HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

تصویر (۵)

تصویر کے بارے میں صحابہ کا عمل

اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تصاویر کے حوالے سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہاں کیا عملی رویہ پایا جاتا تھا، یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم  نے آپ کی بات پر کیا عمل کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم  کے عملی رویے کے حوالے سے ہم روایات کے ذخیرے میں بہت سی معلومات پاتے ہیں ، جن میں سے چند روایات درجِ ذیل ہیں:

عن أبي الهياج الاسدي؛ قال لي علي الا أبعثك على ما بعثني عليه رسول الله صلي الله عليه و سلم ان لا تدع تمثالاً الا طمسته ولا قبراً مشرفاً الا سويته ولا صورة الا طمستها.( مسلم ، کتاب الجنائز)
  ’’ابو الہیاج الاسدی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا :کیا میں تم کو ویسی ہی مہم پر نہ بھیجوںجیسی مہم پر رسول اللہ ﷺ نے مجھے بھیجا تھا کہ تم ہر مجسمے کو توڑ دو ، ہر اونچی قبر کو برابر کر دو اور ہر تصویر کو مٹا دو۔‘‘
عن حنش الكناني عن علي أنه بعث عامل شرطته فقال له أتدري على ما أبعثك؟ على ما بعثني عليه رسول الله صلى الله  عليه و سلم أن أنحت كل يعني صورةً و أن أسوي كل قبر. (مسند احمد ، مسند العشرۃ المبشرین بالجنتہ)
’’ حنش الکنانی کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی پولیس کے کوتوال سے کہا کہ :تم جانتے ہو میں کس مہم پر تمہیں بھیج رہا ہوں ، اُسی مہم پر جس پر رسول اللہ ﷺ نے مجھے بھیجا تھا کہ میں ہر تصویر کو مٹا دوں اور ہر قبر کو زمین کے برابر کر دوں۔‘‘
قال عمر رضي الله عنه انا لا ندخل كنائسكم من أجل التماثيل التي فيها الصور. (بخاری ، کتاب الصلوٰۃ)
’’عمر رضی اللہ عنہ نے عیسائیوں سے کہا کہ ہم تمہارے کنیسوں میں اُن تماثیل (پوجی جانے والی چیزوں ) کی وجہ سے داخل نہیں ہوتے ، جن پر (تمہارے معبودوں کی ) تصاویر بنی ہوتی ہیں۔‘‘
كان ابن عباس يصلي في بيعة الا بيعة فيها التماثيل.(بخاری ، کتاب الصلوٰۃ)
’’ابنِ عباس رضی اللہ عنہ گرجا میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے ، مگر اس گرجا میں نہیں پڑھتے تھے ، جس میں تماثیل ہوتی تھیں۔‘‘

تصاویر کے حوالے سے صحابہ رضی اللہ عنہ کا یہ وہ عملی رویہ ہے جو ہمیں احادیث کی مستند کتابوں میں ملتا ہے۔ یہ روایات ہمیں بتاتی ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے تصویر کے حوالے سے آپ ﷺ کی بات پر کیا عمل کیاتھا۔  اِن روایتوں سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم مشرکانہ تصاویر سے سخت پرہیز کرتے تھے ۔ اُن کے احوال سے یہ پتا چلتا ہے کہ وہ تصویر کے حوالے سے اگر کوئی عمل کرتے تھے تو وہ یہی تھا کہ مشرکانہ تصویروں کے قریب بھی نہ پھٹکو۔

آپ دیکھیے ان روایتوں میں حضرت علی مشرکانہ تصویروں کو مٹانے کا حکم دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ اِن تصاویر کو مٹانا نبی ﷺ کا مشن تھا ، میں بھی اُسی راستے پر گامزن ہوں۔ حضرت عمر اور حضرت ابنِ عباس کو دیکھیے ، یہ عیسائیوں کے گرجوں میں نماز پڑھنا بالکل درست سمجھتے ہیں ، لیکن اگر اُن میں عیسائیوں کے شرکیہ عقائد کی نمائندہ (مشرکانہ )تصاویر ہوں ،تو پھر یہ کسی صورت بھی اُن میں نماز پڑھنے کو تیار نہیں ہوتے ۔

صحابۂ کرام عملاً جن تصاویر سے پرہیز کرتے تھے، وہ سب کی سب مشرکانہ تصاویر ہی تھیں۔چنانچہ صحابہ کا عمل بھی ہمیں یہی بات بتاتا ہے کہ وہ سب تصاویر ممنوع ہیں جو مظہرِ شرک ہیں۔

تصویر کے بارے میں صحابہ کا یہ عمل تو ہمیں احادیث کی بنیادی کتابوں میں ملتا ہے، اِس کے علاوہ کتبِ تاریخ اور احادیث کی بعض دوسری کتب کو دیکھیں ، تو وہاں سے بھی ہمیں تصویر کے بارے میں صحابہ کے عملی رویے سے متعلق کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ یہ باتیں درجِ ذیل ہیں:

۱۔حضرت عروہ کے بٹن میں آدمیوں کے چہروں کی تصویریں تھیں[10]۔

۲۔حضرت انس بن مالک کی انگوٹھی کے نگینہ پر ایک شیر غراں کی تصویر بنی ہوئی تھی[11]۔ 

۳۔حضرت ابو ہریرہ کی انگوٹھی میں جو نگینہ تھا ، اُس میں دو مکھیوں کی تصویر بنی ہوئی تھی[12]۔  

۴۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کی انگوٹھی کے نگینے میں دو آدمی بنے ہوئے تھے ، جن کے درمیان میں ایک شیر تھا[13]۔ 

۵۔ حضرت حذیفہ کی انگوٹھی میں دو سارس آمنے سامنے بنے ہوئے تھے اور اُن کے درمیان الحمد للہ لکھا ہوا تھا[14]۔ 

۶۔ قتادۃرحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت انس کی انگوٹھی میں ایک سارس بنا ہوا تھا ، جس کے دو سر تھے[15]۔ 

۷۔حضرت عمرا ن بن حصین کی انگوٹھی میں ایک آدمی کی تصویر تھی جو گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھا[16]۔ 

۸۔حضرت عمرکے زمانے میں جب شہر سوس فتح ہوا، تو وہاں ایک انگوٹھی دستیاب ہوئی جس کے متعلق یہ معلوم ہوا کہ یہ حضرت دانیال نبی کی انگوٹھی ہے، اِس انگوٹھی کے نگینے میں دو شیر اور ان کے مابین ایک آدمی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔حضرت عمر نے یہ انگوٹھی ابوموسٰی اشعری کو عنایت فرمائی اور کہا کہ تم اِس سے مہر لگایا کرو[17]۔ 

۹۔حضرت عمر ہی کے دور میں جب سلطنتِ ایران کا پایہ تخت مدائن فتح ہوا، تو فاتح ایران حضرت سعد بن ابی وقا ص نے جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے ایوانِ کسریٰ میں منبر نصب کیا اور جمعہ کی نماز ادا کی، حالانکہ اُس میں تماثیل ( مجسمے اور تصاویر) [18]  موجود تھیں[19]۔

صحا بۂ کرام کے بارے میں اِن تاریخی حوالوں کو بھی دیکھ لیجیے ، صاف محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے ہاں یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا کہ جان دار کی تصویر حرام ہے اور بے جان کی حلال ہے۔ہمارے علما ے کرام نے صحا بۂ کرام کے اِس رویے کو ’’تصویر میں استثنا ‘‘سے متعلق قرار دیا ہے،لیکن یہ محض ایک تکلف ہے۔ بٹن اور انگوٹھیوں پر بنائی جانے والی ایسی تصاویر بس زیب و زینت کے لیے ہوا کرتی ہیں اور اِس بات کا کیا سوال کہ صحابہ محض زیب و زینت کی خاطر ممنوع تصاویر ( خدا کی تخلیق کی نقل ) کو گوارا کرتے ہوں گے اور ایسی تصاویر کے معاملے میں وہ رخصت کی جگہ پر کھڑے ہوتے ہوں گے۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ ایسی تصاویر ممنوع ہی نہیں تھیں، جیسا کہ ہم پیچھے تفصیلی مطالعہ کر آئے ہیں۔

تصویر کے بارے میں فہمِ تابعین

تصویر کے بارے میں جب ہم فہمِ تابعین کے حوالے سے روایات کو دیکھتے ہیں، تو درجِ ذیل روایت ہمارے سامنے آتی ہے۔

حدثنا ليث قال دخلت على سالم بن عبد الله وهو متكي على وسادة فيها تماثيل طير ووحش فقلت اليس يكره هذا قال لا انما يكره ما نصب  نصبا. (مسند احمد ۔ مسند المکثرین من الصحابہ)
      ’’لیث رحمہ اللہ نے ہم سے بیان کیا کہ وہ سالم بن عبداللہ کے پاس گئے ،جبکہ وہ  (سالم)ایک ایسے تکیے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، جس پر پرندوں اور وحشی جانوروں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ وہ کہتے ہیں : میں نے پوچھا کہ کیا (تکیے وغیرہ پر) ایسی تصاویر (کا ہونا) مکروہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا: نہیں مکروہ تو بس وہ تصاویر ہیں ، جو استھانوں پر نصب کی جاتی ہیں۔‘‘

حضرت سالم بن عبداللہ تابعی کے عمل کو دیکھیے وہ وحشی جانوروں اور پرندوں کی تصاویر والے ایک تکیے پر اطمینان سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں ، لیث رحمہ اللہ آتے اور پوچھتے ہیں ، تصاویر والے تکیے کا یہ استعمال کیا مکروہ نہیں ہے، وہ بتاتے ہیں کہ یہ تصویریں تو ممنوع نہیں ہیں۔ ممنوع تو وہ تصویریں ہیں جو استھانوں پر گاڑی جاتی ہیں۔  یعنی وہی جو مظہرِ شرک ہیں ۔

عن إبراهيم قال لا بأس بالتمثال في حلية السيف؛ ولا بأس بها في سماء البيت؛ إنمايكره منها ما ينصب نصباً؛ يعني الصورة.(مصنف ابن ابی شبتہ ؛ کتاب الباس و الزینتہ؛ من رخص ان یدخل البیت فیہ التصاویر) 
 ’’ابراہیم نخعی رحمہ اللہ  سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ تلوار پر بنائے جانے والے نقش و نگار میں تماثیل یعنی تصاویر بنانے میں کوئی حرج نہیںاور نہ (کمرے کی) چھت میں تصاویر بنانے میں کوئی حرج ہے۔ ناپسندیدہ تصاویر تو وہ ہیں جو استھانوں پر گاڑی جاتی ہیں، یعنی (عام نہیں) خاص تصاویر۔‘‘

یہ ابراہیم بن یزید بن قیس النخعی مشہور تابعی کا تصویر کے بارے میں فہم ہے۔ اُن کی اِس بات سے بھی یہ بالکل واضح ہوتا ہے کہ صرف وہی تصاویر ممنوع ہیں جو مظہرِ شرک ہیں۔

تصویر کے بارے میں تابعین کا عمل

۱۔ حضرت ابراہیم تابعی کی انگوٹھی میں ’انا للہ ‘کے الفاظ منقوش تھے اور اُس پر ایک مکھی کی تصویر بھی بنی ہوئی تھی[20]۔

۲۔ حضرت عبداللہ بن محمد بن عقیل تابعی کے پاس ایک انگوٹھی تھی ، جس پر ایک شیر کی تصویر تھی۔ عبداللہ اپنا یہ خیال ظاہر کرتے تھے کہ نبی ﷺ اِس انگوٹھی سے مہر لگایا کرتے تھے[21]۔ 

صحابہ کے بعد اب تابعین کے بارے میں ان حوالوں کو بھی دیکھ لیجیے ، صاف محسوس ہوتا ہے کہ صحابہ کی طرح تابعین کے ہاں بھی یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا کہ جان دار کی تصویر حرام ہے اور بے جان کی حلال ہے۔ اصل بات وہی ہے کہ تصاویر بس وہی ممنوع ہیں ، جو مظہرِ شرک ہیں۔

قدیم شرائع میں تصویر

حرمتِ تصاویر کی علت اگر اُن کا مظہرِ شرک ہونا ہے، تو ظاہر ہے کہ شرک تو سب امتوں میں حرام رہا ہے ، لہٰذا ضروری ہے کہ (مشرکانہ )تصاویر بھی اُن کے ہاں اِسی طرح حرام رہی ہوں، جیسے ہمارے ہاں حرام ہیں۔ چنانچہ دیکھیے کہ تورات میں باقاعدہ سختی کے ساتھ یہ حکم دیا گیا:

’’ میں خداوند تیرا خدا ہوں، جو تجھ کو ملک مصر یعنی جاے غلامی سے نکال لایا۔ تیرے لیے میرے حضور کوئی دوسرا معبود نہ ہو۔ تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی چیز یا کسی چیز کی صورت ، جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین میں یا زمین کے نیچے کے پانی میں ہے ، مت بنانا۔ تو اُن کو سجدہ نہ کرنا اور نہ اُن کی خدمت کرنا، کیونکہ میں خداوند تیرا خدا ، خداے غیور ہوں۔  - - - - ‘‘( خروج، باب ۲۰، آیت ۲ ،۶)
’’تم اپنے لیے بُت یا گھڑی ہوئی مورتیں نہ بناؤ، نہ اپنے لیے ستون کھڑے کرو ،اور نہ اپنی زمین میں کوئی نقش دار پتھر رکھو، جس کے سامنے تم سجدہ کرو۔کیونکہ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔ ‘‘     ( أحبار، باب ۲۶، آیت ۱۔ ۲)
’’ ایسا نہ ہو کہ تم بگڑ جاؤ ، اور اپنے لیے کوئی گھڑی ہوئی مورت ، کسی صورت کے مشابہ ، مرد یا عورت کی بناؤ۔ یا کسی ایسے حیوان کی شکل [22]،  جو زمین پر ہے، یا ایسے پر دار جانور کی شکل جو آسمان میں اڑتا ہے، یا کسی چیز کی شکل جو زمین پر رینگتی ہے یا کسی ایسی مچھلی کی جو زمین کے نیچے پانی میں ہے ، ایسا نہ ہو کہ تو اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھائے اور سورج اور چاند اور ستاروں کو یعنی سب آسمانی لشکر کو دیکھ کر ،جن کو خداوند تیرے خدا نے آسمان کے نیچے کی سب قوموں کی خدمت کے لیے بنایا ، تو دھوکا کھائے اور اُن کو سجدہ کرے ا ور اُن کی خدمت کرے - - - - - -  پس اپنے آپ میں خبردار رہو کہ تم خداوند اپنے خدا کا عہد جو اُس نے تمہارے ساتھ کیا بھول نہ جاؤ۔ اور اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت اُس چیز کی نہ بناؤ ، جس سے خداوند تیرے خدا نے تجھے منع کیا ہے، کیونکہ خداوند تیرا خدا بھسم کرنے والی آگ ہے، وہ غیور خدا ہے۔‘‘  ( تثنیہ شرع، باب ۴، آیت ۱۶ تا ۱۹  اور ۲۳، ۲۴)

یہ تورات ہے ، دیکھ لیجیے ، اِس میں بھی کتنی وضاحت اور کتنی صراحت سے تصاویر کو ممنوع قرار دیا گیا ہے ، لیکن کن تصاویر کو ،انھی کو اور صرف انھی کو  جو شرک کا باعث ہیں اور شرک کا ذریعہ ہیں۔ ظاہر ہے ایسا ہونا بھی چاہیے تھا ،کیونکہ شرک تو ہر امت میں ممنوع رہا ہے۔

خلاصہ

اِس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تصویر کے بارے میں عمومی نقطۂ نظر یعنی یہ کہ جان دار کی تصویر ناجائز اور غیر جان دار کی جائز ہے، یہ درست نہیں ہے ۔ صحیح نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہر وہ تصویر ناجائز ہے ، جو کسی بھی درجے میں مظہرِ شرک ہے۔ یہی بات قرآنِ مجید کی واضح رہنمائی سے ہمارے سامنے آتی اور یہی احادیثِ صحیحہ سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہے۔ صحابہ اور تابعین کا فہم بھی یہی حکم لگاتا اور اُن کا عمل بھی اِسی کے مطابق دکھائی دیتا ہے ۔ یہی بات قدیم آسمانی مذاہب میں پائی جاتی ہے۔ اِس خاص (مشرکانہ) نوعیت کی تصاویر کے علاوہ جتنی تصاویر بھی ہیں، قرآن و حدیث میں تصویر کے بارے میں دی گئی رہنمائی ،اُن سے متعلق ہی نہیں ہے۔ ہاں یہ بات الگ سے درست ہے کہ وہ تمام تصاویر جن کے اندر شرک کے علاوہ کوئی اور دینی یا اخلاقی خرابی پائی جائے گی، وہ بھی دینی طور پر بالکل ممنوع ہوں گی۔ تصویر پر بحیثیتِ تصویر،خواہ وہ جان دار کی ہو یا بے جان کی ، دین کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جان دار یا بے جان، کسی کی بھی تصویر بنانا، خدا کی تخلیق کی وہ نقل نہیں ہے، جس نقل پر خدا نے سخت ناراضی ظاہر کی ہے۔ خدا کا دین تصویر بنانے کو صرف اور صرف اُسی وقت ممنوع قرار دیتا ہے، جب اُس میں دینی یا اخلاقی اعتبار سے کوئی خرابی پائی جاتی ہو۔ احادیث میں تصاویر بنانے اور اُنہیں اپنے پاس رکھنے کے عمل کو جس خرابی کی بنا پر ممنوع قرار دیا گیا ہے، وہ اُن کا مظہرِ شرک ہونا ہے۔

یہاں میں قارئین کے سامنے ایک ایسی حدیث لانا چاہوںگا، جسے پڑھ کر بہت حیرانی ہوتی ہے۔

عن عائشة ان جبريل جاء بصورتها في خرقة حرير خضراء الى النبي صلى الله عليه وسلم  فقال ان هذه زوجتك في الدنيا والاخرة.( ترمذی ، کتاب لمناقب عن رسول اللہ)
’’ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جبرئیل علیہ السلام سبز ریشم کے ٹکڑے میں لپٹی ہوئی میری تصویر لے کر نبی ﷺ کے پاس آئے، پھر یہ بتایا کہ یہ خاتون دنیا اور آخرت میں آپ کی بیوی ہوں گی۔‘‘

تصویر کے بارے میں ہمارے ہاں عموماً، جو موقف پایا جاتا ہے اُس کے مطابق تو یہ ممکن نہیں کہ کوئی عام فرشتہ بھی کسی انسان یعنی جان دار کی تصویر کے قریب بھی جائے، کجا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے معزز فرشتے جبرئیل علیہ السلام  عائشہ رضی اللہ عنہا کی تصویر سبز ریشم کے ٹکڑے میں لپیٹ کر، نبی ﷺ کو دکھانے چلے آئیں۔ العجب ثم العجب۔

ــــــــــ

تصویر کے بارے میں ہمارے ہاں جو موقف پایا جاتا ہے، اُس میں کیا غلطی اور کیا تضاد ہے، وہ کس طرح قرآنِ مجید کی رہنمائی اور احادیثِ رسول کی ہدایت سے ہٹا ہوا ہے اور پھر اِس سلسلے میں قرآن وحدیث کی ہدایت اور رہنمائی ہے کیا ،صحابہ نے اُسے کیا سمجھا اور اُس پر کیا عمل کیا ،یہ سب کچھ واضح کرنے کے بعد اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ تصویر ہی کے حوالے سے بعض اہم سوالات کو زیر بحث لایا جائے۔

 (باقی)

ــــــــــــــــــــــــــــــ

[10]۔ طبقات ابنِ سعد ،جز تابعین ص ۱۳۶  ۔ 

[11]۔ اسد الغابہ ، ج۱ ، ص ۱۲۸ ۔

[12]۔ تصویر کے شریعی احکام( ص ۳۶)  از مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ  ۔ 

[13]۔ مصنف ابنِ أبی شیبہ، ج۶ ، کتاب الباس والزینہ، نقش الخاتم و ما جاء فیہ ۔

[14]۔ مصنف ابنِ أبی شیبہ، ج۶ ، کتاب الباس والزینہ، نقش الخاتم و ما جاء فیہ ۔

[15]۔ المصنف ،عبدالرزاق ، ج ۱۰، باب الخاتم  ۔

[16]۔ مصنف ابنِ أبی شیبہ، ج۶ ، کتاب اللباس والزینہ، نقش الخاتم و ما جاء فیہ۔

[17]۔ تاریخ الامم و الملوک ، ج۴ ، ص ۲۲۱ ۔

[18]۔ تاریخ الامم و الملوک ، ج۴ ، ص ۱۷۷ ۔

[19]۔ یہ تماثیل کیسی تھیں؟ظاہرہے کہ اِس بات کا کوئی امکان نہیں کہ یہ تماثیل دین میں ممنوع بھی ہوں اور صحابہ نے انہیں گوارا بھی کر لیا ہو۔مشرکانہ تماثیل جب کہ وہ اہانت کی جگہ پر نہ ہوں ،سب علما و فقہا کے نزدیک ممنوع ہیں ، اِس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے ۔ چنانچہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ تماثیل تزئین وآرایش ہی کے لیے تھیں، جیسا کہ بادشاہوں کے درباروں میں اکثر ہوتا ہے، اور اگر اِن میں شرک کا کوئی پہلو کسی درجے میں تھا بھی تو موحدین کی غالب تلوار نے انہیں محلِ اہانت میں لا کھڑا کیا تھا، ورنہ صحابہ انہیں گوارا کرنے والے نہ تھے، جیسا کہ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ صحابہ تماثیل والے کلیساؤں میں داخل نہ ہوا کرتے تھے۔

مولانا شبلی نعمانی الفاروق میں ’’قادسیہ کی جنگ اور فتح ‘‘کے تحت انھی تماثیل کا ذکر کرتے ہوئے ،لکھتے ہیں کہ ’ہمارے فقہا کو تعجب ہو گاکہ حضرت سعد نے باوجود کہ اکابر صحابہ میں سے تھے اور برسوں رسالت مآب کی صحبت میں رہے تھے ، عالم گیر و محمود کی تقلید نہیں کی، بلکہ ایوان میں جس قدر مجسم تصویریں تھیں، سب برقرار رہنے دیں۔

 مولانا شبلی نے انہیں ممنوع تماثیل سمجھ کر ،صحابہ کے بارے میں جس خیال کا اظہار کیا ہے، ہمیں اُس سے اتفاق نہیں ہے۔

[20]۔ مصنف ابنِ أبی شیبہ، ج۶ ، کتاب الباس والزینہ، نقش الخاتم و ما جاء فیہ۔

[21]۔ المصنف عبدالرزاق، ج ۱۰، باب الخاتم ۔

[22]۔ مذہب ِ شرک کے پیرو کاروں کے ہاں انسانوں اور جانوروں وغیرہ کے بُت تراشے گئے تا کہ اُن کی عبادت کی جائے۔مثلاً قومِ نوح میں ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کی تماثیل جو بنائی گئی تھیں ، انہیں دیکھیں ، اِن میں سے وَد کی تمثیل مرد کی شکل پر بنائی گئی تھی، سواع کی عورت کی صورت پر، یغوث کی شیر کی صورت پر ، یعوق گھوڑے کی صورت پر اور نسر کی تمثیل گدھ کی صورت پر بنائی گئی تھی۔

B