ترجمہ و تحقیق: محمد حسن الیاس
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ۱، قال: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أُمُورًا كُنَّا نَصْنَعُهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، كُنَّا نَأْتِي الْكُهَّانَ، قَالَ: ’’فَلَا تَأْتُوا الْكُهَّانَ‘‘، قَال: قُلْتُ: كُنَّا نَتَطَيَّرُ، قَالَ: ’’ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُهُ أَحَدُكُمْ فِي نَفْسِهِ، فَلَا يَصُدَّنَّكُمْ‘‘، قَالَ: قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ، قَالَ: ’’كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ‘‘.
معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، ہم جاہلیت کے زمانے میں بعض کام کیا کرتے تھے۔(اُنھی میں سے یہ بھی تھا کہ) ہم کاہنوں کے پاس جایاکرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لیکن اب کاہنوں کے پاس مت جایا کرو۔“ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ہم برا شگون بھی لیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: یہ ایک خیال ہی ہوتا ہے جو تم میں سے کسی کے دل میں گزرتا ہے، مگر تمھیں یہ کسی کام سے روکے نہیں۔میں نے عرض کیا: ہم میں سے کچھ لوگ خط بھی کھینچتےتھے۱۔اِس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک نبی بھی خط کھینچا کرتےتھے۔جس کا خط اُس کے موافق ہوجائے، وہ یہ خط کھینچ لے۲۔
__________
۱۔ یہ علم رمل کا ذکر ہے، جس میں لکیروں اور ہندسوں کے ذریعے سے غیب کی باتیں بتانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
۲۔ یہ زجر کا جملہ ہے اور زجر کے طریقے پراثبات سے انکار کا اسلوب قرآن و حدیث میں بعض دوسرے مقامات پر بھی دیکھ لیا جا سکتا ہے۔سورۂ حج (۲۲) کی آیت ۱۵ میں ’فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَي السَّمَآءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ‘ اِسی کی مثال ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی نبوت کے منصب پر فائز کر دیا گیا ہے تو یہ کر لے، اِس لیے کہ اِس طریقے سے غیب کی خبریں بتانے کا معجزہ ایک پیغمبر کو دیا گیا تھا اور معجزات پیغمبروں ہی کو دیے جاتے ہیں۔ کسی دوسرے کی طرف سے اِس طرح کے دعوے محض اوہام ہیں، جن سے دور ہی رہنا چاہیے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ یہ غالباً اُسی طرح کا معجزہ تھا، جیسے مسیح علیہ السلام نے اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’میں تمھیں بتا سکتا ہوں جو کچھ تم کھاکر آئے ہو اور جو کچھ اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو‘‘)آل عمران ۳: ۴۹)۔
۱۔اِس روایت کا متن صحیح مسلم،رقم ۴۱۴۰ سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں۔اُن سے یہ روایت درج ذیل کتابوں میں نقل ہوئی ہے:
موطا امام مالک،رقم۱۴۴۳،۱۳۳۷۔ الجامع فی الحدیث،ابن وہب،رقم۶۰۹۔ مسند طیالسی،رقم ۱۱۸۸، ۱۱۸۹۔مسند ابن ابی شیبہ،رقم۸۲۹،۸۲۸۔مصنف ابن ابی شیبہ،رقم۲۹۷۵۱،۷۸۴۳۔ مسنداحمد،رقم ۲۳۱۲۷، ۲۳۱۲۸، ۲۳۱۲۹،۲۳۱۳۰، ۲۳۱۳۳، ۲۳۱۳۴، ۲۳۱۳۵، ۲۳۱۳۷۔صحیح مسلم،رقم ۸۴۱۔سنن ابوداؤد، رقم ۷۹۶، ۷۹۷، ۲۸۵۹۔ صحیح ابن حبان،رقم ۲۲۸۸، ۲۲۹۳۔السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۵۵۶، ۱۱۲۶، ۱۱۲۷، ۷۴۴۹، ۸۲۶۸، ، ۱۰۹۴۸۔مستخرج ابوعوانہ، رقم ۱۳۵۵، ۱۳۵۷ ۔مشکل الآثار،طحاوی،رقم ۴۳۹۳، ۴۶۷۷، ۴۶۸۷۔صحیح ابن خزیمہ،رقم۸۳۰۔مستخرج ابو عوانہ، رقم ۱۳۵۴، ۱۳۵۶۔صحیح ابن حبان،رقم ۱۶۷، ۲۲۹۰، ۲۲۹۱،۲۲۹۵ ۔المسند المستخرج علیٰ صحیح مسلم،ابو نعیم،رقم ۱۰۳۶۔المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۶۳۳۲، ۱۶۳۳۳، ۱۶۳۳۹، ۱۶۳۴۱۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۸۳۹۱، ۱۸۳۹۲، ۱۴۰۷۵۔
عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي يَحْيَي بْنُ عُرْوَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ، يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ۱: سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنِ الْكُهَّانِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ ﷺ: ’’لَيْسُوا بِشَيْءٍ‘‘، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَانًا الشَّيْءَ يَكُونُ حَقًّا، قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: ’’تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْجِنِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّيُّ، فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَةِ، فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ كَذْبَةٍ‘‘.
زہری روایت کرتے ہیں کہ مجھے یحییٰ بن عروہ نے بتایا کہ اُنھوں نے عروہ سے سنا ،وہ کہتے تھے کہ سیدہ عائشہ کا بیان ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےکاہنوں کے بارے میں پوچھاتو آپ نے اُن سے کہا: ’’وہ کچھ نہیں ہیں ‘‘۔صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ، بعض اوقات وہ ایسی بات بھی تو کہہ دیتے ہیں جو سچی ثابت ہوتی ہے۔آپ نے وضاحت فرمائی: یہ ایک سچاکلمہ ہوتا ہے، جس کو جن اچک لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں ۱مرغ کی طرح قر قر کر کے ڈال دیتا ہے۔ اِس کے بعد یہ کاہن لوگ اُس میں سو سے زیادہ جھوٹ ملا دیتے ہیں۔
__________
۱۔ یعنی کسی کاہن کے کان میں، جن کے الہامات کا منبع بالعموم جنات ہی ہوتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وضاحت، اگر غور کیجیے تو اُن تمام الجھنوں کو صاف کر دیتی ہے جو صوفیوں اور یوگیوں کے ہاں اِس طرح کی کرامات دیکھ کر لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوتی ہیں۔
۱۔اِس روایت کا متن صحیح مسلم،رقم ۴۱۴۲ سے لیا گیا ہے۔اِس کی راوی عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔اُن سے یہ روایت درج ذیل کتابوں میں نقل ہوئی ہے:
جامع معمر بن راشد،رقم۹۵۸۔الجامع فی الحدیث،ابن وھب،رقم۶۷۲، ۶۷۳۔مسند احمد،رقم۲۴۰۱۱۔ صحیح بخاری،رقم۲۹۸۹، ۳۰۶۵، ۵۳۴۷، ۵۷۷۲۔صحیح مسلم، رقم ۴۱۴۱، ۴۱۴۲۔مشکل الآثار، طحاوی، رقم ۱۹۴۶۔صحیح ابن حبان،رقم۶۲۷۰۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم۶۲۸، ۹۰۳۴۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۵۱۷۷۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا ۱ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: ’’إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَنْزِلُ فِي الْعَنَانِ وَهُوَ السَّحَابُ فَتَذْكُرُ الْأَمْرَ قُضِيَ فِي السَّمَاءِ فَتَسْتَرِقُ الشَّيَاطِينُ السَّمْعَ، فَتَسْمَعُهُ فَتُوحِيهِ إِلَى الْكُهَّانِ فَيَكْذِبُونَ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ‘‘.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ ام المومنین سیدہ عائشہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ نے فرمایا: فرشتے عنان میں اترتے ہیں ،اور عنان ایک بادل ہے۱۔ پھر وہ اُن کاموں کا ذکر کرتے ہیں، جن کا فیصلہ آسمان میں ہوچکا ہوتا ہے۔ یہی موقع ہے، جب شیا طین اُدھر کان لگاتے اور اُسے سن لیتے ہیں۲۔ پھریہ شیاطین کاہنوں کو الہام کر دیتے اور وہ اپنی طرف سے اُس کے ساتھ ملا کر سو جھوٹ مزید بولتے ہیں۔
__________
۱۔ اِس طرح کے نام قرآن و حدیث میں اور بھی آتے ہیں۔ یہ، ظاہر ہے کہ امور متشابہات میں سے ہیں، جن کی حقیقت اللہ ہی جانتا ہے۔
۲۔یہ کس طرح ہوتا ہے؟اِس کی تفصیلات آگے روایتوں میں مذکور ہیں۔
۱۔اِس روایت کا متن صحیح بخاری،رقم ۲۹۸۹ سے لیا گیا ہے۔اِس کی راوی عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔اُن سے یہ روایت تنہا اِسی مصدر میں منقول ہے۔
عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ،۱ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: ’’مَنْ أَتَى عَرَّافًا لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً‘‘.
صفیہ بنت ابو عبید سے روایت ہے،وہ کہتی ہیں :میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ اُنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ نے فرمایا:جو شخص کسی نجومی کے پاس جائےکہ اُس سے کوئی سوال پوچھے، اُس کی چالیس شب و روز کی نمازیں قبول نہیں کی جاتیں۱۔
__________
۱۔ یعنی اِس گناہ کی سزا کے طور پر۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اوہام کی پیروی کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کیسا سخت ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) کی آیات ۲۲ - ۳۹ میں اِس کا ذکر اِسی بنا پر اُن دس احکام میں ہوا ہے جو اخلاق کے فضائل و رذائل میں اصل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۱۔اِس روایت کا متن المعجم الاوسط،طبرانی،رقم۹۴۰۵ سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ یہی مضمون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج سے بھی نقل ہوا ہے۔اُن سے اِس کے مصادر یہ ہیں:
صحیح مسلم،رقم۴۱۴۴۔مسند احمد،رقم۱۶۲۹۲، ۲۲۷۱۰۔السنن الکبریٰ،بیہقی،رقم۱۵۱۷۶۔
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ،۱ أَنَّهُ قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ صَلَاةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ: ’’هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ‘‘؟ قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: ’’أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ۲، وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي وَمُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ‘‘۳.
زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔اُسی رات بارش ہوئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم جانتے ہو کہ تمھارے پروردگار نے کیا کہا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: (اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) میرے بندوں میں سے کچھ نے میرے اوپرایمان کے ساتھ صبح کی ہے اور بعض نے کفر کی حالت میں۔ سوجس شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمت سے ہم پر بارش برسی ،وہ میرے اوپر ایمان لایا اور تاروں کا انکار کیا۔ اور جس نے کہا کہ فلاں تارے کی وجہ سے ہمارےاو پر بارش برسی، اُس نے میرے ساتھ کفر کیا اور وہ تاروں پر ایمان لایا۱۔
__________
۱۔ اِس طرح کے توہمات بالآخر شرک پر منتج ہو تے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنا پر اِن کے بارے میں یہ تنبیہات فرمائی ہیں۔
۱۔اِس روایت کا متن صحیح بخاری،رقم۸۰۴ سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی زید بن خالد رضی اللہ عنہ ہیں۔ اُن سے یہ روایت درج ذیل مصادر میں نقل ہوئی ہے:
جامع معمر بن راشد،رقم۱۶۱۴۔موطا امام مالک،رقم۴۴۷،۴۰۹۔مسند شافعی،رقم۳۳۳، ۴۲۶۔ مسندحمیدی،رقم۷۸۵۔مسند احمد،رقم۱۶۷۱۸، ۱۶۷۳۲۔صحیح بخاری، رقم ۸۰۴، ۹۸۵، ۳۸۵۷، ۶۹۷۲۔ الادب المفرد، بخاری، رقم ۹۰۱۔صحیح مسلم،رقم ۱۰۷۔سنن ابو داؤد، رقم ۴۳۰۹۔ مسند بزار، رقم ۳۲۱۰۔ السنن الکبریٰ،نسائی،رقم ۱۸۲۲، ۱۸۲۳، ۱۰۲۷۳، ۱۰۲۷۴۔السنن الصغریٰ،نسائی،رقم ۱۵۱۴۔مستخرج ابوعوانہ، رقم ۵۳، ۵۴۔صحیح ابن حبان،رقم ۶۲۶۶،۱۹۰۔المعجم الکبیر،طبرانی،رقم۵۰۶۰، ۵۰۶۱ ۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۲۷۸۴ ،۵۹۵۴۔
زید بن خالد رضی اللہ کے علاوہ یہی روایت ابو ہریرہ ،عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے۔اِن صحابہ سے اِس کے مصادر درج ذیل ہیں:
مسند احمد،رقم ۸۵۳۹، ۸۶۱۱، ۱۰۵۷۴۔ صحیح مسلم، رقم۱۰۸، ۱۱۰۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۱۸۲۴، ۱۰۲۷۲۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۱۵۱۳۔ مسند شاشی، رقم ۸۳۰۔ المسند المستخرج علیٰ صحیح مسلم، ابونعیم، رقم ۱۹۵، ۱۹۷۔السنن الکبریٰ،بیہقی،رقم۵۹۵۵ ، ۵۹۵۶ ۔
۲۔مستخرج ابو عوانہ،رقم ۵۴میں اِس جگہ ’كَفَرَ نِعْمَتِي‘ یعنی،’’ اُس نے میری نعمت کا انکار کیا‘‘ کا اضافہ نقل ہوا ہے۔
۳۔مستخرج ابو عوانہ ،رقم ۵۵ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ سورۂ واقعہ(۵۶) کی آیت ۷۵ ’فَلَا٘ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ ‘اِسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اِسی مضمون کی کچھ دوسری روایات بھی نقل ہوئی ہیں:مثلاً صحیح مسلم،رقم ۱۰۹ میں ہے:
عَنِ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: مَا أَنْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ بَرَكَةٍ، إِلَّا أَصْبَحَ فَرِيقٌ مِنَ النَّاسِ بِهَا كَافِرِينَ، يُنْزِلُ اللهُ الْغَيْثَ، فَيَقُولُونَ الْكَوْكَبُ كَذَا وَكَذَا.
’ ’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آسمان سے جو برکت بھی اتاری ہے،لوگوں میں سے ایک گروہ نے اُس کا انکارہی کیا ہے۔(دیکھتے نہیں ہو کہ) اللہ بارش برساتا ہے تو کہتے ہیں کہ فلاں فلاں ستارہ برسا ہے۔‘‘
سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ۱: إِنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ قَالَ: ’’إِذَا قَضَى اللهُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ، كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ، قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ، فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُ السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُ السَّمْعِ۲ هَكَذَا بَعْضُهُ فَوْقَ بَعْضٍ‘‘، وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِكَفِّهِ، فَحَرَفَهَا وَبَدَّدَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، ’’فَيَسْمَعُ الْكَلِمَةَ، فَيُلْقِيهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، ثُمَّ يُلْقِيهَا الْآخَرُ إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، حَتَّى يُلْقِيَهَا عَلَى لِسَانِ السَّاحِرِ أَوِ الْكَاهِنِ، فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ يُلْقِيَهَا، وَرُبَّمَا أَلْقَاهَا قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَهُ، فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَيُقَالُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ لَنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، كَذَا وَكَذَا، فَيُصَدَّقُ بِتِلْكَ الْكَلِمَةِ الَّتِي سَمِعَ مِنَ السَّمَاءِ‘‘.
عکرمہ کہتے ہیں، میں نے ابو ہریرہ سے سنا، وہ بیان کرتے ہیں كہ اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب آسمان پر کسی چیز کا فیصلہ کرتا ہےتو فرشتےاُس کی بات کے امتثال میں سراپا عاجزی ہو کر اپنے پر مارتے ہیں۔ یہ اُس طرح کی آواز ہوتی ہے، جس طرح چکنے پتھر پر کوئی زنجیر کھینچی جائے۱۔ پھر جب اُن کے دلوں کی گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں: تمھارے پروردگار نے ابھی کیا فرمایا ہے؟وہ جواب میں کہتے ہیں: اُس نے حق ہی فرمایا ہے اور وہ بلند مرتبہ ہے، بڑی شان والا ہے۔ پھر کوئی چھپ کر سننے والا اِس کو سن لیتا ہے اور یہ چھپ کر سننے والے اوپر نیچے ہوتے ہیں ــــــ سفیان نے اِس کی صورت اپنے ہاتھ سے اِس طرح سمجھائی کہ اُس کو جھکایا اور اُس کی انگلیاں پھیلا دیں ــــــ (فرمایا):وہ ایک اُس بات کو سنتا ہے اور سن کر نیچے والے کو القا کرتا ہے۔ پھر نیچے والا اُس سے نیچے والے کو، یہاں تک کہ وہ اُسے ساحر یا کاہن کی زبان پر القا کردیتا ہے۔ اِس میں بارہا یہ بھی ہوتا ہے کہ القا سے پہلے ہی شہاب ثاقب اُسے پالیتا ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ اُس کے پہنچنے سے پہلے وہ اُسے القا کر دیتا ہے۔پھر وہ کاہن اُس کے ساتھ سو جھوٹ خود بولتا ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ کیا فلاں فلاں دن اُس نےہمیں اِس اور اِس طرح کی بات نہیں کہی تھی۔اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو بات اُس نے آسمان سے سنی تھی، اُس کی وجہ سے اُس کی تصدیق ہو جاتی ہے۲۔
__________
۱۔ اِس طرح کی چیزیں جو قرآن و حدیث میں بیان ہوتی ہیں،اُن کے بارے میں قرآن کی ہدایت ہے کہ کوئی شخص اِن کی حقیقت کے درپے نہ ہو، بلکہ اتنے علم پر اکتفا کرے جو اللہ نے ازراہ عنایت دے دیا ہے ۔اِس لیے کہ اِس کا لازمی نتیجہ دلوں کا زیغ ہے، جس سے ہر بندۂ مومن کو اپنے پروردگار کی پناہ مانگنی چاہیے۔
۲۔ یہ اُسی مضمون کی تفصیل ہے جو روایت ۲ میں بالاجمال بیان ہوا ہے۔
۱۔اس روایت کا متن صحیح بخاری،رقم۴۴۵۱ سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔اُن سے یہ روایت اِن کتابوں میں نقل ہوئی ہے:مسند حمیدی،رقم۱۱۰۲۔صحیح بخاری، رقم ۴۳۵۷، ۴۴۵۱، ۶۹۵۱۔ سنن ترمذی،رقم۳۱۶۶۔سنن ابن ماجہ،رقم۱۹۰۔سنن ابوداؤد،رقم۳۴۷۷۔صحیح ابن حبان،رقم۳۶۔
۲۔سنن ترمذی میں اِس جگہ ’ وَمُسْتَرِقُ السَّمْعِ‘ کے بجاے ’الشَّيَاطِينُ‘ کے الفاط نقل ہوئے ہیں۔
أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ،۱ قال: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنَ الْأَنْصَارِ، أَنَّهُمْ بَيْنَمَا هُمْ جُلُوسٌ لَيْلَةً مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ رُمِيَ بِنَجْمٍ فَاسْتَنَارَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ ﷺ: ’’مَاذَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا رُمِيَ بِمِثْلِ هَذَا؟‘‘، قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، كُنَّا نَقُولُ: وُلِدَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ عَظِيمٌ وَمَاتَ رَجُلٌ عَظِيمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: ’’فَإِنَّهَا لَا يُرْمَى بِهَا لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنْ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى اسْمُهُ، إِذَا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ،۲ ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ أَهْلَ هَذِهِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا، ثُمَّ قَالَ الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ فَيُخْبِرُونَهُمْ مَاذَا قَالَ، قَالَ: فَيَسْتَخْبِرُ بَعْضُ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ بَعْضًا حَتَّى يَبْلُغَ الْخَبَرُ هَذِهِ السَّمَاءَ الدُّنْيَا، فَتَخْطَفُ الْجِنُّ السَّمْعَ فَيَقْذِفُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ وَيُرْمَوْنَ بِهِ، فَمَا جَاءُوا بِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ، وَلَكِنَّهُمْ يَقْرِفُونَ فِيهِ، وَيَزِيدُونَ۳ ‘‘.
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انصاری صحابہ میں سے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ ہم ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھےکہ ایک ستارہ ٹوٹا اور روشنی پھیل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو اُن سے کہا: زمانۂ جاہلیت میں جب اِس طرح تارے ٹوٹتے تھے تو تم کیا کہتے تھے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ہم تو یہی كہا كرتے تھےکہ آج رات کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا یا دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس پر فرمایا: پھر جان لو کہ ستارے نہ کسی کی موت پر ٹوٹتے ہیں، نہ زندگی پر، بلکہ ہمارا پروردگار، جس کا نام بڑا بلند اور بڑی برکت والا ہے،جب کسی معاملے کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے، جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اُس کی تسبیح کرتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے تسبیح کرتے ہیں، جو اُن کے قریبی آسمان پر ہیں،یہاں تک کہ تسبیح کی آواز ہمارے قریبی آسمان والوں تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر وہ فرشتے جو حاملین عرش سے قریب ہیں ، اُن سے پوچھتے ہیں کہ تمھارے پروردگار نے ابھی کیا فرمایا تھا؟ اِس کے جواب میں وہ اُنھیں اللہ کا فرمان سناتے ہیں ۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر اِسی طرح ایک آسمان والے دوسروں سے پوچھتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ بات ہمارے قریبی آسمان تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی وہ جگہ ہے، جہاں سے جنات بھی کوئی بات چھپ کر سن لیتے ہیں اور آگے اپنے دوستوں کو القا کر دیتے ہیں۔ یہ ستارے اُنھی کو مارےجاتے ہیں۱۔ پھر اُن کے یہ دوست جو بات اُسی طرح آگے پہنچاتے ہیں، وہ تو حق ہوتی ہے، لیکن وہ اُس میں جھوٹ سچ ملاتے اور بہت کچھ بڑھا دیتے ہیں۔‘‘
__________
۱۔ یہ وہی حقیقت ہے جو قرآن میں بھی متعدد جگہوں پر بیان ہوئی ہے۔
۱۔اِس روایت کا متن صحیح مسلم،رقم۴۱۴۳سے لیا گیا ہے ۔اِس کے راوی ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں۔اُن سے یہ روایت اِن مصادر میں نقل ہوئی ہے:سنن ترمذی،رقم۳۱۶۷۔مشکل الآثار،طحاوی،رقم۱۹۴۵۔صحیح ابن حبان،رقم۶۲۶۳۔دلائل النبوۃ،بیہقی،رقم۵۶۵۔
۲۔ سنن ترمذی،رقم ۳۱۶۷ میں یہی بات چند اضافوں کے ساتھ منقول ہے۔روایت کے الفاظ ہیں:
ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ إِلَى هَذِهِ السَّمَاءِ، ثُمَّ سَأَلَ أَهْلُ السَّمَاءِ السَّادِسَةِ أَهْلَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالَ: فَيُخْبِرُونَهُمْ، ثُمَّ يَسْتَخْبِرُ أَهْلُ كُلِّ سَمَاءٍ حَتَّى يَبْلُغَ الْخَبَرُ أَهْلَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا.
’’پھر اُن سے قریبی آسمان کے فرشتے تسبیح کرتے ہیں، پھر اُن سے قریبی، اِس طرح تسبیح کا یہ غلغلہ ہمارے اِس آسمان تک آ پہنچتا ہے۔اِس کے بعد چھٹے آسمان والے فرشتے ساتویں آسمان والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں: تمھارے رب نے کیا کہا ہے؟راوی کابیان ہے کہ اِس کے جواب میں وہ اُنھیں بتاتے ہیں۔ پھر اِسی طرح ہر نیچے آسمان والے اوپر کے آسمان والوں سے پوچھتے ہیں، یہاں تک کہ بات دنیا سے قریبی آسمان والوں تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘
۳۔صحیح بخاری میں قتادہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی اِس روایت کے ضمن میں تعلیق کے طور پر نقل ہوا ہے:
وعن قتادة قال:خلق الله تعالی هذه النجوم لثلاث: جعلها زينة للسماء ورجومًا للشياطين وعلامات يهتدی بها، فمن تأول فيها بغير ذالك أخطأ وأضاع نصيبه وتكلف ما لا يعلم .
’’قتادہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ستارے تین چیزوں کے پیش نظر بنائے ہیں:اُن کو آسمان کی زینت بنایا، شیطانوں کو مارنے کا ذريعہ بنايا اور لوگوں کے لیے نشانیاں بنا دیا ہے، جن کے ذریعے سےراستے تلاش کیے جاتے ہیں۔ جس نے اِن تین باتوں کے علاوہ کوئی بات بیان کی، اُس نے غلطی کی،خدا کے ہاں اپنا حصّہ ضائع کیا اور ایک ایسی چیز کے در پے ہونے کی کوشش کی ،جس کا اُس کو علم نہیں تھا۔‘‘
المصادر والمراجع
ابن حبان، أبو حاتم بن حبان. (۱۴۱۴ـ/۱۹۹۳م). صحیح ابن حبان. ط۲. تحقیق: شعیب الأرنؤوط. بیروت: مؤسسة الرسالة.
ابن حجر، علی بن حجر أبو الفضل العسقلاني. (۱۳۷۹هـ). فتح الباري شرح صحیح البخاري. (د.ط). تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار المعرفة.
ابن قانع. (۱۴۸۱هـ/۱۹۹۸م). المعجم الصحابة. ط۱. تحقیق:حمدي محمد. مکة المکرمة: نزار مصطفی الباز.
ابن ماجة، ابن ماجة القزویني. (د.ت). سنن ابن ماجة. ط۱. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار الفکر.
ابن منظور، محمد بن مکرم بن الأفریقي. (د.ت). sلسان العرب. ط۱. بیروت: دار صادر.
أبو نعیم ، (د.ت). معرفة الصحابة. ط۱. تحقیق: مسعد السعدني. بیروت: دارالکتاب العلمیة.
أحمد بن محمد بن حنبل الشیباني. (د.ت). iمسند أحمد بن حنبل . ط۱. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.
البخاري، محمد بن إسمٰعیل. (۱۴۰۷هـ/ ۱۹۸۷م). الجامع الصحیح. ط۳. تحقیق: مصطفی دیب البغا. بیروت: دار ابن کثیر.
بدر الدین العیني. عمدة القاري شرح صحیح البخاري. (د.ط). بیروت: دار إحیاء التراث العربي.
البیهقي، أحمد بن الحسین البیهقي. (۱۴۱۴هـ/۱۹۹4م). السنن الکبری. ط۱. تحقیق: محمد عبد القادر عطاء. مکة المکرمة: مکتبة دار الباز.
السیوطي، جلال الدین السیوطي. (۱۴۱۶هـ/ ۱۹۹۶م). الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج. ط ۱. تحقیق: أبو إسحٰق الحویني الأثري. السعودیة: دار ابن عفان للنشر والتوزیع.
الشاشي، الهیثم بن کلیب. (۱۴۱۰هـ). مسند الشاشي. ط۱. تحقیق: محفوظ الرحمٰن زین اللّٰه. المدینة المنورة: مکتبة العلوم والحکم.
محمد القضاعي الکلبي المزي. (۱۴۰۰هـ/۱۹۸۰م). تهذیب الکمال في أسماء الرجال. ط۱. تحقیق: بشار عواد معروف. بیروت: مؤسسة الرسالة.
مسلم، مسلم بن الحجاج. (د.ت). صحیح المسلم. ط۱. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.
النسائي، أحمد بن شعیب. (۱۴۰۶4ـ/۱۹۸۶م). fالسنن الصغری. ط۲. تحقیق: عبد الفتاح أبو غدة. حلب: مکتب المطبوعات الإسلامیة.
النسائي، أحمد بن شعیب. (۱۴۱۱هـ/۱۹۹۱م). Nالسنن الکبری. ط۱. تحقیق: عبد الغفار سلیمان البنداري، سید کسروي حسن. بیروت: دار الکتب العلمیة.
ـــــــــــــــــــــــــ