HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

قسم اور کفارۂ قسم کے احکام

قرآن مجید کا حکیمانہ اسلوب  


سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْ٘ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَﵐ فَكَفَّارَتُهٗ٘ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِيْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِيْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍﵧ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍﵧ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَيْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْﵧ وَاحْفَظُوْ٘ا اَيْمَانَكُمْﵧ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ.(۵: ۸۹)
’’اللہ تعالیٰ لغو قسم (کے توڑنے) پر تم سے (کفارے کی صورت میں دنیوی) مواخذہ نہیں فرماتے ۔ لیکن ایسا مواخذہ تب کرتے ہیں کہ تم قسموں کو (آیندہ بات پر) مستحکم کرو (اور پھر توڑ دو) سو اس (قسم کے توڑنے) کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا، جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو، یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔   جو (ان تینوں میں سے ایک کی بھی) طاقت نہ رکھتا ہو (اس کے لیے کفارہ) تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھاؤ (اور توڑ دو)۔ اپنی قسموں کا خیال رکھا کرو۔  یوں ہی اللہ تعالیٰ تمھاری خاطر اپنے احکام کی وضاحت کرتے ہیں تاکہ تم ان کے شکر گزار رہو۔‘‘

اس آیت میں قسم کھا کر توڑنے کی صورت میں ادا کیے جانے والے کفارے کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔ بظاہر ایک فقہی مسئلے کا حل بتایا گیا ہے کہ اگر آدمی ایسی قسم کھا بیٹھے جو پوری نہ کر سکے تو اسے کیا کرنا ہو گا۔ لیکن اس فقرے کی تالیف میں ایسی     حکمتیں اور بلاغتیں  مخفی ہیں، جو قرآنِ حکیم کے طالب علموں سے اوجھل نہیں رہنی چاہییں ۔

اللغو کا مفہوم  

بعض لوگ اللہ قسم، تیری جان کی قسم یا ایسے ہی الفاظ کو تکیۂ کلام بنا لیتے ہیں۔ قسمیں بے اختیار ان کے ہونٹوں سے پھسلی پڑتی ہیں اور کچھ اپنی ہر قیاس آرائی کو قسم کھا کر معتبر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی عادت کو لغو کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی یہ ایک فضول اور غیرسنجیدہ طریقہ ہے۔ اہلِ ایمان کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ قرآنِ مجید میں شایستہ لوگوں کے جو اوصاف بیان ہوئے ہیں، ان میں یہ بات خاص طور پر فرمائی گئی ہے کہ وہ لغو چیزوں سے احتراز کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

من حسن اسلام المر ترکه ما لا یعینه.(مؤطا امام مالک، حسن الخلق   )
’’مسلمان کے اسلام کی خوبی یہی ہے کہ وہ بے فائدہ اور بے معنی باتیں کرنا چھوڑ دے۔‘‘

تادیب میں بھی شفقت 

لا یواخذکم‘کے الفاظ سے اللہ تعالیٰ نے تسلی دی ہے کہ فکر نہ کرو ہماری شفقت کا تقاضا ہے کہ ہم درگزر کریں، ایسی قسموں کے کھا کر پورا نہ کرنے پر کوئی دنیوی سزا مقرر نہ کریں اور اگر یہ قسمیں اوپری دل سے ہیں تو آخرت میں بھی باز پرس نہ کریں۔ ایک بات از خود سمجھ میں آ جاتی ہے کہ بار بار لغو قسم کھانا ، اسے  مستقل طریقہ بنا لینا بہرحال ایک ناشایستہ عمل ہے اور اس عادت کی وجہ سے قابلِ گرفت اعمال سرزد ہو سکتے ہیں۔

  موکد قسم کا حکم  

کسی فعل کو آیندہ کرنے یا نہ کرنے پر ارادۃ ً  قسم کھائی جائے تو اسے یمین منعقدہ کہتے ہیں۔ یہ عہد اور عقد کے درجے میں آ جاتی ہے۔ اسی کے بارے میں ’بما عقدتم الایمان‘کے الفاظ آئے ہیں۔ ایسی قسم توڑنا گناہ بھی ہے اور اس کے توڑنے پر وہ کفارہ بھی لازم ہو جائے گا جو آیت میں مذکور ہوا۔ عہد کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا.  (النحل ۱۶: ۹۱)
’’اور اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرو جب تم عہد کر چکو۔ اور قسموں کو موکد کرنے کے بعد انھیں مت توڑو ۔‘‘
وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِﵐ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔوْلًا. (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۴)
’’اور عہد کو پورا کرو کیونکہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہو گی ۔‘‘

جو عہد بندہ اللہ سے کرتا ہے اس کے عدم ایفا کا معصیت ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن بندے کا بندے سے کیا ہوا عہد بھی محترم ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں خدا کی گواہی شامل ہوتی ہے جیسا کہ ’وقد جعلتم اللہ علیکم کفیلا[1]’’درآنحالیکہ تم اللہ کو (اپنی قسمیں پختہ کرنے کے لیے) اپنے اوپر گواہ ٹھیرا چکے ہو‘‘ کے الفاظ سے واضح ہے۔ مومن کی تو زندگی ہی عہدِ الست سے شروع ہوتی ہے اور ایمان و اخلاص کا عہد اس کے آخری سانس تک برقرار رہتا ہے۔

  آیت کی بلاغت اور اسلوب کی حکمتیں  

دلچسپ بات ہے کہ قسم توڑنے کے احکام بیان کیے جا رہے ہیں لیکن توڑنے کے ہم معنی کوئی لفظ ذکر نہیں کیا گیا ۔’کفارته..‘’قسم کا کفارہ ‘ فرمایا ہے ’کفارة نقضه..‘ ’قسم کے توڑنے کا کفارہ ‘ نہیں کہا۔ اسی طرح ’ذلک کفارة ایمانکم اذا حلفتم‘یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھاؤ۔ میں بھی ’اذا حلفتم‘ کے بعد ’ونقضتم الحلف‘اور تم قسم توڑ دو۔ کے الفاظ مفہوم ہیں، مذکور نہیں۔ ہم نے ترجمہ کرتے وقت خطوط وحدانی کے ذریعے سے یہ مخدوفات کھول دیے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ قسم پورا کرنا اصل طریقہ ہے ۔ توڑنا ایک دوسرے درجے کا اور خلافِ اولیٰ عمل ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے صراحتہ ً اس کا ذکر کرنا بھی پسند نہیں فرمایا ۔

 کفارے کی ضرورت 

انسان بسا اوقات ایسی قسمیں کھا لیتا ہے جنھیں پورا کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا یا حالات کے بدل جانے سے ایفا ممکن نہیں رہتا یا کسی قسم کے پورا کرنے سے اللہ کا یا کسی بندے کا حق مارا جاتا ہے ۔ ان تمام صورتوں میں اس کے لیے قسم سے باہر نکلنے کی راہ ر کھی گئی ہے اور نقضِ عہد کی سزا کے طور پر کفارہ مقرر کر دیا گیا ہے جو اصل میں مالی تاوان ہے تاکہ ادائیگی کے وقت جرم کی سنگینی کا احساس ہو یا اس کے بدلے میں روزے رکھنے کا جو حکم ہوا جو بدنی مشقت کا احساس دلاتا ہے ۔

 ایفاے قسم کے بارے میں ترغیبِ ربانی  

بیانِ احکام کے بعد ’واحفظوا ایمانکم‘اپنی قسموں کا خیال رکھا کرو۔ فرمایا تاکہ یہ بات پختہ ہو جائے اور دل میں جاگزیں رہے کہ قسموں کو پورا کرنا ہی اہلِ ایمان کا شیوہ ہے۔ قسم کی حفاظت کا مفہوم ہے کہ آدمی بات بے بات قسم نہ کھائے۔ ایسی قسم نہ اٹھائے جس سے کسی دینی فریضہ میں خلل آتا ہو یا کسی کا حق تلف ہوتا ہو۔ جب وہ قسم کو موکد کر لے تو اسے ہرممکن صورت میں پورا کرے اور اگر کوئی بہتر صورت نظر آئے تو قسم کا کفارہ ادا کر کے عقدِ یمین سے باہر نکل آئے ۔

 قسم کے بارے میں نبیِ کریم کے احکام اور آپ کا تعامل 

اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قسم سے  متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و ارشادات کو بھی سامنے رکھ لیا جائے تاکہ اس حکمِ خداوندی کے عملی اطلاقات کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔

صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے ۔

من نذر ان یطیع اللہ فلیطعه و من نذر ان یعصیه فلا یعصه.(کتاب الایمان والنذور)
’’جس آدمی نے نذر مانی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لائے گا وہ حکم بجا لائے اور جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا وہ نافرمانی نہ کرے۔‘‘     

امام مسلم نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے:

لا وفاء لنذر فی معصیة ولا فیما لا یملک العبد.(کتاب النذور والایمان    )
’’معصیت کے کام کی اور بندے کی طاقت سے باہر کے کام کی نذر کو پورا کرنا واجب نہیں۔‘‘     

حضرات محدثین نے نذر اور یمین منعقدہ کے احکام کو ایک ساتھ بیان کیا ہے۔ کیونکہ دونوں اللہ سے عہد کے حکم میں ہوتے ہیں۔ دونوں کو توڑنا گناہ ہے اور دونوں کے پورا نہ کرنے کا کفارہ ایک ہی ہے۔ جیسا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کفارته کفارة یمین.(سنن ابی داؤد، کتاب الایمان والنذور)
’’نذر پوری نہ کرنے پر وہی کفارہ دینا ہو گا جو قسم کے توڑنے پر دیا جاتا ہے۔‘‘

قسم کے آداب میں شامل ہے کہ اللہ کے سوا کسی کے نام کی قسم نہ کھائی جائے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر کے دوران میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے باپ خطاب کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا:

الا ان اللہ منھا کم ان تحلفوا بابائکم ، من کان حالفاً فلیحلف باللہ او لیصمت.(صحیح بخاری، کتاب الایمان والنذور)
’’سن لو اللہ تعالیٰ تمھیں اپنے باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے جو قسم کھانا چاہتا ہے، وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔‘‘
ایسا بھی ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات حلف کے انداز میں کہی مگر حالات کے بدل جانے سے اس کے برعکس عمل فرمایا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
انی اتیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فی رھط من الاشعریین نستحمله فقال واللہ ما احملکم وما عندی ما احملکم علیه فلبثنا ما شآء اللہ فاتی رسول اللہ بنھب ابل فدعانا فامرلنا نجمس ذود غر الذری قال فلما انطلقنا قال بعضنا لبعض اغفلنا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یمینه لا یبارک لنا فرجعنا فقلنا یا رسول اللہ انا اتیناک نستحملک وانک حلفت الا تحملنا ثم حملتنا افنسیت یا رسول اللہ قال انی واللہ ان شاء اللہ لا احلفن علی یمین فاری غیرھا خیراً منھا الا اتیت الذی ھو خیر وتحللتھا فانطلقوا فانما حملکم اللہ عزوجل.(صحیح مسلم کتاب النذور والایمان   )
’’میں اشعر قبیلے کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہم غزوۂ تبوک کی تیاری کے لیے کچھ سواریاں مانگنے گئے تھے ۔ آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم میں تمھیں سواری نہ دے سکوں گا اور نہ ہی میرے پاس اونٹ ہیں جوتمھیں دے سکوں۔ ہم نے کچھ دیر انتظار کیا جو اللہ کی مشیت میں تھا۔ پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غنیمت میں آئے ہوئے کچھ اونٹ پہنچے۔آپ نے ہمیں بلایا اورپانچ سفید کوہانوں والی اونٹنیاں دینے کا حکم دیا۔ جب ہم واپس ہوئے تو ہم میں سے کسی نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی قسم بھلا دی ہے۔ ہماری سواریوں میں برکت نہ ہو گی۔ چنانچہ ہم پلٹے اور کہا: یا رسول اللہ، ہم آپ سے سواریاں مانگنے آئے تھے تو آپ نے قسم کھائی تھی کہ آپ ہمیں سواری نہ دیں گے اب آپ نے دے دی ہیں۔ کیا آپ سے نسیان ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: میں بخدا ، اگر اللہ نے چاہا کوئی قسم نہ کھاؤں گا مگر جب اس سے بہتر صورت دیکھ لوں گا تو اس بہتر ہی کو انجام دوں گا اور اپنی قسم کھول دوں گا۔ میں نے تمھیں سواریاں نہیں دیں یہ تو اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان پر بٹھا دیا ہے۔‘‘    

امت کو بھی آپ نے یہی نصیحت کی کہ بہتر اور بھلے کام کو کیا جائے اور قسم کو نیکی کے کام میں رکاوٹ نہ بننے دیا جائے ۔ آپ نے حضرت عبد الرحمان بن سمرہ رضی اللہ عنہ کو نصیحت کی:

اذا حلفت علی یمین فر ایت غیرھا خیراً منھا فکفر عن یمینک وائت الذی ھو خیر.(صحیح بخاری ۔ کتاب الایمان والنذور)
’’جب تم کسی کام کی قسم کھا بیٹھو۔ پھر کسی اور کام کو اس سے بہتر پاؤ تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کر کے بہتر کام انجام دو ۔‘‘   

ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں:

واللہ لا ان یلج احدکم بیمینه فی اھله آثم له عند اللہ من ان یعطی کفارته التی فرض اللہ.(بخاری کتاب الایمان والنذور    )
’’ اللہ کی قسم تم میں سے کوئی اپنی قسم خاص طور پر جو بیوی سے متعلق ہو، پورا کرنے پر بے جا اصرار کرے، اللہ کے ہاں زیادہ گناہ گار ہو گا۔ اس سے کم تر بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ کفارہ ادا کر کے قسم سے باہر نکل آئے۔‘‘

 خلاصۂ بحث

قرآنِ مجید میں جو احکام بیان ہوئے ہیں، سچے مسلمانوں کو چاہیے کہ ان پر اصل روح کے ساتھ عمل کرے۔ اسے قرآن کے ظاہر و باطن کو ماننا اور دونوں کو دل جمعی سے بجا لانا ہے۔ وہ دیکھے کہ قرآنِ حکیم کے الفاظ کا بظاہر کیا مفہوم ہے اور آیاتِ الٰہی کا نظم اور اسلوبِ کلام کس طرف اشارہ کر رہا ہے کس چیز پر زور (stress) دیا گیا ہے اور کسے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جو بات صراحتہ ً ذکر کی گئی ہے اور جو اشارۃ ً  بتائی گئی ہے، ان میں کیا فرق ہے اور دونوں میں سے کون سی زیادہ اہم ہے اور کس پر عمل مطلوب ہے۔ مومن کے شایاں نہیں کہ پیچھے رہ کر رخصت پر عمل کرے اور تہمت و الزام سے بچنا اپنا شعار بنا لے۔ اسے ایک قدم آگے بڑھ کرعمل اور عزیمت کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ اللہ ہی توفیق دینے والا اور لغزشوں سے محفوظ رکھنے والا ہے۔         

____________

[1]۔  النحل ۱۶: ۹۱۔

B