محمد تہامی بشر علوی
وہ لوگ کہ جن کا جنت کے لیے انتخاب نہ ہو سکے گا، یہ جہنم ایسوں کا ہی ٹھکانا ہو گا۔جہنم خوف ناک آگ سے دہکتا ہوا جہاں ہو گا، جہاں خدا کے امتحان میں ناکام ہو جانے والوں کو جھونک دیا جائے گا۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو آخرت کے جہاں میں اس جہاں کے مطابق تیاری کیے بغیر جا پہنچے ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنھوں نے انبیا کی دعوت پر کان نہ دھرے ہوں گے۔ان کی زندگی میں خدا کو کوئی اہمیت حاصل نہ ہو گی۔ ان کی نظر موت کے بعد والی زندگی کی طرف کبھی سنجیدگی سے نہ اٹھی ہو گی۔ ان کا کردار و عمل بدی سے آلودہ ہو چکا ہو گا۔ یہ جیتے جی خلق خدا کو ستاتے اور لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہوں گے۔یہ جھوٹے ،مکار، عیار، دغاباز اور فریبی ہوں گے۔ان کے سینے تعصبات سے بھرے ہوں گے۔ ان کی سوچ میں شرارت ہو گی۔یہ خباثت سے بھرے ہوئے لوگ ہوں گے۔یہ فتنہ بازاور بے حیا لوگ ہوں گی۔خیانت ان کی عادت ہو گی۔یہ چغلی اور غیبت کے عادی ہوں گے۔ان کی زبان گندی اور گفتگو لایعنی ہو گی۔یہ متکبر و ریاکار ہوں گے۔ان کے اخلاق منحوس ، عادات ملعون اور اعمال مردود ہوں گے۔یہ قاتل، زانی اور شرابی لوگ ہوں گے۔یہ خدا کے سرکش، منافق، بے ایمان اور نافرمان لوگ ہوں گے۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو خدا کے باغی بن کے جئیں گے اور فاسق و فاجر ہو کر مریں گے۔ خدا نے ان کا جو ٹھکانا تیار کررکھا ہے، اس کی خبر وہ خود یوں دیتا ہے :
وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِلْغٰوِيْنَ. وَقِيْلَ لَهُمْ اَيْنَمَا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ. مِنْ دُوْنِ اللّٰهِﵧ هَلْ يَنْصُرُوْنَكُمْ اَوْ يَنْتَصِرُوْنَ. فَكُبْكِبُوْا فِيْهَا هُمْ وَالْغَاوٗنَ. وَجُنُوْدُ اِبْلِيْسَ اَجْمَعُوْنَ. قَالُوْا وَهُمْ فِيْهَا يَخْتَصِمُوْنَ. تَاللّٰهِ اِنْ كُنَّا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ. اِذْ نُسَوِّيْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ. وَمَا٘ اَضَلَّنَا٘ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ. فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِيْنَ. وَلَا صَدِيْقٍ حَمِيْمٍ. فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ. (الشعراء ۲۶: ۹۱ - ۱۰۲)
’’اور جہنم گم راہوں کے لیے بے نقاب کر دی جائے گی۔ اور اُن سے پوچھا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جنھیں تم اللہ کے سوا پوجتے تھے۔ کیا وہ تمھاری کچھ مدد کریں گے یا (آج) خود اپنا بچاؤ کر لیں گے؟ پھر وہ بھی اور یہ بھٹکے ہوئے لوگ بھی اُس میں اوندھے منہ جھونک دیے جائیں گے۔ اور ابلیس کے لشکر بھی، سب کے سب (اُس میں اوندھے منہ جھونک دیے جائیں گے)۔ وہاں وہ آپس میں جھگڑتے ہوئے (اپنے لیڈروں سے) کہیں گے: خدا کی قسم، ہم کھلی ہوئی گم راہی میں تھے۔ جب کہ تمھیں خداوند عالم کے برابر ٹھیراتے تھے۔ (پھر اپنی بدبختی پر ماتم کریں گے کہ) ہمیں تو اِن مجرموں ہی نے گم راہ کیا۔ سو اب نہ ہمارے لیے کوئی سفارش کرنے والا ہے۔ نہ کوئی گرم جوشی سے محبت کرنے والا دوست۔ اب تو اے کاش، ایک دفعہ پلٹنا نصیب ہو کہ ہم ایمان والے بن جائیں۔‘‘
اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا. لِّلطَّاغِيْنَ مَاٰبًا. لّٰبِثِيْنَ فِيْهَا٘ اَحْقَابًا. لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا. اِلَّا حَمِيْمًا وَّغَسَّاقًا. جَزَآءً وِّفَاقًا. اِنَّهُمْ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ حِسَابًا. وَّكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا كِذَّابًا. وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ كِتٰبًا. فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِيْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا. (النبا۷۸: ۲۱-۳۰ )
’’حقیقت یہ ہے کہ جہنم گھات میں ہے۔ سرکشوں کا ٹھکانا۔ اِس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے۔ نہ اِس میں ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے، نہ (گرم پانی اور بہتی پیپ کے سوا) پینے کی (کوئی چیز اُن کے لیے ہو گی)۔ اُن کے عمل کے مطابق اُن کا بدلہ۔ اور ہماری آیتوں کو اُنھوں نے بے دریغ جھٹلا دیا تھا۔ اور ہم نے ہر چیز کو لکھ کر شمار کر رکھا ہے۔ اِس لیے چکھو، اب ہم تمھارے لیے عذاب ہی بڑھائیں گے۔‘‘
وَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖﵿ فَيَقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِيَهْ. وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ. يٰلَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ. مَا٘ اَغْنٰي عَنِّيْ مَالِيَهْ. هَلَكَ عَنِّيْ سُلْطٰنِيَهْ. خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ. ثُمَّ الْجَحِيْمَ صَلُّوْهُ. ثُمَّ فِيْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْهُ. اِنَّهٗ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ الْعَظِيْمِ. وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ. فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هٰهُنَا حَمِيْمٌ.(الحاقہ۶۹: ۲۵-۳۵)
’’اور جس کا نامۂ اعمال اُس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، وہ کہے گا: اے کاش، میرا یہ نامۂ اعمال مجھے نہ ملتا۔اور میرا حساب کیا ہے، میں اُس سے بے خبر ہی رہتا۔ اے کاش، وہی (موت) فیصلہ کن ہو جاتی (کہ پھر مجھے جی نہ اٹھایاجاتا)۔ میرا مال میرے کیا کام آیا؟ میری سب بادشاہی مجھ سے لٹ گئی۔ (اس کے پچھتاووں کی پروا کیے بغیراب حکم ہوگا): اِس (سرکش) کو پکڑو اور اِس کی گردن میں طوق ڈال دو۔ پھر(بغیرکوئی ترس کھائے) اِس کو دوزخ میں جھونک دو۔ پھر (اسے)ایک زنجیرمیں جکڑ دوجس کی ناپ گزوں میں ستر گز ہے۔یہ نہ اللہ بزرگ و برتر کو مانتا تھا۔ اور نہ(یہ وہاں دنیا میں بے بس) فقیروں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ اِس لیے آج یہاں(اس کی بے بسی میں) اِس کا کوئی غم خوار نہیں ہے۔اور(وہاں اس کا بخل سے پاس روکا گیامال غلاظت میں بدل کر اس کے کھانے کے) دھوون (میں بدل جائے گا)۔(اوراس) کے سوا (اِس کے لیے) کوئی کھانا نہیں ہے۔یہ کھانا صرف گناہ گار ہی کھائیں گے۔‘‘
_________