HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۱۰۸-۱۱۳ (۲۱)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

اَمْ تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَسْـَٔلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوْسٰي مِنْ قَبْلُﵧ وَمَنْ يَّتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيْلِ ١٠٨

(اِن کی پیروی میں،  ایمان والو)  کیا تم بھی اپنے رسول سے اسی طرح کی باتیں پوچھنی چاہتے ہو،  جس طرح کی باتیں اس سے پہلے موسیٰ سے پوچھی گئی تھیں[265]؟ (تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایمان کا طریقہ نہیں ہے) اور (معلوم ہونا چاہیے کہ) جس نے ایمان کو کفر میں بدلا،  وہ پھر سیدھی راہ سے بھٹک گیا[266]۔ ۱۰۸

وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۣ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًاﵗ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۣ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّﵐ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖﵧ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ١٠٩ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَﵧ وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِﵧ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ١١٠

بہت سے اہلِ کتاب محض اپنے حسد کی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ تمھارے ایمان کے بعد وہ پھرتمھیں کفر کی طرف پلٹا دیں،  اس کے باوجود کہ حق ان پر اچھی طرح واضح      ہو چکا ہے۔  سو (ان سے) درگزر کرو [267] اور نظر انداز کرو،  یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر کر دے[268]۔ بے شک،  اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔  اور (ان فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے)  نماز کا اہتمام ر   کھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو[269] ، اور (یاد ر   کھو کہ) جو نیکی بھی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے،  اسے تم اللہ کے ہاں پا لو گے۔  اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو کچھ تم کر رہے ہو،  اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ ۱۰۹ - ۱۱۰

وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰيﵧ تِلْكَ اَمَانِيُّهُمْﵧ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ١١١ بَلٰيﵯ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗ٘ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖﵣ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ ١١٢ وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ لَيْسَتِ النَّصٰرٰي عَلٰي شَيْءٍﵣ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰي لَيْسَتِ الْيَهُوْدُ عَلٰي شَيْءٍﶈ وَّهُمْ يَتْلُوْنَ الْكِتٰبَﵧ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْﵐ فَاللّٰهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ ١١٣

اور (یہی نہیں) ، وہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہو سکے گا،  جب تک وہ یہودی  یا  نصرانی نہ ہو[270] ۔ یہ اِنھوں نے محض آرزوئیں باندھ لی ہیں۔ اِن سے کہو، تم سچے ہو تو (اِس کے لیے) اپنی کوئی دلیل پیش کرو۔ ( اِن کی اِس بات میں کوئی حقیقت نہیں)۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اپنی ہستی جن لوگوں نے اللہ کے سپرد کر دی [271]  اور وہ اچھی طرح سے عمل کرنے والے ہیں[272] ، اُن کے لیے ان کا اجر ان کے پروردگار کے ہاں محفوظ ہے،  اور اُنھیں (وہاں) کوئی اندیشہ ہو گا اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں گے[273] ۔ اور (تمھارے خلاف اِس گٹھ جوڑ سے الگ،  اے پیغمبر، ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ[274]) یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کی کوئی بنیادنہیں اورنصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودیوں کی کوئی بنیاد نہیں،  دراں حالیکہ دونوں کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں۔  اِسی طرح [275]  بالکل انھی کی سی بات اُن لوگوں نے بھی کہی جو (خدا کی کتاب کا کوئی) علم نہیں رکھتے[276] ۔ چنانچہ اب اللہ قیامت کے دن ہی اس معاملے کا فیصلہ کرے گا جس میں یہ جھگڑ رہے ہیں[277] ۔ ۱۱۱ -۱۱۳

[265]۔  اصل میں لفظ ’سؤال‘استعمال ہوا ہے۔  عربی زبان میں یہ کئی معنوں میں آتا ہے  یہاں موقعِ کلام دلیل ہے کہ یہ معترضانہ سوال کے مفہوم میں ہے۔

[266]۔  اس سے اوپر والی آیت میں جس طرح یہود کو تنبیہ کی گئی ہے،  اسی طرح یہ مسلمانوں میں اُن کی نمائندگی کرنے والوں کو تنبیہ ہے ، لیکن ان سوالات کے پسِ پردہ بھی چونکہ یہود ہی کا ذہن کارفرما تھا ، اس وجہ سے قرآن نے یہ کہہ کر کہ اس طرح کی باتیں اس سے پہلے موسیٰ سے پوچھی گئیں،  بڑی بلاغت کے ساتھ انھیں بھی توجہ دلا دی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی سازشوں اور وسوسہ اندازیوں سے بے خبر نہیں ہے۔

[267]۔  اصل میں لفظ ’عفو‘ استعمال ہوا ہے۔  یہ جس طرح دل سے معاف کر دینے کے معنی میں آتا ہے،  اسی طرح درگزر کرنے،  چشم پوشی کرنے اور نظر انداز کر دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔  قرآنِ مجید میں اس معنی کی نظیر سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۱۵میں دیکھ لی جا سکتی ہے۔

[268]۔  یہی فیصلہ ہے جو سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۲۹کے مطابق یہود پر اتمامِ حجت کے بعد ان سے جزیہ لینے اور انھیں مسلمانوں کا زیر دست بنا کر رکھنے کی صورت میں صادر ہوا۔

[269]۔  تمام دین کی بنیاد اور تمام اصلاح و تربیت کی اساس ، قرآن کی رو سے یہ نماز اور زکوٰۃ ہی ہیں۔ چنانچہ اس طرح کے سب مواقع پر وہ معاندینِ اسلام کے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بالعموم انھی کی تاکید کرتا ہے۔

[270]۔  مطلب یہ ہے کہ اسلام کی مخالفت میں یہودو نصاریٰ،  دونوں ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے ہیں اور دونوں نے مل کر جس طرح نسخ کا اعتراض مسلمانوں کے دل میں شک اور تردد پیدا کرنے کے لیے اٹھایا ہے،  اسی طرح وہ یہ پروپیگنڈا بھی کر رہے ہیں کہ نجات کے لیے آدمی کو یہودیت اور نصرانیت میں سے کسی ایک کا انتخاب لازماً کرنا چاہیے۔  ان کے خدائی دین ہونے سے جب قرآن کو بھی انکار نہیں ہے تو ان کے ہوتے ہوئے کسی نئے دین کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ نئی دعوت تو محض ایک فتنہ ہے جو اس کے علم برداروں نے ہماری اس سرزمین میں پیدا کر دیا ہے۔

[271]۔  یعنی اپنی پوری زندگی کو خدا کی شریعت کے تابع کر دیا ۔

[272]۔  اصل میں لفظ ’محسن‘استعمال ہوا ہے۔  اس کے معنی کسی کام کو اس کے بہترین طریقے پر کرنے کے ہیں۔  دین میں جب کوئی عمل اس طرح کیا جائے کہ اس کی روح اور قالب پورے توازن کے ساتھ پیشِ نظر ہوں،  اس کا ہر جز بہ تمام وکمال ملحوظ رہے تو اسے ’احسان‘ کہا جاتا ہے۔  لفظ ’محسن‘ اسی ’احسان‘ سے بنا ہے۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی جب اس احساس کے ساتھ کی جائے گویا ہم اُسے دیکھ رہے ہیں تو یہ ’احسان‘ ہے۔ (مسلم، رقم ۱)

[273]۔  یعنی یہودی اور نصرانی نہیں،  بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو جنت کے مستحق قرار پائیں گے۔

[274]۔  مطلب یہ ہے کہ تمھاری مخالفت کے لیے تو یہ بے شک،  ایک دوسرے کو بڑی فیاضی کے ساتھ جنتی قرار دے رہے ہیں،  لیکن اس سے الگ ان کی باہمی تکفیر وتفسیق کی حالت یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی کوئی جڑ بنیاد تسلیم نہیں کرتے ۔

[275]۔  یعنی اس نیت کے ساتھ اور انھی محرکات کے تحت جو یہود کے اس طرح کی بات کہنے کا باعث بنے ہیں۔

[276]۔  اس سے مراد مشرکینِ عرب ہیں۔  یہ چونکہ صدیوں سے کتاب اور نبوت دونوں سے ناآشنا تھے،  اس لیے ان کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے۔

[277]۔  اس میں اگر غور کیجیے تو مخاطبین کے لیے وعید کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ تسلی بھی ہے کہ تم اس نزاع میں صرف حق پہنچا دینے ہی کے ذمہ دار ہو۔  اس سے زیادہ تمھارے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

ـــــــــــــــــــــ

B