قسم بعض اوقات بالکل لغو ، بے فائدہ اور مہمل ہوتی ہے۔  اس میں شبہ نہیں کہ بندۂ مومن کو اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے،  لیکن اپنے بندوں پر اللہ تعالیٰ کی یہ بے پایاں عنایت ہے کہ وہ اس طرح کی قسموں پر دنیا اور آخرت میں کوئی مواخذہ نہ کرے گا۔

۲۔ اس کے برعکس اگر قسم پختہ عزم کے ساتھ اور دل کے ارادے سے کھائی گئی ہے،  اس کے ذریعے سے کوئی عہد و پیمان باندھا گیا ہے،  اس سے حقوق و فرائض پر کوئی اثر مترتب ہوتا ہے یا وہ خدا کی کسی   تحلیل و تحریم پر اثر انداز ہو سکتی ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ لازماً مواخذہ فرمائے گا،  لہٰذا قسم کے معاملے میں آدمی کو ہرگز بے پروا اور سہل انگار نہیں ہونا چاہیے،  بلکہ پوری ذمہ داری کے ساتھ اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔

۳۔ اس طرح کی قسم اگر کسی وجہ سے توڑنی پڑے تو ضروری ہے کہ اس کا کفارہ ادا کیا جائے۔  اس کا طریقہ یہ ہے کہ قسم کھانے والا دس مسکینوں کو اس معیار کا کھانا کھلائے جو وہ عام طور پر اپنے اہل و عیال کو کھلاتا ہے یا انھیں پہننے کے کپڑے دے یا ایک غلام آزاد کرے۔  ان میں سے کچھ بھی میسر نہ ہو تو اسے تین دن کے روزے رکھنا ہوں گے۔

قسم سے متعلق قرآن کا حکم یہی ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی وضاحت میں یہ تین باتیں فرمائی ہیں:

اول یہ کہ نذر بھی ایک نوعیت کی قسم ہی ہے،  لہٰذا اس کا کفارہ وہی ہو گا جو قرآن میں قسم کے لیے بیان ہوا ہے:

لا نذر فی معصیة: وکفارته کفارة یمین.(ابوداؤد،  رقم ۳۲۹۰)
’’اللہ تعالیٰ کی کسی نافرمانی میں کوئی نذر نہیں اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا ہے۔‘‘

    دوم یہ کہ بھلائی کے کسی کام میں قسم کو ہرگز رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے:

اذا حلفت علی یمین فرأیت غیرھا خیراً منھا فکفر عن یمینک وائت الذی ھو خیر. (بخاری ، رقم ۶۶۲۲    )
’’کسی کام کی قسم کھا بیٹھو اور اس سے بہتر کوئی چیز سامنے آ جائے تو قسم کا کفارہ دے کر وہی کام کرو جو بہتر ہے۔‘‘  

سوم یہ کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم بھی ایک طرح کا شرک ہے،  لہٰذا قسم صرف اللہ ہی کے نام کی کھانی چاہیے:

من حلف بغیر اللہ، فقد اشرک.(ابوداؤد،   رقم ۳۲۵۱)
’’جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی،  اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔‘‘ 

____________                      

B