ابوسلمان سراج الاسلام حنیف
’’اشراق‘‘ جون ۲۰۰۰ میں ’’عرس، تصوف اور اسلام‘‘ کے عنوان سے محمد بلال صاحب کی ایک تحریر شائع ہوئی تھی۔ اس تحریر میں بلال صاحب نے مولانا عبد القدوس صاحب ہاشمی کی ایک تحقیق سے اقتباس نقل کیا تھا جس میں ضمناً ایک روایت بھی زیر بحث آئی تھی ۔
جناب ابو سلمان سراج الاسلام حنیف نے اس تنقید پر تنقید کی ہے۔ ہم اُن کے شکر گزار ہیں اور ان کا مکتوب ذیل میں شائع کر رہے ہیں۔ جو حضرات اس موضوع پر لکھنا چاہیں ’’اشراق‘‘ کے صفحات ان کے لیے حاضر ہیں۔ (ادارہ )
’’اشراق‘‘ جون ۲۰۰۰ کا مطالعہ کیا۔ ماشاء اللہ ردِ بدعات کے سلسلے میں تحقیق کا حق ادا کر دیا۔ ’’عرس‘‘ اور ’’آزر‘‘ کے متعلق لکھے گئے مضامین اچھے ہیں۔ ’’آزر‘‘ سے متعلق امام سیوطی کے اعتراضات کا جائزہ لیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ ردِ منکر کا فریضہ بہت اہم فریضہ ہے۔ ’’اشراق‘‘ کا اس سلسلے میں اٹھایا ہوا یہ قدم قابلِ تحسین ہے ۔
مجھے صفحہ ۳ پر درج ایک حدیث کے متعلق کچھ عرض کرنا ہے۔ عزت مآب جناب محمد بلال صاحب نے ’’مقالاتِ ہاشمی‘‘ کا ایک اقتباس من و عن نقل کیا ہے۔ میرے نزدیک مولانا عبدالقدوس صاحب ہاشمی ندوی کی وہ تحقیق جو حدیث ’نم کنومة العروس‘ سے متعلق ہے، محلِ نظر ہے۔
محترم محمد بلال صاحب نے مولانا ندوی کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے اُن کی پوری عبارت نقل کی ہے۔ لیکن میں اس ’’بلا تحقیق نقل‘‘ کو اشراقی اقدار کے منافی سمجھتا ہوں۔
مولانا ہاشمی صاحب حدیث ’نم کنومة العروس‘ سے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ:
۱۔ خود امام ترمذی بھی اس روایت کو صحیح نہیں بلکہ حسن و غریب بتاتے ہیں۔
۲۔ اس حدیث کی روات میں پہلے راوی جنھوں نے اس کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ان کا نام ہے: ’ سعید بن ابی سعید المقبری۔ ان سے متعلق ائمۂ جرح و تعدیل کا بیان ہے کہ آخر میں خبطی ہو گئے تھے۔ اس لیے ان کی روایتیں قابل قبول نہیں ہیں۔
۳۔ دوسرے راوی عبد الرحمٰن بن اسحاق سخت مجروح اور غیر معتبر ہیں۔
۴۔ اس روایت کے تیسرے راوی کو بھی ’’غیر محمود فی الحدیث‘‘ بتایا گیا ہے۔
۵۔ اس طرح ائمۂ حدیث نے اس روایت کو بہت ہی ضعیف قرار دیا ہے۔
حالانکہ:
۱۔ اگرچہ امام ترمذی نے اس روایت کے سلسلے میں اپنے شک کا اظہار کرتے ہوئے اسے حسن غریب فرمایا ہے لیکن محققین ان سے اس سلسلے میں اتفاق نہیں کرتے ۔ دورِ حاضر کے نامور محدث عمہ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں: اسنادہ جید۔ ’رجاله کلھم ثقات‘[1]۔
۲ ۔ مولانا ہاشمی صاحب کا یہ جملہ کہ ’’سعید بن ابی سعید کے متعلق ائمہ جرح و تعدیل کا بیان ہے کہ آخر میں خبطی ہو گئے تھے ۔ اس لیے ان کی روایتیں قابلِ قبول نہیں ہیں۔‘‘ میرے نزدیک ایک بہت بڑی جسارت اور غیر معقول ہے اس لیے کہ:
الف ۔ اگر ان کی سب روایتیں ناقابلِ قبول ہیں تو پھر یہ صحاح ستہ کے راوی کیوں ہیں اور اصحابِ صحاح نے ان سے روایتیں کیوں لیں ؟
ب ۔ خبطی راوی کے بارے میں یہ قاعدہ کسی محدث نے ذکر نہیں کیا ہے کہ اس کی روایتیں قابلِ قبول نہیں ہوتیں ۔ اس کے برعکس قاعدہ یہ ہے کہ ایسے راوی نے اختلاط سے پہلے جو روایتیں بیان کی ہیں وہ مقبول ہیں اور جو اختلاط کے بعد بیان کی ہیں وہ غیر مقبول ہیں اور جن کی قبلیت و بعدیت کا علم نہ ہو سکے وہ حصولِ علم پر موقوف رہیں گی: ’والحکم فیه ان ما حدث قبل اختلاط اذا تمیز قبل۔ واذا لم یتمیز توقف فیه، وکذا من اشتبه الامر فیه‘[2]۔
ج۔ اس کا بھی کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں کہ سعید بن ابی سعید خبطی ہو گئے تھے۔ البتہ امام شعبہ جب ان سے روایت لے کر بیان فرماتے ہیں تو یوں کہتے ہیں: ’حدثنا سعید بعد ما کبر‘[3]۔ اس میں نہ اختلاط کا ذکر ہے اور نہ خبطی ہونے کا، البتہ ان کے بڑھاپے کا ذکر ہے۔ حافظ ابنِ عدی فرماتے ہیں: ’وارجو ان سعیداً من اھل الصدق، وقد قبله الناس، وردی عنه الائمة والثقات من الناس، وما تکلم فیه احد الا بخیر‘[4]۔
واقدی کا بیان ہے کہ: سعید خبطی ہو گئے تھے: ’قال واقدی: کان قد کبر حتی اختلط قبل مرته باربع سنین‘[5]۔لیکن حافظ ذہبی فرماتے ہیں: ’ثقة، حجة، شاخ ووقع فی الھرم ولم یختلط‘[6]۔
۳۔ مولانا ہاشمی لکھتے ہیں: دوسرے راوی عبد الرحمان بن اسحاق سخت مجروح اور غیر معتبر ہیں ۔
مجھے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ بھی قطعاً بے بنیاد ہے، کیونکہ محدثین کے یہ ریمارکس عبد الرحمان بن اسحاق بن الحارث ابو شیبتہ الواسطی الکوفی ابن اخت النعمان بن سعد الانصاری کے بارے میں ہیں۔ ملاحظہ ہو امام مزّی کی تہذیب الکمال ۱۶: ۵۱۵- ۵۱۸ ترجمہ ۳۷۵۴، جب کہ زیرِبحث سند کے راوی عبدالرحمان بن اسحاق بن عبد اللہ بن الحارث بن کنانتہ القرشی المدنی ہیں، جو سعید کے شاگردِ رشید اور بشر بن مفضل کے استاذِ محترم ہیں اور حدیث کے معاملے میں ثقہ، مقبول اور صالح ہیں ۔ تفصیل کے لیے مطالعہ فرمائیں، تہذیب الکمال ۱۶: ۵۱۹- ۵۲۵ ترجمہ ۳۷۵۵۔
۴۔ مولانا محترم راوی کا نام لیے بغیر فرماتے ہیں: اس روایت کے تیسرے راوی کو بھی ’غیر محمود فی الحدیث‘ بتایا گیا ہے۔ مولانا صاحب اگر اس ’غیر محمود فی الحدیث‘ راوی کا نام لکھتے تو اچھا ہوتا لیکن ہم بتاتے ہیں کہ ان دو راویوں کے علاوہ اس روایت کے دو راوی اور ہیں جو یہ ہیں:
الف۔ بشر بن المفضل بن لاحق الرقاشی ابو اسماعیل جو امام ترمذی کے استاذ الاستاذ ہیں، ان کے متعلق حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں:’ثقه ثبت عابد‘[7]۔
ب۔یحییٰ بن خلف ابو سلمہ ، جو امام ترمذی کے استاذ ہیں ، انھیں بھی حافظ ابن حجر ’صدوق‘فرماتے ہیں [8]۔
ان دو راویوں کے علاوہ اسی سند میں کوئی راوی نہیں جسے مولانا ہاشمی ’’غیر محمود فی الحدیث‘‘ بتاتے ہیں یا مولانا ان دونوں ثقہ راویوں میں سے کسی ایک کے بارے میں یہ جرح فرماتے ہوں گے جو کسی طرح قرینِ انصاف نہیں ہے۔
۵۔ مولانا ہاشمی صاحب لکھتے ہیں: اسی طرح ائمۂ حدیث نے اس روایت کو بہت ہی ضعیف قرار دیا ہے۔
t یہ بھی صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے۔ اس لیے کہ مولانا نے کسی محدث کا نام اپنے اس دعویٰ پر پیش نہیں کیا ہے۔ یہ روایت صحیح ہے اور اسے ترمذی کے علاوہ درجِ ذیل محدثین نے بھی نقل کیا ہے:
ابن حبان : موارد الظمان : ۱۹۷حدیث ۷۸۰: الاحسان ۷: ۳۸۶ حدیث ۳۱۱۷۔
ابن ابی عاصم: السنتہ ۲: ۴۱۶ - ۴۱۷حدیث ۸۶۴۔
الآجری : الشریعۃ :۳۶۵۔
البغوی : شرح السنۃ ۵: ۴۱۶: المصابیح ۱ :۱۴۸ حدیث :۹۶۔
المنذری: الترغیب و الترہیب ۴ : ۳۷۱ حدیث ۱۸۔
آخر الذکر یہ بھی فرماتے ہیں کہ:’’العروس‘‘ یطلق علی الرجل وعلی المرأة ما داما فی اعراسھما. اللھم ارزقنا علماً نافعاً و عملاً متقبلاً. ربنا اغفرلنا ولا خواننا الدین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلاً للذین امنوا ربنا انك رؤف رحیم. اٰمین۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ ۳: ۳۸۰۔ حدیث ۱۳۹۱۔
[2]۔ شرح نخبتہ الفکر فی مصطلح اھل الاثر، حافظ ابن حجر، ص: ۱۰۴ - ۱۰۵ ۔ مکتبۃ الغزالی۔ دمشق۔
[3]۔ الکامل فی ضعفاء الرجال ۴: ۴۴۴۔
[4]۔ الکامل فی ضعفاء الرجال ۴: ۴۴۴: تہذیب التہذیب ۴: ۳۴ - ۳۵۔
[5]۔ تہذیب الکمال ۱۰: ۴۷۰۔
[6]۔ میزان الاعتدال ۲: ۱۳۹۔
[7]۔ تقریب التہذیب: ۴۵۔
[8]۔ تقریب التہذیب: ۳۷۵۔