ذخیرۂ احادیث کو اس حوالے سے دیکھا جائے تو تصاویر کے بارے میں فہمِ صحابہ سے متعلق تین بنیادی اور اہم روایتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ اِن روایتوں میں سے دو ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں،یہ دونوں روایات صحیح بخاری کی ہیں اورفنی اعتبار سے صحیح روایات میں شمار کی جاتی ہیں۔ البتہ اِن میں سے ایک سند کے اعتبار سے دوسری کی نسبت زیادہ قوی ہے۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ دونوں روایتیں باوجود ایک ہی صحابی سے مروی ہونے کے متضاد محسوس ہوتی ہیں۔ تیسری روایت لیث رحمہ اللہ سے مروی ہے ، اِس کی سند کے سب راوی بھی ثقہ ہیں، لیکن اُن میں سے دو راویوں کی ثقاہت کے ساتھ ساتھ اُن کے حافظے میں بھی کلام پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اس حدیث کو ہم بناے بحث بنانے کے بجائے صرف تائیدی طور پر ہی لائیں گے۔ لیث رحمہ اللہ نے اپنی اس روایت میں سالم رضی اللہ عنہ بن عبد اللہ کا ایک قول نقل کیا ہے، یہ قول ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی اُس روایت سے بالکل ہم آہنگ ہے، جو سند کے اعتبار سے نسبتاً قوی ہے۔
T تصاویر کے بارے میں فہمِ صحابہ رضی اللہ عنہ کو جاننے کے لیے ہم یہ ترتیب قائم کرتے ہیں کہ پہلے ہم اِبنِ عباس کی اُس روایت کا مطالعہ کریں گے جو سنداً باقی روایات سے قوی ہے پھر اِس کے ساتھ ہی اُس تائیدی روایت کو دیکھتے ہیں ، جس کے رواۃ پر حفظ کے پہلو سے کچھ جرح ہے اور آخر پر ہم ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی اُس روایت کو لائیں گے جو پہلی روایت کی نسبت سے قوت میں کمتر ہے۔
ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی وہ روایت جو سنداً زیادہ قوی ہے اور لیث رحمہ اللہ کی وہ روایت جو مفہوم کے اعتبار سے اُس کی تائید کرتی ہے ،یہ دونوں درجِ ذیل ہیں:
قال ابن عباس أخبرني أبو طَلْحَةَ رَضِي اللهُ عَنْهُ ... صَاحِبُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ...: أنَّهُ قَالَ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ، وَلَا صُورَةٌ، يُرِيدُ: التَّمَاثِيلَ الَّتِي فِيهَا الْأَرْوَاحُ.(بخاری ، المغازی ، شہود الملائکہ بدرا)
’’ابنِ عباس کہتے ہیں کہ مجھے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول جو کہ جنگِ بدر میں بھی موجود تھے ، انہوں نے بتایا تھا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ جس گھر میں کتا یا تصویر ہو، اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔ (ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ )یہاں تصویر سے آپ ﷺ کی مراد وہ تماثیل تھیں ، جن تماثیل میں ارواح ہوتی ہیں۔ ‘‘
حدَّثَنَا لَيْثٌ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى وِسَادَةٍ فِيهَا تَمَاثِيلُ طَيْرٍ وَوَحْش فَقُلْتُ أَلَيْسَ يُكْرَهُ هَذَا قَالَ لَا إِنَّمَا يُكْرَهُ مَا نُصِبَ نَصْبًا. (مسندِ احمد ، مسند المکثرین من الصحابہ)
’’ لیث رحمہ اللہ نے ہم سے بیان کیا کہ وہ سالم بن عبداللہ کے پاس گئے ،جبکہ وہ (سالم) ایک ایسے تکیے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، جس پر پرندوں اور وحشی جانوروں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ وہ کہتے ہیں میں نے پوچھا کہ کیا (تکیے وغیرہ پر )ایسی تصاویر (کا ہونا )مکروہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا نہیں مکروہ تو بس وہ تصاویر ہیں ، جو استھانوں پر نصب کی جاتی ہیں۔‘‘
ویسے تو اِن روایتوں میں نبی ﷺ کے وہ الفاظ بھی موجود ہیں ،جو ہم نے بعض دوسری احادیث میں دیکھے ہیں اور اُن پر ہم پیچھے بحث کر چکے ہیں، لیکن اِن احادیث میں نئی بات صحابہ ء کرام کا تصویر کے بارے میں وہ فہم ہے، جو ہم جاننا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ہم اِس فہمِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہی کے حوالے سے اِن روایات کا مطالعہ کریں گے۔اِن دو روایات سے ہمیں درجِ ذیل نکات معلوم ہوتے ہیں:
۱۔ پہلی روایت میں نبی ﷺ کے قول ’’ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ، وَلَا صُورَةٌ ‘‘ کے بارے میں ابنِ عباس رضی اللہ عنہ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ اِس میں ’’ صُورَةٌ‘‘ کے لفظ سے نبیﷺ کی مراد اُن تماثیل سے تھی جن میں ارواح ہوتی ہیں۔
۲۔دوسری روایت میں سالم رضی اللہ عنہ بن عبداللہ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ تماثیل جن کی موجودگی سے کسی شے کا استعمال مکروہ قرار پاتا ہے ، وہ پرندوں اور جنگلی جانوروں وغیرہ کی تماثیل نہیں ہیں ، بلکہ وہ وہ تماثیل ہیں (خواہ وہ کسی بھی شے کی ہوں ) جو استھانوں پر نصب کی جاتی ہیں۔
اِن روایات سے تصویر کے بارے میں فہمِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے حوالے سے جو حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ تماثیل (تصاویر و مجسمے ) جن کی موجودگی میں فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے ، اُن سے مراد عام تماثیل نہیں ہیں ، بلکہ یہ وہ تماثیل ہیں جن میں ارواح ہوتی ہیں، یعنی جو تماثیل بجائے خود زندہ خیال کی جاتی ہیں۔ جیسے کہ مشرکینِ مکہ لات ،عزیٰ ، منات اور دوسرے دیوی دیوتاؤں کی تماثیل کو زندہ خیال کرتے تھے۔ ظاہر ہے ،جبھی تو وہ اُن کو حاجت روا سمجھتے ، اُن سے دعائیں مانگا کرتے اور آخرت میں اُن کی شفاعت کی توقع رکھتے تھے۔ یہ بات ہمیں ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی درجِ بالا حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔ اب دیکھیے سالم بن عبداللہ کی حدیث سے بالکل یہی بات ایک اور طریقے سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ تماثیل جو اگر کسی کپڑے وغیرہ پر بنا دی جائیں، تو اُس کپڑے کا استعمال مکروہ ہو جاتا ہے، وہ (عام ) پرندوں اور وحشی جانوروں کی تماثیل نہیں ہیں، بلکہ وہ ، وہ تماثیل ہیں ،جو استھانوں پر (دعا اور عبادت کی غرض سے) نصب کی جاتی ہیں۔ دیکھیے، یہ ٹھیک وہی تماثیل ہیں ،جن میں ارواح کا موجود ہونا مانا جاتا اور جنہیں زندہ خیال کیا جاتا ہے۔
اب ہم تیسری روایت کی طرف آتے ہیں، جس کا مفہوم درجِ بالا دونوں روایتوں سے مختلف محسوس ہوتا ہے۔یہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اور یہ پہلی روایت کی نسبت سے صحت میں کمتر ہے۔ اِس روایت کے بارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ وہی روایت ہے،جس کے الفاظ سے ہمارے ہاں بہت بڑے پیمانے پر یہ سمجھ لیا گیا کہ اِس میں ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے ہمیں اسلام میں تصویر کی حلت و حرمت کا اصول بتا دیا ہے ، یعنی یہ کہ تصویر اگر بے جان شے کی ہو تو حلال اور جان دار کی ہو تو حرام ۔ چنانچہ تصویر کے بارے میں اصلاً، اسی روایت کی بنیاد پر وہ نقطۂ نظر وجود میں آیا ، جسے علما و فقہا کی اکثریت نے اپنا لیا۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اِس روایت کا بہت دقتِ نظر کے ساتھ تجزیاتی مطالعہ کیا جائے ۔ روایت درجِ ذیل ہے:
عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِي اللهُ عَنْهُمَا إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا عَبَّاسٍ إِنِّي إِنْسَانٌ إِنَّمَا مَعِيشَتِي مِنْ صَنْعَةِ يَدِي وَإِنِّي أَصْنَعُ هَذِهِ التَّصَاوِيرَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ سَمِعْتُهُ يَقُولُ مَنْ صَوَّرَ صُورَةً فَإِنَّ اللهَ مُعَذِّبُهُ حَتَّى يَنْفُخَ فِيهَا الرُّوحَ وَلَيْسَ بِنَافِخٍ فِيهَا أَبَدًا فَرَبَا الرَّجُلُ رَبْوَةً شَدِيدَةً وَاصْفَرَّ وَجْهُهُ فَقَالَ وَيْحَكَ إِنْ أَبَيْتَ إِلَّا أَنْ تَصْنَعَ فَعَلَيْكَ بِهَذَا الشَّجَرِ كُلّ شَيْئٍ لَيْسَ فِيهِ رُوحٌ. (بخاری ، البیوع ، بیع التصاویر)
’’سعید بن ابی الحسن سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں، میں ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھاکہ اچانک آپ کے پاس ایک آدمی آیا، تو اس نے کہا اے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ،میں ایک ایسا آدمی ہوں، جسے بس اپنے ہاتھ کے ہنر ہی سے روزی کمانی ہے۔اور میں یہ (خاص) تصاویر بناتا ہوں۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اِس ضمن میں تم سے وہی بیان کرتا ہوں جو میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے ، جس نے کوئی تصویر بنائی، اللہ تعالیٰ اُس کو لازماًعذاب دے گا۔ یہاں تک کہ(سزا کے طور پر) اُس سے کہا جائے گا کہ اِس تصویر میں روح پھونکو، (وہ اُس میں روح پھونکنے کی کوشش کرے گا) لیکن وہ اس میں کبھی بھی روح نہ پھونک سکے گا۔ وہ شخص یہ سن کر دم بخود رہ گیا اور اُس کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے (یہ دیکھ کر) کہا ، تیرا ناس ہو، اگر تجھے ضرور تصویر بنانی ہے، تو تُو اِس درخت کی بنا لے ، تصویر بس اُسی چیز کی بنایا کر، جس میں روح نہیں ہوتی۔‘‘
اِس روایت میں بیان کردہ اہم نکات یہ ہیں:
۱۔ سائل کا پیشہ کوئی خاص نوعیت کی تصاویر بنانا تھا، جسے اس نے ’’ إِنِّي أَصْنَعُ هَذِهِ التَّصَاوِيرَ ‘‘ (میں یہ تصاویر بناتا ہوں)کے الفاظ سے بیان کیا۔
۲۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سائل کے جواب میں نبیﷺ کی یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ جس نے کوئی تصویر بنائی، اللہ تعالیٰ اُس کو لازماًعذاب دے گا، یہاں تک کہ(سزا کے طور پر )اُس سے کہا جائے گا کہ اِس تصویر میں روح پھونکو، (وہ اُس میں روح پھونکنے کی کوشش کرے گا) لیکن وہ اس میں کبھی بھی روح نہ پھونک سکے گا۔
۳۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے سائل کو یہ مشورہ دیا کہ اگر تُو تصاویر بنا کر ہی روزی کمانے پر مجبور ہے ، تو تُو بس اُسی چیز کی تصویر بنایا کر جس میں روح نہیں ہوتی، مثلاً اِس درخت کی تصویر بنا لو۔
ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی اِس روایت کا صحیح مفہوم کیا ہے ،یہ معلوم کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ ہم یہ دیکھ لیں کہ اِس روایت سے وہ استدلال کیسے کیا گیاہے ، جس کی بنا پر ہمارے ہاں بہت بڑے پیمانے پر یہ مسلک رائج ہو گیا کہ جان دار کی تصویر بنانا حرام ہے اور بے جان شے کی تصویر بنانا حلال ہے اور اِس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھ لیں کہ اس اِستدلال میں غلطی کیا ہے۔ اِس کے بعد ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اِس روایت کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟
اس نقطۂ نظر کے حاملین اپنا استدلال کچھ اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے سائل کو یہ اصولی بات بتائی تھی کہ قیامت کے دن مصورین کو تصاویر میں روح پھونکنے کی سزا دینے کی وجہ یہ ہو گی کہ اُنہوں نے دنیا میں روح والی اشیا کی تصاویر بنائی ہوں گی۔اگر اُنہوں نے روح والی اشیا کی تصاویرنہ بنائی ہوتیں ،تو اُنہیں اپنی بنائی ہوئی تصاویر میں روح پھونکنے کا عذاب ہرگز نہ دیا جاتا۔ چنانچہ اس نقطۂ نظر کے حاملین کے خیال کے مطابق ، محض اسی بنا پر اِبنِ عباس رضی اللہ عنہ نے سائل کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر تجھے ضرور تصاویر بنانی ہیں ، تو پھر غیر جان دار اشیا کی تصاویر بنایا کرو، اس صورت میں تم مذکورہ بالا عذاب سے بچ جاؤ گے۔
رہا یہ مسئلہ کہ جان دار اشیا ہی کی تصاویر کیوں ممنوع ہیں ،تو اِس کے لیے وہ وہی روایت پیش کرتے ہیں، جس میں اللہ تعالیٰ نے تصویر بنانے والے کا جرم ’’یخلق خلقاً کخلقی‘‘ ( میرے تخلیق کرنے کی طرح تخلیق کرنا) قرار دیا ہے، کیونکہ اُن کے خیال میں جان دار شے کی تصویر بنانا ، خدا کی تخلیق ہی کی مثل تخلیق کرنا ہے اور بے جان شے کی تصویر بنانا خدا کی تخلیق کی مثل تخلیق کرنا نہیں ہے۔
اِس اِستدلال میں کیا کمزوری ہے اور اِس رائے میں کیا سقم ہے، اِس پر پچھلے صفحات میں مفصل بحث ہو چکی ہے، یہاں آپ اِس روایت پر ایک دوسرے پہلو سے غور کریں ۔آپ دیکھیں اِس میں ابنِ عباس رضی اللہ عنہ تصویر کی حلت و حرمت کے حوالے سے کوئی اصول بیان کر ہی نہیں رہے ۔ آپ اِس میں ایک فتویٰ تو ضرور دے رہے ہیں اور سائل کو اُس کی مجبوری کا حل تو بتا رہے ہیں، لیکن اِس میں آپ تصویر کی حلت و حرمت کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی اصول بیان نہیں کر رہے۔چنانچہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اسلام میں تصویر کی حرمت کی وجہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے، یہ روایت اِس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اِس میں ابنِ عباس رضی اللہ عنہ ایک سائل کو اُس کی صورتِ حال دیکھ کر، اپنے خیال میں اُس کے لیے ایک قابلِ عمل راستہ بتا رہے ہیں۔ اِس روایت میں تصویر کی حرمت کی کوئی علت یا کوئی اصول تو بیان ہوا ہی نہیں۔ چنانچہ ہم براہِ راست اِس سے کوئی علت یا کوئی اصول تو ہر گز اخذ نہیں کر سکتے۔ رہا یہ مسئلہ کہ اِبن عباس رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ اِس مشورے سے کوئی اصول ہم خود اخذ کر لیں، تو گذارش یہ ہے کہ ہم اِس سے کوئی اصول کیسے اخذ کر سکتے ہیں ، ہمارے سامنے تو سائل کی فراہم کردہ معلومات پوری طرح سے واضح ہی نہیں ہیں۔ اِس روایت میں اُس نے’’ھذہ التصاویر‘‘ (یہ تصاویر )کے اہم الفاظ بولے ہیں ۔ یہ الفاظ سامنے کے اُس مخاظب (اِبنِ عباس رضی اللہ عنہ ) کے لیے،جو اسمِ اشارہ ’’هذہ‘‘ کے مشارٌالیہ ’’التصاویر‘‘ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں،اُن کے لیے تو بالکل واضح ہیں، لیکن غائب (Third Person)کے لیے یہ الفاظ بالکل غیر واضح ہیں۔ چنانچہ ہمیں اِن الفاظ سے یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ تصاویر جو یہ سائل بنایا کرتا تھا ، وہ کس نوعیت کی تھیں۔ جب تک یہ بنیادی بات واضح نہ ہو ، کم از کم اس حدیث کی بنیاد پر تو یہ قیاس بالکل نہیں کیا جا سکتا کہ اِبنِ عباس نے سائل کو بس فلاں علت ہی کی بنا پر تصاویر بنانے سے منع کیا تھا۔ ایسی صورت میں ہم ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا ذہن کیسے جان سکتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ممکن ہی نہیں۔
چنانچہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے اِس مشورے سے تصویر کی حرمت کی علت دریافت کرنا کسی صورت میں بھی درست نہیں ہے۔ خصوصاً جب کہ اُنہوں نے اُس میں علت کی حیثیت سے کوئی بات بیان ہی نہیں کی۔
مزید بات یہ ہے کہ اِس روایت کی مدد سے ’’یخلق خلقاً کخلقی‘‘ ( میرے تخلیق کرنے کی طرح تخلیق کرنا) کے الفاظ کا جو مفہو م طے کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،وہ بھی درست نہیں ۔یہ کوشش تبھی درست ہو سکتی تھی جب کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ اس روایت میں تصویر کی حرمت کی علت بیان کر رہے ہوتے، اگر ایسا ہوتا تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے ’’یخلق خلقاً کخلقی‘‘ کے اجمال کی جو تفصیل تھی وہ بیان کر دی ہے۔ لہٰذا، ’’یخلق خلقاً کخلقی‘‘ کا مفہوم اِس روایت سے طے کرنا بجائے خود غلط ہے۔
پھر مشکل یہ ہے کہ تصویر کی حرمت کی یہ علت (یعنی جان دار کی تصویر ہونا) جو درجِ بالا رائے کے موئیدین نے بیان کی ہے ، اِسے اگر مان لیا جائے ، تو پھرصلیب کی تصاویر تو بالکل جائز قرار پاتی ہیں، حالانکہ احادیث میں ہم یہ بات دیکھ چکے ہیں کہ نبی ﷺ صلیب کی تصویر کو ہرگز گوارا نہیں کرتے تھے۔ آپ اُس شے کو جس پر صلیب بنی ہوتی تھی ، توڑ دیتے تھے اور اگر وہ کوئی کپڑا ہوتا ، تو اُسے آپ ﷺپھاڑ دیتے تھے۔ دوسری عجیب اور بالکل ناقابلِ فہم بات جو اِس رائے کو اختیار کرتے ہوئے ماننی پڑتی ہے ، وہ یہ ہے کہ روح والی شے کی تصویر بنانا تو خدا کی تخلیق کی نقالی کرنا ہے اور بے روح یعنی غیر جان دار شے کی تصویر بنانا خدا کی تخلیق کی نقالی کرنا نہیں ہے۔
اگر اِس عجیب بات کو مان لیں ، تو پھر تخلیق اور نقالی دونوں الفاظ ہی اپنے معنی کھو دیتے ہیں۔ آدمی پھر یہ سمجھ نہیں پاتا کہ تخلیق کسے کہتے ہیں اور نقالی کیا ہوتی ہے۔ کیونکہ جان دار اور بے جان دونوں طرح کی اشیا تخلیق ہوتی ہیںاور اِن دونوں ہی کی نقالی کی جاسکتی ہے اور وہ نقالی ہی کہلائے گی۔ ایک نقالی کا بحیثیتِ نقالی ممنوع ہونا اور دوسری نقالی کا بحیثیتِ نقالی جائز ہونا ، ایک ناقابلِ فہم بات ہے۔
آپ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی اِس روایت کو دیکھیں اور اِس کا تجزیہ کریں۔ اِس میں ایک آدمی اُن سے یہ پوچھتا ہے کہ میرا پیشہ یہ تصاویر بنانا ہے، ( کیا میرا یہ پیشہ درست ہے ؟) آپ نے اُسے بتایا ، (تیرا ان تصاویر کو بنانے کا پیشہ درست نہیں ہے،) نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص بھی کوئی تصویر بنائے گا ، اسے قیامت کے دن اس میں روح پھونکنی پڑے گی ، لہٰذا ،اگر تجھے ضرور تصاویر ہی بنانی ہیں،تو اِس درخت کی تصویر بنا لے اور ہر اس چیز کی تصویر بنا لے ،جس میں روح نہیں ہوا کرتی۔
یہ مشورہ ہمارے حِبرالامۃ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا مشورہ ہے۔ انہوں نے یہ مشورہ ایک آدمی کے خاص قسم کی تصاویر بنانے کے سارے معاملے کو دیکھ کر اُسے دیا تھا، کہ وہ شخص کون ہے ، کس ماحول میں رہتا ہے ، کس خاص نوعیت کی تصاویر بناتا ہے ،کیوں بناتا ہے اور تصاویر کے حوالے سے اُسے اب کیا مسئلہ درپیش ہے ،یہ سب کچھ دیکھ کر ہی ’حبر الامۃ ‘نے اُسے یہ مشورہ دیا تھا ۔ آپ کا مشورہ یہ تھا کہ تم روح والی اشیا کی تصاویر نہ بنایا کرو ، بلکہ اُن اشیا کی تصاویر بنایا کرو ،جن میں روح نہیں ہوتی، اِس طرح تم غیر ممنوع تصاویر بنا کر اپنی روزی بھی کما لو گے اور آخرت میں ممنوع تصاویر بنانے کی بنا پر ہونے والے عذاب سے بھی محفوظ رہو گے۔کیونکہ تمہارے معاملے میں تصاویر بنانے کے حوالے سے تمہارا بس یہ (جان دار اور غیر جان دار کا) فرق کر لینا ہی کافی ہے۔
اگر یہ بات مان لی جائے کہ اِس روایت میں تصاویر کی حلت و حرمت کے حوالے سے اِبن عباس رضی اللہ عنہ کوئی اصولی بات نہیں کر رہے اور وہ ہر جان دار کی تصویر کو اصول کے طور پر ،حرام اور ہر بے جان شے کی تصویر کو اصول کے طور پر، حلال قرار نہیں دے رہے ، جیسا ہم نے پیچھے واضح کرنے کی کوشش کی ہے، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے اِس فتوے میں سائل کو جان دار اشیا کی تصاویر بنانے سے منع کیوں کیا اور بے جان شے کی تصاویر کی اجازت کیوں دی اور سائل کو یہ تاثر کیوں دیا کہ وہ تصاویر بنانے میں جان دار اور بے جان کا یہ فرق ملحوظ رکھنے کے نتیجے میں ،آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا۔ اِس کے جواب سے پہلے یہ ضروری ہے ہم اُس دور اور اُس ماحول میں جا کھڑے ہوں جس میں ابنِ عباس رضی اللہ عنہ اُس آدمی کو یہ مشورہ دے رہے ہیں۔
ابنِ عباس رضی اللہ عنہ جس دورمیں کھڑے ہو کر بات کر رہے ہیں اس میں مذہبِ شرک کے لیے تصاویر کا بنایا جانا بہت عام تھا ، ان تصاویر میں روح کا اترنا ، ان تصاویر کا صاحبِ تصرف ہونا عام مانا جاتا تھا[8]۔ آپ نے اُس دور میں موجود ایک مصور کو یہ تلقین کی کہ اُن چیزوں کی تصاویر بناؤ جن کی تصاویر کے بارے میں یہ خیال ہی پیدا نہیں ہو سکتا کہ اِن تصاویر میں روح اترتی ہے ۔ ظاہر ہے یہ تصاویر عام طور پر ایسی ہی چیزوں کی ہو سکتی ہیں، جنہیں حیات کبھی میسر ہی نہ رہی ہو۔ جیسے درخت اور پتھر وغیرہ ، اُس دور کے تصور کے مطابق یہ بے جان اشیا ہیں۔ ایسی اشیا کی تصاویر میں ارواح کے اترنے کا سوال ہی کیا پیدا ہو گا۔ انسان کا ذہن تو ایسی چیزوں کے بارے میں عموماً یہ سوچتا ہی نہیں کہ یہ زندہ ہوسکتی ہیں اور تصرف کر سکتی ہیں۔ جو شے زندہ وجود رکھتی ہو گی ، عام طور پر اُسی کی تصویر کے بارے میں زندگی کا تصور پیدا ہو گا۔ اِسی طرح آپ دیکھیں کہ وہ وجود جو اپنی موت سے پہلے زندہ وجود تھے، موت کے بعد اگر کسی حیات کا تصور پیدا ہو ا ہے، تو عموماً، اُنھی کے بارے میں ہواہے۔ انسان نے کتنے ہی لوگوں کی قبروں کے بارے میں یا اُن کے مجسموں کے بارے میں، اُن کے مرنے کے بعد یہ تصور بنا لیا کہ یہ زندہ ہیں اور صاحبِ تصرف ہیں۔جیسے قومِ نوح علیہ السلام میں وَد، سواع، یغوث، یعوق اور نسریا پھر وہ سیکڑوں حقیقی یا غیرحقیقی زندہ وجود ، جن کے مجسمے کعبے میں دھرے ہوئے تھے۔
یہاں یہ بات بھی ہم واضح کرنا چاہیں گے کہ سورج اور چاند ہمارے نزدیک تو بے جان وجود ہیں لیکن ان کی پرستش جن اقوام میں رائج رہی ہے ان کے ہاں ان اجرامِ فلکی کو ذی روح گردانا گیا ہے ۔ اور انھیں زندہ اور صاحبِ تصرف وجود قرار دیا گیا ہے [9]۔
سورج اور چاند چونکہ انسان کو اس کائنات میں متحرک نظر آئے اور اس نے ان کو مدوجزر سے لے کر فصلوں کے پکنے تک سیکڑوں کاموں کا باعث دیکھا ، لہٰذا اس نے انھیں موثر بالذات جانا اور ان کی پرستش شروع کر دی ۔ لیکن جن چیزوں کے بارے میں اس کا یہ تاثر نہیں بنا ،ان کو اس نے مخلوق ہی سمجھا ہے ۔
بہرحال ہمارا یہ خیال ہے کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے اُس مصور کو روح والی اشیا کی تصاویر بنانے سے اسی لیے منع کیا تھا تاکہ اُس کے ہاتھ سے کوئی ایسی تصویر نہ بنے، جو کسی معبود کی تصویر ہو ، جس میں روح موجود سمجھی جاتی ہو۔ چنانچہ آپ نے اُسے ایسا مشورہ دیا ، جس سے وہ مصور اپنے ماحول میں، تمام مظہرِ شرک تماثیل کو وجود میں لانے کے جرم سے بچ سکتا تھا۔
اب آپ پلٹ کر ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی اُس روایت کو دیکھیے ، جسے ہم پہلے بیان کر آئے ہیں اور جو سنداً زیادہ قوی بھی ہے ۔ کیا خود ’حبرالامۃ ‘ بالکل یہی بات نہیں کہہ رہے۔ اُس روایت میں یہ بتانے کے لیے کہ وہ کون سی تماثیل ہیں جن کے بارے میں نبی ﷺ نے کہا ہے کہ اُن کی موجودگی میں فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے ،یعنی نبی ﷺ نے کس نوعیت کی اور کس قسم کی تماثیل (مجسمے اور تصاویر) ممنوع قرار دی ہیں، ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے خود یہ الفاظ : ’’یرید التماثیل التی فیها الارواح‘‘ بولے ہیں کہ ممنوع تماثیل سے آپ ﷺ کی مراد وہ تماثیل ہیں ،جن میں ارواح ہوتی ہیں۔ ہمارے نزدیک ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے اِس جملے کا اِس کے سوا اور کوئی مطلب بنتا ہی نہیں۔آپ غور کیجیے جیسا کہ ہم نے پیچھے بھی بیان کیا ہے کہ اِن ممنوع تماثیل سے مراد عام تماثیل نہیں ہیں ، بلکہ یہ وہ تماثیل ہیں جن میں ارواح ہوتی ہیں، یعنی وہ تماثیل جو زندہ خیال کی جاتی ہیں۔ جیسے کہ مشرکینِ مکہ لات ،عزیٰ ، منات اور دوسرے دیوی دیوتاؤں کی تماثیل کے بارے میں خیال کرتے تھے۔ ظاہر ہے ،جبھی تو وہ اُن کو حاجت روا سمجھتے ، اُن سے دعائیں مانگا کرتے اور آخرت میں اُن کی شفاعت کی توقع رکھتے تھے۔ پس ہمارے خیال میں ابنِ عباس رضی اللہ عنہ اِس دوسری روایت میں بھی بالکل وہی بات کہہ رہے ہیں جو انہوں نے پہلی روایت میں فرمائی ہے۔ فرق یہ ہے کہ پہلی روایت میں آپ حرام تماثیل کی نوع کا خاصہ (خاصے سے مراد وہ خاص صفت جو اُس کو ایک الگ نوع بناتی ہے) بیان کرتے ہوئے، اُنہیں واضح کر رہے ہیں تا کہ نبی ﷺ کی حدیث سننے والا کسی غلط فہمی میں نہ رہے کہ آپ کون سی تماثیل حرام قرار دے رہے ہیں اور دوسری روایت میں آپ ایک مصور کو اُس کے تصاویر بنانے کے بارے میں اُس کے احوال کے مطابق ایک مشورہ دے رہے ہیں۔ دونوں روایتوں کے اِس فرق سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پہلی روایت میں چونکہ ممنوع تصاویر کی نوع کو اصول میں بیان کیا گیا ہے اور دوسری میں اُس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے ،ایک خاص مصور کو ممنوع تصاویر کے حوالے سے وہ عملی مشورہ دیا گیا ہے، جو اُس کے احوال میں اُس کے لیے موزوں تھا، لہٰذا یہ لازم ہے کہ پہلی روایت کی روشنی ہی میں دوسری روایت کو سمجھا جائے۔ خصوصاً جب کہ یہ پہلی روایت ہی سنداً زیادہ قوی بھی ہے۔ اِس ساری بحث کے بعد ہم بہت اطمینان سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ تصاویر کے بارے میں فہمِ صحابہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جو حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ بھی اُنھی تماثیل (تصاویر و مجسموں ) کو ممنوع سمجھتے تھے، جومظہرِ شرک ہوتی تھیں۔
یہاں ضروری ہے کہ ہم مسندِ احمد کی اُن دو روایتوں کو بھی دیکھ لیں ، جن میں نبی ﷺ نے یہی حقیقت ذرا مختلف الفاظ سے بیان کی ہے۔ ان احادیث کو ابتدا میں نہ لانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ الفاظ بس مسند احمد ہی کی ان دو یا تین روایتوں میں استعمال کیے گئے ہیں ، جب کہ وہاں ابتدا میں جہاں اصل بحث کی گئی ہے ، ہم اُنھی احادیث کو لائے ہیں ،جن کے الفاظ بہت سے راویوں نے روایت کیے ہیں۔
عن ابْن عَبَّاسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا طَلْحَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةُ تَمَاثِيل. ( مسند احمد : اول مسند المدنبین اجمعین)
’’ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو طلحہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اُس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو یا تماثیل کی تصویر ہو۔ ‘‘
عَنْ نُجَيّ ٍ--- قَالَ عَلِي--- قَالَ رسول الله صلى الله عليه وسلم ---- قال جبريل--- إِنَّهَا ثَلَاثٌ لَنْ يَلِجَ مَلَكٌ (دارا) مَا دَامَ فِيهَا أَبَدًا وَاحِدٌ مِنْهَا كَلْبٌ أَوْ جَنَابَةٌ أَوْ صُورَةُ رُوحٍ.(مسند احمد ۔ العشرۃ المبشرین بالجنتہ)
’’نجی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جبریل فرماتے ہیں کہ تین چیزیں اگر کسی (گھر) میں موجود ہوں تو فرشتہ اُس (گھر ) میں کبھی نہیں جاتا۔ ان تین میں سے ایک کتا ہے دوسری جنبی آدمی اور تیسری روح کی تصویر۔ ‘‘
ان دو احادیث میں نئی بات صرف اتنی ہے کہ پہلی میں تماثیل کی تصویر کو ممنوع قرار دیا گیا اور دوسری میں روح کی تصویر کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تماثیل کی تصویر سے اور روح کی تصویر سے کیا مراد ہے؟
تماثیل کے معنی میں ،جیسے کہ اِس مضمون میں بار بار سامنے آیا ہے تصاویر اور مجسمے دونوں ہی شامل ہیں۔ لیکن لفظ و معنی کی اِس ترکیب یعنی ’’صورۃ تماثیل ‘‘ سے بننے والے مرکبِ اضافی کی صورت میں تماثیل سے مراد وہ (پوجی جانے والی )اشیا ہیں ، جن پر تصاویر بنی ہوتی ہیں۔ چنانچہ تماثیل کی تصاویر سے، پوجی جانے والی اشیا پر بنی ہوئی ، تصاویر مراد ہیں ۔ ظاہر ہے یہ تصاویر بھی ممنوع ہی ہونی چاہیں۔ پس یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ ایسی سب تصاویر بھی ممنوع ہی ہیں،جو کسی پوجی جانے والی شے پر بنائی جاتی ہیں۔
اِس کے بعد اب دوسری حدیث میں آنے والے صورۃ روح کے الفاظ کو دیکھیں ۔ یہ الفاظ اُسی پس منظر کے لحاظ سے بولے جا رہے ہیں ، جس کا ہم پیچھے بہت تفصیل سے مطالعہ کر آئے ہیں ۔ چنانچہ صورۃروح کا مطلب ہے ، روح والی تصویر ،وہ تصویر جس کے بارے میں یہ عقیدہ ہو کہ اُس میں روح موجود ہے۔ ’’صورۃ روح ‘‘ کے الفاظ کی تالیف ،’’صورۃ فیہا روح ‘‘ہے۔ عربی میں اس کی مثال ’’ بستان اشجار ‘‘ یعنی بستان فبہا اشجار ہے یا ’’دار السلام ‘‘یعنی ’’دار فیہا السلام ‘‘ ہے ۔پس دوسری حدیث ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وہ تصاویر ممنوع ہیں جن میں ارواح ہوتی ہیں۔
چنانچہ تصویر کے بارے میں فہمِ صحابہ کا مطالعہ کرنے سے بھی جو بات سامنے آتی ہے وہ یہی ہے کہ بس وہی تصاویر ممنوع ہیں، جو مظہرِ شرک ہیں۔
یہ ساری بحث تصویر کے بارے میں فہمِ صحابہ سے متعلق تھی۔ اِس کے بعد اب ہم یہ دیکھیں گے کہ تصویر ہی کے حوالے سے صحابہ کے ہاں کیا عملی رویہ پایا جاتا تھا اور پھر اُن کے بعد تابعین کا کیا نقطہء نظر اور کیا عمل تھا۔
(باقی)
____________
[8]۔ عربوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ جس ماحول میں تشریف لائے تھے ،اُس میں چاروں طرف شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔زندگی کا شاید کوئی ایک گوشہ بھی ایسا نہ تھا جو شرک سے محفوظ ہو۔ملائکہ کی پرستش کی جاتی ،جنات پوجے جاتے ،چاند سورج اور ستاروں کی عبادت کی جاتی ، پتھروں اور چٹانوں کو سجدہ کیا جاتا تھا ۔ غرض طرح طرح کا شرک تھا، جو ان میں رائج تھا۔ وہ اپنے معبودوں کے بارے میں کیسے کیسے تصورات رکھتے تھے۔ اِس کے بارے میں ’’ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام ‘ ‘میں ڈاکٹر جواد علی نے بہت تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔ ذیل میں ہم ان کی کتاب کے چند ایسے حوالے درج کر رہے ہیںجو ہمیں اُس دور اور اُس ماحول میں جا کھڑا کرتے ہیں،جس میںخدا کی شریعت نازل ہوئی تھی اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے جس ماحول میں اُس شریعت کو سمجھا اور لوگوں سے بیان کیا تھا۔
معبودوں کے بارے میں عربوں کے تصورات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں کہ :
’’عربوں کے ہاں بت 'Draw' کی ہوئی تصویروں ، کُھدی ہوئی مورتوں اور گھڑے ہوئے مجسموں کی شکل میں پائے جاتے تھے۔ ‘‘ (ج۶۔ ص ۷۰)
’’عربوں کا اپنے معبود لات کے بارے میں یہ تصور تھا کہ یہ دراصل، ایک آدمی تھا جو ایک چٹان کے اندر سما گیا تھا ۔ چنانچہ وہ آدمی اُن کے ہاں معبود قرار دے دیا گیا۔ اُس چٹان پر انہوں نے ایک عمارت بنا دی۔ پھر وہ چٹان لات کہلانے لگ گئی اور اُس کی پرستش شروع ہو گئی۔ ‘‘ (ج۶۔ ص ۶۸۔ ۶۹)
’’عربوں کا یہ عقیدہ تھا کہ بتوں کے اندر ارواح پنہاں ہوتی ہیں۔ یہ ارواح لوگوں سے باتیں بھی کرتی ہیںاور انھی ارواح نے لوگوں کو وہ قصہ بھی الہام کیا تھا ، جو انہوں نے اُس وقت بیان کیا، جب نبی ﷺ نے بتوں کو ڈھانے کا حکم دیا تھا، کہ جونہی مسلمان ان بتوں کو ڈھائیں گے اِن کے اندر سے جن نکلیں گے۔ ‘‘(ج۶۔ ص ۶۹)
’’عربوں کے اِسی عقیدے کی بنا پر کہ بتوں کے اندر ارواح اور جنات پائے جاتے ہیں اور اگران بتوں کو توڑنے کی کوشش کی گئی تو وہ ارواح اور جنات باہر نکل کر توڑنے والے کو ہلاک کر دیں گے، بعض ( کمزور ایمان والے ) وہ لوگ جو بت توڑنے والوں میں شامل تھے ،وہ ڈر گئے۔‘‘ (ج۶۔ ص۶۹)
’’عربوں کے ہاں بتوں کو مافوق الفطرت قوتوں کا نمائندہ یا مظہر قرار دیا جاتا تھا اور یہ بھی گمان کیا جاتا تھا کہ یہ مافوق الفطرت قوتیں اُن بتوںکے اندر پنہاں ہیں ۔ یہ بت انسانوں ، حیوانوں اور پتھروں کی شکل کے ہوا کرتے تھے۔ اِنہیں پوجنے والوں کے ہاں اِن کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور تھیں۔ ‘‘(ج۶۔ ص۶۹)
’’عرب بت پرست جن کلمات سے اپنے بتوں کو مخاطب کرتے تھے ، اُن سے پتا چلتا ہے کہ وہ بتوں میں ارواح کو موجود سمجھتے تھے ، چنانچہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ بت سنتے اور جواب دیتے ہیں۔ وہ اِس بات کے قائل تھے کہ روح پتھر میں حلول کر جاتی ہے ۔ مالک بن حارثہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کا باپ انہیں دودھ دیا کرتا اور انہیں کہتا کہ وہ یہ دودھ ’ود‘ بت کے پاس لے جائیں اور اُسے پلائیں۔ مالک وہ سارا دودھ خود پی جاتے اور بت کے سامنے ایک قطرہ بھی نہ رکھتے۔ --- غرض یہ کہ عرب بتوں میں عقل ،سمجھ سماعت اور بصارت کی صفات کو مانتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ یہ بت باوجود پتھر ہونے کے ذی روح ہیں ۔ ‘‘ ( ج۶۔ ص ۱۴۱، ۱۴۲ )
’’عرب بتوں کے لیے جو معبد بناتے ، اُن میں بتوں کے سامنے ایسی جگہیں بنی ہوتیں، جہاں زائرین اپنے نذرانے ڈالا کرتے تھے۔ اِن نذرانوں میں عام طور پر زیور ، سونے چاندی کی بنی ہوئی اشیا اور دوسری قیمتی چیزیں ہوا کرتی تھیں۔ اِسی طرح یہ لوگ بتوں کا تقرب حاصل کرنے اور اپنی نذریں پوری کرنے کے لیے اُن کے گلے میں تلواریں لٹکا دیتے اور قیمتی کپڑے اِن کے اوپر ڈال دیتے تھے۔ عرب یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اِن بتوں میں روحیں موجود ہوتی ہیں، چنانچہ یہ بت اِن نذرانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ‘‘ (ج۶۔ص ۱۸۸، ۱۸۹)
’’عربوں کا یہ تصور تھا کہ اُن کا معبود اُن کی طرف سے بھرپور دفاع کرتے ہوئے، لڑتا ہے اور اِس وجہ سے مختلف قبائل اور لشکر اپنے ساتھ اپنے معبودوں کی تصاویر اور اُن کے مجسمے یا کچھ مقدس دینی علامات رکھتے تھے۔ اِن سے وہ برکت حاصل کرتے اور جنگ میں نصرت طلب کرتے۔ ‘‘ (ج۶۔ ص ۶۱)
’’جب کوئی قبیلہ جنگ ہار جاتا تو وہ یہی سمجھتا کہ اِس جنگ میں دراصل اُس کا معبود ہار گیا ہے۔ ‘‘(ج۶ ۔ ص ۱۰)
۹۔ ڈاکٹر جواد علی اپنی تصنیف المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام میں لکھتے ہیں کہ :
’’بعض لوگوں نے مظاہرِ قدرت مثلاً چاند ، سورج اور بعض ستاروں کی پرستش اختیار کی ۔ ان کا یہ گمان تھا کہ ان مظاہرِ فطرت میں وہ صاحب تصرف روح پوشیدہ ہے جو اس دنیا پر اور انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔‘‘(ج ۶ ، ص ۲۲ )