محمد بلال
روزنامہ ’’اساس‘‘ راولپنڈی نے ’’جمہوریت اور قومی ادارے‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا، جس میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اطلاعات و فروغِ ابلاغ اور سیاسی امور میں چیف ایگزیکٹو کے مشیر جاوید جبار صاحب نے کہا:
’’جمہوریت اور اسلام میں کوئی تضاد نہیں۔ حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمہوریت کے سب سے بڑے قائد تھے۔ وہ اللہ کے نبی تھے وہ چاہتے تو من مانی کر سکتے تھے، لیکن ہمارے سامنے ایسے کئی واقعات ہیں کہ انھوں نے مشاورت کی اور لوگوں کی رائے کا احترام کیا، لوگوں کی بری بات سن کر ان کو معاف کیا۔ جاوید جبار نے کہا کہ دراصل جمہوریت پارلیمنٹ ہاس سے نہیں بلکہ گھر سے شروع ہوتی ہے۔‘‘
اسی تقریب میں سابق وزیرِ خارجہ سرتاج عزیز صاحب نے کہا:
’’جمہوریت کو آپ اسلام سے بالکل علیحدہ نہیں کر سکتے۔‘‘
روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے ایڈیٹر انچیف اور نامور صحافی جناب مجیب الرحمان شامی نے کہا:
’’پاکستان کی منزل اسلام ہے اور جمہوریت ایک ذریعہ ہے انھوں نے کہا کہ جمہوریت ایل سی (L.C) کھول کر درآمد کی جانے والی چیز نہیں ہے، بلکہ دنیا میں جمہوریت کا علاج مزید جمہوریت سے ہی کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ معاشرے آہستہ آہستہ چلنے سے تبدیل ہوتے ہیں اور ایک دن میں معاشرے تبدیل نہیں ہوتے۔‘‘ (اساس ۲۷ جولائی ۲۰۰۰)
یہ تینوں حضرات دین و شریعت کا علم رکھنے کے معاملے میں کوئی تاثر یا تعارف نہیں رکھتے۔ ان کا اصل میدان دینی علم نہیں ہے۔ جاوید جبار صاحب تو ایک فوجی حکومت کے وزیر اور مشیر ہیں مگر یہ بات خوش گوار حیرت کا باعث ہے کہ اسلام اور جمہوریت اور معاشرے کی تدریج سے اصلاح کی جو باتیں ان حضرات نے کی ہیں ، وہ دین و شریعت کے عین مطابق ہیں ۔
اور یہ بات ناگوار حیرت کا باعث ہے کہ بہت سے مذہبی علما اور مذہبی جماعتوں کے قائد، اسلام اور جمہوریت اور معاشرے کی اصلاح کے معاملات میں دین و شریعت کے بالکل منافی فکر اور رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ جمہوریت کو اسلام کے منافی قرار دیتے ہیں اور چند دنوں میں شریعت نافذ کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ بعض حضرات تو چند دنوں کی ڈیڈ لائن دے کر حکومت کو الٹی میٹم دے دیتے ہیں کہ اگر ان دنوں میں شریعت نافذ نہ کی تو ہم حکومت کے خلاف تحریک چلا دیں گے۔ اسی طرح بعض حضرات راستے بلاک کر کے حکومت کو شریعت نافذ کرنے پر مجبور کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں اور بعض لوگ جہاد و قتال کے ذریعے سے ’’اسلامی انقلاب‘‘ برپا کرنے کے لیے بے تاب ہیں ۔
پچھلے دنوں مکہ ریڈیو نے بزرگ صحافی جناب ارشاد احمد حقانی کا انٹرویو لیا، اس میں حقانی صاحب سے سوال کیا گیا:
’’ہمارے ہاں بڑا مذہبی عنصر ہے جو فوج کی مداخلت کو پسند نہیں کرتا ؟‘‘
اس پر حقانی صاحب نے کہا:
’ ’معاف کریں آپ کا یہ خیال بالکل غلط ہے بلکہ ہمارے اکثر مذہبی عناصر تو فوج کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ یحییٰ خان اور ضیا الحق کے زمانے میں ان کے سب سے زیادہ قریب تو جماعتِ اسلامی تھی جو ملک کی ایک بڑی جماعت ہے۔ اسے اس زمانے میں مارشل لا کی بی ٹیم کہا جاتا تھا ۔..... مذہبی جماعتیں مارشل لا کے خلاف نہیں ہیں وہ تو بائیں بازو کی قوتیں ہوتی ہیں یا عوامی قوتیں ہوتی ہیں جو مارشل لا کے خلاف ہوتی ہیں ..... اگر آیندہ بھی کبھی مارشل لا آئے گا تو سب مذہبی جماعتیں اس کی مخالفت میرے خیال میں نہیں کریں گی۔ کچھ مذہبی حلقے شاید مخالفت کریں لیکن میں اس بات کا امکان بہت کم دیکھتا ہوں۔‘‘ (جنگ ۲۹ جولائی ۲۰۰۰)
حالانکہ ’’جمہوریت‘‘ کے حوالے سے قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک اسلوب میں فرمایا ہے:
’’مسلمانون کا نظام ان کے باہمی مشورے کی بنیاد سے چلتا ہے۔‘‘ (الشوریٰ ۴۲ : ۳۸)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’میں نے رسول اللہ سے زیادہ کسی کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے والا نہیں پایا۔‘‘(ترمذی ، کتاب الجہاد)
اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہر معاملے میں عملی طور پر تمام مسلمانوں سے مشورہ لینا ناممکن ہے، مگر اس مسئلے کا حل ناممکن نہیں ہے ۔ اس صورتِ حال میں مختلف طبقات کے نمائندہ افراد سے مشورہ لیا جا سکتا ہے۔ اصل میں یہ مسئلہ دینی نہیں، تمدنی ہے۔ اس مسئلے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمدن کے مطابق حل بھی کیا۔ بخاری میں ہے:
’’مسلمانوں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، جب ہوازن کے قیدی رہا کرنے کی اجازت دی تو آپ نے فرمایا : میں نہیں جان سکا کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی، پس تم جاؤ اور اپنے لیڈروں کو بھیجو، تا کہ وہ تمھاری رائے سے ہمیں آگاہ کریں۔‘‘( کتاب الاحکام)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاے راشدین نے بھی اسی طرح مجلسِ شوریٰ کے اجلاس منعقد کیے۔ قاضی ابو یوسف عمر رضی اللہ عنہ کے دور کی ایک مجلسِ شوریٰ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’لوگوں نے کہا: تو پھر آپ باقاعدہ مشورہ کیجیے۔ اس پر آپ نے مہاجرینِ اولین سے مشورہ کیا تو ان کی رایوں میں بھی اختلاف تھا۔ عبد الرحمٰن بن عوف کی رائے تھی کہ ان لوگوں کے حقوق انھی میں تقسیم کر دینے چاہییں اور عثمان، علی، طلحہ اور ابنِ عمر رضی اللہ عنہم عمر رضی اللہ عنہ سے متفق تھے، پھر آپ نے انصار میں سے دس افراد کو بلایا: پانچ اوس کے اکابر و اشراف میں سے اور پانچ خزرج کے اکابر و اشراف میں سے ۔‘‘ (کتاب الخراج، فصل فی الفئی و الخراج)
اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب مشورہ لیا جائے گا تو لوگ ایک دوسرے سے اختلاف بھی کریں گے ۔ اس صورتِ حال میں کیا کیا جائے ؟ اس معاملے میں بھی دین نے ہدایت کر ر کھی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’ الجماعتہ (یعنی مسلمانوں کی ریاست) پر اللہ کا ہاتھ ہے ۔ چنانچہ جب کوئی اس سے الگ ہوتا ہے تو اسے شیاطین اچک لے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے جب تم لوگ کوئی بڑا اختلاف دیکھو، تو (عمل کے معاملے میں) اکثریتی گروہ کی پیروی کرو ۔ کیونکہ جو الجماعتہ سے الگ ہوا ، اسے الگ کر کے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘(المستدرک، کتاب العلم)
اسی مضمون کی ایک اور روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم اختلافات دیکھو تو اکثریت کی رائے کی پیروی کرو۔‘‘ (ابنِ ماجہ کتاب الفتن)
ظاہر ہے اختلافات کے باوجود نظام تو چلانا ہے، نظام تو بند نہیں کیا جا سکتا، کاروبارِ زندگی تو معطل نہیں کیا جاسکتا ، اس لیے اس مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ اکثریت کی بات پر عمل شروع کر دیا جائے۔ اس میں یہ ہو سکتا ہے کہ کبھی اکثریت کی بات صحیح نہ ہو مگر اجتماعی شعور رکھنے والے جانتے ہیں کہ معاملات بہرحال اسی بات کے مطابق چلانا ہوں گے۔ البتہ دوسری رائے رکھنے والے اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ دلیل اور تہذیب سے دوسروں کو قائل کر سکتے ہیں۔ اگر وہ اکثریت کو اپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کا خیال آپ سے آپ قانون بن جائے گا ۔
حیرت ہے کہ لوگ اس طرح کی ’’جمہوریت‘‘ رکھنے والے اسلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسلام کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔ حالانکہ جمہوریت کے خلاف بولنا دراصل اسلام کے خلاف بولنا ہے۔ جمہوریت کے خلاف بولنا اللہ اور رسول کے خلاف بولنا ہے۔ اسی طرح کوئی ایسا شخص یا گروہ جو مسلمانوں کے مشورے کے بغیر اقتدار حاصل کر لے اور مسلمانوں کی مشاورت کے بغیر اپنی ذاتی آرا کے مطابق ملکی معامت چلانا اور بڑے بڑے فیصلے کرنا شروع کر دے تو وہ نہ صرف یہ کہ جمہوریت کے منافی طرزِ عمل اختیار کرتا ہے بلکہ اسلام کے خلاف، اللہ کے خلاف اور رسول کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرتا ہے ۔ وہ ایک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے جس پر اسے قیامت کے دن خدائی گرفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
شامی صاحب کی یہ بات بڑی دانائی پر مبنی ہے کہ ’’دنیا میں جمہوریت کا علاج مزید جمہوریت ہی سے کیا گیا ہے۔‘‘ اور یہ کہ ’’معاشرے آہستہ آہستہ چلنے سے تبدیل ہوتے ہیں، ایک دن میں معاشرے تبدیل نہیں ہوتے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ، جنھیں عالم کے پروردگار کی قوت اور رہنمائی میسر تھی، تدریج ہی سے عرب معاشرے کو تبدیل کیا ۔ شراب، سود اور غلامی کے مسئلے پر غور کریں تو صاف معلوم ہوتا ہے ان چیزوں کی ممانعت فوری طور پر نہیں کی گئی بلکہ بڑی حکیمانہ تدریج اختیار کر کے انھیں معاشرے سے ختم کیا گیا ۔
آج جو لوگ بہت دین دار ہیں۔ آج جو لوگ دینی تقاضے پورے کرنے کے معاملے میں بہت سرگرم ہیں ۔ آج جو لوگ غلبۂ دین کے لیے جانی مالی غرض ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں وہ اپنے آپ پر غور کریں۔ کیا وہ یکایک دین دار بن گئے تھے ؟ کیا وہ فوراً انقلابی بن گئے تھے ؟ کیا وہ چند دنوں میں نمازی بن گئے تھے ؟
یقیناً انھوں نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے بڑا سفر طے کیا ہوا گا۔ بڑے مراحل سے خود کو گزارا ہوگا۔ دین کے چندایک تقاضوں کی تکمیل سے آغاز کیا ہو گا۔ پھر آہستہ آہستہ سب تقاضوں کو پورا کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہو گا۔ آغاز ایک دو نمازوں سے ہی کیا ہو گا۔ پھر آہستہ آہستہ ہی سب نمازیں ادا کرنے کا اہتمام کیا ہو گا۔
بلاشبہ ہمارے جمہوری ادوار میں سیاست دان بہت سی حماقتوں، جہالتوں اور ضلالتوں کا ارتکاب کرتے ہیں مگر ان ’’امراض‘‘ کے اسباب اصل میں معاشرے کے اندر پائے جاتے ہیں۔ یہ معاشرے ہی کی حماقتیں، جہالتیں اور ضلالتیں ہوتی ہیں جو انتخابات میں منتخب شدہ لوگوں کے رویوں سے منعکس ہوتی ہیں۔ حال ہی میں مصنفہ بشریٰ رحمٰن صاحبہ نے بڑی حکیمانہ بات کی۔ انھوں نے پاکستان کی بے قاعدہ ٹریفک کے حوالے سے کہا:
’’کسی بھی ملک کی اگر ٹریفک ٹھیک ہو تو سیاست بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔‘‘ (جنگ ۲۹ جولائی ۲۰۰۰)
جاوید جبار صاحب کی یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ: ’’دراصل جمہوریت پارلیمنٹ ہاس سے نہیں بلکہ گھر سے شروع ہوتی ہے۔‘‘بلاشبہ ہمارے گھروں کا ماحول ہی جمہوری نہیں ہوتا۔ ماں باپ اپنی بالغ اولاد اور بڑے بھائی چھوٹے بالغ بھائیوں کو اپنی رائے قائم کرنے اور اس کا اظہار کرنے کی آزادی نہیں دیتے۔ ساس اور نندیں اپنی بہو اور بھابی کو یہ حق دینے پر آمادہ نہیں ہوتیں۔ لہٰذا اس صورتِ حال میں ہمارے ہاں جب جمہوریت قائم ہوتی ہے تو جمہوری حکومتیں بھی غیر جمہوری رویے اختیار کر ڈالتی ہیں۔ اسی طرح بعض برے کردار کے حامل سیاست دان معاشرے کو کسی طرح دھوکا دے کر انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں اور اقتدار کی طاقت استعمال کر کے قانونی اور اخلاقی حدود پامال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بلاشبہ یہ مسائل موجود ہیں، مگر ان مسائل کا یہ حل نہیں ہے کہ آمرانہ طریقوں سے جمہوری عمل کو روک دیا جائے اور آمرانہ انداز میں اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔ ان مسائل کا ایک حل یہ ہے کہ جمہوری عمل جاری رہے۔ بالفاظ دیگر اسلام پر عمل جاری رہے۔ جب بار بار انتخابات ہوں گے تو برے لوگ آپ سے آپ بے نقاب ہونا شروع ہو جائیں گے اور وہ ایک دن اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیں گے ۔
اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ معاشرے کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا کام پوری سرگرمی کے ساتھ کیا جائے۔ نظام کی تبدیلی، نظام کی تبدیلی، نظام کی تبدیلی پر اصرار کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ حتیٰ کہ فی الحقیقت نظام کی تبدیلی سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، اس لیے کہ جس شخص کا نفس آلودہ ہے، وہ ہر قسم کے نظام میں اپنی ’’آلودگی‘‘ کا اظہارکرتا رہے گا اور ’’آلودگی‘‘ پھیلاتا رہے گا اور جس شخص کا نفس پاک ہے وہ برے نظام میں بھی ’’پاکیزگی‘‘ کا اظہار کرتا رہے گا اور ’’پاکیزگی‘‘ کو عام کرتا رہے گا لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’نظام‘‘ اور ’’قانون‘‘ کی تبدیلی کو ہدف بنانے کے بجائے لوگوں کے ’’دلوں‘‘ کی تبدیلی کو ہدف بنایا جائے۔ سید ابوالحسن علی صاحب ندوی نے اس ضمن میں کیا نکتے کی باتیں کی ہیں۔ کہتے ہیں:
’’جب تک دل کی دنیا نہیں بدلتی، باہر کی دنیا نہیں بدل سکتی، پوری دنیا کی باگ ڈور دل کے ہاتھ ہے، زندگی کا سارا بگاڑ دل کے بگاڑ سے شروع ہوا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ مچھلی سر کی طرف سے سڑنا شروع ہوتی ہے، میں کہتا ہوں انسان دل کی طرف سے سٹرتا ہے، یہاں سے بگاڑ شروع ہوتا ہے اور ساری زندگی میں پھیل جاتا ہے۔ ..... پیغمبر یہیں سے اپنا کام شروع کرتے ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ یہ سب دل کا قصور ہے، انسان کا دل بگڑ گیا ہے، اس کے اندر چوری، ظلم، دغا بازی کا جذبہ اور ہوس پیدا ہو گئی ہے، اس کے اندر خواہش کا عفریت ہے جو ہر وقت اس کو نچا رہا ہے اور وہ بچے کی طرح اس کے اشارے پر حرکت کر رہا ہے۔ پیغمبر کہتے ہیں کہ ساری خرابیوں کی جڑ یہ ہے کہ انسان پاپی ہو گیا ہے، اس کے اندر برائی کا جذبہ اور اس کا زبردست میلان پیدا ہو گیا ہے، اس لیے سب سے ضروری اور مقدم کام یہ ہے کہ اس کے دل کی اصلاح کی جائے اور اس کے من کو مانجھا جائے۔..... پیغمبر انسان کے اندر تبدیلی پیدا کرتے ہیں، وہ نظام بدلنے کی اتنی کوشش نہیں کرتے، جتنا مزاج بدلنے کی کوشش کرتے ہیں ، نظام ہمیشہ مزاج کے تابع رہا ہے ، اگر دل نہیں بدلتا، مزاج نہیں بدلتا تو کچھ نہیں بدلتا ..... پیغمبر دلوں میں انجیکشن لگاتے ہیں، لوگ باہر کی ٹیپ ٹاپ کرتے ہیں اور اسی پر سارا زور صرف کرتے ہیں، پیغمبر اندر کے گھن کی فکر کرتے ہیں، آج ساری دنیا میں یہی ہو رہا ہے، انسانیت کا درخت اندر سے خشک ہوتا چلا جا رہا ہے، کیڑا اس کے گودے کو کھائے چلا جا رہا ہے، لیکن زمانہ کے بقراط اوپر سے پانی چھڑکوا رہے ہیں، درخت کے اندر کی سرسبزی اور اس کی نشوونما کی جو قوت تھی، وہ ختم ہو چلی ہے، لیکن پتیوں کو سرسبز کرنے کو ہوائیں (Gases) پہنچائی جا رہی ہیں، پانی چھڑکا جا رہا ہے کہ خشک پتے ہرے ہوں، پیغمبروں نے انسان کو انسان بنانے کی کوشش کی، انھوں نے اسے ایمانی انجیکشن دیا ۔‘‘ (تعمیرِ انسانیت ، ص۱۹، ۲۰، ۲۳، ۲۴)
امید ہے غیرجمہوری رویے اختیار کرنے اور معاشرے کی اصلاح کے معاملے میں نامناسب طریقے اپنانے والے دین و شریعت کی روشنی میں اپنے افکار پر نظرِ ثانی فرمائیں گے۔
ـــــــــــــــــــــ