HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

گروہ پرستی کا نقصان

تاریخ کا تجربہ ہے کہ علمی اور تحقیقی اداروں کی بہ نسبت، اصلاحی اور دعوتی تحریکوں میں عام طورپر اپنے مشن اور قائد کے متعلق سخت غلو اور تعصب پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے سوا کسی کام کو خدا کا مطلوب کام نہیں سمجھتے۔ اِسی طرح وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہمارے قائد کے سوا کسی اور شخص کو دین کی معرفت حاصل نہ تھی یا رسول اور اصحاب رسول کے بعد تاریخ میں کسی اور نے خدا کا مطلوب کام انجام نہیں دیا۔مجھے براہ راست ایسے تحریکی افراد کا تجربہ ہے جو اپنے حلقے کی ذاتی مجلسوں میں انتہائی شدت کے ساتھ یہ فرماتے رہے ہیں کہ ’’ہمارے مشن کے باہر جو کچھ ہے، وہ صرف ربش(rubbish) ہے‘‘، وغیرہ۔

حال میں اِسی طرح کے ایک دعوتی مشن کے ذمہ دار شخص سے گفتگو ہوئی۔ موصوف نے ایک بڑے عالم کے کام سے اپنے مشن کا تقابل کرتے ہوئے فرمایا: ’’انھوں نے اگر چہ قرآن کی تفسیر لکھی ہے اور اپنی تقریر و تحریر کے ذریعے سے وہ عالمی سطح پر ایک خدا کی عبادت ، آخرت کی یاددہانی اوراسلام کی تفہیم و تشریح کا کام کررہے ہیں، مگر یہ سب کمیونٹی ورک ہے، دعوہ ورک[*]نہیں۔ دعوتی اعتبار سے، اُن کا کیس مزریبل فیلیئر (miserable failure) کا کیس ہے‘‘۔

اِس قسم کا ذہن داعیانہ تواضع اور عالمانہ بصیرت، دونوں کے خلاف ہے۔ مقصد کے بجاے گروہ اور خدا کے بجاے شخصیت کو اصل اہمیت دیناہمیشہ خود پسندی اور گروہی تعصب کی اُس سنگین برائی کو پیدا کرتاہے جسے قرآن میں مشرکانہ عمل قرار دیا گیا ہے (الروم ۳۰: ۳۱- ۳۲)۔

یہاں سوال یہ ہے کہ قرآن کی مذکورہ آیت میں اِس قسم کی متعصبانہ گروہ پرستی کو ’مشرکانہ عمل‘ جیسے سخت اسلوب میں بیان کرنے کاسبب کیا ہے؟ اِسے ایک ’سنگین گناہ‘ بھی کہا جا سکتا تھا۔تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں ایک انتہائی گہری بات پوشیدہ ہے۔

اصل یہ ہے کہ خدا کے دین میں جو چیز مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی خدا وند ذوالجلا ل کو اپنا اولین کنسرن (concern) بنائے، وہ اُسی کے لیے محبت کرے اور اُسی کے لیے نفرت ۔ لیکن مذکورہ قسم کی متعصبانہ گروہ پرستی اِس ربانی نفسیات کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں آدمی کا کنسرن بدل جاتا ہے۔ اب خدا کے بجاے اُس کا اپنا گروہ اور اُس کی اپنی شخصیتیں اُس کا اولین کنسرن بن جاتی ہیں۔ وہ اُنھی کے لیے محبت اور اُنھی کے لیے نفرت کرتاہے ؛ وہ اُنھی کی بنیاد پر کسی سے جڑتا اور اُنھی کی بنیاد پر کسی سے کٹتا ہے۔اُس کے نزدیک سچائی کا معیار حق اور ناحق کا خدائی پیمانہ نہیں ہوتا،بلکہ یہی متعصبانہ گروہ پرستی عملاً اُس کاا صل معیار بن جاتا ہے۔

 قرآن کی مخصوص اصطلاح میں اِس بات کو مشرکانہ روش قرار دیا گیا ہے کہ آدمی خدا کے سوا کسی اور چیز کو عملاً اپنے خوف ا ور محبت کا اصل مرکز بنالے۔یہی وجہ ہے کہ مذکورہ قسم کی متعصبانہ گروہ پرستی کو یہاں ایک ’مشرکانہ عمل‘ کہا گیا ہے، یعنی اعتقادی طورپر خدا کو ایک مانتے ہوئے عملاً خدا کے سوا کسی اور چیز کو اپنا اولین کنسرن بنا لینا ـــــــ شرک خواہ عملی ہو یا اعتقادی ، وہ ہر حال میں خدا اور بندوں کے درمیان تفریق کا ذریعہ اور ایک سنگین ایمانی و اخلاقی جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔

[لکھنؤ، ۳۰ /مئی ۲۰۲۱ء]

ـــــــــــــــــــــــــ

* ’دعوت الی اللہ ‘کے موضوع پر ان شاء اللہ آیندہ کبھی گفتگو ہوگی۔

B