HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

السابقون الاولون

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]


حضرت اُمینہ بنت خلف  رضی الله عنہا

   نسبًا و صہراً

جب حضرت ابراہیم نے الله كے حكم سے حضرت ہاجرہ  اور حضرت اسمٰعیل كو مكہ كی بے آب و گیاه وادی میں لا بسایا تو بنو جرہم (Gorrhamite)  بھی یمن سے آ كر یہاں بس گئے۔ان كی دو بیٹیاں حضرت اسمٰعیل سے بیاہی گئیں۔ان میں سے ایك ان كے سردار مضاض بن عمرو كی بیٹی رعلہ یا سیدہ  تھی۔ حضرت اسمٰعیل كے بعد بنوجرہم نے بیت الله كی تولیت سنبھال لی۔جب ان كے بیٹے ثابت نے بھی وفات پائی تو بنو جرہم نے مكہ میں غارت گری شروع كر دی،كعبہ كا مال لوٹتے، بیت الله كے اندر زنا كرنا ان كا معمول بن گیا۔انھی بد كاروں میں اساف اور نائلہ تھے جنھیں الله نے پتھر بنا دیا۔ تب حضرت اسمٰعیل كی اولاد میں سے بنوبكر بن عبد مناة نے  بنوخزاعہ كی مدد سے بنو جرہم كو بزور شمشیر مكہ سے نكال باہر كیا۔ تین سو سال گزر نے كے بعد آں حضرت صلی الله علیہ وسلم كے جد امجد قصی بن كلاب نے بنو خزاعہ كو بے دخل كر كے مكہ پر قریش كا اقتدار قائم كیا۔

حضرت اُمینہ بنت خلف اسی قبیلہ  بنو خزاعہ سےتعلق ركھتی تھیں۔اس ازدی (مبرد،یاقوت الحموی) یامضری (ابن اسحاق،ابن حزم،ابن خلدون) قبیلے كےبانی  عمرو بن عامر بن لحٰی ان كے نویں جد تھے۔ اسعد بن عامر ان كے دادا تھے۔ شاذ روایت میں حضرت اُمینہ كے والد كا نام خالدبتایا گیا ہے،ابن اثیر كہتے ہیں: یہ ابن منده كا وہم ہے۔

  حضرت اُمینہ كا نام مختلف طریقوں سے بولا گیا ہے:ہُمینہ،اُمیمہ،ہُمیمہ۔ابن سعد نے ہُمینہ،ابن عبدالبر، ابن اثیر نے اُمیمہ، ابن اسحاق اورابن ہشام نے اُمینہ كو درست قرار دیا ہے، ابن حجر نے اُمیمہ اور اُمینہ دونوں ناموں كے تحت ان كے حالات بیان كیے ہیں۔ ابن عبدالبر كہتےہیں: جس نے اُمینہ بولا غلط كہا۔حضرت طلحہ بن عبدالله (طلحۃ الطلحات )ان كے بھتیجے تھے۔قبول اسلام سے قبل بنو امیہ كے حضرت خالد بن سعید بن عاص سے حضرت اُمینہ كانکاح ہوچكاتھا۔  

نور ایمان كا حصول

ام القریٰ مكہ میں خورشید اسلام طلوع  ہوا توحضرت خالد بن سعید اس كی پہلی كرنوں سے مستفیض ہوئے۔وه ان اصحاب رسول میں سے تھے جنھیں قرآن مجید نے ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘ (التوبہ ۹:  ۱۰۰)کی صفت سے متصف کیا ہے۔ ابن ہشام کی بیان کردہ فہرست میں ان کا شمار پینتالیسواں ہے، جب کہ واقدی اور ابن عبدالبر کا کہناہے کہ وہ حضرت ابوبکر کے ایمان لانے کے بعد،پانچویں نمبرپر مشرف بہ اسلام ہوئے۔بعثت نبوی کے فوراً بعدحضرت خالد نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک گڑھے کے کنارے کھڑے ہیں جس میں آگ خوب دہک رہی ہے۔گڑھا بہت بڑا اور بہت گہراہے۔ان کا باپ انھیں اس گڑھے میں پھینکنے ہی لگا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پہلوؤں سے پکڑ لیا اور گرنے سے بچا لیا۔وہ گھبرا کر بیدار ہوئے اور حضرت ابو بکر كو خواب سنایا، پھران كی رہنمائی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور گواہی دی کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ حضرت خالد بن سعید نے دین حق قبول  كیا تو ان كی اہلیہ حضرت اُمینہ   بنت خلف نےبھی ’آمنّا و صدّقنا‘ كہا اور نور ایمان سے منور ہو گئیں۔

حضرت اُمینہ كی بیٹی حضرت ام خالد كہتی ہیں: قبول اسلام میں میرے والد پانچویں تھے۔ان سے پوچھا گیا: ان سے پہلے ایمان لانے والے كون تھے؟ بتایا:علی،ابوبكر،زید بن حارثہ اورسعد بن ابی وقاص۔ ابن ہشام كے ہاں حضرت خالد كے پینتالیسویں اور حضرت اُمینہ كے چھیالیسویں نمبر پر رہنے كی وجہ شاید یہ رہی ہو كہ انھوں نے اپنے باپ ابو احیحہ سعیدبن العاص         كے خوف سے ایمان چھپائے ركھا۔

ہجرت اولیٰ: حبشہ کی طرف

ابو جہل نئے ایمان لانے والے مسلمانوں كے خلاف قریش كو اكساتا۔اگر كوئی صاحب ثروت و مرتبہ اسلام قبول كرتا تو اسے عار دلاتا كہ تو نے اپنے باپ كا دین چھوڑ دیا جو تجھ سے بہتر تھا۔ہم تجھے كم عقل اور خطا كار ٹھیرائیں گے اور تیرا مرتبہ پامال كردیں گے۔ اگر كوئی تاجر دین حق اپناتا تو اسے دھمكاتا: ہم تمھارابیوپار مندا كردیں گے اور تمھاری رقم ڈبو دیں گے۔اگر كوئی غریب مسكین داخل اسلام ہوتا تو اسے مارتا پیٹتا اور دوسروں كوبھی اس پر ظلم كرنے كی ترغیب دیتا۔ ایمان لانے کے بعدحضرت خالد كے والد ابو احیحہ سعید بن العاص نے بھی خوب ڈانٹ پھٹکار کی، چھڑی سےانھیں اس قدر پیٹا كہ چھڑی ان کے سرپر ٹوٹ گئی۔ پھر کہا:چلا جا، جہاں چاہتا ہے۔میں تمھارا دانہ پانی بند کردوں گا۔ چنانچہ حضرت خالد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے لگے۔ ان كی ثابت قدمی پر ان كے  والد نے انھیں مکہ کے ریگ زار میں بھوکاپیاسا ڈال دیا،وه تین دن کے بعد وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے اور مكہ كے نواح میں رو پوش ہو گئے۔حضرت اُمینہ بنت خلف بھی اپنے شوہر كے ساتھ شدائد برداشت كرتی رہیں،ہر سزا پر، ہر مقاطعے اور ہر پابندی كے بعد ان كا ایمان پختہ اور فزوں تر ہو جاتا۔

اہل ایمان پر ایذائیں توڑنے میں قریش حد سے گزر گئے تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: اللہ کی زمین میں بکھرجاؤ۔ پوچھا:کہاں جائیں،یا رسول اللہ ؟ آپ نے حبشہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: وہاں کے بادشاہ کی سلطنت ظلم و جور سے پاک ہے۔ چنانچہ رجب ۵؍ نبوی میں عثمان بن مظعون کی قیادت میں پندرہ اصحاب کا پہلا قافلہ سوے حبشہ روانہ ہوا۔دوسرے مرحلے (اوائل ۶ ؍نبوی )میں کئی مسلمانوں نے حبشہ کا رخ کیا۔ اس موقع پر  حضرت خا لد بن سعید بھی منظر عام پر آئے اور اپنی اہلیہ حضرت امینہ بنت خلف كے ساتھ حضرت جعفر بن ابو طالب کی قیادت میں حبشہ جانے والے كاروان میں شامل ہو گئے۔ حضرت خالد کے بھائی حضرت عمرو بن سعید اور ان کی اہلیہ حضرت فاطمہ بنت صفوان بھی ساتھ تھیں۔ اس قافلے کے سڑسٹھ (چھیاسی: ابن ہشام،ابن کثیر) شرکا کو شامل کر کے مہاجرین کی کل تعداد تراسی مرد،انیس عورتیں(:ابن ہشام، ابن کثیر۔ ایک سو آٹھ:ابن جوزی)ہو گئی۔

حضرت اُمینہ اور ان كے شوہر حضرت سعید باره برس سے زیاده حبشہ میں مقیم رہے۔  وہیں ان کے صاحبزادے حضرت سعید اور صاحبزادی حضرت آمنہ یا امہ پیدا ہوئیں۔ ان دونوں بچوں کو بھی شرف صحابیت حاصل ہے۔

ہجرت ثانیہ: مدینہ کی طرف

حضرت اُمینہ غزوۂ خیبر(۷ ھ) کے بعد اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ مدینہ منورہ آئیں اور باقی زندگی یہیں گزاری۔ دو کشتیوں میں پورے آنے والے ان مہاجرین کے نام یہ ہیں:S حضرت جعفر بن ابو طالب، ان کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس، ان کے بیٹے حضرت عبداللہ  بن جعفر، حضرت خالد بن سعید بن عاص،ان کی اہلیہ حضرت امینہ  یا ہمینہ بنت خلف،قیام حبشہ کے دوران میں پیدا ہونے والے ان کے بیٹے حضرت سعید بن خالد اور حضرت امۃ (کنیت: ام خالد ) بنت خالد، حضرت خالد کے بھائی حضرت عمرو بن سعید، ان كی اہلیہ حضرت فاطمہ بنت صفوان حبشہ میں وفات پا چكی تھیں، حضرت معیقیب بن ابو فاطمہ، حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت اسود بن نوفل، حضرت جہم بن قیس، ان کے بیٹے حضرت عمرو بن جہم اور حضرت خزیمہ بن جہم ، حضرت عامر   بن ابی وقاص، حضرت عتبہ بن مسعود، حضرت حارث بن خالد، حضرت عثمان بن ربیعہ، حضرت محمیہ بن جزء، حضرت معمر بن عبداللہ، حضرت ابوحاطب  بن عمرو، حضرت مالک  بن ربیعہ،ان کی زوجہ حضرت عمرہ بنت سعدی اور حضرت حارث بن عبد قیس۔سر زمین حبشہ میں وفات پاجانے والے اہل ایمان کی بیوگان بھی کشتیوں میں سوار تھیں۔مہاجرین کی دونوں کشتیاں صحیح سلامت الجار (بولا: ابن سعد،موجوده نام:الرایس) کے ساحل پر پہنچ گئیں، پھر وہ اونٹوں پر سوار ہو کر مدینہ پہنچے۔ان دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح خیبر سے فارغ ہوئے تھے،آپ مدینہ لوٹے تو مہاجرین کو خوش آمدید کہا۔ ابن ہشام کے بیان سے لگتا ہے کہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیان ان کشتیوں کے مسافروں میں شامل نہ تھیں، جب کہ ابن خلدون نے وضاحت کی ہے کہ وہ لوٹنے والے مہاجرین کی ہم سفرتھیں۔

اولاد

حضرت اُمینہ بنت خلف كے بیٹے حضرت سعید بن خالد بے اولاد رہے۔ان كی بیٹی حضرت آمنہ یا امہ اپنی كنیت ام خالد سے مشہور ہیں۔ان كی شادی حضرت زبیر  بن عوام سے ہوئی اور عمرو بن زبیر اور خالد بن زبیر پیدا ہوئے۔ حضرت زبیر کے بعدحضرت ام خالد کا نکاح حضرت سعید بن عاص سے ہوا، انھوں نے نوے برس کی عمر پائی۔ ابن سعد کاکہنا ہے کہ اب (ہمارے زمانے میں) حضرت خالد بن سعید کی نسل باقی نہیں رہی۔

وفات

حضرت اُمینہ بنت خلف كا سن وفات معلوم نہیں ہے۔البتہ اتنا معلوم ہے كہ عہد فاروقی (۱۴ھ) میں جب حضرت خالد بن سعیدنے جنگ اجنادین یا مرج الصفر كے معركے میں شہادت حاصل كی تو وه زندہ تھیں اور  انھوں نے بے مثال صبر و ضبط كا مظاہرہ كیا۔

مطالعہ مزید: الطبقات الكبریٰ (ابن سعد)،جمہرة انساب العرب(ابن حزم)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابة فی معرفة الصحابة(ابن اثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة(ابن حجر)۔

ـــــــــــــــــــــــــ


واقد بن عبدالله  رضی اللہ عنہ

سلسلۂ نسب

حضرت واقد بن عبدالله كے دادا كانام عبد مناف بن عرین  تھا۔زید مناة بن تمیم ان كے نویں جد تھے۔تمیمی ان كی نسبت تھی۔اپنے پانچویں جد یربوع بن حنظلہ كے تعلق سے یربو عی اور چھٹے جد حنظلہ بن مالك كی نسبت سے حنظلی بھی كہلاتے ہیں۔حضرت عمر كے والد خطاب بن نفیل كے واسطہ سے حضرت واقد قبیلہ بنو عدی بن كعب كے حلیف تھے۔

بیعت ایمان

حضرت  واقد بن عبد الله ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘ (التوبہ ۹:  ۱۰۰)میں سے تھے، آں حضور صلی  الله علیہ وسلم كے دارارقم منتقل ہونے سے پہلے ایمان  لائے۔ابن ہشام كی مرتبہ فہرست میں ان كا نمبرسینتالیسواں تھا۔

ہجرت مدینہ

آفتاب اسلام طلوع ہوئے  دس سے زیاده برس  گزر چكے تھے۔قریش مكہ كی طرف سے مزاحمت اور اذیت رسانی كا سلسلہ تھمنے كو نہ آیا۔ نبوت كے گیارھویں سال یثرب كے اوس وخزرج قبائل كے لوگ حج كرنے مكہ آئے تو نبی صلی الله علیہ وسلم كی دعوت پر چھ(یا آٹھ) خوش نصیبوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  كے دست مبارك پر بیعت  كی جو بیعت النساء كے نام سے مشہور ہوئی۔انصار کے السابقون الاولون نے الله واحد پر بلا  شركت غیرے ایمان لانے،نبی صلی  الله علیہ وسلم كی اطاعت كرنے ، چوری نہ كرنے،   زنا سے دور رہنے  اور اولاد كو قتل نہ كرنے کا عہد کیا۔ نبوت كے بارھویں سال انھی قبیلوں كے باره ا فراد ایمان لے آئے۔تیرھویں سال مزید بہتر (۷۲) افراد نے  بیعت ایمان كی اور  انھوں نےپیمان باندھا  كہ وه  رسول الله   صلی الله علیہ وسلم كی اس طرح حفاظت كریں گے جس طرح اپنی عورتوں اور اپنے بچوں كی حفاظت كرتے ہیں۔ انھی دنوں نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ كو مطلع فرمایا:مجھے تمھارا دار ہجرت دكھا دیا گیا ہے۔مجھے خواب میں كھجوروں والی  ایك زمین شور دكھائی دی ہے جو دو سیاه سنگلاخ بیابانوں كے بیچ واقع ہے(بخاری، رقم۲۲۹۷۔ السنن الكبریٰ،بیہقی، رقم ۱۷۵۱۵، ۱۸۱۹۳۔احمد، رقم ۲۵۶۲۶۔ مستدرك حاكم،ر قم ۴۲۶۲۔صحیح ابن خزیمہ، رقم ۲۶۵)۔ میرا خیال تھا كہ یہ یمامہ یا ہجر ہو گا، یہ تومدینہ یثرب ہے۔ الله نےمدینہ میں تمھارے بھائی بندبنا دیے اور اطمینان و سكون سے رہنے كے لیے گھر كا انتظام كر دیا ہے۔

نبی صلی الله علیہ وسلم حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت رافع بن مالك(ابن ام مكتوم )كو تبلیغ دین كے لیے انصار كے ساتھ روانہ كر چكے تھے۔ان كے بعد حضرت ابوسلمہ، حضرت عامر بن ربیعہ،حضرت بلال،حضرت سعد، حضرت عمار،حضرت عبدالله بن جحش، حضرت ابواحمد بن جحش اپنے پورے كنبے سمیت مدینہ پہنچے۔پھر بیس افراد پر  مشتمل حضرت عمر كا قافلہ سوے مدینہ چلا۔ بنو عدی كے حلیف حضرت واقد بن عبداللہ كے علاوه حضرت خنیس بن حذافہ، حضرت زید بن خطاب، حضرت سعید بن زید،حضرت عبداللہ بن سراقہ، حضرت عمرو بن سراقہ، حضرت عاقل بن بكیر، حضرت عامر بن بكیر، حضرت ایاس بن بكیر، حضرت خالد بن بكیر، حضرت خولی بن ابو خولی، حضرت مالك بن ابو خولی اور ان سب كے اہل خانہ اس قافلے کےشركا تھے۔

 حضرت واقد بن عبدالله قبا میں مقیم قبیلہ بنو عمرو بن عوف كے  حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر كے مہمان ہوئے۔

مواخات

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت بشر بن خالد بن البراء كو حضرت واقد بن عبدالله كا انصاری بھائی قرار دیا۔

حضرت عبدالله بن جحش كی مہم

اواخرجمادی الثانی ۲ھ(جنوری ۶۲۴ء) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جحش کی قیادت میں نو(باره: ابن سعد، ابن جوزی،شبلی نعمانی)  مہاجرین کی ایک مہم مكہ اور طائف كے درمیان واقع ابن عامر كے باغ نخلہ كی طرف روانہ كی۔حضرت واقد بن عبداللہ تمیمی،حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ، حضرت عکاشہ بن محصن، حضرت عتبہ بن غزوان، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت خالد بن بکیر اور حضرت سہیل بن بیضا حضرت عبدالله كے ساتھ تھے۔آپ نے قتال كا حكم نہ دیا اور ارشاد فرمایا: وہیں ٹھیرنا اور قریش کی آمد ورفت كی اطلاع ہم تك پہنچانا۔ بحران کے مقام پرحضرت عتبہ بن غزوان اور حضرت سعد کا مشترکہ اونٹ کھو گیا تو دو نوں اسے تلاش کرنے لگے۔اس اثنا میں حضرت ابن جحش باقی ساتھیوں کو لے کر نخلہ پہنچ گئے جہاں قریش كا ایك چارركنی قافلہ کشمش، کھالیں، شراب اور دوسرا سامان طائف سے لے كر آ رہا تھا(ابن سعد)۔ابن عبدالبر کہتے ہیں: قافلہ سامان تجارت لے کر عراق كی طرف جارہا تھا۔ حضرت واقد بن عبداللہ نے اپنا سر منڈا ركھا تھا جس سے مشركوں كو گمان ہوا كہ یہ عمره كر كےآ رہے ہیں۔ یہ جمادی الثانی کا آخری دن یا حرام مہینے رجب کی پہلی رات تھی۔ مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا، اگر قافلے والوں کو چھوڑ دیا تو یہ حرم پہنچ کر مامون ہو جائیں گے اور اگر قتال کیا تو یہ حرام مہینے میں ہوگا۔کچھ تردد کے بعد انھوں نے حملے کا فیصلہ کیا۔ مشرک کھانا پکانے میں مصروف تھے، حضرت واقد بن عبداللہ نے تیر پھینك کر قافلے کے سردار عمرو بن عبدالله حضرمی کو قتل کر دیااور عثمان بن عبداللہ اور حکم بن کیسان کو قید کرلیا۔ نوفل بن عبداللہ (ابن سعد، ابن كثیر)یا مغیره بن عبداللہ(ابن اثیر) فرار ہو گیا۔ مقتول عمر و بن حضرمی قریش كے ہاں معزز شمار ہوتا تھا، وه بنو امیہ كے سردارحرب بن امیہ كے حلیف عبدالله بن حضرمی كا بیٹا تھا، جب كہ قید كیا جانے والا  عثمان بن عبدالله ان كے دوسرے سردار مغیره بن عبدالله مخزومی كا پوتا تھا۔ابن كیسان ہشام بن مغیره كا غلام تھا۔

ہجرت مدینہ کے بعد یہ پہلا سریہ تھا جس میں کامیابی ملی،عمرو عہد اسلامی کا پہلا قتیل اورعثمان اور حکم پہلے اسیر تھے۔ حضرت واقد بن عبدالله پہلے مسلمان بن گئے جس نے كسی مشرك كو جہنم واصل كیا۔ ابن کیسان حضرت مقداد بن عمرو(ابن جوزی)کی قید میں تھا، حضرت ابن جحش نے اسے قتل کرنا چاہا، لیکن حضرت مقداد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہونے سے پہلے ایسا کرنے سے انكارکر دیا۔ حضرت عبداللہ بن جحش نے تاریخ اسلامی میں حاصل ہونے والے پہلے مال غنیمت کی اپنے تئیں تقسیم کر کے ۵/۱ حصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رکھ لیا، حالاں کہ خمس کا حکم نازل نہ ہوا تھا۔

اہل سریہ مدینہ پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے تمھیں ماہ حرام،رجب میں جنگ کرنے کو نہیں کہا تھا۔آپ نے مال غنیمت اور اسیروں کے معاملے میں توقف کیا تو صحابۂ کرام  پشیمان ہو گئے كہb شاید وہ ہلاکت میں پڑ گئے۔مسلمان بھائیوں نے بھی خوب ملامت كی، ادھر قریش نےنبی صلی الله علیہ وسلم كو پیغام بھیجا كہ آپ حرام مہینوں كی تعظیم كرتے ہیں اور ان میں قتال جائز نہیں سمجھتے۔آپ كے صحابی نے ہمارا آدمی كیوں مار ڈالا؟ چہ میگوئیاں بڑھ گئیں توارشاد ربانی نازل ہوا:

يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِﵧ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌﵧ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌۣ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِﵯ وَاِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِﵐ وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ. (البقرہ۲: ۲۱۷)
 ’’ آپ سے ماہ حرام میں قتال کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔کہہ دیجیے،اس مہینے میں جنگ کرنا بہت برا ہے (اس کے ساتھ ساتھ) لوگوں کواللہ کی راہ سے روکنا،اللہ کو نہ ماننا، مسجد حرام کا راستہ بند کرنا اور حرم کے رہنے وا لوں کو نکال باہر کرنااللہ کے ہاں اس سے بھی بد تر ہے اور فتنہ وفساد قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔‘‘

اس حکم وحی کے بعد آپ نے مال غنیمت اور قیدیوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ حضرت عتبہ  اور حضرت سعد صحیح سلامت واپس آگئے تو آپ نے سولہ سو دینار فدیہ لے کر قریش کے اسیروں عثمان اور حکم کو چھوڑ دیا۔ حکم بن کیسان نے رہائی کے فوراً بعد آپ کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا۔عثمان مكہ لوٹ گیا اور آخری دم تك مسلمان نہ ہوا۔

 الله كی طرف سے حضرت عبدالله بن جحش اور ان كے ساتھیوں كی براء ت نازل ہوگئی تو انھوں نے عرض كیا: یا رسول الله، ہم چاہتے ہیں كہ یہ مہم غزوه شمار ہو اور ہمیں جہاد كا اجر مل جائے۔تب الله كی طرف سے یہ فرمان آیا:

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِﶈ اُولٰٓئِكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِﵧ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ. (البقره۲: ۲۱۸)
’’بے شك، جو لوگ دل سے ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت كی اور الله كی راه میں جہاد كیا، وہی الله كی رحمت كی امید ركھ سكتے ہیں۔الله ان كی لغزشوں كو معاف فرمانے والا اور ان كو اپنی رحمت سے نوازنے والا ہے۔‘‘

سریہ عبداللہ بن جحش جنگ بدر کے وقوع کا سبب بنا، کیونکہ اس سے قریش کی معیشت کو سخت دھچکا لگا اور وه آمادہ بہ جنگ ہو گئے۔ شام سے تجارت پران کی خوش حالی كا انحصار تھا،حبشہ اور یمن سے تجارت کا حجم بہت كم تھا۔ مدینہ كے یہودیوں نے عمر و بن حضرمی اور حضرت واقد كے ناموں سے جنگ بدر كی فال یوں نكالی: ’عمرو عمرت الحرب، واقد وقدت الحرب‘ (عمروبن حضرمی : جنگ كی خانہ آبادی ہوئی، واقد: جنگ كا بازار گرم ہوا)۔ اس مہم کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ قریش پر مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت کا رعب بیٹھ گیا۔بنو یربوع اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ان کے قبیلے کا فرد پہلا مسلمان تھا جس نے کسی مشرک کو قتل کیا۔ حضرت عمر نے اپنے حلیف حضرت واقد  كی مدح میں یہ شعر كہا۔مشہور روایت یہی ہے، تاہم ابن اسحاق نے اسے حضرت ابوبكر اور ابن ہشام نے حضرت عبدالله بن جحش كی طرف منسوب كیا ہے:

سقینا من ابن الحضرمي رماحنا

بنخلة لما أوقد الحرب واقد

’’ہم نے نخلہ كے مقام پرجب واقد نے جنگ كی آگ بھڑكائی،اپنے نیزوں كو ابن حضرمی كے خون سے سیر كیا۔‘‘

دیگرغزوات

حضرت واقد بن عبدالله نے جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق اور تمام غزوات میں حصہ لیا۔

عہد فاروقی: جنگ جسر

شعبان ۱۳ھ : خلیفۂ دوم حضرت عمر نے زمام خلافت سنبھالتے ہی حضرت i ابو عبید ثقفی  کواپنی پہلی تشكیل كر ده فوج كا سپہ سالار مقرر كیااور انھیں ایران كے محاذ پر روانہ كیا۔ان سے كہا گیا :آپ نے كسی بڑے صحابی كو مقرر كیوں نہیں كیا؟انھوں نے جواب دیا:ابو عبید نے سب سے پہلے یہ ذمہ داری اٹھانا منظور كیا۔ حضرت واقد بن عبدالله اس فوج كا حصہ تھے۔حضرت ابوعبید نے معركوں كے ایك سلسلے میں اسلامی فوج كی قیادت كی۔ انھوں نے 8؍شعبان کو جنگ نمارق،12 ؍شعبان کو جنگ سقاطیہ اور ۱۷؍شعبان کو باقسیاثاکے معرکے میں فتوحات حاصل كیں۔

۲۳ ؍شعبان کو معرکۂ جسرq (Battle of the Bridge) پیش آیا۔دس ہزاركی اسلامی فوج كامقابلہ ایك بڑے ایرانی لشکر سے تھا جس کی سالاری بہمن جاذویہ کے پاس تھی۔ نیک شگون کے لیے ایرانی کمانڈر ان چیف رستم نے فریدون کا علم درفش کاویان ساتھ بھیجا تھا۔دونوں فوجوں کے بیچ دریاے فرات حائل تھا۔ایرانی کمانڈر نے اختیار(choice)دیا کہ مسلمان چاہیں تو وہ پل کے ذریعے سے دریا عبور کر کے مقابلے پر آ جاتے ہیں۔حضرت ابوعبید کے سپاہیوں نے بھی ایرانیوں کو اپنی طرف بلانے کا مشورہ دیا، لیکن وہ بولے: موت کا سامنا کرنے میں ایرانی مسلمانوں سے زیادہ دلیر نہیں۔ یہی ان کی غلطی تھی۔جیش اسلامی نے دریائے فرات کا پل تو پار کر لیا، لیکن دوسرا کنارہ ان کے لیے ناموافق نکلا۔ایک تنگ میدان میں گھمسان کارن پڑا۔مسلمانوں کے گھوڑے ہاتھیوں اور ان كی گھنٹیوں سے بدکنے لگے توحضرت ابوعبید نے ہاتھیوں کو ختم کرنے کا حکم دیا۔خود انھوں نے ایک بڑے سفید ہاتھی کی سونڈ اور ٹانگیں کاٹ ڈالیں۔پھر خود ایك ہاتھی تلے آ كر  شہید ہوئے، ان کے نامزد کردہ تمام جانشین بھی شہادت سے سرفراز ہوئے۔چھ ہزار ایرانیوں کو قتل کرنے کےباوجود اسلامی فوج کی گرفت کم زور پڑ گئی اور سپاہیوں کو پشت پھیر کر بھاگنا پڑا۔ایرانیوں نےفرار ہوتے ہوئے مسلمانوں کا پیچھا کیا اور کئی سپاہیوں  کو قتل کر دیا۔ جو مسلمان دریا کے پل تک پہنچے، ان میں سے کچھ تو دریا پار کر گئے، کچھ ایرانی تیروں کا نشانہ بن گئے۔باقی کسر پل ٹوٹنے سے نکل گئی، بے شمار  مسلمان دریا میں غرق ہو گئے۔حضرت واقد بن عبدالله شہدا میں شامل تھے۔ پل کے اس سانحے کی وجہ سے اس معرکہ کو’’معرکۂ جسر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔آخرکار حضرت مثنیٰ بن حارثہ نے بچے كھچے دو ہزار سپاہیوں کی قیادت سنبھالی اور ان كو واپس لے آئے۔شکست کی خبر مدینہ منورہ پہنچی تو اس وقت حضرت عمر منبر پر خطاب كر رہے تھے، زورزور سے رونے لگے اور كہا:اللہ ابو عبید پررحم كرے، اگر جنگ نہیں کر سکتا تھا تو پیچھے ہٹ جاتا۔ ہم دوسرا لشکر بھیج دیتے۔ جنگ سے بھاگنے والے بھی روتے روتے مدینہ پہنچے۔یہ شکست مسلمانوں کے لیے عار تھی، وہ جنگ سے فرار ہونے كے عادی نہ تھے۔حضرت عمر انھیں تسلی دیتے اور کہتے:اسے فرار نہ سمجھو، میں ضرور تمھیں دوسرے محاذ پر  بھیجوں گا۔

وفات

جیسا كہ بیان كیا گیا،حضرت واقد بن عبدالله نے ۲۳؍ شعبان ۱۳ھ كو جنگ جسر میں جام شہادت نوش كیا۔

اولاد

حضرت واقد بن عبدالله كی كوئی اولاد نہ ہوئی۔حضرت واقد بن عبد الله كی سیرت سے متاثر ہو كر، اس كی بركت حاصل كرنے كے لیے حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنے ایك بیٹے كا نام واقد بن عبدالله ركھ لیا۔دوسرےبیٹے کا حضرت ابوحذیفہ کےآزاد کردہ حضرت سالم کےنام پر سالم بن عبداللہ رکھا۔

روایت حدیث

حضرت واقد بن عبدالله سے كوئی حدیث روایت نہیں ہوئی۔

مطالعہ مزید: السیرة النبویۃ(ابن ہشام)،الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)،المنتظم فی تواریخ الملوك والامم (ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابة فی معرفة الصحابة(ابن اثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)، البدایۃ والنہایۃ(ابن كثیر)،السیرة النبویۃ(ابن كثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة (ابن حجر)، سیرت النبی (شبلی نعمانی)،محمد رسول الله (محمد رضا)۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B