HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۱۱۴- ۱۲۱ (۲۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ وَسَعٰي فِيْ خَرَابِهَا اُولٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْهَا٘ اِلَّا خَآئِفِيْنَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ١١٤ وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ١١٥

(اپنے اِنھی اختلافات کے باعث یہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو ویران کرتے رہے ہیں)[278]۔ اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کے معبدوں میں اِس بات سے منع کرے کہ وہاں اُس کا نام لیا جائے اور اُن کی ویرانی کے درپے ہو۔  اِن کے لیے اِس کے سوا کچھ زیبا نہ تھا کہ ان (معبدوں) میں جائیں تو اللہ سے ڈرتے ہوئے جائیں[279]،(لیکن اِنھوں نے سرکشی دکھائی تو اب) اِن کے لیے دنیا میں ذلت ہے اور قیامت میں بھی ایک بڑا عذاب اِن کا منتظر ہے۔ (یہ اِس لیے ہوا کہ اِن میں سے کسی نے مشرق کو قبلہ ٹھیرایا اور کسی نے مغرب[280] کو،  اور حق یہ ہے کہ) مشرق و مغرب ، سب اللہ ہی کے لیے ہیں ۔ لہٰذا جدھر رخ کرو گے،  اللہ کا رخ بھی اُدھر ہی ہے۔  اس میں شبہ نہیں کہ اللہ بڑی گنجایش والا ہے،  وہ ہر چیز کو جانتا ہے[281]۔ ۱۱۴ -  ۱۱۵

وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ بَلْ لَّهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ ١١٦ بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِذَا قَضٰ٘ي اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ١١٧

(پھر یہی نہیں ، نجات اور ہدایت کے یہ مدعی ایمان و عقیدہ کے لحاظ سے بھی اس قدر پستی میں گر چکے ہیں کہ) اِنھوں نے کہا ہے کہ اللہ کی اولاد ہے۔  لاریب ، وہ پاک ہے اِن باتوں سے،  بلکہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ، اسی کا ہے۔  سب اُس کا حکم مانتے ہیں۔  آسمانوں اور زمین کو وہی عدم سے وجود میں لانے والا ہے اور جب کسی بات کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اُس کے لیے اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے[282]۔۱۱۶ - ۱۱۷

وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللّٰهُ اَوْ تَاْتِيْنَا٘ اٰيَةٌ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّثْلَ قَوْلِهِمْﵧ تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْ قَدْ بَيَّنَّا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ١١٨ اِنَّا٘ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلَا تُسْـَٔلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِيْمِ ١١٩

اور (اِسی طرح کی بات) اُن لوگوں نے کہی جو (وحی اور کتاب کا) علم نہیں رکھتے [283] کہ اللہ ہم سے براہِ راست کیوں ہم کلام نہیں ہوتا[284]  یا ہمارے پاس کوئی واضح نشانی کیوں نہیں آتی[285] ؟بالکل اِسی طرح جو اِن سے پہلے گزرے ہیں ، اُنھوں نے بھی ایسی ہی بات کہی۔  اِن سب کے دل ایک سے ہیں[286]۔ ہم نے اپنی نشانیاں اِن لوگوں کے لیے ہر لحاظ سے واضح کر دی ہیں جو یقین کرنا چاہیں[287]، (لہٰذا تمھاری کوئی ذمہ داری نہیں کہ اِن کی خواہش کے مطابق اِنھیں نشانیاں اور معجزے دکھاؤ)۔  ہم نے    تمھیں حق کے ساتھ بھیجا ہے، (اے پیغمبر )، انذار و بشارت کے لیے۔  تم سے اِن دوزخ والوں[288]کے بارے میں ہرگز کوئی پرسش نہ ہو گی۔۱۱۸ - ۱۱۹

وَلَنْ تَرْضٰي عَنْكَ الْيَهُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰي حَتّٰي تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ اِنَّ هُدَي اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰي وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ ١٢٠

(یہ مشرکین ہی نہیں،  تمھارے مخاطبین میں سے) یہود و نصاریٰ بھی تم سے ہر گز راضی نہ ہوں گے جب تک ان کا مذہب اختیار نہ کر لو ۔ (لہٰذا) کہہ دو کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے،  اور اگر تم اُس علم کے بعد جو تمھارے پاس آ چکا ہے،  اِن کی خواہشوں[289] پر  چلے  تو  اللہ کے  مقابلے میں تمھارا  کوئی دوست اور  کوئی مدد گار  نہ  ہو  گا[290]۔۱۲۰

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ اُولٰٓئِكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ ١٢١

  (اِس کے برخلاف) وہ لوگ جنھیں ہم نے کتاب عطا فرمائی[291] اور وہ اُس کی تلاوت کا حق ادا کرتے رہے،  وہی اس (قرآن) پر ایمان لائیں گے[292]اور جو (اِس نصیحت کے بعد بھی) اپنے انکار پر جمے رہے تو وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔  ۱۲۱

[278]۔  اشارہ ہے اس جنگ و جدال کی طرف جو یہودو نصاریٰ کے درمیان بیت المقدس میں بھی ایک دوسرے کو خدا کی یاد اور اُس کی عبادت سے روکنے کے لیے ہوا اور اُس سے باہر بھی جہاں جہاں انھیں اِس کا موقع ملا۔

[279]۔  یعنی انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے ہدایت پانے کے بعد ان لوگوں کے لیے تو کسی طرح موزوں نہ تھا کہ خدا کی عبادت گاہوں کو ویران کریں۔  انھیں تو ان میں ہمیشہ اللہ سے ڈرتے اور لزرتے ہوئے داخل ہونا چاہیے تھا۔

[280]۔  یہودو نصاریٰ،  دونوں کا قبلہ بیت المقدس تھا،  لیکن نصاریٰ نے غالباً اس میں سیدہ مریم کے مقامِ اعتکاف کی رعایت سے مشرق کو قبلہ بنا لیا اور یہود نے ان کی ضد میں مغرب کی سمت اختیار کر لی۔  پھر اس اختلاف کے باعث ان کے مابین خوب خوب لڑائی ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے کے معبدوں کی حرمت پوری بے دردی کے ساتھ پامال کی۔

[281]۔  یعنی جہات میں سے کوئی جہت بھی اللہ کے لیے خاص نہیں ہے،  لہٰذا وہ بیت المقدس کو قبلہ قرار دے کر جدھر بھی رخ کرتے،  اللہ ہی کی طرف رخ کرتے۔  اس کی قدرت اور اس کے علم کی وسعت ہر جہت کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

[282]۔  مطلب یہ ہے کہ ایسی بے نیاز،  بے ہمہ اور قادرِ مطلق ہستی کے ساتھ اس بے ہودہ عقیدے کا کیا تعلق کہ اس کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔

[283]۔  یعنی مشرکینِ عرب جو صدیوں سے وحی اور کتاب نام کی کسی چیز سے واقف نہ تھے۔

[284]۔  یعنی ہم جو قریش کے سردار ہیں اور اثر و اقتدار میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کہیں بڑھ کر ہیں تو اللہ تعالیٰ ہم سے براہِ راست کیوں بات نہیں کرتا ؟ قریش کے اس مطالبے کا جواب قرآن نے بعض دوسرے مقامات پر دیا ہے،  لیکن یہاں نہیں دیا۔  اس سے یہ اشارہ کرنا پیشِ نظر ہے کہ یہ مطالبہ اس قدر احمقانہ ہے کہ اس کے جواب میں خاموشی ہی اس کا جواب ہے۔  سردارانِ قریش کے پندارِ سیاست پر ، ظاہر ہے کہ جو ضرب اس خاموشی سے لگ سکتی تھی ، وہ اس مطالبے کے کسی جواب سے نہیں لگ سکتی تھی۔

[285]۔  نشانی سے ان کی مراد کوئی ایسی نشانی تھی جسے دیکھ کر ہر شخص پکار اٹھے کہ اس کا دکھانے والا یقیناً کوئی فرستادۂ خداوندی ہی ہو سکتا ہے۔  مثلاً یہ کہ اس رسول کے ساتھ کوئی فرشتہ آسمان سے اترے اور گلی کوچوں میں اس کی منادی کرتا پھرے یا کم سے کم اس کے اشارے پر اس عذاب ہی کا کوئی نمونہ دکھا دیا جائے جس کی وعید وہ شب و روز انھیں سناتا ہے۔

[286]۔  یعنی جس طرح کی نشانی کا تقاضا یہ کر رہے ہیں،  بالکل اسی طرح کی نشانی ان سے پہلی قوموں نے بھی اپنے رسولوں سے طلب کی تھی۔  وہ بھی حق واضح ہو جانے کے بعد  محض ہٹ دھرمی کے باعث یہ مطالبہ کر رہے تھے اور یہ بھی حق کو پوری طرح سمجھ لینے کے بعدمحض ضد اور ہٹ دھرمی ہی کے باعث یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔  لہٰذا جس طرح کے قفل ان کے دلوں پر تھے ، اسی طرح کے قفل ان کے دلوں پر بھی ہیں۔  یہ اب عذاب دیکھ لینے کے بعد ہی مانیں گے۔

[287]۔  مطلب یہ ہے کہ جو یقین کرنا چاہیں،  ان کے لیے تو تمھاری رسالت کا اثبات اب کسی نشانی اور معجزے کا محتاج نہیں رہا،  اس لیے کہ انفس و آفاق اور تاریخ و آثار سے اس کے دلائل ہم نے ہر پہلو سے کھول کھول کر قرآن میں بیان کر دیے ہیں۔

[288]۔  یعنی سرکشی اور ہٹ دھرمی کے باعث دوزخ جن کے لیے مقدر ہو چکی ہے۔

[289]۔  یہود و نصاریٰ کے طریقوں کو ان کی خواہشات سے تعبیر اس لیے کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم اور ہدایت آ جانے کے بعد کسی دوسرے طریقے پر اصرار درحقیقت اپنی خواہشات ہی کی پیروی ہے۔

[290]۔  یہاں اگرچہ خطاب بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے،  لیکن صاف واضح ہے کہ تنبیہ اور عتاب کا رخ یہود و نصاریٰ ہی کی طرف ہے۔

[291]۔  قرآن کی بلاغت کا یہ پہلو ملحوظ رہے کہ یہاں چونکہ ذکر صالحینِ اہلِ کتاب کا ہے،  اس لیے ’اوتو الکتاب‘کے بجائے اصل میں ’اٰتینھم الکتاب‘ کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔  قرآن کے ذوق آشنا اس فرق کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔

[292]۔  یعنی جو اس سے پہلے حق کی قدر کرتے رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ اب بھی انھیں ہی اس کی توفیق عطا فرمائے گا۔  قرآن سے ہدایت بھی وہی پائیں گے جنہوں نے تورات و انجیل کی تلاوت کا حق اداکیا ہے۔  ہدایت وضلالت کے باب میں یہ اللہ کی سنت ہے اور وہ اپنی سنت   کبھی تبدیل  نہیں کرتا     ۔

(باقی)

ـــــــــــــــــــــ

B