HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

البیان : خصائص وامتیازات (۹)

۳۔جز سے مراد کل

كَلَّاﵧ لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ. (العلق۹۶: ۱۹)
’’ہرگز نہیں ، تم اِس کی بات پر ہرگز دھیان نہ دو اور سجدہ ریز رہو اور اِس طرح میرے قریب ہو جاؤ۔‘‘

وَاسْجُدْ ‘میں سجدے کا حکم دیا گیا ہے جو نماز کی عبادت کا ایک جز ہے، لیکن اس سے مراد اُس کا کل، یعنی نماز ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں حضور کو قریش کے اُس سردار کی بات پر دھیان نہ کرتے ہوئے ’وَاسْجُدْ ‘ کا حکم دیا گیا ہے جو آیت۹ اور۱۰ کے مطابق آپ کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے۔ البیان کے ترجمہ میں عربی کی طرح اصل مدعا کی تعبیر کے لیے سجدے کے لفظ کو کافی سمجھا گیا ہے ،البتہ تفسیری نوٹ میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے۔

۴۔کل سے مرادجز

قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ. (ہود۱۱: ۶۹ )
’’ابراہیم نے جواب دیا: تم پر بھی سلامتی ہو۔ پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیم بھنا ہوا بچھڑا (اُن کی ضیافت کے لیے)لے آیا۔‘‘

سیدنا ابراہیم کے پاس فرشتے خوش خبری لے کر پہنچے تو سلام دعا کے بعد زیادہ دیرنہیں گزری کہ ’جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ‘ (وہ ان کے سامنے بھنا ہوا بچھڑا لے آئے)۔ یہاں ’عِجْل‘ کا لفظ لایا  گیا ہے جو کہ کل ہے، مگر اِس سے مراد اُس  کا ایک جز لیا گیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ انھوں نے مہمانوں کے سامنے اُس کے گوشت کا کچھ حصہ ہی پیش کیا ہوگا، مگر اُن کی مہمان نوازی اور فیاض طبیعت کو نمایاں کرنے کے لیے خدا نے جز کا ذکر کرنے کے بجاے  کل، یعنی بچھڑے کا ذکر فرمایا ہے۔ البیان کے حواشی میں اس اسلوب کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے۔

ذیل کی یہ آیتیں بھی اس اسلوب کی اچھی مثال ہیں ۔اول الذکرمیں انگلیوں کے لفظ سے مراداُس کے پورہیں اورثانی الذکرمیں پہاڑسے مراداس کاایک حصہ ہے:

يَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِيْ٘ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ. (البقرہ۲: ۱۹)
’’وہ موت کے ڈر سے کڑک کے مارے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونسے لے رہے ہیں۔‘‘
فَلَمَّا تَجَلّٰي رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّخَرَّ مُوْسٰي صَعِقًا.(الاعراف۷: ۱۴۳)
’’ پھر جب اُس کے پروردگار نے پہاڑ پر تجلی کی تو اُس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔‘‘

۵۔لازم سے مراد ملزوم

وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا٘ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ. (حٰم السجدہ۴۱: ۲۲)
’’تم یہ اندیشہ نہیں رکھتے تھے کہ تمھارے کان اور تمھاری آنکھیں اور تمھارے جسموں کے رونگٹے تمھارے خلاف گواہی دیں گے۔‘‘

دیگر تراجم میں بالعموم اس اسلوب کا ادراک نہیں ہو پایا، چنانچہ ’تَسْتَتِرُوْنَ ‘ کا ترجمہ اس کے حقیقی معنی کے لحاظ سے ’’چھپنا‘‘ کر دیا گیا ہے، مگر دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں بعض ترجموں میں اِبہام  اور بعض میں ایک طرح کا داخلی تضاد پیدا ہو گیا ہے۔ یہاں اصل میں لازم، یعنی چھپنا بول کر اُس  کا ملزوم ،یعنی ڈرنا مراد لیا گیا ہے، اس لیے کہ جو شخص ڈرتا ہے ،وہ لازمی نتیجے کے طور پر چھپنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ البیان میں اسی اسلوب کی رعایت ہے کہ ترجمے میں ’’ اندیشہ‘‘ کا لفظ لایا گیا ہے۔

۶۔ملزوم سے مراد لازم

وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ.(الکہف۱۸: ۵۴)
’’ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کی رہنمائی کے لیے ہر قسم کی تنبیہات طرح طرح سے بیان کر دی ہیں ۔‘‘

اس آیت میں اوپر کی مثال کے برخلاف یہ ہوا ہے کہ ملزوم بول کر لازم مراد لیا گیا ہے۔ مثل کا مطلب تو مثال ہی ہے ،مگر یہاں اِس سے اصل میں اُس  کا لازم ،یعنی تنبیہ مراد ہے کہ مثال اِس لیے بھی سنائی جاتی ہے کہ اس کے لازمی نتیجے کے طور پر لوگوں کو تنبیہ حاصل ہو۔ سو یہی  وجہ ہے کہ البیان میں ’مِنْ كُلِّ مَثَلٍ ‘                           کا ترجمہ ’’ہر قسم کی تنبیہات ‘‘کیا گیا ہے۔

اس آیت میں بھی اس کی ایک اچھی مثال ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ.(الاعراف۷: ۴۰)
’’یہ قطعی ہے کہ جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور تکبر کر کے ان سے منہ موڑا ہے، اُن کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔‘‘

مستکبرین کے لیے فرمایا ہے کہ اُن کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دروازوں کو کھولنے کی نفی کرنے کے بجاے  اُس کے لازم کی نفی کرنا مقصود ہے ،یعنی بتایا گیاہے کہ وہاں ان لوگوں کا ہرگز استقبال نہیں ہو گا کہ اس کے لیے دروازوں کو اہتمام سے کھولا جائے۔

۷۔ظرف سے مراد مظروف

كَلَّا لَئِنْ لَّمْ يَنْتَهِﵿ لَنَسْفَعًاۣ بِالنَّاصِيَةِ. نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ. فَلْيَدْعُ نَادِيَهٗ. سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ. (العلق۹۶: ١٥-١٨)
’’(یہ کچھ نہیں )، ہرگز نہیں ۔ اگر یہ باز نہ آیا تو ہم اِس کی چوٹی پکڑ کر گھسیٹیں گے، جھوٹی نابکار  چوٹی! پھر وہ بلا لے اپنے ہم نشیں ، ہم اپنے سرہنگ بلاتے ہیں ۔‘‘

نَادِي‘ کا مطلب مجلس ہے، مگر یہاں اُس مجلس کے لوگ مرادہیں ۔گویا ظرف بول کر اُس کا مظروف، یعنی اُس مجلس میں بیٹھنے والے لوگ مراد لیے ہیں کہ ’فَلْيَدْعُ نَادِيَهٗ ‘کے مطابق خدا نے اُنھیں ہی بلا لانے کا چیلنج دیا ہے ۔البیان میں یہی وجہ ہے کہ اس لفظ کا ترجمہ ’’ہم نشیں‘‘ کیا گیا ہے۔

۸۔مضارع سے مراد امر

قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِيْنَ دَاَبًاﵐ فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِيْ سُنْۣبُلِهٖ٘ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ. (یوسف۱۲: ۴۷)
’’یوسف نے کہا: سات برس تک تم برابر کھیتی کرو گے، لہٰذا جو فصل تم کاٹو، اُس میں سے تھوڑا سا نکال کر جو تم کھاؤ گے، باقی سب اُس کی بالیوں میں چھوڑ دو۔‘‘

تَزْرَعُوْنَ ‘مضارع ہے اور اس سے مراد کوئی خبر دینانہیں ،بلکہ حکم دینا ہے اور اس پر عطف ہونے والے ’فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ‘ میں آنے والے امر کے صیغے نے تو اسے بالکل کھول کر بیان کر دیا ہے۔ یہ اسلوب چونکہ اردومیں بھی عام طور پر رائج ہے ،اس لیے البیان میں اُسے ہی اختیار کر لیا گیا اور الگ سے وضاحت کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

۹۔مضارع سے مراد نہی

وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ. (البقرہ۲: ۸۴)
’’اور یاد کرو، جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں خون نہ بہاؤ گے اور اپنے لوگوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالو گے۔‘‘

لَا تَسْفِكُوْنَ‘ مضارع نفی کا صیغہ ہے ،مگر اس آیت میں اس سے مراد نفی کی کوئی خبر دینا نہیں، بلکہ نہی  کو بیان کرنا ہے کہ یہاں میثاق کا لفظ خود اس بات کا تقاضا کر رہا ہے۔

یہ آیت بھی اس اسلوب کی ایک اچھی مثال ہے:

اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةًﵟ وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا٘ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ.  (النور۲۴ :۳)
’’(اس سزاکے بعد)یہ زانی کسی زانیہ یا مشرکہ ہی سے نکاح کرے گا اور اِس زانیہ کو بھی کوئی زانی یا مشرک ہی اپنے نکاح میں لائے گا۔‘‘

يَنْكِحُ‘ مضارع ہے ،مگر اس آیت میں دونوں جگہ اس سے مراد مستقبل میں نکاح کی نفی نہیں، بلکہ اُس کی نہی کرنا ہے کہ یہ جملہ اصل میں پچھلی آیت میں دی جانے والی سزا کا شاخسانہ  ہے۔ البیان میں اس پہلو کو نمایاں کرنے کے لیے قوسین کے اندر یہ الفاظ لکھ دیے گئے ہیں: ’’اس سزا کے بعد‘‘، اور یہ معاملہ کہ یہاں مضارع سے مرادنہی ہے ،اس کی وضاحت تفسیری نوٹ میں بہ خوبی  کر دی گئی ہے۔

۱۰۔لفظ سے مراد نتیجہ

ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْﵧ هٰذَا الَّذِيْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ. (الذاریات۵۱: ۱۴)
’’اب چکھو، اپنے اُس فتنے کا مزہ جس میں تم مبتلا رہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچائے ہوئے تھے۔‘‘

اس آیت میں آخرت سے بے پروا ہو جانے والوں کا انجام بیان ہوا ہے کہ اُس دن کہا جائے  گا: ’ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْ ‘۔یہاں ’فِتْنَة‘ سے مراد اصل میں اُس  کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ البیان میں اس کے لیے ’’فتنے کامزہ ‘‘کے الفاظ لائے گئے ہیں ۔

۱۱۔ذریعہ سے مراد اُس  کا حاصل

وَاجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ.(الشعراء۲۶: ۸۴)
’’اور بعد کے آنے والوں میں میرا ذکرخیر جاری رکھ۔‘‘

اس آیت میں ’لِسَان‘سے مراد وہ زبان نہیں ہے جو بولنے کا ایک آلہ ہے۔ اس سے مراد اصل میں اس زبان کے ذریعے سے حاصل ہونے والا ذکر ہے۔ سو یہی وجہ ہے کہ البیان میں حضرت ابراہیم کی دعامیں آنے والے ’لِسَانَ صِدْقٍ ‘   کا ترجمہ ’’ذکر خیر‘‘ کیا گیا ہے۔[32]

کنایہ

کنایہ بھی مجاز کی ایک قسم ہے۔ اس میں بیان ہونے والی بات ایک واقعہ ہوتی ہے ،مگر اس کے باوجود اُس سے مقصود کسی اور بات کا ابلاغ ہوتا ہے:

۱۔تلویح

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ. وَثَمُوْدُ وَقَوْمُ لُوْطٍ وَّاَصْحٰبُ لْـَٔيْكَةِﵧ اُولٰٓئِكَ الْاَحْزَابُ. (ص۳۸: ۱۲ -۱۳)
’’اِن سے پہلے نوح کی قوم اور عاد اور میخوں والا فرعون اور ثمود اور قوم لوط اور ایکہ والے بھی جھٹلا چکے ہیں۔ یہ گروہ تھے جنھوں نے اِسی طرح شکست کھائی۔‘‘

تلویح میں استدلال کے کئی مدارج طے کرنے کے بعد یہ جانا جاتا ہے کہ مذکور ہ بات سے مقصود اُس  کا کوئی لازم ہے۔’الْاَوْتَاد ‘ کا مطلب میخیں ہے ،مگر آیت کے سیاق میں اس سے مراد خیمے ہیں ۔ یہی خیمے تھے جن میں فرعون کی فوجیں مستقل طور پر قیام کرتی تھیں ،اس لیے اِن  خیموں سے اُس کی افواج اور اُن کی کثرت کو کنایہ کر لیا گیا ہے۔ البیان کے حواشی میں اس کنایے کی اچھی طرح سے وضاحت کر دی گئی ہے۔

۲۔رمز

يَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا يَشَآءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَتَمَاثِيْلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِيٰتٍ.(سبا۳۴: ۱۳)
’’وہ اُس کے لیے جو وہ چاہتا تھا، بناتے تھے: محرابیں ،مجسمے، بڑے بڑے حوض جیسے لگن اور پہاڑجیسی(چولھوں پر)جمی ہوئی دیگیں ۔‘‘

رمز میں مذکور بات اور اُس کے مقصود کے درمیان میں کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ عربی زبان میں جب کسی شخص کے بارے میں کہا جائے کہ وہ ’قُدُوْرٍ رّٰسِيٰتٍ ‘ رکھتا ہے تو محض اس بات سے اُس کی سخاوت اور فیاضی کا ایک اچھا بیان ہو جائے  گا۔ یہاں ان الفاظ سے سلیمان علیہ السلام کے جود و کرم  پر کنایہ کیا گیا ہے، اور البیان میں اس پر ایک وضاحتی نوٹ لکھ دیا گیا ہے۔

اس کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ مذکور بات میں موجود نفی سے اُس کے ملزوم کی نفی مقصود ہوتی ہے:

فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيْنَ.(المدثر۷۴: ۴۸)
’’تب اِن کے شفاعت کرنے والوں کی شفاعت اِن کے کچھ کام نہ آئے گی۔‘‘

مجرمین کے بارے میں فرمایا ہے کہ اُنھیں آخرت میں کسی شافع کی شفاعت کچھ فائدہ نہ دے گی۔ یہ اگرچہ ایک حقیقت کا بیان ہے، مگر اس بات سے مقصود اصل میں ملزوم کی نفی کرنا ہے ،یعنی یہ بتانا ہے کہ اُن کے لیے سرے سے وہاں کوئی شافع موجود ہی نہ ہو گا۔

۳۔تعریض

وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۣ بِمَا يَعْمَلُوْنَ. (البقرہ۲: ۹۶)
’’اور(اِس میں شبہ نہیں کہ)جو کچھ یہ کرتے ہیں ،اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔‘‘

تعریض میں مذکور بات سے مقصود کوئی اور بات ہوتی ہے ،مگر وہ بات اِس  کا لازم نہیں، بلکہ کلام میں موجود کسی قرینے کا تقاضا ہوتی ہے۔ یہود کے جرائم اور دنیوی زندگی پر اُن کے حرص کو بیان کرنے کے بعد  فرمایا ہے کہ جو کچھ یہ کرتے ہیں ،اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔ خدا کا دیکھنا ایک حقیقت ہے ،مگر اس کو بیان کرنے کے پیش نظر یہاں اصل میں یہ بتانا ہے کہ وہ چونکہ دیکھ رہا ہے ،اس لیے اُنھیں لازمی طور پر اُن کے جرائم کی سزا بھی دے گا۔ سزا دینا دیکھنے کے عمل کا کوئی لازمہ نہیں ہے ،مگر  کلام میں موجود قرائن بہرحال اسی بات کا تقاضا کر رہے ہیں ۔

دیگر اسالیب

اس بحث کے آخرمیں ہم بعض اُن اسالیب کو بھی بیان کیے دیتے ہیں جو اگرچہ مجازات کے تحت نہیں آتے، مگر وہ بلاغت کے ذیل میں بیان ہوتے اور ترجمہ کے کام میں اچھی خاصی اہمیت رکھتے ہیں :

۱۔نفی میں مبالغہ

عربی زبان میں جب مبالغے  پر نفی آ جائے  تو اس سے نفی میں مبالغے   کامضمون پیدا ہو جاتا ہے:

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْكُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ. (آل عمران۳: ۱۸۲)
’’یہ اُسی کا بدلہ ہے جو تم نے اپنے ہاتھوں آگے بھیجا تھا اور یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے۔‘‘

ظَلَّام‘ جو فعّال  کا وزن ہے اور مبالغہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یہاں اس پر حرف نفی آگیا ہے۔ عام طور پر مترجمین اس اسلوب سے واقف نہیں ہیں ،اس لیے اس کا ترجمہ ’ليس بظالم ‘، یعنی’’وہ ظالم نہیں ہے‘‘ کرتے ہیں ۔ان کے برخلاف، البیان میں اس اسلوب کی رعایت سے ’مبالغة في النفي‘ کو اس طرح ادا کیا گیا ہے: ’’ذرا بھی ظلم کرنے والانہیں ہے۔‘‘

۲۔’ماكان‘                            کا اسلوب

’ماكان‘   کا اسلوب کسی پر بیان الزام کے لیے بھی آتا ہے اور اس کے بالکل برعکس، رفع الزام کے لیے بھی:

اُولٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْهَا٘ اِلَّا خَآئِفِيْنَﵾ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ.(البقرہ۲: ۱۱۴)
’’اِن کے لیے اِس کے سوا کچھ زیبا نہ تھا کہ اِن(معبدوں )میں جائیں تو اللہ سے ڈرتے ہوئے جائیں ۔(لیکن اِنھوں نے سرکشی اختیار کی تو اب) اِن کے لیے دنیا میں بھی ذلت ہے اور قیامت میں بھی ایک بڑا عذاب اِن  کا منتظر ہے۔‘‘

اہل کتاب کو پیغمبروں کے ذریعے سے ہدایت دی گئی تھی، مگر وہ خدا کے گھروں کو ویران کرنے کے درپے ہوئے، ان کے بارے میں فرمایا ہے :’مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْهَا٘ اِلَّا خَآئِفِيْنَ ‘۔بہ خوبی جان لیا جا سکتا ہے کہ یہاں ’ مَا كَانَ‘ کا اسلوب بیانِ الزام کے لیے آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ترجمہ میں اسے یوں ادا کیا گیا ہے: ’’ان کے لیے اس کے سوا کچھ زیبا نہ تھا۔‘‘

رفعِ الزام کی مثال میں یہ آیت دیکھ لی جانی چاہیے:

وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّغُلَّﵧ وَمَنْ يَّغْلُلْ يَاْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِﵐ ثُمَّ تُوَفّٰي كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ.(آل عمران۳: ۱۶۱)
’’(یہ سمجھتے ہیں کہ اِس جنگ کے لیے باہر نکل کر پیغمبر نے اِن سے بدخواہی کی ہے۔ ہرگز نہیں)،  یہ کسی پیغمبر کے شایان شان ہی نہیں کہ بدخواہی کرے اور (اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جو کوئی بد خواہی کرے گا، قیامت کے دن وہ اپنی اِس بدخواہی کے ساتھ ہی حاضر ہوگا۔ پھر ہر شخص کو اُس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور اُن پر کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی ۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگایا گیا کہ اُنھوں نے شہر میں رہ کر دفاع کرنے کے بجاے  اُحد کے میدان میں لڑائی کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح اپنی قوم سے بدخواہی  کا معاملہ کیا ہے۔ قرآن نے اس الزام کو دور کرنے کے لیے فرمایا:’وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّغُلَّ ‘۔ البیان میں اس اسلوب کو یوں نمایاں کیا ہے کہ قوسین کے اندر منافقین کا الزام اور اس کا رد کیا گیا اور ترجمہ میں ان الفاظ کو لایا گیا ہے: ’’یہ کسی پیغمبر کے شایان شان ہی نہیں کہ بدخواہی کرے۔‘‘

ذیل کی آیت اس اعتبار سے بڑی اہم ہے کہ اس میں ’مَا كَانَ ‘ کے اسلوب کو رفع الزام کے بجاے بیان الزام کا قرار دے دیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں نہایت سنجیدہ سوالات اس کے بارے میں پیدا ہوگئے ہیں :

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ٘ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ.(الانفال۸: ۶۷)
’’(اِنھیں اعتراض ہے کہ تم لوگوں نے یہ سب خون ریزی قیدی پکڑ کر اُن سے فدیہ لینے کے لیے کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ) کسی پیغمبر کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اُس کو قیدی ہاتھ آئیں، یہاں تک کہ (اِس کے لیے) وہ ملک میں خون ریزی برپا کر دے۔‘‘

البیان میں اس ’مَا كَانَ‘کو رفع الزام کا قرار دیا گیا ہے اور دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ  اس طرح  یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ  وسلم  پرکسی قسم کا کوئی الزام نہیں ،بلکہ اُن پر لگائے  گئے الزامات کی ایک کامل تردید ہو جاتی ہے۔

۳۔نفیِ جواز

عربی زبان میں لاے نفی جنس جس طرح وقوع اور اِمکان کی نفی کے لیے آتاہے، اسی طرح  جواز کی نفی کے لیے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے:

فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَاﵧ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ. (الروم۳۰:۳۰)
’’تم اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کی پیروی کرو، (اے پیغمبر)، جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی اِس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔‘‘

لَا تَبْدِيْلَ‘     کا یہاں مطلب، ظاہر ہے کہ یہ ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ خدا کی بنائی ہوئی فطرت تبدیل نہیں ہوتی یا تبدیل نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ یہ واقعہ کے بالکل خلاف ہے۔ بلکہ یہ نفی جواز کے لیے ہے اور اس کا مطلب ہے کہ اس فطرت کو تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔ البیان کے ترجمہ میں ’’تبدیلی نہیں ہوسکتی‘‘اصل میں اسی پہلو کو بیان کر رہا ہے اور اس کے تفسیری نوٹ میں اس کے متعلق مزید وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔

۴۔لاے  نہی  کا اعادہ

بعض اوقات ایک بات پر لاے نہی  لا کر دوسری بات کو اس  پر عطف  تو کر دیا جاتا ہے، مگر  اس کے بعد لاے نہی کا اعادہ نہیں کیا جاتا۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ یہ دونوں باتیں اصل میں ایک ہی حقیقت کو ظاہر کر رہی ہوتی ہیں اور دوسری کی حیثیت پہلی کی وضاحت اور اُس کے مقصد کو بیان کرنے کی ہوتی ہے:

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ. (البقرہ۲: ۴۲)
’’اور حق کو باطل سے نہ ملاؤ، (یہ حق کو چھپانے کی کوشش ہے) اور جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش نہ کرو۔‘‘

وَتَكْتُمُوْا‘ اصل میں ’لَا تَلْبِسُوْا ‘پر عطف ہوا ہے، مگر اس پر لاے نہی کا اعادہ نہیں ہوا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حق و باطل کو آپس میں ملانے سے مقصود اصل میں حق بات کو چھپانے کی کوشش کرنا ہے۔ البیان میں قوسین کے اندر چند الفاظ لا کراس اسلوب کو اچھی طرح واضح کر   دیا گیا ہے۔

_______

 

باب چہارم

 

توضیحات

     

قرآن کے ترجمے میں جس طرح ضروری ہوتا ہے کہ لفظ کا معنی اور اس کی مراد بتائی جائے،  اسی طرح یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ جہاں مناسب ہو کچھ وضاحتیں بھی کر دی جائیں۔ یہ وضاحتیں اپنی نوعیت میں اس طرح کی بھی ہوتی ہیں کہ اگر انھیں بیان نہ کیا جائے  تو عام قاری کے لیے اصل مدعا تک پہنچنا ذرا مشکل ہو جائے۔ البیان میں یہ توضیحات جن اغراض کے پیش نظر کی گئی ہیں ،ہم اُن میں سے چند ایک کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں:[33]

۱۔تمہید اٹھانا

کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ اردو ترجمے میں کوئی بات یہ تقاضا کر  رہی ہوتی ہے کہ اُسے توضیح کے طور پر  ایک تمہید فراہم کی جائے :

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰي وَالْبَصِيْرُﵧ اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ. (الانعام۶ :۵۰)
’’کہہ دو، (میرا سوال صرف یہ ہے)، کیا اندھے اور دیکھنے والے، دونوں یکساں ہو جائیں گے؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟‘‘

منکرین کے بے جا مطالبات کے جواب میں فرمایا ہے کہ آپ کہہ دیں ،میں یہ دعویٰ نہیں کر رہا کہ میں کوئی فرشتہ یا غیب کو جاننے والا یا خدا کے خزانوں کا کوئی مالک ہوں ،بلکہ میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ مجھ پر جو وحی اتر رہی ہے ،میں اُس کی اتباع کر رہا ہوں ۔اس کے بعد فرمایا ہے: ’قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰي وَالْبَصِيْرُ ‘۔ان سے کہہ دیجیے کیا اندھے اور دیکھنے والے دونوں یکساں ہو جائیں گے؟ ان دو باتوں کو ملا کر پڑھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ اردو ترجمے میں دوسری بات کو ایک تمہید چاہیے۔ سو البیان میں قوسین کے اندراس تمہیدکی وضاحت کر دی گئی ہے: ’’کہہ دو، (میرا سوال صرف یہ ہے)۔‘‘

۲۔تکمیل کرنا

تمہید کی طرح بعض اوقات یہ بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ترجمہ میں کسی بات کی تکمیل بھی بیان کر دی جائے:

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ. وَثَمُوْدُ وَقَوْمُ لُوْطٍ وَّاَصْحٰبُ لْـَٔيْكَةِﵧ اُولٰٓئِكَ الْاَحْزَابُ.(ص۳۸: ۱۲ -۱۳)

’’اِن سے پہلے نوح کی قوم اور عاد اور میخوں والا فرعون اور ثمود اور قوم لوط اور ایکہ والے بھی جھٹلا چکے ہیں۔ یہ گروہ تھے جنھوں نے اِسی طرح شکست کھائی۔‘‘

پچھلی آیت میں فرمایا ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا لشکر بھی ہو، وہ ضرور شکست کھا کر رہے گا۔ اس کے بعد ماضی کی بعض اقوام کا ذکر کرتے ہوئے  فرمایا ہے:’اُولٰٓئِكَ الْاَحْزَابُ ‘۔یہ وہی گروہ ہیں ۔دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ اس جملے کو اگر تکمیل کا رنگ دے دیا جائے، جیسا کہ البیان میں دیا گیا ہے: ’’یہ گروہ تھے جنھوں نے اِسی طرح شکست کھائی‘‘ تو بات کافی حد تک واضح ہوجاتی ہے۔

۳۔خلاپوراکرنا

بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ ترجمے میں کہیں خلا سا محسوس ہوتا ہے۔ اس خلا کو ہر وہ شخص بھر سکتا ہے جو ذہانت کے ساتھ ساتھ عربی زبان کا اچھا ذوق بھی رکھتا ہو۔ عام قارئین کے لیے بہرحال ضروری ہوتا ہے کہ ترجمے میں کچھ توضیحات لا کراس طرح کے خلا کو بھر دیا جائے:

اَتَّخَذْنٰهُمْ سِخْرِيًّا اَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْاَبْصَارُ.  (ص۳۸: ۶۳)
’’کیا (اِس لیے کہ) ہم نے یونہی (محض شرارت سے) اُ ن کو مذاق بنا لیا تھا یا (وہ بھی یہاں موجود ہیں اور) اُن سے ہماری نگاہیں چوک رہی ہیں ۔‘‘

جہنم میں جانےوالے آپس میں تو تکار کرتے ہوئے پوچھیں گے: کیا وجہ ہے ،ہم اُن لوگوں کو یہاں نہیں دیکھ رہے جن کو ہم بروں میں گنا کرتے تھے۔ اس کے بعد وہ کہیں گے: ہم نے انھیں مذاق بنا لیا تھا یا اُن سے ہماری نگاہیں چوک رہی ہیں ۔غور کیا جائے تو یہاں چند ایک خلا ہیں ۔یعنی، کیا ہم نے انھیں ایسے ہی مذاق بنا لیا تھا، وگرنہ اُن کا جہنم میں کیا کام؟ یاوہ لوگ تو یہاں موجود ہیں ،مگر ہمیں نظر نہیں آ رہے۔ البیان میں انھیں اس طرح بھرا گیا ہے کہ پہلے جملے میں ’’محض شرارت سے‘‘ اور دوسرے جملے میں ’’وہ بھی یہاں موجود ہیں اور‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہیں ۔

۴۔تقاضا بیان کرنا

قرآن میں کوئی بات بیان ہوتی ہے، مگر اُس  کا تقاضا جو ذرا سے غور و فکر کے بعد آپ سے آپ سمجھ لیا جا سکتا ہے، اُسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاتا:

وَاعْلَمُوْ٘ا اَنَّ فِيْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰهِﵧ لَوْ يُطِيْعُكُمْ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ. (الحجرات۴۹ :۷)
’’ اور تم یہ بات بھی اچھی طرح جان رکھو کہ تمھارے اندر خدا کا رسول موجود ہے ، (لہٰذا کسی طرح مناسب نہیں ہے کہ اپنی رایوں پر اصرار کرو)۔ اگر وہ بہت سے معاملات میں تمھاری بات مان لیا کرے تو تم بڑی مشکل میں پڑ جاؤ گے۔‘‘

وَاعْلَمُوْ٘ا اَنَّ فِيْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰهِ‘ کا جملہ، ظاہر ہے کہ اس بات کی خبر دینے کے لیے نہیں آیا کہ اللہ کے رسول اُن میں بنفس نفیس موجود ہیں ،بلکہ یہاں آپ صلی اللہ علیہ  وسلم کی موجودگی سے پیدا ہونے والا ایک تقاضا بیان کرنا مقصود ہے۔ البیان میں سیاق و سباق کی روشنی میں اس کی توضیح آیت کے ترجمے کے بعد اس طرح کی گئی ہے: ’’لہٰذا کسی طرح مناسب نہیں کہ اپنی رایوں  پر اصرار کرو۔‘‘

۵۔جملہ رواں کرنا

ہر زبان میں بیان کرنے کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے، اس لیے دوسری زبانوں میں ترجمہ کرتے ہوئے بعض اوقات ایک سکتہ سا آجاتا  ہے جو  جملے کی سلاست کو حد درجہ متاثر کرتا ہے۔ اس طرح کے مواقع پر ضروری ہو جاتا  ہے کہ وہاں کوئی نہ کوئی مناسب حال فقرہ لکھ دیا جائے:

سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ. سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ.(الاعراف۷: ۱۴۵ -۱۴۶)
’’میں عنقریب تمھیں نافرمانوں کے گھر دکھاؤں  گا۔ (تم دیکھو گے کہ) میں عنقریب اُن لوگوں کو اپنی نشانیوں سے پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں ۔‘‘

ان دو جملوں کا ترجمہ اگر بغیر کسی توضیح کے پڑھا جائے تو ان کی روانی میں ایک طرح کا خلل آتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ البیان میں اسے رواں کرنے کے لیے ’’تم  دیکھو گے کہ‘‘ الفاظ لائے گئے ہیں اور ان کا انتخاب بھی خود ان جملوں کے شروع میں آنے والے فعل ’اِرَاءَة‘ کی روشنی میں کیا گیا ہے۔

۶۔مرجع ظاہر کرنا

بعض اوقات ضمائر کے مرجع کلام میں واضح طور پر موجودنہیں ہوتے ،چنانچہ لازم ہوتا ہے کہ اُن کے بارے میں اچھی طرح سے وضاحت کر دی  جائے:

وَلَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُوْنَ. (المؤمنون۲۳: ۷۶)
’’ہم نے اُن کو عذاب میں پکڑ لیا تھا (جو اگلوں میں اِنھی جیسے تھے)،لیکن نہ اُن کے دل اُن کے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ وہ کبھی گڑگڑاتے تھے۔‘‘

پچھلی آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ تمھارے یہ مخاطبین کسی صورت بھی تمھاری دعوت کو ماننے والے نہیں ہیں ۔اس کے بعد فرمایا:’وَلَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ‘۔ ہم نے اُنھیں عذاب میں پکڑ لیا تھا۔ یہاں ’هُمْ‘ کی ضمیر کے بارے میں اگر کوئی وضاحت نہ کی جائے  تو اس بات کا قوی اِمکان ہے کہ قاری اسے آپؐ کے براہ راست مخاطبین کی طرف راجع سمجھ لے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ البیان میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے: ’’ہم نے اُن کو عذاب میں پکڑ لیا تھا(جو اگلوں میں اِنھی جیسے تھے)۔‘‘

ذیل کی آیت ایک اور طرح سے مرجع کو نمایاں کرنے کی بڑی خوب صورت مثال ہے:

اَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا٘ اَصْحٰبَ السَّبْتِ.  (النساء۴: ۴۷)
’’یا اُن پربھی(جن کے یہ چہرے ہیں) اُسی طرح لعنت کر  دیں، جس طرح ہم نے سبت والوں پر لعنت  کر دی تھی۔‘‘

اہل کتاب سے فرمایا ہے کہ تم لوگ مان لو اس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں اور اُن کو پیچھے کی طرف الٹ کر برابر کر دیں ۔اس کے بعد فرمایا ہے: ’اَوْ نَلْعَنَهُمْ ‘۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’هُمْ‘ کی یہ ضمیر کس کی طرف راجع ہے ۔اصل میں پچھلی آیت میں ’وُجُوْهًا ‘،یعنی چہروں کو بگاڑنے کا جو ذکر آیا ہے، وہ اصل میں انھی منکرین کے چہرے ہیں ،مگر بے زاری اور کراہت کے اظہار کے لیے ان لوگوں کا ذکر کرنا پسند نہیں فرمایا۔ اس کے بعد ان سے رخ پھیرا ہے، مگر ’نَلْعَنَهُمْ ‘میں انھی کی رعایت سے ’هُمْ‘  کی ضمیر غائب کو استعمال کر لیا ہے۔ البیان میں اس مرجع کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’یا اُن پربھی(جن کے یہ چہرے ہیں )اُسی طرح لعنت کر دیں۔‘‘

۷۔زبان حال کی تعبیر کرنا

بارہا ایسا ہوتا ہے کہ یہ وضاحت کیے بغیر کہ متکلم کون ہے ،امر کے صیغوں میں کوئی بات کہہ دی جاتی ہے۔ یہ اُن مواقع پربھی ہوتا ہے جہاں آنے والا قول زبان قال سے نہیں ،بلکہ زبان حال سے ادا ہو رہا ہوتا ہے:

كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوْا لَهٗﵧ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ. (سبا۳۴ :۱۵)
’’(یہ سب زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ) اپنے پروردگار کی بخشی ہوئی روزی کھاؤ اور اُس کے شکرگزار رہو۔ زمین زرخیز و شاداب اور پروردگار بخشش فرمانے والا۔‘‘

پچھلی آیت میں فرمایا ہے کہ اہل سبا کے لیے اُن کے اپنے مسکن میں بہت بڑی نشانی تھی۔ دائیں بائیں، باغوں کی دو قطاریں۔ اس کے بعد فرمایا ہے:’كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوْا لَهٗ ‘۔یہاں اس قول کا کوئی حقیقی  متکلم  موجودنہیں ہے، بلکہ یہ اُن  پر ہونے والے انعامات کی فراوانی ہے جو زبان حال سے اُنھیں کھانے اور خدا کا شکر ادا کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔ یہی توضیح پیش نظر ہے کہ البیان میں اس مقام کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے:’’(یہ سب زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ) اپنے پروردگار کی بخشی ہوئی روزی کھاؤ اور اُس کے شکرگزار رہو۔‘‘

۸۔ تاثرات بیان کرنا

بات کرنے والا ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی تاثر، جیسا کہ غم اور خوشی ،طمع یا خوف یا پھر عجز اور تکبر کے ساتھ اپنی بات کو ادا کر رہا ہوتا ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں ہر مقام پران تاثرات کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاتا۔ ترجمہ کو پر اثر بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جا بجا انھیں بھی واضح کر دیا جائے:

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَا٘ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْ٘ا اَنُؤْمِنُ كَمَا٘ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ. (البقرہ۲: ۱۳)

’’اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی اُسی طرح ایمان لاؤ، جس طرح (تمھارے سامنے) یہ لوگ ایمان لائے ہیں تو (بڑے تکبر سے)کہتے ہیں کہ ہم کیا اِن احمقوں کی طرح ایمان لائیں ؟‘‘

جب منافقین کے ایک گروہ کو یہ کہتے ہوئے حق کی دعوت دی جاتی کہ وہ سچے مسلمانوں جیسا ایمان لائیں تو وہ بڑی رعونت اور نخوت کے ساتھ کہتے کہ ہم کیا اِن   احمقوں کی طرح ایمان لائیں ؟یہی وہ تاثر ہے جسے البیان میں ’’تو(بڑے تکبرسے )کہتے ہیں ‘‘کے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے۔

 ان تاثرات کو قوسین کے بجاے ترجمہ میں کسی معقول لفظ کے انتخاب سے بھی ادا کیا گیا ہے:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا٘ اَنْفُسَنَاﶌ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ.  (الاعراف۷: ۲۳)
’’دونوں بول اٹھے: پروردگار، ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے، اب اگر تو ہماری مغفرت نہ فرمائے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم ضرورنامراد ہو جائیں گے۔‘‘

جب آدم  ؑ و حوا   ؑدرخت کا پھل کھا بیٹھے اور اِس  پر اُن کے پروردگار نے اُنھیں تنبیہ کی تو وہ مذکورہ بالا دعا کرتے ہوئے  اُس کی طرف رجوع لائے۔ اُن کی دعامیں بے قراری اور فوری طور پر تائب ہو جانے کا جو تاثر ہے، البیان کے ترجمہ میں ’’بول اٹھے‘‘ کے الفاظ کا انتخاب اُسے اچھی طرح سے واضح کر رہا ہے۔

۹۔ربط نمایاں کرنا

قرآن میں ایک ربط اس کے داخلی اور مجموعی نظم کے پہلو سے پایا  جاتا ہے۔ یہ ایک پیرے کا دوسرے پیرے کا ساتھ بھی ہوتا ہے اور اس کے پیچھے تمام سلسلۂ کلام کے ساتھ بھی ۔البیان میں بالعموم اسے لفظوں میں واضح کر دیا جاتا ہے کہ اس کے بغیر اس کا ادراک کر لینا قدرے مشکل ہوتا ہے:

فَاِنْ يَّصْبِرُوْا فَالنَّارُ مَثْوًي لَّهُمْﵧ وَاِنْ يَّسْتَعْتِبُوْا فَمَا هُمْ مِّنَ الْمُعْتَبِيْنَ. وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ فَزَيَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ.(حٰم السجدہ۴۱: ۲۴- ۲۵)
’’سو اگر یہ صبر کریں ،تب بھی دوزخ ہی اِن کا ٹھکانا ہے اور اگر نہ کریں، تب بھی۔ اور اگر یہ معافی چاہیں گے تو اِنھیں معافی بھی نہیں دی جائے گی۔ (یہ اِس انجام کو اس لیے پہنچے کہ اِن کے گناہوں کی پاداش میں )ہم نے اِن  پر برے ساتھی مسلط کر دیے  تو اِن کے آگے اور پیچھے کی ہر چیز اُنھوں نے اِن کوخوش نما بنا کر دکھائی۔‘‘

پہلا پیرا ’الْمُعْتَبِيْنَ ‘ پر ختم ہو رہا ہے اور دوسرا ’وَقَيَّضْنَا‘ سے شروع ہو رہا ہے۔ پہلے میں اللہ کے دشمنوں کا اخروی انجام بیان فرمایا ہے اور دوسرے میں اس کی وجہ بیان فرمائی ہے۔ البیان میں دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ اُن کے انجام اور اُس کی وجہ میں پایا جانے والا یہ باہمی ربط قوسین کے اندر واضح کر دیا گیا ہے۔

يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا. (الاحزاب۳۳: ۲۸)
’’(اِس طرف سے مایوس ہو کر اب یہ منافقین تمھارے گھروں میں فتنے اٹھانا چاہتے ہیں، اِس لیے)، اے نبی، اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اُس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمھیں دے دلا کر خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کر دوں ۔‘‘

پیچھے ایک طویل بحث منافقین کے رویے اور جنگ احزاب میں کفار کی ناکامی پر ہوئی ہے۔ اس کے بعد یہاں سے ایک نئی بحث شروع ہونے جا رہی ہے ۔مگر یہ پیچھے سے بالکل بے ربط نہیں ہے ،بلکہ البیان کی روشنی میں یہ پورے سلسلۂ کلام پراس طرح سے مربوط ہوئی ہے : ’’(اس طرف سے مایوس ہو کر اب یہ منافقین تمھارے گھروں میں فتنے اٹھانا چاہتے ہیں ، اِس لیے)،اے نبی،اپنی بیویوں سے کہہ دوکہ...‘‘۔

۱۰۔توجیہ واضح کرنا

بعض مقامات اس طرح کے ہوتے ہیں کہ وہاں کسی بات کے بیان ہونے کی وجہ محض لفظی ترجمہ سے واضح نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ توضیح لازماً   کرنا پڑتی ہے:

اِعْلَمُوْ٘ا اَنَّ اللّٰهَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا.  (الحدید۵۷ :۱۷)
’’(تم آگے بڑھو، کیا بعید ہے کہ اللہ تمھارے دل پگھلا دے)۔جان رکھو کہ اللہ زمین کو اُس کے مردہ  ہو جانے کے بعد بھی زندہ کر دیتا ہے۔‘‘

منافقین کے بارے میں فرمایا ہے کہ اُن کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ خدا کی کتاب پر ایمان لے آئیں؟ اور اُن اہل کتاب کی طرح نہ ہوجائیں جن کے دل آخر کار سخت ہو گئے؟ اس کے بعد فرمایا ہے: ’اِعْلَمُوْ٘ا اَنَّ اللّٰهَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ‘۔ زمین کے دوبارہ سے زندہ ہو جانے کی بات یہاں بیان کرنے کی بظاہر کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ چنانچہ البیان میں قوسین کے اندر یہ جملہ لا کر اس کی توجیہ بیان کر دی گئی ہے:’’ تم آگے بڑھو، کیا بعید ہے کہ اللہ تمھارے دل پگھلا دے۔‘‘

یہ آیت بھی اس کی ایک اچھی مثال ہے:

وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ. اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَﵧ وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ. (ہود۱۱: ١١٨- ١١٩)
’’تیرا پروردگار چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی گروہ بنا دیتا، (مگر اُس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اُنھیں ارادہ و اختیار عطا فرمایا ہے تو اب یہی ہو گا کہ) وہ ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے، سواے اُن کے جن پر تیرا پروردگار رحم فرمائے۔ اُس نے اِسی لیے اُن کو پیدا کیا ہے (کہ وہ اپنے اختیار سے فیصلہ کریں)۔‘‘

اس مقام کا سادہ  اور لفظی ترجمہ کسی صورت یہ واضح نہیں کرتا کہ یہاں دوسری اور تیسری بات بیان کرنے کی آخر کیا وجہ ہے؟ اس کے برخلاف، البیان میں اہل نظر دیکھ سکتے ہیں کہ کس اعلیٰ درجے کی مہارت سے ان دو باتوں  کو بیان کرنے کی توجیہات قوسین کے اندر بہ خوبی واضح کر دی گئی ہیں ۔

۱۱۔زمانہ کی تعیین کرنا

قرآن میں یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض اغراض کے پیش نظر کلام کی زمانی ترتیب میں تقدیم و تاخیر کر دی جاتی ہے۔ عام قاری کوکسی الجھن سے بچانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے زمانے کے بارے میں کوئی نہ کوئی توضیح لازماً  کر دی جائے:

وَجَآءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ يَسْتَبْشِرُوْنَ. (الحجر۱۵: ۶۷)
’’(اس سے پہلے یہ ہوا کہ لڑکوں کو لوط کے گھر آتے دیکھ کر) شہر کے لوگ خوشیاں مناتے ہوئے  آپہنچے۔‘‘

پچھلی آیات میں بیان ہوا ہے کہ حضرت لوط کے پاس خدا کے فرشتے آئے ہیں اور انھوں نے اپنا تعارف بھی اُنھیں کرا دیا  ہے۔ مگر اس آیت میں بیان ہوا ہے کہ شہر کے لوگ جب لوط کے گھرمیں آئے تو اس پر انھوں نے بڑے درد دل کے ساتھ فریاد و فغاں کی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرانھیں فرشتوں کا تعارف حاصل تھا تواُنھیں اس قدر آہ و فغاں اور فریاد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ واقعات کی فطری ترتیب  اور سورۂ ہود کی نظیر اس بات کو بیان کر دیتی ہے کہ یہاں اصل میں واقعہ کی زمانی ترتیب میں تقدیم و تاخیر ہوگئی ہے ۔ چنانچہ البیان میں اس کا لحاظ کیا گیا اور قوسین کے جملے میں اس کے زمانے کو متعین کر دیا گیا ہے۔

۱۲۔شبہ دور کرنا

ترجمے میں ہو سکتا ہے کہ قاری کوکسی مقام پر کوئی الجھن اور شبہ لاحق ہو جائے، مترجم کو اس طرح کے مواقع پر اس کا اِزالہ ضرور کر دینا چاہیے:

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّﵧ يَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْ٘ا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ. (الطلاق۶۵ :۱۲)
’’اللہ وہی ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اُنھی کے مانند زمینیں بھی۔اُس کے احکام اُن کے درمیان نازل ہوتے رہتے ہیں ۔ یہ اِس لیے بتا دیا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘

اس آیت میں ’لِتَعْلَمُوْا ‘کے سمجھنے میں ایک شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ پچھلی بات سے متعلق ہے یا کسی اور بات کے۔ البیان کے ترجمہ میں لائے گئے یہ الفاظ ’’یہ اس لیے بتا دیا ہے‘‘ اس شبہ کا بالکلیہ ازالہ کر دیتے ہیں ۔

۱۳۔شبہ بیان کرنا

بعض اوقات یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اِزالہ کلام میں موجود ہو، مگر وہ جس شبہ کا ازالہ ہے، وہی لفظوں میں مذکور نہ ہو:

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّمَا لَيْسَ لَهُمْ بِهٖ عِلْمٌﵧ وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ.(الحج۲۲ :۷۱)
’’اللہ کے سوا یہ اُن کی پرستش کرتے ہیں جن کے حق میں اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری ہے اور جن کے بارے میں اِن کو کوئی علم بھی نہیں ہے۔ (یہ احمق سمجھتے ہیں کہ آخرت میں وہ اِن کے مددگار ہوں گے)۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔‘‘

معبودان باطل کی عبادت اس خیال سے بھی کی جاتی تھی کہ وہ آخرت میں اپنے پیرووں کی نجات کا باعث ہوں گے۔ ’وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ ‘،اصل میں اسی بات کا جواب ہے۔  البیان میں اس بات ،یعنی اس شبہ کو قوسین کے اندر لکھ کر  واضح کر دیا گیا ہے۔

۱۴۔ اختلاف رفع کرنا

تراجم میں بعض اوقات اس بات کی کسی درجے میں  گنجایش پیدا ہو جاتی ہے کہ ان میں بے جا قسم کے اختلافات روا رکھے  جا سکیں :

وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُﵯ فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ. (البقرہ٢ :۱۱۵ )
’’اور حق یہ ہے کہ مشرق و مغرب ، سب اللہ ہی کے لیے ہیں ۔ لہٰذا (اللہ کے حکم پر) تم جدھر رخ کرو گے ،وہیں اللہ کا رخ ہے ۔ ‘‘

اس مقام پر بعض حضرات نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ جس طرف بھی دیکھا جائے ، اُدھر ہی اللہ موجود ہے۔ اسی طرح بعض آزاد منشوں نے یہ نکتہ بھی پیدا کیا ہے کہ جس طرف بھی نماز کے لیے رخ کر لیا جائے ، اُدھر ہی اللہ ہے۔ البیان میں قوسین کے اندر ’’اللہ کے حکم‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہیں اور دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ اس سے اس طرح کے تمام اختلافات کا قلع قمع ہو کر رہ گیا ہے۔

۱۵۔سوال بیان کرنا

قرآن میں بسا اوقات کسی سوال کا جواب دیا جاتا ہے، مگر وہ سوال لفظوں میں بالکل بھی مذکورنہیں ہوتا:

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّيَّةًﵧ وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ يَّاْتِيَ بِاٰيَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ. (الرعد۱۳ : ۳۸)
’’(اِنھیں اعتراض ہے کہ تم کوئی نشانی کیوں نہیں دکھاتے اور دنیوی علائق کیوں رکھتے ہو)؟ ہم نے، (اے پیغمبر)، تم سے پہلے بھی رسول بھیجے تھے اور (چونکہ انسان ہی تھے، اِس لیے) اُن کو بیویاں بھی دی تھیں اور اولاد بھی۔ اور کسی رسول کے اختیار میں نہیں تھا کہ وہ اذن الہٰی کے بغیر کوئی نشانی لا دکھائے۔‘‘

اس کا سادہ طریقہ یہی ہے کہ لفظوں میں مذکور جواب کو اُلٹ کر دیکھا جائے اوریوں اس کے سوال کو جان لیا جائے۔ اس لحاظ سے اس مقام پر دو سوالات بنتے ہیں :ایک یہ کہ تم ہمارے مطالبے پر کوئی نشانی کیوں نہیں دکھاتے؟ اور دوسرے یہ کہ رسول کو تو فرشتہ ہونا چاہیے اور اگر تم واقعتاً             رسو               ل ہو تو پھر انسانوں کی طرح زندگی کیوں گزارتے ہو؟ یہی سوالات ہیں جنھیں قوسین کے اندر واضح کر دیا گیا ہے۔

۱۶۔التفات کو واضح کرنا

قرآن میں بہت سے مقامات  پر ہم دیکھتے ہیں کہ کلام میں التفات پایا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہر مقام پراس کے بارے میں وضاحت کر دی جائے، وگرنہ یہ امکان بہرصورت موجود رہے گا کہ قاری کے سامنے نہ اصل مدعا کا ابلاغ ہو پائے اور نہ کلام کی سب نزاکتیں ہی اُس کے سامنے آسکیں ۔یہ التفات جس طرح مضمون کے لحاظ سے ہوتا ہے، اسی طرح کلام کے رخ میں اور خطاب کے صیغوں میں بھی ہوتا ہے۔ مضمون میں ہونے والے التفات کے لیے یہ آیت دیکھ لی جائے:

تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ. (الفرقان۲۵ :۱)
’’بہت بزرگ، بہت فیض رساں ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر یہ  فرقان اتارا ہے۔‘‘

اس سورہ میں آگے وہ اعتراضات بیان ہوئے ہیں جو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات  گرامی اور دنیوی اسباب کی کچھ کمی پر منکرین کی طرف سے اٹھائے جا رہے تھے۔ اس تناظرمیں فرمایا ہے کہ اُس بابرکت ذات نے اپنے بندے پر فرقان اتارا ہے۔ ’’اپنے بندے‘‘ کے الفاظ، اصل میں پروردگار عالم کی طرف سے آپ پر ہونے والے خصوصی التفات کا مضمون بیان کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں اور البیان کے حواشی میں اس کی اچھی تفصیل کر دی گئی ہے۔

بعض اوقات اس طرح ہوتا ہے کہ دوران خطاب کسی اور کی طرف ملتفت  ہو کر، یعنی اُس کی طرف رخ پھیر کر گفتگو کی جاتی ہے۔ یہ التفات کی دوسری قسم ہے اور ا س سے مقصود ایک سے زائد مطالب  ہوا کرتے ہیں ، مثال کے طور پر، ذیل کی آیت سے کلام کا رخ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیرا گیا ہے اور پیش نظر یہ ہے کہ مخالفین کے مقابلے میں آپ کو تسلی  اور بر سر موقع چند ضروری ہدایات دے دی جائیں :

ذٰلِكَ نَتْلُوْهُ عَلَيْكَ مِنَ الْاٰيٰتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيْمِ. (آل عمران۳: ۵۸)
’’یہ ہماری آیتیں اور بڑی پر حکمت یاددہانی ہے جو ہم تمھیں سنا رہے ہیں ۔‘‘

ذیل کی آیت میں بھی آپ کی طرف التفات ہوا ہے ،مگر اس سے مقصود تسلی اور بشارت کے بجاے   اُس عتاب کو بیان کرنا ہے جس کا رخ اصل میں کفار کی طرف ہے کہ وہ قرآن کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں اور اس کی تکذیب پر اصرار کر رہے ہیں :

فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُﵯ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ.  (ہود۱۱: ۱۷)
’’اس لیے،(اے پیغمبر)تم اس کے بارے میں کسی شک میں نہ پڑو۔ یہ حق ہے تمھارے پروردگار کی طرف سے، مگر اکثر لوگ نہیں مانتے۔‘‘

التفات کی تیسری قسم میں یہ ہوتا ہے کہ گفتگو کے دوران میں خطاب کے صیغے بدل دیے جاتے ہیں ۔یعنی، غائب کو حاضر میں اور کبھی اس کے برعکس ، حاضر کو غائب میں ۔جب غائب سے حاضر کی طرف التفات ہو تو اس سے بعض اوقات شدت غضب کا اظہار  مدنظر ہوتا ہے۔ جیسا کہ ذیل کی آیت میں ہوا ہے کہ جب مجرمین کے متعلق غیب کے صیغوں میں ہونے والی گفتگو کے دوران میں ’لَقَدْ جِئْتُمْ‘ فرما کر ایک دم سے حاضر کا صیغہ  لایا گیا ہے:

وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِيْنَ اِلٰي جَهَنَّمَ وِرْدًا. لَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا. وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا. لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْـًٔا اِدًّا. (مریم۱۹: ۸۶- ۸۹)
’’اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسا ہانکیں گے۔  اُنھیں کوئی سفارش لانے کا اختیار نہ ہوگا، مگر جس نے خداے رحمٰن سے کوئی عہدلے رکھا ہو۔کہتے ہیں کہ خداے رحمٰن نے اولاد بنا رکھی ہے ۔ یہ تم نے بڑی ہی سنگین بات کہی ہے۔‘‘

ذیل کی آیت اس لحاظ سے بڑی اہم ہے کہ التفات کے اس اسلوب کی واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ آخرت میں ہر شخص نے  وہ چاہے نیک ہو یا بد، بہرصورت جہنم کے اوپر سے گزرنا ہے:        

وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاﵐ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا. (مریم۱۹: ۷۱)
’’(خداے رحمٰن کے مقابل میں اکڑنے والو)، تم میں سے ہر ایک کو اس میں لازماً داخل ہونا ہے۔ یہ ایک طے شدہ بات ہے، (اے پیغمبر)، جس کو پورا کرنا تیرے رب کا ذمہ ہے۔‘‘

پیچھے مجرمین کے متعلق غیب کے صیغوں میں بات ہو رہی تھی اور یہاں شدت عتاب کو ظاہر کرنے کے لیے  ’وَاِنْ مِّنْكُمْ ‘کے الفاظ میں انھیں براہ راست خطاب کر لیا گیا ہے۔ البیان میں التفات کے اس اسلوب کو واضح کرنے کے لیے قوسین کے اندر آیت کے اصل مخاطبین کو لفظوں میں بیان کر دیا گیا ہے۔

بعض اوقات غائب سے مخاطب کے صیغوں میں تبدیلی شدت عتاب کے بجاے عنایت خاص کو بیان  کرنے کے لیے بھی ہوتی ہے :

يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَهَبٍ وَّاَكْوَابٍﵐ وَفِيْهَا مَا تَشْتَهِيْهِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْيُنُﵐ وَاَنْتُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ.(الزخرف۴۳: ۷۱)
’’ان کے آگے سونے کی رکابیاں اور سونے کے پیالے گردش میں ہوں گے اور ان میں وہ سب چیزیں ہوں گی جو دل کو بھاتی اور نگاہوں کو لذت دینے والی ہوں گی اور(اُن کو مژدہ سنایا جائے گا کہ) تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔‘‘

دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ غائب کا اسلوب ’وَاَنْتُمْ‘ میں آکر حاضر میں بدل گیا ہے اور اس تبدیلی سے جس مدعا کا ابلاغ پیش نظر ہے، اسے قوسین میں ’’مژدہ‘‘ کا لفظ لا کر ادا کر دیا گیا ہے۔

 اس کے برخلاف، جب کلام حاضر سے غائب کے صیغوں میں بدل رہا ہوتو اس سے عام طور پر عدم التفات اوربے پروائی کا مضمون بیان کرنا پیش نظر ہوتا ہے، جیسا کہ ذیل کی آیت میں ہوا ہے جب خطاب کے بعد  ’اَمْ اَبْرَمُوْا ‘کے الفاظ میں غائب کا صیغہ  آگیا ہے:

لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ. اَمْ اَبْرَمُوْ٘ا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ.(الزخرف۴۳: ٧٨- ٧٩)
’’(قریش کے لوگو)،ہم تمھارے پاس حق لے کر آئے ہیں، لیکن تم میں اکثر  کاحال یہ ہے کہ حق سے بے زار ہیں۔ کیا انھوں نے کوئی بات ٹھان لی ہے تویقیناً ہم بھی ٹھان لیں گے۔‘‘

التفات کی اس تیسری قسم میں بعض اوقات صیغے متکلم کی طرف سے بھی بدل رہے ہوتے ہیں ۔یعنی، متکلم اپنے بارے میں غائب کا صیغہ  لاتا ہے اور بعدمیں اسے متکلم میں بدل دیتا ہے اور اس سے مقصود کبھی التفات خاص ہوتا ہے تو کبھی زجر اور تنبیہ کے مضمون کو  بیان کرنا۔

سُبْحٰنَ الَّذِيْ٘ اَسْرٰي بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَي الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا.(بنی اسرائیل۱۷: ۱)
’’ہر عیب سے پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے اس دور کی مسجد تک لے گئی جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے تاکہ اس کو ہم اپنی نشانیاں دکھائیں ۔‘‘

یہاں دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ ’الَّذِيْ٘ اَسْرٰي ‘سے شروع ہونے والی بات ’بٰرَكْنَا‘اور ’لِنُرِيَهٗ‘میں متکلم کے صیغوں میں آگئی ہے اور یہ تبدیلی کیوں ہوئی ہے ،البیان کے حواشی میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے۔

اس مثال کے برخلاف، ذیل کی آیت میں صیغہ جب  متکلم کی طرف بدلا ہے تو اس سے مقصود مخاطبین کو تہدید کرنا اور انھیں وعید سنا دینا ہے:

عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْﵐ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا. (بنی اسرائیل۱۷: ۸)
’’(اب بھی) عجب نہیں، (اے بنی اسرائیل) کہ تمھارا پروردگار(ایک مرتبہ پھر) تم پر رحم فرمائے۔ لیکن (یاد رکھو)، اگر تم وہی کرو گے توہم بھی وہی کریں گے۔‘‘

۱۷۔صحیح تاویل بتانا

توضیحات کے سلسلے کی یہ سب سے اہم چیز ہے۔ ترجمے کا بنیادی ہدف چونکہ کتاب اللہ کے اصل مفہوم کو منتقل کرنا ہے، اس لیے  وہ تمام وضاحتیں اس میں ضرور لکھ  دینی چاہییں جن کے نتیجے میں کلام کی صحیح تاویل کھل کر سامنے آجائے:

وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا. (بنی اسرائیل۱۷: ۱۱۰)
’’اور (اوپر جو نماز ، اے پیغمبر، خاص تم کو پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے)، تم اپنی اُس نماز کو نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو، نہ بہت پست آواز سے، بلکہ اِن دونوں کے درمیان کا طریقہ اختیار کرو۔‘‘

وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ ‘ میں کون سی نماز مراد ہے؟ مترجمین عام طور پر اس سے معمول کی نماز مراد لیتے اور اس کے نتیجے میں طول طویل بحثوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ان کے برخلاف، البیان میں آیت ۷۹کی روشنی میں قوسین کے اندراس کی صحیح تاویل واضح کرتے ہوئے بتا دیا گیا ہے کہ یہ اصل میں خاص نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے مقرر کی گئی، یعنی تہجد کے وقت کی نماز ہے۔

ذیل کی آیت بھی اس کی ایک اچھی مثال ہے:

عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖ٘ اَحَدًا. اِلَّا مَنِ ارْتَضٰي مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ يَسْلُكُ مِنْۣ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا. لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّهِمْ. (الجن۷۲: ۲۶- ۲٨)
’’ اِس غیب کو وہی جانتا ہے اور اپنا یہ غیب کسی پر ظاہر بھی نہیں کرتا۔ رہے وہ جن کو وہ رسول کی حیثیت سے منتخب کر لیتا ہے، وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے، اُن کے آگے اور پیچھے تو وہ پہرا لگا دیتاہے تاکہ معلوم رہے کہ اُنھوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا  دیے ہیں ۔‘‘

عام طور پر مترجمین نے اس آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ خدا اپنا غیب کسی پر ظاہرنہیں کرتا، البتہ جنھیں وہ رسول بنا دیتا ہے، اُن  پر ضرور ظاہر کر دیتا ہے۔ حالاں کہ یہاں ’الْغَيْب ‘ سے مراد اُس عذاب کے آنے کی خبر ہے جس کے بارے میں منکرین کو اِنذار کیا جا رہا تھا اور ہم جانتے ہیں کہ اس کی خبر خداکبھی کسی کونہیں دیتا۔ ’اِلَّا‘ کے بعد آنے والا اسلوب جو استثنا کے منقطع ہونے کی دلیل ہے ،وہ بھی اس عمومی تاویل کی نفی کر رہا ہے اور ہمیں بتا رہا ہے کہ ’اِلَّا‘ پر پچھلی بات ختم ہو چکی اور اس سے ایک نئی بات شروع ہو رہی ہے۔ سو ترجمہ میں ضروری ہے کہ اس صحیح تاویل کی وضاحت کر دی جائے، جیسا کہ البیان کے ترجمہ میں یہ کر بھی دی گئی ہے۔

ذیل کی آیت ایک اور پہلو سے غیب کے مسئلہ پر بات کر رہی ہے اور اپنے اندر توضیح کی ضرورت کی نہایت نادرمثال رکھتی ہے:

مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَا٘ اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰي يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِﵧ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَي الْغَيْبِ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِيْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ يَّشَآءُﵣ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖﵐ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌ. (آل عمران۳: ۱۷۹)
’’(اِس جنگ کے موقع پر جو آزمایش پیش آئی ہے، یہ اُس کو سمجھ نہیں رہے۔ اِنھیں بتاؤ کہ) اللہ یہ نہیں کر سکتا تھا کہ ناپاک کو پاک سے الگ کیے بغیر مسلمانوں کو اُسی طرح چھوڑ دے ، جس طرح تم تھے، اور نہ یہ اللہ کا طریقہ ہے کہ تمھیں غیب پر مطلع کر دے (اور اِن کے دلوں کی حالت جان کر تم اِنھیں الگ الگ کر لو)، بلکہ اللہ (کا طریقہ یہ ہے کہ اِس کے لیے وہ) اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے، منتخب کر لیتا ہے، (پھر اُن کی جدوجہد میں ایسی آزمایش برپا کرتا ہے کہ کھوٹے اور کھرے، سب ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں )، اِس لیے اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان رکھو اور (جان لو کہ) اگر تم ایمان اور تقویٰ اختیار کرو گے تو تمھارے لیے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘

خدا کی یہ سنت ہے کہ وہ دینونت سے پہلے مومنین اور منکرین کو الگ الگ متعین کر دیتا ہے۔ لیکن کسی کا حقیقی طور پر مومن یا منکر ہونا غیب کی باتوں میں سے ہے جس کی وہ کسی کو خبر نہیں دیتا، چنانچہ وہ اس مقصد کے لیے اپنے رسولوں کے ذریعے سے آزمایشیں برپا کرتا ہے۔ اس سنت الہٰی کی روشنی میں دیکھا جائے  تو آیت کی صحیح تاویل وہی بنتی ہے جسے البیان کے ترجمے میں قوسین کے اندر واضح کر دیا گیا ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[32]۔ اس بحث کے ضمن میں یہ بات بھی واضح رہے کہ قرآن میں جس طرح کسی لفظ کو اُس کے حقیقی معنی کے بجاے  مجاز میں برت لیا جاتا ہے، اسی طرح مجاز میں پہلے سے معروف ہو چکے کسی لفظ کو بھی استعمال کر لیا جاتا ہے، جیسا کہ ’وَثِيَابَكَ فَطَهِّر‘ میں ’ثوب‘ سے کسی قسم کا کوئی کپڑا نہیں، بلکہ اہل زبان کے ہاں رواج پا چکا اُس  کا مجازی معنی، یعنی دامن دل مراد ہے( المدثر ۷۴: ۴) ۔

[33]۔ دیکھا جائے  تو تفسیری نوٹ بھی اپنی حقیقت میں سراسر وضاحت ہوتے ہیں ،مگر ہم یہاں زیادہ تر ترجمہ میں کی جانے والی توضیحات کو بیان کریں گے۔

B