محمد بلال
ساہیوال میں ایک شخص کو معلوم ہوا کہ اس کی بیوی کا کردار صحیح نہیں ہے۔ وہ اس کی غیرموجودگی میں غیرمردوں سے ملتی ہے۔ اس شخص نے اپنی بیوی کو کئی دفعہ اس سے منع کیا، مگر وہ عورت اپنی روش سے باز نہ آئی۔ ایک دن اس شخص کا اپنی بیوی سے اسی مسئلے پر جھگڑا ہوا۔ جھگڑے کے دوران میں اس شخص کو سخت غصہ آیا۔ اس نے اپنی بیوی کو اس طرح ڈنڈا مارا کہ وہ ہلاک ہو گئی۔ اس کے بعد وہ شخص فرار ہو گیا اور پولیس نے اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ۔
قصور میں ایک شخص محمد جاوید کو گاؤں کے بدقماش افراد نے یہ کہانی سنا کر مشتعل کر دیا کہ تمھاری بہن کا کردار ٹھیک نہیں ہے، جس پر محمد جاوید نے گھر آ کر اپنی بہن سے جھگڑا کرنا شروع کر دیا۔ بعد میں غصے میں آ کر بندوق نکالی اور بہن پر فائرنگ کر دی۔ چھوٹی بہن اپنی بہن کو بچانے کی خاطر آگے بڑھی تو جاوید نے اسے بھی فائرنگ کر کے قتل کر دیا اور فرار ہو گیا۔ پولیس تھانہ کھڈیاں واقعہ کی تفتیش کر رہی ہے۔
قارئینِ کرام ایسے واقعات پڑھ کر یقیناً حیران نہیں ہوئے ہوں گے، اس لیے کہ اس قسم کے واقعات ہمارے معاشرے میں ایک معمول بن چکے ہیں۔ ہر تیسرے یا چوتھے دن کسی نہ کسی غیرت مند خاوند، باپ، بھائی یا کسی قبیلے کے ہاتھوں کسی بدکردار عورت کے قتل کی خبریں ہمارے اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔
اگرچہ اس طرح کے قاتلوں کو پولیس ایک مجرم قرار دیتی ہے، لیکن معاشرے میں انھیں بالعموم پسندیدہ نظروں ہی سے دیکھا جاتا ہے۔ اور یہ پسندیدہ نظروں سے دیکھنے کا معاملہ عام لوگوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی یہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ایک دفعہ روزنامہ ’’نواے وقت‘‘ کے کالم ’’سرراہے‘‘ کے مصنف نے اس مسئلے کے بارے میں لکھا :
’’عمان کے انگریزی اخبار ’’جارڈن ٹائمز‘‘ نے خبر دی ہے کہ اس سال کے شروع سے اب تک اردن میں غیرت کے نام پر سولہ عورتیں ہلاک ہو چکی ہیں۔ ان میں سے تین عورتیں پچھلے ہی ہفتے قتل ہوئیں ۔ پاکستان کی بعض ترقی پسند خواتین پراپیگنڈا کر رہی ہیں کہ ہمارے ہاں غیرت کے نام پر جو قتل ہوتے ہیں، ان کی وجہ ہمارے اسلامی قوانین ہیں جو اس قسم کے قتلوں پر قاتلوں سے ہمدردانہ رویے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان خواتین کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہو گا کہ اردن میں تو ہمارے جیسے قوانین نہیں بلکہ وہاں کا قانونی ڈھانچا فرانسیسی قوانین سے متاثر ہے۔ لہٰذا وہاں غیرت کے نام پر قتل کیوں ہوتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ مشرق و مغرب کا مزاج مختلف ہے۔ مشرق میں کوئی شخص اپنی بیوی کو قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتا۔ اسی طرح کوئی بیوی اپنے خاوند کی بے راہ روی پر خاموش نہیں رہتی لیکن مغرب کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بیڈروم میں داخل ہونے کے لیے دروازہ کھولتا ہے اور اندر اپنے بیڈ پر کسی غیر شخص کو مصروفِ کار دیکھتا ہے تو ’’سوری‘‘ کہہ کر دروازہ بند کر دیتا ہے۔ ہماری یہ ترقی پسند خواتین چاہتی ہیں کہ اہلِ پاکستان میں بھی ’’رواداری‘‘ اور تحمل کی یہ صفات پیدا ہو جائیں اور کسی بہن کو قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ کر کسی بھائی کا خون نہ کھولے۔ لیکن اس رواداری کو یہاں ’’بے غیرتی‘‘ سمجھا جاتا ہے ۔‘‘ ( ۹ اکتوبر ۱۹۹۹)
یہاں کالم نویس نے غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی واضح طور پر حمایت کی ہے اور اس رویے کو مشرق کا مزاج قرار دے کر لائقِ تحسین ٹھیرایا ہے اور اس معاملے میں اہلِ مغرب کی بے غیرت کہہ کر مذمت کی ہے۔
اس میں شبہ نہیں ہے کہ ہمارے ہاں جب کوئی باپ ، کوئی خاوند یا کوئی بھائی اپنی بیٹی، اپنی بیوی یا اپنی بہن کو کسی غیر مرد کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھتا ہے یا اس ضمن میں محض کوئی اطلاع ہی پاتا ہے تو اس کا خون کھولنے لگتا ہے، بلکہ خون اس کی آنکھوں میں اتر آتا ہے اور وہ اس غیر مرد کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ۔
معاشرے کی بنیاد خاندان پر قائم ہوتی ہے اور خاندان کی بنیاد مرد اور عورت کے نکاح پر استوار ہوتی ہے، مگر جب کسی معاشرے کے مرد اور عورتیں نکاح کے بغیر ’’ملاقات‘‘ کرنے لگیں تو اس سے معاشرے کی بنیاد ہی منہدم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور پھر یہ مسئلہ محض دنیوی ہی نہیں اخروی معاملہ بھی ہے۔ نکاح کے بغیر عورت اور مرد کا تعلق ایک عظیم گناہ ہے، اس کے مرتکب لوگوں کے لیے بہت سخت اخروی سزا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ غیرت کے جوش میں آ کر کسی باپ، کسی خاوند یا کسی شوہر کو اپنی بیٹی، اپنی بیوی یا اپنی بہن کو خود قتل کر دینا چاہیے ؟ ’’مشرق‘‘ کے حامی لوگ تو اس کا جواب ہاں ہی میں دیں گے۔ لیکن مشرق و مغرب کے خالق اور مالک کی تعلیمات سے اس کا مختلف جواب ملتا ہے۔ اس ضمن میں چند احادیث ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
’’حضرت سعد بن عبادۃ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر میں اپنے کسی اہل کے ساتھ کسی مرد کو پاؤں تو کیا میں ان کو اس وقت تک نہ پکڑوں جب تک چار گواہ نہ لے آؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ اس پر حضرت سعد نے کہا: نہیں، ہرگز نہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ چار گواہ لانے کے بجائے کیوں نہ میں تلوار سے ان پر جھپٹ پڑوں ؟ آپ نے (لوگوں کو متوجہ کر کے حضرت سعد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا: سنو، کیا کہتا ہے تمھارا سردار (حضرت سعد ایک سردار آدمی تھے )۔ یہ بڑے غیرت مند ہیں۔ (حالانکہ) میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔‘‘ (مسلم ، کتاب اللعان )
یہی روایت بخاری میں کچھ اس انداز سے آئی ہے:
’’حضرت سعد بن عبادۃ کہتے ہیں کہ میں اگر کسی مرد کو اپنی عورت کے ساتھ دیکھوں تو اسے تلوار سے مار دوں۔ یہ بات نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے (لوگوں سے) فرمایا : کیا تمھیں سعد کی غیرت اچھی لگی ہے۔ بخدا میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔ اور اس وجہ سے اللہ تعالی نے فواحش کا ظاہر اور باطن حرام قرار دیا ہے اور کوئی نہیں جس کو اللہ سے زیادہ عذر پسند ہو ۔ اور اسی وجہ سے اللہ نے مبشرین اور منذرین بھیجے اور اللہ سے زیادہ تعریف کسی کو پسند نہیں۔ اور اسی وجہ سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے ۔‘‘ (کتاب التوحید )
بخاری ہی میں ہے:
’’حضرت عویمر العجلانی، حضرت عاصم بن عدی کے پاس آئے اور ان سے پوچھا:تمھاری اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے جس نے اپنی بیوی کے پاس کسی مرد کو دیکھا ہو ۔ کیا وہ اسے قتل کر دے اور کیا تم اس (قتل کرنے والے) کو اس کے اس فعل کی پاداش میں قتل کر دو گے؟ میرے اس سوال کا جواب رسول اللہ سے دریافت کرنا۔ حضرت عاصم نے اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب دریافت کیا تو آپ نے اس سوال پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔ چنانچہ حضرت عاصم لوٹے اور انھوں نے حضرت عویمر کو بتایا کہ رسول اللہ نے سوال پسندنہیں کیا۔ اس پر حضرت عویمر نے کہا کہ وہ خود رسول اللہ کے پاس جائیں گے ۔ چنانچہ وہ آئے۔ اس دوران میں اللہ تعالیٰ نے قرآن (یعنی متعلقہ آیت کو) نازل کر دیا تھا۔ لہٰذانبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بتایا کہ اللہ نے تمھارے مسئلے کے بارے میں قرآن نازل کر دیا ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عویمر اور ان کی عورت کو اپنے پاس بلایا۔ وہ آئے ۔ حضرت عویمر نے لعان کر کے الزام لگایا[1]۔ پھر عورت نے لعان کیا اور کہا کہ اگر میں نے ایسا کیا ہو تو خدا کی مجھ پر لعنت ہو۔ اس کے بعد حضرت عویمر نے کہا: اگر اب میں نے (اس عورت کو) اپنے پاس رکھا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں نے اس پر جھوٹا الزام لگایا تھا۔ لہٰذا حضرت عویمر نے اپنی اس بیوی سے علیحدگی اختیار کر لی۔‘‘( کتاب الاعتصام بالکتاب والسنتہ )
’’ھلال بن امیہ نے اپنی بیوی پر الزام لگایا کہ وہ شریک بن سحما کے ساتھ ملوث ہے۔ جس پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گواہی لاؤ یا پھر (الزام ثابت نہ ہونے پر قذف کے تحت) تمھاری پیٹھ پر حد جاری کر دی جائے گی۔ اس پر ھلال بن امیہ نے کہا: یا رسول اللہ، ہم میں سے جب کوئی اپنی بیوی کے اوپر کسی آدمی کو دیکھے تو وہ گواہی ڈھونڈنے نکلے ؟ تو یوں لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہنے والے ہیں کہ: ہاں۔ گواہی ڈھونڈے، نہیں تو پیٹھ پر حد جاری کر دی جائے گی۔ (راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد مذکورہ میاں بیوی کے درمیان) لعان کا معاملہ ہوا۔‘‘ (کتاب الشہادات )
اسی طرح دیکھیے عالم کے پروردگار نے زانی مرد اور زانیہ عورت کے بارے میں مسلمانوں سے یہ نہیں فرمایا کہ جیسے ہی تمھیں ان کے جرم کی اطلاع ملے تو انھیں خود قتل کردو بلکہ حکم دیا ہے:
’’زانی عورت ہو یا مرد ، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔‘‘ (النور۲۴: ۲)
یہاں یہ ذہن میں رہے کہ سورۂ نور مدنی سورہ ہے ۔ مدینہ میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ لہٰذا یہ حکم مسلمانوں کی حکومت کو دیا جا رہا ہے۔ مزید دیکھیے، کوڑے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات یہ ہیں کہ کوڑا نہ بہت سخت ہونا چاہیے نہ بہت موٹا، نہ بہت نرم ، نہ بہت پتلا، بلکہ اوسط درجے کا ہونا چاہیے۔ مار بھی درمیانی ہونی چاہیے۔ مار ایسی نہیں ہونی چاہیے جو زخم ڈال دے۔ ایک ہی جگہ نہیں مارنا چاہیے بلکہ منہ اور شرم گاہ کو چھوڑ کر مار کو سارے جسم پر پھیلا دینا چاہیے۔ مجرم کو ننگا کر کے ٹکٹکی پر نہیں باندھنا چاہیے۔ اور عورت حاملہ ہو تو اسے وضع حمل کے بعد نفاس کا عرصہ گزر جانے تک مہلت دینی چاہیے۔
اب اس مسئلے کے ایک دوسرے پہلو پر غور کیجیے۔ ہمارے ہاں اکثر و بیشتر لوگوں میں دوسروں کے جرائم کو بے نقاب کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس تحریر کے آغاز میں ہم نے جو دوسرا واقعہ بیان کیا ہے اس میں اس رویے کی نشان دہی بھی کی گئی ہے، جبکہ دین ہمیں اس ضمن میں اس سے مختلف رویہ اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ ایک شخص نے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی کے ایسے ہی جرم سے آگاہ کیا تو آپ نے یہ نصیحت فرمائی:
’’تم اس (مجرم) کا پردہ ڈھانک دیتے، تو یہ تمھارے لیے زیادہ اچھا تھا۔‘‘ (المؤطا ، کتاب الحدود )
اسی سلسلے میں صحابۂ کرام کا طرزِ عمل دیکھیے:
’’قبیلہ اسلم کا ایک شخص حضرت ابوبکر صدیق کے پاس آیا اور ان سے کہا: اس بندے نے زنا کیا ہے، حضرت ابوبکر نے پوچھا: تم نے کسی اور سے بھی یہ ذکر کیا ؟ اس نے کہا:نہیں۔ اس پر حضرت ابوبکر نے کہا: تو پھر اللہ کی طرف رجوع کرو اور جو پردہ اس نے تم پر ڈالا ہے، اس میں چھپے رہو۔ اس لیے کہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کر لیتے ہیں۔ لیکن اسے قرار نہیں آیا، یہاں تک کہ وہ حضرت عمر بن خطاب کے پاس آیا اور ان سے بھی وہی بات کہی جو اس نے حضرت ابوبکر سے کہی تھی، مگر حضرت عمر نے بھی اسے وہی جواب دیا۔‘‘(موطا امام مالک ، کتاب الحدود ، باب ماجاء فی الرجم )
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی عورت یا مرد سے کوئی ایسی لغزش ہو جائے تو اس پر پردہ ڈال دیا جائے اور مجرم کو معاشرے میں رسوا نہ کیا جائے۔ غور کیجیے تو اس ہدایت میں غیر معمولی حکمت پوشیدہ ہے۔ اگر مجرم کے جرم کو چھپا لیا جائے تو اس کا بڑا امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی خود اصلاح کر لے گا۔ مجرم کی اپنی اصلاح خود کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بنتی ہے کہ معاف کرنا ایک غیر معمولی مثبت جذبہ ہے۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا جائے اس کے اندر بھی ویسا ہی سلوک کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ انسان محبت کا جواب محبت اور نفرت کا جواب ہمیشہ نفرت ہی کی صورت میں دیتا ہے۔ امید ہے کہ معاف کرنے کا غیرمعمولی مثبت جذبہ مجرم کے اندر بھی مثبت جذبات بیدار کرے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ مجرم کو ضرور سزا دینی چاہیے تو دین و شریعت کا تقاضا یہی ہے وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لے اور مسئلہ ریاست کے نظامِ عدل کے سامنے پیش کر دے۔
لب دعاگو ہیں کہ یا رب، مسلمانوں کو مشرق و مغرب کے ہر مزاج، ہر معیار، ہر خیال اور ہر رجحان کو دین و شریعت کی میزان پر تول کر رد یا قبول کرنے کی توفیق عطا فرما ۔
ـــــــــــــــــــــ
[1]۔ لعان کا مطلب یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دینا کہ میں سچا ہوں اور پانچویں بار یہ کہنا کہ اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو اللہ کی مجھ پر لعنت ہو۔