HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

قرآن کا ایک اسلوب

قرآن کا انداز یہ ہے کہ وہ معروف قسم کے فلسفیانہ اور دانش ورانہ اسلوب میں کلام نہیں کرتا۔ یہی احادیث و آثار کا معاملہ ہے۔یہ خود پڑھنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ تدبر کے ذریعے سے اُس کے معنوی حقائق کو دریافت کرے۔ قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ساری بات خود بتانے کے بجاے لوگوں کو تدبر کی دعوت دیتا ہے۔تاہم اُس کا اسلوب ایسا ہے جس کو ہر آدمی سمجھ سکے، خواہ وہ عامی ہو یا غیرعامی۔

مثلاً اِس بات کو واضح کرنے کے لیے کہ دنیاکے متعلق اُس کا تصور کیاہے، قرآن میں آپ کو ’تصور‘ (concept) جیسے الفاظ نظر نہیں آئیں گے، بلکہ وہ ایسے اسلوب میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرے گا کہ ایک سنجیدہ آدمی پڑھتے ہی اُس کو سمجھ لے اور جس قدر وہ اُس پر تدبرکرے، اتنا ہی اُس کی معنویت اور گہرائی اُس پر روشن ہوتی چلی جائے   ـــــــ فہم قرآن کے باب میں اِس پہلو کو ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔

قرآن کے دو مقا م پر اِس حقیقت کو درج ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

۱۔ ’فَاَمَّا مَنْ طَغٰي. وَاٰثَرَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا. فَاِنَّ الْجَحِيْمَ هِيَ الْمَاْوٰي‘ (النازعات ۷۹: ۳۷- ۳۹)،  یعنی جس نے سرکشی کا طریقہ اختیار کیا اور دنیاکی زندگی کو فوقیت دی توبلاشبہ جہنم ہی اُس کا ٹھکانا ہوگا۔

۲-  ’بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا. وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰي‘ (الاعلیٰ ۸۷: ۱۶- ۱۷)، یعنی تمھارا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ آخرت تمھارے لیے ناقابل فہم ہے، بلکہ اصل یہ ہے کہ تم آخرت کی ابدی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی وقتی اور فانی زندگی کو ترجیح دے رہے ہو، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آخرت دنیا سے زیادہ بہتر بھی ہے اور پایدار بھی۔

مذکورہ آیات میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اِ ن کا بنیادی مفہوم بالکل واضح ہے۔ تاہم اِس پر تدبر کیا جائے تو دومزید حقیقتیں آشکارا ہوتی ہیں:

ایک یہ کہ قرآن میں دنیا کا تصور یہ نہیں ہے کہ آدمی ترک  دنیا کا طریقہ اختیار کرکے اُس سے بالکل دست بردار ہوجائے، بلکہ اُس کا مطالبہ یہ ہے کہ آدمی دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کے بجاے اُس کو صرف اُسی قدر اہمیت دے، جتنی کہ فی الحقیقت اُس کو دینا چاہیے۔ وہ دنیا کو عیش کا ابدی گھر سمجھنے کے بجاے اُسے تیاری کا ایک وقتی مرحلہ سمجھے۔ایک مشہور روایت میں اِس حقیقت کو انتہائی خوبی کے ساتھ اِس طرح بیان کیا گیا ہے: ’اِعْمَلْ لدُنیاک بِقَدْرِ مَقامِک فیھا، واعْمَلْ لِآخِرَتِک بِقَدْرِ بَقائِک فیھا‘[1]، یعنی دنیا کے لیے اتنا عمل کرو جتنا دنیا میں تم کو رہنا ہے، اور آخرت کے لیے اتنا عمل کرو جتنا آخرت میں تم کو رہنا ہے۔

اِسی حقیقت کو ایک ارشاد رسول میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے: ’عَنْ أَبِيْ مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضي اللہ عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم قَالَ: ’’مَنْ أَحَبَّ دُنْیَاهُ أَضَرَّ بِآخِرَتِه، وَمَنْ أَحَبَّ آخِرَتَه أَضَرَّ بِدُنْیَاہُ، فَآثِرُوْا مَایَبْقیٰ عَلٰی مَا یَفْنیٰ[2]،  یعنی سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: جس نے دنیا کو محبوب بنایا ، اُس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے آخرت کو محبوب بنایا ، اُس نے اپنی دنیا کو نقصان پہنچایا۔ پس تم فنا ہوجانے والی چیزکے مقابلے میں باقی رہنے والی چیز کو ترجیحی حیثیت سے اختیار کرو۔

دوسرے یہ کہ آدمی کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ دنیا سے فائدہ اٹھاتا یا دنیوی سرگرمیوں میں دل چسپی لیتا ہے۔اِس کے برعکس، آدمی کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ کراُسے خدا اور آخرت پر ترجیح دیتا ہے اور اِس طرح وہ ’حب  عاجلہ‘ (القیامہ ۷۵: ۲۰-۲۱)کا شکار ہوکرحیات و کائنات سے متعلق ابد ی حقائق کو فراموش کردیتا ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی نسبت سے روایت ہے کہ ایک بار انھوں نے یہ آیت ’فَاَمَّا مَنْ طَغٰي وَاٰثَرَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا‘ پڑھی تو پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ ہم نے کیوں دنیا کی اِس زندگی کو آخرت پر ترجیح دے رکھی ہے؟ پھر اِس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:اِس کا سبب دنیا کی خوش گواری ، کھانا پینااور آدمی کے سامنے اِس کی لذت و رونق کی موجود گی اوراُس کا جلد ہی قابل حصول بن جانا ہے۔ اِس کے برعکس، آخرت ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔چنانچہ ہم نے جلد مل جانے والی چیز کولے لیا اور بدیر ملنے والی چیز کو چھوڑ دیا:

وعن ابن مسعود أنّه قرأ هذه الآیة، فقال: أتدرون لمَ آثرنا الحیاةَ الدنیا علی الآخرة؟ لأنّ الدنیا حُضِرتْ، وعُجِّلَتْ لنا طیّباتُها وطعامُها وشرابُها، ولَذّاتُها وبَهْجَتُها، والآخرةُ غِیبتْ عنّا، فأخَذْنا العاجِل، وتَرَکْنا الآجِل.(تفسیر القرطبی ۲۰/ ۲۱)   

اسلوب سے متعلق اگر مذکورہ پہلو کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو قرآن آدمی کو یا تو محض ایک سادہ قسم کی واعظا نہ کتاب نظر آئے گا جس میں اعلیٰ دماغ کے لیے کوئی گہرائی اور اپیل نہ ہو، یاوہ قرآن کو پڑھ کر عام دانش ورانہ انداز میں اُس کی توجیہ اور معنویت تلاش کرنے کی ناکام کوشش کرے گا۔ تاہم اگر اِس اسلوب کا لحا ظ ر کھا جائے تو قرآن کا ایک سچا طالب  علم بہ آسانی اُس کے مطلوب تک رسائی حاصل کرسکتا ہے ۔

 حقیقت یہ ہے کہ قرآن کا یہ اسلوب اُس کا ایک عجیب اعجاز ہے۔ اِسی کے ذریعے سے اُس کی صداقت کھلتی اور اُس کے رموز آشکارا ہوتے ہیں۔اِسی کے ذریعے سے قرآن آدمی پر اپنے فلسفہ وحکمت اور اپنے قانون و شریعت کے اسرار کھولتا اور انسانی ذہن کو روشنی اور رہنمائی عطا کرتا ہے۔

[لکھنؤ، ۲۰ ؍مارچ ۲۰۲۱ء]


ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔   تفسیر روح البیان، اسماعیل حقی ۸/ ۲۵۔

[2]۔ احمد، رقم  ۱۹۶۹۷۔


B