HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘ ــــــــ توضیحی مطالعہ: قانون معاشرت

[میزان کے باب ’’قانون معاشرت‘ ‘ میں مصنف نے  نکاح وطلاق ، اختلاط مرد و زن اور غلامی سے متعلق قرآن مجید کے نصوص اور  شرعی احکام کی وضاحت کی ہے۔  زیر نظر سطور میں اس بحث کے اہم نکات کے حوالے سے مصنف  کے نقطۂ نظر   کا توضیحی مطالعہ پیش کیا جائے گا۔]


جنگ میں قیدی بننے والی خواتین

’’یہی معاملہ اُس عورت کا ہے جو کسی شخص کے نکاح میں ہو ۔... وہ عورتیں، البتہ اِس سے مستثنیٰ تھیں جو جنگ میں پکڑی ہوئی آئیں۔ اُن کے لیے قانون یہ تھا کہ وہ اگر کسی سے نکاح کرنا چاہیں تو شادی شدہ ہونے کے باوجود کر سکتی تھیں۔ اِس لیے کہ اُس زمانے کے رواج کے مطابق کسی کی ملکیت میں آجانا ہی اُن کے پہلے نکاح کو آپ سے آپ کالعدم قرار دے دیتا تھا ۔ ’اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ‘ کے استثنا سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے بھی اِسے باقی رکھا تاکہ اِس طرح کی عورتیں اگر چاہیں تو بغیر کسی رکاوٹ کے مسلمان معاشرے کا حصہ بن سکیں۔“  (میزان ۴۱۳)

سورۂ نساء  کی آیت میں  ان خواتین کی فہرست  دی گئی ہے جن کے ساتھ نکاح کرنا مسلمانوں کے لیے حرام ہے۔ اسی ضمن میں ایک   حرمت  پہلے سے شادی شدہ خواتین  کی بیان کی گئی ہے اور اس کے ساتھ  اس میں ایک استثنا بھی   ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے:

وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ.
’’اور وہ عورتیں جو کسی کے نکاح میں ہوں، سواے ان کے  جو تمھاری ملکیت میں آ جائیں۔‘‘

جمہور اہل علم  کی تفسیر  کے مطابق  یہاں ’اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ‘ سے مراد  جنگ میں  قیدی بننے والی  خواتین ہیں جو پہلے سے شادی شدہ ہوں۔  قرآن مجید نے   ان کے،  مسلمانوں کی قید میں آنے کو ان کے سابقہ نکاح   کے کالعدم ہو جانے کا موجب قرار دیا ہے اور اجازت دی ہے کہ قید میں آنے کے بعد جب انھیں بطور ملک یمین  مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے تو   ان کے مالک،    استبراء رحم کے بعد ان کے ساتھ جنسی  تعلق قائم کر سکتے ہیں۔

مصنف  نے ایسی خواتین  کی حلت کی صورت یہ بیان کی ہے کہ  وہ   آزاد ی حاصل کرنے کے بعد  اگر   کسی مسلمان کے ساتھ نکاح کرنا چاہیں تو   کر سکتی ہیں اور ان کا پہلے سے شادی شدہ ہونا اس میں مانع نہیں ہوگا، کیونکہ قیدی بننے  کے نتیجے میں ان کا سابقہ رشتۂ نکاح ختم ہو چکا ہے۔ یہ تفسیر جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کے جواز یا عدم جواز سے متعلق مصنف کی خاص راے پر مبنی ہے جس کی توضیح  اپنے مقام پر کی جائے گی۔   اس راے کے مطابق، سورۂ محمد (۴۷) کی آیت ۴ کی میں مسلمانوں کو پابند کر دیا گیا تھا کہ وہ جنگی قیدیوں کو  بلا معاوضہ یا فدیہ لے کر آزاد کر دیں، یعنی کسی قیدی کو   غلام بنا کر رکھنے کا اختیار   ان کے لیے ختم کر دیا گیا۔ یوں مصنف اور جمہور اہل علم  کی تفسیر  میں  اس حد تک تو اتفاق ہے کہ جنگ میں  قیدی بننے والی  خواتین کے سابقہ نکاح   کو قرآن نے کالعدم قرار دیا ہے، تاہم  جمہور ان سے بطور ملک یمین  استمتاع کو جائز قرار  دیتے ہیں، جب کہ مصنف کے نقطۂ نظر سے   اس ہدایت کا مقصد   ایسی خواتین کے لیے مسلمانوں کے ساتھ نکاح کا راستہ کھولنا ہے تاکہ وہ اپنی قوم کی طرف واپس جانے کے بجاے مسلمان معاشرے  ہی کا حصہ بن سکیں۔

حرمت رضاعت  کی  توسیع

’’... الفاظ و قرائن کی دلالت اورحکم کے عقلی تقاضے جس مفہوم کو آپ سے آپ واضح کر رہے ہوں ، اُسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا تا۔ … رضاعی ماں کے ساتھ رضاعی بہن کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے ۔ بات اگر رضاعی ماں ہی پر ختم ہو جاتی تو اِس میں بے شک ، کسی اضافے کی گنجایش نہ تھی ، لیکن رضاعت کا تعلق اگر ساتھ دودھ پینے والی کو بہن بنا دیتا ہے تو عقل تقاضا کرتی ہے کہ رضاعی ماں کے دوسرے رشتوں کو بھی یہ حرمت لازماً حاصل ہو ۔ دودھ پینے میں شراکت کسی عورت کو بہن بنا سکتی ہے تو رضاعی ماں کی بہن کو خالہ ،اُ س کے شوہر کو باپ ، شوہر کی بہن کو پھوپھی اور اُس کی پوتی اور نواسی کو بھتیجی اور بھانجی کیوں نہیں بنا سکتی ؟ لہٰذا یہ سب رشتے بھی یقیناً حرام ہیں ۔ یہ قرآن کا منشا ہے اور ’اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ‘ کے الفاظ اِس پر اِس طرح دلالت کرتے ہیں کہ قرآن پر تدبر کرنے والے کسی صاحب علم سے اُس کا یہ منشا کسی طرح مخفی نہیں رہ سکتا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنا پر فرمایا ہے: ... ہر وہ رشتہ جو ولادت کے تعلق سے حرام ہے ، رضاعت سے بھی حرام ہو جاتا ہے۔‘‘   (میزان ۴۱۶)

اس اقتباس میں مصنف نے   حرمت رضاعت سے متعلق  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معروف حدیث  کا  ماخذ قرآن مجید  میں واضح کیا ہے۔  مصنف نے جو علت بیان کی ہے، جمہور  فقہا بھی  حرمت رضاعت کی توسیع کو اسی پر مبنی قرار دیتے ہیں۔  امام شافعی لکھتے ہیں کہ یہاں ان دو رشتوں کا ذکر کرنے سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ رضاعت کے تعلق سے صرف ان دو رشتوں کی حرمت ثابت ہوتی ہے، کیونکہ نسب کے مقابلے میں رضاعت، حرمت کا سبب ضعیف ہے، چنانچہ جیسے نسبی رشتوں میں سے صرف وہی حرام ہیں جو آیت میں مذکور ہیں، اسی طرح رضاعی رشتوں میں سے صرف ماں اور بہن کو ہی حرام ہونا چاہیے۔ دوسرا احتمال یہ ہو سکتا ہے کہ رضاعی بہن کو رضاعی ماں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے محرمات میں شامل کر کے اس طرف اشارہ مقصود ہو کہ ماں کے ساتھ رضاعی رشتہ اس تک محدود نہیں، بلکہ متعدی ہے۔ اس صورت میں رضاعی ماں کے رشتے سے وہ تمام خواتین بھی حرام قرار پائیں گی جو نسبی رشتے سے ہوتی ہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے واضح ہوتا ہے کہ یہ دوسرا احتمال اللہ تعالیٰ کی مراد ہے۔ آپ نے فرمایا کہ رضاعت کے تعلق سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسبی رشتے سے حرام ہیں (الام ۶/ ۶۳، ۶۸، ۳۳۸،  ۳۸۷)۔

البتہ اس نکتے کے حوالے سے مصنف کا رجحان، جمہور اہل علم سے مختلف دکھائی دیتا ہے کہ  کیا قرآن مجید کا اسلوب بیان اس حکم کے متعدی ہونے کا ظاہری احتمال رکھتا ہے یا  اس  پر بہت واضح طور پر دلالت کرتا ہے؟  جمہور فقہا اس کو محض احتمال کے درجے  میں  رکھتے ہیں۔ چنانچہ حنفی فقہا کا کہنا ہے کہ  قرآن مجید کا ظاہری مفہوم تو  یہی ہے کہ  حرمت رضاعت صرف ماں اور بہن میں محصور ہے، لیکن اس ظاہری مفہوم کا مراد نہ ہونا مشہور و مستفیض روایت  سے ثابت ہے اور اس کی روشنی میں ماں اور بہن کے علاوہ دیگر رضاعی رشتوں کی حرمت پر بھی فقہاکا اتفاق ہے (جصاص، احکام القرآن ۲/ ۶۲۱)۔ امام شاطبی  اس تبیین کی  علمی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے  لکھتے ہیں کہ قیاس کی رو سے یہ رشتہ رضاعی ماں کے باقی متعلقین سے بھی قائم ہو سکتا ہے، تاہم عام مجتہدین اس کو توسیع دینے میں اس پہلو سے تردد محسوس کر سکتے ہیں کہ ہو سکتا ہے، یہ ایک تعبدی حکم ہو اور اسے صرف ماں اور بہن تک محدود رکھنا شارع کی منشا ہو۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ رضاعت کے رشتے سے نکاح کی حرمت نہ صرف رضاعی والدہ کے دیگر متعلقین تک متعدی ہوگی، بلکہ رضاعی والدہ کا شوہر بھی اس تعلق سے باپ کا درجہ حاصل کر لے گا (الموافقات ۴/ ۳۶)۔ قاضی ابوبکر ابن العربی   نے رضاعی ماں  کے ساتھ رضاعی بہن کو حرمت کے دائرے میں شمار کرنے کو  اس بات کے قرینے کے طور پر پیش کیا  ہے کہ  رضاعت سے ثابت ہونے والی حرمت ماں تک محدود نہیں، بلکہ اس کے واسطے سے دوسرے رشتوں تک بھی متعدی ہوتی ہے (احکام القرآن  ۱/ ۴۷۹)۔  تاہم ابن العربی بھی قرآن مجید کی اس دلالت کے  فی نفسہٖ واضح ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے ۔  

یوں مصنف  کا  نقطۂ نظر اس پہلو سے تو جمہور سے ہم آہنگ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد قرآن کے حکم میں کوئی زیادت یا تبدیلی نہیں کرتا، بلکہ اسی علت کی بنیاد پر حکم کی توسیع کرتا ہے جو قرآن کے بیان کردہ رشتوں میں پائی جاتی ہے، تاہم مصنف  کے رجحان اور جمہور اہل علم کے نقطۂ نظر میں یہ لطیف فرق پایا جاتا ہے کہ مصنف کے نزدیک  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے کسی محتمل   حکم کی وضاحت نہیں  کی، بلکہ ایک     ایسے مضمر  کو کھول  دیا ہے جس  کی طرف  قرآن خود   متوجہ کر رہا ہے اور غور کرنے والے اگر غور کرتے تو   اسی  نتیجے تک پہنچتے جو حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔

رضاعت کی مقدار

’’ یہ تعلق مجرد کسی اتفاقی واقعے سے قائم نہیں ہو جاتا ۔ قرآن نے یہاں جن لفظوں میں اِسے بیان کیا ہے ، اِس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ یہ اتفاقی طور پر نہیں ، بلکہ اہتمام کے ساتھ، ایک مقصد کی حیثیت سے عمل میں آیا ہو، تب اِس کا اعتبار ہے۔  ... قرآن کا یہ منشا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مختلف مواقع پر واضح فرمایا ہے۔“ (میزان ۴۱۵)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کی حرمتوں کے بیان میں بچے کو دودھ پلانے والی عورتوں کا ذکر ’وَاُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِيْ٘ اَرْضَعْنَكُمْ‘ (النساء ۴: ۲۳) کے الفاظ سے کیا ہے۔ یہاں بظاہر کسی تفصیل کے بغیر بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو اس پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ تاہم احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روایت کیا گیا ہے کہ ایک یا دو مرتبہ (عورت کا پستان) چوسنے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی ( صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب فی المصۃ والمصتان، رقم ۱۴۵۰)۔ بعض دیگر روایات میں   کہا گیا ہے کہ اگر بچے نے پیٹ بھر کر دودھ پیا ہو جس سے اس کی انتڑیاں  کھل جائیں اور   اس کے گوشت اور ہڈیوں کی  نشوونما  ہو،  تب حرمت ثابت ہوگی ورنہ نہیں (جامع الترمذی، کتاب الرضاع، باب  ما جاء ان الرضاعۃ  لا تحرم الا فی الصغر دون الحولین، رقم ۱۱۵۲۔ سنن ابی داؤد،  کتاب النکاح، باب فی رضاعۃ الکبیر، رقم  ۲۰۶۰)۔

بعض دیگر روایات میں  دودھ کی مقدار     کے علاوہ  متعدد دفعہ دودھ پینے کی قید بھی ذکر ہوئی ہے۔  چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں بتایا گیا ہے کہ  ابتدا میں قرآن مجید میں حرمت رضاعت کے لیے دس دفعہ دودھ پلائے جانے کی قید نازل کی گئی تھی، پھر بعد میں اسے منسوخ کر کے پانچ دفعہ دودھ پلائے جانے کو حرمت کی بنیاد قرار دیا گیا  ۔ اس روایت کے بعض  طرق میں  یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ’فتوفی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وھي في ما یقرأ من القرآن‘، ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں پڑھے جاتے تھے‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب التحریم بخمس رضعات، رقم ۱۴۵۲)۔  سالم مولی ٰ ابی حذیفہ کے واقعے میں بھی روایات  میں منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوحذیفہ کی بیوی سہلہ کو پانچ مرتبہ سالم کو دودھ پلانے کی ہدایت فرمائی (سنن ابی داؤد، کتاب النکاح، باب فی من حرم بہ، رقم ۲۰۶۱)۔

فقہا  میں اس حوالے سے دو نقطہ ہاے نظر پائے جاتے ہیں۔  جمہور محدثین اور شوافع مذکورہ احادیث کی روشنی میں قرآن کے ظاہری اطلاق کو مقید کرنے کے قائل ہیں۔ امام شافعی  اس کا استدلال واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رضاع کا اطلاق ایک چسکی لگانے سے لے کر کئی بار دودھ پینے تک اور دو سال کی مدت پوری کرنے، بلکہ اس کے بعد بھی دودھ پینے پر ہو سکتا ہے۔ اس لیے ان مختلف احتمالات میں سے کسی ایک کو متعین کرنے کے لیے مستقل دلیل کی ضرورت ہے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ مرتبہ دودھ پینے سے کسی عورت اور بچے کے مابین حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے (الام ۶/ ۷۲، ۷۷)۔

شاہ ولی اللہ   قرآن کے ظاہری اطلاق کی تقیید کو مصالح شرعیہ  کی روشنی میں  یوں واضح کرتے ہیں کہ شریعت میں عورت کا دودھ پینے کو اس پہلو سے حرمت کا موجب قرار دیا گیا ہے کہ اس عمل سے دودھ پلانے والی گویا بچے کی جسمانی نشوونما کا حصہ بن جاتی اور یوں اس کی حقیقی ماں کے مشابہ ہو جاتی ہے۔ اس پہلو سے رضاعت کی مقدار کی تحدید ضروری ہے، کیونکہ بالکل معمولی مقدار میں دودھ پینے میں مذکورہ پہلو نہیں پایا جاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اسی پہلو کی وضاحت کی گئی ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۵۱)۔

فقہاے احناف کے نزدیک کم یا زیادہ، کسی بھی مقدار میں بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے تو دونوں کے مابین حرمت رضاعت متحقق ہو جائے گی ۔ یہ نقطۂ نظر اکابر صحابہ وتابعین، مثلاً عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس، سیدنا علی اور عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے (المصنف لابن ابی شیبہ، کتاب النکاح، من قال یحرم قلیل  الرضاع وکثیرہ، رقم ۱۷۳۱۱  تا ۱۷۳۱۸ )۔ احناف کے نقطۂ نظر سے مذکورہ  احادیث  قرآن کے مطلق حکم کے خلاف ہیں،  چنانچہ جصاص لکھتے ہیں کہ آیت کے حکم میں، جو معمولی مقدار میں دودھ پینے پر بھی حرمت ثابت ہونے کا مقتضی ہے، اخبار آحاد کی بنیاد پر تخصیص کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ ایک محکم آیت ہے جس کا معنی اور مراد بالکل واضح ہے اور اہل علم کے اتفاق سے اس میں کوئی تخصیص بھی ثابت نہیں۔ سو قرآن کا جو حکم اس نوعیت کا ہو، اس کی تخصیص خبر واحد یا قیاس کے ذریعے سے نہیں کی جا سکتی (احکام القرآن ۲/ ۱۲۴)۔  سیدہ عائشہ کی روایت پر احناف کی تنقید یہ ہے کہ  اگر یہ بات درست ہو کہ کوئی آیت قرآن مجید کا حصہ ہے، لیکن موجودہ مصحف میں شامل نہیں تو کسی بھی حکم کے بارے میں یہ امکان ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ایسی آیت سے منسوخ ہو چکا ہے جو مصحف میں شامل نہیں۔ چنانچہ امام طحاوی نے اسی بنیاد پر  روایت کے اس ٹکڑے  کو منکر قرار دیا ہے  (مختصر اختلاف العلماء ۲/ ۳۱۶- ۳۱۷) ۔

اس روایت پر یہ اعتراض بھی وارد ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خود سیدہ عائشہ کا اپنا عمل   اس کے خلاف منقول ہے۔ چنانچہ ان کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ وہ  جن بچوں کے متعلق یہ پسند کرتی تھیں کہ وہ  (بالغ ہونے کے بعد  ) ان  کے پاس آیا جایا کریں،   ان کا رضاعی رشتہ اپنی قریبی خواتین کے ساتھ قائم کروا دیتی تھیں اور   جو بچے  دس دفعہ  متعلقہ خاتون کا دودھ پی لیتے،  سیدہ عائشہ ان سے حجاب نہیں کرتی تھیں (المصنف لابن ابی شیبہ، کتاب النکاح،  فی الرضاع، من قال  لا یحرمہ الرضعتان ولا الرضعۃ، رقم ۱۷۳۱۰)۔

مصنف   اس بحث میں قرآن کے ظاہری  اطلاق سے احناف کے مذکورہ استدلال کو درست نہیں سمجھتے اور اس ضمن میں انھوں نے مولانا امین احسن اصلاحی کی یہ راے  نقل کی ہے کہ ’’قرآن نے یہاں جن لفظوں میں اسے بیان کیا ہے، اس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ یہ اتفاقی طور پر نہیں، بلکہ اہتمام کے ساتھ ایک مقصد کی حیثیت سے عمل میں آیا ہو، تب اس کا اعتبار ہے۔ اول تو فرمایا ہے: ’’تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہے۔‘‘  پھر اس کے لیے ’رضاعت‘ کالفظ استعمال کیا ہے: ’وَاَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ‘۔ عربی زبان کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ’اِرْضَاع‘ باب افعال سے ہے جس میں فی الجملہ مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ’رضاعت‘ کا لفظ بھی اس بات سے ابا کرتا ہے کہ اگر کوئی عورت کسی روتے بچے کو بہلانے کے لیے اپنی چھاتی اس کے منہ میں لگا دے تو یہ رضاعت کہلائے ‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۲۷۵)۔

اس استدلال کی روشنی میں مصنف ان احادیث کو قرآن ہی کے منشا کا بیان قرار دیتے ہیں جن میں اتفاقاً ایک دو گھونٹ پی لینے کو حرمت کا موجب رضاعت کا موجب تسلیم نہیں کیا گیا۔  البتہ مصنف ، جمہور فقہا کے اس نقطۂ نظر سے بھی اتفاق نہیں رکھتے  کہ  حرمت رضاعت کے ثبوت کے لیے  شرعاً پانچ یا دس دفعہ  دودھ پلانے کی   حد مقرر کی گئی ہے۔    مصنف کے نزدیک اس میں اصل چیز  اہتمام ہے،  یعنی یہ کہ  والدین نے باقاعدہ  اس کا فیصلہ کر کے  دودھ پلانے کے لیے کسی عورت   کی خدمات حاصل کی ہوں۔  اہتمام کے بغیر اتفاقا    ً دو چار دفعہ دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی۔

رضاعت کی عمر

’’ یہاں کسی شخص کو ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے منہ بولے بیٹے سالم کی بڑی عمر میں رضاعت سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے ۔ زیادہ سے زیادہ جو بات اِس واقعے سے معلوم ہوتی ہے ، وہ یہ ہے کہ منہ بولے بیٹوں کے بارے میں قرآن کا حکم آ جانے کے بعد جو صورت حال ایک گھرانے کے لیے پیدا ہو گئی ، اُس سے نکلنے کا ایک طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں بتایا ہے ۔ اِسے کسی مستقل حکم کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔...لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ رضاعت کے لیے دودھ کی عمر اور دودھ پلانے کا اہتمام ، دونوں ضروری ہیں۔ (میزان  ۴۱۵)

مختلف احادیث میں بیان ہوا ہے کہ  حرمت رضاعت اسی صورت میں ثابت ہوگی جب بچے نے دودھ پینے کی عمر میں  کسی عورت کا دودھ پیا ہو۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ دودھ چھڑوا دینے کے بعد، یعنی مدت رضاعت گزر جانے کے بعد بچے کو دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ تاہم  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ جب قرآن مجید میں وہ آیات نازل ہوئیں جن میں قرار دیا گیا ہے کہ منہ بولے بیٹے کسی آدمی کے حقیقی بیٹے نہیں بن سکتے تو حضرت حذیفہ کی اہلیہ، سہلہ بنت سہیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور کہا کہ یا رسول اللہ، ہم تو سالم کو اپنا بیٹا ہی سمجھتے تھے اور اسی حیثیت سے ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ ہی رہتا ہے تو اب آپ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ تم اپنا دودھ سالم کو پلا دو تو  تمھارے اور اس کے مابین حرمت قائم ہو جائے گی اور ابو حذیفہ کے دل میں جو کھٹک ہے، وہ دور ہو جائے گی۔ چنانچہ انھوں  نے ایسا ہی کیا اور اس سے ابو حذیفہ کی کھٹک دور ہو گئی  (صحیح مسلم،  کتاب الرضاع، باب رضاعۃ الکبیر، رقم ۱۴۵۳)۔

اس  واقعے کی روشنی میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس روایت کی بنا پر اس کی قائل تھیں کہ بالغ لڑکے کو بھی اگر کوئی عورت دودھ پلا دے تو اس سے ان کے مابین حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی، چنانچہ وہ اپنی بھانجیوں او ربھتیجیوں سے کہتی تھیں کہ وہ جن افراد کا اپنے گھر میں آنا جانا پسند کرتی ہیں، وہ ان کو پانچ مرتبہ دودھ پلا دیں، چاہے وہ عمر میں بالغ ہوں اور پھر انھیں اپنے پاس آنے کی اجازت دے دیتی تھیں، جب کہ سیدہ ام سلمہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری ازواج مطہرات بلوغت کے بعد دودھ پلائے جانے کی بنیاد پر کسی کو اپنا محرم تسلیم کر کے اپنے پاس آنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں، جب تک کہ کسی نے بچپن میں کسی عورت کا دودھ نہ پیا ہو۔ وہ سیدہ عائشہ سے کہتی تھیں کہ ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رخصت صرف سالم کے لیے دی ہو اور باقی لوگوں کے لیے ثابت نہ ہو (صحیح مسلم،  کتاب الرضاع، باب رضاعۃ الکبیر، رقم ۱۴۵۳۔ سنن ابی داؤد، کتاب النکاح، باب فی من حرم بہ، رقم ۲۰۶۱) ۔

گویا باقی امہات المومنین نے مذکورہ رخصت کو شریعت کے عمومی حکم کے طور پر قبول کرنے کے بجاے اسے سالم کے لیے ایک خصوصی رخصت قرار دیا اور کہا کہ اسے عام شرعی ضابطے کی حیثیت نہیں، جب کہ سیدہ عائشہ اس رخصت  کی تعمیم کی قائل تھیں۔   جمہور فقہا بھی  اس واقعے کو سالم کی خصوصیت پر محمول کرتے ہوئے رضاعت سے متعلق شریعت کا اصل حکم اسی کو قرار دیتے ہیں کہ وہ بچے کی دودھ پینے کی عمر میں، یعنی دو سال کے اندر پلایا گیا ہو، البتہ ابن حزم کا  نقطۂ نظر یہ ہے کہ مذکورہ احادیث نہیں، بلکہ سالم کا واقعہ ان احادیث کے لیے ناسخ ہے۔   ابن حزم کے نزدیک اس کا قرینہ یہ ہے کہ جو حکم  اباحت اصلیہ کو جتنا محدود کرتا ہے، وہ زمانی طور پر اتنا ہی متاخر  ہوتا ہے۔ اس اصول کی رو سے  رضاعت، کسی قسم کی حرمت کا موجب نہیں ہو سکتی، تاہم  شریعت نے اباحت اصلیہ کے اس حکم کو تبدیل کر کے رضاعت کو موجب حرمت قرار دیا اور رضاعت کی مدت دو سال مقرر کی۔  پھر سالم کے واقعے میں بلوغت کی عمر میں حرمت رضاعت کے اثبات سے  اباحت اصلیہ کے دائرے کو مزید محدود کر دیا گیا۔ یوں اباحت اصلیہ کو محدود سے محدود تر کرنے کے پہلو سے یہی حکم زمانی ترتیب کے لحاظ سے آخری حکم بنتا ہے (احکام الاحکام ۳/ ۱۳۳۔ ۴/ ۸۷- ۸۸۔ ۷/ ۱۱- ۱۲) ۔

امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ  سالم کے لیے تجویز کیا جانے والا طریقہ، شریعت کا عمومی حکم نہیں اور   عمومی طور پر  دودھ پینے کی  عمر میں ہی  رضاعت، شریعت کی نظر میں موجب حرمت بنتی ہے،   تاہم   ان کے نزدیک یہ رخصت صرف سالم کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ  رخصت اور تیسیر کے شرعی اصول پر مبنی ہے  جس کا مطلب یہ ہے کہ  اگر  کسی اور   گھرانے کو بھی اس طرح کی   خصوصی صورت حال کا سامنا  ہو  تو حرج اور مشقت سے بچنے کے لیے وہ بھی  بڑی عمر کے  لڑکوں یا لڑکیوں  کے ساتھ کسی خاتون  کا رضاعت کا رشتہ قائم کرنے کا طریقہ اختیار کر سکتے ہیں (ابن القیم، زاد المعاد  ۵/ ۵۹۳)۔

مصنف نے اس بحث میں جمہور کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے سالم کے واقعے کو ایک استثنائی واقعے پر محمول کیا ہے  جس میں ابو حذیفہ کے گھرانے میں پیدا ہو جانے والی ایک مخصوص صورت حال کا حل تجویز کرنا مقصود تھا ۔ البتہ مصنف کے کلام سے یہ واضح نہیں کہ وہ جمہور فقہا کی طرح اس استثنا کو صرف  سالم کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں یا   اسی نوعیت کے استثنائی  حالات میں    اس رخصت کی توسیع  کے قائل ہیں، جیسا کہ امام ابن  تیمیہ اور امام ابن القیم کا موقف ہے۔

___________

B