HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

البیان: خصائص و امتیازات (۸)

۳۔جملہ اوراس کے اجزا

قرآن میں حروف اور الفاظ کی طرح پورے پورے جملے اور اُن کے اجزا بھی حذف کر دیے جاتے ہیں۔ذیل کی مثالوں سے واضح ہو جائے گا کہ البیان میں انھیں اچھی طرح سے سمجھا گیا اور کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ عام ترجموں میں ان کا ادراک قریب قریب  ناپید ہے۔ بلکہ ان محذوفات کو اگر بعض حضرات کے سامنے بیان کیا جائے تو وہ ان کی طوالت کی وجہ سے اپنے اندر ایک طرح کا توحش محسوس کرتے اور اسے ترجمے کے بجاے تفسیر خیال کرتے یا پھر سرے سے خارج کی کوئی چیز قرار دے دیتے ہیں۔ دراں حالیکہ جوشخص قرآن کی زبان کا اچھافہم رکھتاہو تویہ جملے اور اُن کے اجزا، آیات کے دروبست اور  بین السطور کے لازمی تقاضوں کے طورپر اُس کی زبان پربنا کسی تکلف کے آپ سے آپ جاری ہوجاتے ہیں :

فَلَمَّا٘ اَنْ جَآءَ الْبَشِيْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰي وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِيْرًا. (یوسف۱۲: ۹۶)
’’پھر جب یہ ہوا کہ خوش خبری دینے والا پہنچ گیا، اُس نے کرتا یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا تو یکایک اُس کی بینائی لوٹ آئی۔‘‘

اس آیت میں آنے والے ’اَنْ‘ کاترجمہ کرنے سے اکثرمترجمین نے صرف نظر کیا ہے۔ یہ کوئی زائدحرف نہیں ہے، بلکہ قرآن کی عربی کے لحاظ سے دیکھاجائے تو اِس سے پہلے ’كان الأمر‘  یا اس معنی کا کوئی اور جملہ بھی محذوف ہے کہ جسے لازمی طور پر کھول کر بیان کر دینا چاہیے۔ جن مترجمین نے ان دوباتوں کالحاظ نہیں کیا، وہ  مجبور ہو گئے ہیں کہ ’جَآءَ الْبَشِيْرُ‘ اور ’اَلْقٰىهُ عَلٰي وَجْهِهٖ‘ میں شرط اور جزا کا تعلق قائم کریں یا ان دونوں کو شرط قرار دے لیں۔ حالاں کہ یہاں شرط اور جزا  کاتعلق ہے بھی تو وہ ’اَلْقٰىهُ عَلٰي وَجْهِهٖ‘ اور ’فَارْتَدَّ بَصِيْرًا ‘میں ہے اور ’فَلَمَّا٘ اَنْ‘ اصل میں کچھ بھی نہیں، حکایت بیان کرتے ہوئے  متکلم کی طرف سے بات کو ذرا سا آگے بڑھانے کا فقط ایک طریقہ ہے۔

l  بعض اوقات اُس فقرے کو بھی حذف کر دیا جاتا ہے جو اپنے محل میں معطوف علیہ ہوتا اور اُس کی خبر لفظوں میں مذکور اُس  کا معطوف دے رہا ہوتا ہے:       

اَوْ يُوْبِقْهُنَّ بِمَا كَسَبُوْا وَيَعْفُ عَنْ كَثِيْرٍ. وَّيَعْلَمَ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْ٘ اٰيٰتِنَاﵧ مَا لَهُمْ مِّنْ مَّحِيْصٍ. (الشوریٰ۴۲: ٣٤ ـ  ٣٥)
’’یا اُن کے اعمال کی پاداش میں اُن کے جہازوں کو تباہ کر دے اور بہتوں سے درگذر  فرمائے۔ اِس لیے تباہ کر دے کہ اُن سے انتقام لے اور اِس لیے کہ جو لوگ ہماری آیتوں میں کٹ حجتی کر رہے ہیں، وہ جان لیں کہ اُن کے لیے کوئی مفر نہیں ہے۔ ‘‘

 اس آیت میں ’وَيَعْلَمَ ‘حالت نصب میں ہے،مگر کلام میں کہیں بھی اسے نصب دینے والا کوئی عامل موجودنہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس  پر آنے والا حرفِ’’ واو‘‘اصل میں عطف کاہے کہ جس سے پہلے ایک ایسا معطوف علیہ محذوف ہے جو اپنے ساتھ نصب کا یہ عامل بھی رکھتا ہے۔ اس کے بعد ان آیتوں کی روشنی میں اسے طے کیا جائے  تو واضح ہو جاتا ہے کہ وہ انتقام کے مضمون پر مشتمل، یعنی ’لينتقم‘ ہے۔ البیان میں اسے محذوف مان کر  یوں ترجمہ کیا گیا ہے: ’’اس لیے تباہ کر دے کہ اُن سے انتقام لے۔‘‘ اس کے برعکس، دیگر تراجم میں دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ عام طور پر حذف کا یہ اسلوب سرے سے نظر انداز ہو گیا ہے۔

ذیل کی آیت بھی اس کی نہایت خوب صورت مثال ہے جو حذف کے اس اسلوب کونہ سمجھ سکنے کی وجہ سے بعض حضرات پر بڑی مشکل ہوگئی ہے :

وَيَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَآءِﵧ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّﶈ وَمَا يُتْلٰي عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ فِيْ يَتٰمَي النِّسَآءِ الّٰتِيْ لَا تُؤْتُوْنَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الْوِلْدَانِﶈ وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْيَتٰمٰي بِالْقِسْطِ. (النساء۴: ۱۲۷)
’’وہ تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ اُن سے کہہ دو کہ اللہ تمھیں اُن کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے اور جن عورتوں کے حقوق تم ادا نہیں کرنا چاہتے، مگر اُن سے نکاح کرنا چاہتے ہو، اُن کے یتیموں سے متعلق جو ہدایات اِس کتاب میں تمھیں دی جارہی ہیں، اُن کے بارے میں اور (دوسرے) بے سہارا بچوں کے بارے میں بھی فتویٰ دیتا ہے (کہ عورتوں کے حقوق ہر حال میں ادا کرو) اور یتیموں کے ساتھ (ہر حال میں ) انصاف پر قائم رہو۔‘‘

آیت کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہاں دو باتوں کے متعلق فتویٰ دینا مقصود ہے: ایک عورتوں کے بارے میں اور دوسرے یتیم اور دیگر بے سہارا بچوں کے بارے میں۔لیکن جب ہم فتویٰ کے الفاظ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس میں ’وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْيَتٰمٰي‘ کہہ کر صرف یتیم بچوں کے بارے میں حکم دیا گیا ہے۔ مگر تدبر کی نگاہ سے دیکھا جائے  تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں ’وَاَنْ تَقُوْمُوْا‘ کا معطوف علیہ بالکل واضح ہونے کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ہے۔ موقع کلام کی رعایت رہے تووہ معطوف علیہ اصل میں عورتوں کے متعلق ہمیں حکم دے رہا ہے کہ اُن کے حق مہر ادا کیے جائیں اور اُن کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کیا جائے۔ البیان میں اس محذوف کو مطلق طور پرا س طرح بیان کیا گیا ہے: ’’عورتوں کے حقوق ہر حال میں ادا کرو۔‘‘

قرآن میں کسی جملے کا مبتدا بیان ہوتا ہے اور خبر حذف کر دی جاتی ہے، اور بعض اوقات اس کے برعکس، خبر موجود ہوتی ہے اور اُس کا مبتدا حذف کر دیا جاتا ہے:

الٓمّٓ. ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَﶍ فِيْهِ.(البقرہ۲: ۱ -۲)
’’ یہ سورۂ’الٓمّٓ ‘ ہے۔ یہ کتابِ الہٰی ہے، اِس کے کتابِ الہٰی ہونے میں کوئی شک نہیں۔‘‘

دیگر تراجم میں حروف مقطعات کے تحت بالعموم انھی حروف کو لکھ دیا جاتا ہے۔ البیان میں انھیں مبتداے محذوف کی خبر قرار دیا گیا ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں،اس لیے کہ یہ شروع میں لائے جاتے اور ان کی طرف ’ذٰلِكَ‘  اور ’تِلْكَ‘ کے ذریعے سے جا بجا اشارے بھی کر دیے جاتے ہیں۔ سو یہی وجہ ہے کہ یہاں ’الٓمّٓ ‘ کو’’یہ سورۂ ’الٓمّٓ ‘ہے‘‘کہہ کربیان کیا گیا ہے۔

وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ. (القلم۶۸: ۹)
’’یہ تو چاہتے ہیں کہ تم ذرا نرم پڑو، پھر یہ بھی نرم پڑ جائیں گے۔‘‘

عربی کے عام قاعدے سے یہاں ’فيدهنوا‘  ہونا چاہیے تھا، لیکن قرآن نے ’فَيُدْهِنُوْنَ‘ لا کر  اسلوب تبدیل کر دیا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تویہ اصل میں ’فهم يدهنون‘ ہے، یعنی اس میں مبتدا کو حذف کردیا گیا ہے۔

ذیل کی آیت خبر  کے محذوف ہونے کی مثال ہے جس میں ’كَذٰلِكَ‘ کی خبر کو زور اور تاکید کے لیے حذف کر دیا گیا ہے:

قَالَ كَذٰلِكَﵐ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ. (مریم۱۹ :۹)
’’فرمایا: ایسا ہی ہو گا۔ تمھارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ یہ میرے لیے بہت آسان ہے۔‘‘

بعض اوقات یہ دونوں امکان ہوتے ہیں کہ کسی فقرے کو مبتدا یا خبر قرار دے دیا جائے اور اسی لحاظ سے اُس  کا دوسرا حصہ محذوف مان لیا جائے۔ اس کے بعد مترجمین کے اوپر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اپنے ذوق کے مطابق کس تالیف کوترجیح دیتے ہیں :

وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰي سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ. (البقرہ۲: ۲۸۳)
’’اور اگر تم  سفرمیں ہو اورتمھیں کوئی لکھنے والا نہ ملے تو قرض کا معاملہ رہن قبضہ کرانے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

یہاں ’رِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ‘ مبتداے محذوف کی خبر بھی ہو سکتا ہے اور نکرہ  مخصوصہ ہونے کی وجہ سے خود مبتدا  بھی ہو سکتا ہے۔ البیان میں پہلی صورت،یعنی اسے مبتداے محذوف کی خبر قرار دینے کو ترجیح دی گئی ہے۔

قرآن میں یوں بھی ہوتا ہے کہ بہت سے مقامات پر شرط بیان کی جاتی ہے اور اُس کی جزا کو حذف کر دیا جاتا ہے:

فَلَمَّا٘ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ. وَنَادَيْنٰهُ اَنْ يّٰ٘اِبْرٰهِيْمُ. قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا. (الصافات۳۷: ۱۰۳ -۱۰۵)
’’پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا اور ہم نے اُس سے پکار کر کہاکہ ابراہیم، تم نے خواب کو سچا کر دکھایا ہے تو تصور کرو کہ دریاے رحمت نے کیسا جوش مارا ہو گا۔‘‘

عام طور پر لفظی ترجمہ کی رعایت سے ان آیات کا محض شرط ہونا بیان کر دیا گیا ہے یا ’وَنَادَيْنٰهُ‘ میں ’’واو‘‘کو زائد قرار دیتے ہوئے  اِسے  اُس شرط کی جزا قرار دے دیا گیا ہے۔ حالاں کہ ’وَنَادَيْنٰهُ‘  میں نہ تو ’’واو‘‘زائد ہے اور نہ یہ شرط کی جزا ہی ہے، بلکہ یہ ساری آیات مل کر اُس جزا کی شرط ہیں جو یہاں حذف کر دی گئی ہے کہ وہ اتنی بڑی بات ہے کہ کسی کے لیے اُس کا تصور کر لینا ہی گویا محال ہے۔ البیان میں ’’تو تصور کرو کہ دریاے رحمت نے کیسا جوش مارا ہو گا‘‘ کے الفاظ میں اسے بیان کرنے کی جو کوشش ہوئی ہے تو اس کا جواز ترجمہ کے بارے میں مان لی گئی یہ حقیقت ہے کہ یہ بہرصورت اصل کا متبادل نہیں،بلکہ اس سے کم ترہی ہوتا ہے۔

یہ ’لَمَّا‘ کے ساتھ آنے والی شرط اور اُس کی جزا کی مثال تھی۔ دیگر حروفِ شرط کے ساتھ آنے والی جزا بھی بعض اوقات حذف کر دی جاتی ہے، جیسا کہ حرف ’لَوْ‘ کے ساتھ آنے والا یہ مقام:

كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ. لَتَرَوُنَّ الْجَحِيْمَ. ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِيْنِ. ثُمَّ لَتُسْـَٔلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيْمِ. (التکاثر ۱۰۲: ۵- ۸)
’’تم اِس طرح غافل نہیں ہو سکتے تھے، ہرگز نہیں، اگر تم یقین سے جانتے کہ دوزخ دیکھ کر رہو گے۔پھر جانتے کہ تم اُسے یقین کی آنکھوں سے دیکھو گے۔ پھر دنیا کی سب نعمتوں کے بارے میں اُس دن تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔‘‘

مترجمین نے بالعموم لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ ‘کو شرط اور ’لَتَرَوُنَّ الْجَحِيْمَ ‘کو اُس کی جزا قرار دیا ہے۔ اس کے برخلاف، البیان میں ان تمام آیات کو شرط قرار دیا گیا اور ان کی جزا کو محذوف مانتے ہوئے اس کا بیان یوں کیا گیا ہے: ’’تم اِس طرح غافل نہیں ہوسکتے تھے۔‘‘ جزاے محذوف میں بیان کردہ غفلت کا یہ مضمون اصل میں سورہ کے بنیادی موضوع سے مستعار ہے جسے ترجمہ میں کلام کے شکوہ اور اُس میں پائی جانے والی تہدید کو برقرار رکھنے کے لیے شرط سے مقدم کر دیا گیا ہے۔

قرآن میں قسمیں بالعموم کسی بات پر شہادت اور دلیل لانے کے لیے کھائی جاتی ہیں۔ اس کے بعد بارہا ایسا ہوتا ہے کہ قسم بیان ہوتی ہے،مگر جس بات پر یہ کھائی گئی ہو،یعنی اُس  کا مقسم علیہ، اُسے حذف کر دیا جاتا ہے۔ اس حذف کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں،جیسا کہ قسم اور اس کے الفاظ کا خود جواب قسم پر  دال ہونا:

قٓﵴ وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ. (ق۵۰: ۱)
’’یہ سورۂ ’قٓ‘ ہے۔ قرآن مجید (آپ ہی اپنا) گواہ ہے۔‘‘

یہاں ’الْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ‘  کا مقسم علیہ حذف کر دیا گیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی قسم کھاتے ہوئے  اُس کی صفت ’مَجِيْد‘ کا اظہار گویا یہ بتانے کے لیے کافی ہوگیا ہے کہ اس کا مقسم علیہ کیا ہے، یعنی:’’ یہ ایک بزرگ تر کلام ہے‘‘۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے  تو یہ اصل میں قرآن مجید کا آپ  اپنا گواہ ہو جانا ہے۔چنانچہ البیان کے ترجمے میں اس کامقسم علیہ الگ سے ذکر کرنے کے بجاے یہ الفاظ لائے گئے ہیں :’’قرآن مجید(آپ ہی اپنا)گواہ ہے۔‘‘

 جواب قسم کواس لیے بھی حذف کر دیا جاتا ہے کہ اس کی وضاحت کرنے والی باتیں اسی سلسلۂ کلام میں مذکور ہوتی ہیں :

وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا. وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا. وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا. فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا. فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا. (النازعات۷۹: ۱- ۵)
’’ہوائیں گواہی دیتی ہیں جڑ سے اکھاڑنے والی اور وہ بھی جوبہت نرمی سے چلتی ہیں۔ اور (فضاؤں میں) تیرتے دوڑتے، پھر اِس میں ایک دوسرے سے بڑھتے، پھر حکم کی تدبیر کرتے ہوئے بادل گواہی دیتے ہیں کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے، وہ ہو کر رہے گی۔‘‘

ان آیات میں ہواؤں اور بادلوں کی قسمیں جس بات پرکھائی گئی ہیں،اُس کے احوال و ظروف چونکہ اگلی آیات میں تفصیل سے بیان ہوگئے ہیں،اس لیے ضرورت نہیں تھی کہ اُس بات کو لفظوں میں بیان کیا جائے، چنانچہ یہاں  اُسے حذف کر دیا گیا ہے۔

B قرآن میں حذف کے اس ا سلوب کی بعض مثالیں ایسی بھی ہیں جن میں سامع کی ذہانت پر اعتبار کرتے ہوئے بعض متقابل باتوں کو حذف کر دیا جاتا ہے:

وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰٓئِرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّا٘ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ. (الانعام۶: ۳۸)
’’زمین پر جتنے جانور اپنے پاؤں سے چلتے ہیں اور فضامیں جتنے پرندے اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں،سب تمھاری ہی طرح امتیں ہیں۔‘‘

ذرا سا دقت نظر سے دیکھا جائے  تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں بعض متقابل حصے محذوف ہیں۔یعنی، آیت کے پہلے حصے میں ’فِي الْاَرْضِ ‘ہے تو دوسرے حصے میں ’في السماء‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔اسی طرح دوسرے حصے میں ’يَطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ ‘ کا فقرہ آگیا ہے تو پہلے حصے میں’ تدب علي رجليها‘  کا فقرہ حذف کردیا گیا ہے۔ البیان کے ترجمے میں دیکھ لیا جاسکتا ہے کہ ان متقابل اجزا کو کھول دیا گیا ہے، اور ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اردومیں اس اسلوب کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے جملوں کا دروبست ٹھیک نہیں ہوتا اور بات بھی پوری طرح سے بیان نہیں ہو پاتی۔

ذیل کی آیت بھی اس کی ایک خوب صورت مثال ہے:

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ ثَوَابَ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللّٰهِ ثَوَابُ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِﵧ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيْعًاۣ بَصِيْرًا. (النساء۴: ۱۳۴)
’’جو دنیا کا صلہ چاہتا ہے تو دنیا  کا صلہ بھی اللہ کے پاس ہے۔ اور جو آخرت کا صلہ چاہتا ہے تو اللہ کے پاس دنیا کا صلہ بھی ہے اور آخرت کا صلہ بھی، اور اللہ سمیع و بصیر ہے۔‘‘

اس آیت میں بعض متقابل اجزا حذف کر دیے  گئے ہیں،یعنی پہلے حصے میں سے ’فَعِنْدَ اللّٰهِ ثَوَابُ الدُّنْيَا ‘  اور دوسرے میں سے ’ومن كان يريد ثواب الآخرة‘۔انھیں کھول کر بیان کیا جائے  تو اصل تالیف کلام یہ بنتی ہے:’من كان يريد ثواب الدنيا فعند اللّٰه ثواب الدنيا، ومن كان يريد ثواب الآخرة فعند اللّٰه ثواب الدنيا والآخرة‘۔

۴۔دیگر محذوفات

 اس کے  علاوہ اور بھی کئی چیزیں حذف کر دی جاتی ہیں، مثال کے طور پر ’’بھی‘‘  کا لفظ۔ قرآن کے زمانے کی عربی میں اسے أیضًا سے بیان کیا جاتا تھا، مگر واقعہ یہ ہے کہ پورے قرآن میں یہ کہیں بھی مذکور نہیں ہے۔ تاہم، مترجمین ذرا سا تدبر سے کام لیں تو حالت حذف میں اُسے کلام کے بین السطور ہی میں موجود پا سکتے ہیں :

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍﶈ وَّيَوْمَ حُنَيْنٍﶈ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ. (التوبہ۹ :۲۵)
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے بہت سے موقعوں پر تمھاری مدد کی ہے۔ ابھی حنین کے دن بھی، جب تم اپنی کثرت پر اترا رہے تھے۔‘‘

فرمایا ہے کہ اللہ نے بہت سے مواقع پر تمھاری مدد کی ہے ’وَيَوْمَ حُنَيْنٍ‘( اور حنین کے دن)۔ ان الفاظ کا محل ہی واضح کر رہا ہے کہ ان کے ساتھ ’’بھی‘‘                 کا یہ لفظ موجود ہے جو محل کی اس واضح دلالت کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ہے۔

اوپر کی مثال میں یہ عطف کو بیان کرنے کے لیے آیا ہے۔ کئی مقامات پر یہ کلام میں تاکید پیدا کرنے کے لیے بھی آجاتا ہے:

وَلَوْلَا٘ اَنْ يَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ يَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُيُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُوْنَ. وَلِبُيُوْتِهِمْ اَبْوَابًا وَّسُرُرًا عَلَيْهَا يَتَّكِـُٔوْنَ. وَزُخْرُفًا. (الزخرف۴۳: ۳۳- ۳۵)
’’اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے (اور کوئی ایمان پر نہیں رہے گا) تو جو لوگ خداے رحمٰن کے منکر ہو رہے ہیں، اُن کے گھروں کی چھتیں ہم چاندی کی کر دیتے اور زینے بھی جن پر وہ چڑھتے اور اُن کے گھروں کے دروازے اور اُن کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے، بلکہ (چاندی ہی نہیں )،سونے کے بھی۔‘‘

ان آیات میں ’’بھی‘‘ کے دونوں استعمالات کی مثالیں موجود ہیں۔ یعنی،’وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا ‘سے  ’يَتَّكِـُٔوْنَ ‘  تک اُن کے تخت،زینے اور دروازے چونکہ اُسی چاندی سے بنانے کا ذکر ہوا ہے جس سے اُن کی چھتیں بنانے کا ذکر کیا گیا ہے، اس لیے یہاں آنے والا ’’بھی‘‘ اصل میں عطف کے لیے آیا ہے۔ مگر اس کے مقابلے میں ’زُخْرُفًا ‘ کے لفظ سے مراد چونکہ سونا ہے جو اپنی قیمت میں چاندی سے کہیں بڑھ کر ہے، اس لیے طے ہے کہ یہ محض عطف کے بجاے یہاں تاکیدکے لیے بھی آیا ہے۔ سو کلام کی دلالت جس طرح اس بات کی متقاضی ہوئی ہے کہ ان دو مقامات پر ’’بھی‘‘ کے لفظ کو حذف کر دیا جائے، اسی طرح اس کی دلالت ہی اس بات کو واضح کررہی ہے کہ یہاں ’’بھی‘‘  کا لفظ بہرحال محذوف ہے اور یہ بھی واضح کر رہی ہے کہ یہ کس مقام پر عطف اور کس مقام پر تاکید کے لیے محذوف ہے۔

اقتضاء ات

یہ اسالیب کے سلسلے کی تیسری چیزہیں۔بعض اوقات کلام اس طرح ترکیب دیا جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں سامع کے ذہن میں اس کے کچھ ناگزیر تقاضے پیدا ہو جاتے ہیں۔یہ تقاضے اپنی حقیقت میں سراسر عقلی ہوتے ہیں کہ یہ عقل ہی ہے جو اصل سے فرع اور فرع سے اصل اور اسی طرح ایک بات سے اُس کی مماثل بات تک آپ سے آپ پہنچ جاتی ہے[32]۔ان میں سے چند اقتضاء ات کو ہم ذیل میں مثالوں کے ساتھ بیان کرتے ہیں :

۱۔ادنیٰ سے اعلیٰ

 کوئی بات ایسے اسلوب میں کہی جائے کہ اُس  کا حکم ایک عقلی اقتضا کے طور پر اُس جیسی، مگر  اُس سے برتر بات کو خود بخود محیط ہو جائے۔ مثلاً:

اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ. (الحج۲۲: ۷۳)
’’حقیقت یہ ہے کہ خدا کے سوا تم جن کو پکارتے ہو، وہ ایک مکھی بھی پیدانہیں کر سکتے، اگرچہ  وہ اس کے لیے سب مل کر  کوشش کریں۔‘‘

اس آیت میں معبودان باطل کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ سب مل کر کوشش کریں تو بھی ایک مکھی تک پیدانہیں کر سکتے۔ اس سے عقلاً یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اگر وہ مکھی جیسی حقیر چیز بنا سکنے  پر قادر نہیں ہیں تو زمین و آسمان اور انسان جیسی شاہ کار مخلوق بنا لینے کی تو  ہرگز کوئی قدرت نہیں رکھتے۔  مطلب یہ کہ یہاں ادنیٰ بات کی نفی کی گئی ہے اور اس سے اعلیٰ بات کی نفی عقل کے ایک اقتضا کے طور پر خود سے سامنے آگئی ہے۔ اس طرح کے اسالیب کو بیان کرنے کا اردو میں ایک طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس میں ’’بھی‘‘ کا لفظ لایا جائے،   جیسا کہ البیان کے ترجمے میں یہ لایا گیا ہے۔

اسی طرح یہ آیت بھی اس اسلوب کی ایک اچھی مثال ہے :

اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَا٘ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَا٘ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا.  (بنی اسرائیل۱۷: ۲۳)
’’اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں اگر تمھارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو نہ اُن کو اف کہو اور نہ اُن کو جھڑک کر جواب دو۔‘‘

اس آیت میں والدین کو اُف، یعنی ناگواری کا کوئی کلمہ کہنے اور جھڑکنے سے روکا گیا ہے۔ اس سے بہ ادنیٰ تامل سمجھ لیا جا سکتا ہے کہ اُنھیں گالی بکنا بہت زیادہ غلط اور اُنھیں مارنا تو پرلے درجے کی برائی ہے[33]۔

۲۔اعلیٰ سے ادنیٰ

کوئی بات اس طریقہ سے کہی جائے کہ اُس کاحکم عقلی لحاظ سے اُس جیسی،مگراُس سے کم تر درجے کی بات کا بھی احاطہ کرلیتاہو:

وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ. (الانعام۶: ۸۸)
’’لیکن اگرکہیں یہ لوگ بھی شرک میں مبتلا ہو گئے ہوتے تو اِن کا سب کیا کرایا اِن سے اکارت ہوجاتا۔‘‘

پیغمبروں کے بارے میں اور اُن کی اولاد، آبا و اجداد اور بھائی بندوں میں سے جو ہدایت یافتہ ہوئے، اُن کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگر یہ لوگ بھی شرک میں مبتلا ہوگئے ہوتے تو اِن کا سب کیا کرایا اکارت ہو جاتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ شرک اگر اس درجہ کے برگزیدہ لوگوں کی طرف سے ہوتو ان کے اعمال غارت کر سکتا ہے تو جن لوگوں کو یہ مقام حاصل نہیں ہے، اُن کے اعمال تو بطریق  اولیٰ غارت کر دے سکتا ہے۔ گویا اس مقام پر اعلیٰ  کا بیان ہوا ہے اور ادنیٰ پر اُس کی دلالت ایک عقلی تقاضے کے طور پرخودسے واضح ہوگئی ہے۔ البیان میں اس اسلوب کا لحاظ ہے کہ ترجمے میں ’’بھی‘‘                                کا لفظ لایا گیا اور اس اقتضا  کو خو ب نمایاں کر دیا گیا ہے[34]۔

۳۔مساوی سے مساوی

کوئی بات اس طرح کہی جاتی ہے کہ اُس کاحکم ایک عقلی تقاضے کے طورپر اس کے برابر کسی بات پر دلالت کر رہا ہوتا ہے:

فَاِذَا٘ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ. (النساء۴: ۲۵)
’’پھر جب وہ پاک دامن رکھی جائیں اور اِس کے بعد اگر کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو اُن پر اُس سزا کی آدھی سزا ہے جو آزاد عورتوں کے لیے مقرر کی گئی ہے۔‘‘

بیان ہوا ہے کہ لونڈیاں اگر بدکاری  کا ارتکاب کریں تو اُن  پر آزاد عورتوں کے مقابلے میں آدھی سزا ہے۔ آیت میں غلام کا ذکرنہیں ہوا، مگر مساوی سے مساوی پر استدلال کا یہ اصول پیش نظر ہے کہ ہمارے ہاں اُس کے لیے بھی یہی  سزا مقرر کی گئی ہے۔

وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ. (النساء ۴: ۲۳)
’’اور یہ بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ہی نکاح میں جمع کرو، مگر جو ہو چکا سو ہو چکا۔‘‘

اس آیت میں دو بہنوں کو ایک ہی وقت میں نکاح میں رکھنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ سمجھ لیا جا سکتا ہے کہ زن و شو کے تعلق میں اگر بہن کے ساتھ بہن کو جمع کرنا  اس لیے حرام ہے کہ وہ اُسے فحش بناتا اور انھیں بہنیں ہوتے ہوئے بھی سو کناپے  اور رشک و رقابت کے جذبات میں مبتلا کر دیتا ہے تو پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی کو جمع کرنا بھی گویا ماں کے ساتھ بیٹی کو جمع کرنا اور اس طرح اُنھیں مذکورہ مسائل سے دوچار کردینا ہے،اس لیے وہ بھی حرام ہے[35]۔البیان کے تفسیری نوٹ میں مساوی محل پر آنے والی اِس   دلالت کو وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے، اور تفسیری نوٹ میں اس لیے کہ اِس طرح کے تقاضوں کی تفصیل ترجمہ کے بجاے تفسیرہی سے زیادہ تعلق رکھتی ہے۔

اس آیت میں بھی اس کی ایک اچھی مثال ہے:

وَاُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِيْ٘ اَرْضَعْنَكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ. (النساء۴: ۲۳)
’’اور تمھاری وہ مائیں بھی جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا اور رضاعت کے اس تعلق سے تمھاری بہنیں بھی۔‘‘

رضاعی ماں کی حرمت بیان فرمائی تو اس کے ساتھ ’وَاَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ‘ کا اضافہ بھی فرمایا۔ اس سے عقل یہ تقاضا  کرتی ہے کہ رضاعت کا تعلق اگر ساتھ دودھ پینے والی کو بہن بنا سکتا ہے تو مساوی سے مساوی کے اسلوب کے تحت رضاعی ماں کے دوسرے رشتوں کو بھی حرام بنا دے سکتا ہے۔اس بات کی وضاحت بھی البیان کے حواشی میں تفصیل سے کر دی گئی ہے۔

مجازات

یہ اسالیب کے سلسلے کی آخری چیزہیں ۔ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہ ہر زبان میں پائے جاتے اور انسان کی اُس عادت سے پیدا ہوتے ہیں جو اُسے  بار ہا مجبور کرتی ہے کہ وہ کسی شے پر حقیقت کے بجاے اپنے مشاہدے کے مطابق حکم لگائے اور یکسانیت سے بچنے اور اپنی بات اچھی طرح سے کہنے کے لیے ہر معاملے کی طرح زبان میں بھی تنوع پیدا کرے۔ قرآن انسانوں کے درمیان بولی جانے والی ایک زبان میں اتارا گیا ہے ، اس رعایت سے اس میں بھی مجاز کے بہت سے اسالیب برتے گئے ہیں ۔ مترجمین کے لیے لازم ہے کہ وہ اُن کی پوری پوری رعایت رکھیں اور ان کی اصل مراد کو اپنی زبان میں منتقل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں ۔[36] یہ مجازات  بنیادی طور پر دو طرح کے ہوتے ہیں :ایک وہ جن میں فعل کی نسبت اُس کے حقیقی فاعل کے بجاے کسی اور کی طرف کر دی  جائے اور دوسرے وہ جن میں حقیقی معنی کے بجاے کسی اور معنی کو مراد لے لیا جائے۔ اس تقسیم کے لحاظ سے ہم یہ بحث چند عنوانات کے تحت پڑھ سکتے ہیں ،جیسا کہ نسبت فعل، تشبیہ و استعارہ ،مجاز مرسل اور کنایہ۔

نسبت فعل

فعل جس فاعل سے صادر ہوتا ہے، بعض وجوہ کے پیش نظر اُس کی نسبت کسی غیر کی طرف کر دی جاتی ہے۔  یہ غیر اُس فعل کا سبب بھی ہو سکتا ہے اوراُ س کا وقت ا ور مکان بھی:

۱۔سبب

يُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَآءَهُمْ. (القصص۲۸: ۴)
’’وہ اُن کے بیٹوں کو ذبح کر چھوڑتا اور اُن کی عورتوں کو زندہ  رکھتا تھا۔‘‘

فرعون کی سرکشی کا ذکر کرتے ہوئے  فرمایا ہے :’يُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ‘۔وہ مصرمیں رہنے والے بنی اسرائیل کے بیٹوں کو ذبح کر دیتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ بچوں کو مارنے کا یہ کام اُس کے سپاہی کرتے ہوں گے، مگر اِس فعل کی نسبت اُن کے بجاے فرعون کی طرف کر دی گئی ہے کہ اِس اسکیم کا سبب اصل میں و ہی تھا۔

۲۔زمان    

فَكَيْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبًا. (المزمل۷۳: ۱٧)
’’ اِس لیے اگر تم بھی نہیں مانو گے تو اُس دن سے کس طرح بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔‘‘

قیامت کے دن کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ بہ ادنیٰ تامل جان لیا جا سکتا ہے کہ انسان پر ہونے والا یہ اثر قیامت کی ہول ناکیوں اور سختیوں کی وجہ سے ہو گا، مگر اِس  اثر کی نسبت اُن کی طرف کرنے کے بجاے زمانے ،یعنی اُس دن کی طرف کر دی گئی ہے جس میں یہ سب کچھ واقع ہو گا۔

۳۔مکان

وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ. (البقرہ۲: ۲۵)
’’ اور اُن کو جو (اِس کتاب پر) ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے، اِس بات کی بشارت دو، ( اے پیغمبر) کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔‘‘

اہل جنت کے لیے اخروی انعام کا بیان  فرمایا ہے کہ اُنھیں وہ باغات دیے جائیں گے ’تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ‘ کہ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوتی ہوں گی۔ ہم جانتے ہیں کہ بہتا تو نہر کا پانی ہے، مگر بہنے کے اس فعل کی نسبت پانی کی طرف کرنے کے بجاے  یہاں  اُس کے مکان ،یعنی نہر کی طرف کر د ی گئی ہے کہ وہ بہرحال اسی میں بہتا  ہے۔

تشبیہ و  استعارہ

بعض اوقات کسی شے کو بیان کرتے ہوئے  اُسے کسی دوسری شے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ یہ تشبیہ اُسے مشبہ بہ کے ایک جز یا اُس کے تمام اجزا کے مجموعے کے ساتھ دی جاتی ہے اور جب مبالغہ مقصود ہو تو اُس  کا ذکر کیے بغیر محض  مشبہ بہ کا بیان کر کے بھی دی جاتی ہے۔ ان سب میں سے صرف وہ صورتیں مجاز کے تحت آتی ہیں جن میں تشبیہ کے تعلق سے حقیقی معنی کے بجاے کوئی اور معنی  مراد لیا گیا  ہو:

۱۔تشبیہ بلیغ

صُمٌّۣ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ. (البقرہ۲: ۱۸)
’’بہرے ہیں ،گونگے ہیں ،اندھے ہیں، سو اب وہ کبھی نہ لوٹیں گے۔‘‘

منکرین کے بارے میں فرمایا ہے :’صُمٌّۣ بُكْمٌ عُمْيٌ ‘( وہ گونگے بہرے اور  اندھے ہیں)۔ یہاں ان الفاظ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ واقعہ میں بولنے، سننے اور دیکھنے والے نہیں ہیں، بلکہ انھیں ان صلاحیتوں سے محروم لوگوں سے تشبیہ دی گئی ہے اور ایسا کرتے ہوئے  اداۃ شبہ اور وجہ شبہ، دونوں کو حذف کر دیا گیا ہے اور اسی کو تشبیہ بلیغ کہا جاتا ہے۔

۲۔استعارہ

وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ. (الشعراء۲۶: ۲۱۵)
’’اور جن اہل ایمان نے تمھاری پیروی کی ہے، اُن کے لیے اپنی شفقت کے بازو جھکائے  رکھو۔‘‘

استعارہ تشبیہ کی وہ قسم ہے جس میں مشبہ اور مشبہ بہ میں سے کسی ایک کو حذ ف کر دیا جائے۔ زیر نظر آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے:’وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ‘  (تم اپنے پروں کوجھکائے  رکھو)۔ ظاہر ہے، یہاں پروں سے مرادآپؐ کے بازوہیں اور وہ بھی معنوی طور پر، یعنی آپ کی رحمت اور شفقت کے بازو۔ البیان میں استعارے کی اِس مراد کو یوں بیان کیا گیا ہے: ’’اپنی شفقت کے بازو  جھکائے  رکھو۔‘‘

مناسب ہوگا اگر یہاں ضمنی طور پر تمثیل کو بھی بیان کر  دیا جائے۔ یہ تشبیہ کے قبیل ہی کی ایک چیز ہے، مگر اس فرق کے ساتھ کہ اس میں مشبہ  اور مشبہ بہ کی باہمی مطابقت کے بجاے ایک صورت واقعہ کی دوسری صورت واقعہ سے مطابقت زیر بحث آتی ہے:

فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا.(البقرہ۲: ۲۶۴)
’’ سو اُن کی مثال ایسی ہے کہ ایک چٹان ہو جس پر کچھ مٹی ہو ، پھر اُس پر زور کا مینہ پڑے اوراُس کو بالکل چٹان کی چٹان چھوڑ جائے۔ ‘‘

یہاں اُن لوگوں کا ذکر ہوا ہے جو احسان جتلا کر اور دل آزاری کرتے ہوئے اپنی خیرات کو برباد کر لیتے ہیں۔ فرمایا ہے :’فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ‘۔  مترجمین نے اسے سادہ تشبیہ خیال کیا اور عام طور پر اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے :’’ اُن کی مثال اُس چٹان کی سی ہے۔‘‘ دراں حالیکہ یہ تمثیل ہے جس میں اِن لوگوں کی اُخروی محرومی کو ایک تمثیل میں بیان کردہ پوری صورت حال سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ البیان میں اس کاترجمہ عام طرزسے ہٹ کر یوں کیا گیا ہے:’’اُن کی مثال ایسی ہے کہ ایک چٹان ہو...۔‘‘

اس تمثیل کے بارے میں ایک اہم نکتہ بھی سامنے رہنا چاہیے۔ قرآن میں با رہا اس طرح ہوتا ہے کہ تمثیل کے آخرمیں بعض الفاظ لا کر  اُسے  اُس حقیقت کی طرف موڑ دیا جاتا ہے جس کی یہ تمثیل ہوتی ہے:

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْ٘ا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۣ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءًﵧ حَتّٰ٘ي اِذَا جَآءَهٗ لَمْ يَجِدْهُ شَيْـًٔا وَّوَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗ. (النور۲۴: ۳۹)
’’اس کے برخلاف جو لوگ (اِس روشنی کے) منکر ہیں، اُن کی تمثیل یہ ہے کہ جیسے چٹیل صحرا میں سراب جس کو پیاسا پانی گمان کرے، یہاں تک کہ جب اُس کے پاس آئے تو اُسے کچھ نہ پائے۔ البتہ وہاں اللہ کو پائے، پھر وہ اُس کاحساب پوراپورا چکا دے۔‘‘

اس آیت میں شروع سے لے کر ’لَمْ يَجِدْهُ شَيْـًٔا ‘ تک تمثیل بیان ہوئی ہے اور اس کے بعد اس کا رخ اصل بات کی طرف موڑ دیا گیا ہے تاکہ یہ محض ایک تمثیل ہو کر نہ رہ جائے ،بلکہ حقیقت کے بالکل مطابق بھی ہو جائے۔

اس اسلوب کو سمجھنے میں اُس وقت نہایت مشکل پیدا ہو جاتی ہے جب تمثیل میں آنے والے یہ الفاظ آخر کے بجاے    اُس کے بیچ میں آجائیں ،جیسا کہ اس آیت میں :

كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا. (الحدید۵۷: ۲۰)
’’ تمثیل اُس بارش کی ہے جس کی اگائی ہوئی فصل اِن منکروں کے دل لبھائے،  پھر زور پر آئے اور تم دیکھو کہ وہ زرد ہوگئی ہے، پھر(کوئی آفت آئے اور)ریزہ ریزہ ہو جائے۔‘‘

جو دنیا محض دنیا داری بن کر رہ جائے، اُس کی تمثیل بیان کرتے ہوئے  فرمایا ہے :وہ ایسے ہی ہے جیسے بارش ہواوراُس کی اگائی ہوئی فصل اِن منکروں کے دل لبھائے۔ اس کے لیے ’اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ‘کے الفاظ آئے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ عربی زبان میں ’         کافر‘       کا معروف معنی منکر ہی ہے۔ عام طور پر مترجمین تمثیل کے بیچ میں آنے والے اس اسلوب کا چونکہ  ادراک نہیں کر پائے ،اس لیے مجبور ہو گئے ہیں کہ معروف اور سماع کے قاعدے سے بے اعتنائی کرتے ہوئے وہ  محض لفظی مناسبت سے اس کا مطلب ’’کسان‘‘ بیان کریں ۔

مجاز مرسل

اس میں بھی لفظ کے حقیقی معنی کے بجاے کوئی اور معنی مراد لیا جاتا ہے ،مگرا ن دونوں کے درمیان میں پایا جانے والا تعلق تشبیہ کا نہیں ،بلکہ کوئی اور ہوتا ہے۔ اس کی چند ایک مثالیں یہ ہو سکتی ہیں :

۱۔سبب سے مرادمُسَبَّبْ

قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَمُنُّ عَلٰي مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ. (ابراہیم۱۴ :۱۱)
’’اُن کے رسولوں نے اُن سے کہا: بے شک، ہم تمھاری ہی طرح کے آدمی ہیں،مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، فضل فرماتا ہے۔‘‘

يَمُنُّ‘ کا مطلب فضل کرنا ہے ،مگر اس سیاق میں اس سے مراد وحی اتارنا ہے کہ خدا کے پیغمبر بشر ہونے کے باوجود، اس معاملے میں سب لوگوں سے بڑھ کر صاحب فضل ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے  تو یہاں سبب، یعنی فضل کرنے کاذکر کیا اور اس سے اُس کا مسبب،  یعنی وحی اُتارنا  مراد لیا ہے۔ چونکہ فضل کالفظ یہاں اصل مدعا کو بہ خوبی  ادا کر رہا ہے، اس لیے البیان کے ترجمہ میں اس کے بجاے مسبب نہیں لکھاگیا۔

یہ آیت بھی اس کی اچھی مثال ہے:

اَوْ يُصْبِحَ مَآؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِيْعَ لَهٗ طَلَبًا. (الکہف۱۸: ۴۱)
’’یا اُس کا پانی زمین میں اتر جائے، پھر تم اُس کوکسی طرح پانہ سکو۔‘‘

طلب کا مراد چاہنا ہے، مگر یہاں اس سے مراد پانا اور حاصل کرلینا ہے کہ اس جملے میں یہی معنی ٹھیک بیٹھتا ہے۔ کسی شے کو حاصل کر لینے کا بنیادی سبب چونکہ اُس کی طلب ہوتی ہے، اس لیے یہاں سبب کا ذکر کیا اور اِس سے اُس  کا مسبب، یعنی حصول مراد لیا ہے۔ البیان میں  اس اسلوب کی رعایت سے اس کا ترجمہ ’’پانا‘‘ کیا گیا ہے۔

۲۔مسبب سے مراد سبب

وَمَا٘ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ رِّزْقٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا.  (الجاثیہ۴۵ :۵)
’’اور اس روزی میں جو اللہ نے(پانی کی صورت میں )آسمان سے اتاری ،پھر اُس سے زمین کو اُس کے مر جانے کے بعد زندہ  کر دیا۔‘‘

زمین اور آسمانوں کی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے  فرمایا ہے کہ ایک نشانی اُس رزق میں بھی ہے جو اللہ نے آسمان سے اتارا ہے۔ اس کے بعد بیان ہونے والا رزق کا یہ کام کہ اُس سے زمین کو دوبارہ سے زندہ کر دیا، خود بتا رہاہے کہ اس سے مراد اصل میں بارش کا پانی ہے۔ گویا یہاں رزق کا لفظ لایا گیا جو بارش کی وجہ  سے پیدا ہوتا  اور اس وجہ سے اس کا مسبب ہے ،مگر اس سے مراد یہاں اصل میں اُس کا سبب، یعنی بارش ہے ۔البیان میں قوسین کے اندر ’’پانی کی صورت میں‘‘ کے الفاظ مجاز کے اسی اسلوب کی وضاحت کے لیے لائے گئے ہیں ۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

[32]۔ یہاں ہم اس صلاحیت کے صرف آخری پہلوکوبیان کررہے ہیں ،اس لیے کہ اول الذکر دو پہلو اصل میں قیاس سے تعلق رکھتے ہیں اوروہ ہمارے زیرنظرمضمون سے براہ راست متعلق نہیں ہے۔

[33]۔ البیان میں یہاں اس اسلوب کے لیے ’’بھی‘‘ کا لفظ نہیں لایا گیا تو اس کی وجہ اصل میں ’فَلَا تَقُلْ لَّهُمَا٘ اُفٍّ‘ کے ساتھ ’وَلَا تَنْهَرْهُمَا ‘ کا آجانا ہے جس سے ترجمے میں ’’بھی‘‘ کا لفظ لانا موزوں نہیں رہا۔

[34]۔ اس اسلوب کے لیے یہ آیتیں بھی دیکھ لی جاسکتی ہیں :بنی اسرائیل۱۷: ۷۵۔ الزمر ۳۹: ۶۵ اور التحریم۶۶: ۵۔

[35]۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو خیال ہو کہ اس استدلال کے پیچھے اصل میں اُس حدیث کا مضمون ہے جس میں فرمایا ہے کہ ایک ہی وقت میں خالہ اور بھانجی سے اور پھوپھی اور بھتیجی سے ہرگز نکاح نہ کیا جائے ۔عرض ہے کہ قرآن کے الفاظ کی یہ دلالت، اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑی دقیق اور نازک ہے ،مگر زبان کے اسالیب سے اگر اچھی واقفیت ہو تو یہ ہر طرح سے واضح ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے سمجھنے میں صاحب البیان  منفرد نہیں ہیں ،بلکہ علامہ ابن قیم جیسے دیگر اہل علم بھی اس معاملے میں ان کے ساتھ ہیں  (زاد المعاد ۷۸۷)۔

[36]۔ مجاز کے یہ اسالیب کم وبیش  اردو میں بھی موجود ہیں ،اس لیے البیان میں چند ایک مقامات ایسے بھی ہیں جہاں اُن کا ادراک ہوتے ہوئے بھی یہ ضروری نہیں سمجھا گیا کہ ان پر کوئی اشارہ یا نوٹ دیا جائے۔ تاہم ،اس کے باوجود ہم نے انھیں بھی مثال کے طور پر یہاں بیان کر دیا ہے اور مقصد یہ ہے کہ مجازکی یہ بحث کہیں ادھوری نہ رہ جائے۔

B