(مشکوٰۃ المصابیح،حدیث ۶۱)
عن معاذ رضی اللہ عنه قال: أوصانی رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم بعشر کلمات، قال: لا تشرک باﷲ شیئا، إن قتلت و حرقت، و لا تعقنَّ والدیک و إن أمراک أن تخرج من أھلک و مالک، و لا تترکن صلاة مکتوبة متعمدا فإنَّ من ترک صلاة مکتوبة متعمدا فقد برئت منہ ذمة اﷲ، ولا تشربنَّ خمرا فإنه رأس کل فاحشة، و إیاک و المعصیة، فإن بالمعصیة حل سخط اﷲ، و إیاک و الفرار من الزحف و إن ھلک الناس، و إذا أصاب الناس موت أنت فیھم فاثبت، وانفق علی عیالک من طولک، ولا ترفع عصاک أدبا و أخفھم فی اﷲ.
’’حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دس باتوں کی نصیحت کی۔ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیراؤ، اگرچہ تمہیں قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جائے۔ اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرو، اگرچہ وہ تمہیں اپنے گھر والوں سے اور مال سے نکل جانے کا کہہ دیں۔ فرض نماز کو جانتے بوجھتے ہر گز نہ چھوڑو، کیونکہ جس نے جانتے بوجھتے فرض نماز چھوڑ دی، وہ اللہ کے عہد سے محروم ہو گیا ۔ہر گز شراب نہ پیو، کیونکہ یہ ہر بے حیائی کا سرا ہے۔ اپنے آپ کو برائی سے بچاؤ، کیونکہ برائی سے اللہ کی پکڑ آجاتی ہے۔ گھمسان کی جنگ کے موقع پر فرار سے بچو، اگرچہ لوگ مر رہے ہوں۔ جب لوگوں کو موت نے آ لیا ہو اور تم ان کے بیچ میں ہو تو وہیں ٹکے رہو۔ اپنے گھر والوں پر فراخی سے خرچ کرو۔ ان کی تادیب کے لیے ان سے اپنا عصا اٹھا نہ لینا اور ان کو خدا کے معاملے میں ڈراتے رہنا۔ ‘‘
لا تعقن: یہ’ عق ‘، ’یعق‘ سے نہی مؤکد بنون ثقیلہ کا صیغہ ہے۔ لغوی معنی کاٹنے اور پھاڑنے کے ہیں۔ والدین کی نسبت سے یہ ان کے حقوق تلف کرنے کے معنی میں آتا ہے۔
متعمدا: ’تعمُّد‘ کا لفظ پورے شعورکے ساتھ کسی عمل کو کرنے کے لیے آتا ہے۔
برئت منه ذمة اﷲ : ’ذمة‘ کا لفظ امان، عہد اور ذمہ داری کے لیے آتا ہے۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندۂ مومن کو جو ضمانتیں دنیا اور آخرت سے متعلق دی گئی ہیں، وہ قائم نہیں رہیں۔
خمرا : شراب، اصل میں ہر نشہ حرام ہے۔ یہ اس اصول کا اطلاقی بیان ہے۔
سخط : شدید غصہ اور ناراضی مراد ہے۔ یعنی وہ غصہ جو کسی بدی پر سزا دینے کا باعث بنے۔
من طولک: اپنی فراخی سے۔ یعنی اس فراخی سے جو تمہاری (یعنی ایک مرد کی) شان ہے۔
ترفع عنھم عصاک: یعنی اپناعصا ان کی تربیت کے لیے استعمال کرنے میں گریز نہ کیجیے۔
یہ روایت صرف مسندِ احمد ہی میں ہے۔ البتہ ابنِ ماجہ میں ابودرداء سے اسی مضمون کی حامل ایک روایت ہے۔ فرق صرف یہ ہے اس روایت میں دس باتوں کا ذکر نہیں ہے البتہ اسلوب اور ابتدائی جملے بالکل ایک جیسے ہیں۔ ابودرداء روایت کرتے ہیں:
عن أبی الدرداء قال أوصانی خلیلی صلی اﷲ علیه وسلم أن لاتشرک باﷲ شیئا، و إن قطعت و حرقت. و لاتترک صلوٰۃ مکتوبة متعمدا، فمن ترکھا متعمدا فقد برئت منه الذمة و لا. تشرب الخمر، فإنھا مفتاح کل شر.(ابنِ ماجہ، کتاب الفتن، باب ۲۳)
’’حضرت ابو دردا ء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میرے دوست (خلیلی) نے مجھے نصیحت کی کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیراؤ، اگرچہ تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے۔ فرض نماز کو جانتے بوجھتے نہ چھوڑو، جس نے اسے جان بوجھ کر چھوڑا وہ اللہ کی امان سے نکل گیا۔ شراب نہ پیو، کیونکہ یہ ہر برائی کی کنجی ہے۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد صحابہ کو اسی انداز میں مختلف نصیحتیں کی ہیں۔ ظاہر ہے، مختلف اشخاص کو کی گئی نصائح میں اجزا مختلف ہوں گے۔ حضرت معاذ سے مروی زیرِ بحث روایت میں بھی فطری طور پر یہ اجزا مختلف ہیں۔اس روایت میں بیان کیے گیے تمام امور دوسری روایت میں بیان ہوئے ہیں، لیکن والدین کی نافرمانی کی تاکید والا جملہ محل نظر ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری روایات میں صرف ’عقوق والدین ‘کا ذکر ہے۔ لیکن اس کا دائرہ کیا ہے، اس کی توضیح نہیں کی گئی۔اس روایت میں توضیح کی گئی ہے، یہ توضیح ہی محل نظر ہے۔ اسی طرح ’إن قتلت و حرقت‘ کے اسلوبِ بیان میں شرک سے روکنا بھی معروف اور بہتر روایات سے مختلف ہے۔
یہ روایت سند کے پہلو سے بھی ضعیف ہے۔ اس کی سند میں انقطاع ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے نیچے عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر کا نام ہے۔ اس راوی کے اوپر ایک اور راوی کانام ہونا چاہیے، جس نے حضرت معاذ سے سنا ہو، کیونکہ ان کے اور ان کے بیچ زمانی بعد ہے۔
اس روایت میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں، یہ دین کی معروف اور مسلمہ باتیں ہیں۔ہم اس سے پہلے ان میں سے بیشتر نکات کی توضیح کر چکے ہیں۔
شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔یہ انسان کی اپنی فطرت سے انحراف کی سب سے قبیح مثال ہے۔ انسان اپنے دل کی گہرائیوں سے جانتا ہے کہ اس کا ایک ہی مالک و آقا اور ایک ہی معبود ہے۔ یہ کائنات اپنے وجود سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس پر ایک ہی ہستی کی حکومت ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص شرک کی غلاظت میں لتھڑتا ہے تو یہ ایک شنیع عمل قرار پاتا ہے اور اس کا مرتکب خالق و مالک کے نزدیک سب سے بڑی سزا کا مستحق بن جاتا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کو اس غلاظت اور اس کی سزا سے بچانے کی دعوت دیتے رہے۔ یہ روایت بھی آپ کے اسی عمل کا مظہر ہے۔ البتہ اس میں شرک سے بچنے کی تلقین جس اسلوب میں کی گئی ہے وہ حضور سے مروی دوسرے اقوال سے کافی مختلف ہے۔اس اسلوب میں ایک اشکال بھی ہے۔ وہ اشکال یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں ایسے ہی مواقع پر جب تشدد کی غیر معمولی صورتوں کاسامنا ہو تو کلمۂ کفر زبان سے نکالنے کی رخصت دی گئی ہے، بشرطیکہ آدمی کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔اس روایت کے ان الفاظ میں رخصت کا یہ پہلو ملحوظ نہیں ہے۔ بہرحال اس میں شبہ نہیں کہ شرک سے ہر حال میں بچنا ضروری ہے، اس لیے کہ اس کے ارتکاب سے اس کائنات کے سب سے بڑے حق کی مخالفت ہوتی ہے۔ مکہ میں صحابہ ء کرام نے اسی طرح کے سنگین حالات کا سامنا کیا،لیکن انھوں نے قرآنِ مجید کی دی ہوئی اس رخصت سے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا۔انتہائی اذیت کی حالت میں بھی زبان سے کلمۂ حق کے سوا کچھ نہیں نکالا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباً یہی راہ اپنانے کی تلقین کی ہے، لیکن روایت کے الفاظ بہرحال اس قیاس کے بھی متحمل نہیں ہیں۔
روایت میں دوسری بات والدین کی اطاعت سے متعلق ہے۔ متون کی بحث میں ہم یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ عام طور پر روایات میں ’عقوق والدین‘ کو ایک بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔لغوی بحث میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ ’عقوق‘ کا لفظ والدین کی اس حیثیت کی نفی کرنے پر دلالت کرتا ہے، جو انھیں ایک صالح معاشرت میں حاصل ہوتی ہے۔اس حیثیت کے لحاظ کا سب بڑا مظہر یہ ہے کہ اولاد اپنے والدین کی فرماں بردار ہو۔ہم پیچھے اس مضمون کی حامل روایات میں اس حکم کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بیان کر چکے ہیں کہ والدین کے ساتھ سلوک میں اصل تقاضا ’ وبالوالدین احسانا‘[1] (اور والدین کے ساتھ حسن سلوک ) کا ہے۔ والدین کی اطاعت بھی اسی حسن سلوک کے تحت ہے۔عقوق والدین سے گریز، درحقیقت اسی احسان کا بیان ہے۔ والدین کے ساتھ گستاخی، ان کی ضرورتوں کو پورا نہ کرنا، ان کی خواہشات کا احترام نہ کرنا یہ سب چیزیں عقوق کے تحت اور احسان کے منافی ہیں۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ والدین کی اطاعت ایک مطلوب اور محمود چیز ہے۔لیکن ہر اطاعت اس شرط سے مشروط ہے کہ اس میں خدا کی نافرمانی نہ ہو۔ اس روایت میں والدین کی اطاعت کی جوحد بیان کی گئی ہے، اگر الفاظ کے ظاہر کو ملحوظ رکھیں تو وہ حد اس شرط سے ٹکراتی ہے۔اس روایت میں کہا گیا ہے کہ اگر والدین اپنے گھر والوں کو چھوڑ دینے کا کہیں تو تب بھی ان کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے اور اہل کو چھوڑ دینا چاہیے۔ والدین کا یہ مطالبہ اگر نا انصافی پر مبنی ہے تو اس کو پورا کرنا اہل کی حق تلفی ہے۔ اور حق تلفی خدا کے ہاں ہر حال میں ایک غیرمطلوب امر ہے۔بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں جملے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل جملوں سے کافی مختلف ہو گئے ہیں۔
تیسری بات نماز سے متعلق ہے۔ نماز کی اہمیت اور اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں حیثیت کے بارے میں اس سے پہلے کی روایات میں تمام نکات تفصیل سے بیان کر چکے ہیں۔ اس روایت میں اہم جملہ تارک ِ نماز کو یہ وعید ہے کہ اس سے اللہ کی امان [2]اٹھ گئی۔سوال یہ ہے کہ اس امان یعنی ’ذمۃ‘ سے کیا مراد ہے۔اوپر روایت : ۱۳میں بھی ’ذمة‘[3] کا لفظ آیا ہے۔ اس روایت میں بیان ہوا ہے کہ جس نے ہماری نماز پڑھ لی اور جس نے ہمار ا قبلہ اختیار کر لیا اور جس نے ہمارا ذبیحہ کھا لیا وہ مسلمان ہے اور اسے اللہ اور اس کے رسول کا ’ذمه‘ حاصل ہے۔ اس روایت میں ’ذمه‘ کا لفظ اس امان کے لیے آیا ہے جو سورۂ توبہ میں ’فخلوا سبیلھم‘[4] (تو ان کا راستہ چھوڑ دو)کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ اس آیۂ کریمہ اور اس روایت میں جو امان زیرِ بحث ہے اس کا تعلق اسی دنیا سے ہے۔ اسی طرح ایک امان آخرت کے پہلو سے بھی ہے، جس کی ضمانت پورے دین کو اختیار کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ سورۂ بقرۃ میں اس کا ذکر ’فمن تبع ھدای فلا خوف علیهم ولا یحزنون‘[5] (جنھوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو (روزِ قیامت) کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غم زدہ ہوں گے۔) کے الفاظ میں ہوا ہے۔ظاہر ہے نماز اتباعِ ہدایت کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ بلکہ اس کے بغیراتباع کی کوئی حقیقت نہیں ہے، کیونکہ نماز عبادت ہے اورعبادت دین کی روح ہے۔ ایک روایت میں اس کے اسی پہلو کو واضح کر نے کے لیے نماز کو ’عماد الدین‘ کہا گیا ہے۔ایک اور روایت میں اس امان کوایک اور پہلو سے بیان کیا گیا ہے۔ مسلم میں ہے :
جندب ابن عبد اللہ یقولا: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: من صلی الصبح فھو فی ذمة اﷲ فلا یطلبنَّکم اﷲُ من ذمته بشئ فیدرکه فیکبه فی نار جھنم.(کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ، باب ۴۸)
’’جندب بن عبداللہ(باپ اور بیٹا) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صبح کی نماز ادا کر لی وہ اللہ کی امان میں ہے۔ ہرگز اللہ تعالیٰ تم سے اس امان کے تقاضے کا سوال نہ کر ے۔ اگر ایسا ہوا تو وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نماز اور اس نمازی کی زندگی کے تما م تقاضے پورے کریں۔ اگر یہ تقاضے پورے نہ ہوئے تو انجام بہت برا ہو گا۔ اس چیز کو سورۂ ماعون میں ’فویل للمصلین ‘کے سخت ترین اسلوب میں بیان کیا گیا۔ اس روایت میں قرآنِ مجید کی اسی سختی کی جھلک ہے۔
اس کے بعد شراب نہ پینے کی تلقین ہے۔اور اس کی شناعت کو واضح کرنے کے لیے یہ بتایا گیا ہے کہ شراب ہر بے حیائی کا سرا ہے۔ صاحب مرقاۃ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ حیا عقل و شعور کا خاصہ ہے اور شراب اسی کوماؤف کر دیتی ہے۔چنانچہ شرابی کے لیے ایسی سرگرمیوں میں مشغول ہونا مشکل نہیں رہتا جن میں عقل و ہوش میں شریک ہونا کبھی پسند نہ کرتا اور اگر شریک ہوتا تو اس کے ضمیر کی خلش اسے بے چین کیے رکھتی۔
یہ شراب کی حرمت کے اصل پہلو کا ایک اطلاق ہے۔ شراب انسان کو اس کے اصل شرف سے محروم کر دیتی ہے۔ انسان کو جو چیز اشرف اور اعلیٰ مخلوقات میں شامل کرتی ہے، وہ اس کی فہم و ادراک کی صلاحیت ہے۔ یہی وہ صلاحیت ہے جس کے باعث اسے خدا کی تعلیمات کا مستحق سمجھا گیا ہے۔ شراب پینے کے بعد انسان کی یہ صلاحیت اپنی فعالیت سے محروم ہو جاتی ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ وہ حیا اور شرم جیسے پاکیزہ احساس ہی سے عاری ہو جاتا ہے۔ درآنحالیکہ یہی وہ احساس ہے، جو انسان کے اخلاقی وجود کی رفعت کا باعث ہے۔
اس کے بعد آپ نے معصیت سے اپنی حفاظت کی تلقین کی ہے۔اس کی وجہ آپ نے یہ بیان کی ہے کہ معصیت خدا کی گرفت کا باعث ہے۔ آپ کی اس نصیحت کا غلغلہ سب سے زیادہ آج بلند ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان بطورِ خاص برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت یہ یقین رکھتی ہے بلکہ اسے یقین دلا دیا گیا ہے کہ محض اسلام سے نسبت بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے سربرآوردہ مسلمانوں سے نسبت ہی انھیں جہنم سے بچا لے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد واضح کرتا ہے کہ معصیت خدا کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ یہاں قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ آپ یہ نصیحت معاذ بن جبل کوکر رہے ہیں، جنھیں صحابہ میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ وہ علم و تقویٰ اور دینی خدمات، ہر اعتبار سے ایک بڑے آدمی تھے۔ انھیں آپ کی یہ نصیحت واضح کرتی ہے کہ مسئلہ صرف نسبت سے حل ہونے والا نہیں ہے۔
پھر آپ نے جنگ سے فرار کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی جنگوں کی دینی اہمیت، وہاں افراد کی ضرورت اور کسی آدمی کے فرار کی صورت میں پیدا ہونے والی افراتفری کی کیفیت اس نصیحت کی اصل محرک ہے۔ لیکن یہ ایک اصولی بات بھی ہے۔ جنگ میں اترنا اور اس کے مصائب کا مردانہ وار مقابلہ ہی اس کے نتیجہ خیز ہونے کا باعث ہے۔جب آدمی خدا کے دین کی سربلندی کے لیے میدانِ جنگ میں اترا ہو تو اس کا میدانِ جنگ کو چھوڑنا اس کے ارادے کی کمزوری،اپنے مقاصد کے ساتھ خلوص میں کمی اور سب سے بڑھ کر خدا کے وعدوں پر اعتماد میں اضمحلال کا مظہر ہے۔ اگر واقعتہً یہی چیزیں فرار کا باعث ہوئی ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ خدا کی ناراضی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علاقوں سے نکلنے سے روکا ہے جو کسی وبا کا شکار ہوگئے ہوں۔ اس کی وجہ بظاہر یہی سمجھ میں آتی ہے کہ وبا کے مزید پھیلاؤ کو روک دیا جائے۔ اس کے پیچھے کوئی دینی مصلحت نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اس نوع کی اور بھی نصیحتیں روایات میں بیان ہوئی ہیں، جن کا تعلق صرف معاشرتی مصالح سے ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے ابلاغ کے ساتھ ایک موقع پر سماجی بہتری کوبھی اپنا موضوع بنایا۔
آخر میں آپ نے گھریلو ذمہ داریوں کی طرف توجہ دی ہے۔اس ضمن میں آپ نے دو باتیں بیان کی ہیں۔ ایک کا تعلق گھر والوں پر خرچ کرنے سے ہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حالات کے مطابق فراخی کا معاملہ کرنے کی تلقین کی ہے۔ یہ تلقین اس پہلو سے اپنے اندر ایک اہمیت رکھتی ہے کہ گھر والوں پر خرچ کرنا عام طور پر نیکی کا عمل نہیں سمجھا جاتا۔ ایک دوسری روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں صدقہ یعنی نیکی قرار دیا ہے۔ گھر والوں کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق نفقہ کا انتظام ہر آدمی کی لازمی ذمہ داری ہے۔ دین ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریاں بطریق احسن انجام دیں۔ یہی وہ پہلو ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’اپنی فراخی سے‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔دوسری کا تعلق تربیت کی ذمہ داری سے ہے۔ اس معاملے میں آپ نے حسب ضرورت سختی کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ بچوں کی تربیت میں پیار اور سختی دونوں ہی ناگزیر ہیں۔بچے اگر پیار سے اعتماد کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں تو مار انھیں حدود آشنائی کی قدر سے روشناس کراتی ہے۔ ان دونوں کے امتزاج ہی سے بچہ صحیح نفسیات کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔
اس معاملہ کا سب سے اہم پہلو بچے کو خدا کی گرفت کے بارے میں حساس بنانا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے نتیجے میں بچہ اپنے پرور دگار کے ساتھ متعلق ہوتا اور اس کی رضا کے حصول کے جذبۂ صادق سے آشنا ہوتا ہے۔
ابنِ ماجہ، کتاب الفتن، باب ۲۳۔ مسند احمد، حدیث معاذ بن جبل۔
___________