HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘ ــــــــ توضیحی مطالعہ: قانون معاشرت (2)

حرمت مصاہرت

’’نسب اور رضاعت کے بعد وہ حرمتیں بیان ہوئی ہیں جو مصاہرت پر مبنی ہیں ۔اِ س تعلق سے جو رشتے پیدا ہوتے ہیں ، اُن کا تقدس بھی فطرت انسانی کے لیے ایسا واضح ہے کہ اُس کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہے ۔ چنانچہ باپ کے لیے بہو اور شوہر کے لیے بیوی کی ماں ، بیٹی ، بہن، خالہ، پھوپھی، بھانجی اور بھتیجی، یہ سب حرام ہیں ۔ تاہم یہ رشتے چونکہ بیوی اور شوہر کی وساطت سے قائم ہوتے ہیں اور اِس سے ایک نوعیت کا ضعف اِن میں پیدا ہو جاتا ہے ، اِس لیے قرآن نے یہ تین شرطیں اِن پر عائد کر دی ہیں :
ایک یہ کہ بیٹی صرف اُس بیوی کی حرام ہے جس سے خلوت ہو جائے ۔
دوسری یہ کہ بہو کی حرمت کے لیے بیٹے کا صلبی ہونا ضروری ہے ۔
تیسری یہ کہ بیوی کی بہن ، پھوپھی، خالہ، بھانجی اور بھتیجی کی حرمت اُس حالت کے ساتھ خاص ہے ، جب میاں بیوی میں نکاح کا رشتہ قائم ہو۔‘‘ (میزان ۴۱۶ -  ۴۱۷)

مصنف  نے ان حرمتوں کی تفہیم   ’’مبادی تدبر قرآن‘‘ میں بیان کردہ اس بنیادی اصول کے تحت کی ہے کہ قرآن مجید میں  بیان ہونے والے احکام شرعیہ، کلیتاً ابتدائی احکام نہیں ہیں، یعنی ایسا نہیں ہے کہ  قرآن کے اولین مخاطب اس سے پہلے ان سے بالکل ناواقف تھے اور قرآن نے پہلی مرتبہ ان کے سامنے انھیں پیش کیا ۔  دراصل قرآن مجید، احکام شریعت کو بیان کرتے ہوئے  انسانوں کے مابین عمومی طور پر معروف مسلمات فطرت   اور ابراہیمی روایت میں  پہلے سے چلے آنے والے احکام و شرائع  پر بنیاد رکھتا ہے اور  مخاطبین کو ان سے واقف فرض کرتے ہوئے  ضروری  اصلاح واضافہ کے ساتھ ان احکام کو بیان کر دیتا ہے۔مصاہرت کے رشتے سے  قائم ہونے والی حرمتوں کی نوعیت بھی، جیسا کہ مذکورہ اقتباس سے واضح ہے، مصنف کے نزدیک یہی ہے۔

نکاح کی  حرمتوں کے متعلق یہ نکتہ شاہ ولی اللہ نے بھی ذکر کیا ہے کہ  یہ  اہل عرب کے  ہاں چلی آنے والی دینی روایت میں مسلم تھیں، البتہ   بعض امور کے حوالے سے اہل عرب کے ہاں  عملی انحراف رواج پا چکا تھا جن کی قرآن مجید نے اصلاح کی اور  ملت ابراہیمی کے اصل ضابطے کو دوبارہ بحال کر دیا۔   شاہ صاحب نے سوتیلی ماں کے ساتھ نکاح اور دو بہنوں کے ساتھ بہ یک وقت نکاح کا ذکر بھی انھی امور کے ضمن میں کیا ہے  جو انحراف کے نتیجے میں   اہل جاہلیت میں  رواج پا گئے تھے   (حجۃ اللہ البالغہ ۲ /۲۰۲)۔

البتہ دو  بہنوں کے علاوہ  پھوپھی  اور بھتیجی  یا خالہ اور بھانجی  کے ساتھ بہ یک وقت نکاح  کی ممانعت   سے متعلق احادیث کی تفہیم میں  مصنف کا نقطۂ نظر   عام راے سے کسی قدر مختلف ہے ۔  فقہا میں سے بعض ان احادیث  کو قرآن کے ظاہری حکم سے متجاوز قرار دیتے ہوئے   اس کی توجیہ تخصیص  کے اصول پر کرتے ہیں،  بعض کے نزدیک یہ ایک مستقل حکم ہے جس کو حدیث کے ذریعے سے شرعی احکام میں شامل کیا گیا ہے،  جب کہ ایک گروہ  کے نزدیک   یہ ممانعت، قرآن   میں جمع بین الاختین کی حرمت سے ماخوذ، یعنی علت  کی بنیاد پر حکم  کی توسیع کی مثال ہے۔  مولانا امین احسن اصلاحی اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ  چونکہ دو بہنوں کے ساتھ بہ یک وقت نکاح  کی ممانعت رحمی رشتوں کو  جلاپے اور رشک ورقابت کے جذبات سے محفوظ رکھنے  کےلیے ہے، اس لیے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرنے سے بھی منع فرما دیا (تدبر قرآن ۲ / ۲۷۶) ۔

مصنف نے اس ضمن میں اپنا نقطۂنظر  یوں بیان کیا ہے:

’’... قرآن نے ’بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ‘ ہی کہا ہے ، لیکن صاف واضح ہے کہ زن و شو کے تعلق میں بہن کے ساتھ بہن کو جمع کرنا اُسے فحش بنا دیتا ہے تو پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی کو جمع کرنا بھی گویا ماں کے ساتھ بیٹی ہی کو جمع کرنا ہے ۔ لہٰذا قرآن کا مدعا، لاریب یہی ہے کہ ’أن تجمعوا بین الأختین وبین المرأة وعمتھا وبین المرأة وخالتھا‘۔ وہ یہی کہنا چاہتا ہے ، لیکن ’بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ‘ کے بعد یہ الفاظ اُس نے اِس لیے حذف کر دیے ہیں کہ مذکور کی دلالت اپنے عقلی اقتضا کے ساتھ اِس محذوف پر ایسی واضح ہے کہ قرآن کے اسلوب سے واقف اُس کا کوئی طالب علم اِس کے سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔ ‘‘ (میزان ۴۱۸)

گویا مصنف  کو بنیادی طور پر تیسرے نقطۂنظر سے اتفاق ہے کہ  پھوپھی اور بھتیجی اور اسی طرح خالہ اور بھانجی سے بہ یک وقت نکاح کی ممانعت  قرآن کے حکم پر کوئی اضافہ نہیں، بلکہ قرآن کی دلالت میں شامل ہے۔  البتہ مصنف کی تفہیم اس پہلو سے مختلف ہے کہ ان کے نزدیک   جمع بین الاختین کی  ممانعت کی علت رقابت کے جذبات نہیں، بلکہ یہ چیز  ہے کہ انتہائی قریبی رشتہ رکھنے والی دو خواتین کے ساتھ بہ یک وقت جنسی  تعلق قائم کرنا اس کو  فحش بنا دیتا ہے۔  یوں دو بہنوں  کے ساتھ نکاح کی ممانعت کی اصل وہی ہے جو  بیوی کی ماں یا بیٹی کے ساتھ نکاح کی ممانعت کی ہے، تاہم    رشتے کی  نوعیت کسی قدر مختلف ہونے کی وجہ سے قرآن نے  بیوی کی بہن کے ساتھ نکاح کو مطلقاً حرام قرار نہیں دیا، بلکہ اس ممانعت کو بہ یک وقت نکاح تک محدود کر دیا ہے۔

مصنف کے مطابق  پھوپھی اور بھتیجی نیز خالہ اور بھانجی کے ساتھ بہ یک وقت نکاح بھی ایک  واضح فطری حرمت  کا درجہ رکھتی تھی اور قرآن  نے جب ایک طرف پھوپھی اور خالہ کو  ماں کا درجہ دے کر ان کے ساتھ نکاح کو حرام قرار دیا اور دوسری طرف بیوی کی ماں کو   بھی  اسی درجے میں رکھا تو  اس سے اس کا یہ مدعا بالکل واضح تھا کہ بیوی   کے ساتھ ا س کی خالہ یا بھانجی کو اور اسی طرح پھوپھی یا بھتیجی کو جمع کرنا  ایسے ہی ہے، جیسے ماں اور بیٹی کو ایک آدمی کے نکاح میں جمع کر دیا جائے۔  اصول فقہ کی اصطلاح میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ عام اہل علم حکم کی اس توسیع کو  اگر قیاس کے اصول کا انطباق قرار دیتے ہیں تو مصنف کے  نقطۂ نظر سے یہ دلالۃ النص کی مثال ہے جس میں حکم کی عقلی دلالت اتنی واضح  ہے کہ اسے نص کا ہی مدلول شمار کیا جانا چاہیے۔  اس ضمن میں مولانا حمید الدین فراہی کا ذکر کردہ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ  قرآن مجید  میں  حرمت کے بیان  میں  صرف دو بہنوں  کے ذکر  پر اکتفا  کی وجہ اس صورت کا زیادہ عام الوقوع ہونا ہے،  یعنی دو بہنوں کے ساتھ بہ یک وقت نکاح کر لینے کا   عمومی امکان چونکہ زیادہ ہے، اس لیے قرآن نے اس کا ذکر کر دیا، جب کہ  نادر صورتوں  کا ذکر اپنے عام اسلوب کے مطابق نہیں کیا  (احکام الاصول ۸)۔

 مہر کی   نوعیت

’’یہ مہر کیا ہے ؟ مردو عورت نکاح کے ذریعے سے مستقل رفاقت کا جو عہد باندھتے ہیں ، اُس میں نان ونفقہ کی ذمہ داریاں ہمیشہ سے مرد اٹھاتا رہا ہے ، یہ اُس کی علامت    (token)ہے ۔ قرآن میں اِس کے لیے ’صَدُقَة‘ اور ’اَجَر‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی وہ رقم جو عورت کی رفاقت کے صلے میں اُس کی ضرورتوں کے لیے دی جائے ۔‘‘ (میزان  ۴۱۹)

نکاح کے موقع پر بیوی کو مہر کی ادائیگی کی نوعیت اور حکمت کو مختلف اہل علم نے مختلف پہلوؤں سے واضح کیا ہے۔ مثلا ً ایک عمومی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ نکاح میں  مہر کی صورت میں عوض کی ادائیگی شرعاً اس لیے لازم کی گئی ہے تاکہ  عورت کے ساتھ جسمانی تعلق    کا حق حاصل  ہونے کی اہمیت اور قدر وقیمت کو اجاگر کیا جائے۔  سرخسی کے الفاظ میں: ’إنما کان اشتراط العوض فیه شرعًا لإظهار  خطر البضع‘ (المبسوط ۵/ ۸۱)  ۔

شاہ ولی اللہ اس نکتے کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے سماجی سطح پر نکاح کی اہمیت  کو نمایاں کرنا اور  اس کے حوالے سے  حساسیت قائم کرنا مقصود ہے، کیونکہ جس معاملے کے ساتھ کوئی مالی ذمہ داری وابستہ ہو،   وہ فطری طور پر انسانوں کی نظر میں    ایک اہم معاملہ بن جاتا ہے۔  اسی طرح لڑکی کا خاندان بھی اس میں عزت اور تکریم محسوس کرتا ہے کہ  وہ اپنی لخت جگر کو    اہتمام اور ذمہ  داری کے ساتھ  طے کیے جانے والے ایک معاملے کے تحت کسی کے سپرد کر رہے ہیں۔  

شاہ صاحب نے  مہر کی   ایک اور حکمت یہ واضح کی ہے کہ   نکاح کے رشتے کی بنیاد  میاں  بیوی کے مابین یہ مفاہمت ہے کہ  وہ  باہم کچھ ذ مہ داریاں اور پابندیاں  قبول کرتے ہوئے  اس رشتے کو قائم کر رہے ہیں  جن میں سے ایک پابندی یہ ہے کہ اس کو یک طرفہ طور پر    ختم نہیں کیا جا سکے گا۔   بیوی یہ پابندی  اس صورت میں قبول کرتی ہے کہ  اس رشتے کو ختم کرنے کے یک طرفہ   اختیار سے دست بردار ہونا قبول کر لیتی ہے۔  ا س کے مقابلے میں شوہر کو چونکہ  اس کا پابند   کرنا خلاف مصلحت ہے، اس لیے  اس پر مہر کی ادائیگی لازم کی گئی ہے تاکہ  وہ بے سوچے سمجھے  نکاح کو ختم کرنے کا   فیصلہ نہ کر سکے اور     اس کے ساتھ وابستہ مالی نقصان  کے پیش نظر   رشتہ ختم کرنے کا فیصلہ  اسی صورت میں کرے جب ایسا  کرنا ناگزیر ہو (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۱۹۸-  ۱۹۹)۔

مصنف نے اپنی  توجیہ میں    مہر کی معنویت کا ایک اور   اہم پہلو واضح کیا  ہے، یعنی یہ کہ عقد نکاح کے موقع پر یہ اس  ذمہ داری کا علامتی اظہار ہے  جو شوہر  اس  رشتے کے نتیجے میں بیوی کے نان ونفقہ کے حوالے سے  قبول کرتا ہے۔     ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو  یہ حسن معاشرت  اور تطییب قلب  کا بھی مظہر ہے۔   جب شریعت رشتۂ نکاح کو ختم کرتے ہوئے  یہ ہدایت دیتی ہے کہ  عورت کو خوش اسلوبی کے ساتھ اور    شوہر کی مالی استطاعت کے مطابق  کچھ  تحائف دے کر رخصت کیا جائے  تو رشتۂ نکاح قائم کرتے ہوئے   مالی تحفے کے ساتھ  عورت  کا استقبال کرنا  مزید حسن معاشرت  کا  تقاضا بن جاتا ہے۔

مہر کی مقدار

’’مہر کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی گئی ۔ اِسے معاشرے کے دستور اور لوگوں کے فیصلے پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ چنانچہ عورت کی سماجی حیثیت اور مرد کے معاشی حالات کی رعایت سے وہ جتنا مہر چاہیں ، مقرر کر سکتے ہیں۔ ‘‘(میزان ۴۱۹-  ۴۲۰)

مصنف نے اس موقف میں حنفی اہل علم سے اختلاف اور جمہور  اہل علم سے اتفاق کیا ہے۔  جمہور کا استدلال متعدد احادیث سے ہے جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مہر کی مقدار  کے تعین میں  فریقین کی باہمی رضامندی اصل اہمیت رکھتی ہے ۔ مثلاً انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کھجور کی ایک گٹھلی کے برابر سونا دے کر نکاح کیا جس کی قیمت پانچ درہم تھی (صحیح البخاری، رقم  ۳۴۹۷۔ بیہقی، السنن الکبری ٰ، کتاب الصداق، باب  ما یجوز ان یکون مہرا، رقم  ۱۴۳۶۶) ۔ ایک واقعے میں آپ نے شوہر سے کہا کہ وہ مہر کے طور پر لوہے کی ایک انگوٹھی  مہیا کر لے   تو اس کا نکاح کر دیا جائے گا (صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب تزویج المعسر، رقم ۵۰۸۷)۔  عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی نے جوتوں کا ایک جوڑا مہر مقرر کرکے نکاح کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نکاح کو درست قرار دیا (سنن الترمذی، رقم  ۱۰۳۱۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۱۸۷۸ )۔

بعض  سنداً کم زور احادیث  میں یہ بات ایک عمومی  ضابطے کے طور پر بھی بیان کی گئی ہے۔  مثلا  ً  جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص  دو مٹھیاں بھر کر  گندم، جو، ستو یا آٹا  دے دے، اس کے لیے عورت  سے نکاح کرنا حلال ہے (بیہقی، السنن الکبری ٰ، کتاب الصداق، باب  ما یجوز ان یکون مہرا، رقم  ۱۴۳۷۰) ۔ ابن ابی لبیبہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’من استحل بدرهم فقد استحل‘(جس نے ایک درہم دے کر نکاح کیا، اس کے لیے اس کی بیوی حلال ہے) (المصنف لابن ابی شیبہ، رقم ۳۶۱۶۷)۔ اسی طرح ایک موقع پر ایک شخص  کے دریافت کرنے پر   آپ نے فرمایا کہ ’ما تراضی علیه أهلوهم‘ (جس چیز کو مہر بنانے پر ان کے گھر والے راضی ہوجائیں) (المصنف لابن ابی شیبہ، رقم ۳۶۱۶۸،  ۳۶۱۷۳)۔

فقہاے احناف مہر کی کم سے کم مقدار کو شرعاً طے شدہ مانتے ہیں جو ان کے نزدیک دس درہم ہے۔  ان کا استدلال  بعض صحابہ کے آثار اور  بعض مرفوع روایات سے ہے۔   مثلاً جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا مهر دون عشرة دراھم. (السنن الکبری ٰ، رقم  ۱۴۳۸۳)
”دس درہم سے کم مہر مقرر کرنا درست نہیں۔“

اسی طرح سیدنا علی سے  متعدد آثار میں منقول ہےکہ انھوں نے  مہر کی کم سے  کم مقدار دس درہم کو قرار دیا (بیہقی، السنن الکبری ٰ، کتاب الصداق، باب  ما یجوز ان یکون مہرا، رقم  ۱۴۳۸۵)۔

حنفی اہل علم نے مہر کی مقدار  شرعاً مقرر ہونے پر قرآن مجید  کی اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے کہ ’قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِيْ٘ اَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ‘  (الاحزاب۳۳:  ۵۰)۔ ان کا کہنا ہے کہ ’فرض‘ کا لفظ عربی زبان میں   مقدار طے کرنے کے معنی میں آتا ہے، جیسا کہ ’وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيْضَةً‘  (البقرہ ۲: ۲۳۷) کی تعبیر سے واضح ہے۔  اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے مہر کی ایک خاص مقدار مقرر کی ہے۔ تاہم قرآن نے  یہاں صرف اصولی اور اجمالی طور پر  مہر کی مقدار کا  مقرر ہونا   بیان کیا ہے جس کی وضاحت احادیث میں کی گئی  ہے (سرخسی، المبسوط، ۵/ ۱۸)۔ وہ روایات جن سے بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ مہر کی کم از کم مقدارمتعین نہیں یا یہ کہ دس درہم سے کم بھی مہر مقرر کیا جا سکتا ہے، احناف بالعموم ان کی توجیہ یوں کرتے ہیں کہ یہاں پورا مہر مراد نہیں، بلکہ مہر معجل مراد ہے، یعنی مہر کا اتنا حصہ جو فی الفور ادا کیا جائے۔ رہا پورا مہر تو وہ بعد میں بھی کسی وقت ادا کیا جا سکتا ہے (سرخسی، المبسوط ۵/ ۱۸)۔

مصنف نے اس حوالے سے اپنے استدلال کی زیادہ تفصیل  نہیں کی، تاہم  ان کے موقف سے واضح ہے کہ وہ اس بحث  میں  جمہور  اہل علم کے موقف اور استدلال کو زیادہ مضبوط سمجھتے ہیں۔   البتہ سورۂ احزاب کی محولہ آیت میں ’فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ‘ کو مصنف  نے فرض کرنے کے معنی میں لیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرخسی کا اس کو مقدار مقرر کرنے کے مفہوم میں لینا مصنف کے نزدیک  درست نہیں (البیان)۔  اس کا ایک واضح قرینہ یہ  معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ’فرض‘ کا صلہ ’علی‘ آیا ہے جو اس کو لازم کرنے کے معنی میں بالکل متعین کر دیتا ہے۔

زانی مرد یا عورت کے ساتھ نکاح

’’نکاح کے لیے پاک دامن ہونا ضروری ہے۔ کوئی زانی یہ حق نہیں رکھتا کہ کسی عفیفہ سے بیاہ کرے اور نہ کوئی زانیہ یہ حق رکھتی ہے کہ کسی مردعفیف کے نکاح میں آئے ، الاّ یہ کہ معاملہ عدالت میں نہ پہنچا ہو اور وہ توبہ و استغفار کے ذریعے سے اپنے آپ کو اِس گناہ سے پاک کر لیں ۔ ’مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ‘ کے الفاظ یہاں اِسی شرط کے لیے آئے ہیں ۔‘‘ (میزان ۴۲۰)

مصنف نے اس شرط کے حق میں   سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۳ کا بھی حوالہ دیا ہے جو  اس مدعا پر زیادہ واضح دلالت کرتی ہے۔ ارشاد  باری تعالیٰ ہے:

اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةًﵟ وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا٘ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌﵐ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ. (النور ۲۴: ۳)
’’یہ زانی کسی زانیہ یا مشرکہ ہی سے نکاح کرے گا اور اِس زانیہ کو بھی کوئی زانی یا مشرک ہی اپنے نکاح میں لائے گا۔ ایمان والوں پر اِسے حرام کر دیا گیا ہے۔‘‘

اس آیت کے ذیل میں مصنف نے ’’البیان‘‘ میں  لکھا ہے:

’’نکاح کے لیے اسلامی قانون میں یہ شرط ہے کہ وہ صرف اُنھی لوگوں کے مابین ہو سکتا ہے جو پاک دامن ہوں یا توبہ واصلاح کے بعد پاک دامنی اختیار کر لیں۔ قرآن کا یہ ارشاد اُسی کی فرع ہے۔ آیت سے واضح ہے کہ زانی اگر ثبوت جرم کے بعد سزا کا مستحق قرار پا جائے تو اُسے کسی عفیفہ سے نکاح کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہی معاملہ زانیہ کے ساتھ ہو گا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اِس کے بعد وہ اگر نکاح کرنا چاہیں تو اُنھیں نکاح کے لیے کوئی زانی یا مشرک اور زانیہ یا مشرکہ ہی ملے۔ کسی مومنہ کے لیے وہ ہرگز اِس بات کو جائز نہیں رکھتا کہ اپنے آپ کو کسی زانی کے حبالۂ عقد میں دینے کے لیے راضی ہو اور نہ کسی مومن کے لیے یہ جائز رکھتا ہے کہ وہ اِس نجاست کو اپنے گھر میں لانے کے لیے تیار ہو جائے۔ اِس طرح کا ہر نکاح باطل ہے۔‘‘ (۳ / ۴۱۸)

مصنف نے اپنے اس نقطۂ نظر میں جمہور اہل علم سے اختلاف کیا ہے جو  زانی مرد یا عورت کے ساتھ کسی پاک دامن مرد یا عورت کے نکاح کو ممنوع نہیں سمجھتے۔  اس ضمن میں آیت کی تاویل کے حوالے سے  اہل علم سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ اس ممانعت کا روے سخن  ان بدکار عورتوں کی طرف  ہے جو پیشے کے طور پر بدکاری کرتی تھیں اور ان کا زانی ہونا معلوم ومعروف تھا۔    آیت کی شان نزول سے متعلق کتب تفسیر وحدیث میں جو روایات منقول ہیں، ان   سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے۔ مثلاً ایک روایت کے مطابق ایک صحابی مرثد بن ابی مرثد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مکہ کی ایک پیشہ ور زانیہ عناق کے ساتھ  نکاح کرنے کی اجازت چاہی جس کے جواب میں سورۂ نور کی زیر بحث آیت نازل ہوئی اور   نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرثد کو ایسا کرنے سے منع کر دیا  (سنن الترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ النور، رقم ۳۱۷۷)۔ بعض دیگر روایات میں     ام مہزول نامی ایک دوسری بدکار عورت  کے ساتھ ایک آدمی کے ارادۂ نکاح کو اس آیت کے نزول کا سبب قرار دیا گیا ہے (تفسیر ابن کثیر ۱۰ /۱۶۶)۔

سعید بن المسیب وغیرہ سے یہ بھی منقول ہے کہ اس آیت میں اگرچہ زانی مرد یا عورت کے ساتھ نکاح کو ممنوع ٹھیرایا گیا ہے، لیکن  اس کے بعد ’وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰي مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَآئِكُمْ کی عمومی ہدایت  اس کے لیے ناسخ ہے، کیونکہ اس میں  سبھی بے نکاح مردوں اور عورتوں کے نکاح کا بندوبست کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس میں زانی  بھی شامل ہیں (جصاص، احکام القرآن ۵/۱۰۷-  ۱۰۸)  ۔

ان دونوں تاویلات میں آیت میں نہی، یعنی ممانعت کا اسلوب مراد ہونا تسلیم کیا گیا ہے، جب کہ ابوبکر الجصاص نے ایک تاویل یہ بھی ذکر کی ہے جس کی تائید  قاضی ابوبکر ابن العربی بھی کرتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب دراصل  نکاح کی ممانعت بیان کرنا نہیں، بلکہ زانی مردوں کا زانی عورتوں کی طرف اور زانی عورتوں کا زانی مردوں کی طرف رجحان بیان کرنا اور یہ کہنا مقصود ہے کہ زنا دونوں کی رغبت اور رضامندی سے ہوتا ہے  اور دونوں اس گناہ میں برابر کے مجرم ہیں (جصاص، احکام القرآن ۵/۱۰۷-  ۱۰۸۔ ابن العربی، احکام القرآن  ۳/ ۳۳۹) ۔ اس تناظر میں آیت کے آخری جملے، یعنی ’وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ‘ کا تعلق بھی نکاح کی نہیں، بلکہ زنا کی حرمت سے ہے۔

مصنف  نے اس عمومی نقطۂ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے    صحابہ وتابعین کے اس گروہ سے اتفاق کیا ہے جو    اس آیت کی رو سے زانی مرد یا عورت کے لیے کسی پاک دامن مرد یا عورت سے نکاح کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود اور حسن بصری سے یہ  راے اس مزید تخصیص کے ساتھ منقول ہے کہ اس ممانعت کا تعلق ایسے زانی مرد اور عورت سے ہے جن پر  زنا کی حد جاری کی جا چکی ہو (جصاص، احکام القرآن ۵/ ۱۰۸۔ ابن العربی، احکام القرآن  ۳/ ۳۳۷)۔ مصنف نے بھی اسی  تخصیص کے ساتھ اس تاویل کو  قبول کیا ہے اور hمعاملہ عدالت تک پہنچنے سے پہلے پہلے زانی یا زانیہ کے توبہ واستغفار کرنے  کی صورت میں اس ممانعت کے قابل اطلاق نہ ہونے کا استدلال ’’البیان‘‘ میں یوں واضح کیا ہے:

’’...پہلے ’اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ‘ کے بعد اعادۂ معرف باللام کا قاعدہ اِسی پر دلالت کرتا ہے۔ کسی زانی یا زانیہ کی شادی پر، ظاہر ہے کہ قانوناً پابندی اُسی صورت میں لگائی جا سکتی ہے، جب اُس کا جرم ثابت ہو جائے۔‘‘(۳ / ۴۱۸)

جمہور اہل علم کو   اس آیت کو  ممانعت کے ظاہری مفہوم  پر محمول کرنے میں ایک اشکال  یہ درپیش ہے کہ  یہاں زانی کے ساتھ مشرک اور زانیہ کے ساتھ مشرکہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ یوں اس ہدایت کو ممانعت پر محمول کرنے کا ظاہری مطلب یہ بنتا ہے کہ زانی مرد جیسے زانی عورت سے نکاح کر سکتا ہے، اسی طرح کسی مشرک عورت سے بھی کر سکتا ہے۔ اسی طرح زانی عورت کے لیے  بھی کسی زانی مرد کے علاوہ کسی مشرک سے نکاح کا بھی جواز نکلتا ہے، حالاں کہ  قرآن مجید کی واضح ہدایت کی رو سے  کوئی مسلمان مرد یا عورت، چاہے وہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، کسی مشرک مرد یا عورت سے نکاح نہیں کر سکتا (الکیا الہراسی، احکام القرآن ۲/ ۲۹۷)۔

مصنف نے اس اشکال کو یوں حل کیا ہے کہ  یہاں زنا  اور شرک کے یکجا ذکر سے دراصل  قباحت وشناعت  میں ان کی یکسانی اور مماثلت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔     لکھتے ہیں:

’’اِس آیت میں بھی صاف اشارہ ہے اور دوسرے الہامی صحائف سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ زنا اور شرک بالکل مماثل ہیں ۔ جس طرح یہ بات گوارا نہیں کی جا سکتی کہ میاں اور بیوی میں سے کوئی کسی دوسرے کے بستر پر سوئے ، اِسی طرح یہ بات بھی کسی مسلمان کے لیے قابل برداشت نہیں ہو سکتی کہ اُس کے گھر میں خدا کے ساتھ کسی اور کی پرستش کی جائے۔ بلکہ یہ اُس کے نزدیک کسی اور کے بستر پر سونے سے زیادہ قابل نفرت چیز ہے ۔‘‘(میزان ۴۲۰)

یعنی اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرما رہے ہیں کہ زانی مرد اور عورت کسی  پاک دامن مرد یا عورت کے ساتھ نکاح کے لائق نہیں، ان کو  اگر   کوئی نکاح کے لیے قبول کرے تو وہ  بھی زانی یا مشرک ہی ہونا چاہیے۔   یوں یہ زجر وتوبیخ کا ایک اسلوب ہے جس میں  مشرک کے ساتھ نکاح کی کوئی قانونی اجازت بیان نہیں کی گئی، بلکہ  زنا کی قباحت کو واضح کرنے کے لیے اسے شرک کے ہم پلہ اور مماثل ٹھیرایا گیا ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B