HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

متفرق سوالات

جاوید احمد صاحب غامدی کے درسِ قرآن و حدیث کے بعد پوچھے گئے سوالات سے انتخاب


تزکیۂ نفس کا طریقہ

سوال: کیا کوئی ایسی ترکیب ہے جسے استعمال کر کے تزکیۂ نفس کی منزل کو حاصل کیا جا سکتا اور آفات اور شیطانی وسوسوں سے بچا جا سکتا ہے؟

جواب: میں نے ہمیشہ یہ عرض کیا ہے کہ اس معاملے میں ادھر اُدھر سے ترکیبیں پوچھنے کے بجائے  اس راستے پر گامزن رہنا چاہیے جو اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے اور جس پر صحابہء کرام چلے۔ اس راستے پر چلتے ہوئے نتائج ، بے شکجلدی نہیں نکلتے، مگر جب نکلتے ہیں تو بڑے محکم اور پائیدار ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ان تین باتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیجیے:

۱۔ قرآنِ مجید کی تلاوت کو روز مرہ کا معمول بنائیے۔

 تلاوت سے مراد بے سوچے سمجھے الفاظ کی تکرار کرنا نہیں ہے بلکہ ہدایت طلبی کے پورے شعور کے ساتھ مطالعہ کرنا ہے۔

۲۔مسجد کے ساتھ اپنے تعلق کو پوری طرح قائم رکھیے۔

۳۔ہفتے میں کچھ نہ کچھ وقت نیک لوگوں کی صحبت میں گزاریے۔

یہ تین نکات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ماخوذ ہیں۔ یہی سلوکِ محمدی ہے۔ آپ اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا سلوک یا طریقہ اختیار کریں گے تو اس کا شدید اندیشہ ہے کہ آپ آفات سے بچنے کے بجائے آفات کا شکار ہو جائیں۔اپنے نفس کو آلایشوں سے پا ک کرنے کے بجائے اسے آلودہ کر لیں ۔ اللہ کے قرب اور اس کی فرماں برداری کی منزل کو پانے کے بجائے مشرکانہ مشاغل اختیار کر کے اس منزل سے دور ہوتے چلے جائیں اوراپنی دانست میں تزکیۂ نفس کو حاصل کرنے کے باوجود حقیقت میں اس سے محروم رہیں۔


خضر علیہ السلام

سوال: حضرت خضر علیہ السلام کون تھے؟

جواب: اس بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے یہ ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے۔ اس رائے کا اظہار انھوں نے’’تدبرِ قرآن ‘‘ میں سورۂ کہف کی تفسیر میں کیا ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی رائے یہ ہے کہ وہ فرشتہ تھے ۔ اس معاملے میں،میں اپنے جلیل القدر استاد کی رائے کے بجائے مولانا مودودی صاحب کی رائے کو صحیح سمجھتا ہوں۔ وہ میرے نزدیک کارکنانِ قضا و قدر ہی میں سے تھے۔


  وتر کی قضا

سوال: نمازِ وتر اگر چھوٹ جائے تو کیا اس کی قضا پڑھی جائے گی؟

جواب:حنفی نمازِ وتر کو واجب قرار دیتے ہیں، اس لیے ان کے نزدیک وتر اگر چھوٹ جائیں تو ان کی قضا ہو گی۔

میرے نزدیک وتر اصل میں تہجد کی نماز ہے ۔ تہجد کی نماز نفل ہے ،اس لیے اس کی قضا نہیں ہوگی۔ بعض لوگوں کی کمزوری کے پیشِ نظر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد کی نماز کو اس کے اصل وقت سے پہلے پڑھنے کی اجازت دی، اس لیے عام لوگوں نے اسے عشا سے متصل کر کے پڑھنا شروع کر دیا۔ یہ نماز چونکہ وتر یعنی طاق ہوتی ہے ،اس لیے اس کو وتر کہا جانے لگا۔ بہرحال یہ ایک نفل نماز ہے اور نفل نماز کی قضا نہیں ہوتی۔


آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار

سوال: کیا آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا؟

جواب: یہ بات کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا، امورِ متشابہات میں سے ہے۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب بعض روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ سعادت نصیب ہوگی۔ لیکن یہ سعادت کیسے نصیب ہو گی اس کا ذکر روایات میں نہیں ملتا۔احادیث میں جو باتیں درج ہیں وہ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کو ایسے ہی دیکھو گے جیسے کھلے آسمان پر چاند کو دیکھتے ہو۔

اس موقع پر ہماری کیفیت کیا ہو گی ؟ ہماری آنکھیں اس نظارے کا کیسے تحمل کر سکیں گی؟ یہ سب باتیں امورِ متشابہات میں شامل ہیں ۔ ان کے بارے میں ہمیں اپنے اندازے لگانے کے بجائے اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔


شادی میں والدین کی رضا مندی

سوال: کیا شادی میں والدین کی رضا مندی ضروری ہے؟

جواب: قرآنِ مجید نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے کہ نکاح معاشرے کے معروف کے مطابق ہونا چاہیے۔ کسی صالح معاشرے کے اندر اس معاملے میں جو ضوابط ہیں،  جو روایات ہیں،جو رسوم و رواج ہیں، انھی کے مطابق اس ذمہ داری کو انجام پانا چاہیے۔ہمارے معاشرے میں اس ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے نہ صرف والدین سرگرم ہوتے ہیں ، بلکہ دیگر اعزہ اوراحباب بھی اس عمل میں شریک ہوتے ہیں۔اسی سے رشتوں میں حسن پیدا ہوتاہے، اسی سے اچھی معاشرت وجود میں آتی ہے اور یہی ہمارا معروف ہے۔

اگر کسی موقع پر والدین اپنے بچوں کی ترجیحات کو یکسر نظر انداز کردیں اور ناجائز طور پر اپنی مرضی ان پر مسلط کرنا چاہیں تواس معروف کی خلاف ورزی جائز ہو سکتی ہے،لیکن اس معاملے میں غلط یا صحیح کا تعین کسی معاملے کو سامنے رکھ کرہی کیا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی موقع پر والدین کا موقف درست ہو اور کسی موقع پر اولاد کی بات ٹھیک ہو ۔

صحیح بات یہ ہے کہ اس معاملے میں اولاد اور والدین دونوں ہی کو اعتدال کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ نہ والدین کو سختی اور جبر سے کام لینا چاہیے اور نہ اولاد کونافرمانی اور انحراف کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ باہمی موافقت اور محبت سے یہ معاملہ انجام پانا چاہیے۔


خود کشی میں رضاے الٰہی

سوال: کیا خود کشی کرنے والے کی تقدیر میں یہ بات پہلے سے لکھ دی جاتی ہے کہ وہ خود کشی کرے گا، اور کیا اس میں اللہ کی مرضی بھی شامل ہوتی ہے؟

جواب: خود کشی کے عمل میں اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل نہیں ہوتی ، بلکہ اس کا اذن شامل ہوتا ہے۔  اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آزمایش کے لیے انسانوں کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے برائی یا ظلم کا ارتکاب کر لیتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ اجازت نہ دیتے تو  آزمایش نا ممکن تھی۔ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے برائی اور بھلائی کا شعور دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص پر اس کی استطاعت سے زیادہ  بوجھ نہیں ڈالتے۔اس صورتِ حال میں جب کوئی شخص خود کشی کا اقدام کرتا ہے تو وہ درحقیقت اپنے عمل سے اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مجھے دنیا میں بھیجنے کا فیصلہ غلط تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک بڑا سنگین جرم ہے، اس میں خدا کی رضا کیسے شامل ہو سکتی ہے؟

ــــــــــــــــــــــــــــــ

B