جاوید احمد غامدی / منظور الحسن
(روزنامہ’’نواے وقت‘‘ کے ’’ایوانِ وقت‘‘ میں جناب جاوید احمد غامدی کی گفتگو)
موجودہ زمانے میں لفظِ اجتہادکو ہمارے علمی حلقوں نے غلط مفہوم میں استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ میں نے بالعموم یہ دیکھا ہے کہ لوگ دین کے بعض احکام اور شریعت کی بعض ہدایات کے بارے میں جب یہ لفظ استعمال کرتے ہیں، تو ان کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ تمدن کے ارتقا اور زمانے کے تغیرات کے نتیجے میں ان احکام و ہدایات کا اطلاق ناممکن ہو گیا ہے ، اس لیے ان میں اجتہاد کر کے انھیں دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق بنانے کی سعی کرنی چاہیے۔ میرا احساس ہے کہ یہ بات لفظِ اجتہاد کے مفہوم کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔
اجتہاد کا لفظ جس ماخذ سے وجود پذیر ہوا ہے ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب مشہور حدیث ہے جو آپ کی سیدنا معاذ بن جبل کے ساتھ ایک گفتگو پر مبنی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا معاذ بن جبل کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو فرمایا: تم کس طرح فیصلہ کرو گے ؟ انھوں نے عرض کیا: اس ہدایت کے مطابق ،جو اللہ کی کتاب میں ہے۔ حضور نے فرمایا : اگر اللہ کی کتاب میں کوئی ہدایت نہ ملے؟ عرض کیا: پھر اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق۔ فرمایا : اگر اس میں بھی نہ ملے؟ عرض کیا : اجتهد برائی و لا آلوا جهداً (پھر میں انتہائی کوشش کروں گا کہ اپنی رائے قائم کروں اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھوں گا۔) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا:اللہ کا شکر ہے جس نے تمھیں وہ بات کہنے کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو پسند ہے۔
یہی وہ روایت ہے جس کی بنا پر اجتہاد کا لفظ ہمارے ہاں فقہ و قانون میں استعمال ہونے لگا ہے۔ اس ماخذ کو اگر پیشِ نظر رکھیں تو اجتہاد کا مطلب دین کے احکام کو زمانے کے لحاظ سے تبدیل کرنا نہیں ہے ،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت جن معاملات میں خاموش ہیں ان کے بارے میں عقل و فطرت کی روشنی میں رائے قائم کی جائے۔ یہی اجتہاد کا صحیح مفہوم ہے۔ اہلِ علم کو اس مفہوم کو واضح کرنا چاہیے اور اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہیے ،جس کی بنا پر آج ایک عام شخص بھی اٹھ کر یہ کہہ دیتا ہے کہ قرآنِ مجید میں بیان کی گئی فلاں سزا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی فلاں ہدایت دورِ حاضر میں قابلِ عمل نہیں رہی ، لہٰذا اس کے بارے میں اجتہاد ہونا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے جو احکام ہمیں قرآنِ مجید کے ذریعے سے دیے ہیں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایات اپنی سنت کے ذریعے سے دی ہیں وہ محلِ اجتہاد نہیں ہیں بلکہ محلِ تحقیق ہیں۔ یعنی یہ جانا جائے گاکہ قرآن و سنت کے کسی حکم کا صحیح مدعا کیا ہے۔یہ دیکھا جائے گا کہ قرآن و سنت کے کسی منشا کو لوگوں نے غلط تونہیں طے کر لیا۔ تحقیق کی خامی کو متعین کیا جائے گا ، تعبیر کی غلطی کو واضح کیا جائے گا،لیکن یہ ساری کوشش دین کے صحیح منشا تک پہنچنے کے لیے ہو گی نہ کہ اس میں کسی تغیر و تبدل کے لیے۔
معاملاتِ زندگی کے بارے میں شریعت کے دو دائرے ہیں: ایک دائرہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے معاملات سے متعلق ہے ۔ یہ دائرہ بندگی اور پرستش کے امور پر مشتمل ہے۔ اس میں شریعت نے آخری درجے کی قانون سازی کر دی ہے۔ ان تعبدی امور میں شریعت انسانوں کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنی طرف سے کوئی بات کہیں۔ ان امور میں اگر کوئی حکم دے دیا گیا ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا۔ کسی بات سے منع کر دیا گیا ہے تو اس سے گریز کیا جائے گا۔ اس دائرے کے متعین احکام سے ایک قدم بھی اگر آگے اٹھایا جائے گا تو یہ بدعت اور گمراہی قرار پائے گا۔چنانچہ قرآنِ مجید کے اس اعلان کا کہ دین ہر لحاظ سے پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ہے ، یہ لازمی تقاضا ہے کہ ان امور میں کوئی مداخلت نہ کی جائے۔
دوسرا دائرہ بندوں اور بندوں کے معاملات سے متعلق ہے۔ اس دائرے میں سیاست کے معاملات ہیں، معیشت کے معاملات ہیں، معاشرت کے معاملات ہیں ، آدابِ زندگی سے متعلق امور ہیں، حدود و تعزیرات ہیں۔ ان تمام معاملات میں شریعت نے بعض امور کو انجام دینے کا حکم دیا ہے اور بعض امور سے منع کیا ہے۔ اس ضمن میں شریعت صرف ان امور سے بحث کرتی ہے ، جن میں عقلِ انسانی نے ٹھوکر کھائی ہے یا اس کے ٹھوکر کھانے کا امکان ہے۔ چنانچہ گنتی کی چند چیزیں ہیں جن کو شریعت نے متعین کیا ہے۔ مثلاً معیشت سے متعلق سات آٹھ احکام ہیں، اسی طرح چند ایک احکام سیاست سے متعلق ہیں، کچھ احکام معاشرت کے حوالے سے بیان کیے گئے ہیں، پانچ سات چیزیں آداب و شعائر کے بارے میں متعین کر دی گئی ہیں، حدود و تعزیرات میں صرف پانچ جرائم ہیں جن کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں ۔ ان کے علاوہ باقی معاملات کو عقلِ انسانی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ سب معاملات دین کی روشنی میں اجتہاد ہی سے طے کیے جائیں گے ۔ مسلمانوں کے اہلِ علم و دانش ، تمدن ، حالات اور عرف و رواج کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ، ان معاملات میں قانون سازی کر سکتے ہیں۔
نہ سوسائٹی کو ایک جگہ روکا جا سکتا ہے نہ اس کے تمدن کو جامد کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اجتہاد کی ضرورت بھی ختم نہیں ہو سکتی۔ شریعت ابدی ہے جبکہ اجتہاد ابدی نہیں ہوتا۔ اسے وقت اور حالات کے لحاظ سے تبدیل کیا جا سکتاہے۔ ایک ملک کے لوگ اپنے حالات ، اپنے تمدن، اپنی ثقافت اور اپنی معاشرت کے لحاظ سے ایک رائے اختیار کر سکتے ہیں اور دوسرے ملک کے لوگ دوسری رائے اختیار کر سکتے ہیں۔بہرحال اجتہاد معاشرے کی ترقی اور بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر اس راستے کو بند کر دیا جائے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی فرد کو پانی سے محروم کر دیا جائے۔
یہ اجتہاد کی ضرورت اور اہمیت کے حوالے سے میرا نقطۂ نظر ہے۔ اس معاملے میں دو سوالات البتہ بہت اہم ہیں:
ایک یہ کہ کیا اجتہاد کے لیے کچھ شرائط ہیں؟
دوسر۱یہ کہ اجتہاد قانون کی صورت کس طرح اختیار کرتا ہے؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اجتہاد کے معاملے میں شرائط کی بحث بالکل بے معنی ہے۔یہ کسی اجتہادکرنے والے کااپنے اجتہاد کے لیے استدلال ہے جواس کی صحت یا عدمِ صحت کا فیصلہ کرتا ہے۔جو شخص اپنی اجتہادی رائے پیش کرے گا ، وہ اس کی دلیل بھی لازماً دے گا۔یہ دلیل اگر قوی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی مفروضہ شرائط کی بنیاد پر اس کی رائے کو رد کر دیں اور اگر دلیل کمزور ہے تواجتہاد کیسی ہی جامع الشرائط شخصیت نے کیوں نہ کیا ہو ، اسے بہرحال ناقابلِ قبول قرار پانا چاہیے۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اجتہاد کو قانون کی حیثیت صرف مسلمانوں کے اربابِ حل و عقد کی اکثریت کے فیصلے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ اربابِ حل وعقدبحث و تمحیص سے خود بھی کوئی رائے قائم کر سکتے ہیں اور اپنے علاوہ کسی صاحبِ علم و فن کی رائے قبول بھی کر سکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں فیصلہ بہرحال انھی کو کرنا ہے۔ ان کی اکثریت جس اجتہاد کو قبول کر لے گی ، وہ قانون کی حیثیت سے نافذالعمل قرار پائے گا۔ مسلمانوں میں سے کسی شخص کے لیے اس کی خلاف ورزی جائز نہ ہو گی۔ اس سے اختلاف کا حق ، البتہ ہر شخص کو حاصل رہے گا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اربابِ حل و عقد کی اکثریت کسی کے اختلاف سے متاثر ہو کر قانون میں تبدیلی کا فیصلہ کر لے۔ چنانچہ قرآن و سنت کی تعبیر کا مسٔلہ ہو یا کسی ایسے معاملے میں اجتہاد کا ،جس میں قرآن و سنت خاموش ہیں، یہ مسلمانوں کے منتخب نمائندے ہی ہیں جن کے فیصلے سے اسے اسلامی معاشرے میں قانون کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
____________