HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: القصص ۲۸: ۴۷-۶۱ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

وَلَوْلَا٘ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۣ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَا٘ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ٤٧ فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا لَوْلَا٘ اُوْتِيَ مِثْلَ مَا٘ اُوْتِيَ مُوْسٰيﵧ اَوَلَمْ يَكْفُرُوْا بِمَا٘ اُوْتِيَ مُوْسٰي مِنْ قَبْلُﵐ قَالُوْا سِحْرٰنِ تَظَاهَرَاﵴ وَقَالُوْ٘ا اِنَّا بِكُلٍّ كٰفِرُوْنَ ٤٨

ہم تمھیں نہ بھیجتے، اگر یہ بات نہ ہوتی کہ جو کچھ اِنھوں نے آگے بھیجا ہے، اُس کے سبب سے کوئی آفت اِن پر آئے تو یہ کہنے لگیں کہ ہمارے پروردگار، تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ایمان والوں میں سے ہوتے[189]؟ پھر جب ہماری طرف سے[190] حق اِن کے پاس آگیا تواِنھوں نے کہہ دیا کہ جو کچھ موسیٰ کو ملا تھا، وہی اِس پیغمبر کو کیوں نہیں دیا گیا[191]؟ اِس سے پہلے کیا یہ اُس کا انکار نہیں کر چکے جو موسیٰ کو دیا گیا تھا[192]؟ اِنھوں نے کہا کہ (تورات اور قرآن) ،دونوں جادو ہیں، ایک دوسرے کے موافق، اور کہا کہ ہم اِن میں سے کسی کو بھی نہیں مانتے[193]۔ ۴۷-  ۴۸

قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰي مِنْهُمَا٘ اَتَّبِعْهُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٤٩ فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا يَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْﵧ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَيْرِ هُدًي مِّنَ اللّٰهِﵧ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ٥٠

اِن سے کہو، پھر خدا کے ہاں سے کوئی اور کتاب لے آؤ جو اِن دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہو، میں اُس کی پیروی اختیار کر لوں گا، اگر تم سچے ہو[194]۔ اب اگر وہ تمھاری یہ بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ وہ صرف اپنی خواہشوں کے پیرو ہیں۔ اور اُن سے بڑھ کر کون گم راہ ہو گا جو خدا کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کے پیرو بنے ہوئے ہیں[195]۔ اِس طرح کے ظالم لوگوں کو اللہ ہرگز راہ نہ دکھائے گا[196]۔۴۹ - ۵۰

وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ٥١ﶠ اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ يُؤْمِنُوْنَ ٥٢ وَاِذَا يُتْلٰي عَلَيْهِمْ قَالُوْ٘ا اٰمَنَّا بِهٖ٘ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَا٘ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ ٥٣ اُولٰٓئِكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَيَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ ٥٤ وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَقَالُوْا لَنَا٘ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْﵟ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْﵟ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ ٥٥

ہم نے اپنی بات اِن لوگوں کے لیے برابر جاری رکھی ہے، اِس لیے کہ یہ یاددہانی حاصل کریں[197] ۔(پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ) جن کو ہم نے اِس سے پہلے کتاب دی تھی، وہ اِس قرآن کو مانتے ہیں اور جب یہ اُنھیں سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اِس پر ایمان لائے ہیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ یہ ہمارے پروردگار کی طرف سے حق آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم تو اِس کے اترنے سے پہلے ہی اِس کو مانے ہوئے تھے[198]۔یہی لوگ ہیں کہ اِن کی ثابت قدمی کے صلے میں اِنھیں اِن کا دہرا اجر دیا جائے گا[199]۔ یہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں[200] اور ہم نے جو رزق اِنھیں دے رکھا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں[201] اور جب بے ہودہ بات[202] سنتے ہیں تو اُس سے اعراض کر لیتے ہیں اور ایسے لوگوں کو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال، تم کو سلام ہو[203]، ہم جاہلوں سے الجھنا نہیں چاہتے[204]۔ ۵۱-  ۵۵

اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُﵐ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ ٥٦

(یہ اِس کے باوجود نہیں مانیں گے، اِس لیے زیادہ پریشان نہ ہو، اے پیغمبر)۔ تم جن کو چاہو، ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) ہدایت دیتا ہے اور وہی خوب جانتا ہے اُن کو جو ہدایت پانے والے ہیں[205]۔ ۵۶

وَقَالُوْ٘ا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰي مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَاﵧ اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْبٰ٘ي اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ٥٧

یہ (ظالم) کہتے ہیں کہ ہم اگرتمھارے ساتھ ہو کر اِس ہدایت کے پیرو بن جائیں تو ہم اپنی اِس سرزمین سے اچک لیے جائیں گے[206]۔ (اِس سے پہلے) کیا ہم نے اِن کو اِس امن والے حرم میں تمکن عطا نہیں فرمایا جس کی طرف ہر چیز کی پیداواریں خاص ہماری عنایت سے کھنچتی چلی آ رہی ہیں[207]؟ لیکن اِن میں سے اکثر اِس بات کو نہیں جانتے[208]۔ ۵۷

وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍۣ بَطِرَتْ مَعِيْشَتَهَاﵐ فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۣ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِيْلًاﵧ وَكُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِيْنَ ٥٨ وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰي حَتّٰي يَبْعَثَ فِيْ٘ اُمِّهَا رَسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَاﵐ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرٰ٘ي اِلَّا وَاَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ٥٩

(قریش کے لوگو)، کتنی بستیاں ہم نے ہلاک کر چھوڑی ہیں جو اپنی معیشت پر ناشکری کرکے اترا گئی تھیں[209]۔ سویہ اُنھی کے مسکن ہیں جن میں اُن کے بعد کوئی کم ہی بسا ہے[210] اور اُن کے وارث پھر ہم ہی ہوئے ہیں[211]۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا پروردگار اِن بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں تھا، جب تک اِن کے مرکز میں کسی رسول کو نہ بھیج لے جو ہماری آیتیں اِنھیں پڑھ کر سنا دے[212]۔ اِس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم بستیوں کو اُسی وقت ہلاک کرتے ہیں، جب اُن کے لوگ اپنے اوپر ظلم ڈھانے والے بن جاتے ہیں[213]۔ ۵۸-  ۵۹

وَمَا٘ اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَزِيْنَتُهَاﵐ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ وَّاَبْقٰيﵧ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ٦٠ اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ٦١

تمھیں جو چیز بھی دی گئی ہے، وہ دنیا کی زندگی کا سامان اور اُس کی زینت ہی ہے اور جو کچھ خداکے پاس ہے، وہ اِس سے بہتر بھی ہے اور پایدار بھی۔ پھر کیا سمجھتے نہیں ہو؟ بھلاوہ شخص کہ جس سے ہم نے اچھا وعدہ[214] کیا ہے اور وہ اُسے لازماً پا کر  رہے گا، اُس شخص کے برابر ہوجائے گا جسے ہم نے دنیا کی زندگی کا سامان دیا ہے، پھر قیامت کے دن وہ پکڑ بلایا جانے والا ہے؟ ۶۰ - ۶۱

[189]۔ آیت کے مخاطب قریش ہیں۔ چنانچہ مدعا یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے تو کسی رسول کی بعثت کے بغیر ہی اِن کا مواخذہ کر سکتے تھے، اِس لیے کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کی ذریت، اُن کی روایات کے امین اور زمین پر خدا کے اولین معبد کے متولی ہیں۔ لیکن ازراہ امتنان ہم نے فیصلہ کیا کہ اِن کی گرفت سے پہلے اِن پر ایک رسول کے ذریعے سے اتمام حجت کیا جائے۔ ہم نے آپ کو اِسی مقصد سے بھیجا ہے۔ لہٰذا یہ متنبہ ہوجائیں، اِن پر اب خدا کی حجت پوری ہو چکی ہے۔

[190]۔ یعنی زمین و آسمان کے پروردگار کی طرف سے جس کے فیصلے نافذ ہو کر رہتے ہیں۔

[191]۔ یعنی عصا، یدبیضا اور اِسی نوعیت کے دوسرے معجزات جو موسیٰ علیہ السلام کو دیے گئے۔

[192]۔ یعنی اُن کے معجزات اور اُن پر نازل ہونے والی تورات کا۔ آگے اِسی کی وضاحت فرمائی ہے۔

[193]۔ قرآن نے جگہ جگہ تورات اور اُس کی پیشین گوئیوں کو اپنی تائید میں پیش کیا ہے۔ قریش نے یہ بات اُسی کے جواب میں کہی ہو گی۔ مطلب یہ ہے کہ موسیٰ کا حوالہ دیتے ہو تو کیا موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی کتاب کو مانتے ہو؟ تم تو اِس سے پہلے تورات اور قرآن ، دونوں کے بارے میں کہہ چکے ہو کہ یہ محض زبان و بیان اور فکر و خیال کی ساحری ہے جو لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ اِس سے زیادہ اِن کتابوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔لہٰذا اِنھیں اگر ایک دوسرے کی تائید میں پیش کیا جاتا ہے تو ہم دونوں کو نہیں مانتے۔

[194]۔ ہدایت کے ہر سچے طالب کا موقف یہی ہونا چاہیے، جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو کھڑا ہونے کے لیے کہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں کسی تعصب کی بنا پر تورات اور قرآن کی پیروی نہیں کر رہا۔ مجھے تو ہدایت حاصل کرنی ہے، وہ جہاں سے بھی ملے۔ تم اگر اِن دونوں سے بھی زیادہ کوئی ہدایت بخش کتاب خدا کی طرف سے پیش کر سکتے ہو تو ضرور کرو، میں بلا تامل اُس کی پیروی قبول کرلوں گا۔

[195]۔ اِس لیے کہ اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ ہلاکت کے گڑھے میں جاگر یں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... نفس کی خواہشیں صرف اپنے مطالبے پورا کرنا چاہتی ہیں۔ اُن کے اندر حق و باطل اور خیر و شر میں امتیاز  کی صلاحیت نہیں ہے اور بسااوقات وہ اتنی زور آور ہو جاتی ہیں کہ بڑی آسانی سے انسان کی عقل کو بھی مغلوب کر لیتی ہیں۔ اِس وجہ سے انسان کے لیے فلاح کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اِن خواہشوں کی پیروی اللہ کی ہدایت کی روشنی میں کرے۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۶۸۸)

[196]۔ اِس لیے کہ ہدایت و ضلالت کے باب میں یہی سنت الٰہی ہے۔

[197]۔ یعنی قرآن میں برابر جاری رکھی ہے، جس کی سورتیں پے در پے اِسی مقصد سے نازل ہو رہی تھیں اور ایک ہی بات اتنے گونا گوں پہلوؤں اور متنوع دلائل کے ساتھ سمجھائی جا رہی تھی کہ کسی سلیم الفطرت انسان کے لیے اُس سے انحراف کی گنجایش باقی نہیں رہ سکتی تھی۔

[198]۔ یہ قرآن کے حق میں صالحین اہل کتاب کی گواہی پیش کی ہے کہ اپنی قوم کے مفسدین کے علی الرغم وہ قرآن کی تصدیق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اِس کے نزول سے پہلے ہی اپنے صحیفوں کی پیشین گوئیوں کی بنا پر منتظر تھے کہ یہ کتاب نازل ہو اور ہم اپنے آپ کو اِس کے حوالے کر دیں۔

[199]۔ یعنی ایک اجر اپنی قوم کے عام بگاڑ کے باوجود موسیٰ و مسیح علیہما السلام کی لائی ہوئی ہدایت پر ثابت قدمی کا اور دوسرا اجر اُس ہدایت کی تصدیق اور اُس کو قبول کرنے کا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے۔ اِن کے لیے ’بِمَا صَبَرُوْا‘ کی جو صفت آیت میں آئی ہے، اُس کا بھی ایک خاص محل ہے جو پیش نظر رہنا چاہیے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... اِن لوگوں کو اپنے سابق دین پر قائم رہنے کے لیے بھی بڑے زہرہ گداز مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا تھا اور جب اِنھوں نے اسلام قبول کیا تو اِن کو اپنی قوم اور قریش، دونوں کی مخالفت سے دوچار ہونا پڑا۔ لیکن اِن تمام مخالفتوں کا اِنھوں نے پوری پامردی سے مقابلہ کیا۔ نصاریٰ میں سے شمعون کے پیرووں نے اپنی قوم کے مبتدعین ومحرفین کے ہاتھوں جو مصائب جھیلے، اُن کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں.... موجود ہے... یہی اہل حق تھے جن کو قرآن کی دعوت قبول کرنے کی توفیق حاصل ہوئی اور قرآن نے متعدد سورتوں میں اِن کی حق دوستی و ثابت قدمی کی تعریف فرمائی ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۶۹۰)

[200]۔ یعنی مخالفین جب اِنھیں اپنے اعتراضات و مطاعن اور سب و شتم کا نشانہ بناتے ہیں تواُن کے مقابلے میں صبر و عزیمت اور عفو و درگذر سے کام لیتے ہیں۔

[201]۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اِنھیں زر پرستی اور حرص و طمع کی بیماری نہیں لگی ہوئی کہ قبول حق میں رکاوٹ بن جائے۔ یہ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ چنانچہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ اِنھیں یہ توفیق حاصل ہوئی کہ آگے بڑھ کر خدا کے پیغمبر کی تصدیق کریں اور اُس پر ایمان لائیں۔

[202]۔ بے ہودہ بات سے مراد یہاں وہی اعتراضات و مطاعن ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ آگے کا جملہ اِس کی وضاحت کر دیتا ہے۔

[203]۔ یہ سلام مفارقت کے مفہوم میں ہے۔ اگر کوئی شخص جہالت پر اتر آئے تو اُس سے پیچھا چھڑانے کا یہ ایک شایستہ طریقہ ہے۔

[204]۔ یہ اُن کا قول نہیں ہے، بلکہ اُن کے طرز عمل کی تعبیر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...وہ دل میں یہ خیال کر کے کہ جاہلوں سے الجھنے سے کچھ فائدہ نہیں، اُن کو سلام کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اِس طریقۂ تعبیر کی متعدد مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ بسااوقات آدمی کا طرز عمل ہی اُس کے قول کا قائم مقام بن جاتاہے۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۶۹۱)

[205]۔ یعنی ہدایت پانے کے اہل ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے یہ اُس سنت الٰہی کی طرف اشارہ کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہدایت و ضلالت کے باب میں مقرر کر رکھی ہے۔

[206]۔ قریش یہ بات اِس لیے کہتے تھے کہ سرزمین عرب میں جو اقتدار اُنھیں حاصل تھا، اُس کے بارے میں اُن کا گمان تھا کہ یہ اُنھیں تمام قبائل عرب کے اصنام بیت اللہ میں جمع کر دینے سے حاصل ہوا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ دیوی دیوتا اپنی برکات بھی رکھتے ہیں اور مذہب و سیاست میں امامت اورپیشوائی کے جس منصب پر وہ اِس وقت فائز ہیں اور جس طرح کی معاشی خوش حالی میں زندگی بسر کر رہے ہیں، وہ بھی اِنھی کی بدولت اُنھیں ملی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید کی دعوت تھی۔ چنانچہ اُنھیں اندیشہ ہوا کہ وہ اگر اِس دعوت کو قبول کر لیتے ہیں تو بت پرست قبائل کے ساتھ اُن کے تمام معاہدانہ تعلقات ختم ہو جائیں گے، اُن کی تجارت بند اور جمعیت پارہ پارہ ہو جائے گی اور تمام عرب اُن کے خلاف بھڑک اٹھے گا، بلکہ بعید نہیں کہ اِس کے نتیجے میں قبائل عرب اُنھیں اِس سرزمین ہی سے نکلنے پر مجبور کر دیں اور بیت اللہ کی تولیت خود سنبھال لیں جو اب اِن قبائل کے لیے بھی عرب کا سب سے بڑا تیرتھ بن چکا تھا۔ اُن کے کفر و انکار کو اِس پس منظر میں دیکھاجائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا ایک بڑا سبب اُن کا یہ اندیشہ بھی تھا۔

[207]۔ یہ اُن کے عذر کا جواب ہے کہ جسے اپنی تدبیر و سیاست کی کرشمہ سازی سمجھ رہے ہو، وہ اِسی حرم کا اعجاز ہے جس کی بدولت تم اِس سرزمین میں متمکن ہو۔ ڈھائی ہزار برس پہلے تمھارے باپ ابراہیم نے تمھیں اِس بے آب و گیاہ وادی میں لا کر آباد کیا تھا۔ اُس وقت سے اب تک جو امن و امان تمھیں یہاں میسر رہا ہے اور جس امامت و سیادت کے حامل بنے رہے ہو، وہ اِسی حرم کی وجہ سے ہے۔ پتھر اور گارے کے اِسی ایک حجرے کو خدا کے حکم سے حرم قرار دے کر ابراہیم نے تمھارے لیے رزق وامن کی دعا کی تھی جس کی برکت سے آج دیکھتے ہو کہ تمھارا یہ شہر عرب کا مرکز بنا ہوا ہے، عرب کا بچہ بچہ اِسے احترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور ہر سال ہزارہا انسان حج و عمرہ کے لیے اِس میں چلے آتے ہیں۔ چنانچہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر کے میوے، پھل اور قسم قسم کی پیداواریں یہاں کھنچی چلی آ رہی ہیں۔

[208]۔ یہ اُن کے حال پر اظہار افسوس ہے کہ اُن کی اکثریت اپنی تاریخ سے کس قدر بے خبر ہو چکی ہے اور جس ہستی نے یہ سب کچھ اُنھیں دیا ہے، آج اُسی کو بھول کر وہ یہ خیال کر رہے ہیں کہ اپنی زندگی اور خوش حالی کے لیے وہ شرک اور بت پرستی جیسی غلاظت ہی میں رہنے بسنے کے لیے مجبور ہیں۔

[209]۔ اصل الفاظ ہیں:’بَطِرَتْ مَعِيْشَتَهَا‘۔ اِن میں ’بَطِرَتْ‘’كفرت‘ کے مفہوم پر متضمن ہے۔ چنانچہ ’مَعِيْشَتَهَا ‘اِسی بنا پر منصوب ہو گیا ہے۔

[210]۔ یعنی کوئی بسنے والا نہیں بسا، الاّ یہ کہ گڈریوں، چرواہوں اور خانہ بدوشوں نے کبھی اپنے ڈیرے اِن میں ڈال لیے ہوں تو ڈال لیے ہوں۔ یہ اشارہ عاد و ثمود اور قوم لوط وغیرہ کی اجڑی ہوئی بستیوں کی طرف ہے، جہاں سے قریش کے تجارتی قافلے گزرتے رہتے تھے۔

[211]۔ اِس لیے کہ زمین و آسمان اور اُن کے درمیان کی سب چیزوں کے حقیقی مالک ہم ہی ہیں۔

[212]۔ مطلب یہ ہے کہ خبردار ہو جاؤ، سنت الٰہی کا یہ مرحلہ تمھارے لیے بھی پورا ہو گیا ہے اور خدا کا رسول اِسی مقصد سے شب و روز تمھیں انذار کر رہا ہے۔

[213]۔ ظلم ڈھانے سے مراد یہاں رسول کی تکذیب ہے، جب کہ اُس کی حقانیت واضح ہو چکی ہو۔ اِس میں بھی وہی تنبیہ ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے کہ یہی ظلم تم بھی اپنے اوپر ڈھا رہے ہو، اِس لیے ضد، ہٹ دھرمی اور عناد پر جمے رہو گے تو اُسی انجام کو پہنچو گے جس کو اِن سب بستیوں کے لوگ تم سے پہلے پہنچ چکے ہیں۔

[214]۔ یعنی آخرت کی ابدی بادشاہی کا وعدہ۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B