HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

السابقون الاولون

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]


حضرت حاطب بن حارث رضی اللہ عنہ

حسب و نسب

حضرت حاطب بن حارث قریش كی شاخ بنو جمح سےتعلق ركھتے تھے۔ان کے دادا معمر بن حبیب نے زمانۂ جاہلیت كی جنگ فجار اكبر میں اپنی جان كا نذرانہ دیا۔بنو جمح ہی كی حضرت قتیلہ بنت مظعون ان كی والده تھیں ، سخیلہ بنت عنبس والی روایت مشہور نہیں ۔ حضرت عثمان بن مظعون ان كے ماموں تھے۔ حضرت قتیلہ کے دادا حبیب بن وہب حضرت حاطب کے پڑدادا تھے۔حضرت حطاب بن حارث اور حضرت معمر بن حارث ان كے سگے بھائی تھے۔ اپنے چھٹے جد جمح بن عمرو كی نسبت سے جمحی اور قبیلہ قریش سے تعلق ركھنے كی بنا پر قرشی كہلاتے ہیں ۔قبول اسلام سے پہلے ان كا بیاه حضرت فاطمہ بنت مجلل سے ہو چكا تھا۔

قبول اسلام

حضرت حاطب بن حارث ان صاحب عزیمت مسلمانوں میں سے تھے جنھوں نے اول اول ایمان لانے میں سبقت كی۔السابقون الاولون میں ان كا نمبرچونتیسواں تھا۔ حضرت حاطب ، ان کی اہلیہ حضرت فاطمہ بنت مجلل اور ان کے بھائی حضرت حطاب بن حارث، حضرت معمر بن حارث نعمت ایمان سے ایك ساتھ سرفراز ہوئے۔ تب تك نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دار ارقم كو دعوت و تعلیم كا مركز نہ بنایا تھا۔

مكہ چھوڑ كر حبشہ جانا

ابتداے اسلام میں دین حق كی دعوت پر لبیك كہنے والوں پر جب ان كے ہم وطنوں نے عرصۂ حیات تنگ كیا تو انھوں نے اپنے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم كے حكم پر سمندر پار واقع ملك حبشہ(Abbyssinia) كی طرف ہجرت كی۔پہلی بار رجب ۵ ؍نبوی  )۶۱۳ء)میں گیاره مردوں اور چارخواتین پر مشتمل ایك مختصر قافلہ حبشہ پہنچا۔ ۵؍ نبوی كے اواخر یا ۶/نبوی  كی ابتدا میں حضرت جعفر بن ابوطالب كی قیادت میں اہل ایمان كاتراسی مردوں اور اٹھاره عورتوں پر مشتمل دوسرا كارواں سوے حبشہ روانہ ہوا۔ حضرت حاطب ، ان كی اہلیہ حضرت فاطمہ بنت مجلل (یا محلل) اور فرزند حضرت حارث بن حاطب اسی قافلے میں شامل تھے۔ حضرت حاطب كےبھائی حضرت حطاب بن حارث،ان كی بھابھی حضرت فکیہہ بنت یسار، چچا حضرت سفیان بن معمر،چچی حضرت حسنہ ، ان کے چچا زاد حضرت جابر بن سفیان اور حضرت جناد ه بن سفیان بھی شریک سفر تھے۔

ابن سعد،ابن اسحاق اور ابن كثیر نے حضرت محمد اور ان كے بڑے بھائی حضرت حارث بن حاطب كا نام بھی مكہ سے حبشہ روانہ ہونے والوں میں شامل كیا ہے۔ ابن عبدالبر اور ابن اثیر كہتے ہیں : حضرت حاطب كے دونوں بیٹوں حضرت حارث اور حضرت محمد كی ولادت حبشہ میں ہوئی۔خود حضرت محمد سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قریش کی اذیتیں سہنے والے صحابہ سے) ارشاد فرمایا: ”میں نے کھجوروں بھری ایک سرزمین (حبشہ یا مدینہ) دیکھ رکھی ہے،تم اس کی طرف ہجرت کرجاؤ۔“ چنانچہ (میرے والد) حاطب اور جعفر بن ابوطالب ایک کشتی میں سوار ہو کر نجاشی کی جانب نکل گئے۔ حضرت محمد کہتے ہیں : ”میں اسی کشتی میں پیدا ہوا“ ( احمد، رقم ۱۸۲۷۸۔ التاریخ الكبیر،بخاری، رقم ۹۔المعجم الكبیر،طبرانی۱۹/۵۴۱)۔ ابن حجر كہتے ہیں : یہ مشہور ہونا  كہ حضرت محمد بن حاطب حبشہ میں پیدا ہوئے، ایك طرح كا مجاز ہے، كیونكہ وه وہاں پہنچنے سے پہلے پیدا ہو چكے تھے۔ ابن جوزی نےعازمین حبشہ كی فہرست میں حضرت محمد بن حاطب كا نام شامل كیا اوران كی وفات كی خبر  دیتے ہوئے وضاحت كی كہ وه دوران سفر میں كشتی میں پیدا ہوئے،شاید دوسرے مورخین كا بھی یہی منشا ہو۔

وفات

 حضرت حاطب بن حارث نے اپنی سرزمین ہجرت حبشہ میں وفات پائی۔

اولاد

حضرت محمد بن حاطب ، حضرت حارث بن حاطب ۔حضرت عبداللہ حضرت حاطب بن حارث كے تیسرے بیٹے تھے جنھیں ان كی ام ولد جہیرہ نے جنم دیا۔

كنبے كی مدینہ واپسی

حضرت حاطب بن حارث کی بیوہ حضرت فاطمہ بنت مجلل اوربیٹے حضرت محمد اور حضرت حارث ۷ھ (۶۲۶ء )میں حضرت عمرو بن امیہ ضمری کے ساتھ سمندری راستے سے مدینہ لوٹے۔ابن ہشام نے حضرت عبدالله كاذكر نہیں كیا۔

مطالعہ مزید: السیرۃ النبویۃ(ابن ہشام)،الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)،أنساب الأشراف (بلاذری)، معرفة الصحابة (ابن منده)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (ابن عبدالبر)، الدرر فی اختصار المغازی والسیر (ابن عبدالبر)، اسد الغابة فی معرفة الصحابة(ابن اثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة(ابن حجر)۔

__________


حضرت حطاب بن حارث رضی الله عنہ

ددھیال،ننھیال اور سسرال

حضرت حطاب بن حارث كا نام ابن سعد، ابن اسحاق اور ابونعیم اصفہانی نے خطاب بتایا،ابن اثیر نے حطاب اور خطاب دونوں لكھ كر دونوں كو درست قرار دیا۔ابن حجر كہتے ہیں : خطاب نقل كر نا ابن منده كی غلطی ہے۔

حضرت حطاب قریش کی شاخ بنو جمح سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے دادا معمربن حبیب زمانۂ جاہلیت میں اپنے قبیلے میں اہم مرتبہ رکھتے تھے۔عام الفیل کے بیس برس بعد ۵۹۰ءمیں چوتھی جنگ فجار(یا فجار اکبر) ہوئی تو انھوں نے بنوجمح کی نمایندگی کی۔ اس جنگ میں قریش اور اس کے حامی قبائل کو فتح حاصل ہوئی۔معمر بن حبیب نے لڑتے ہوئے جان دے دی۔جمح بن عمرو حضرت حطاب كے چھٹے جد تھے۔ آٹھویں سكڑدادا ہصیص بن كعب كی نسبت سے ان كا بطن بنوہصیص كہلاتا ہے۔جمح كے بھائی سہم بن عمرو كی اولاد بنو سہم كہلاتی ہے۔حضرت حطاب كی والده كانام قُتیلہ بنت مظعون تھا،حضرت عثمان بن مظعون ان كے ماموں تھے۔ابن اثیر نے سخیلہ بنت عنبس كو حضرت حطاب اور حضرت حاطب، دونوں كی والده بتایا ہے۔

حضرت حطاب كی اہلیہ حضرت فکیہہ بنت یسار كا تعلق بنو ازد سے تھا۔

نعمت ایمان كا ملنا

حضرت حطاب بن حارث کا شمار السابقون الاولون(التوبہ۹: ۱۰۰) میں ہوتا ہے۔ حضرت حطاب ، ان کی اہلیہ حضرت فکیہہ بنت یساراور ان کے بھائی حضرت حاطب بن حارث، حضرت معمر بن حارث نعمت ایمان سے ایك ساتھ سرفراز ہوئے۔ تب تك نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دار ارقم كو دعوت و تعلیم كا مركز نہ بنایا تھا۔ ابن ہشام کی بیان کردہ ترتیب کے مطابق السابقو ن میں حضرت حطاب كا نمبر چھتیسواں تھا۔

ہجرت حبشہ

بعثت نبوی کے تیسرے سال اللہ تعالی ٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا: ’ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ‘، ’’(اے نبی)،آپ کو جو حکم نبوت ملا ہے، اسے ہانکے پکارے کہہ دیجیے‘‘(الحجر۱۵: ۹۴)، ’وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ‘،’’اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کیجیے‘‘ (الشعراء۲۶: ۲۱۴)۔جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی، مکہ میں دین اسلام کاچرچاہونے لگا اور مشرکوں کو اپنے بتوں کی خدائی خطرے میں نظر آنے لگی تو انھوں نے نومسلم کم زوروں اور غلاموں پر ظلم و ستم ڈھانے شروع کر دیے۔ نبوت کے پانچویں سال یہ سلسلہ عروج کو پہنچ گیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ارشادکیا: ”تم اللہ کی سرزمین میں بکھر جاؤ۔“ پوچھا:”یا رسول اللہ، ہم کہاں جائیں ؟“ آپ نے حبشہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”وہاں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ امن اور سچائی کی سرزمین ہے، (وہاں اس وقت تک ٹھیرنا) جب تک اللہ سختیوں سے چھٹکارے کی راہ نہیں نکال دیتا۔“ چنانچہ رجب ۵ ؍نبوی (۶۱۵ء )میں سب سے پہلے سولہ اہل ایمان نصف دینار کرایہ پر کشتی لے کر حبشہ روانہ ہوئے۔قریش نے مہاجرین کا پیچھا کیا، لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے وہ اپنا سفر شروع کر چکے تھے۔شوال ۵ ؍نبوی میں قریش کے قبول اسلام کی افواہ حبشہ میں موجود مسلمانوں تک پہنچی توان میں سے کچھ یہ کہہ کر مکہ کی طرف واپس روانہ ہو گئے کہ ہمارے کنبے ہی ہمیں زیادہ محبوب ہیں ۔مکہ پہنچنے سے پہلے ہی ان کومعلوم ہو گیا کہ یہ اطلاع غلط تھی تو ان میں سے اکثرحبشہ لوٹ گئے۔ابن سعد بیان کرتے ہیں  کہ مکہ لوٹنے والوں پر جب ان کی قوم اور خاندان کی طرف سے اذیت رسانی کا سلسلہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ دوبارہ شروع ہواتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بار دگر حبشہ جانے کی اجازت دے دی۔ان کے ساتھ کئی دیگر مسلمان بھی جانے کو تیار ہو گئے۔حضرت عثمان نے کہا:یا رسول اللہ ،آپ تو ہمارے ساتھ نہیں چل رہے؟ فرمایا: تمھاری دونوں ہجرتیں اللہ کی طرف اور میری خاطر ہیں ۔اس ہجرت ثانیہ میں اڑتیس مرد، گیارہ عورتیں اور سات غیر قریشی افراد شامل ہوئے۔ حضرت حطاب (یا خطاب )بن یساراور ان كی اہلیہ حضرت فکیہہ بنت یساربھی ان میں شامل تھے۔حضرت حطاب کے بھائی حضرت حاطب بن حارث،ان كی اہلیہ حضرت فاطمہ بنت مجلل(یا محلل)، ان کے چچا حضرت سفیان بن معمر،چچی حضرت حسنہ ،ان کے چچا ز ادحضرت جابر بن سفیان، حضرت جناد ه بن سفیان اوران کے بھتیجے حضرت محمد بن حاطب، حضرت حارث بن حاطب بھی سفر ہجرت میں شریک تھے۔ ابن جوزی اور مزی کا كہنا ہےكہ حضرت محمد بن حاطب كا شریك سفربتایا جانا درست نہیں، كیونكہ ان کی ولادت بعد ازاں حبشہ میں ہوئی۔

ابن اسحاق، ابن ہشام اور ابن کثیرنے ان دونوں ہجرتوں کے مابین ایک تراسی رکنی قافلے کی روانگی کی خبر دی ہے، جوحضرت جعفر بن ابوطالب کی قیادت میں حبشہ گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت حطاب بن حارث، ان كی زوجہ حضرت فکیہہ بنت یسار،ان كے چچا،چچی،چچا زاد، ان کے بھائی، بھاوج اور بھتیجے اس قافلے میں شامل تھے۔

وفات

حضرت حطاب بن حارث حبشہ پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں وفات پا گئے۔ ابن سعد کا کہنا ہے کہ ان کا ا نتقال ارض حبشہ میں ہوا۔ ایك شاذروایت كے مطابق انھوں نے حبشہ سے واپسی كے سفر میں وفات پائی۔

حضرت فكیہہ كی حبشہ سے واپسی

حضرت حطاب كی بیوه حضرت فکیہہ بنت یسار ان اکتالیس افراد میں شامل نہ تھیں جنھوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت کرنے کی خبر سن کرمکہ کی طرف رجوع کیا۔البتہ ۶۲۶ء میں ہجرت مدینہ کو سات برس بیت گئے تو حضرت جعفر بن ابوطالب اور باقی مہاجرین نے یہ کہہ کر مدینہ جانے کی خواہش ظاہر کی کہ ہمارے نبی کو غلبہ حاصل ہو گیا ہے اور ان کے جانی دشمن مارے جا چکے ہیں ۔تب نجاشی نے زاد راہ اور سواریاں دے کر ان کو رخصت کیا(المعجم الکبیر طبرانی، رقم ۱۴۷۸)۔ابن سعد کے بیان کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازخود حضرت عمرو بن امیہ ضمری کو حبشہ بھیجا تاکہ وہ نجاشی کو اسلام کی دعوت دیں ، حضرت ام حبیبہ (رملہ ) بنت ابوسفیان سے آپ کا نکاح کروائیں اور سرزمین حبشہ میں رہ جانے والے مہاجرین کو واپس لے آئیں ۔چنانچہ حضرت عمرو بن امیہ مہاجرین کو دو کشتیوں میں سوار کر کے مدینہ لائے۔ حضرت فکیہہ بنت یسار، حضرت حاطب بن حارث کی بیوہ حضرت فاطمہ بنت مجلل ، حضرت حاطب کے بیٹے حضرت محمد اورحضرت حارث بھی ان کشتیوں میں بولا کے ساحل پر پہنچے۔ بحیره احمر (Red Sea) كا یہ ساحل حبشہ سے آنے والے مسافروں كے لیے مخصوص تھا۔اس زمانے كی بندرگاه الجار نے اب الرایس (Ar Rayis) كا روپ دھار لیا ہے۔یہاں سے وہ باقی مہاجرین کے ساتھ اونٹوں پر سوار ہو کر مدینہ پہنچے۔ مدینہ میں حضرت فکیہہ بنت یسار کی زندگی کے بارے میں ہمیں کوئی روایت نہیں ملتی۔یہ بھی معلوم نہیں کہ شوہر کی وفات کے بعد کیاوہ کسی اور کی زوجیت میں آئیں ؟ اور ان کا انتقال کب ہوا؟گمان غالب ہے کہ وه آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں وفات پا گئیں ۔

محمد بن حطاب

ابن عبد البر كہتے ہیں :محمد بن حطاب نے سرزمین حبشہ میں جنم لیا۔ وه اپنےچچا زاد محمد بن حاطب سے بڑے تھے۔ یہ قول بھی نقل كیا گیا ہے كہ وه ہجرت سے پہلے مكہ میں پیدا ہوئے۔اگر یہ روایت پیش نظر ركھی جائے كہ حضرت فاطمہ بنت مجلل اپنے بیٹے محمد بن حاطب كو نبی صلی الله علیہ وسلم كی خدمت میں لائیں اور كہا: یا رسول الله، یہ محمدبن حاطب،پہلا بچہ ہےجو آپ كے نام سے موسوم كیا گیا ہے تو محمد بن حطاب كی عمر ابن حاطب سے كم بنتی ہے(مستدرك حاكم، رقم ۶۹۰۹۔المعجم الكبیر،طبرانی، رقم ۲۰۳۵۴۔صحیح ابن حبان، رقم ۲۹۷۷)۔

ابن ہشام نے حبشہ میں پیدا ہونے والے بچوں اور وہاں سے لوٹنے والی بیواؤں كا تفصیل سے ذكر كیا ہے۔ انھوں نے اپنی فہارس میں حضرت فكیہہ بنت یسار كا نام تو شامل كیا ہے، لیكن ان كے بیٹے محمدبن حطاب كا ذكر نہیں كیا۔

ابوالفرج اصفہانی نے بیان كیا ہے كہ حضرت عبدالله بن ابوربیعہ نے یمن سے كپڑوں كے كچھ جوڑے خلیفۂ ثانی حضرت عمر كے پاس بھیجے۔ انھوں نے كہا:محمد نام كے تمام لڑكوں كو میرے پاس لایا جائے۔ محمد بن ابوبكر ،  محمد بن جعفر طیار ، محمد بن طلحہ ،محمد بن عمرو بن حزم، محمد بن حاطب بن ابو بلتعہ اور محمد بن حطاب آئے۔ ان سب كا نام حضور صلی الله علیہ وسلم نے محمد ركھا تھا۔حضرت عمر نے اپنے پاس كھڑے حضرت زید بن ثابت سے كہا:ان سب كو ایك ایك جوڑا دے دو۔ جب لوگ كپڑے چننے لگے تو انھوں نےروك دیا اور كچھ چادریں منگوا كر جوڑوں پر ڈال دیں اور لوگوں سے كہا: چادر كے نیچے ہاتھ ڈال كر اپنی قسمت میں آیا ہوا جوڑا نكال لیں (الأغانی: أخبار عمارة بن الولید و نسبہ)۔

مطالعہ مزید:الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)، معرفة الصحابة (ابو نعیم اصفہانی)،أنساب الأشراف (بلاذری)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابة فی معرفة الصحابة(ابن اثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة (ابن حجر)۔

__________


حضرت فاطمہ بنت مجلل رضی الله عنہا

نسب اور كنیت

حضرت فاطمہ بنت مجلل (محلل :ابن اسحاق)مكہ میں پیدا ہوئیں ۔شاذ روایات میں ان كا نام جویریہ یا اسماء بتا یا گیا ہے۔ عبدالله (عبدیا عبید:ابن سعد، ابن عبد البر )بن ابوقیس (قیس:ابن اثیر)ان كے دادا تھے۔امیہ بن عبد شمس كی پوتی ام حبیب بنت عاص ان كی والده تھیں ۔ حضرت فاطمہ اپنے آٹھویں جد عامر بن لؤی كی نسبت سے عامریہ كہلاتی ہیں ۔بنو عامر قریش كی ایك شاخ تھی، اس لیے قرشیہ بھی ہوئیں ۔وه اپنی كنیت ام جمیل سے زیاده مشہور ہیں ۔ مجلل بن عبد كی نسل صرف ان كی بیٹی حضرت فاطمہ ہی سے آگے چلی۔

قبول اسلام

حضرت فاطمہ بنت مجلل اور ان كے شوہر حضرت حاطب بن حارث آفتاب اسلام طلوع ہونے كے فوراً بعد ایمان لے آئے۔حضرت حاطب كے بھائیوں حضر ت حطاب ، حضرت معمر اور ان كے اہل خانہ نے بھی ان كے ساتھ نعمت ایمان پائی۔ان سب نے نبی صلی الله علیہ وسلم كی اس وقت بیعت كی جب آپ  د ار ارقم میں تشریف نہ لائے تھے۔ السابقون الاولون كی فہرست میں حضرت فاطمہ كا نمبرپینتیسواں تھا۔

ہجرت حبشہ

حضرت فاطمہ بنت مجلل نے اپنے شوہر حضرت حاطب بن حارث كے ساتھ حبشہ ہجرت كی۔ حضرت حاطب کے بھائی حضرت حطاب ،ان كی بھاوج حضرت فكیہہ بنت یسار، ان کے چچا حضرت سفیان بن معمر،چچی حضرت حسنہ ،ان کے چچا ز ادحضرت جابر بن سفیان، حضرت جناد ه بن سفیان بھی شریك ہجرت تھے۔ ابن سعد، ابن ہشام اور ابن كثیر كے بیانات سے لگتا ہے كہ حضرت حارث بن حاطب اور حضرت محمد بن حاطب بھی مكہ سے ساتھ روانہ ہوئے۔ابن عبدالبر اورابن اثیر كا كہنا ہے :دونوں بھائیوں كا جنم حبشہ میں ہوا۔ حضرت محمد بن حاطب خود بتاتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قریش کی اذیتوں كا شكار اہل ایمان سے) ارشاد فرمایا: ”میں نے کھجوروں بھری ایک سرزمین (حبشہ یا مدینہ) دیکھ رکھی ہے،تم اس کی طرف ہجرت کر جاؤ۔“ چنانچہ (میرے والد)حاطب اور جعفر بن ابوطالب ایک کشتی میں سوار ہو کر نجاشی کی جانب نکل گئے۔ حضرت محمد کہتے ہیں: ”میں اسی کشتی میں پیدا ہوا“(احمد، رقم ۱۸۲۷۸۔ التاریخ الكبیر،بخاری، رقم ۹۔ المعجم الكبیر، طبرانی ۱۹/ ۵۴۱)۔ ابن حجر نے اس كی تائید كی۔

 حبشہ میں قیام

 حضرت حاطب كی حبشہ میں وفات ہو گئی، لیكن حضرت فاطمہ ۷ ھ تك وہیں مقیم رہیں ۔

ہجرت ثانیہ، مدینہ كی طرف

۶۲۶ءمیں ہجرت مدینہ کو سات برس بیت گئے تو حضرت جعفر بن ابوطالب اور باقی مہاجرین نے یہ کہہ کر مدینہ جانے کی خواہش ظاہر کی کہ ہمارے نبی کو غلبہ حاصل ہو گیا ہے اور ان کے جانی دشمن مارے جا چکے ہیں۔ تب نجاشی نے زاد راہ اور سواریاں دے کر ان کو رخصت کیا(المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۴۷۸)۔ابن سعد کے بیان کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازخود حضرت عمرو بن امیہ ضمری کو حبشہ بھیجا تاکہ وہ نجاشی کو اسلام کی دعوت دیں ، حضرت ام حبیبہ (رملہ ) بنت ابوسفیان سے آپ کا نکاح کروائیں اور سرزمین حبشہ میں رہ جانے والے مہاجرین کو واپس لے آئیں ۔چنانچہ حضرت عمرو بن امیہ مہاجرین کو دو کشتیوں میں سوار کر کے مدینہ لائے۔حضرت فاطمہ بنت مجلل اپنے دو نوں بیٹوں حضرت حارث بن حاطب اور حضرت محمد بن حاطب كے ساتھ كشتیوں میں سوار ہو كر مدینہ لوٹیں ۔حضرت حاطب كے بھائی حضرت حطاب كی بیوه حضرت فكیہہ بنت یسار، ان كے چچا حضرت سفیان بن معمر،چچی حضرت حسنہ اور ان كے بیٹے حضرت جناده اور حضرت جابر شریك سفر تھے۔كشتیاں بحر قلزم (Red Sea)كے ساحلی شہر الجار كی بندرگاه قراف پر اتریں ۔یہ جزیره نما بندر گاه حبشہ سےآنے والے مسافروں كے لیے خاص تھی۔ا بن سعد نے بولا كو الجار كا مترادف قرار دیا اور آج كل یہ الرایس (Ar Rayis)كے نام سے مشہور ہے۔ پھر مہاجرین نے مدینہ كی ایك یا دو دنوں كی مسافت طے كرنے كے لیے اونٹوں كا سفر شروع كیا۔ مدینہ پہنچنے میں ایك رات یا دو راتیں رہتی تھیں كہ انھوں نے ہانڈی پكائی ۔جلانے كی لكڑی ختم ہو گئی تو وه بالن ڈھونڈنے نكلیں ۔اس اثنا میں ہانڈی ان كے بیٹے حضرت محمد كے بازو پر گر گئی۔مدینہ پہنچ كر وه نبی صلی الله علیہ وسلم كی خدمت میں حاضر ہوئیں تو اپنے بیٹے حضرت محمد كو ساتھ لے گئیں اور گزارش كی: یہ آپ كے بھائی حاطب كا بیٹا ہے، آگ سے جل گیا ہے، الله كےحضور اس كے لیے دعا فرمائیں ۔آپ نے حضرت محمد كے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور بركت كی دعا فرمائی(احمد، رقم ۱۸۲۷۶۔ السنن الكبریٰ، نسائی، رقم ۱۰۷۹۶)۔

عقد ثانی

ابن عبدالبر، ابن اثیر اور مزی نے بیان كیا ہے كہ حضرت حاطب بن حارث كی وفات كے بعد حضرت فاطمہ بنت مجلل حضرت زید بن ثابت كے عقد میں آئیں اور ان سے ان كی اولاد بھی ہوئی۔حضرت زید بن ثابت كے حالات زندگی بتاتے ہوئے، البتہ انھوں نے ایسی كسی شادی كا ذكر نہیں كیا۔ حضرت زید انصارمدینہ سے تعلق ركھتے تھے، اس لیے ان كے حبشہ میں موجود ہونے كا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۷؍ ھ كے بعد ہی ان كا حضرت فاطمہ سے نكاح ہوا ہو گا۔ افسوس ان كی اولاد كے بارے میں ہمیں آگاہی نہیں ہو سكی۔ذہبی نے حضرت زید بن ثابت كے ستائیس بچوں كے نام لكھے ہیں :باره حضرت ام سعد بنت سعد بن ربیع انصاریہ سے،چار حضرت عمرہ بنت معاذ بن انس سے، چار ایك ام ولد سے اور سات دوسری ام ولد سے۔ حضرت فاطمہ بنت مجلل اور ان سے پیدا ہونے والے بچوں كا كوئی ذكر نہیں كیا(سیر اعلام النبلاء)۔

وفات

حضرت فاطمہ بنت مجلل كی وفات حبشہ سے لوٹنے كے بعد مدینہ میں ہوئی۔حضرت محمد بن حاطب اپنا ہاتھ جلنے كے بارے میں خود روایت كرتے ہیں : میری والده مجھے ایك شخص كے پاس لے گئیں جوكچھ كلام پڑھ كر مجھ پر پھونكتا رہا،مجھے كچھ سمجھ نہ آیا۔میں نے حضرت عثمان كی خلافت كے زمانے میں والدہ سے پوچھا:وه بزرگ كون تھے ؟انھوں نے بتایا :رسول اكرم صلی الله علیہ وسلم تھے(احمد، رقم ۱۸۲۷۷)۔اس روایت سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت فاطمہ عہد عثمانی میں زنده تھیں ۔

روایت حدیث

حضرت فاطمہ بنت مجلل سے ان كے بیٹے حضرت محمد بن حاطب نے حدیث روایت كی۔

مطالعہ مزید: السیرة النبویة (ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)،معرفة الصحابة (ابو نعیم اصفہانی)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابة فی معرفة الصحابة(ابن اثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة (ابن حجر)۔

__________


حضرت معمر بن حارث رضی اللہ عنہ

نسب

معمر نام تھا،حارث والد اور معمر بن حبیب دادا تھے،چھٹے جد جمح كی نسبت سے جمحی اور قبیلہ قریش سے تعلق ہونے كی وجہ سے قرشی كہلاتے ہیں ۔ حضرت عثمان بن مظعون كی بہن حضرت قتیلہ بنت مظعون ان كی والدہ تھیں ،ان كا تعلق بھی بنو جمح سے تھا۔جمح بن عمرو ان كے پانچویں جد تھے۔حضرت حاطب بن حارث اورحضرت حطاب بن حارث حضرت معمر كے سگے بھائی تھے۔

 بیعت ایمان

بطحاے مکہ میں آفتاب اسلام طلوع ہوا توحضرت معمر بن حارث دین حق کی طرف پہلے پہل لپکنے والے السابقون الاولون(التوبہ۹: ۱۰۰) میں شامل ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں تشریف لے جانے سے پہلے ایمان کی سعادت حاصل کی۔ان صاحب عزیمت مسلمانوں میں ان كا نمبراڑتیسواں تھا۔ان كے بھائیوں حضرت حاطب ، حضرت حطاب اور بھاوج حضرت فکیہہ بنت یسارنےان كے ساتھ بیعت ایمان كی۔

ہجرت حبشہ

حضرت معمر نے حبشہ ہجرت نہیں كی۔البتہ ان كے ہم نام حضرت معمر بن حارث ان مہاجرین میں ضرور شامل تھےجن كے دادا كا نام قیس بن عدی تھا، جب كہ معمر بن حبیب حضرت حاطب ، حضرت حطاب اور حضرت معمر كے دادا تھے۔

مدینہ كی طرف ہجرت

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ كو مدینہ كی طرف ہجرت كرنے كا حكم دیا تو حضرت معمر بن حارث بھی شہر ہجرت میں آ بسے۔

 مواخات

مدینہ پہنچ كر نبی صلی الله علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالك كے گھر پینتالیس مہاجرین ا ور پینتالیس انصار میں رشتۂ مواخات قائم كیا تو حضرت معمر بن حارث كوحضرت qمعاذ بن عفراء كا مہاجربھائی قرار فرمایا۔

غزوات

جنگ بدر میں بنو جمح كے پانچ صحابہ نے داد شجاعت دی۔ان میں سے ایك حضرت معمر بن حارث تھے،بقیہ اصحاب كے نام یہ ہیں :حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبدالله بن مظعون، حضرت قدامہ بن مظعون، حضرت سائب بن مظعون۔ حضرت معمر بن حارث نے جنگ احد ،جنگ خندق اور باقی غزوات میں بھی رسول اكرم صلی الله علیہ وسلم كا ساتھ دیا۔

خلافت راشده

حضرت معمر نے لمبی عمر پائی،حضرت ابوبكر اور حضرت عمر كے عہد ہاے خلافت كو دیكھا، تاہم ان کی باقی زندگی کےبارے معلومات نہیں ملتیں ۔

وفات

خلافت فاروقی میں وفات ہوئی۔

اولاد

ایك روایت كے مطابق، جس سے اختلاف بھی كیا گیا ہے،مشہور شاعر جمیل بن معمر ان كے بیٹے تھے۔ جمیل كے بارے میں مشہور ہے كہ و ه بنوعذره كی بثینہ سے محبت كرتے تھے۔عمر بھر اس كی محبت میں اشعار كہتے رہے، لیكن ان كا ملاپ نہ ہو سكا(الاغانی)۔

مطالعہ مزید:الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)، معرفة الصحابة (ابو نعیم اصفہانی)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (ابن عبدالبر)، الدرر فی اختصار المغازی والسیر (ابن عبدالبر)، اسد الغابة فی معرفة الصحابة(ابن اثیر)،البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)، الاصابة فی تمییز الصحابة(ابن حجر)

____________

B