HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

غزوۂ بنو قريظہ

سیرت النبی

ترجمہ و تحقیق: محمد رفیع مفتی

 

ــــــ ۱ ــــــ

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنهَا، قَالَتْ۱: أُصِيبَ سَعْدٌ يوْمَ الخَنْدَقِ، رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ قرَيْشٍ، يقَالُ لَهُ حِبَّانُ بْنُ العَرِقَةِ وَهُوَ حِبَّانُ بْنُ قيْسٍ، مِنْ بَنِي مَعِيصِ بْنِ عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، رَمَاهُ فِي الأَكْحَلِ، فَضَرَبَ النَّبِيُّ ﷺ خَيْمَةً فِي المَسْجِدِ لِيعُودَهُ مِنْ قَرِيبٍ، فلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مِنَ الخَنْدَقِ وَضَعَ السِّلاَحَ وَاغْتَسَلَ، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَهُوَ ينفُضُ رَأْسَهُ مِنَ الغُبَارِ۲، فقَالَ: قَدْ وَضَعْتَ السِّلاَحَ، وَاللهِ مَا وَضَعْتُهُ، اخْرُجْ إِلَيْهِمْ،۳ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ’’فَأَيْنَ‘‘ فَأَشَارَ إِلَى بَنِي قرَيْظَةَ، فَأَتَاهُمْ رَسُولُ اللهِ ﷺ فنزَلُوا عَلَى حُكْمِهِ، فرَدَّ الحُكْمَ إِلَى سَعْدٍ، قَالَ: فَإِنِّي أَحْكُمُ فِيهِمْ أَنْ تقْتَلَ الْمُقَاتِلَةُ۴، وَأَنْ تُسْبَى النِّسَاءُ وَالذُّرِّيَّةُ، وَأَنْ تقْسَمَ أَمْوَالُهُمْ، [فقَالَ النَّبِيُّﷺ: ’’لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘۵، ۶].

عائشہ رضی الله عنہا سے روايت ہے،   وه كہتی ہيں كہ جنگ خندق كے دنوں میں سعد بن معاذ رضی الله عنہ زخمی ہو گئے۔ اُنهيں قريش كے قبيلہ بنو معيص بن عامر بن لؤی كے ايك آدمی حبان بن عرقہ نے بازو كی رگ میں تير ماراتها۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے بعد اُن كے ليے مسجد میں ايك خيمہ لگوا ديا تا كہ آپ قريب ہی سے اُن كی عيادت كر سكيں۔پهر آپ خندق سے لوٹے، اپنا اسلحہ ركها اور غسل فرمايا  تو جبريل عليہ السلام سر سے غبار جهاڑتے ہوئے آپ كے پاس آئے اور كہا  كہ آپ نے اسلحہ ركھ ديا ہے؟ بخدا، میں نے تو نہيں ركها، اِن كی طرف نكليے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچها: كس طرف؟   اِس پر اُنهوں نے بنو قريظہ كی طرف اشاره كيا۱۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم اِس کے امتثال میں اُن پر (حملے كے ليے) پہنچے،  تو(كئی دن كے محاصرے كے بعد بالآخر) آپ كے حكم پر وه  اپنے قلعوں سے اتر آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اِس كے بعد فيصلے كا اختيار سعد بن معاذ رضی الله عنہ كو سونپ ديا۲۔ انهوں نے فرمايا: ميرا فيصلہ تو پھر يہی ہے كہ اِن كے سب لڑنے والے قتل كيے جائيں،  اِن كی عورتوں اور بچوں  كو قيدی بنا ليا جائے اور اِن كے اموال لوگوں میں تقسيم كر ديے جائيں۳۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے يہ سنا تو فرمايا :تم نے تو گويا الله ہی كے فيصلے كے مطابق فيصلہ كيا ہے۴۔

________

۱۔ زمانۂ رسالت کی جنگیں کس طرح اور کس کے حکم پر ہوئیں اور اُن میں اللہ کے فرشتے کس طرح ہر موقع پر شامل رہے، اِس کی کچھ حقیقت اِس واقعے سے سمجھی جا سکتی ہے۔

۲۔ یہ اختیار خود بنو قریظہ کے کہنے پر سونپا گیا تھا۔ دوسری روایتوں میں صراحت ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے پہلے اُن سے اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عہد لیا تھا کہ جو فیصلہ وہ کریں گے، اُسے فریقین بغیر کسی تردد کے  قبول کر لیں گے۔

۳۔ اِس قدر سخت فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ آخری درجے کے جنگی مجرم تھے۔ مدینہ پر عین بیرونی حملے کے موقع پر بدعہدی کر کے اِنھی نے مدینہ کے لوگوں کو تباہ و برباد کر دینے کا سامان کیا تھا۔ پھر یہی نہیں، سعد رضی اللہ عنہ کے فیصلے کے بعد جب مسلمان اِن کی گڑھیوں میں داخل ہوئے تو مورخین بیان کرتے ہیں کہ اُنھوں نے دیکھا کہ مدینہ پر عقب سے حملہ کرنے کے لیے اِن غداروں نے ۱۵ سو تلواریں، تین سو زرہیں، دو ہزار نیزے اور پندرہ سو ڈھالیں اپنے ہاں جمع کر رکھی تھیں۔ اگر اللہ کی تائید شامل حال نہ ہوتی تو یہ ظالم اِس ساز و سامان کے ساتھ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑنے کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ ملاحظہ ہو: الطبقات الكبریٰ،  ابن سعد۲/ ۷۵ ۔

۴۔ یہ آپ نے اِس لیے فرمایا کہ رسولوں کے معاندین اور اُن سے برسر جنگ ہو جانے والے منکرین کی یہی سزا قرآن میں بیان ہوئی ہے۔ملاحظہ ہو: المائدہ ۵: ۳۳-۳۴۔


متن کے حواشی

۱۔      اِس روايت كا متن صحيح بخاری، رقم ۴۱۲۲ سے ليا گيا ہے۔ اِس كی راوی عائشہ رضی الله عنہا ہيں۔ الفاظ كے  كچھ فرق كے ساتھ يہی مضمون سعد بن ابی وقاص ، انس بن مالك اور عبدالله بن كعب رضوان الله عليہم سے بهی روايت ہوا ہے۔

عائشہ رضی الله عنہا سے  اِس كے جو متابعات نقل ہوئے ہیں، اُن كے مراجع يہ ہيں:  مصنف ابن ابی شيبہ، رقم ۳۶۸۲۶۔مسند احمد، رقم۲۴۲۹۴، ۲۴۲۹۵، ۲۴۹۹۴، ۲۶۳۹۹۔   المنتخب من مسند عبد بن حميد، رقم ۱۴۸۸۔ صحيح بخاری، رقم۴۶۳، ۲۸۱۳، ۴۱۱۷۔ صحيح مسلم، رقم ۱۷۶۹۔ سنن ابی داؤد، رقم ۳۱۰۱۔سنن نسائی، رقم ۷۱۰۔السنن الكبریٰ، نسائی، رقم ۷۹۱۔ مسند ابی يعلیٰ، رقم۴۴۷۷۔صحيح ابن خزيمہ، رقم ۱۳۳۳۔مستخرج ابی عوانہ، رقم ۶۷۰۸، ۶۷۱۴،  ۶۷۱۷۔ مسند عائشہ، ابن ابی داؤد،ص ۸۲۔شرح مشكل الآثار،طحاوی، رقم ۵۰۰۶، ۵۰۰۷۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۹۶، ۵۳۲۵۔  المحلی بالآثار، ابن حزم، رقم ۴۹۸۔ دلائل النبوة، بیہقی ، ۴/۵، ۴/۲۵، ۷/۶۶۔السنن الكبریٰ، بیہقی ، رقم۶۵۸۷، ۱۸۱۸۵۔

سعد بن ابی وقاص  رضی الله عنہ سے اِس كےشواہد کے لیے دیکھیے: مسند سعد بن ابی وقاص، رقم ۲۰۔ المنتخب من مسند عبد ابن حميد، رقم ۱۴۹۔السنن الكبریٰ، نسائی، رقم ۵۹۰۶،۸۱۶۶۔ الاسماء والصفات، بیہقی ، رقم ۸۸۵۔

انس بن مالك  رضی الله عنہ سے  اِس كے شاہد کے لیے ملاحظہ ہو:  الطبقات الكبرىٰ، ابن سعد۲/ ۵۸۔

عبدالله بن كعب رضی الله عنہ  سے  اِس كے شاہد كا مرجع يہ ہے: دلائل النبوة،بیہقی ۴/ ۷۔

۲۔بعض روايات، مثلاً مسند احمد، رقم ۲۴۹۹۴  میں  اِس كے بجاے ’’’كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام مِنْ خَلَلِ الْبَابِ قَدْ عَصَبَ رَأْسَهُ مِنَ الْغُبَار. ‘‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی  ’’میں دروازے كی جهری سے گويا جبريل عليہ السلام كو اِس وقت بهی اِس حال میں ديكھ رہی ہوں كہ اُن كا سر غبار سے اٹا ہوا ہے۔‘‘

۳۔ بعض روايات، مثلاً مستخرج ابی عوانہ، رقم ۶۷۱۷ میں اِس كے بجاے الفاظ ہیں:’’’يَا مُحَمَّدُ قَدْ وَضَعْتُمْ سِلَاحَكُمْ، وَمَا وَضَعْنَا أَسْلِحَتَنَا بَعْدُ، انْهَدْ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ‘‘‘، ’’اے محمد، آپ لوگوں نے اپنا اسلحہ اتار ديا ہے، جب كہ ہم (ملائكہ) نے ابهی تك اپنا اسلحہ نہيں اتارا۔ آپ بنو قریظہ پر حملے کےلیے چلیں‘‘۔

  بعض روايات، مثلاً دلائل النبوة، بیہقی ۴/۷ میں اِس كے بجاے جبريل عليہ السلام كے جو الفاظ روایت ہوئے ہيں،  وہ یہ ہیں: ’عَذِيرَكَ مِنْ مُحَارِبٍ؛ أَلَا أَرَاكَ قَدْ وَضَعْتَ اللَّأْمَةَ وَمَا وَضَعْنَاهَا بَعْدُ، قَالَ: فَوَثَبَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَزِعًا، فَعَزَمَ عَلَى النَّاسِ أَلَّا يُصَلُّوا صَلَاةَ الْعَصْرِ حَتَّى يَأْتُوا بَنِي قُرَيْظَةَ‘، ’’میں آپ سے جنگ كرنے والے كے مقابل میں آپ كا مددگار! میں ديكھ رہا ہوں كہ آپ نے تو اپنی زره اتار دی ہے اور ہم (فرشتوں ) نے نہيں اتاری۔ نبی صلی الله عليہ وسلم اِس پر گهبرا كر اٹهے اور آپ نے لوگوں كو بہت تاكيد کے ساتھ ہدایت فرمائی كہ وه عصر كی نماز بنو قريظہ ہی میں جا كر پڑهيں‘‘۔

۴۔ بعض روايات، مثلاً مسند سعد بن ابی وقاص، رقم ۲۰ میں اِس كے بجاے ’اَنْ يُقْتَلَ مِنْهُمْ كُلَّ مَنْ جَرَتْ عَلَيْهِ الْمُوسَى‘، ’’اِن میں سے ہر بالغ قتل كيا جائے‘‘كے الفاظ  آئے ہيں۔

۵۔ مسند احمد، رقم ۲۴۲۹۵۔

۶۔  بعض روايات، مثلاً السنن الكبریٰ، نسائی، رقم ۵۹۰۶ میں اِس جگہ یہ جملہ نقل ہوا ہے: ’’’حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ اللهِ الَّذِي حَكَمَ بِهِ فَوْقَ سَبْعِ سَمَوَاتٍ‘‘‘، ’’تو نے اِن كے بارے میں سات آسمانوں كے اوپر الله كے فيصلے كے مطابق فيصلہ كيا ہے‘‘۔


ــــــ ۲ ــــــ

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ۱، أَنَّهُ قَالَ: رُمِيَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، فَقَطَعُوا أَبْجَلَهُ، فَحَسَمَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّارِ، فَانْتَفَخَتْ يَدُهُ فَنَزَفَهُ، فَحَسَمَهُ أُخْرَى، فَانْتَفَخَتْ يَدُهُ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَالَ: اللَّهُمَّ لَا تُخْرِجْ نَفْسِي حَتَّى تُقِرَّ عَيْنِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ، فَاسْتَمْسَكَ عِرْقُهُ فَمَا قَطَرَ قَطْرَةً.

جابر رضی الله عنہ سے روايت ہے ، وه كہتے ہيں  كہ جنگ احزاب میں سعد بن معاذ رضی الله عنہ كو تير مارا گيا  ، جس سے اُن كے  بازو كی رگ كٹ گئی۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس پر اُن کے زخم كو آگ سے داغ ديا۔ لیکن ہوا یہ کہ اُن کا ہاتھ پھول گیا۔ آپ نے اُن کے پھولے ہوئے ہاتھ سے خون نکالا اور ایک مرتبہ پھر اُس کو داغا، لیکن ہاتھ اِس کے بعد بھی پھول گیا۔سعد بن معاذ نے یہ صورت حال ديكهی  تو دعا فرمائی كہ اے  الله ،ميری جان اُس وقت تك نہ نكالنا، جب تك ميری آنكهيں بنو قريظہ كے انجام سے ٹهنڈی نہ ہو جائيں۱۔ اُن كی رگ كا بہتا ہوا خون اِس دعا کے نتیجے میں رك گيا اور اِس کے بعد ايك قطره بهی نہیں بہا۔

________

۱۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بنوقریظہ کے جرائم کو اُن کے ایک حلیف قبیلے کے سردار کس نظر سے دیکھ رہے تھے۔


متن کے حواشی

۱۔   اِس روايت كا متن سنن دارمی ، رقم ۲۵۵۱سے ليا گيا ہے،  اِس كے راوی جابر رضی الله عنہ ہيں۔ الفاظ كے بہت معمولی فرق كے ساتھ اِس كے متابعات سنن ترمذی، رقم ۱۵۸۲اور صحيح ابن حبان، رقم ۴۷۸۴میں  ديكهے جا سكتے ہيں۔


ــــــ ۳ ــــــ

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ۱، أَنَّ أَهْلَ قُرَيْظَةَ لَمَّا نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، أَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ عَلَى حِمَارٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ، أَوْ إِلَى خَيْرِكُمْ‘‘ فَقَالَ: ’’إِنَّ هَؤُلَاءِ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِكَ‘‘، قَالَ: إِنِّي أَحْكُمُ أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُهُمْ، وَتُسْبَى ذَرَارِيُّهُمْ، قَالَ: ’’لَقَدْ حَكَمْتَ بِحُكْمِ الْمَلِكِ‘‘.

     ابو سعيد خدری  رضی الله عنہ سے روايت ہے ، انهوں نے بتايا كہ بنو قريظہ جب اپنے بارے میں سعد بن معاذ سے فيصلہ كرانے پر راضی ہو كر قلعوں سے اتر آئے  تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنهيں بلا بهيجا ۔وه ايك گدهے پر سوار ہو كر آئے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں دیکھا تو لوگوں سے کہا: اٹهو  اور آگے بڑھ كر اپنے سردار يا کہا کہ اپنے بہترين آدمی کا استقبال کرو۔ اِس کے بعد آپ اُن کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا:  سعد، يہ اپنے بارے میں تجھ سے فيصلہ كرانے پر راضی ہو كر اترے ہيں۱۔اِس پر سعد نے کہا: ميرا فيصلہ يہ ہے كہ اِن كے جنگ جو افرا د قتل كر دیے جائيں اور اِن كے اہل و عیال كو قيدی بنا ليا جائے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا: تم نے تو گويا  كائنات كے بادشاه كے فيصلے كے مطابق فيصلہ کر دیا ہے۔

________

۱۔ وہ غالباً اِس امید پر راضی ہوئے تھے کہ زمانۂ جاہلیت میں سعد بن معاذ کے قبیلہ اوس اور بنی قریظہ کے درمیان جو حلیفانہ تعلقات چلے آ رہے تھے، وہ اُن کا لحاظ کریں گے اور اُنھیں بھی اُسی طرح مدینہ سے نکل جانے دیں گے، جس طرح اِس سے پہلے بنی قینقاع اور بنی النضير کو نکل جانے دیا گیا تھا۔


متن کے حواشی

۱۔ اِس روايت كا متن مسند احمد، رقم  ۱۱۶۸۰ سے ليا گيا ہے،  اِس كے راوی ابو سعيد خدری رضی الله عنہ ہيں۔ الفاظ كے بہت معمولی فرق كے ساتھ  اِس كے متابعات جن مصادر میں ديكهے جا سكتے ہيں، وہ یہ ہیں:

مسند ابی داؤد طيالسی، رقم ۲۳۵۴۔  سنن سعيد بن منصور، رقم ۲۹۶۴۔ مصنف ابن ابی شيبہ، رقم ۳۶۸۳۰۔ مسند احمد، رقم ۱۱۱۶۸، ۱۱۱۷۰، ۱۱۱۷۱، ۱۱۶۸۰۔   المنتخب من مسند عبد بن حميد ، رقم ۹۹۵۔ الاموال،ابن زنجويہ،  رقم ۵۳۷۔صحيح بخاری، رقم ۳۰۴۳، ۳۸۰۴ ، ۴۱۲۱، ۶۲۶۲۔ الادب المفرد،  رقم ۹۴۵۔ صحيح مسلم، رقم ۱۷۶۸۔ سنن ابی داؤد، رقم ۵۲۱۵۔ السنن الكبرىٰ ، نسائی، رقم ۵۹۰۵، ۸۱۶۵، ۸۶۲۵۔ مسند ابی يعلىٰ، رقم ۱۱۸۸۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم ۶۷۱۸، ۶۷۱۹، ۶۷۲۰، ۶۷۲۱۔ مكارم الاخلاق ،خرائطی، رقم ۵۳۳۔ صحيح ابن حبان، رقم ۷۰۲۶۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۵۳۲۳۔ التوحيد ، ابن منده، رقم ۸۴۰۔ حليۃ  الاولياء وطبقات الاصفيا ۳/۱۷۱۔ معرفۃ الصحابۃ، ابو نعيم،رقم  ۳۱۱۲۔ السنن الكبرىٰ ، بیہقی، رقم  ۱۱۳۱۴، ۱۸۰۱۷،    ۱۸۱۸۴۔ شعب الايمان، بیہقی، رقم ۸۵۲۸،  ۸۵۲۹۔ دلائل النبوة ، بیہقی ۴/۱۸۔  الآداب ، بیہقی ، رقم ۲۴۱۔ المدخل الى السنن الكبرىٰ،  بیہقی، رقم ۷۰۷۔ معرفۃ السنن والآثار، بیہقی،رقم ۱۱۸۸۰، ۱۱۸۸۱۔ الفقيہ والمتفقہ ،خطيب بغدادی ۱/۴۸۲۔ الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع ، خطيب بغدادی،   رقم ۳۰۰۔

 اِس روايت كا شاہد  جابر رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے  ، اُس كا مرجع يہ ہے:  سنن ترمذی، رقم ۱۵۸۲۔


ــــــ ۴ ــــــ

عَنِ ابْنِ عُمَرَ۱ [قَالَ۲  ]: ’’أَنَّ يَهُودَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقُرَيْظَةَ، حَارَبُوا رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَأَجْلَى رَسُولُ اللهِ ﷺ بَنِي النَّضِيرِ، وَأَقَرَّ قُرَيْظَةَ وَمَنَّ عَلَيْهِمْ حَتَّى حَارَبَتْ قُرَيْظَةُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَتَلَ رِجَالَهُمْ، وَقُسِّمَ نِسَاءَهُمْ وَأَوْلَادَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، إِلَّا بَعْضَهُمْ لَحِقُوا بِرَسُولِ اللهِ ﷺ، فَأَمَّنَهُمْ وَأَسْلَمُوا، وَأَجْلَى رَسُولُ اللهِ ﷺ يَهُودَ الْمَدِينَةِ كُلَّهُمْ: بَنِي قَيْنُقَاعٍ وَهُمْ قَوْمُ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلَامٍ، وَيَهُودَ بَنِي حَارِثَةَ، وَكُلَّ يَهُودِيٍّ كَانَ بِالْمَدِينَةِ‘‘.

ابن عمر رضی الله عنہ  سے روايت ہے، وه كہتے ہيں:  بنو نضير اور بنو قريظہ كے يہود نے  رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ كی تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضير كو تو جلا وطن كر ديا اور بنوقريظہ پر احسان كيا اور انهيں اُسی جگہ پر رہنے ديا،جہاں وہ مقیم تھے، یہاں تک کہ اِس کے بعد بنوقريظہ بھی برسر جنگ ہو گئے۔ چنانچہ آپ نے اُن كے مردوں كو قتل كرا ديا اور اُن كی عورتوں، بچوں اور اُن کے اموال كو مسلمانوں كے درمیان تقسيم كر ديا۱۔ اُن میں سے كچھ لوگ، البتہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملے تو آپ نے اُنهيں پناه دے دی اور وه اسلام لے آئے۔ (تاہم اِن سب مراحل کے بعد) رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے، بالآخر  مدينے كے تمام يہوديوں كو جلاوطن كرديا۔ بنو قينقاع كو بهی، دراں حالیكہ وه عبدالله بن سلام كی قوم تهی اور بنو حارث كے يہود  كو بهی، یہاں تک كہ مدينہ كے ہر يہودی كو اِس شہر سے نکال دیا گیا۔

________

۱۔ بنو قریظہ کے اِن قیدیوں کے بارے میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے کا یہی تقاضا تھا۔ پیچھے گزر چکا ہے کہ اُنھوں نے فیصلے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اِس کی پابندی کا عہد لیا تھا، لہٰذا آپ بھی اِس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے تھے۔ہم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون جہاد‘‘ میں ’’اسیران جنگ‘‘ کے زیرعنوان اِسی بنا پر لکھا ہے کہ بنو قریظہ کے یہ قیدی اُس قانون سے مستثنیٰ تھے جو قیدیوں کو فدیہ لے کر یا احسان کے طور پر رہا کرنے سے متعلق سورۂ محمد (۴۷) کی آیت ۴ میں بیان ہوا ہے۔


متن کے حواشی

۱۔اِس روايت كا متن مصنف عبد الرزاق، رقم ۹۹۸۸ سے ليا گيا ہے۔ اِسے ابن عمر رضی الله عنہ روايت كررہے ہيں۔الفاظ كے كچھ فرق كے ساتھ اِس كے متابعات اِن مراجع میں ديكھ ليے جا سكتے ہيں:

مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۹۳۶۴۔مسند احمد، رقم ۶۳۶۷۔ صحيح بخاری، رقم ۴۰۲۸۔صحيح مسلم، رقم ۱۷۶۶۔سنن ابی داؤد، رقم ۳۰۰۵۔ المنتقى،ابن جارود، رقم ۱۱۰۰۔مستخرج ابی عوانہ، رقم ۶۷۰۲۔ السنن الكبرىٰ،  بیہقی، رقم۱۲۸۵۳، ۱۲۹۸۲،  ۱۸۲۶۲، ۱۸۸۵۷، ۱۸۸۹۰۔

۲۔ صحيح بخاری، رقم ۴۰۲۸۔


ــــــ ۵ ــــــ

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ۱: لَمْ يُقْتَلْ مِنْ نِسَائِهِمْ - تَعْنِي بَنِي قُرَيْظَةَ - إِلَّا امْرَأَةٌ، إِنَّهَا لَعِنْدِي تُحَدِّثُ تَضْحَكُ ظَهْرًا وَبَطْنًا وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْتُلُ رِجَالَهُمْ بِالسُّيُوفِ، إِذْ هَتَفَ هَاتِفٌ بِاسْمِهَا أَيْنَ فُلَانَةُ؟ قَالَتْ: أَنَا. قُلْتُ: وَمَا شَأْنُكِ؟ قَالَتْ: حَدَثٌ أَحْدَثْتُهُ. قَالَتْ: فَانْطَلَقَ بِهَا فَضُرِبَتْ عُنُقُهَا، فَمَا أَنْسَى عَجَبًا مِنْهَا أَنَّهَا تَضْحَكُ ظَهْرًا وَبَطْنًا وَقَدْ عَلِمَتْ أَنَّهَا تُقْتَلُ.

عائشہ رضی الله عنہا سے روايت ہے، وه كہتی ہيں : بنو قريظہ كی عورتوں میں سے ايك ہی عورت قتل كی گئی تهی۔  وه اُس وقت ميرے  پاس بيٹهی ہوئی باتيں كر رہی اور خوب كهلكهلا کر ہنس رہی تهی ،  جب کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اُن كے آدميوں  كو تلواروں سے قتل كرا رہے تهے۔ پهر اچانك ايك پکارنے والے نے اُس كے نام سے پکارا كہ فلاں عورت كہاں ہے؟ وه بولی :میں يہاں ہوں۔  آپ فرماتی ہيں كہ میں نے پوچها : تيرا كيا معاملہ ہے؟ اُس نے كہا : میں نے ايك جرم كيا تها۔ چنانچہ وه اُسے  لے گئے اور اُس كی گردن مار دی گئی۔  سیدہ کا ارشاد ہے: میں اُس كے بارے میں آج بهی اپنی حيرانی كو نہيں بهلا پائی كہ وه كهلكهلا كر ہنستی رہی، حالاں كہ اُسے اپنے مارے جانے كا يقين تها۱۔

________

۱۔ اِس کے شواہد تاریخ میں جگہ جگہ دیکھ لیے جا سکتے ہیں کہ مذہبی جذبے سے کیے جانے والے جرائم کے مرتکبین سزا کے موقعوں پر بالعموم اِسی طرح کے رویوں کا اظہار کرتے رہے ہیں۔


متن کے حواشی

۱۔ اِس روايت كا متن سنن ابی داؤد، رقم ۲۶۷۱  سے ليا گيا ہے۔اِس كی راوی عائشہ رضی الله عنہا ہيں۔ الفاظ كے معمولی فرق كے ساتھ يہ روايت  مسند احمد، رقم ۲۶۳۶۴  میں بهی منقول ہے۔


المصادر والمراجع

ابن الجارود أبو محمد عبد الله بن علي بن الجارود النيسابوري. (1408هـ – 1988م) . المنتقى من السنن المسندة. ط 1. تحقيق: عبد الله عمر البارودي. بيروت: مؤسسة الكتاب الثقافية.

ابن أبي داود أبو بكر عبد الله بن سليمان بن الأشعث الأزدي السجستاني. (1405هـ). مسند عائشة رضي الله عنها. ط 1. تحقيق: عبد الغفور عبد الحق حسين. الكويت: مكتبة الأقصى.

ابن أبي شيبة أبو بكر عبد الله بن محمد العبسي. (1409هـ). الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار. ط 1. تحقيق: كمال يوسف الحوت. الرياض: مكتبة الرشد.

ابن حبان أبو حاتم محمد بن حبان بن أحمد بن حبان التميمي الدارمي البُستي. (1414هـ – 1993م). صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان. ط 2. تحقيق: شعيب الأرنؤوط.

ابن حزم أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي القرطبي الظاهري . (2016م). المحلى بالآثار. بدون طبعة. بدون تحقيق. بيروت: دار الفكر.

ابن خزيمة أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة السلمي النيسابوري. (1424هـ - 2003م). صحيحُ ابن خُزَيمة. ط 3. تحقيق: الدكتور محمد مصطفى الأعظمي. المكتب الإسلامي.

ابن خزيمة أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة السلمي النيسابوري. (1424ه- 2003م). صحيحُ ابن خُزَيمة. ط 3. تحقيق: الدكتور محمد مصطفى الأعظمي. دارالنشر: المكتب الإسلامي.

ابن راهويه أبو يعقوب إسحاق بن إبراهيم الحنظلي المروزي. (1412هـ – 1991م). مسند إسحاق بن راهويه. ط 1. تحقيق: د. عبد الغفور بن عبد الحق البلوشي. المدينة المنورة: مكتبة الإيمان.

ابن زنجويه أبو أحمد حميد بن مخلد بن قتيبة بن عبد الله الخرساني. (1406ه - 1986م). الأموال. ط 1. تحقيق: شاكر ذيب فياض الأستاذ المساعد. السعودية: مركز الملك فيصل للبحوث والدراسات الإسلامية.

ابن سعد أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء البصري البغدادي. (1408ه). الطبقات الكبرى. ط 2. تحقيق: زياد محمد منصور. المدينة المنورة: مكتبة العلوم والحكم.

ابن منده أبو عبد الله محمد بن إسحاق بن محمد بن يحيى بن مَنْدَه العبدي. (1423هـ - 2002م). التوحيد ومعرفة أسماء الله عز وجل وصفاته على الاتفاق والتفرد. ط 1. تحقيق: الدكتور علي بن محمد ناصر الفقيهي الأستاذ المشارك في قسم الدراسات العليا بالجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة. المدينة المنورة: مكتبة العلوم والحكم. سوريا: دار العلوم والحكم.

الآجُرِّيُّ أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله البغدادي. (1420ه - 1999م). الشريعة. ط 2. تحقيق: الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي. الرياض: دار الوطن.

الباني محمد ناصر الدين بن الحاج نوح الألباني. (1412هـ - 1992م). سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة. ط 1. الرياض: مكتبة المعارف.

البخاري محمد بن إسمٰعيل بن إبراهيم بن المغيرة. (1409هـ – 1989م). الأدب المفرد. ط 3. تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار البشبئر الاسلامية.

البخاری محمد بن اسمٰعيل  الجعفي. (1422هـ). الجامع الصحيح. ط 1. تحقيق: محمد زهير بن ناصر الناصر. بيروت: دار طوق النجاة.

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين الخُسْرَوْجِردي الخراساني. (1412هـ - 1991م). معرفة السنن والآثار. ط 1. تحقيق: عبد المعطي أمين قلعجي. كراتشي (باكستان): جامعة الدراسات الإسلامية، دمشق: دار قتيبة، حلب: دار الوعي، القاهرة: دار الوفاء.

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين الخُسْرَوْجِردي الخراساني. (1412هـ - 1991م). الآداب. ط 1. تحقيق: ابو عبد الله السعيد المندوهبيروت: مؤسسة الكتب الثقافية.

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني. (1410ه - 1989م). السنن الصغير. ط 1. تحقيق: عبد المعطي أمين قلعجي. كراتشي: جامعة الدراسات الإسلامية.

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني. (1423ه- 2003م). شعب الإيمان. ط 1. تحقيق: حققه وراجع نصوصه وخرج أحاديثه: الدكتور عبد العلي عبد الحميد حامد، أشرف على تحقيقه وتخريج أحاديثه: مختار أحمد الندوي، صاحب الدار السلفية ببومباي الهند. الرياض: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالتعاون مع الدار السلفية ببومباي بالهند.

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني. (1424ه - 2003م). السنن الكبری. ط 3. تحقيق: عبد المعطي أمين قلعجي. بيروت: دار الكتب العلمية.

البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني. (2015م). المدخل إلى السنن الكبرى. ط 1. تحقيق: محمد ضياء الرحمٰن الأعظمي. الكويت: دار الخلفاء للكتاب الإسلامي.

البيهقی أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني. (1413ه - 1993م). الأسماء والصفات للبيهقي. ط 1. تحقيق: عبد الله بن محمد الحاشدي. جدة: مكتبة السوادي.

الترمذي أبو عيسى محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك. (1395ه- 1975م). سنن الترمذي. ط 2. تحقيق وتعليق: أحمد محمد شاكر (ج1، 2) ومحمد فؤاد عبد الباقي (ج3) وإبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف (ج4، 5). مصر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي.

الخطيب البغدادي أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي البغدادي. (1416هـ - 1996م). الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع. ط 3. تحقيق: محمود الطحان. الرياض: مكتبة المعارف.

الخطيب البغدادي  أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي. (1421هـ). الفقيه و المتفقه. ط 2. تحقيق: أبو عبد الرحمٰن عادل بن يوسف الغرازي. السعودية: دار ابن الجوزي.

الدَّوْرَقي أبو عبد الله أحمد بن إبراهيم بن كثير العبدي. (1407هـ). مسند سعد بن أبي وقاص. ط 1. تحقيق: عامر حسن صبري. بيروت: دار البشائر الإسلامية.

الدارمي أبو محمد عبد الله بن عبد الرحمٰن التميمي السمرقندي. (1412هـ - 2000م). مسند الدارمي المعروف بـ (سنن الدارمي). ط 1. تحقيق: حسين سليم أسد الداراني. المملكة العربية السعودية: دار المغني للنشر والتوزيع.

الضياء ابو أحمد محمد عبدالله عبدالرحمٰن الأعظمي. (1437هـ - 2016م). الجامع الكامل في الحديث الصحيح الشامل. ط 1. السعودية: دار السلام للنشر والتوزيع.

الطبراني أبو القاسم سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي. (1415ه - 1994م). المعجم الكبير. ط 1. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفي. القاهرة: مكتبة ابن تيمية.

الطبري أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الآملي. (1387ه - 1967م). تاريخ الطبري (تاريخ الرسل والملوك، وصلة تاريخ الطبري). ط 2. تحقيق: محمد أبو الفضل إبراهيم. بيروت: دار التراث.

الطحاوي أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة بن عبد الملك بن سلمة الأزدي الحجري المصري. (1415هـ - 1994م). شرح مشكل الآثار. ط 1. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. دار النشر: مؤسسة الرسالة.

الطيالسي أبو داود سليمان بن داود بن الجارود البصرى. (1419هـ - 1999م). مسند أبي داود الطيالسي. ط 1. تحقيق: الدكتور محمد بن عبد المحسن التركي. مصر: دار هجر.

القاسم بن سلاّم أبو عُبيد القاسم بن سلاّم بن عبد الله الهروي البغدادي. (1428هـ - 2007م). كتاب الأموال. ط 1. تحقيق: خليل محمد هراس. بيروت: دار الفكر.

الكَشّي أبو محمد عبد الحميد بن حميد بن نصر. (1408هـ - 1988م). المنتخب من مسند عبد بن حميد. ط 1. تحقيق: صبحي البدري السامرائي، محمود محمد خليل الصعيدي. القاهرة: مكتبة السنة.

النسائي أبو عبد الرحمٰن أحمد بن شعيب بن علي الخراساني. (1421ه - 2001م). السنن الكبرى. ط 1. تحقيق: حسن عبد المنعم شلبي. أشرف عليه: شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة.

النسائی أبو عبدالرحمٰن أحمد بن شعيب الخراساني. (1406ه – 1986م). المجتبى من السنن. ط 2. تحقيق : عبدالفتاح أبو غدة. حلب: مكتب المطبوعات الإسلامية.

أبو داود السجستاني أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي  السِّجِسْتاني. (1430ه - 2009 م). سنن أبي داود. ط 1. تحقيق: شعيب الأرنؤوط وآخرون. دار الرسالة العالمية.

أبو عوانة يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم النيسابوري الإسفراييني. (1419هـ - 1998م). مستخرج أبي عوانة. ط 1. تحقيق: أيمن بن عارف الدمشقي. بيروت: دار المعرفة.

أبو نعيم الأصبهاني أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران. (1409ه). حلية الأولياء وطبقات الأصفياء. ط 2. بدون تحقيق. بيروت: دار الكتاب العربي.

أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني. (1419هـ - 1998م). معرفة الصحابة. ط 1. تحقيق: عادل بن يوسف العزازي. الرياض: دار الوطن للنشر.

أبو يعلى أحمد بن علي التميمي الموصلي. (1404ه – 1984م). مسند أبي يعلى. ط 1. تحقيق: حسين سليم أسد. دمشق: دار المأمون للتراث.

أحمد بن الحسين النيسابوري أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني. (1405ه). دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة. ط 1. بيروت: دار الكتب العلمية.

أحمد بن محمد بن حنبل أبو عبد الله الشيباني. (1416هـ - 1995م). مسند الإمام أحمد بن حنبل. ط 1. تحقيق: أحمد محمد شاكر. القاهرة: دار الحديث.

أحمد بن محمد بن حنبل أبو عبد الله الشيباني. (1416هـ - 1995م). مسند الإمام أحمد بن حنبل. ط 1. تحقيق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، وآخرون. إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي. دار النشر: مؤسسة الرسالة.

أحمد بن محمد بن حنبل أبو عبد الله الشيباني. (1421هـ - 2001م). مسند الإمام أحمد بن حنبل. ط 1. تحقيق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، وآخرون. إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي. دار النشر: مؤسسة الرسالة. بيروت: مؤسسة الرسالة.

سعيد بن منصور الخراساني أبو عثمان سعيد بن منصور بن شعبة الخراساني الجوزجاني. (1403ه - 1982م). سنن سعيد بن منصور. ط 1. تحقيق: حبيب الرحمٰن الأعظمي. الهند: الدار السلفية.

عبد الرزاق بن همام الحميري أبو بكر عبد الرزاق بن همام بن نافع اليماني الصنعاني. (1403هـ). المصنف. ط 2. تحقيق: حبيب الرحمٰن الأعظمي. الهند: المجلس العلمي.

عبد العظيم بن عبد القوي المنذري أبو محمد عبد العظيم بن عبد القوي بن عبد الله المنذري، الشامي، المصري. (1407هـ - 1987م). مختصر صحيح مسلم. ط 7. تحقيق: محمد ناصر الدين الألباني. بيروت: المكتب الإسلامي.

مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري. (1996م). المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. ط 1. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

معمر بن أبي عمرو الأزدي أبو عروة معمر بن أبي عمرو راشد الأزدي الحداني المهلبي البصري. (1403ه). الجامع معمر بن راشد. ط 2. تحقيق: حبيب الرحمٰن الأعظمي. باكستان: المجلس العلمي، بيروت: توزيع المكتب الإسلامي.

هشام بن عمار أبو الوليد هشام بن عمار بن نصير بن ميسرة بن أبان السُّلمي الظفري الدمشقي.  (1419هـ - 1999م). حديث هشام بن عمار. ط 1. تحقيق: د. عبد الله بن وكيل الشيخ. السعودية: دار إشبيليا.

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B