قارئین ’’اشراق‘‘ کے خطوط و سوالات پر مبنی جوابات کا سلسلہ
سوال:مساجد کے خطیب پل صراط کا بہت ذکر کرتے ہیں کہ روزِ محشر اس پر سے گزرنا ہو گا جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے تیز ہوگا۔ اس سے گزر کر ہی جنت تک پہنچا جا سکے گا اور اس کے نیچے جہنم ہو گا۔ لیکن یہ بات کبھی کسی ثقہ عالم سے سننے کا اتفاق نہیں ہوا۔ میری گزارش ہے کہ اس کی شرعی نقطۂ نظر سے وضاحت کر دیں ؟ (محمد زبیر خان، لاہور)
جواب: پل صراط کا تصور حدیث پر مبنی ہے۔ روایات میں بیان ہوا ہے کہ قیامت کے دن دوزخ کے اوپر ایک پل تان دیا جائے گا،جس سے لوگوں کو گزرنا ہو گا۔متعدد روایات میں اس پل کا ذکر ہوا ہے اور اس کے مختلف پہلو سامنے آئے ہیں۔بخاری میں ہے :
یضرب السراط بین ظهری جهنم. فأکون أنا و أمتی أول من یجیزھا. و لا یتکلم یومئذ إلا الرسل و دعوی الرسل یومئذ اللھم سلم سلم. وفی جهنم کلالیب مثل شوک السعدان. ھل رأیتم السعدان؟ قالوا: نعم، یا رسول اﷲ. قال فإنھا مثل شوک السعدان غیر أنه لا یعلم قدر عظمھا إلا اﷲ تخطف الناس بأعمالھم. (کتاب التوحید، باب۲۴ )
’’ جہنم کے کناروں پر ایک پل ٹکا دیا جائے گا۔ میں اور میری امت پہلے لوگ ہوں گے جو اسے پار کریں گے۔ اس روز خدا کے فرستادوں کے سوا کوئی بات نہیں کرے گا اور اس روزان کی پکارہو گی: اے خدا یا، سلامتی ہو، سلامتی ہو۔ جہنم میں سعدان[1] کے کانٹوں کی مانند کھونٹے ہوں گے۔ کیا تم نے سعدان دیکھا ہے ؟ لوگوں نے بتایا : ہاں، اے اللہ کے رسول۔ آپ نے فرمایا : پس یہ سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے، مگر ان کی بڑی جسامت کی مقدار سے اللہ ہی واقف ہے۔ یہ لوگوں کو ان کے اعمال کی پاداش میں اچک لیں گے۔‘‘
اسی باب کی ایک اور روایت میں ہے:
ثم یؤتی بالجسر فیجعل بین ظهری جهنم. قلنا: یا رسول اﷲ، و ما الجسر؟ قال: مدحضة مزلة. علیه خطاطیف، و کلالیب، و حسکة مفلطحة، لھا شوکة عقیفاء تکون بنجد یقال لھا: السعدان. المؤمن علیھا کالطرف، و کالبرق، و کالریح، وکأجاوید الخیل، والرکاب. فناج مسلم، وناج مخدوش، ومکدوش فی نار جهنم.
’’پھرایک پل لایا جائے گا اور اسے جہنم کے کناروں پر ٹکا دیا جائے گا۔ ہم نے پوچھا : اے اللہ کے رسول، یہ پل کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ایک پھسلانے اور لڑھکانے والا۔ اس پر آنکڑے، کھونٹے، لمبے کیے ہوئے کانٹے ہوں گے۔اس کے کانٹے مڑے ہوئے ہوں گے جو نجد میں پائے جاتے ہیں اور انھیں سعدان کہا جاتا ہے۔سچے مؤمن اس پر سے آنکھ کے جھپکے، بجلی (کی چمک)، ہوا (کے جھونکے)، گھوڑوں اور سواروں کی سرعتوں کی طرح (گزر جائیں گے )۔ کچھ کامیاب صحیح سالم اور کچھ زخم زخم ہوں گے اور گھائل جہنم میں ہوں گے۔‘‘
مسلم میں یہ تصریح بھی ہے :
قال أبو سعید: بلغنی أن الجسر أدق من الشعر و أحد من السیف.(کتاب الایمان، باب ۸۱)
’’ابو سعیدبیان کرتے ہیں : مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ یہ پل بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے۔‘‘
قرآن مجید میں اس پل کا کوئی ذکر نہیں ہے۔اس وجہ سے اس پل کی حقیقت سمجھنے میں ہمیں قرآنِ مجید سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ قرآنِ مجید میں قیامت کے بعض احوال بیان ہوئے ہیں، لیکن ان میں اشارۃً بھی اس پل کا حوالہ نہیں ہے،مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس پل کا انکار کر دیا جائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیز قرآنِ مجید میں بیان کیے گئے احوال سے متضاد نہیں ہے۔ اس پل کا ذکر سن کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزمایش کا مرحلہ دنیا میں گزر چکا ہے، اب کسی آزمایش کی کیا ضرورت ہے ؟یہ سوال اس پل کی حقیقت کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ پل کوئی نئی آزمایش نہیں ہے بلکہ اسی دنیا کی آزمایش کی تمثیل ہے۔ دنیا کی یہ زندگی بھی ایک پل ہے۔ اس کے نیچے جہنم ہے۔ پل کے اوپراطراف میں بیٹھے شیطان انسان کو نیچے گرانے کے درپے ہیں۔ دنیا کا یہ پل اور اس پر یہ سفر کا فہم ہم عقل کی سطح پر حاصل کرتے ہیں۔ قیامت میں یہی پل ایک مشہود حقیقت بن جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی اس آزمایش کو بھی ایک تمثیل میں بیان کیا ہے۔مسند احمد میں ہے :
عن نواس بن سمعان الأنصاری رضی اﷲ عنه عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم قال: ضرب اﷲ مثلا صراطا مستقیما و علی جنبتی الصراط سوران. فیھما أبواب مفتحة وعلی الأبواب ستور مرخاة وعلی باب الصراط داع یقول أیھا الناس ادخلوا الصراط جمیعا ولا تتفرجوا و داع یدعو من جوف الصراط. فإذا أراد یفتح شیئا من تلک الأبواب، قال: ویحک لا تفتحه فإنک إن تفتحه تلجه. والصراط الإسلام. والسوران حدود اﷲ تعالٰی. والأبواب المفتحة محارم اﷲ تعالٰی. و ذلک الداعی علی رأس الصراط کتاب اﷲ عزوجل. والداعی فوق الصراط واعظ اﷲ فی قلب کل مسلم. (حدیث نواس بن سمعان کلابی انصاری)
’’حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدھے راستے کی ایک مثال دی تھی کہ اس کے دونوں طرف فصیلیں ہیں۔ ان میں کھلے ہوئے دروازے ہیں۔ ان پر پردے لٹکے ہوئے ہیں۔راستے کے دروازے پر ایک داعی ہے جو کہتا ہے : اے لوگو، اس راستے میں اکٹھے داخل ہو جاؤ اور ایک دوسرے سے دور دور نہ رہو۔ ایک داعی راستے کے دوران میں بلاتا ہے۔ جب کوئی چاہتاہے کہ وہ ان دروازوں میں سے کسی کو کھولے تو وہ کہتا ہے : تو اس دروازے کو نہ کھول، کیونکہ اگر تو نے اس کو کھولا تو اس میں داخل ہو جائے گا۔ یہ راستہ اسلام ہے۔ یہ فصیلیں اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں۔ یہ کھلے ہوئے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرمتیں ہیں۔یہ راستے کے سرے پر کھڑا داعی صاحب ِجلال آقا اللہ کی کتاب ہے اور یہ راستے کا داعی اللہ کاوہ واعظ ہے جو ہر مسلمان کے دل میں ہے۔‘‘
راستے کی اس مثال اور پل صراط میں گہری مماثلت ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس فصیل کے دروازے وہاں آنکڑے اور خم دار میخیں بن جائیں گے۔جس نے یہاں دروازے کھول کر خدا کی حدود سے تجاوز کیا ہے، وہی ان آنکڑوں اور میخوں کا ہدف ہو گا۔
________
سوال: ہر سال بینکاپنی مرضی سے ہمارے اکاؤنٹ سے زکوٰۃ کاٹ لیتا ہے۔ ہم اکثر اخباروں میں پڑھتے رہتے ہیں کہ زکوٰۃ فنڈ خوردبرد ہو گیا ہے۔ زکوٰۃ فنڈ سے فلاں وزیر نے بنگلا بنا لیا۔ فلاں نے گاڑیاں خرید لیں۔کبھی لکھا ہوتا ہے کہ زکوٰۃ نہیں پہنچ رہی۔ اور کبھی یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ فلاں علاقے کے زکوٰۃ کمیٹی کے چیئرمین ملوث پائے گئے۔یہ بھی سنا تھا کہ زکوٰۃ دینی مدرسوں کو نہیں دی جارہی، وغیرہ۔ آپ سے پوچھنا ہے کہ:
۱۔ ایسی صورت میں بینک سے زکوٰۃ کٹوا دینا صحیح ہے یا نہیں۔ یعنی جبکہ زکوٰۃ فنڈ صحیح طور پر مستحق لوگوں کو نہ پہنچ رہا ہو ؟
۲۔ گزشتہ بیس برسوں کے دوران زکوٰۃ فنڈ قائم ہونے کے باوجود ملک سے غربت کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ واقعی زکوٰۃ صحیح طور پر خرچ نہیں ہو رہی اور خوردبرد کی خبریں اور شکایتیں عام ہیں۔کیا پھر بھی ہم بینک سے زکوٰۃ کٹواتے رہیں ؟
۳۔ بینک والے اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ رقم ایک سال سے اکاؤنٹ میں ہے یا نہیں۔ بس وہ تو یکم رمضان کو زکوٰۃ کاٹ لیتے ہیں۔ ابھی ہم نے رمضان سے پہلے مکان بنانے کے لیے قرضہ لیا تھا اور اپنے اکاؤنٹ میں رکھوایا تھا۔ اس پر بھی زکوٰۃ کٹ گئی۔ کیا بینک یا حکومت کا یہ کام صحیح ہے ؟
۴۔ جب زکوٰۃ مستحق لوگوں تک نہ پہنچ رہی ہو اور بینک ہر طرح کے سرمایہ پر کٹوتی کر رہے ہوں اور جب خورد برد کی یقینی خبریں موجود ہوں، اس صورت میں بینک سے زکوٰۃ کٹوانے کے بجائے ہم خود یکم رمضان سے پہلے اپنی رقم بینک سے نکلوا لیں اور اپنی زکوٰۃ کا حساب کرکے کسی دینی مدرسہ یا یتیم خانہ وغیرہ کو دے دیں تو کیا اسلام کی رو سے یہ کوئی جرم تو نہیں ؟
۵۔کیا بینکوں کا سال بھر کا حساب کیے بغیر لوگوں کے اکاؤنٹ سے خواہ وہ ان کی ذاتی رقم ہو یا قرض کی رقم ہو یا امانت ہو زکوٰۃ لے لینا اسلام کی رو سے جائز ہے؟
براہِ کرم تفصیل سے جواب دیں تاکہ ہم آیندہ اسی کی روشنی میں بینک سے زکوٰۃ کٹوانے یا اسے خود ادا کرنے کا فیصلہ کر سکیں۔ (ڈاکٹر حفیظ الرحمان، کراچی )
جواب: عرض ہے کہ زکوٰۃ کی کٹوتی کی اصل ذمہ دار حکومت ہے۔ یہ اسی کا حق ہے کہ وہ زکوٰۃ وصول کرے اور اسے ریاست اور اس کے شہریوں کی بہبود پرخرچ کرے۔ بد عنوانی ایک جرم ضرور ہے اوراس کی اصلاح بھی ہونی چاہیے۔ لیکن یہ چیز حکومت کو زکوٰۃ ادا نہ کرنے کا عذر نہیں بن سکتی۔ہمارے نزدیک، حکومت زکوٰۃ و عشر کے علاوہ کوئی اور ٹیکس نہیں لگا سکتی۔ اور اسے اسی آمدنی سے نظمِ ریاست بھی چلانا ہے اور غریبوں کی مدد بھی کرنی ہے۔ موجودہ نظام ہمارے نزدیک بھی درست نہیں ہے۔ چنانچہ ہم بھی اس کی اصلاح کے لیے بہت سی تجا ویز رکھتے ہیں اور اسے مختلف مواقع پر پیش بھی کرتے رہتے ہیں۔ موجودہ نظام میں چونکہ حکومت نے زکوٰۃ کو محض چیرٹی فنڈ بنا کر رکھ دیا ہے اور وہ حکومت کو زکوٰۃ نہ دینے کو جرم بھی نہیں سمجھتی، اس لیے آپ جیسے چاہیں زکوٰۃ ادا کر سکتے ہیں۔ البتہ ہمارے نزدیک خرابیوں کے باوجود حکومت کو زکوٰۃ ادا کر دینے سے زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے۔
سال گزرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر ہر مال کے بارے میں الگ الگ طے کیا جائے گا کہ اس پر سال گزرا ہے یا نہیں۔ اس معاملے میں سال کا ایک دن کا تقرر ہی اصل قاعدہ ہے۔ سال میں کسی مال پر ایک ہی بار زکوٰۃ لی جائے گی۔ حولانِ حول سے یہی مراد ہے۔البتہ آپ کی یہ بات درست ہے کہ قرض پر لی گئی رقم پر زکوٰۃ نہیں ہونی چاہیے۔یہ واقعی نظام کی خرابی ہے اور اس کی اصلاح بھی ہونی چاہیے اور یہ رقم اگر آپ بینک میں ان دنوں میں نہ رکھتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
اگر آپ چاہیں تو جب تک حکومت زکوٰۃ کی ادائیگی کو لازم نہیں کرتی،اپنی رقوم اور زیورات کی زکوٰۃ خود ادا کر سکتے ہیں۔
________
سوال: آپ کی رائے میں عورت کا اجتماعی اور انتظامی سرگرمیوںمیں حصہ لینا ناموزوں ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ دورِ حاضر میں اس وقت تک کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، جب تک اس کی خواتین بھی اس عمل میں شریک نہ ہوں۔ ظاہر ہے، ملک کی آدھی آبادی کو آپ صرف گھر تک محدود کردیں گے تو وہ آگے کیسے بڑھے گی۔ میرے خیال میں اگر عورت کی اصل ذمہ داری کو نظر انداز کیے بغیر اور اسلامی حدود کا خیال رکھتے ہوئے اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ آپ عورت کے کام کرنے کے شعبوں کو اس کی نفسیات اور مزاج کے حوالے سے محدود تو کر سکتے ہیں۔ مگر ختم کرنا میرے نزدیک مناسب نہیں؟ (محمد صفتین، راولپنڈی)
جواب: آپ کا یہ سوال حقیقت میں اپنے نقطۂ نظر کا بیان ہے۔ ہمیں آپ کی رائے کے آخری جز یعنی عورت کے مزاج،نفسیات اوراسلامی حدود کا خیال رکھتے ہوئے،عورت کا بعض شعبوں میں خدمات انجام دینا ناموزوں نہیں ہے، سے پورا اتفاق ہے بلکہ بعض شعبے ایسے ہیں جن میں عورت کی خدمات سے فائدہ اٹھانا ناگزیر ہے۔البتہ قومی ترقی میں عورت کے کردار کے حوالے سے آپ کا نقطۂ نظرمحلِ نظر ہے۔ موجودہ زمانے میں بعض الفاظ اور تصورات بہت مقبول ہو گئے ہیں۔ لوگ اس مقبولیت کے باعث ان کے حقیقی اطلاق پر غور نہیں کر پاتے اور اسے زمانے کی روش کے مطابق دہراتے رہتے ہیں۔ ’’قومی ترقی میں عورت کا برابری کا کردار ‘‘بھی ایک مقبولِ عام نعرہ ہے۔ اگر ہم قومی ترقی کے تصور کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ درحقیقت زراعت، صنعت اور تجارت میں ترقی کا نام ہے۔ پولیس، عدالتی نظام،تربیت، تعلیم اور صحت کے شعبے ان شعبوں میں ترقی کے معاون شعبے ہیں۔ وہ قومیں جن کو ہم ترقی یافتہ اقوام سمجھتے ہیں ان کی خواتین کا تین بنیادی شعبوں میں کردار مردوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ البتہ معاون شعبوں میں اس کا کردار قدرے زیادہ ہے۔وہاں بھی عورت کو زیادہ تر شو بزنس، معمولی مزدوری یا سیکرٹری شپ کی ملازمت کا شعبہ ہی میسر آتا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ برابری کا تصور محض تصور ہی ہے۔عورت کو برابری کا تصور دے کر اس کے اصل کردار سے محروم کر دینے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکا اورعورت خواہی نہ خواہی مرد کے لیے کھلونا بنی ہوئی ہے۔عورت کی اصل حقیقت ’’ماں ‘‘ہے۔ ماں کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے بہت محدود اوقات میں اس سے بعض شعبوں میں کام لیا جا سکتا ہے۔ اگر اس طرح کا کوئی نظام بنایا لیا جائے کہ عورت اپنے گھر کو نظر انداز کیے بغیر گھر سے باہر بھی کچھ خدمات انجام دے تو یہ ایک مفید صورت ہوگی۔ موجودہ صورت ِ حال میں تو اسلام کے پیشِ نظر گھر اور اخلاقی اقدار سے آنکھیں پھیر کر ہی ’’قومی ترقی ‘‘کا ہدف حاصل کیا جا رہا ہے۔
________
سوال: آپ کی رائے میں ایک غیر مسلم شخص نے اگر زندگی میں نیک کام کیے ہیں اور اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت صحیح طریقے سے اور پوری طرح نہ پہنچی ہو تو امید ہے کہ اللہ اس کا عذر قبول فرمائیں گے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید کو انسان کی فطرت میں رکھا ہے اور اسے عقل سے بھی نوازا ہے۔ آج کل انسان کا رجحان مذہب سے دوری کا ہے۔ آج کا انسان مذہب پر غور و فکر نہیں کرتا۔ اگر ایک شخص نے مذہب کو کوئی اہمیت نہیں دی اور حق کی تلاش میں غور وفکر سے کام نہیں لیا تو اس کا عذر کیسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ کیا عقل سے کام لیتے ہوئے حق کو تلاش کرنا ممکن نہیں ؟ میرا خیال ہے کہ انسان پر عقل سے کام لینا فرض ہے ؟ (محمد صفتین، راولپنڈی)
جواب:مذہب سے دوری کا ایک سبب، ہمارے نزدیک، خود اہلِ مذہب کا رویہ ہے۔ وہ شخص جو مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا ہے، وہ مسلمانوں میں پلتا بڑھتا ہے، وہ مابعد الطبیعیاتی حقائق کے بارے میں سوالات کا جواب بچپن ہی میں پالیتا ہے۔ اسے اپنے دینی فرائض سے بھی بچپن ہی میں آگاہی حاصل ہو جاتی ہے۔اس کی مذہب سے دوری کا سبب مذہب کے بارے میں پھیلا ہوا یہ عمومی تصور بنتا ہے کہ دین کو اختیار کرنے کا لازمی نتیجہ ترکِ دنیا ہے۔ایک ضرورت تو یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے یہ بات واضح کی جائے کہ دین، دنیا کی زندگی گزارتے ہوئے آخرت کمانے کی تعلیمات کا نام ہے۔دوسرا سبب دین کے بارے میں پھیلے ہوئے مختلف تصورات،فقہی اختلافات، عامتہ الناس کی دین کے براہِ راست علم سے محرومی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اصل اور بنیادی دین سے لوگوں کو اس طرح آگاہ کر دیا جائے کہ وہ ان تصورات اور اختلافات کی اہمیت اور مقام کو اس کی جگہ پر رکھ سکیں اور ان میں فرقہ پرستی کے داعیات کمزور ہوں۔ آپ کی یہ بات درست ہے کہ لوگ دین کے حقائق کو سمجھنے کے لیے کوشش نہیں کرتے۔ لیکن اگر اس طرح کے اسباب کو دور کیا جاسکے تو بہت سے لوگ دین کی طرف راغب ہو جائیں گے۔ بنیادی کام غلط افکار کی جگہ صحیح افکار کو فروغ دینا ہے۔ اگر یہ کام ہو جائے تو لوگوں کا اپنی عقل پر اعتماد بحال ہو سکتا ہے اور وہ اپنے اس فطری فریضے کو ادا کرنے والے بن سکتے ہیں کہ وہ معاشرے میں پھیلی ہوئی باتوں میں حق و باطل کی تمیز میں وحی کی روشنی میں اپنی عقل استعمال کریں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ ایک صحرائی کانٹے دار جھاڑی ۔