HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

یہودی سائل

(مشکوٰۃ المصابیح،حدیث ۵۸- ۶۰)

 

عن صفوان بن عسال رضی اﷲ عنه قال: قال یهودی لصاحبه: اذھب بنا إلی ھذا النبی (صلی اﷲ علیه وسلم). فقال له صاحبه: لاتقل: نبی، إنه لو سمعک لکان له أربع أعین. فأتیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم. فسألاہ عن (تسع) آیات بینات. فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: لا تشرکوا باﷲ شیئا، ولا تسرقوا، و لا تزنوا، و لا تقتلوا النفس التی حرم اﷲ إلا بالحق. و لا تمشوا ببرئ إلی ذی سلطان لیقتله، و لا تسحروا، ولا تأکلوا الریا، و لا تقذفوا محصنة، و لا تولوا یوم الزحف ، و علیکم خاصة. الیهود. أن لا تعتدوا فی السبت. قال: فقبلا یدیه و رجلیه. و قالا: نشهد أنک نبی. قال: فـمـا یمنعکم أن تتبعونی؟ قالا: إن داؤد علیه السلام دعا ربه أن لا یزال من ذریته نبی. و إنا نخاف إن تبعناک أن تقتلنا الیهود.

’’صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا:میرے ساتھ اس نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )کے پاس چلو ۔ اس کے ساتھی نے اس سے کہا : نبی نہ کہو ۔ اگر انھوں نے سن لیا تو ان کی مسرت کا ٹھکانا نہ ہو گا[1] ۔پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورآپ سے (نو) آیات کے بارے میں دریافت کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، چوری نہ کرو زنا نہ کرو، اس جان کو قتل نہ کرو جس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے الا یہ کہ( شریعت کے دیے ہوئے )حق کے تحت( اسے قتل کیا جارہا ہو)، کسی بے گناہ کو صاحب ِ اقتدار کے پاس قتل کے لیے نہ لے جاؤ ، جادو نہ کرو ، سود نہ کھاؤ ، کسی پاک دامن پر تہمت نہ لگاؤ ،گھمسان لڑائی سے راہِ فرار نہ ڈھونڈو ، اور اے یہود !تمھارے لیے خاص بات یہ ہے کہ سبت کے معاملے میں تجاوز نہ کرو ۔ آپ کی بات سن کر ان دونوں نے آپ کے ہاتھ اور پاؤں چومے اور کہا ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ نبی ہیں ۔آپ نے پوچھا : پھر تمھیں میری اتباع کرنے سے کیا چیز روکتی ہے ۔ دونوں نے جواب دیا : داؤد علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ نبی ہمیشہ میری اولاد سے ہو ۔(مزید یہ کہ ) ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کی پیروی کی تو یہود ہمیں قتل کر دیں گے۔‘‘

لغوی مباحث

آیات:’آیة‘ کی جمع ۔ اس کا مطلب وہ نشانی ہے، جس سے کسی اور بات تک پہنچا جا سکے ۔ اسی سے یہ لفظ معجزات کے لیے بھی آتا ہے اور قرآنِ مجید کی آیات کے لیے بھی ۔

سلطان: یہ لفظ دلیل ، فیصلہ کن امر،اور اختیار و اقتدار کے معنی میں آتا ہے ۔ یہاں یہ آخری معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

الربا: وہ متعین اضافہ جس سے قرض کی واپسی مشروط کی جائے۔

السبت: ہفتے کادن ، یہ دن یہود کے ہاں عبادت کے لیے مخصوص ہے ۔ اس میں ان کو کام کاج اور سیر و شکار  وغیرہ کی ممانعت ہے۔

متون

اوپر درج روایت میں ’تسع‘ کا لفظ قوسین میں ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ صاحبِ مشکوٰۃ کے سامنے جو متن ہے اس میں یہ لفظ موجود نہیں تھا ۔ اور یہاں انھوں نے اسے دوسری روایت کی روشنی میں شامل کیاہے ۔ ایک روایت میں یہ تصریح بھی ہے کہ دونوں یہودیوں کا سوال سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ’ولقد آتینا موسی تسع آیات بینات‘(۱۷: ۱۰۱)کے حوالے سے تھا ۔یہ ساری بات ہی ناقابلِ قبول ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس روایت کے باقی مضمون کا اس آیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس آیت میں ان معجزات کا حوالہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعونیوں کے مطالبے پر دیے گئے تھے ۔جبکہ اس روایت میں ان احکام کی تفصیل ہے جو یہود کو دیے گئے تھے ۔ ظاہر ہے یہ بات مانی نہیں جا سکتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آیت کے بارے میں پوچھا جائے اور آپ اس کا جواب آیت کے مضمون کے برعکس دیں ۔یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ اسی سورہ میں ان احکام کا بھی حوالہ ہے جو بنی اسرائیل کو دیے گئے تھے اور وہ نو نہیں دس تھے ۔ان احکامِ عشرہ اور ان نو احکام میں بھی بہت سی باتیں مختلف ہیں ۔ اس سے بھی واضح ہے کہ راوی کا یہ اضافہ درست نہیں ہے۔ یہ روایت راویوں کے سوء فہم سے روایت میں پیدا ہونے والے خلط ِ مبحث کا کامل نمونہ ہے ۔

دوسری لمبی روایات کی طرح اس روایت کے متون بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ بعض روایات میں اس روایات کے آخری سوال و جواب نہیں ہیں اور بعض میں ہاتھ چومنے کا واقعہ مذکور نہیں ہے ۔ باقی فرق لفظی ہیں ۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف روایت ہے ۔ متن کے اعتبارسے اس کا ضعف اوپر تفصیل سے زیرِ بحث آ چکا ہے۔

معنی

اوپر متون کی بحث میں ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اس روایت کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی نو نشانیوں سے کوئی تعلق نہیں ۔ اسی طرح یہ بات بھی بیان ہوگئی ہے کہ احکامِ عشرہ سے بھی اس کے مضامین مختلف ہیں ۔احکامِ عشرہ میں والدین کی اطاعت کا ذکر ہے اور اس میں اس کا ذکر نہیں ہے ۔ اسی طرح اس روایت میں جادو اور سبت کا ذکر ہے جبکہ احکامِ عشرہ میں یہ دونوں مذکور نہیں ہے ۔ چنانچہ اس روایت میں بیان کی گئی اس ملاقات کی وجہ راوی کا اپنا اضافہ ہے ۔ اگر روایت کے اس حصے کو قیاس سے متعین کریں تو یہی کہنا موزوں محسوس ہوتا ہے کہ سوال شریعت موسوی کے اہم احکام سے متعلق تھا اور سوال کرنے والوں کے پیشِ نظر حضور کی آزمایش تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے صحیح جواب دے دیا تو انھوں نے آپ کے نبی ہونے کااقرار کیا ۔

اس روایت میں ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تمام کے تمام احکام ممنوعات سے متعلق ہیں۔ شریعت موسوی کے فرائض و واجبات کا اس روایت میں ذکر نہیں ہے ۔ممکن ہے سوال صرف ممنوعات ہی کے بارے میں کیا گیا ہو۔

شرک ، چوری، زنا ، قتل ، جادو ، سود ، تہمت اورمیدانِ جنگ سے فراریہ تمام امور سابقہ روایات سے زیرِبحث آچکے ہیں ۔سبت کا معاملہ یہود کا خصوصی مسئلہ ہے ۔ معلوم ہوتاہے کہ اس پورے دن کو عبادت کے ساتھ خاص کرنے کے لیے خاص ضابطہ بنایا گیا تھا ، جس سے انحراف کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ہمارا جمعہ اس کے مقابلے میں ایک آسان دن ہے اور نماز اور خطبے کے وقت کے سوا تمام دن کے لیے ہر کام کیا جا سکتا ہے ۔

روایت کے آخر میں حضرت داؤد علیہ السلام کی دعا کوبطورِ عذر پیش کیا گیا ہے ۔ یہ بات سرتاسر حضرت داؤد علیہ السلام پر اتہام ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی کتاب زبور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی واضح پیشین گویاں موجود ہیں ۔ ان کے ہوتے ہوئے مذکورہ مضمون کی حامل دعا کے وجود کا کوئی امکان نہیں ۔

اس روایت میں ان یہودیوں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری طرح پہچان لینے اور آپ کو غیر معمولی احترام دینے کا ذکر بھی ہوا ہے ۔ یہ واقعہ اس حقیقت کی ایک مثال ہے جسے قرآنِ مجید میں ’الذین آتیناھم الکتاب یعرفونه کما یعرفون أبنائهم ‘،(وہ لوگ جنھیں ہم نے کتاب دی تھی اس پیغمبر کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح یہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔)کے الفاظ میں بیان کیا ہے ۔

کتابیات

ترمذی، کتاب الاستئذان والآداب ،باب۳۲۔ کتاب تفسیر القرآن ، باب ۱۸۔نسائی ، کتاب تحریم الدم ، باب ۲۹۔ ابنِ ماجہ ، کتاب الادب ، باب ۱۶۔ مسند احمدحدیث صفوان بن عسال المرادی ۔

_______


مسلمان کا حق اور جہاد

عن أنس رضی اﷲ عنه قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: ثلاث من أصل الإیمـان: الکـف عـمن قـال: لا إله إلا اﷲ، لا تکـفرہ بذنب، و لا تـخرجه من الاسلام بعمل. و الجهاد ماض مذ بعثنی اﷲ إلی أن یقاتل آخر ھذہ الأمة الدجال. لا یبطله جور جائر، و لا عدل عادل. و الإیمان بالأقدار .

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین چیزیں ایمان کی اصل ہیں : (ایک )اس سے ہاتھ روک لینا ، جس نے اقرار کر لیا کہ لاالٰه اِلاّ اﷲ، (دوسرے)تم کسی گناہ کی وجہ سے اس کی تکفیر نہ کرو ،اور کسی عمل کی وجہ سے اس کو اسلام (کے دائرے )سے نہ نکالو۔ (تیسرے) جہاد اس دن سے جاری ہے جس دن اللہ نے مجھے مبعوث کیا اس دن تک جب اس امت کے آخری لوگ دجال سے جہاد کریں گے ۔ اس حقیقت کو کسی ظالم کا ظلم اور کسی عادل کا عدل باطل نہیں کر سکتا۔ اور ایمان تقدیروںپر ہے ۔‘‘

لغوی مباحث

لا تکفرہ: نہی کاصیغہ ہے ۔ یعنی کافر قرار نہ دو ۔

ماض: گزرنے والا ، یہ ’مضی ،یمضی‘ سے اسمِ فاعل ہے ۔ یہاں اس سے اس کا جاری ہونا مراد ہے۔

الدجال:’دجل‘ سے ’فَعَّالٌ‘ کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ یعنی بہت ہی فریب کار ۔ یہ آخری زمانے کے فتنے کی نوعیت کو واضح کرتا ہے ۔

اقدار:’قدر‘ کی جمع ہے ۔ یہ لفظ احادیث میں بالعموم تقدیر کے معنی میں آتا ہے ۔

متون

یہ روایت صرف ابوداؤد نے لی ہے ۔ صاحبِ مشکوٰۃ نے اسے ابوداؤد ہی سے نقل کیا ہے ۔ لہٰذا اس کے متن میں کسی تفاوت کا کوئی سوال نہیں ہے ۔یہ روایت بھی سند کے اعتبارسے ضعیف ہے ۔

معنی

تین چیزیں ایمان کی اصل ہیں ۔ یہ جملہ اس روایت میں ایمان کے اجزا کو بیان کرنے کے لیے نہیں ہے ، بلکہ ایمان کے بعض عملی تقاضوں کی اہمیت واضح کرنے کے لیے ہے ۔ پہلی چیز یہ ہے کہ کسی صاحبِ ایمان کو اپنے قول و فعل سے نقصان نہ پہنچایا جائے ۔ یہ وہی بات ہے جسے ایک روایت میں ’المسلم من سلم المسلمون من یدہ و لسانه، (مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔)کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ دوسری چیز یہ ہے کہ کسی مسلمان کو اس کے کسی گناہ یا عمل کی پاداش میں دائرۂ اسلام سے خارج نہ کیا جائے ۔ اس ہدایت کی اہمیت بھی پہلی ہدایت سے کم نہیں ہے ۔ اس میں اگر اس کے جان ومال اور ناموس کے خلاف تعدی سے روکا گیا ہے تو اس میں اس کے ایمان کے خلاف تعدی کو ممنوع ٹھیرایا گیاہے ۔جس طرح پہلا عمل ایذا رسانی ہے اسی طرح یہ عمل بھی باعثِ ایذا ہے ، بلکہ اس کی ایذا پہلے کے مقابلے میں بڑھی ہوئی ہے ۔اس لیے کہ اس میں کسی شخص کو ملت کے وجود سے کاٹ دیا جاتا ہے ، جس کے نتیجے میں اس کے سماجی حقوق تلف ہوتے ہیں ۔اس کی مثال اس بیٹے کی سی ہو جاتی ہے جسے اس کے باپ نے گھر سے نکال دیا ہو اور اس کے لیے اب کوئی ٹھکانا نہ ہو۔ اس جملے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کوئی گناہ یا عمل تکفیر کا موجب نہیں ہے۔

تیسری چیز جہاد ہے ۔ جہاد کے بارے میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ اس کا حکم قیامت تک کے لیے ہے ۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتمامِ حجت کے بعد کیے گئے جہاد اور اس مشن کی تکمیل سے یہ قیاس نہیں کیا جانا چاہیے کہ اب جہاد ختم ہو گیا ہے ۔اس جملے سے یہ اشارہ ملتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی حیثیت کے تحت کیے گئے جہاد کی نوعیت صحابہ رضی اللہ عنہم پر واضح تھی ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح کر دیا کہ جہاد صرف یہی ایک نوعیت نہیں ہے ، بلکہ ظلم وعدوان کے خلاف اس امت کو ہمیشہ جہاد کے لیے تیار رہنا ہے ۔ یہاں تک ظلم کا آخری مظہر دجال ظاہر ہو جائے ۔

ایمان بالاقدار کے الفاظ میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ خدا کو ایک فعال ہستی کی حیثیت سے ماننا لازم ہے۔  وہ ہر وقت معاملات کو دیکھتا اور اپنے فیصلے صادر کرتا رہتا ہے ۔

کتابیات

ابو داؤد ، کتاب الجہاد ،باب ۳۵۔

_______


ایمان کا سایہ

و عن أبی ھریرة رضی اﷲ عنه قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: إذا زنی العبد خرج منه الإیمان. فکان فوق رأسه کالظلة. فإذا خرج من ذلک العمل رجع إلیه الإیمان.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب بندہ زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل جاتا ہے ۔(اس دوران میں) وہ اس کے سر پر سائبان کی طرح رہتا ہے ۔پھر جب وہ اس عمل سے نکلتا ہے تو ایمان اس کے پاس واپس آ جاتا ہے ۔‘‘

لغوی مباحث

الظلة: چھوٹا سائبان۔

متون

اس روایت کے متون کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں ۔ البتہ ترمذی کی یہ تصریح قابلِ ملاحظہ ہے کہ ایک روایت میں ’خرج منہ الایمان‘ کے بجائے ’خرج من الایمان الی الاسلام‘ کا جملہ آیا ہے ۔یہ جملہ کسی طرح بھی قابلِ قبول نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بات کہنا پیشِ نظر ہے وہ ایمان سے عارضی محرومی ہے ۔ ایمان سے اسلام کی طرف سفر سے یہ معنی ادا نہیں ہوتے ، بلکہ یہ جملہ اس سیاق وسباق میں بے معنی معلوم ہوتا ہے ۔

ایک روایت میں ’فکان فوق رأسه کالظلة‘ کی جگہ ’کان علیه کالظلة‘ ہے ، ’فإذا خرج من ذلک العمل‘ کے بدلے میں ’فإذا انقطع‘ اور ’رجع‘ کے بجائے ’عاد‘ آیا ہے۔ یہ فرق واضح کر دیتے ہیں کہ صاحبِ مشکوٰۃ کا اختیار کردہ متن ہی سب سے بہتر ہے ۔

معنی

یہ وہی مضمون ہے جو حدیث۵۳ اور۵۴ میں بیان ہوا ہے ۔ وہاں ہم نے یہ بیان کیا ہے کہ گناہ ایمان کو وقتی طور پر فراموش کر دینے کی کیفیت میں ہوتا ہے ۔ اسی حقیقت کو ان روایات میں ایمان کے نکلنے اور واپس آنے کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے اور اس روایت میں اسی کے لیے چھاتے کی تعبیر اختیار کی گئی ہے ۔

کتابیات

ترمذی ، کتاب الایمان ، باب ۱۰۔ ابوداؤد ، کتاب السنۃ ، باب ۱۶۔

___________

[1]۔ یہاں عربی کے الفاظ کا مطلب ہے ان کی آنکھیں چار ہوجائیں گی ۔ یہ آنکھوں سے مسرت کے ظاہر ہونے کی تعبیر ہے۔

B