سفرنامہ
محمد بلال
طواف کے سات چکر مکمل ہو چکے تھے۔ مگر ’’مقامِ ابراہیم‘‘ کے پاس دو نوافل ادا کرنے کا موقع ابھی تک نہ ملا تھا ۔ ابوبکر نے مجھے حجرِ اسود کے سامنے برآمدوں کی بیرونی دیوار کے اوپر دو درمیانے سائز کی جلتی ہوئی ٹیوبیں دکھائیں ۔ یہ وہی لائٹیں تھیں جن کے بارے میں حج و عمرہ کی کتابوں میں ’’سبز نشان‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ میں جب بھی ’’سبز نشان‘‘ کے الفاظ پڑھتا تھا تو میرے ذہن میں سبز رنگ کے نشانوں کا تصور ابھرتا تھا جب میں نے ان نشانوں کو دیکھا تو صورتِ حال اس تصور سے مختلف تھی۔ اگر میرا کزن مجھے نہ بتاتا کہ یہ ٹیوبیں ہی دراصل وہ نشان ہیں تو شاید میں وہاں سبز پینٹ کے نشان تلاش کرتا رہتا۔ بہرحال اس ’’سبز نشان‘‘ کے ساتھ ہی صفا اور مروہ لکھا ہوا تھا اور تیر کے اشارے سے ان پہاڑیوں کے مقام کی جانب اشارہ بھی کر دیا گیا تھا۔
اب ہمارا مختصر قافلہ صفا کی جانب چلا۔ وہاں جا کر پہلے ہم نے ایک برآمدے میں دو نوافل ادا کیے جو ’’مقام ابراہیم‘‘ کے پاس نہیں پڑھ پائے تھے۔ نوافل ادا کرنے کے بعد قریب ہی موجود واٹر کولر سے آبِ زم زم پیا۔ آبِ زم زم مجھے پاکستان میں پہلے بھی کئی بار پینے کی سعادت حاصل ہو چکی ہے، مگرمسجدِ حرام میں جب اس تبرک کو اپنے جسم میں اتارا تو ایسی فرحت محسوس ہوئی جوناقابلِ بیان ہے۔
صفا مروہ کی اصل پہاڑیاں تو وہاں اب ایک خوب صورت ائیرکنڈیشنڈ برآمدے کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ دیواروں پر شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں ہیں۔ البتہ ان برآمدوں کے پتھروں کے تراشے ہوئے ہموار فرش میں بعض مقامات پر ہموار اترائی اور چڑھائی موجود ہے۔ اس سے لطیف سا احساس ہوتا ہے کہ ہم کسی پہاڑی پر سعی کر رہے ہیں۔ البتہ صفا کی پہاڑی کا ایک چھوٹا سا حصہ اسی صورت میں محفوظ ہے۔ اس پر لوگ بیٹھے مختلف سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ اکثر لوگ وہاں بیٹھ کر قرآنِ مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ بعض لوگ اس میں کوئی ہموار جگہ پا کر نوافل ادا کر رہے تھے۔ اسی طرح مروہ کا بھی ایک حصہ اسی شکل میں محفوظ ہے، مگر یہ حصہ برآمدوں کے فرش کے نیچے ہے۔ اس حصے کے اوپر انتظامیہ نے شیشے کی مانند شفاف مادہ لگا دیا ہے۔ اس مادے کا فرش ہموار ہے البتہ اس کے اندر سے مروہ کی پہاڑی کا غیر ہموار حصہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ ان برآمدوں میں آب زم زم کے بہت سے خوب صورت واٹر کولر موجود ہیں۔ ائیرکنڈیشنر کی ٹھنڈی ہوا ان برآمدوں کی دیواروں کے مختلف مقامات سے نکل کر لوگوں کے جسم سے ٹکرا رہی تھی اور ان کو آرام اور سکون دے رہی تھی ان برآمدوں کے درمیان وہیل چیئرز پر ضعیف، بیمار اور عمر رسیدہ لوگوں کی سعی کا اہتمام تھا۔
صفا وہی پہاڑی ہے جس پر کھڑے ہو کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم قریش کو سب سے پہلے علانیہ دعوتِ حق دی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پر چڑھ کر یہ آواز لگائی: ’’وا صباحاہ‘‘ (ہائے صبح ) .... (اہلِ عرب کے تمدن میں یہ دستور تھا کہ وہ کسی دشمن کے حملے سے آگاہ کرنے کے لیے کسی بلند مقام پر چڑھ کر انھی الفاظ سے پکارتے تھے۔ گویا یہ ایک قدرتی اسٹیج تھا) یہ پکار سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم قریش کے قبائل آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ پہاڑ کے عقب سے تم پر حملہ کرنے کے لیے ایک لشکر آ رہا ہے تو تم یقین کر لو گے ؟ سب نے کہا : ہاں ۔ کیونکہ ہم نے تم کو ہمیشہ سچ بولتے دیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا : اچھا تو میں یہ کہتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر شدید عذاب نازل ہو گا۔ میں تمھیں اس عذاب سے خبردار کرنے والا بناکربھیجا گیا ہوں۔ یہ سن کر سب لوگ ، جن میں ابولہب (آپ کا چچا) بھی شامل تھا، سخت برہم ہوکر واپس چلے گئے۔
انھی پہاڑیوں کے متعلق حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کے وہ مشہور واقعات ہیں جو حج و عمرہ کے ساتھ معنوی نسبت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں بھی سید شبلی نعمانی کی ’’سیرت النبی‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے چند تحقیقی نوعیت کے قیمتی اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں:
’’حضرت ابراہیم کی شریعت میں قربانی کرنا اور خدا پر نذر چڑھانا ایک بات تھی یعنی دونوں کے لیے ایک ہی لفظ استعمال کرتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بچہ کو فلاں معبد میں قربانی چڑھادو تو اس کے یہ معنی تھے کہ وہ اس معبد کی خدمت اور مجاورت کے لیے گھر سے الگ کر دیا جائے، لیکن یہ لفظ جب جانوروں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا تو حقیقی قربانی کے معنی مراد ہوتے تھے ..... حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں بیٹے کی قربانی کا جو حکم ہوا تھا ، اس سے بھی یہی مراد تھی کہ بیٹے کو معبد کی خدمت کے لیے نذر چڑھا دیں۔ حضرت ابراہیم نے پہلے اس خواب کو عینی اور حقیقی سمجھا اور اس لیے بعینہٖ اس کی تعمیل کرنی چاہی، لیکن بعد میں ظاہر ہوا کہ وہ تمثیلی خواب تھا ..... حضرت ابراہیم کو جو خواب دکھایا گیا تھا، اس سے یہ مراد تھی کہ بیٹے کو کعبہ کی خدمت کے لیے نذر چڑھا دیں۔ یعنی وہ کسی اورشغل میں مصروف نہ ہوں، بلکہ کعبہ کی خدمت کے لیے وقف کر دیے جائیں۔ تورات میں جابجا قربانی کا لفظ ان معنوں میں آیا ہے .... اس بنا پر حضرت ابراہیم نے بیٹے کو خانۂ خدا کی خدمت کے لیے خاص کر دیا اور جو شرطیں قربانی کی تھیں، قائم رکھیں۔..... تورات میں قربانی گاہ کا جو موقع بتایا ہے وہ ’’مریا‘‘ ہے۔ مورہ کی نسبت تورات میں تصریح ہے کہ عرب میں واقع ہے۔ تمام واقعات اور قرائن کو پیشِ نظر رکھا جائے تو ثابت ہو جائے گا کہ یہ لفظ مورہ نہیں بلکہ مروہ ہے جو مکۂ معظمہ کی پہاڑی ہے اور جہاں اب سعی کی رسم ادا کی جاتی ہے۔..... عرب کی روایات ، قرآنِ مجید کی تصریح، احادیث کی تعیین تمام چیزیں اس قیاس سے اس قدر مطابق ہوتی جاتی ہیں کہ اس قسم کا تطابق بغیر صحتِ واقعہ کے ممکن نہیں۔ تفصیل اس کی یہ ہے: حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مروہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : ’’قربانی گاہ یہ ہے اور مکہ کی تمام پہاڑیاں اور گھاٹیاں قربانی گاہ ہیں۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مروہ میں قربانی نہیں ہوتی تھی بلکہ منیٰ میں ہوتی تھی جو مکہ سے تین میل پر ہے، تاہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مروہ ہی کو قربانی گاہ فرمایا۔ یہ اسی بنا پر تھا کہ حضرت ابراہیم نے یہیں حضرت اسماعیل کی قربانی کرنی چاہی تھی۔
قرآنِ مجید میں ہے: ’’پھر قربانی کے جانوروں کی جگہ کعبہ ہے۔ (سورۂ حج آیت ۳۳ )قربانی جو کہ کعبہ میں پہنچے۔‘‘ ( سورۂ مائدہ ، آیت ۹۵)
مروہ بالکل کعبہ کے مقابل اور اس کے قریب ہے۔ ان آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی کی اصلی جگہ کعبہ ہے، منیٰ نہیں ، لیکن جب حجاج کی کثرت ہوئی تو کعبہ کے حدود کو منیٰ تک وسعت دے دی گئی ..... حضرت ابراہیم کو جب خدا نے بیٹے کی قربانی کا حکم دینا چاہا تو پکارا۔ اے ابراہیم! حضرت ابراہیم نے کہا ’’میں حاضر ہوں۔‘‘ حج کے وقت مسلمان جو ہر قدم پر لبیک کہتے چلتے ہیں یہ وہی ابراہیمی الفاظ ہیں جن کا لفظی ترجمہ وہی ہے: ’’میں حاضر ہوں۔‘‘ شریعتِ ابراہیمی میں دستور تھا کہ جس کو قربان گاہ پر چڑھاتے تھے یا خدا کی نذر دیتے تھے ، وہ بار بار معبد یا قربانی گاہ کے پھیرے کرتا تھا۔ حج میں صفا و مروہ کے درمیان جو سات بار سعی کرتے ہیں یہ اسی کی یادگار ہے۔..... قرآنِ مجید میں فرمایا ہے: ’’اور حضرت اسمٰعیل کی قربانی کے بدلے ہم نے ایک بڑی قربانی قائم کی،‘‘(سورۂ صافات، آیت ۳ )مسلمانوں کا نام جومسلم رکھا گیا ہے یہ وہ نام ہے جو حضرت ابراہیم نے ایجاد کیا تھا۔ قرآنِ مجید میں ہے: ’’تمھارے باپ ابراہیم کا مذہب اسی نے پہلے تمھارا نام مسلمان رکھا۔‘‘ (سورۂ حج، آیت ۷۸)
اس تسمیہ کی تاریخ قربانی سے شروع ہوتی ہے، یعنی حضرت ابراہیم نے حضرت اسمٰعیل کو قربانی کرنا چاہا اور ان سے کہا کہ ’’مجھ کو خدا کا یہ حکم ہوا تمھاری کیا رائے ہے ؟‘‘ تو حضرت اسمٰعیل نے نہایت استقلال کے ساتھ گردن جھکا دی کہ یہ سر حاضر ہے اس موقع پر خدا نے ’’اسلما‘‘ کا لفظ استعمال کیا جو اسلام سے ماخوذ ہے اور جس کے معنی ’’تسلیم‘‘ اور حوالہ کر دینے کے ہیں۔
’’پھر جب دونوں نے اپنے آپ کو (ہمارے) حوالہ کر دیا۔‘‘ (سورۂ صافات، آیت ۱۰۳)
i حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل کا سب سے بڑا عظیم الشان کارنامہ تسلیم و رضا ہے یعنی جب قربانی کا حکم ہوا تو باپ بیٹے دونوں نے بے عذر گردنیں جھکا دیں۔ یہ وصف مقبولِ بارگاہ ہوا۔ اور پھر حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل کا یہی شعار مذہبی قرار پایا۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیم نے اپنے پیروانِ ملت کا نام مسلم رکھا۔‘‘(ص ۹۴-۹۹)
سعی کے دوران میں بھی پاؤں میں ہلکا سا درد محسوس ہوا، مگر خدا کے لیے درد سہنے کی مشق کا تصور ذہن میں آیا تو درد کی شدت کا احساس کم ہو گیا۔ سعی کا عمل ب توقف جاری رکھا ۔ پھر قدیم لوگوں کی سعی کا خیال آیا ، میں نے سوچا : ان کی سعی کس قدر مشکل اور پر ُ مشقت تھی اور ہماری سعی کس قدر آسان اور پر ُ سکون ہے۔
سعی کے بعد ہم حرم سے باہر نکلے۔ سر منڈوانے کے لیے ایک حجام کی دکان میں داخل ہوئے۔ حجام شاید پاکستانی تھا۔ میری باری آئی تو اس نے پوچھا : استرا یا مشین۔ میں ذاتی طور پر بڑے بال رکھنا پسند کرتا ہوں۔ ایک خیال آیا : مشین ہی پھروا لیتے ہیں۔ سر کے اوپر کچھ تو بال رہیں ۔ مگر اس وقت مجھے وہ ملاقات یاد آ گئی جو سعودی عرب آنے سے قبل میں نے الاستاذ محترم جاوید احمد غامدی سے کی تھی۔ جب ان سے اس مسئلے پر بات ہوئی تو انھوں نے کہا تھا: ’’بال بالکل صاف کرا دینے سے صحیح روح پیدا ہوتی ہے اور بڑا لطف آتا ہے۔‘‘
جاوید صاحب کی بات یاد آتے ہی مخلوق کی خوش نودی پر خالق کی رضا حاصل کرنے کے جذبے نے غلبہ حاصل کر لیا۔ میں نے علامتی طور پر اللہ کا ’’آئیڈیل غلام‘‘ بننے کا عزم کیا اور مضبوط لہجے میں حجام کو جواب دیا: استرا۔ اور مشین کے خیال کو ذہن کے کباڑ خانے میں پھینک دیا ۔
میرے والد صاحب بھی ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے سر کے بال پہلے ہی کم ہیں، چنانچہ وہ جلدی فارغ ہو گئے۔ میں بالعموم بڑے بال رکھتا ہوں۔ بالوں سے پاک ہونے کے بعد جب آئینہ دیکھا تو میری شکل بالکل بدل چکی تھی۔ مجھے اپنا آپ اجنبی سا محسوس ہوا ۔ میری شکل بدلنے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ میرے پاس کھڑے میرے والد صاحب نے ابوبکر سے کہا: ’’بلال کہاں گیا ہے ؟‘‘ یہ الفاظ سنتے ہی میرے لیے ہنسی روکنا ناممکن ہو گیا۔
پھر ہوٹل کے کمرے میں آئے۔ غسل کیا۔ چائے پی۔ مگر بیت اللہ کو دیکھنے اس کے پاس وقت گزارنے کی ’’پیاس‘‘ تاحال باقی تھی۔ میں اور ابوبکر تھوڑی دیر کے بعد باہر نکل گئے ۔ کچھ ضروری خرید و فروخت کے سلسلے میں چند دکانوں سے ہو کر مسجدِ حرام کا رخ کیا ۔
بیت اللہ کے قریب پہنچے۔ نمازِ تراویح ختم ہو چکی تھی۔ اس لیے طواف کرنے والوں کا دائرہ بڑھ چکا تھا۔ ہم پھر طواف کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔ حجرِ اسود کو بوسہ دینے اور حطیم میں نوافل ادا کرنے کی تشنۂ تکمیل خواہش پھر بے چین کرنے لگی۔
بیت اللہ کے ساتھ حجرِ اسود کو بوسہ دینے والوں کی تین قطاریں بنی ہوئی تھیں۔ ہم بھی ایک قطار میں شامل ہو گئے۔ میں قطار کے اس حصے میں شامل ہوا جو طواف کرنے والوں کے لیے رکاوٹ بن رہا تھا، لہٰذا چند لمحوں کے بعد ایک سپاہی نمودار ہوا اور اس نے مجھے قطار سے الگ کر دیا۔ ابوبکر بھی قطار سے باہر آ گیا۔ ہم نے ایک اور چکر لگایا۔ اب قطار کچھ مختصر ہو چکی تھی۔ ہم فوراً پھر قطار میں کھڑے ہو گئے ۔ آہستہ آہستہ سرکتے ہوئے حجرِاسود کے پاس پہنچا۔ حجرِ اسود اندر سے پیالے کی طرح ہو چکا ہے۔ میں نے جھک کر فوراً اس کا بوسہ لیا اور اس پر ہاتھ پھیرا۔ ہاتھ پھیرا ہی تھا کہ سپاہی نے آگے بڑھنے کے لیے کہا۔ اس وقت ہم بیت اللہ کے بالکل قریب ہو گئے تھے، اس لیے حطیم میں بھی جگہ مل گئی، لہٰذا وہاں نوافل ادا کرنے کی سعادت بھی حاصل کر لی۔
اسی اثنا میں موسم نے ایک کروٹ لی۔ بوندا باندی شروع ہو گئی، مگر اس کا لوگوں کے طواف کرنے کے عمل پر کوئی اثر نہ ہوا ۔
طواف مکمل کرنے کے بعد ہم مسجدِ حرام کے برآمدوں کی طرف بڑھ گئے۔ برآمدے میں بہت سے لوگ سوئے ہوئے تھے، جن میں بعض عورتیں بھی شامل تھیں۔ بعض لوگوں نے تیز ٹھنڈی ہوا کے باعث قالین کو اپنے اوپر اوڑھ لیا تھا۔ بیت اللہ اوپر سے کیسا دکھائی دیتا ہے، اس خواہش کی تکمیل کے لیے ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلے گئے ۔ جب ہم اوپر پہنچے تو بارش بہت تیز ہو چکی تھی۔ وہ بہت غیرمعمولی منظر تھا ۔ تیز بارش اور تیز ہوا۔ مگر طواف کرنے والوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی تھی، بلکہ اضافہ ہو رہا تھا۔ ملتزم کے ساتھ چپکے ہوئے لوگ بدستور چپکے ہوئے تھے۔ بیت اللہ کے خوب صورت پرنالے سے پانی تیز ہوا کی وجہ سے دھار کے بجائے پھوار بن کر گر رہا تھا اور بہت سے لوگوں کو سیراب کر رہا تھا۔ سیاہ غلاف میں لپٹا ہوا بیت اللہ اور اس کا سفید فرش۔ پھر طواف کرنے والوں میں سفید احرام اور سیاہ برقعے۔ سیاہ اور سفید رنگ کا عجیب امتزاج تھا۔ تیز ہوا کے باعث بارش کا پانی پھوار بن کر ہمارے چہروں پر بھی پڑ رہا تھا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے برسوں کی پیاس بجھ رہی ہے۔ بہت مسرور کن اور مسحور کن سکون وجود میں اتر رہا تھا ۔
ابوبکر نے بتایا: ’’سعودی عرب میں بارش بہت کم ہوتی ہے۔ مجھے پاکستان کے موسم بہت یاد آتے ہیں۔ سعودی عرب میں موسموں میں وہ تنوع نہیں ہے جو پاکستان میں ہے۔‘‘ اس وقت ابوبکر بھی بہت مسرور اور مسحور تھا۔
پھر ہم صفا و مروہ کے برآمدے کی چھت پر چلے گئے، جو ظاہر ہے اوپر والی منزل کا فرش تھا۔ اس کی کھڑکی سے ابوبکر نے مجھے وہ گھر دکھایا جہاں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش ہوئی تھی، جسے اب ایک لائبریری بنا دیا گیا تھا۔ اس ’’لائبریری‘‘ کے قریب مسجدِ حرام کی صفائی کرنے والی مشینیں کھڑی تھیں۔ تاریخی اعتبار سے ایک انتہائی غیر معمولی مقام کے ساتھ یہ ’’سلوک‘‘ اچھا نہیں لگا۔ اس کھڑکی سے سعودی عرب کے حکمرانوں کے محلات کی بلند عمارتیں بھی نظر آ رہی تھیں۔ وہ محل اتنا بلند تھا کہ مسجد حرام کے مینار بھی اس سے نیچے دکھائی دے رہے تھے۔ پھر اس محل کی شان کا مقابلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ پیدایش کی حالت سے کیا تو دل افسردہ ہو گیا۔ پھر وہاں موجودہ شاپنگ سینٹروں کی عمارتوں کی بلندی کو دیکھا تو وہ بھی مسجدِ حرام کے میناروں کو پیچھے چھوڑ چکی تھیں۔
(جاری)
___________