HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی اپیل

ممتاز دانش ور اور مذہبی رہنما جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے پاکستان کی جہادی تحریکوں سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ اپنی جدوجہدمنظم اور پرامن  طریقے سے کریں۔  ان کی یہ اپیل ۶ اگست کے اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔اپیل کا آغازانھوں اس روایت سے کیا ہے:

’’مجھ سے پہلے اللہ نے جس امت میں بھی کسی نبی کو مبعوث کیا اس میںاس کے کچھ نہ کچھ حواری اور صحابہ ضرور ایسے ہوئے جو اس کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھتے تھے اور اس کے جملہ احکام کی پیروی کرتے تھے۔ لیکن بعد میں (ہمیشہ) ایسے ناخلف پیدا ہوتے رہے جو جو کچھ کہتے تھے وہ کرتے نہیں تھے  اور عملاً کام وہ کرتے تھے جن کا ان کو حکم ہی نہیں ہوا تھا ! پس(میری امت میں سے ) جو شخص ایسے لوگوں کے خلاف طاقت سے جہاد کرے گا  وہ مومن ہو گا، اور جو زبان سے جہاد کرے گا وہ بھی مومن ہو گا ، اور جو دل سے جہاد کرے گا(یعنی ان سے دلی نفرت رکھے گا) وہ بھی ادنیٰ درجہ کا مومن ہو گا۔ لیکن اس کے بعدتو  رائی کے دانے کے برابرایمان کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔‘‘ (مسلم)

انھوں نے جہادی تحریکوں کو اس حدیث پر غور کرنے کی دعوت دینے کے بعد لکھا ہے:

’’ واقعہ یہ ہے کہ اگر پاکستان کی جملہ جہادی تنظیمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ضمن میں اجتماعی قوت کے ساتھ منظم  لیکن پر امن اور غیر مسلح جہاد شروع کر دیں تو پا کستان کو اس عالمی ’’خلافت علیٰ منھاج النبوۃ‘‘ کا نقطہ ء آغازبننے میں کچھ دیر نہیں لگے گی ، جس کی خوش خبری نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب نے جس طرح حدیث کو عموم کے اسلوب میں پیش کیا ہے ، جس طرح امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو غیر حکومتی تنظیموں کی ذمہ داری تصور کیا ہے اور جس طرح ’’خلافت علیٰ منھاج النبوۃ‘‘ کے قیام کو زمانۂ حال کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خوش خبری قرار دیا ہے، یہ ہمارے نزدیک محلِ نظر ہے ، البتہ  ان کی دو نصیحتیں بہرحال لائقِ صد تحسین ہیں:

ایک یہ کہ جہادی تنظیمیں اجتماعی قوت کے ساتھ منظم ہوں۔

اوردوسرے یہ کہ وہ پر امن اور غیر مسلح جہاد شروع کریں۔

ہماری مذہبی تنظیموں اور تحریکوں کے یہی وہ  بڑے مسئلے ہیں جن کی وجہ سے وہ تعمیر کے بجائے تخریب کا باعث بن رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت دانش مندی کے ساتھ ان مسائل کی نشان دہی کر دی ہے ۔ اللہ انھیں اس کی جزا دے۔ کاش ہماری مذہبی تحریکوں کے اربابِ حل و عقدان کی اس نصیحت پر دھیان دیں اوراپنے طرزِ عمل کی اصلاح کریں۔

یہ ہم مسلمانوں کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم نظم وترتیب سے بالکل نا آشنا ہو کر رہ گئے ہیں ۔سیاست، معیشت، عدالت، تعلیم ، صحت، غرض یہ کہ کسی شعبۂ زندگی میں بھی ہمارے ہاں تنظیم و ترتیب موجود نہیں ہے۔ علمِ جہاد بلند کرنے والی تحریکوں اور جماعتوں کے ہاں بد نظمی کے مظاہرے ہم آئے روز دیکھتے ہیں۔کشمیر کی آزادی کی تحریکیں ہوں، افغانستان کی جہادی تنظیمیں ہوں یا پاکستان کی مذہبی جماعتیں، غیرمنظم اور باہم دست و گریباں نظر آتی ہیں۔

r ڈاکٹر صاحب کے پیغام کی روشنی میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جہادی تحریکوں کوپورے شعور اور ذمہ داری کے ساتھ نظم و ترتیب کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس ضمن میں ہمارے نزدیک ان باتوں کا لحاظ لازم ہے :

۱یک یہ بات کہ انھیں اس امر کا پورا شعور ہونا چاہیے کہ جس فریضۂ جہاد کو ادا کرنے کے لیے وہ نکل کھڑے ہوئے ہیں ، وہ فریضہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان پر عائد بھی کیا  ہے یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ بے سوچے سمجھے احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ دین کی سربلندی کے لیے  کی جانے والی ان کی جدوجہد دین کی رسوائی کا باعث بن رہی ہے؟ پھر انھیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جن مقاصد کے حصول کے لیے وہ علمِ جہاد بلند کر رہے ہیں ،کیا دین ان معاملات میں تلوار اٹھانے کی اجازت دیتا بھی ہے یا نہیں؟ 

دوسری یہ بات کہ انھیں اس کا پورا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ قوت و استعداد جو جہاد کے لیے ناگزیر ہے، انھوں نے کس حد تک بہم پہنچائی ہے؟ کیا وہ قرآن کی ہدایت کی روشنی میں ،جیشِ مخالف کے مقابلے میں، کم سے کم دو نسبت ۱یک سے جنگی استعدادِ کار رکھتے ہیں؟اور کیا انھوں نے یہ اطمینان کر لیا ہے کہ ان کا کوئی اقدام مسلمانوں کی خود کشی پر منتج نہ ہو گا؟

تیسری یہ بات کہ انھیںاس بارے میں بھی اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ ان کے کسی طرزِ عمل سے کوئی اخلاقی قدر تو پامال نہیں ہو رہی۔  کیا وہ جھوٹ  اور دھوکا دہی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ کیا نہتے انسانوں کی جانیں ان سے محفوظ ہیں ؟ کیا غیر مسلموں کی عبادت گاہیں ان کی تاخت کا ہدف تو نہیں؟ کیا وہ ظلم  کا جواب ظلم ہی سے تو نہیں دے رہے؟ ان سب سوالوں کے تسلی بخش جواب ان کے پاس ہونے چاہییں۔

چوتھی یہ بات کہ وہ اس امر کا بھی جائزہ لیںکہ انھوں نے اپنے تنظیمی معاملات کو شورائیت پر استوار کیا ہے یا نہیں؟ ان کے فیصلے کثرتِ رائے سے ہوتے ہیں یا کسی مخصوص فرد یا گروہ کی خواہشات کی بنیاد پر؟

پانچویں یہ بات کہ وہ اس پر غور کریں کہ اگر وہ کسی ایک خطۂ ارضی میں مقیم ہیں، ایک جیسے نظریات کے حامل ہیں اور ایک ہی نوعیت کے اہداف و مقاصد اپنے پیشِ نظر رکھتے ہیں ، تو وہ ایک قیادت کے تحت کیوں مجتمع نہیں ہیں؟  انھیں فکر مند ہونا چاہیے کہ اگر وہ ایک قیادت کے تحت منظم نہیں ہوں گے تو اول تو منزل کاحصول ہی نا ممکن ہو گا، لیکن اگر حسنِ اتفاق سے منزل کا دامن ہاتھ آ بھی گیا تومختلف قیادتوں کی باہمی رقابتیں اور رنجشیں اسے تار تار کر کے رکھ دیں گی۔

I دوسرا اہم نکتہ جس کی طرف ڈاکٹر صاحب نے توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ جہادی تحریکیں پر امن  اور غیرمسلح جہاد کریں۔ جہادی تحریکیں اگر اس نصیحت پر عمل پیرا ہونا چاہیں تو ہمارے نزدیک انھیں ان امور کو پیشِ نظر رکھنا ہو گا:

ایک یہ کہ وہ رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے دعوت و اصلاح کا طریقہ اختیارکریں۔ دھونس اور زبردستی کے ہر اسلوب سے گریز  کریں۔  اس معاملے میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائیں۔

دوسرے یہ کہ وہ  اپنے کارکنان میں انسانی جان کی حرمت کا صحیح شعور اجاگر کریں۔ وہ اپنے پیرو کاروں کو بتائیں کہ پروردگارِ عالم کے قانون میں شرک کے بعد سب سے بڑا جرم انسان کا ناحق قتل ہے۔ قرآن نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے  اور اس معاملے میں مسلم یا غیر مسلم کی کوئی تفریق روا نہیں رکھی۔ یہ ناقابلِ معافی جرم ہے۔  اس جرم کے مرتکب کے لیے ابدی جہنم کی سزا  ہے۔

تیسرے یہ کہ وہ اپنے پیرووں کی یہ تربیت کریں کہ وہ قانون شکن نہیں ، بلکہ قانون کی پاس داری کرنے والے ہوں۔ قانون خواہ اپنے دین کا ہو، اپنی سرزمین کاہو  یا اقوامِ عالم کا ، وہ کسی حال میں بھی اس کی خلاف ورزی کرنے والے نہ ہوں۔  ان پر یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ شریعت کی رو سے قانون کے نفاذ کا اختیار صرف اور صرف مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کوحاصل ہوتا ہے۔وہ کسی منکر کے بارے میں حکومت کو توجہ دلا سکتے ہیں ، اصلاح کے لیے تجاویزپیش کر سکتے ہیں، جائز طریقوںسے اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کر سکتے ہیں ، مگر خود قانون کونافذ کرنے کی سعی نہیں کر سکتے ۔وہ چور کے ہاتھ نہیں کاٹ سکتے،  وہ زانی  پر کوڑے نہیں  برسا سکتے، وہ قاتل کی گردن نہیں مار سکتے ، وہ دشمن ملک سے جنگ کا آغاز نہیں کر سکتے،  وہ جہاد و قتال کے لیے سرگرمِ عمل نہیں ہو سکتے۔ اگر وہ ایسا کریں  گے تو وہ شریعت کی رو سے فساد فی الارض کے مرتکب ہوں گے۔اس طرح وہ مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کے بھی مجرم ہوں گے اور پروردگارِ عالم کے بھی مجرم ہوں گے۔

چوتھے یہ کہ وہ حکومتوں کے ساتھ محاذ آرائی کا رویہ اختیار نہ کریں۔ حکومتوں کے ساتھ محاذ آرائی کا رویہ ان کے کارکنان کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور ان کے مقاصد میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔اربابِ اقتدار کی اصلاح کا صحیح راستہ تذکیر و نصیحت ہے ۔ کتاب ، اخبار ، جریدہ، ریڈیو ، ٹی وی غرض ہر ذریعۂ ابلاغ کو اختیار کر کے انھیں اپنی رائے کا قائل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

s پانچویں  یہ کہ وہ توڑ پھوڑ ،بد امنی  اور بے ہنگم احتجاج سے احتراز کریں۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کا اسوہ ہمیشہ ان کے سامنے رہنا چاہیے۔ حضور کی جدو جہد کی پوری تاریخ میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں تخریب یا بد امنی کا کوئی شائبہ نظرآتا ہو۔

ڈاکٹر صاحب کی یہ دونوں باتیں مبنی بر حق  ہونے کے اعتبار سے اتنی واضح ہیں کہ اپنی تاثیر کے لیے کسی تائید کی محتاج نہیں ہیں ، لیکن اس خیال سے کہ حقیقت  ناشناسوں  کی اس دنیا  میں ان کی یہ صدا ے حق، صدا بہ صحرا نہ ہو جائے ،ہم نے بھی اپنی آواز ان کی آواز میں شامل کر نے کی کوشش کی ہے۔

ـــــــــــــــــــــ

B