HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

آداب و شعائر (۳)

میزان


۱۵۔   میت کا غسل 

یہ  غسل بھی انبیا علیہم السلام کے سنن میں سے ہے[10]۔    اس کا تقاضا اگرچہ بدن پر اچھی طرح پانی بہا دینے سے ہی پورا ہو جاتا ہے،  لیکن دین میں تزکیہ وتطہیر کی جو اہمیت ہے،  اس کے پیشِ نظر میت کو، جس حد تک ممکن ہو،  پورے اہتمام کے ساتھ غسل دینا چاہیے۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر جو ہدایات اس کے لیے دی ہیں،  وہ یہ ہیں:

اغسلنھا ثلاثا او خمساً او اکثر من ذلک ان رأیتن ذلک بماء وسدر، واجعلن فی الآخرة کافوراً او شئیاً من کافور.(بخاری، کتاب الجنائز)
’’اس (بچی) کو تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ یا اگر مناسب   سمجھو تو اس سے بھی زیادہ مرتبہ پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دو اور آخری مرتبہ کے غسل میں کافور یا فرمایا کہ کچھ کافور بھی پانی میں شامل کر لو۔‘‘
اغسلنھا وتراً: ثلاثا او خمساً او سبعاً، و ابدأن بمیامنھا و مواضع الصلوٰة منھا.(بخاری، کتاب الجنائز)
’’اس (بچی) کو طاق عدد میں غسل دو: تین یا پانچ یا سات مرتبہ اور دائیں سے شروع کرو اور اُن اعضا سے جن پر وضو کیا جاتا ہے۔‘‘

۱۶۔ تجہیز و تکفین 

غسل کے بعد میت کو کفن دینا بھی دینِ ابراہیمی کی سنت ہے۔  یہ اگرچہ کپڑے کی ایک چادر بھی ہو سکتی ہے جو اسے پہنا دی جائے ، لیکن میت کے اکرام کا تقاضا ہے کہ اس میں بھی اہتمام کا طریقہ اختیار کیا جائے۔  ام المومنین سیدہ عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوتی کپڑے کی تین یمنی چادروں کاکفن پہنایا گیا جن میں کوئی قمیص یا عمامہ نہیں تھا[11]۔ چنانچہ آپ کا ارشاد ہے:

اذا کفن احدکم اخاہ فلیحسن کفنه. (مسلم، کتاب الجنائز)
’’تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اسے اچھا کفن دینا چاہیے۔‘‘

۱۷۔ تدفین 

میت کو اس کی منزلِ مقصود تک پہنچانے کے لیے انبیا علیہم السلام کے دین میں اسے زمین میں قبر بنا کر دفن کیا جاتا ہے[12]۔اس کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کیا گیا  سیدھا گڑھا کھود کر اس پر چھت ڈال دی جائے،  اس کے پہلو میں شگاف بنا کر مردے کو اس میں لٹا دیا جائے یا تابوت میں ڈال کر سپردِ خاک کیا جائے،  یہ سب طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے،  البتہ قبر پختہ بنانے،  اس پر کوئی عمارت تعمیر کرنے یا اس پر کچھ لکھنے کو پسند نہیں فرمایا[13]۔          بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ تدفین کے موقع پر آپ نے سرہانے کی طرف سے تین مرتبہ قبر پر مٹی ڈالی[14]۔ یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ میت کو قبر میں اتارتے وقت آپ فرماتے تھے: ’بسم اللہ وعلی سنة رسول اللہ‘[15]۔احمدبن حنبل کی روایت ہے کہ یہی بات آپ نے اس موقع پر دوسروں کوبھی کہنے کی ہدایت فرمائی [16]۔ تدفین کے بعد  میت کے لیے دعا کی ہدایت بھی روایتوں میں بیان ہوئی ہے۔  ارشاد فرمایا ہے:

استغفرو لاخیکم، وسلوا له بالتثبیت، فانه الان یسئل.(ابوداؤد، کتاب الجنائز)
’’اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو اور ثابت قدمی کی درخواست کرو،  اس لیے کہ اب اس سے پوچھا جائے گا۔‘‘      

(باقی)

____________

[10]۔ عام حالات میں یہ ہر مسلمان کو دینا ضروری ہے،  لیکن کسی غیرمعمولی صورتِ حال میں اگر میت کا غسل اور اس کی تجہیز و تکفین باعثِ زحمت ہو جائے تو اسے غسل اور تجہیز وتکفین کے بغیر بھی دفن کیا جا سکتا ہے۔  بخاری ، کتاب الجنائز میں ہے کہ احد کے شہدا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح دفن کر دینے کی ہدایت فرمائی تھی۔  یہ واقعہ حدیث کی بعض دوسری کتابوں میں بھی بیان ہوا ہے۔  ہمارے فقہا نے اسے شہادت کی موت سے متعلق قرار دیا ہے،  دراں حالیکہ یہ ایک عام استثنا ہے جو دین میں رخصت کے اسی اصول پر مبنی ہے جو اس کے تمام احکام میں ملحوظ ہے۔

[11]۔  بخاری،  کتاب الجنائز،  باب ۲۳۔

[12]۔  یہ طریقہ بھی عام حالات کے لیے ہے۔  چنانچہ اگر بحری جہاز یا کشتی میں موت واقع ہو جائے اور ساحل تک پہنچنے میں تاخیر کا اندیشہ ہو تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ میت کو پانی میں بہا دیا جائے۔

[13]۔  مسلم،  کتاب الجنائز ، ح ۹۴:   ابنِ ماجہ ، کتاب الجنائز ، باب ۴۳۔

[14]۔  ابنِ ماجہ،  کتاب الجنائز ، باب ۴۴۔

[15]۔  ’’اللہ کے نام سے اور اس کے رسول کے طریقے پر‘‘،ابو داؤد ، کتاب الجنائز،  باب ۶۹۔

[16]۔  المسند ، ج ۲،  ص ۲۷، ۴۰، ۵۹، ۶۹۔


B