۱۸۔ عید الفطر ، ۱۹۔ عید الاضحیٰ
یہ دونوں تہوار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق مسلمانوں کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ اسلام سے پہلے یوم السبع، یوم السباسب اور اس طرح کی بعض دوسری عیدوں کا ذکر مشرکینِ عرب کی روایات میں ملتا ہے۔ بنی اسرائیل کی شریعت میں بھی عید کے ایام تھے، لیکن تورات اور دوسرے صحیفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تعلق زیادہ تر ان کی تاریخ کے اہم واقعات سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری شریعت بنی آدم کو دی تو عید کے یہ دو تہوار ٹھیرائے اور دونوں کو اسلام اور تقویٰ کے دو عظیم مظاہر سے متعلق کر دیا۔ عید الفطر ہر سال رمضان کے اختتام پر شوال کی پہلی تاریخ کو روزوں کی عبادت کے پایۂ تکمیل تک پہنچنے کے بعد اور عیدالاضحیٰ ۱۰ ذوالحجہ کے دن سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یادگار کے طور پر منائی جاتی ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں تہوار ہجرت کے بعد مدینہ میں مقرر کیے گئے۔ سیدنا انس کا بیان ہے:
قدم النبی صلی اللہ علیه وسلم المدینة ولھم یومان یلعبون فیھما، فقال: ما ھٰذان الیومان؟ قالوا: کنا نلعب فیھما فی الجاھلیة، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم: قد ابدلکم اللہ بھما خیراً منھما یوم الاضحٰی ویوم الفطر.(ابوداؤد ، رقم ۱۱۳۴)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہاں لوگوں نے دو دن مقرر کر رکھے تھے جن میں وہ کھیل کود سے دل بہلاتے تھے۔ آپ نے پوچھا : یہ کیا دن ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ جاہلیت میں یہ ہمارے کھیل تماشے کے دن رہے ہیں۔ حضور نے اس پر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ تمھارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں : عید الاضحیٰ اور عید الفطر ۔‘‘
ان میں جو اعمال سنت کے طور پر جاری کیے گئے ہیں، وہ یہ ہیں:
۱۔ صدقۂ فطر
۲۔ نماز اور خطبہ
۳۔ ایام تشریق میں ہر نماز کے بعد تکبیریں ۔
صدقۂ فطر رمضان کے اختتام پر نمازِ عید سے پہلے ادا کیا جاتا ہے۔ یہ ایک فرد کے لیے صبح و شام کا کھانا ہے جو چھوٹے بڑے ہر شخص کے لیے دینا لازم کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسے بالعموم اناج کی صورت میں ادا کیا جاتا تھا۔ چنانچہ آپ نے اس کی مقدار ایک صاع، یعنی کم و بیش ڈھائی کلو گرام مقرر کر دی تھی:
فرض رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم زکاة الفطر صاعاً من تمر اوصاعاً من شعیر، علی العبد والحر الذکر والانثیٰ والصغیر والکبیر من المسلمین وامربھا ان تودی قبل روج الناس الی الصلوٰۃ.(بخاری ، رقم ۱۵۰۳)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر ہر مسلمان پر لازم ٹھیرایا ہے۔ ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہر فرد کے لیے، غلام ہو یا آزاد: مرد ہو یا عورت: چھوٹا ہو یا بڑا اور حکم دیا کہ یہ نماز کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے۔ ‘‘
o عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ صدقہ لغو اورشہوانی باتوں کے اثرات سے روزوں کی تطہیر اور غربیوں کے لیے عید کے کھانے کی غرض سے عائد کیا ہے[17]۔
نماز اور خطبہ کی تفصیلات ہم اسی کتاب میں ’’قانونِ عبادات‘‘ کے تحت بیان کر چکے ہیں۔
نمازوں کے بعد تکبیر کا حکم مطلق ہے۔ اس کے کوئی خاص الفاظ شریعت میں مقرر نہیں ہیں اور اس کے ایام وہی ہیں جو منیٰ میں قربانی کے بعد وہاں قیام کے لیے ٹھیرائے گئے ہیں۔ ۱۰ ذوالحجہ کے بعد یہ دن بھی عید ہی کے دن سمجھے جاتے ہیں۔
عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے یہ دونوں تہوار ذکر، شکر اور تفریحات کے لیے خاص ہیں۔ ام المومنین سیدہ عائشہ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر جب ان کے والد سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے گھر میں گانا گاتے ہوئے بچیوں کو منع کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یا ابابکر، ان لکل قوم عیداً و ھذا عیدنا.(بخاری رقم ۹۵۲)
’’ابوبکر ، (اِنھیں گانے دو)، ہر قوم کے لیے ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔ ‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جو معمولات ان موقعوں پر روایتوں میں بیان ہوئے ہیں ، وہ درجِ ذیل ہیں:
عید الفطر کے دن آپ چند کھجوریں کھا کر نماز کے لیے نکلتے تھے اور ان کی تعداد ہمیشہ طاق ہوتی تھی[18]۔
عید الاضحیٰ کے دن نماز سے پہلے کچھ نہیں کھاتے تھے[19]۔
عید کی نماز کے لیے جس راستے سے جاتے ، اسے بدل کر واپس تشریف لاتے تھے[20]۔
۲۰۔ اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ
انبیا علیہم السلام کے دین میں جانوروں سے گوشت حاصل کرنے کے لیے ان کی جان لینے کا یہی طریقہ مقرر کیا گیا ہے۔ اللہ کا نام، ظاہر ہے کہ اس کی نعمتوں کے اعتراف و اقرار، شرک کے استیصال اور جان کی حرمت کو اذنِ خداوندی سے متعلق قرار دینے کے لیے لیا جاتا ہے اور تذکیہ کا طریقہ اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ جانور کا گوشت خون کی نجاست سے پوری طرح پاک ہو جائے ۔
تذکیہ کا لفظ جس مفہوم کے لیے بولا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی تیز چیز سے جانور کو زخمی کر کے اس کا خون اس طرح بہا دیا جائے کہ اس کی موت خون بہ جانے ہی کے باعث واقع ہو۔ اس کا طریقہ ذبح یا نحر ہے ۔ ذبح گائے، بکری اور اس کے مانند جانوروں کے لیے خاص ہے اور نحر اونٹ اور اس کے مانند جانوروں کے لیے۔ ذبح سے مراد یہ ہے کہ کسی تیز چیز سے حلقوم اور مری (غذا کی نالی) یا حلقوم اور ودجین (گردن کی رگوں) کو کاٹ دیا جائے اور نحر یہ ہے کہ جانور کے حلقوم میں نیزے جیسی کوئی تیز چیز اس طرح چبھوئی جائے کہ اس سے خون کا فوارہ چھوٹے اور خون بہ کر جانور بالآخر بے دم ہو کر گر جائے۔
____________