HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کی حقیقت

محمد مشتاق احمد

 

کچھ عرصہ قبل کویت ہاسٹل انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک لیکچر کے دوران میں ہمارے استادِ محترم یونیورسٹی کے وائس پریزیڈنٹ جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب نے اناجیل میں موجود حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کو ناقابلِ عمل قرار دیا اور دلیل کے طور پر قرون وسطیٰ کے مسیحیوں کے مظالم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ مظالم انھی لوگوں نے ڈھائے تھے جو اس تعلیم کے دعوے دار تھے کہ کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال بھی آگے کر دو۔ مسیحی تعلیمات پر اس انداز میں تنقید کرنے میں غازی صاحب تنہا نہیں ہیں،  مسلم اسکالر بالعموم یہی طرزِ فکر اختیار کرتے ہیں۔ مثلاً صلیبی جنگوں کے دوران میں مسیحیوں کے مظالم پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اور ممتاز اسکالر جناب ڈاکٹر عبد الحمید قادری لکھتے ہیں:

"The orthodox christians  as well as the rational historians bow their heads in shame when recounting the times of crusades. Until about a century when Jerusalem was retaken by the Muslims, the same spirit of savage barbarity ran through various crusades launched from time to time by the christians. The moral turpitude which has been running through the christian polity down the ages, proves upto hilt that the teachings of christianity  which were not teachings of Jesus (Peace be upon him) are in no way divine and are mere figments of human mind, and have all along been a drag on, rather than a spur to the advancement of civilization." (Dimensions of Christianity p.28, Da'wah Academy, IIU  Islamabad, 1989)
’’صلیبی جنگوں کے واقعات دہراتے ہوئے راسخ الاعتقاد   مسیحیوں اور عقلیت پسند مورخین سبھی کے سرشرم سے جھک جاتے ہیں۔  تقریباً ایک صدی بعد تک،  جبکہ مسلمانوں نے یروشلم واپس حاصل کرلیا،  وحشت و بربریت کی یہی روح ان تمام صلیبی جنگوں میں جاری و ساری رہی ، جو وقتا ً فوقتا ً مسیحیوں نے شروع کیں ۔ اخلاقی پستی نے جو تمام ادوار میں  مسیحی حکومتوں کا خاصہ رہی۔  یہ بات قطعی طور پر ثابت کر دی ہے کہ  مسیحیت کی تعلیمات،  جو کہ حضرت  مسیح علیہ السلام کی تعلیمات نہیں تھیں، کسی بھی طرح خدائی تعلیمات نہیں بلکہ محض انسانی ذہن کی اختراع ہیں اور تہذیب کی ترقی میں مفید ہونے کے بجائے اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔‘‘

 اسی طرح مولانا کوثر نیازی مرحوم مسیحی تعلیمات کو ’’بظاہر حد درجہ حسین مگر ناقابلِ عمل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:

’’وعظ تو بہت عمدہ ہے مگر دنیا میں کتنے آدمی ہیں جنھوں نے اس ارشاد پر عمل کیا ہو گا؟ جو مذہب قصاص اور حدود کے اندر رہتے ہوئے جائز انتقام کے تصورات سے خالی ہو ۔ کیا وہ فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ ہے ؟ جنگِ   عظیم اور جنگِ عالم گیر کو تو رہنے دیجیے،  سوال یہ ہے کہ عیسائی دنیا ’’معرکہ ہائے صلیب و ہلال‘‘ میں جس طرح کامل اتفاق سے مسلمانوں کے خلاف صف آرا رہی ہے ، وہ اسی تعلیم کا عملی نمونہ تھا؟‘‘(آئینۂ تثلیث ص ۱۱۲،  مکتبہ شہاب لاہور ۱۹۶۲)

ہمارے نزدیک تنقید کا یہ انداز صحیح نہیں۔  اگرمسیحیوں نے ان تعلیمات پر عمل نہیں کیا تو اس کا الزام حضرت مسیح علیہ السلام کو کیوں دیا جائے ۔ اس طرح تو اسلامی تعلیمات کو بھی ناقابل عمل قرار دیا جا سکتا ہے۔  مثال کے طور پر ہمارے وطن پاکستان میں ۹۷ فی صد آبادی مسلمان ہے مگر یہاں پورا معاشی نظام سود پر قائم ہے۔  کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے سود کی حرمت کا جو قانون پیش کیا ہے وہ ناقابلِ عمل ہے ؟ 

ہماراخیال یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کا صحیح مقام سمجھنے میں حضرت  مسیح علیہ السلام کے نام لیواؤں اوران کے نکتہ چین دونوں نے غلطی کی ہے۔  وہ غلطی یہ ہے کہ حضرت   مسیح علیہ السلام کے مواعظ کے سیاق و سباق اور ان کے مخاطبین کی ذہنیت کو بالکل نظر انداز کر کے اپنے فہم کے مطابق معانی پہنائے گئے ہیں۔ مسلمان اسکالروں نے یہ طرزِ فکر ردِ عمل کے طور پر اپنایا ہے کیونکہ اسلام پر مستشرقین اسی قسم کے اعتراضات کرتے ہیں،  لیکن اسے کسی طور پر    مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ 

مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

’’مسلمانوں کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ان کو صرف خوب صورت انداز سے مباحثے کی اجازت دی گئی ہے اورمخالف فریق کو برا بھلا کہنے سے نہایت سختی سے روکا گیا ہے     .... ہمارے اور ان کے درمیان اس سے بڑھ کر کوئی حجت نہیں ہو سکتی کہ ہم دونوں چیزوں کو ایک ساتھ برابر رکھ دیں کہ جس کے اندرعقل اور مذاقِ سلیم موجود ہے وہ ان میں سے بہتر کو خودمنتخب کرلے ۔ قرآنِ مجید نے ہدایت پانے والوں کی تعریف یہی کی ہے: ’الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ‘(جو لوگ بات سنتے ہیں اور پھر اس میں جو بہتر ہوتی ہے اس کی پیروی کرتے ہیں)۔‘‘ (مجموعۂ تفاسیرِ فراہی ص   ۴۴ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور ۱۹۹۸)

مسیحی تعلیمات کے متعلق مولانا فراہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

 ’’بعض مسلمان انجیل کی بعض عبارتوں کا مذاق اڑاتے ہیں حالانکہ اگر وہ قرآن کی تعلیم سے ان کو مطابقت دے سکیں تو ان کو معلوم ہو کہ ان باتوں کو ماننے کی سب سے بڑی ذمہ داری مسلمان ہی پر ہے۔‘‘ (     ایضاً ، ص ۴۳)

ہم اس مقالے میں یہی کام کرنے کی کوشش کریں گے،  جس کی ترغیب مولانا فراہی نے دی ہے۔  یہاں اس بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ اس مقالے میں پیش کیے گئے خیالات کا بنیادی ماخذ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کی تفسیر ’’تدبرِقرآن‘‘ ہے۔  مسیحی تعلیمات کے متعلق کافی عرصے تک میرا بھی وہی خیال تھا جو عام مسلمان اسکالروں کا ہے تاہم ’’تدبر قرآن‘‘ کے مطالعہ کے بعد میرا طرزِ فکر بدل گیا۔  اس تفسیر میں مولانا نے حضرت مسیح علیہ السلام کے کئی اقوال نقل کیے ہیں اور ان کا صحیح موقع ومحل واضح کیا ہے اور اس طرح ان تعلیمات اور قرآنِ حکیم کے احکام میں حیرت انگیز مطابقت دریافت کی۔  آپ اس تفسیر کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

’’جس طرح قرآنِ مجید اللہ کی کتاب ہے اسی طرح تورات ، زبور اور انجیل بھی اللہ ہی کے اتارے ہوئے صحیفے           ہیں۔  اگر ان کے بدقسمت حاملوں نے ان صحیفوں میں تحریفیں نہ کر دی ہوتیں تو یہ بھی اسی طرح ہمارے لیے رحمت و برکت تھے جس طرح قرآن ہے۔  لیکن ان تحریفات کے باوجود آج بھی ان کے اندر حکمت کے خزانے ہیں ۔ اگر آدمی ان کو پڑھے تو یہ حقیقت آفتاب کی طرح سامنے آتی ہے کہ ان صحیفوں کا سرچشمہ بلاشبہ وہی ہے جو قرآن کا ہے۔  میں ان کو بار بار پڑھنے کے بعد اس رائے کا اظہار کرتا ہوں کہ قرآن کی حکمت کو سمجھنے میں جو مدد ان   صحفیوں سے ملتی ہے وہ مدد مشکل ہی سے کسی دوسری چیز سے ملتی ہے۔  خاص طور پر زبور ، امثال اور انجیلوں کو پڑھیے تو ان کے اندر ایمان کو وہ غذا ملتی ہے جو قرآن و حدیث کے سوا اور کہیں بھی نہیں ملتی۔  حیرت ہوتی ہے کہ جن قوموں کے پاس یہ صحیفے           موجود تھے وہ قرآن اور پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے کیوں محروم رہیں۔‘‘ (تدبرِ قرآن ، ج ۱  ص ۴۷ ، انجمن خدام القرآن لاہور،  ۱۹۷۳)

اپنی ایک اور تصنیف ’’تزکیۂ  نفس‘‘ میں مولانا اصلاحی روحانی بیماریوں کا علاج تجویز کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’شعورکو بیدار رکھنے کے لیے سب سے زیادہ مفید چیز صالح لٹریچرکا مطالعہ اور ذی شعور لوگوں کی صحبت ہے آدمی کو برابر ایسی چیزیں پڑھتے رہنا چاہیے جن میں زندگی کی حقیقتوں سے پردہ اٹھایاگیا ہے     .... ایسی چیزوں میں سب سے اونچا درجہ کتاب اللہ اور احادیثِ رسول کا ہے ان کے حرف حرف اور سطر سطر کے اندر خالص حقیقت اوربالکل بے آمیز علم ہے ان کے بعد زبور ، انجیل ، امثال ، سلیمان     .... ہیں     .... ان چیزوں کے اندر کچھ ملاوٹیں اور آمیزشیں بھی ہیں     .... لیکن جو لوگ ان کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پڑھتے ہیں وہ نہایت آسانی سے ان کے حق و باطل میں خود امتیاز کر لیتے ہیں۔‘‘ (ج ۱  ص ۱۶۳، ملک سنز فیصل آباد ۱۹۹۷)

ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا اصلاحی کے نزدیک بائبل کے حق و باطل کی تمیز کے لیے کسوٹی قرآن و حدیث ہے۔  کہتے ہیں:

’’جس حد تک قرآن اور قدیم صحیفوں میں موافقت ہے وہ موافقت میں نے دکھا دی ہے اور جہاں تک فرق ہے ، وہاں قرآن کے بیان کی حجت و قوت واضح کر دی ہے۔‘‘ (تدبرِ قرآن ، ج ۱  ص ۷)

مولانا اصلاحی کے خیالات پوری تفسیر میں بکھرے پڑے ہیں۔  میں نے ان کی تفسیر سے حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کے مطالعہ کے بارے میں جو اصول اخذ کیے ہیں،  وہ اس مقالے میں تفصیل سے پیش کیے گئے ہیں۔    

۱۔ حق و باطل کی تمیز کے لیے کسوٹی قرآنِ حکیم ہے  

قرآنِ حکیم پچھلی کتابوں کو بھی منزل من اللہ قرار دیتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ ان کتابوں میں لوگوں نے بہت زیادہ حذف و اضافہ کر دیا ہے اس لیے اب پچھلے صحیفوں کے حق و باطل میں امتیاز کے لیے واحد کسوٹی قرآن ہی ہے:

وَاَنْزَلْنَا٘ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ. (المائدہ ۵: ۴۸)
’’اور ہم نے تمھاری طرف کتاب اتاری حق کے ساتھ اپنے سے بیشتر موجود کتاب کی تصدیق کرتی ہوئی اور اس کے لیے کسوٹی بنا کر۔‘‘

یہاں لفظ ’’مھیمن‘‘ استعمال ہوا ہے مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’’’مھیمن‘‘ اصل میں ’ مُاَامن ‘ ہے۔  دوسرا ہمزہ’ی‘  سے اور پہلا ’ہ‘  سے بدل گیا ہے ۔ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوا ہے۔ (۲۳۔  حشر) اور قرآن کی صفت کے طور پر بھی۔ ’ھیمن الطائر علی فواخه‘ کامطلب یہ ہو گا کہ پرندہ اپنے بچوں کے اوپر پر پھیلائے ہوئے منڈلا رہا ہے،  گویا ان کو اپنی حفاظت میں لیے ہوئے ہے۔ ’ھیمن فلان علی کذا ‘فلاں اس چیز کا محافظ اور نگران بن گیا۔  اپنے سے سابق صحیفہ پر قرآن کے مھیمن ہونے کے معنی یہ ہیں کہ قرآن اصل معتمد نسخہ کتاب الہٰی کا ہے اس لیے وہ دوسرے صحیفوں کے حق وباطل میں امتیاز کے لیے کسوٹی ہے۔  جو بات اس کسوٹی پرکھری ثابت ہوگی وہ کھری ہے، جو اس پرکھوٹی ثابت ہو گی وہ محرف ہے۔‘‘ (تدبرِ قرآن ، ج ۲،  ص ۳۰۵،  انجمن خدام القرآن لاہور ۱۹۷۶)

ایک اور لحاظ سے بھی قرآن پچھلی کتابوں کے لیے کسوٹی ہے اور وہ یہ کہ پچھلی کتابوں کی زبان مٹ چکی ہے اور ان کے معانی و مفاہیم کے تعین میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔  قرآن کی زبان زندہ زبان ہے اس لیے بہت سے لغوی مسائل اس کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں۔  اس سلسلے میں مولاناحمید الدین فراہی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

’’انجیل اور تورات کی بہت سی باتیں ان کے ماننے والوں کے لیے فتنہ بن گئی ہیں،  حالانکہ اگر وہ عربی زبان جانتے ہوتے تو اس گمراہی میں نہ پڑتے۔‘‘ (مجموعۂ تفاسیر فراہی ، ص ۴۳)

   اس اجمال کی تشریح وہ یوں کرتے ہیں:

 ’’یہ معلوم ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا کلام جس کی روایت یونانی زبان میں ہوئی دراصل عبرانی زبان میں تھا۔ انجیل اور تورات کی زبان ایک ہی ہے۔  اور یہ امر بھی ہرشخص کو معلوم ہے کہ عربی اور عبرانی جو آسمانی کتابوں کی زبانیں ہیں دونوں ایک ہی اصل سے نکلی ہیں۔  ایسی صورت میں ناگریز ہے کہ ان دونوں میں نہایت گہری مماثلت و مشابہت ہو اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے معانی کی طرف راہبری کرے پھر ان تمام صحیفوں کے مطالب بھی ایک سے ہیں۔  یہ سب وحی کے پاک سرچشمے سے نکلی ہیں اس لیے بھی ان میں یکسانی و ہم رنگی ہونا قدرتی ہے۔  علاوہ ازیں قرآن نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ جو امور اہل کتاب پر مشتبہ رہ گئے قرآن ہمارے لیے ان کی تفصیل کرے گا     ... پھر قرآن جھگڑے کو چکانے والی اور اختلافات کو رفع کرنے والی کتاب بن کر نازل ہوا ہے اور اس کے ماسوا اکثر کتب منزلہ تخیل اور شعر ہیں۔  لہٰذا جو لوگ ان کتابوں کو سمجھنا چاہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ ان کو قرآن ہی کی روشنی میں سمجھیں۔  پھر یہ بات بھی ہے کہ یہ پرانے صحیفے            متروک ہو چکے ہیں اس وجہ سے ان کی زبان مٹ چکی ہے۔  اب اگر کوئی شخص ان کو سمجھنا چاہے تو اس کے لیے صرف ایک ہی شکل ہے کہ انھیں لغتِ قرآن کی رہنمائی میں سمجھے۔‘‘ ( ایضاً  )

ایک مثال سے یہ بات واضح ہو جائے گی۔  سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ ارشاد نقل کیا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُﵧ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ . (۳: ۵۱)
’’بے شک اللہ ہی میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی رب ہے تو اسی کی بندگی کرو یہی سیدھی راہ ہے۔‘‘

اس آیت کی تشریح میں مولانا اصلاحی کہتے ہیں:

’’انجیلوں  میں خدا کے لیے میرا باپ اور تمھارا باپ کی جو تعبیر بار بار آتی ہے یہ  قرآن  نے اس کی تصحیح فرمائی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے دراصل جو بات فرمائی تھی وہ یہ تھی کہ اللہ ہی میرابھی رب ہے اور تمھارا بھی۔ سو اسی کی بندگی کرو      ..... عبرانی میں ’اب‘  کا لفظ باپ اور رب دونوں معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔  اسی طرح ’ابن‘ کا لفظ بیٹے اور عبد دونوں معنوں میں آتا ہے      ..... جب نصاریٰ نے حضرت مسیح  علیہ السلام کی الوہیت کا عقیدہ بنا لیا تو جو چیز بھی انھیں مفید مطلب نظر آئی اس کو انھوں نے اسی عقیدہ کی تائید میں استعمال کر لیا۔  قطع نظر اس سے کہ اس کا موقع و محل کیا ہے پھر جب اصل انجیل کی جگہ صرف اس کے ترجمے رہ گئے تو ہر چیز کی تعبیر بھی یک قلم بدل کے کچھ سے کچھ ہوگئی۔‘‘ ( تدبرِ قرآن ، ج ۱،  ص ۶۹۹ )

۲۔ قرآن سے پہلے شریعت کی حیثیت تورات کو حاصل تھی

     ہمارے نزدیک قرآن سے پہلے شریعت کی حیثیت صرف تورات کو حاصل تھی۔  زبور،  صحائف اور انجیل میں   کسی نے بھی تورات کومنسوخ نہیں کیا۔  زبوراورصحائفِ انبیا کے متعلق تواتفاق ہی ہے کہ انھوں نے تورات کو منسوخ نہیں کیا۔  البتہ انجیل کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے تورات کو منسوخ کر دیا اور ہمارے نزدیک حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی بنیادی وجہ یہی ہے۔  حضرت مسیح علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبیا میں سے تھے اور دیگر انبیاے بنی اسرائیل کی طرح آپ بھی تورات کی دعوت لیکر آئے تھے ، لیکن آپ کے نام لیواؤں اور آپ کی تعلیمات کے نکتہ چینوں، دونوں نے یہ غلطی کی کہ آپ کی تعلیمات کو مستقل شریعت کا درجہ دے دیا۔  حالانکہ آپ نے اپنے مشہور ’’پہاڑی وعظ‘‘ جس میں آپ کی تعلیمات کا اکثر حصہ آ گیا ہے، کے شروع میں فرمایا ہے:

’’یہ نہ  سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔  منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ تورات سے ہر گز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے۔  پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اوریہی آدمیوں کوسکھائے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا، لیکن جو ان پرعمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا۔ کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تمھاری راست بازی فقہیوں اور فریسیوں کی راست بازی سے زیادہ نہ ہو گی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز  داخل نہ ہو گے۔‘‘ (انجیل متی ۵: ۱۷ – ۲۰، کتابِ مقدس پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۸۹)

یہاں حضرت مسیح علیہ السلام خود فرما رہے ہیں کہ وہ تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے نہیں آئے۔ وہ خود لوگوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ نجات نہیں پا سکیں گے جب تک وہ فقہیوں اور فریسیوں کی طرح راست باز نہ ہو جائیں۔  اس تمہید کے بعد وہ اپنی مشہور تعلیمات پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خون نہ کرنا اور جو کوئی خون کرے گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا۔  لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جوکوئی اپنے بھائی پرغصہ ہوگا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا      ..... تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنا نہ کرنا لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس نے کسی بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کر چکا     ..... تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے..... ‘‘ (متی ۵: ۲۱-  ۲۲، ۲۷- ۲۸، ۳۸- ۳۹)

حیرت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ان تعلیمات کو مستقل شریعت قرار دینے والے کلام کا ابتدائی حصہ بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔  یہ بات کہ حضرت مسیح تورات کو منسوخ کرنے نہیں آئے تھے اور لوگوں کو تورات پر عمل کی دعوت دیتے تھے اناجیل کی کئی اور آیات سے بھی واضح ہے۔  مثال کے طور پر ملاحظہ ہو:

 ’’اس وقت یسوع نے بھیڑ سے اور اپنے شاگردوں سے یہ باتیں کہیں کہ فقہیہ اور فریسی موسیٰ علیہ السلام کی گدی پر بیٹھے ہیں۔  پس جو کچھ وہ تمھیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو لیکن ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں۔‘‘ (متی ۲۳: ۱ - ۳)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت مسیح کی تعلیمات    مستقل شریعت کی حیثیت نہیں رکھتی تھیں تو پھر ان کی صحیح حیثیت کیا ہے ؟  اس کی ہم ذیل میں وضاحت کرتے ہیں:

۳۔ حضرت مسیح کی تعلیمات تورات کی روح کی حیثیت رکھتی ہیں  

یہود کی مادہ پرستی اور دنیا پرستی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے تورات میں انھوں نے اپنی خواہشات کو سندِ جواز عطا کرنے کے لیے کئی تحریفات کیں۔  مثلاً تورات میں واضح طور پر سود کو حرام قرار دیا گیا ہے[1]۔

لیکن جب یہود سود کی لعنت میں مبتلا ہوئے تو تورات میں یہ  حکم داخل کر دیا گیا کہ غیر قوموں سے سود لینا جائز ہے،  صرف اسرائیلیوں سے سود لینا حرام ہے[2]۔

نیز صدیوں کی غلامی نے یہودیوں کو شریعت کی روح بھلا دی تھی۔  وہ محض چند ظاہری رسوم پر  عمل کرنے کو راست بازی سمجھتے ، دین کے بنیادی احکام انھوں نے پسِ پشت ڈال دیے تھے۔  حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے مخاطبین کا یہ رویہ بھی پیش نظر رہے۔  حضرت مسیح  علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اے ریاکارفقہیو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر  یکی دیتے ہو پر تم نے شریعت کی بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے لازم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔  اے اندھے  راہ  بتانے والوں  ، جو  مچھر  کو  تو  چھانتے  ہو اور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔‘‘ (  متی۲۳: ۲۳ - ۲۴) 

یہود کی حد سے بڑھی ہوئی مادہ پرستی پر تنقید کرتے ہوئے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:

 ’’اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں بلکہ اپنے لیے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں کیونکہ جہاں تیرا مال ہے وہیں تیرا دل بھی لگا رہے گا    ..... کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت۔  یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔  تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔  اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے ؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے ؟     ..... ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ۔ نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمھارا آسمانی باپ (رب) ان کو کھلاتا ہے۔  کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے ؟‘‘ (متی ۶ : ۱۹ -۲۷)

قرآنِ  حکیم بھی یہی کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ یہودیوں کو ’’حکمت‘‘ سکھانے آئے تھے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَمَّا جَآءَ عِيْسٰي بِالْبَيِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ. (الزخرف ۴۳: ۶۳)
’’جب عیسیٰ نشانیاں لے کر آیا تو اس نے کہا کہ میں تمھارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں۔‘‘ 

اسی طرح ارشاد ہوتا ہے:

وَيُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ.(آلِ عمران ۳ :۴۸)
’’اور اللہ تعالیٰ اس کو کتاب اور حکمت، تورات اور انجیل سکھائے گا۔‘‘

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی کہتے ہیں:

’’تورات اور انجیل کے الفاظ یہاں کتاب اور حکمت کی تفسیر کے طور پر ہیں .....     سیدنا مسیح علیہ السلام جہاں تک کتاب و شریعت کا تعلق ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت ہی کے پیرو اور داعی تھے     .... البتہ انھوں نے اس شریعت کی روح اور اس کی حکمت نہایت معجزانہ انداز میں بے نقاب فرمائی ہے اور اناجیل درحقیقت ان کی انھی حکمتوں کا مجموعہ ہیں۔  یہود نے تورات کو بالکل بے روح احکام اور بے جان رسوم کا مجموعہ بنا کر رکھ دیا تھا۔  اس وجہ سے ان کی شریعت زندگی سے بالکل خالی ان کے لیے صرف ایک بوجھ بن کر رہ گئی تھی حضرت مسیح علیہ السلام نے اس کے اندر اپنی تعلیمِ حکمت سے زندگی پیدا کی لیکن یہود نے اس کی قدر نہ کی۔‘‘( تدبرِ قرآن ج  ۱  ،ص ۶۹۶)

لہٰذا حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کا صحیح مفہوم اسی وقت واضح ہوتا ہے جب انھیں تورات کے قوانین کے ساتھ ملایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے مخاطبین کی ذہنی حالت بھی مدِ نظر رہے۔  حضرت مسیح نے اپنی تعلیمات پیش بھی اس طرح کی ہیں کہ پہلے یہ واضح کیا کہ وہ تورات کو منسوخ کرنے نہیں آئے بلکہ پورا کرنے کے لیے آئے ہیں۔  اس کے بعد انھوں نے تورات کے احکام پر عمل کی تاکید کی اور ان احکام کی اصل روح اور حکمت واضح کی ہے ، تاکہ یہ  محض بے جان رسوم ہی بن کر نہ رہ جائیں مثلاً آپ فرماتے ہیں:

 ’’جب تم روزہ ر   کھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اداس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ ان کو روزہ دار جانیں۔  میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔  بلکہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سر میں تیل ڈال اور منہ دھو ، تاکہ آدمی نہیں تیرا باپ (رب) جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزہ دار جانے اس صورت میں تیرا باپ (رب) جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔‘‘ ( متی ۶: ۱۶ -۱۸)

حضرت مسیح کی جن تعلیمات پر اعتراض کیا جاتا ہے ان میں سے ایک حسبِ ذیل ہے:

 ’’تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔‘‘( متی ۵ :۳۸ - ۳۹)

یہاں بظاہر ایک مسئلہ محسوس ہوتا ہے۔  حضرت مسیح نے پہلے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ وہ تورات کو منسوخ کرنے نہیں آئے بلکہ پورا کرنے آئے ہیں یعنی اس کی تعلیمات کی حقیقت واضح کرنے کے لیے آئے ہیں۔  اس کے بعد آپ نے تورات  کا حکم قصاص نقل کیا اور پھر اپنی تعلیم پیش کر دی جو کہ تورات سے مختلف ہے۔  اگر ہم ذرا گہرائی میں سوچیں حضرت مسیح نے تورات کا حکم منسوخ نہیں کیا۔  حضرت مسیح کی بات کا مفہوم یہ ہے کہ بدلہ لینے کی اجازت  تمھیں دی گئی ہے تاہم معاف کرنا بہتر ہے۔  آپ فرماتے ہیں:

 ’’اگر تم آدمیوں کے قصور معاف کرو گے تو تمھارا آسمانی باپ (رب) بھی تم کو معاف کرے گا اور اگر تم آدمیوں کے قصور معاف نہ کرو گے تو تمھارا باپ (رب) بھی تمھارے قصور معاف نہ کرے گا ۔‘‘(    متی ۶ : ۱۴- ۱۵)

یہی تعلیم قرآنِ مجید کی ہے:

وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰٓئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّنْ سَبِيْلٍ. (الشوریٰ  ۴۲: ۴۱)
’’اور جو بدلہ لے بعد اس کے کہ اس پر ظلم کیا گیا تھا تو اس پر کوئی الزام نہیں۔‘‘

اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے:

وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ . (الشوریٰ  ۴۲: ۴۳)
’’اور جو کوئی برداشت کرے اور بخش دے تو یقیناً یہ بڑی ہمت کی بات ہے۔‘‘

مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کا اس انداز میں جائزہ لیا ہے۔

یہاں حضرت مسیح کی تعلیمات کے متعلق ایک اور اہم پہلو پر بحث ضروری ہے اور وہ ہے نسخِ تورات کا مسئلہ کیونکہ انجیل کے بعض احکام واضح طور پر تورات کے احکام سے متصادم نظر آتے ہیں:

۴۔ حضرت مسیح نے بعض چیزیں حلال قرار دیں جو یہودیوں پر حرام تھیں 

جیسا کہ ہم نے اوپر تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے حضرت مسیح بنیادی طور پر موسوی شریعت پر عمل پیرا تھے،  تاہم یہودیوں پر جو سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں ان میں بعض آپ نے نرم کر دیں۔  اس امر کی تشریح کے لیے ہم نسخ کے اصول پر ذرا تفصیل سے بحث کریں گے۔

قرآن و سنت کی صریح نصوص کے مطابق حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا و رسل کا دین ایک ہی تھا۔  عقائد (مثلاً توحید،  رسالت،  آخرت) اور دین کے بنیادی احکام تمام انبیا کی تعلیمات میں مشترک تھے۔  البتہ حالات اور ظروف کی مناسبت سے قانون (شریعت) کی تفصیلات میں اختلاف رہا ہے اور یہ اختلاف فطری تھا۔  انسانی معاشرے کی ترقی کے ساتھ اس قانون میں بھی وسعت ہوتی گئی اور وسعت اور ارتقا کے تقاضوں کے تحت قانون میں بعض ترامیم بھی ہوئیں۔ ا نھی ترامیم کو ہم نسخ کہتے ہیں۔  بالآخر یہ قانون اپنی جامع اور مکمل شکل میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے سے پیش کیا گیا  ۔ اس میں پچھلے قوانین کی باقیات بھی ہیں اور بعض ایسے احکام بھی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو دیے گئے ۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب اس قانون کا ارتقا رک گیا ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اب اس قانون کے اصول و مبادی میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔  البتہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے تحت قانون کا ارتقا جاری ہے۔  اس سلسلے میں مولانا امین احسن اصلاحی کہتے ہیں:

 ’’اگر اسلامی قانون میں حرکت و ترقی کی صلاحیت نہ ہوتی تو یہ عہدِ نبوت کے بعد  جبکہ وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا تھا بالکل ٹھٹھر کر رہ جاتا لیکن ہم صاف دیکھ رہے ہیں کہ عہدِ نبوت میں اس کی صرف بنیادیں استوار ہوئی تھیں۔  ان بنیادوں پر ایک شان دار قصر کی تعمیر صحابہ اور فقہا مجتہدین کے دور میں ہوئی ہے۔‘‘(اسلامی قانون کی تدوین ص ۳۲،   فاران فاؤنڈیشن لاہور ۱۹۹۱)

اسلامی قانون کی اس حرکت اور ترقی میں دو عوامل نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔  ایک ہے اجتہاد یعنی ’’زندگی میں جو حالات و معاملات ایسے پیش آئے جن کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی واضح قانون نہیں بیان ہوا ہے      ..... ان کو بھی اسلامی شریعت کے تحت لانے کی کوشش کی جائے اور اگر ان کے بارے میں واضح احکام نہیں ملتے تو شریعت کے عام احکام کے اشارات و کنایات سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘ (ایضاً ص ۳۰)

دوسرا اہم عامل مباحات کا دائرہ ہے جو بہت وسیع ہے ’’اس دائرہ میں اسلام اور مسلمانوں کے مصالح کو سامنے رکھ کر ہم جو قانون بنائیں گے وہ اسلامی قانون ہی کا ایک حصہ ہو گا بشرطیکہ اس میں کوئی چیز شریعت کے کسی امر یا نہی کے خلاف نہ ہو۔‘‘ ( ایضاً ص ۳۲)

پس اسلامی قانون ایک لحاظ سے بے لچک ہے اور ایک پہلو سے یہ کافی لچک اور وسعت بھی رکھتا ہے ’’البتہ یہ ضرور ہے کہ یہ لچک مجرد منفعلانہ قسم کی نہیں ہے کہ زندگی کا ہر تغیر خود اسلامی قانون کو متغیر کر دے بلکہ اس کے اندر فاعلانہ رجحان بھی پایا جاتا ہے جس کے سبب سے یہ ہر جگہ اپنے آپ کو حالات کے مطابق بنانے کے بجائے یہ کوشش بھی کرتا ہے کہ جہاں کہیں ضرورت پیش آئے حالات کو اپنے مطابق بنا لے۔‘‘ ( ایضاً ص ۲۴)

اس بحث کی روشنی میں ہم حضرت مسیح کی تعلیمات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت قانون اپنے اصول و مبادی کے لحاظ سے بھی ارتقائی مرحلے میں تھا اس لیے بعض امور میں حضرت مسیح نے یہودیوں کا قانون تبدیل کر لیا۔

ہمارے نزدیک یہودی قانون کے احکام تین قسم کے تھے:

۱۔ دین کے بنیادی عقائد مثلاً توحید و رسالت،  آخرت اور بنیادی احکام مثلاً حرمتِ جان،  مال و عزت وغیرہ تو یہ احکام ابدی اور ناقابلِ تبدیل ہیں اور حضرت آدم سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا کی دعوت میں یہ امور مشترک اور ناقابلِ تبدیل رہے ہیں۔  ہمارے نزدیک حضرت مسیح کے قول ’’جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے ۔‘‘ (متی ۵:  ۱۹)   سے مراد یہی بنیادی احکام ہیں کیونکہ تورات کے بعض احکام میں حضرت مسیح نے تبدیلی کی ہے،  جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔

۲۔ اس قانون میں بعض احکام ایسے تھے جو صرف یہود کے لیے تھے مثلاً سبت کی پابندیاں،  کھانے پینے کی اشیا میں حرمت کی تفصیلات وغیرہ یہ احکام یہود کی قلبی قساوت کی وجہ سے انھیں دیے گئے تھے جیسا کہ قرآنِ حکیم نے واضح کیا ہے:

وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِيْ ظُفُرٍﵐ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُوْمَهُمَا٘ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَا٘ اَوِ الْحَوَايَا٘ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍﵧ ذٰلِكَ جَزَيْنٰهُمْ بِبَغْيِهِمْﵠ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ.(الانعام ۶ : ۱۴۶)
’’اور جو یہودی ہوئے ان پر ہم نے سارے ناخن والے جانور حرام کیے اور گائے اور بکری کی چربی حرام کی سوائے اس کے جو ان کی پیٹھ یا انتٹریوں سے وابستہ یا کسی ہڈی سے لگی ہوئی ہو۔  یہ ہم نے ان کو ان کی سرکشی کی سزا دی اور ہم بالکل سچے ہیں۔‘‘

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا. وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُهُوْا عَنْهُ وَاَكْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ.(النساء ۴ :۱۶۰ - ۱۶۱)
’’پس یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر بہت سی پاک چیزیں حرام کر دیں جو ان کے لیے پہلے حلال کی گئی تھیں اور اس وجہ سے کہ وہ اللہ کی راہ سے بہت روکا کرتے تھے اور اس وجہ سے کہ وہ سود لیتے تھے حالانکہ وہ اس سے منع کیے جا چکے تھے اور اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے۔‘‘

حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی کئی موقعوں پر اس بات کا اظہار کیا کہ یہودیوں پر بہت سی چیزیں ان کی قلبی قساوت کی وجہ سے حرام کی گئی تھیں۔  چنانچہ جب ان سے فریسیوں نے پوچھا:

 ’’کیا یہ روا ہے کہ مرد اپنی بیوی کو چھوڑ دے ؟ اس نے ان سے جواب میں کہا کہ موسیٰ نے تم کو کیا حکم دیا ہے؟  انھوں نے کہا: موسیٰ نے تو اجازت دی ہے کہ طلاق نامہ لکھ کر چھوڑ دیں۔  مگر یسوع نے ان سے کہا کہ اس نے تمھاری سخت دلی کے سبب تمھارے لیے یہ حکم لکھا تھا۔‘‘ (مرقس ۱۰: ۲- ۵)

۳۔ بعض احکام ایسے تھے جو اصلاً شریعت کا حصہ نہیں تھے مگر یہود کے احبار اور فقہیوں نے اپنی طرف سے یہ پابندیاں لگائی تھیں جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اِتَّخَذُوْ٘ا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ.(التوبہ ۹ : ۳۱)
’’ ان (یہودیوں اور عیسائیوں) نے اپنے علما اور مشائخ کو اللہ کے سوا رب بنا لیا۔‘‘

اس کی تشریح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہودی و مسیحی علما نے احلال و تحریم کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا   ــــــ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ حضرت مسیح یہودی علما کی اس روش پر سخت تنقید کرتے رہے مگر انھی کے نام لیوایہی کام حضرت مسیح کے نام سے کرنے لگے   ــــــ یہودی علماکی اس روش کے متعلق حضرت مسیح کہتے ہیں:

 ’’وہ ایسے بھاری بوجھ جن کو اٹھانا مشکل ہے باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں مگر آپ ان کو اپنی انگلی سے بھی ہلانا نہیں چاہتے    .. .. اور بازاروں میں سلام اور آدمیوں سے ربی کہلانا پسند کرتے ہیں مگر تم ربی نہ کہلاؤ کیونکہ تمھارا استاد ایک ہی ہے اور تم سب بھائی ہو اور زمین پر کسی کو اپنا باپ (رب) نہ کہو کیونکہ تمھارا باپ (رب) ایک ہی ہے جو آسمانی ہے۔‘‘ ( متی ۲۳: ۴، ۷- ۹)

جہاں تک پہلی قسم کے احکام کا تعلق ہے حضرت مسیح نے ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی،  جب ان سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا حکم کون سا ہے ؟ تو آپ نے کہا:

 ’’اول یہ ہے کہ اے اسرائیل،  سن خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے اور تو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔‘‘ (مرقس ۱۲: ۲۹ -۳۰)

اسی طرح جب ایک دولت مند آدمی نے آپ سے نجات کے متعلق پوچھا تو فرمایا:

 ’’اگر تو زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے تو حکموں پر عمل کر۔  اُس نے اُس سے کہا: کون سے حکموں پر؟ یسوع نے کہا : یہ کہ خون نہ کر،  زنا نہ کر،  چوری نہ کر،  جھوٹی گواہی نہ دے،  اپنے باپ کی اور ماں کی عزت کر اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت کر۔‘‘ (متی ۱۹: ۱۷ -۱۹)

البتہ دوسری اور تیسری قسم کے احکام میں آپ نے تبدیلی کی یعنی جو احکام یہودیوں کی سخت دلی کی وجہ سے ان کو دیے گئے تھے اور جو احکام اصلاً شریعت کا حصہ نہیں تھے بلکہ یہودی فقہا نے وضع کیے تھے ان میں سے بعض کو ختم کر دیا۔  قرآنِ مجید کے مطابق حضرت مسیح نے بنی اسرائیل کو اپنی بعثت کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا:

وَلِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِيْ حُرِّمَ عَلَيْكُمْ.(آلِ عمران ۳ :۵۰)
’’ اور اس لیے آیا ہوں کہ بعض ان چیزوں کو تمھارے لیے حل ٹھیراؤں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں۔‘‘

اس طرح آپ نے لوگوں سے بہت سی پابندیاں اٹھا لیں ایسی پابندیاں جن میں وہ سر سے پاؤں تک جکڑے ہوئے تھے۔  آپ نے لوگوں سے بہت سا بوجھ اٹھا لیا ، ایسا بوجھ جس کا اٹھانا مشکل تھا۔‘‘ اسی لیے آپ نے فرمایا:

 ’’اے محنت اٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو،  سب میرے پاس آؤ میں تم کو آرام دوں گا۔  میرا جؤا اپنے اوپر اٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔  کیونکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔  تو تمھاری جانیں آرام پائیں گی۔  کیونکہ میرا جؤا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔‘‘ ( متی ۱۲: ۲۸ -۳۰)

اس بحث سے یہ بات بھی صاف ہو جاتی ہے کہ کیوں آپ ایک طرف اعلان کرتے ہیں کہ آپ تورات کو منسوخ کرنے نہیں آئے اور دوسری طرف یہودی علما کے ساتھ بحث میں آپ بعض احکام پر سخت تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔  سبت ہی کا معاملہ لیجیے ، یہ حکم تورات میں موجود ہے (خروج ۲۰: ۸- ۱۱)تاہم یہودی فقہا نے سبت کے معاملے میں بے جا غلو کیا۔  ممتاز مسیحی عالم جناب پادری ایف ایس خیر اللہ صاحب اس سلسلے میں کہتے ہیں:

 ’’عزرا اور مسیحی زمانے کے درمیانی عرصے میں فقہیوں نے شریعت کے تحت زندگی بسر کرنے کے سلسلے میں بے شمار پابندیوں کا اضافہ کر دیا۔’تلمود‘ میں سبت کی پابندیوں کے بارے میں تفصیلات سے دو باب بھرے ہوئے ہیں۔  ان میں سے ایک میں سبت کے دن حسبِ ذیل ۳۹ کاموں سے منع کیا گیا ہے:  ہل چلانا،  بیج بونا،  فصل کاٹنا،  پولے باندھنا،  گاہنا،  ہوا میں اڑانا،  صاف کرنا،  پیسنا،  چھاننا،  گوندھنا،  پکانا،  اون کترنا،  اسے دھونا،  اسے کوٹنا،  اسے رنگنا،  اسے کاتنا،  اسے بٹنا،  اس کی دو ڈوریاں بنانا،  اس کے دو دھاگے بننا،  دو دھاگوں کو الگ کرنا،  گانٹھ لگانا،  گانٹھ کھولنا،  دو ٹانکے لگانا،  سینے کے لیے دو ٹانکے توڑنا،  ہرن پکڑنا،  اسے ذبح کرنا،  اس کی کھال اتارنا،  اسے نمک لگانا،  اس کی کھال تیار کرنا،  اس پر سے بال کھرچنا،  اسے کاٹنا،  دو خط لکھنا،  دو خط لکھنے کے لیے مٹانا،  تعمیر کرنا،  ڈھانا،  بجھانا ، آگ جلانا،  ہتھوڑے سے کوٹنا،  اور ایک جگہ سے دوسری جگہ کسی چیز کو لے کر جانا۔  پھر ان بڑی بڑی باتوں کی مزید تشریح کی گئی ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں اور باتیں نکل آئیں جنھیں شریعت کا پابند ایک یہودی سبت کے دن نہیں کر سکتا تھا، مثلاً گانٹھ لگانا ایک عام سی بات ہے اس لیے یہ بتانا ضروری سمجھا گیا کہ کون سی گانٹھ لگائی جا سکتی ہے اور کون سی نہیں۔‘‘ (قاموس الکتاب ص ۵۰۰ مسیحی اشاعت خانہ لاہور ۱۹۸۷)

سبت کے معاملے میں یہود کا بے جا غلو اس حد تک بڑھ گیا کہ مکابیوں کی جنگ میں یہودیوں نے سبت کے دن اپنی حفاظت کرنے سے بھی انکار کیا اور جب تقریباً ایک ہزار یہودی قتل کر دیے گئے تب انھوں نے فیصلہ کیا کہ سبت کے دن وہ حملہ نہیں کریں گے البتہ دفاع کریں گے[3]۔

ایف ایس خیر اللہ صاحب کہتے ہیں:

’’انھوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ سبت کے دن محاصرے کے دمدمے وغیرہ ڈھائے نہ جائیں،  لہٰذا پومئی نے سبت کے دن ہی پشتے بنائے اور کلوخ انداز کھڑے کیے۔  چونکہ یہود کی طرح سے مزاحمت نہیں ہوئی اس لیے وہ یروشلم پر بے دھڑک پتھر پھینکتا رہا۔‘‘ (قاموس الکتاب ص ۵۰۰)

حضرت مسیح اس بے جا غلو کو نہیں مانتے تھے:

 ’’اور یوں ہوا کہ وہ سبت کے دن کھیتوں میں ہو کر جا رہا تھا اور اس کے شاگرد راہ میں چلتے ہوئے بالیں توڑنے لگے۔  اور فریسیوں نے اُس سے کہا: دیکھ یہ سبت کے دن وہ کام کیوں کرتے ہیں جو روا نہیں ؟ اُس نے ان سے کہا: کیا تم نے کبھی نہیں پڑھا کہ داؤد نے کیا کیا کہ جب اس کو اس کے ساتھیوں کو ضرورت ہوئی اور وہ بھوکے ہوئے     .... اور اُس نے اُن سے کہا:  سبت آدمی کے لیے بنا ہے نہ آدمی سبت کے  لیے۔‘‘(مرقس ۲: ۲۳ -۲۷)

یہی وجہ ہے کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام  نے سبت کے دن ایک بیمار شخص کو اچھا کیا تو یہود علما نے ان پر اعتراض کیا اور کہا کہ سبت کے دن یہ کام کرنا جائز نہیں۔  حضرت مسیح علیہ السلام نے جواب دیا :

’’سبت کے دن نیکی کرنا روا ہے یا بدی کرنا ؟ جان بچنا یا قتل کرنا؟‘‘( مرقس ۳: ۴)

آپ نے مزید فرمایا:

 ’’تم میں ایسا کون ہے جس کی ایک ہی بھیڑ ہو اور سبت کے دن گڑھے میں گر جائے تو وہ اسے پکڑ کر نہ نکالے۔  پس آدمی کی قدر تو بھیڑ سے بہت زیادہ ہے اس لیے سبت کے دن نیکی کرنا روا ہے۔‘‘ (        متی ۱۲: ۱۱ -۱۲)

یہود سبت کے متعلق یہ بھی کہتے تھے کہ اس دن خدا نے آرام کیا[4]۔   لیکن جب حضرت مسیح نے ایک شخص کو سبت کے دن اچھا کیا تو ’’یہودی یسوع کو ستانے لگے کیونکہ وہ ایسے کام سبت کے دن کرتا تھا لیکن یسوع نے ان سے کہا کہ میرا باپ (رب) اب تک کام کرتا ہے اور میں بھی کام کرتا ہوں[5]۔‘‘

پس حضرت مسیح نے سبت کا حکم نہیں توڑا البتہ لوگوں کو اس کی حقیقت سے آگاہ کر دیا۔  یہی وجہ ہے کہ ابتدائی مسیحی سبت کو مانتے تھے لیکن جب یہودیوں اور مسیحیوں میں اختلاف اور جدائی کی خلیج زیادہ وسیع ہو گئی تو مسیحیوں نے سبت کو ماننا ترک کر دیا[6]۔‘‘

اس تفصیلی بحث سے حضرت مسیح کی تعلیمات اور تورات کے قوانین کا آپس میں تعلق واضح ہو گیا۔  مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ دراصل تورات پر عمل پیرا تھے البتہ بعض پابندیاں اور اضافی بوجھ آپ نے ختم کر دیے۔  یہی مفہوم ہے ان کے اس قول کا ’ولا حل لکم بعض الذی حرم علیکم‘۔

پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو آپ نے انسانوں سے تمام اضافی بوجھ اٹھا لیا۔  اہلِ کتاب مومنین کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آخری نبی کی یہی خصوصیت بتائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِﵟ يَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْﵧ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْ٘ اُنْزِلَ مَعَهٗ٘ﶈ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ. (الاعراف ۷ : ۱۵۷)
’’ وہ لوگ جو پیروی کرتے ہیں اس نبی امی رسول کی جسے وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ ان کو نیکی کا حکم دیتا ہے،  برائی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں جائز ٹھیراتا اور خبیث چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اور پابندیاں اتارتا ہے جو ان پر اب تک رہی ہیں۔  تو جو اس پر ایمان لائے جنھوں نے اس کی عزت اس کی مدد کی اور اس روشنی کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتاری گئی ہے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘  

یہاں اہلِ کتاب مومنین کے متعلق فرمایا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تورات اور انجیل میں واضح نشانیاں اور پیش گوئیاں پاتے ہیں اور اس لیے وہ ان پر ایمان لاتے ہیں۔  اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل خصوصیات بیان کی ہیں:

۱۔ آپ معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں۔

  ۲۔ آپ طیبات حل کرتے ہیں اور خبائث حرام کرتے ہیں۔

  ۳۔ لوگوں پر جو بوجھ (اصر) اور پابندیاں (اغل) تھیں آپ نے ان کو ان سے مکمل نجات دی۔   پس دین اپنی مکمل شکل میں انسانی فطرت سے بالکل ہم آہنگ کر کے پیش کر دیا گیا،  اسی لیے دوسری جگہ فرمایا:

اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا.(المائدہ ۵ : ۳)
’’آج میں نے تمھارے لیے دین کو مکمل کیا، تم پر اپنی نعمت پوری کی اور تمھارے لیے اسلام دین پسند کیا۔‘‘

اب نجات کی راہ صرف یہی ہے کہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ نازل ہونے والے نور (قرآنِ مجید) کا اتباع کیا جائے۔

اللّٰھم ارنا الحق حقا وارزقنا اعباعه       وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه۔

ــــــــــــــــــــــــــــــ

[1]۔  خروج ۲۲: ۲۵، استثنا ۲۳: ۱۹۔

[2]۔  استثنا ۲۳: ۲۰۔

[3]۔  مکابی ۲: ۳۱ - ۴۱۔

[4]۔  خروج ۲۰: ۱۱۔

[5]۔  یوحنا ۵: ۱۶- ۱۷۔

[6]۔  قاموس الکتاب ص ۵۰۰۔


B